ولید اور اسماء کا نکاح ھوا
اور تھوڑی دیر بعد رسمیں شروع ہو چکی تھیں۔۔ اب دودھ پلائی کی رسم پر بھی فریقین سے ٹھنی ھوئی تھی۔
یہ کیا بات ہوئی دلہا بھائی۔۔
پندرہ ہزار کی حیثیت ہی کیا ہے جو آپ نہیں دے رہے۔۔ ویسے لڑکی پندرہ ہزار دودھ کے گلاس کی قیمت ہے یا بھنیس کی قیمت مانگ رہی ھو۔۔۔ چلئیے جائیے ہوا کھائیے۔۔
ارے آؤ حسین!!! تم ہی نمٹو ان سے۔۔ ایک گلاس دودھ کی قیمت پندرہ ہزار چاند نے حسین کو قریب آتے ھوئے دیکھ کر ولید کے پاس جگہ دی تو اس نے نظر اٹھا کر اسٹیج پر لڑکے اور لڑکیاں کو دیکھ حسین کی نظریں اس حسن کی دیوی کو ڈھونڈ رہی تھی جو اس وقت یہاں نہیں تھی۔۔ وہ سنجیدہ سا ھو کر بیٹھ گیا اور سب کو دیکھ کر بولا لگتا ہے رنگ و بو کا سیلاب سا امڈا آ رہا ہے
ھوں تو کیا کہا رہے تھے تم چاند۔۔
پندرہ ہزار وہ یوں جسے کوئی معمولی بات ھو پھر ایک دم اچھلا۔۔
کیا!!
کیا ؟؟
پندرہ ہزار توبہ میری توبہ۔۔
سب لڑکیاں کان پکڑیں۔۔ شاباش!! جلدی سے پندرہ ہزار میں ایک دودھ کا گلاس توبہ۔۔۔
توبہ کریں۔۔۔
یہ بدتمیزی ہے سراسر بدتمیزی حسین بھائی ہم تو پندرہ ہزار لیے بغیر ٹلے گئی نہیں۔۔ لڑکیوں خاص بدمزہ ھوئیں۔۔۔ اقرار یہ کام ہمارے بس کا نہیں یہ مناہل کہاں ہے اسے بلاؤ پندرہ کے بیس نکلوائے گی۔۔ تب ہی مناہل اسٹیج پر آ گئی۔۔ لائیے ولید بھائی ہمارا نیگ دیجئے۔۔ اس نے حسین کو نظر انداز کر کے ولید کی طرف ھاتھ بڑھایا۔۔ حسین نے مناہل کے ھاتھ پر نظر ڈالی جس پر اس نے اپنا نام مہندی سے لکھ رکھا تھا۔
خوب رنگ لایا تھا۔۔ اور دل سے دعا کی کہ اللہ پلیز یہ ھاتھ اب کسی اور کا نہ ھونے دینا ورنہ آپ کا یہ گناہ گار بند مر جائے گا۔۔
ولید بھائی!!
