ہیام ایسے نہیں روتے چلو اٹھو شاباش ایسے کون کرتا ہے۔۔۔ایمان اسے کب سے چپ کروانے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔مگر وہ مسلسل رو رہی تھی۔۔۔۔کیا کردیا تھا غضے ضد میں اپنی بہن جیسی کزن پر ہی انگلی اٹھادی تھی۔۔۔جب کہ وہ جانتی تھی ایمان ایسی نہیں ہے۔۔۔
مجھے معاف کردے ایمان میں نے بہت غلط کیا میں بہت بری ہوں کچھ سوچے سمجھے بنا بول دیتی ہوں آنسو رواں تھے ۔۔۔
ایمان تو مجھے مار۔۔۔وہ ایمان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے منہ پر مارنے لگی۔۔۔کیا کر رہی ہے ہیام پاگل ہوگی ہے۔۔۔وہ ہیام کو اپنے گلے لگا کر رونے لگی۔۔
ایم سوری ایمان معاف کردے۔۔۔وہ روتے روتے اسے کہہ رہی تھی۔۔
پاگل بہنوں سے بھی کوٸی سوری بولتا ہے۔۔۔ تو سمجھ کے کچھ ہوا ہی نہیں۔۔وہ اسے پیار سے کہتی آنسو صاف کرنے لگی۔۔۔
ایسے کیسے کچھ نہیں ہوا ایمان میں نے۔۔۔وہ بولنے لگی تو ایمان نے اسکےمنہ پر ہاتھ رکھ دیا جس سے صاف واضح تھا۔۔۔کہ اب اسے کچھ نہیں کہنا ہے۔۔۔
ہیام بھول جا کچھ نہیں ہوا۔۔۔کسی کے کردار پر انگلی اٹھانا غلط ہے مگر ہمارا رب بڑا کریم ہے میں نے تجھے معاف کیا اب اللہﷻ سے سوری بول دے وہ بھی معاف کردے گا ہمارا رب تو توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے کبھی جان کر یا انجانے میں کسی کا دل ہماری وجہ سے دکھے تو ہمیں معافی مانگ لینی چاہیے یہ تو ہوگا کہ ہم نے سچے دل سے معافی مانگ لی۔۔۔پھر معاملہ اللہ پر چھوڑ دو۔۔وہ بہت پیار سے اسے سمجھا رہی تھی۔۔
ایمان تو بہت اچھی ہے میں تجھے کبھی سمجھ ہی نہیں سکی اپنی خامیوں کو تیری خوبیوں سے ملا رہی ہوں۔۔ عفاف بلکل ٹھیک کہتی ہے۔۔۔تو اپنے نام کی طرح پاک ہے۔۔وہ اسےگلے لگا کر کہنے لگی۔۔ای لو ویو اتنا سارا ہیام دونوں ہاتھوں کو کھول کر کے بتا رہی تھی کے وہ کتنا پیار کرتی ہے۔۔اور ایمان اسکی حرکت پر ہنس رہی تھی۔۔۔
چل اب تہجد کا وقت بھی ہوگیا ہے پہلے نماز پڑھ لیتے ہیں پھر صبح عفاف کو لینے بھی جانا ہے۔۔۔۔کتنی دیر ہوگی ہے وہ دونوں وضو کرنے باتھروم میں چلی گی۔۔۔
*********
کہاں ہے تو چیتے۔۔۔جہانگیر شاہ نے روعب سے اس سے سوال کیا۔۔
شہریار آرام سے بیڈ پر لیٹا ہوا تھا اور جہانگیر شاہ کی بربادی پراس کا دل خوش تھا۔۔۔جیسے ہی شاہ چپ ہوا شہریار مسکین چیتا بن کر بولنے لگا۔۔۔
شاہ صاحب آپ نے مجھے مرنے کے لیے بھیجا تھا ابھی میں وہاں پہنچا تھا وہاں تو مارا ماری ہو رہی تھی۔۔۔میں وہاں آپ کے کہنے پر گیا لڑاٸی ختم کرنے کی کوشش بھی کی تو وہ پاگل لوگ مجھے ہی مارنے لگے عجیب لوگ تھے۔۔۔
