رپلائی میں ابراہیم نے کال کی تھی
مبارک ہو مائی ہانیہ آپ ماں بننے والی ہیں۔ ابراہیم نے خالص شوہروں والے انداز میں اسے مبارکباد دی تھی اور پھر ایک جاندار قہقہہ لگایا تھا
او بی بی گرا دو بچہ یا جو مرضی کرو پر آج کے بعد مجھے کال نہ کرنا۔ تم پہلی نہیں ہو بہت ہیں جن کو پریگننٹ کیا ہے ابراہیم شاہ نے۔
میری جوتی کو بھی پرواہ نہیں ہوئی کسی کی پریگنینسی سے سمجھی ؟
اور ہانیہ واقعی سمجھ گئی تھی۔ ابراہیم انسان نہیں شیطان تھا اور شیطان سے بھلائی کی امید کیا کرنی۔
۔۔۔۔۔۔۔
عمر کے سامنے وہ اپنا مدعا بیان کر چکی تھی۔ ایک وہی تھا جو ہانیہ کی مدد کر سکتا تھا ورنہ خود ہانیہ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ابارشن کروا سکے وہ بھی رازدارانہ طور پر۔
عمر نے اپنی گاڑی کی چابی اٹھائی تھی اور ہانیہ کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا تھا۔ ہانیہ ایک دم ہلکی پھلکی ہوئی تھی گو وہ کسی بڑے بوجھ سے آزاد ہونے جا رہی ہو۔
عمر نے آفس بند کیا اور گاڑی کو قریبی کلینک کے راستے پر موڑ دیا۔
۔۔۔۔۔۔
وہ ابھی لفظوں کے تانے بانے ہی بن رہی تھی جن میں ڈاکٹر کو ابارشن کا کہ سکے اور عمر ڈاکٹر سے مخاطب ہو گیا تھا
یہ میری بیوی ہیں ہانیہ۔ دو ماہ پہلے ہماری شادی ہوئی تھی لیکن آجکل انکی طبیعت بہت خراب رہتی ہے آپ دیکھیں یہ ٹھیک ہیں۔
ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ عمر کو اوکے بولتے ہانیہ کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔
ہانیہ جو بت بنی عمر کی بات سن رہی تھی اٹھ کر خاموشی سے ڈاکٹر کے پیچھے چل دی تھی۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی ہانیہ نے عمر کا گریبان پکڑ لیا تھا
یہ کیا کیا آپ نے سر۔ہم تو ابارشن کروانے آئے تھے اور آپنے۔۔لوگ کیا کہے گے کیا کروں گی میں اب۔ وہ عمر کا گریبان چھوڑ کر اپنا سر پکڑ چکی تھی
کیا آپ اپنے بچے کو قتل کرنا چاہتی تھیں؟ اسکی ماں ہو کر بھی؟
عمر نے پر تاسف نظروں سے ہانیہ کو گھورا تھا اور ہانیہ ان دو لفظوں بچہ اور ماں کے بیچ ہی جم گئی تھی۔ اس رخ سے تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔ جس کو بوجھ سمجھ کر وہ گرانے جا رہی ہے وہ کوئی بےجان چیز یا کھلونا نہیں اسکا بچہ ہے۔
پر میں کسی کو قتل کروانے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ اللہ سے ڈرتا ہوں اور اس سے محبت کرتا ہوں اس کی ناراضگی مول نہیں لے سکتا
عمر نے سامنے سڑک پر دیکھتے اس سے معذرت کی تھی
لیکن اتنا ضرور کر سکتا ہوں کہ اسکو باپ کے طور پر نام دے دوں اور ساتھ ہی اسے شادی کی آفر کی تھی۔ یہ ایک واحد چیز جو وہ اس کے لئے کر سکتا تھا اور ہانیہ سوچ میں پڑ گئی تھی۔۔یہ واقعی انسان ہے یا کوئی فرشتہ
ایک طرف ابراہیم تھا ایک شیطان جسے خود اس نے خود پر مسلط کیا تھا اور دوسری طرف عمر جسے۔۔۔ہاں جسے اللہ نے اس کے لئے مہربان کیا تھا۔ اپنی بربادی کی ذمہ دار وہ خود تھی پر اس سب میں بھی اسکو سنبھالنے کے لئے عمر کو اللہ نے ہی اس کے لئے منتخب کیا تھا۔ بیشک اللہ ستر ماوں سے بھی زیادہ اپنے بندے سے پیار کرتا ہے۔ آزمائش میں ڈالتا ہے تو اس آزمائش سے نکلنے کے راستے بھی نکالتاہے بس انسان ہی نا شکرا اور بےصبرا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ دلہن بنی عمر کے کمرے میں پہنچا دی گئی تھی۔ وہ جانتی تھی یہ شادی صرف اس بچے کو باپ کا نام دینے کے لئے ہوئی ہے اس میں محبت یا قبولیت کا عنصر شامل نہیں ہے۔ اس نے کمرے میں آتے ہی کپڑے چینج کردئے تھے اور اب میک اپ صاف کر رہی تھی جب عمر کمرے میں داخل ہوا تھا۔ اسنے سرسری سی نظر ہانیہ پر ڈالی تھی اور فروٹ کا باول ٹیبل پہ رکھ کر چینج کرنے باتھروم میں گھس گیا تھا۔