آئندہ آپ اپنے ان بونگے دوستوں کو ساتھ مت لائیے گا۔۔ مناہل نے غصے سے حسین کو دیکھ کر کہا۔۔
ولید اس نوک جھونک سے محفوظ تو ھو ہی رہا تھا لیکن یہ اندیشہ بھی تھا کہ کسی کو کوئی بات ناگوار نہ گزرا جائے۔۔
جی بالکل آئندہ یہ دوست نہیں ہو گے ََ۔۔ نئی شادی پر دوست بھی نئے آئین گے کیوں ولی۔۔۔
مناہل حسین کی بات کو نظر انداز کرتی ولید اور حسین کے قدموں میں بیٹھ گئی۔۔ اب جوتا چھپائی کی رسم کرنی تھی۔۔ تب ہی حسین چیخنا۔۔ ارے یہ کیا غضب کر رہی ہیں آپ کی جگہ میرے قدموں میں نہیں میرے دل میں ہے اس نے اپنے دل کی طرف اشارہ کر کے مناہل کو بتایا
جو اس کو گھور رہی تھی۔
آپ اپنی فضولیات بند کریں مسڑ۔۔۔
اور ولید بھائی جوتا اتاریں آپ اور جیب ڈھیلی کریں ہمارا نیگ دیں۔۔ ولید نے اپنا جوتا اتار دیا تھا۔۔ سب لڑکیاں خوب خوش ھوئیں تھیں۔۔ مناہل نے جوتا اپنی گود میں رکھ لیا۔
تب ہی حسین نے چھپا کر جوتا مناہل کی گود سے نکال لیا تھا۔۔
جب مناہل نے نیگ مانگا تو حسین جلدی سے بولا جوتا تو ہمارے پاس ہے تو آپ کو نیگ کس بات کا دے۔۔
حسین نے جوتا سب لڑکیاں کو دکھایا تو مناہل سر پکڑ کر رہ گئی تو سب لڑکوں نے خوب شور مچا۔۔
مناہل یہ کیا کیا تم نے ہم تو ہار گئے یہ سب تمہاری وجہ سے ھوا۔
سب لڑکیاں مناہل سے خفا ہو گئیں مناہل تو غصہ سے اٹھ کر جانے لگی تو حسین نے اس حسن کی دیوی کی نازک سی کلائی اپنی مضبوط گرفت میں پکڑ لی،
ارے ارے اتنا غصہ اتنی ناراضگی،
ہمیں آپ کی ہار بھی گوارا نہیں اور پھر جس مقصد کے لیے آپ نے اتنی فائیٹ کی وہ تو لیتی جائیے،
حسین نے جیب سے ہزار ہزار کے کئی نوٹ نکال کر مناہل کی طرف بڑھائیں مناہل کھول اٹھی وہ اسے شعلے بری نظروں سے دیکھتی رہی۔
رکھیے انہیں اپنے پاس – مناہل نے سارے نوٹ حسین کے منہ پر اچھالے اور اسٹیج سے نیچے اتر آئی،
کچھ دیر کے لیے تو حسین سناٹے میں آگیا
ماحول پر خاموشی سی چھا گئی،
مناہل دوبارہ سٹیج پر نہیں گئی اور نہ ہی حسین دوبارہ کسی بات میں بولا – مگر حسین کی نظریں سارا وقت مناہل کو ہی ڈھونڈتی رہیں پر وہ کہیں نظر نہیں آئیں،
جب وہ نظر آئی تو وہ ایک کونے میں بیٹھی ہوئی تھی
اور چہرے پر بے حد غصہ تھا،
حسین جلدی سے اس کی طرف آیا تب ہی مناہل
غصے سے اٹھ کر چل پڑی، حسین نے جلدی سے اس حسن کی دیوی کا ہاتھ پکڑ کر sorry بولا،
پلیز اس طرح کی باتوں پر خفا نہیں ہوتے – مناہل جو اس کو کچھ اور ہی سمجھ رہی تھی اس کے sorry بولنے پر اس کا غصہ کچھ کم ہو گیا تھا،
دیکھیں یہ باتیں اور شوخیاں ہی رسموں کو رنگین بناتی ہیں اور ان لمحوں کو خوبصورت اور یادگار بناتی ہیں،
ان باتوں کو دل پر مت لیجئے،
میری کوئی بات بری لگی ہو تو معزرت چاہتا ہوں
مناہل کچھ نہیں بولی اور چپ چاپ وہاں سے چلی گئی اور حسین بھی وہاں سے اپنے دوستوں کے پاس چلا گیا،♡
