منصور جس زمانہ میں بغداد کی تعمیر کے معائنہ کو آیا تھا، اس زمانہ میں ابراہیم بن عبداللہ برادر محمد مہدی پوشیدہ طور پر اس کے ساتھ تھا۔ وہاں سے وہ صاف بچ کر کوفہ چلا آیا اور منصور نے اس کی گرفتاری کے لیے بڑی کثرت سے ہر شہر میں جاسوس پھیلا دیے، منصور کو جب یہ معلوم ہوا کہ ابراہیم بصرہ میں ہے تو اس نے بصرہ کے ہر ایک مکان پر ایک ایک جاسوس مقرر کرایا، حالانکہ ابراہیم بن عبداللہ کوفہ میں سفیان بن حبان قمی کے مکان پر مقیم تھا، یہ بات بھی مشہور تھی کہ سفیان، ابراہیم کا بہت گہرا دوست ہے۔ جاسوسوں کی کثرت دیکھ کر سفیان گھبرایا اور اس نے ابراہیم کو صاف نکال دینے کی یہ ترکیب سوچی کہ منصور کے پاس پہنچا اور کہا کہ آپ میرے اور میرے غلاموں کے لیے پروانہ راہداری لکھ دیں اور ایک دستہ فوج میرے ہمراہ کر دیں، میں ابراہیم کو جہاں وہ ہو گا، گرفتار کر کے لے آؤں گا۔ منصور نے فوراً پروانہ راہداری لکھ کر دے دیا اور ایک چھوٹی سی فوج بھی اس کے ساتھ کر دی۔ سفیان اپنے گھر میں آیا اور گھر کے اندر جا کر ابراہیم کو اپنے غلاموں کا لباس پہنا کر اور غلاموں کے ساتھ ہمراہ لے کر مع فوج کوفہ سے چل دیا۔ بصرہ میں آ کر ہر ایک مکان پر دو دو چار چار لشکری مقرر کرتا گیا۔ اس طرح تمام لشکر کے آدمی جب تقسیم ہو گئے اور آخر میں صرف سفیان اور ابراہیم رہ گئے تو ابراہیم کو اہواز کی طرف روانہ کر کے خود بھی روپوش ہو گیا۔
بصرہ میں ان دنوں سفیان بن معاویہ امیر تھا۔ اس کو جب یہ کیفیت معلوم ہوئی تو اس نے لشکریوں کو جو جا بہ جا منتشر و متعین تھے، ایک جگہ جمع کیا اور ابراہیم بن عبداللہ وسفیان بن حبان کی جستجو شروع کی، مگر کسی کو نہ پا سکا۔ اہواز میں محمد بن حصین امیر تھا، ابراہیم جب اہواز میں پہنچا تو حسن بن حبیب کے مکان میں فروکش ہوا۔ امیر اہواز کو اتفاقاً جاسوسوں کے ذریعہ سے معلوم ہو گیا کہ ابراہیم اہواز میں آیا ہوا ہے۔ وہ بھی اس کی تلاش و جستجو میں مصروف رہنے لگا۔ ابراہیم عرصہ دراز تک حسن کے مکان میں چھپا رہا اور لوگوں کو اپنی دعوت میں شریک کرتا رہا۔ سنہ ۱۴۵ھ میں بصرہ سے یحییٰ بن زیاد بن حیان نبطی نے ابراہیم کو اہواز سے بصرہ میں بلوا لیا اور بڑی سرگرمی سے لوگوں کو محمد مہدی کی بیعت کی طرف بلانا شروع کر دیا۔ اہل علم اور با اثر لوگوں کی ایک بڑی جماعت نے بیعت کر لی۔ بصرہ والوں کے چار ہزار افراد کے نام بیعت کے رجسٹر میں لکھے گئے۔ اسی عرصہ میں محمد مہدی نے مدینہ میں خروج کیا اور ابراہیم کو لکھا کہ تم بھی بصرہ میں خروج کرو۔ منصور نے چند سرداروں کو احتیاطاً بصرہ میں بھیج دیا تھا کہ اگر اس طرف بغاوت کا کوئی خطرہ پیدا ہوا تو بصرہ کے عامل سفیان بن معاویہ کی مدد کریں۔ اگر ابراہیم محمد مہدی کے لکھنے کے موافق فوراً خروج کر دیتا تو یقینا منصور کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے اور ابراہیم و محمد دونوں بھائیوں کو بہت تقویت حاصل ہوتی، لیکن اس وقت ابراہیم بصرہ میں بیمار ہو گیا تھا اور بیماری کی وجہ سے اس نے خروج میں تأمل کیا۔
منصور جب محمد مہدی کے مقابلے کےلئے لشکر روانہ کر چکا تو یکم رمضان سنہ ۱۴۵ھ کو ابراہیم نے بصرہ میں خروج کیا اور سفیان بن معاویہ اور ان سرداروں کو جو اس کی مدد کے لیے آئے ہوئے تھے، گرفتار کر کے قید کر دیا۔