ہانیہ صوفے پہ نیم دراز ہوچکی تھی جیسے لمبی مسافت کے بعد سستانے کو تھوڑا وقت ملا ہو۔ عمر نے گلا کھنکار کر ہانیہ کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا
یہ فروٹ سلیڈ کھا لیں پھر میڈیسن کھانی ہے آپ نے۔ ڈاکٹر نے کہا تھا آپ میں weekness بہت زیادہ ہے اس لئے بہتر خوراک، آرام اور دوا ضروری ہے لینا۔
اتنا سارا فروٹ میں اکیلی کھائوں گی؟ ہانیہ بھرے بائول کو دیکھ کر منمنائی تھی
ہاہا نہیں جی میں بھی کھائوں گا۔ اور عمر کانٹے سے پھل کھانا شروع کر چکا تھا۔
ایک ہی باول میں عمر کے ساتھ کھانا بہت respectful feel دے رہا تھا۔
اپنی نگرانی میں ہانیہ کو میڈیسن کھلا کر بیڈ پہ لٹا کر عمر خود بھی بیڈ کی دوسری سائڈ پہ لیٹ گیا تھا اور کچھ ہی دیر میں دونوں پرسکون نیند سو رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ کے ساتھ عمر کا رویہ بلکل دوستانہ تھا لیکن آج عمر کی کال ہانیہ کو پریشان کر گئی تھی
تیار ہو جاو ابھی جلدی سے میں آپکو لینے آ رہا ہوں ہمیں ایک ضروری جگہ جانا ہے اور فون بند ہو گیا تھا۔ عمر کے لہجے میں غیر معمولی سنجیدگی ہانیہ کو پریشان کر رہی تھی
تیاری کے نام پہ ہانیہ ایک بڑی چادر لپیٹے عمر کا انتظار کر رہی تھی۔ عمر نے گھر کے باہر سے ہی گاڑی کا ہارن بجایا تھا۔ ہانیہ گھر کو لاک کرکے گاڑی میں بیٹھی تھی۔
اللہ خیر پتہ نہیں کیا ہوا ہے پر عمر کے چہرے پر پھیلی سنجیدگی نے اسے کچھ بھی پوچھنے سے باز رکھا۔ شادی کو ایک ماہ ہو چکا تھا پر اتنا سنجیدہ اس نے عمر کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
گاڑی ہاسپٹل میں داخل ہوئی تو ہانیہ کا پہلا خیال اپنی ماں کی طرف ہی گیا۔ اللہ کہیں امی کو کچھ ہو تو نہیں گیا۔
۔وہ تڑپ کر عمر کی طرف مڑی تھی۔ کیا ہوا عمر میری امی ٹھیک ہیں نہ کیا ہوا انہیں۔ ہانیہ رو دینے کو تھی اب۔
امی کو کچھ نہیں ہوا وہ ٹھیک ہیں میں آپ کو یہاں کسی اور سے ملوانے لایا ہوں ہانیہ بس پلیز چلیں میرے ساتھ۔
انجانے خدشات کی ڈولتی نائو میں بیٹھے وہ عمر کے ساتھ چل پڑی تھی
مختلف راستوں سے گزرتے عمر نے ایک کمرے کے سامنے رک کر پہلے ہانیہ کو دیکھا تھا اور اپنا ایک بازو اسکے کندھوں کے گرد حمائل کرکے اسے محفوظ ہونے کا احساس دیتے کمرے میں داخل ہو گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت ساری پٹیوں اور سوئیوں میں جکڑا وہ شخص ابراہیم ہی تھا پر پہچاننے میں ہانیہ کو وقت لگا تھا۔ وہ کسرتی بدن اب ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا۔ بھورے گھنے بالوں کی جگہ اب چاندی جھلک رہی تھی۔ ہونٹوں کی گلابی ہلکی سیاہی میں بدل چکی تھی۔
ہانیہ نے گھبرا کر عمر کا بازو زور سے پکڑ لیا تھا وہ اس نیم مردہ وجود سے خوف محسوس کر رہی تھی۔ عمر نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر ابراہیم کو آواز دی تھی۔