لیکن نظریں ہر وقت اس حسن کی دیوی پر ہی جمی تھی، تب ہی مناہل جانے کس بات پر ہنسی تھی تو حسین اس جلترنگ سی ہنسی میں کھو سا گیا،
اور سوچ رہا تھا کہ کوئی اتنا خوبصورت بھی لگتا ہے ہنستے ہوئے ابھی سوچ ہی رہا تھا حسین جب کسی دوست نے اس کو آواز دی تو وہ ہوش کی دنیا میں واپس آیا،
جب سامنے دیکھا تو وہ جا چکی تھی،
دوبارہ دوست کی آواز آئی تو حسین اس کی طرف کی بڑھ گیا –
اتنے میں رخصتی کا شور اٹھ گیا- اسماء سب سے مل کر آخر میں مناہل کی طرف بڑھی – مناہل سے مل کر اور سب کی دعائیں لے کر پیا گھر رخصت ہو گئی،
رخصتی کے بعد سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے،
مناہل بھی بہت تھکی ہوئی تھی اس لیے گھر آتے ہی اپنے کمرے میں آرام کے لیے چلی گئی –
اگلے دن ولیمہ تھا لیکن مناہل کا دل نہیں تھا جانے کو لیکن جانا ضروری تھا-
اگر مناہل نہیں جاتی تو ولید اور اسماء ناراض ہو جاتے
ناجانے کی وجہ یونیورسٹی میں ٹیسٹ تھا مگر فنگشن اٹینڈ کرنا ضروری تھا وہ بھی جلدی سے تیار ہونے لگی
مناہل کے بھائی اور بھابھی تیار ہو کر مناہل کا انتظار کر رہے تھے-
تب ہی فرید صاحب کی آواز آئی۔۔ جلدی کرو بٹیا رانی دیر ھو رہی ہے۔ مناہل جی ابا جان بس آئی۔۔ بول کر جلدی جلدی تیار ھونے لگی۔ آج مناہل نے blue فراک جس پر white موتیوں کا نفیس کام ھوا تھا زیب تن کر رکھا تھا ہلکے سے میک اپ میں نازک سی جیولری پہنے کوئی پری ہی معلوم ہو رہی تھی۔۔ سب لوگ گھر سے نکل چکے تھے۔۔ ہال میں پہنچے ہی سب سے سے پہلی نظر اسٹیج پر پڑی جس پر بیٹھے ولید اور اسماء بہت ہی خوبصورت لگ رہے تھے دونوں ایک ساتھ۔۔ خوشی ان کے چہروں پر صاف عیاں تھی۔۔ مناہل جلدی سے اسٹیج پر آئی اور اسماء ولید سے ملی۔۔
حسین آج کچھ لیٹ آیا تھا کیونکہ کے اس کو دفتر میں کچھ ضروری کام تھا۔۔
ایک دو دفعہ مناہل نے بھی ادھر اُدھر نظریں گھماکر دیکھا پر وہ کیہں نہیں تھا۔۔ مناہل نے تو سکون کا سانس لیا کے شکر ہے کہ آج موصوف نہیں آیا۔۔
سارے لوگ بہت خوش تھے اور اسی پر سکون ماحول میں کھانا کھایا گیا۔
مناہل جب کھانا لے کر زرا سائیڈ پر ھوئی تو اس کی نظر حسین پر پڑی۔! جو فون پر کسی سے بات کر رہا تھا۔۔ آج بھی وہ ہمیشہ کی طرح فرش اور بہت ہی ہینڈسم لگ رہا تھا۔۔
مناہل تو اس دیکھتے ہی چڑ گئ۔۔
تب ہی مناہل اور حسین کی نظریں اک دوسرے سے ٹکرا گئیں۔۔ مناہل اپنی نظریں جھکا گئ۔۔ اور حسین بھی مناہل کے اس طرح شرمانے پر مسکراہٹ اچھال کر دوبارہ بات میں معروف ھو گیا۔۔
کھانا خوشگوار ماحول میں کھایا گیا۔۔ کھانے سے فارغ ہو کر سب لوگ آپس میں باتوں میں معروف ھو گئے۔۔ تب ہی موقع پا کر حسین مناہل کی طرف آیا اور سلام کیا۔۔ مناہل نے بے روخی سے سلام کا جواب دیا اور اٹھ کر جانے لگی۔
تب ہی حسین نے پکارا اپنا نام تو بتائیں۔۔ وہ غصے سے بولی آپ کو اس سے مطلب۔۔ اب حسین کچھ بولنے ہی والا تھا جب کسی لڑکی نے اس کو آواز دی۔۔
مناہل بات سنو۔۔