چیتے میں نے تجھے مال پہنچانے کا کہا تھا۔۔۔۔ شاہ اسکی باتوں سے چڑ کر بولا اتنی ذور سے کے شہریار کو موباٸل کان سے دور کرنا پڑا۔۔۔
ٹرک بچا ہی نہیں صاحب تو کیا پہنچاتے جل گیا سارا میری آنکھوں کے سامنے میں تو بھاگ گیا۔وہ اور جلتی پر تیل ڈال رہا تھا۔۔ورنہ آپ نے میری میت کی بریانی کھانی تھی۔۔
تونے دیکھا ہوگا نا کہا لے گے وہ بچوں کو۔۔۔۔شاہ صاحب نے بڑی امید سے چیتے سے پوچھا۔۔
نہیں صاحب ہاں ٹرک میں بچے تو دیکھے میں نے مگر پھر کسی نے بڑا زور کا ڈنڈا مارا تو پتہ نہیں صاحب میں کہا جا کر گرا بم کے دھماکے پر ہوش آیا تو ہر طرف آگ بھڑک رہی تھی میں تو بھاگ گیا۔۔۔
تو زندہ بچا ہی کیوں۔۔۔۔میرا تو دل چاہ رہا ہے تجھے ابھی جلا دوں۔۔۔شاہ پھر دھاڑا
جلدی مر یہاں پر میں انتظار کر رہا ہوں۔۔۔۔
نہ صاحب جی اتنی خاطر داری ہو رہی ہے اتنا مست کھانا ہے۔۔۔آج سے پہلے اتنا آرام میں نےنہیں کیا اب مل رہا ہے تو پورا صحیح ہوکر آٶں گا۔۔ویسے آپ کو پتا ہے صاحب جب میں بھاگ رہا تھا تو گاڑی سے ٹکر ہوٸی اور ایک بھلا آدمی کسی ہسپتال چھوڑ گیا اور اب سارا خرچ دے کر اعلاج کروا رہا ہے۔۔۔ آپ کے یہاں ہوتا تو بھوکا مرنا تھا۔۔
بکواس بند کر آنا تونے یہی ہے اور جہانگیر شاہ نے فون بند کردیا۔۔۔
شہریار دو سیکنڈ فون کو دیکھتا رہا اور پھر ایک ذوردار قہقہہ کمرے میں گونجا۔۔۔
تو بھی تڑپے گا جہانگیر شاہ جیسے تو نے معصوم بچوں کو ترپایا ہے تو بھی تڑپے گا۔۔۔انتظار کر بس شہریار حسن خود تجھے مارے گا۔۔۔میں تجھ سے اس اک اک اذیت کا بدلہ لونگا جو تو نے میری بہن میرے گھر کو میرے دوست کو اور نا جانے کتنے لوگوں دی ہیں۔۔۔
بس وقت کا پاسا پلٹنے دے پھر تو ایسا گرے گا کے کوٸی چاہ کر بھی نہیں بچا پاۓ گا۔۔۔۔تو چلاتا رہے گا مگر تیرے یہ چہیتے تجھے پوچھیں گے بھی نہیں۔۔۔تو نشان بنے گا عبرت کا اور تجھے صرف لوگ یاد بھی کریں گے تو گالیوں کے ساتھ۔۔
شہریار تکیہ کو بازوں میں دبوچ کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔
**********
ماما دروازہ کھولیں نا ماما آپکا محراب آپ کو بلا رہا ہے۔۔۔ایسے تو نہ کریں ماما پلیز۔۔۔محراب کب سے کلثوم بیگم کے کمرے کے باہر کھڑا انھیں پکار رہا تھا۔۔۔۔
کلثوم بیگم تو اپنے ماضی میں کھوٸی ہوٸی تھی۔۔۔کتنی ناانصافی کی تھی انھوں نے اپنی بہن کے ساتھ ہر وہ چیز جو فاطمہ کو پسند آتی تھی۔وہ کلثوم کو چاہیے ہوتی تھی۔مگر “شوہر کوٸی چیز تو نہیں ہوتا جو کوٸی بھی مانگےاور ہم اسکی جھولی میں ڈال دیں۔۔۔”
ماما پلیز۔۔۔اسنے پھر دروازہ نوک کیا۔۔کلثوم دروازہ کھول کر بیڈ پر چلی گی۔۔محراب دروازہ بند کرکے اپنی ماں کے پاس آیا اور کلثوم کی گود میں سےرکھ کر لیٹ گیا۔۔۔