ابراہیم۔۔عمر نے دوسری بار اسے پکارا تھا
ابراہیم نے آنکھیں کھول کر آواز کی سمت دیکھا تھا۔ عمر سے چپکی ہانیہ کو دیکھ کر اس کے ہونٹ ہلکے سے وا ہوئے تھے
ہ ہانی۔آنسو ابراہیم کی آنکھوں سے پھسلتے چلے گئے تھے۔ مجھے معاف کردو ہانیہ۔۔
ہانیہ نہیں مسز عمر ہیں یہ ابراہیم
عمر کی نظروں میں حق ملکیت ہانی کے ساتھ ابراہیم کو بھی چونکا گیا تھا
ابراہیم نے آنکھیں بند کرلی تھیں جیسے خود کو ان دونوں سے نظریں ملانے کے قابل نہ سمجھتا ہو اور ٹوٹے لفظوں میں بات کا آغاز کیا
میں نے تمہارے ساتھ بہت برا کیا
بہت برا
اللہ نے مجھے خوبصصورتی پیسہ ہر چیز دی پر میں شکر کرنے کے بجائے کفر کرنے لگا۔ اس کی مخلوق پہ رحم کرنے کے بجائے ظلم کرنے لگا۔ پر تم سے اللہ کو بہت پیار ہے تب ہی اللہ نے میری رسی کھینچ لی۔ جس دن تم نے اپنی پریگننسی کا بتایا تمہیں دھتکار کر میں بہت اکڑ رہا تھا مجھے لگا خدا تو کوئی ہے ہی نہیں۔ خدا ہوتا تو میں نہ ہوتا اور میں ہوں تو پھر خدا نہیں ہے لیکن خدا تو ہے جس نے مجھے زندگی دی اسی نے میرے جسم سے زندگی واپس لے لی۔ مجھے فالج کر دیا
ابراہیم کی سسکیاں بلند ہو چکی تھیں
ہانیہ خوف سے باہر کی طرف پلٹی تھی پر ابراہیم نے سسکیوں کے دوران ہی معافی کی بھیک مانگی تھی۔ میں مرنے والا ہوں میرا دل بند ہے بس موت کے دروازے کھلنے سے پہلے مججخھے معاف کردو پلیز۔ دنیا کا عذاب اتنا سخت ہے تو آخرت کا عذاب کتنا برا ہوگا۔ مجھے معاف کردو ہا۔۔مسز عمر پلیز مرنے سے پہلے معاف کردو اللہ کے واسطے مجھے معاف کردو
ابراہیم میں اور بولنے کی سکت نہیں رہی تھی وہ ملتجی نظروں سے عمر کو دیکھنے لگا تھا۔ ہانیہ اللہ کو معاف کرنا پسند ہے ابراہیم کو اسکے کئے کی سزا مل چکی ہے پلیز اسے معاف کردو۔ وہ اپنے گناہوں پہ شرمندہ ہے کردو معاف پلیز۔
ہانیہ کو پہلی بار عمر کی سخاوت پہ غصہ آیا تھا پر وہ اپنے آپکو عمر کی ہر بات ماننے کی قسم نکاح والے دن ہی دے چکی تھی۔ اسکی بات سے انکار اب ممکن نہ تھا
معاف کردیا میں نے تمہیں ابراہیم اور دعا کرتی ہوں باقی سب بھی جو تمہارے ظلم کا شکار ہوئے وہ بھی تمہیں معاف کردیں۔ عمر نے آمین کہا تھا اور ہانیہ باہر نکل گئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بتا نہیں سکتے تھے کہ آپ مجھے کہاں لا رہے ہیں۔ ہانیہ نے گھر آتے ہی غصے سے شکوہ کیا تھا۔
بتا دیتا تو آپ آجاتی؟ عمر نے الٹا سوال کیا تھا۔
کبھی نہیں میں کبھی نہ آتی۔ ہانیہ نے صاف گوئی سے انکار کیا تھا۔
اسی لئے میں نے آپکو کچھ نہیں بتایا۔ مجھے صبح ابراہیم کے کسی جاننے والے کی کال آ آئی تھی کہ ابراہیم آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ پہلے میں اس سے ملا تھا اسکی حالت دیکھ کر میں اسے منع نہیں کر پایا اور آپکو لانے کا وعدہ کرلیا آئی ایم سوری ہانیہ۔
ہانیہ نے بے تاثر لہجے میں it’s ok کہا تھا اور چائے بنانے چلی گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے 3 بج چکے تھے
ہانیہ کی ڈلیوری کسی بھی وقت متوقع تھی۔ ڈاکٹرز کے مطلوبہ سامان کی لمبی چوڑی لسٹ پوری کرکے عمر گائنی روم کے باہر چئیر پہ بیٹھا تھا۔ تھکن نے نیند کو پکارا تھا اور نیند مہربان ہو چکی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