جعفر ومحمد پسران سلیمان بن علی یعنی منصور کے چچا زاد بھائی چھ سو آدمیوں کے ساتھ بصرہ سے باہر پڑے ہوئے تھے۔ یہ بھی منصور کے بھیجے ہوئے تھے۔ ان دونوں بھائیوں نے ابراہیم کے خروج کا حال سنتے ہی حملہ کیا۔ ان چھ سو آدمیوں کے مقابلہ پر صرف پچاس آدمی بھیجے گئے اور ان پچاس آدمیوں نے چھ سو کو شکست دے کر بھگا دیا۔ ابراہیم نے تمام بصرہ پر قابض ہو کر لوگوں سے بیعت عام لی اور امان کی منادی کرا دی، پھر بیت المال سے بیس لاکھ درہم برآمد کرا کر پچاس پچاس درہم ہر ایک ہمراہی کو تقسیم کیے، پھر مغیرہ کو ایک سو پیادوں کے ہمراہ اہواز کی طرف روانہ کیا۔
اہواز کا عامل محمد بن حصین چار ہزار فوج لے کر مقابلہ کو نکلا، لیکن ان ایک سو پیادوں نے چار ہزار کے لشکر کو شکست فاش دی اور مغیرہ نے اہواز پر قبضہ کر لیا۔ ابراہیم نے عمرو بن شداد کو فارس کی طرف بھیجا۔ وہاں کے گورنر اسماعیل بن علی بن عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب اور اس کے بھائی عبدالصمد نے مقابلہ کیا، مگر شکست کھائی اور عمرو بن شداد نے صوبہ فارس پر قبضہ کر لیا۔
اسی طرح ہارون بن شمس عجلی کو واسط کی طرف بڑھنے کا حکم دیا۔ ہارون نے منصور کے گورنر ہارون ابن حمید ایاوی کو شکست دے کر واسط پر قبضہ کر لیا۔ غرضیکہ جس روز مدینہ میں محمد مہدی اور عیسیٰ بن موسیٰ کے لشکروں میں لڑائی ہوئی اور محمد مہدی شہید ہوا، اس روز تک بصرہ، فارس، واسط اور عراق کا بڑا حصہ منصور کے قبضہ سے نکل چکا تھا۔ شام کا ملک بھی بہت جلد قبضے سے نکلنے والا تھا۔ کوفہ والے بھی ابراہیم کے منتظر بیٹھے تھے اور منصور کی حکومت کے باقی رہنے کی کوئی صورت نہ تھی۔
ابراہیم نے یکم رمضان کو بصرہ میں خروج کیا تھا، آخر رمضان تک برابر فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ رمضان کے ختم ہوتے ہی ابراہیم کے پاس خبر پہنچی کہ محمد مہدی قتل ہو گیا ہے۔ ابراہیم نے عید الفطر کی نماز پڑھ کر عیدگاہ میں اس خبر کا اعلان کیا، یہی خبر ان لوگوں کے پاس بھی جو دوسرے علاقوں میں منصور کے عاملوں سے لڑنے اور ان کو مغلوب و خارج کرنے میں مصروف تھے، پہنچی، اس خبر کا پہنچنا تھا کہ سب کے جوش سرد پڑ گئے اور منصور کے سرداروں اور عاملوں میں ایک تازہ دہشت پیدا ہو گئی۔ بصرہ والوں نے اس خبر کو سن کر محمد مہدی کی جگہ ابراہیم کو جو ان میں موجود تھا، خلیفہ تسلیم کیا اور پہلے سے زیادہ جوش و ہمت دکھانے پر آمادہ ہو گئے۔ ابراہیم کے ہمراہیوں میں بہت سے لوگ بصرہ میں کوفہ والے بھی تھے۔ بصرہ والوں کی یہ رائے تھی کہ بصرہ ہی کو دارالخلافہ اور مرکز حکومت قرار دے کر اطراف میں فوجیں بھیجنے اور انتظام کرنے کا کام انجام دیا جائے، مگر کوفیوں نے اس سے اختلاف کر کے یہ رائے ظاہر کی کہ ابراہیم کو فوج لے کر خود کوفہ کی طرف حملہ آور ہونا چاہیے۔ کوفہ والے اس کے منتظر اور چشم براہ بیٹھے ہیں۔ ابراہیم نے کوفیوں کی رائے سے اتفاق کیا اور اپنے لڑکے حسن کو کوفہ میں اپنا نائب بنا کر کوفہ کی طرف روانگی کا عزم کیا۔