کلثوم نے بیڈ پر سر ٹکا لیا۔۔۔اور آنکھیں بند کر لی۔۔۔میں بہت بری ہوں محراب تمھاری ماں زندگی بھر اپنی سگی بہن سے جلتی رہی اور خود خوش نہیں رہ پاٸی۔۔۔
یہ بات درست ہے جو جلتا ہے خود کا نقصان کرتا ہے اور اللہ بھی اس سے ناراض ہوتا ہے۔۔۔مجھے معاف کردو محراب میں آج تک اپنی بھانجی سے پیار نہیں کر پاٸی میں نے اسے خالہ جیسے مخلص رشتے سے دور رکھا ہمیشہ اسے بےعزت کیا۔۔۔۔مگرمجھےسکون نہیں ملا۔۔۔میں اپنی بہن کو کھو چکی ہوں محراب اپنی بھانجی کو نہیں کھونا چاہتی۔۔۔تم اسے شادی کرو گے۔۔۔محراب اپنی ماں کی بات پر ایک دم کھڑا ہوا۔۔۔۔
ماما آپ سچ کہہ رہی ہیں آپ نانو سے بات کریں گی ہماری شادی کی۔۔۔وہ خوشی سے پھولے نہیں سما۶ رہا تھا۔۔
”بے شک جب اللہ چاہیے تو کیا کچھ نہیں ہوسکتا“۔۔۔
ہاں۔۔۔ میرے بیٹے کے چہرے پر اسکے نام سے ہی اتنی رونق آجاتی ہےتو مجھے یقین ہے جب میری پیاری بھانجی تمھاری زندگی میں آۓ گی تو خوشیاں ہی خوشیاں آٸیں گی اس گھر میں۔۔آمین ۔
ماما آپ سب سے اچھی ماما ہیں لو یو آپ بھول جاٸیں ماما سب کچھ مجھے یقین ہے ایمان بھی یہی کہے گی۔۔
ارے واہ اتنا جان گٸے ہو میری بھانجی کو۔۔۔کلثوم کی بات پر محراب مسکرانے لگا۔۔
***********
صبح ہوٸی تو عفاف آرام سے انگراٸی لیتی ہوٸی اٹھی۔۔۔۔اور اچانک برابر میں سوۓ ہوۓ عفان پر نظر پرتے ہی اسکی چیخ نکل گی۔۔۔
کیا کیا ہوا۔۔۔عفان ہربرا کر اٹھ گیا۔۔
آپ یہاں کیا کررہے ہیں۔۔۔۔عفاف اپنے منہ پر سے تکیہ ہٹاتے ہوۓ کہنے لگی۔۔
پہلے تم مجھے یہ بتاٶ یہ چیخیں مارنے کی بیماری ہے تمھیں۔۔یا میری نیند خراب کرنے کا عزم اٹھایا ہے۔جب سے آٸی ہو سکون سے سونے نہیں دیا اور رات بھر خود خراٹے مار کر سو رہی تھی۔۔۔عفان بھی اب پیچھے رہنے والوں میں سے کہا تھا۔۔۔
جھوٹ الزام ہے یہ میں خراٹے نہیں لیتی خود لیتے ہونگے اور مجھے کہہ رہے ہیں۔۔۔۔ہہہہہم عفاف ساٸڈ پر تکیہ رکھ کر منہ بنا کر اٹھ گی۔۔۔۔اور باتھ روم میں گھس گی۔۔۔
عفان فریش ہوکر بیڈروم میں آیا تو عفاف نہیں تھی وہ چلتا ہوا لاونج میں گیا تو عفاف کچن کاونٹر پر کھڑی پتا نہیں کیا سوچ رہی تھی۔۔۔عفان نے اسے پکارا تو وہ ڈر گی۔۔
تم بہادر تو اتنی بنتی تھی اب تو کھڑے کھڑے ڈر جاتی ہو۔۔۔۔وہ صوفے پر بیٹھ کر ریموٹ سے نیوز چینل لگانے لگا۔۔۔
ایسے کوٸی آکر اچانک مجھ معصوم کو ڈراۓ گا تو میں ڈر ہی جاونگی۔۔۔عفاف فریج کھولتے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔
ویسے سوچ کیا رہی تھی۔۔۔عفان کے پوچھنے پر عفاف فریج سے بریڈ نکال کر کہنے لگی۔۔۔اب بھوکے تو رہیں گے نہیں۔۔ناشتہ بنا رہی ہو۔۔۔
