( ارمغانِ حجاز ، فارسی)
مجو از من کلامِ عارفانہ
کہ من دارم سرشتِ عاشقانہ
سرشکِ لالہ گوُں را اندریں باغ
بفیشانم چو شبنم دانہ دانہ!
ترجمہ : مجھ سے عارفانہ کلام کی اُمید نہ رکھ، کیونکہ میری فطرت عاشقانہ ہے۔ میں اپنے خون کے آنسو (ملّت کے) باغ میں شبنم کی طرح قطرہ قطرہ ٹپکا رہا ہوں۔
اقبال نے کبھی اپنے بڑے شاعر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ یہاں بھی وہ کہہ رہے ہیں کہ نہ میں صوفی ہوں ، نہ ملاّ، جو معرفت الٰہی کی گفتگو سننے والے کو مبہُوت کر دیتے ہیں ، لیکن اسے عمل سے بے نیاز کر دیتے ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ میں تو اُمّتِ مُسلِمَہ کے باغِ حیات میں اپنے خونِ جگر کے قطروں سے آبیاری کر رہا ہوں تاکہ میری ملّت کے سمن زار میں پھر سے بہار آجائے ۔
اس وقت اقبال کا مخاطب فردِ ملّت ہے جس کو وہ ملّت کے مقدر کا ستارہ کہا کرتے ہیں، ارشاد ہوتا ہے:
بمنزل کوش مانندِ مہِ نَو
دریں نیلی فضا ہر دم فزوں شَو
مقامِ خویش اگر خواہی دریں دیر
بحق دل بند و راہِ مصطفیؐ رو
ترجمہ : ماہ نو کی طرح اپنی منزل کی طرف چلنے کی کوشش کر اور اس نیلی فضا میں ہر دم آگے ہی بڑھتا چلا جا ۔
اگر تو (واقعی اس دنیا میں اپنا مقام حاصل کرنا چاہتا ہے، تواس کا صرف ایک ہی راستہ ہے) اللہ تعالیٰ سے دل لگا اور رسول پاکؐ کے راستے پر چل۔
چونکہ فرد ملّت کی اکائی ہے اور وہ معمارِ ملّت بھی ہے، اس لیے اقبال کہتے ہیں کہ اگر فرد اپنا راستہ رسول اکرمؐ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اختیار کر ے اور اللہ کے علاوہ کسی اور سے امید وابستہ نہ کرے تو وہ یقینا ایک دن ماہِ تمام بن کر اُفقِ ملّت پر چمکے گا۔
افرادِ ملت کو اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے اور اقوام عالم میں اپنا مقام پیدا کرنے کے سلسلے میں جس منزل سے گزرنا ہوگا، اقبال اس کو انتہائی خوبصورت اور دل نشیں انداز میں اس طرح بیان کرتے ہیں۔
بروں از سینہ کش تکبیرِ خُود را
بخاکِ خویش زن اکسیرِ خُود را
خودی را گیر و مُحکم گِیر و خوش زی
مدہ در دستِ کس تقدیرِ خُود را
(ترجمہ ) : اپنی تکبیر سینے سے باہر نکال اور اپنی اس اکسیر کو اپنی خاک پر ڈال، خودی کو پکڑ اور مضبوط پکڑ اور زندگی خوش رہ کر گزار (بس) تو اپنی تقدیر کسی اور کے ہاتھ میں نہ دے۔
مطلب یہ ہے کہ اللہ اکبر صرف زبان سے نہ کہہ، بلکہ اس کو دل کی گہرائیوں سے باہر لا اور جب تو ایسا کرے گا، تو تیری تکبیر اکسیر بن جائے گی اور وہ تجھے کُندن بنا دے گی۔ نعرئہ تکبیر اگر کہتے وقت دل زبان کا ساتھ دے تو پھر ایسی تکبیر میں وہ قوّت پیدا ہو جاتی ہے کہ قیصر و کِسریٰ کے درو دیوار لرز اٹھتے ہیں۔ ورنہ ……
تو عرب ہو یا عجم ہو ترا لاَ الٰہ اِلاَّ
لُغتِ غریب جب تک ترا دِل نہ دے گواہی
ایسا انسان، جس نے یہ راز پا لیا اس کی زندگی حزن و ملال سے مُبرّا ہو جائے گی۔ اس کو نہ کوئی غم ہوگا اور نہ کسی کا خوف ۔ اقبال کہتے ہیں کہ اپنی خودی کو مضبوطی سے پکڑے رکھ اور اس کی حفاظت کر، جس کا طریقہ یہ ہے کہ سوائے اللہ کے کسی سے کوئی امید وابستہ نہ کر اور تو اپنی تقدیر خود رقم کر کہ بلاشبہ تو اس پر قادر ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس دنیا میں کسی ساقی کا محتاج نہ رہ … کیونکہ
مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو
اور تو کسی رہبر کی تلاش میں مارا مارا نہ پھر …… کیونکہ:
راہ تُو ، رہ رَو بھی تُو ، رہبر بھی تُو، منزل بھی تُو