یہ خبر کوفہ میں منصور کو پہنچی تو وہ بہت مضطرب ہوا اور اس نے فوراً تیز رفتار قاصد عیسیٰ بن موسیٰ کے پاس روانہ کیا کہ جس قدر جلد ممکن ہو، اپنے آپ کو کوفہ میں پہنچاؤ، ساتھ ہی مہدی کو خراسان میں لکھا کہ فوراً فارس پر حملہ کر دو۔ اسی طرح ہر ایک عامل کو جو خطرہ سے محفوظ تھا، اپنی طرف بلایا۔ جس کے قریب ابراہیم کا کوئی سردار تھا، اس کو لکھا کہ تم مقابلہ میں ہمت سے کام لو۔ ہر طرف سے فوجیں بڑی سرعت کے ساتھ منصور کی طرف آنے لگیں۔ یہاں تک کہ ایک لاکھ فوج کوفہ میں آ کر جمع ہو گئی۔ ابراہیم کے حملہ کی خبر سن کر منصور نے پچاس روز تک کپڑے نہیں بدلے اور اکثر مصلے پر ہی بیٹھا رہا۔
ادھر ابراہیم بن عبداللہ ایک لاکھ فوج کے ساتھ کوفہ سے تیس چالیس میل کے فاصلہ پر پہنچ کر خیمہ زن ہوا۔ ادھر عیسیٰ بن موسیٰ مع اپنے ہمراہی فوج کے وارد کوفہ ہوا۔ منصور نے عیسیٰ بن موسیٰ کو ابراہیم کی لڑائی پر روانہ کیا اور حمید بن قحطبہ کو مقدمۃ الجیش بنایا۔ ابراہیم کو مشورہ دیا گیا کہ لشکر گاہ کے گرد خندق کھدوا لو، مگر ابراہیم کے ہمراہیوں نے کہا کہ ہم مغلوب نہیں بلکہ غالب ہیں، لہٰذا خندق کھودنے کی ضرورت نہیں۔
ہمراہیوں نے ابراہیم کو مشورہ دیا کہ دستہ دستہ فوج لڑانا چاہیے، تاکہ ایک دستہ کے شکست خوردہ ہونے پر دوسرا تازہ دم دستہ مدد کو بھیج دیا جائے، مگر ابراہیم نے اس کو نا پسند کر کے اسلامی قاعدہ کے موافق صف بندی کر کے لڑائی کا حکم دیا۔
لڑائی شروع ہوئی، حمید بن قحطبہ شکست کھا کر بھاگا۔ عیسیٰ نے اس کو قسم دے کر روکنا چاہا مگر وہ نہ رکا، عیسیٰ بھی مع لشکر مصروف جنگ ہوا اور اس کے اکثر ہمراہی تاب مقاومت نہ لا کر فرار ہونے لگے۔ عیسیٰ ابھی تک میدان میں مقابلہ پر ڈٹا رہا، مگر اس کے شکست پانے یا مغلوب ہونے میں کوئی کسر باقی نہ رہی تھی کہ یکایک جعفر و محمد پسران سلیمان بن علی ایک لشکر لیے ہوئے لشکر ابراہیم کے عقب سے آ پہنچے۔ ابراہیم کی فوج اس اچانک حملہ سے گھبرا کر ان تازہ حملہ آوروں کی طرف متوجہ ہو گئی۔ عیسیٰ نے فوراً اپنی جمعیت کو سنبھال کر حملہ کیا اور اس کی فوج کے فراری یہ حالت دیکھ کر سب کے سب لوٹ پڑے۔ حمید بن قحطبہ بھی اپنے ہمراہیوں کو لے کر حملہ آور ہوا۔ اس طرح ابراہیم کا لشکر بیچ میں گھر گیا اور حملہ آوروں نے اس کے لیے میدان کو تنگ کر دیا۔ جس کی وجہ سے ابراہیم کے بہت سے لشکری جی کھول کر مقابلہ بھی نہ کر سکے۔ آخر بے ترتیبی کے ساتھ نکل نکل کر بھاگنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ابراہیم کے ساتھ صرف چار سو آدمی باقی رہ گئے۔ ان لوگوں کو عیسیٰ حمید محمد اور جعفر نے چاروں طرف محیط ہو کر نقطہ پر کار بنا لیا۔
آخر ابراہیم کے گلے میں ایک تیر آ کر لگا جو بہت کاری تھا۔ ہمراہیوں نے گھوڑے سے اتار لیا اور چاروں طرف حلقہ کر کے مقابلہ اور مدافعت میں مصروف رہے۔ حمید بن قحطبہ نے اپنی رکابی فوج کو پوری طاقت سے حملہ کرنے کا حکم دیا اور ابراہیم کے ہمراہیوں کو مغلوب و منتشر کر کے ابراہیم کا سر اتار کر عیسیٰ کی خدمت میں پیش کیا۔ عیسیٰ نے منصور کی خدمت میں بھیج دیا۔ ۲۵ ذیقعدہ سنہ ۱۴۵ھ کو یہ حادثہ وقوع پزیر ہوا۔ اس کے بعد حسن بن ابراہیم بن عبداللہ کو بصرہ سے گرفتار کر کے قید کیا۔ اس کے ساتھ ہی یعقوب بن داؤد کو بھی قید کر دیا گیا۔
==================
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...