مہربانی عفاف بی بی کل رات جو آپ نے کارنامہ انجام دیا تھا۔۔۔وہ بہت تھا بیچارے کچن پر رحم کھاٶ وہ بار بار اذیت برداشت نہیں کرسکتا۔۔۔عفان کی باتوں پر عفاف کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔۔
کیا کہنا چاہ رہیے ہیں آپ۔۔۔وہ کمر پر ہاتھ رکھ کر اسکے سامنے آکر کہنے لگی۔۔۔۔
میں یہ کہہ رہا ہوں مجھے پتا ہے تم بہت بکواس کوکنگ کرتی ہو تو رہنے دو شہریار آرہا ہے ناشتہ لے کر۔۔۔اب جاٶ اور مجھے نیوز دیکھنے دو۔۔۔
۔عفان نیوز ہیڈلاٸن پڑھ رہا تھا۔۔۔جہاں کل کے بم بلاسٹ کو پیڑول گر گیا اور کسی نے ماچس یا سگریٹ پھینکی تو آگ لگ گی ڈیکلیر کیا جا چکا تھا۔۔۔۔
واٹ دا ہیل۔۔۔اسنے ذور سے ایموٹ کو پٹکا۔۔عفان کو غصے میں دیکھ کر عفاف جو انڈے بریڈ فریج میں رکھ کر تیار ہونے جا رہی تھی عفان کے پاس آگی۔۔۔
کیا ہوا۔۔۔عفاف نے فکر مندی سے پوچھا۔عفان کسی کو فون ملا رہا تھا۔۔۔جو بند جارہا تھا عفان کا غصہ بڑھتا جارہا تھا۔۔۔
کچھ نہیں جاو یہاں سے عفان پھر سے کوٸی نمبر ملانے لگا۔۔۔
آخر ہوا کیا ہے اچانک بتاٸیں نا۔۔۔عفاف عفان کو اپنی طرف کر کے پھر پوچھنے لگی۔۔
تمھیں میں نے اتنی اجازت نہیں دی کہ تم مجھے چھو بھی سکو یا مجھ سے بیوٸیوں والے سوال کرو سمجھی۔۔۔اپنی حد اور اوقات میں رہو۔۔۔وہ اسے صوفے پر دھکا دے کر پھر فون پر کسی کا نمبر ملانے لگا۔۔
عفاف اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر آنسوٶں کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔وہ توکھل کر رو بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ یہ راہ تو اسنے اپنی پسند سے چنی تھی۔۔۔
عفاف خود کو سنبھالتی روم میں آٸی۔۔۔اور تیار ہونے لگی وہ کسی کو نہیں دکھانا چاہتی تھی کہ وہ کس اذیت میں ہے۔۔۔
************
ہیام نیوی بلیو کلر کی کرتی پہن کر گلے میں دوپٹہ ڈال کر سر پر بڑی سی چادر لٹکا کر سڑھیاں اتر کر سلطانہ بیگم کے پاس آگی۔۔۔اسلام و علیکم اور سب کو ساتھ سلام کیا۔۔
سب عفاف کے گھر ناشتہ لے جانے کے لیے تیار کھڑے تھے۔۔شہریار نے اسے ایک نظر دیکھ کر نظریں ہٹا لیں اور یہ بات ہیام نے باخوبی محسوس کی۔۔۔
چلیں اب ویسے ہی بہت دیر کردی ہے۔۔۔اور کہتے ہی شہریار ہیام کو اک نظر دیکھ کر وہ باہر نکل گیا۔۔۔۔ اور سب عفاف کے گھر جانے کے لیے روانہ ہوگے۔۔۔
ایمان نے ہیام کو آگے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو شہریار نے دانیال کو آواز دے دی کے اگے آکر بیٹھ جاۓ۔۔۔۔
عفاف کے گھر پہنچ کر سب عفاف سے ملے شہریار عفان سے باتیں کرتے اندر صوفے پر بیٹھ گٸے۔۔۔نہ تو عفان وہ عفان لگ رہا تھا عفاف اسکے بدلتے روپ کو پہچاننے سے قاصر تھی۔۔۔