تو حسین زیرلب بولا مناہل او تو،محترمہ کا نام یہ ہے۔۔ اور مسکرا کر آ گئے بڑھا گیا۔۔
شادی کے ہنگامے ختم ہو چکے تھے سب نے سکون کا سانس لیا۔۔۔
دوسری جانب حسین بہت خوش تھا۔۔
اسماء اور ولید کی شادی حسین کی زندگی کی سب سے بہترین شادی ثابت ہوئی تھی۔
وہ محبت جسے انمول جزبہ سے واقف ھو گیا تھا۔۔ مناہل فرید اپنی تمام تر اکڑپن کے ساتھ حسین کی پہلی نظر کی محبت ثابت ہوئی۔
دوسری جانب مناہل حسین کی حرکتوں سے خاص بدگمان ھوئی تھی۔۔ کیونکہ اس کو اس قسم کے مرد بالکل نہیں پسند۔۔ جو سنجیدہ باتوں کو بھی مزاق میں اڑا دے۔۔
شادی کے بعد پھر کبھی حسین کی ملاقات نہیں ہوئی تھی مناہل سے۔۔
حسین نام کے سو کچھ نہیں جانتا تھا۔۔ بہت کوشش کے باوجود بھی وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم کر سکا۔۔
شادی کے دو روزہ بعد ہی مناہل نے یونیورسٹی شروع کر دی تھی۔۔ کیونکہ اس کے ایگزام قریب تھے وہ سب کچھ بھول کر بس اپنی تیاری میں
معروف ھو گئ۔۔
دوسری جانب حسین کو تو کسی بھی پل قرار نہیں تھا وہ بس جلداز جلد ولید سے اس بارے میں بات کرنا چاہتا تھا لیکن آفس کی معروفیت کی وجہ سے ولید سے ملاقات نہیں ہو پا رہی تھی۔۔
بہت دنوں بعد حسین ولید سے ملنے کے لیے آیا تھا تو معلوم ہوا کہ ولید تو ہنی مون کے لیے لندن گیا ھوا ھے۔۔ حسین یہ سن کر اور بھی اداس ہو گیا۔۔ اس کے بے قرار دل کو ایک پل کے لیے بھی چین نہیں آرہا تھا۔
وہ بس جلد از جلد ولید کے واپسی کے لئے دعا گو تھا۔
۔ ایک دن حسین آفس سے واپس آیا تو بہت اداس تھا
دانش کے پوچھنے پر بھی وہ کچھ نہیں بولا بس اپنی سوچ میں گم تھا۔۔
دانش کو پتہ تھا کہ آج موصوف کس وجہ سے اداس ہے
حسین دانش کو بہت پہلے مناہل کے بارے میں بتا چکا تھا
۔ سو وہ بولا چھوڑ یار!!!
زندگی میں اس قسم کے اتفاقات تو ھوتے ہی رہتے ہیں تو کیا بند ہر بار دل ہار دے اپنا۔۔
دانش حسین کو سمجھا رہا تھا لیکن اس کو ایک پل کے لیے بھی سکون نہیں تھا۔
کل مناہل کا ٹیسٹ تھا تو رات کو دیر تک جاگ کر اس کی تیاری کرتی رہی تھی۔۔ دیر تک جاگنے کی وجہ سے صبح فجر کی نماز ٹائم اس کی آنکھ نہیں کھلی۔۔ زبیدہ بیگم نماز فجر سے فارغ ہو کر مناہل کے کمرے میں آئی تو مناہل ابھی تک سو رہی تھی مناہل بیٹا اٹھو نماز کا وقت جا رہا ہے۔۔ مناہل کمبل کے اندر سے ہی بولی امی جان ابھی تو سوئی تھی۔۔ سونے دینے نہ۔۔۔ بیٹا اٹھ کر نماز پڑھ لو پھر یونیورسٹی بھی تو جانا ہے نا۔۔ مناہل کا تو بالکل بھی اٹھنے کا موڈ نہیں تھا نہ چاہتے ہوئے بھی جلدی سے اٹھ کر وضو کیا اور نماز کی نیت باندھ لی۔۔۔ اس کی عادت تھی بچپن سے کہ وہ روزانہ نماز فجر کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتی تھی روزانہ کی طرح آج بھی اس نے سورت رحمن کی تلاوت کی تھی ۔۔ جب تلاوت سے فارغ ہوئی تو سامنے وال کلاک پر نطر ڈالی جو 7:30 کا وقت بتا رہی تھی۔۔
اوہو!!!