کیسی ہے۔۔۔۔ہیام عفاف کے گلے مل کر اس سے پوچھنے لگی۔۔۔
اللہ کا شکر آپی۔۔آٸیں نا آپ لوگ۔۔
سب نے خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا اور عفان نے شام میں گھر آنے کا وعدہ کیا۔۔۔
باقی سب بھی باتیں کرتے ہنسی خوشی عفاف کو لے کر گھر کےلیے نکل گے۔۔۔۔
*********
روکیں روکیں۔۔۔عفاف نے شہریار کو بیچ راستے میں رکوایا۔۔۔
کیا ہوا عفاف۔۔ ایمان نے اسطرح گاڑی رکوانے پر سوال کیا۔۔۔
شہری بھاٸی آپ نے مجھے شادی کا کوٸی گفٹ نہیں دیا۔۔۔وہ رہا مارٹ چلیں تھوڑا آپ کا بھی خرچا کرواٸیں۔۔وہ کہہ کر رکی نہیں اور سب پیچھے پیچھے مارٹ میں گھس گی۔۔۔
اور جسکو جو پسند آرہا تھا۔۔وہ اٹھا رہا تھا ہیام بھی خاموش تھی مگر کن آنکھیوں سے شہریار کو ہی دیکھ رہی تھی۔۔
دانیال نے جہاں بھر کی چاکلیٹ چپس ٹرولی میں ڈالے۔۔۔ایمان ہیام اور عفاف جیولری دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ہیام نے ایک لوکیٹ اٹھایا جس میں S aur H لکھا تھا۔۔۔ہیام نے وہ اٹھالیا عفاف اورایمان بھی چند ایک چیزیں لیں اور سب کاونٹر پر آگۓ۔۔۔
ہاں تو کر لی جی بھر کر شوپنگ۔۔۔شہریار ان سب کو آتا دیکھ کر کہنے لگا۔۔
ہاں بھاٸی تھینک یو سو مچ۔۔۔عفاف نے کھلکھلاتے ہوۓ کہا۔۔
چلو پھر اپنا سامان یہاں ڈالتے جاٶ اور یہ گاڑی کی چابی پکڑو اور باہر جاٶ۔۔۔ایمان عفاف دانیال اپنا سامان کاونٹر پر رکھ کر مگن باہر چلے گۓ۔۔۔اور شہریار نےدانیال کا سامان پیک کروا کر بل کا کہہ دیا۔۔۔
ہیام اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ جو اسے مکمل اگنور کر کے بل دے کر آگے بڑھ گیا۔۔
ہیام اپنے ہاتھ میں موجود لوکیٹ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔اور آنسو جو نکلنے کے لیے بے تاب تھے انھیں اندر ڈالنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔
وہ لوگ گھر سے نکلتے ہوۓ احتیاط کے پیسے رکھتی تھی سو دوسو اور جب کوٸی لڑکا ساتھ ہو تو اسکی بھی ضرورت نہیں پڑتی تھی آج بھی یہی ہوا تھا وہ بنا پیسے لیے نکل گی تھی۔۔۔کیا پتا تھا شہریار ایسے منہ موڑے گا۔۔۔
جی میم آپ کو کچھ چاہیے۔۔۔وہاں کھڑا سروس مین نے ہیام کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا۔۔۔
جی یہ لوکیٹ کتنے کا ہے۔۔۔
میم 1000rp ۔۔۔۔۔اچھا آپ یہ واپس رکھ دیں شکریہ۔۔۔۔اور وہ مارٹ سے نکل کر گاڑی کی طرف آگی۔۔۔جہاں سب بیٹھ چکے تھے اور ایمان شہری سے پوچھ رہی تھی ہیام کہاں ہے۔۔
کہاں تھی تم۔۔۔ایمان اسکے آتے ہی پوچھنے لگی۔۔۔
وہ ایک دوست مل گی تھی۔۔۔ہیام کہہ کر نظریں چرا گی۔۔۔۔
**********