اتنا ٹائم ھو گیا آج تو یقیناً لیٹ ہو جاؤ گی۔۔
جلدی سے تیار ھو کر آئی یہاں زبیدہ بیگم اور فرید صاحب اور مناہل کے دو بھائی جان ناشتے کی میز پر موجود تھے۔۔ وہ سب کو سلام کرتی ھوئی ناشتے کی میز پر بیٹھ گئی۔۔
کیا بات ہے آج ھماری گڑیا رانی بہت چپ چاپ بیٹھی ہے۔۔
کچھ نہیں بابا جانی بس آج یونیورسٹی میں ٹیسٹ ہے اس کی ٹینشن ھو رہی۔۔ اس نے فرید صاحب کو بتایا۔۔۔ تو کیا ھوا بیٹا اللہ سب اچھا کرے گا فکر نہ کریں آپ میری گڑیا۔۔
جی بابا جانی۔۔
سب لوگ ناشتہ کر کے فارغ ہوئے تب ہی ارج بھابھی نے بتایا کہ اسماء کی شادی کی مووی اور تصاویر آ گئی ہیں
۔ آج جب تم یونیورسٹی سے آؤ گئی تو سب مل کے مووی دیکھیں گے۔۔
جی ٹھیک ہے بھابھی ۔۔ مناہل مسکرا کر اللہ حافظ کرتی چلی گئی۔۔
مناہل جب یونیورسٹی میں داخل ہوئی تو اس کی دوست اس کے انتظار میں کھڑی تھی وہ اس کو سلام کر کے اس کے ہمراہ کلاس میں چلی گئی شکر ہے وقت پر کلاس میں آئی مناہل منہ میں بڑبڑای نہیں تو آج پھر سے سر نے ڈانٹ پلا دینی تھی برا سا منہ بنا کر کہا تو زرناب ہنس پڑی تب ہی سر قاسم کلاس میں انٹر ھوئے اور سلام کے بعد انہوں نے لیچکر سٹارٹ کیا تو سبھی خاموشی سے سنے اور لکھنے میں مصروف تھے۔۔ لیکچر کے اختتام پرسر نے بتایا کہ میں عمرہ کرنے کے لیے جا رھا ھو ں28یوم کے لیے اور آپ کو میری غیر موجودگی میں میرے کولیک آپ کو پڑھاےگے تاکہ آپ کی پڑھائی میں کوئی حرج نہ ھوں کیونکہ آپ لوگوں کے امتحانات میں بھی وقت کم ہے اس کے ساتھ ھی سب نے سر قاسم کو دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔۔ مناہل اور اس کی دوست کلاس سے باہر آگئی۔۔ سوچا کچھ کھا لیتے ہیں تو کنٹین کی طرف بڑھ گئیں۔۔
مناہل سوچ رہی تھی کہ کل نہ جانے کونسے کولیک آئے گے اور کیا پڑھا گے
مناہل اسی سوچ میں گم صم پریشان سی تھی۔۔ یار آج زرا بھی دل نہیں سر محسن کی کلاس لینے کا کیوں نہ گھر چلے زرناب۔۔۔۔
ھاں چلو۔۔
وہ بھی اس کی ھاں میں ھاں ملا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ اور دونوں اپنے اپنے بیگ اٹھائے یونیورسٹی سے باہر آئیں۔۔ مناہل نے اپنے بھائی حسام کو کال کر دی تھی کہ مجھے لینے آ جائیں۔۔ اتنے میں حسام بھائی بھی گاڑی لیے باہر کھڑے تھے۔
دونوں گاڑی میں سوار ہو گئیں اور گاڑی اپنے سفر پر رواں دواں ھوئی۔۔ انہوں نے پہلے زرناب کو اس کے گھر چھوڑا اور پھر اپنے گھر آگے۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...