حسین بن منصور حلاج کو نعرہ انا الحق بلند کرنے کے باعث کفر کا مرتکب سمجھا گیا اور اہلِ اقتدار اور مخالفین کے فیصلہ کے تحت نہایت اذیت کے ساتھ ہلاک کر دیا گیا۔ تاہم اس معاملہ میں وہ کافی متنازعہ شخصیت کا حامل تھا۔ کیونکہ بہت سے اصحاب علم و فضل اُسے حق بجانب سمجھتے تھے اور اس کے قتل کو غلط قرار دیتے تھے۔ زیرِ قلم مضمون اس معاملے کو ذرا وسیع تناظر میں دیکھتے ہیں ۔
حسین بن منصور ۸۵۷ء میں شیراز کے نزدیک بمقام طور پیدا ہوا۔ والد پیشہ کے اعتبار سے پارچہ باف تھا۔ مگر حسین علاج کے طورپر مشہوا کہ ایک دفعہ وہ کسی دھنیے کے پاس کسی کام کے لیے گیا۔ دھنیے دوکاندار نے مصروفیت کی مجبوری بتائی۔ منصور نے کہا تم میرا کام کر آؤ۔ تمھاری غیر موجودگی میں مَیں تمھاری کپاس سے بنولے نکال دوں گا۔ جب وہ لوٹا تو اُس نے دیکھا کہ ساری روئی دھنی ہوئی تھی۔ دھنیے نے حیران ہو کر کہا کہ تم تو جادوگر ہو۔ منصور نے جواب دیا کہ یہ جادو نہیں میں تو اس کوشش میں ہوں کہ جس طرح روئی اور بنولے الگ ہو گئے ہیں۔ میں اپنی ذات سے بھی دوئی کو الگ کر دوں۔ دوکاندار نے کہا تم واقعی حلاج ہو اور اس کے بعد منصور کو حلاج کہا جانے لگا۔
والد آبائی مقام کو چھوڑ کر تستر کے مقام پر آکر سکونت پذیر ہو چکے تھے۔ تو حسین بن منصور کو وہاں مقامی درسگاہ میں داخل کرادیا۔ جہاں قرآن مجید حفظ کیا۔ مگر ہم سبقوں اور اُستاد سے اکثر جھگڑا رہتا۔ جو اس کے پیچیدہ سوالات کا جواب نہ دے سکتے۔ حلاج نے درسگاہ کو خیر باد کہااور وہیں سہیل بن عبداللہ تستری کی درسگاہ میں چلا گیا جو پیر طریقت تھے اور علماء میں بلند مقام رکھتے تھے اس زمانے میں علم حدیث، فقہ ، تفسیر ادبیات، تاریخ ، تصوف، علم کلام اور فلسفہ کا دور دورہ تھا۔ حلاج کو تصوف سے خاص لگاؤ تھا۔ وہ مدرسہ میں چلا گیا اس وقت اُس کی عمر ۲۰ برس تھی ۔ سہیل تستری کے مدرسہ میں حلاج کا اپنا گوشہ، اپنی دنیا اوراپنا جہان تھا۔ وہ عالمِ استغراق میں ایسی باتیں کہہ دیتا جو شریعتِ ظاہرہ کے منافی ہوتیں اور سہیل تستری کے دل پر گراں گزرتیں۔ وہ حلاج کے اندر چھپی ہوئی چنگاری کو دیکھتے تھے جو کسی وقت اُسے بھسم کر سکتی تھی۔ انھوں نے حلاج کے والد سے شکایتاًکہا کہ حسین کی رفتار بہت تیز ہے وہ ضرورت سے زیادہ مضطرب، اشواقِ جدید میں مبتلا اور بڑے عزائم رکھتا ہے۔ اگر وہ شرع کے اندر رہے تو ٹھیک ہے ورنہ شوریدہ سر آدمی کے لیے اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔
سہیل تستری نے ایک دن حلاج کو خلوت میں سمجھایا کہ راز کی باتوں کا برسرِ عام کہنا جائز نہیں۔ وہ راز جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر منکشف کرتا ہے وہ عام لوگوں پر عیاں نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ جو تم کر رہے ہو یہ ایک طرح اَنا پسندی اورکم ہمتی ہے۔ حسین نے جواب دیا کہ پیرو مرشد مجھ سے جو بھی فعل سرزد ہوتا ہے اس میں میرا کوئی دخل نہیں ہوتا نہ اختیار ہے۔ سہل تستری نے کہا معلوم ہوتا ہے تم جبر یہ مسلک سے تعلق رکھتے ہو؟ حلاج بولا کہ مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ جو میرے دل پر گزرتی ہے وہ میں راز رکھوں۔ میرا یہ فعل پروردگارِ عالم کی خواہش کے عین مطابق ہے جو مجھے رازوں کے انکشاف میں شریک کرتا ہے وہ خود نہیں چاہتا کہ اس کا راز راز رہے ۔ اگر وہ چاہتا کہ اُس کے راز عام نہ ہوں تو وہ جہاں مجھے ان سے واقف کرتا ہے وہاں مجھے اس بات کا حوصلہ بھی دیتا ہے کہ ان کو سینے میں دبائے رکھوں۔ وہ تو عالم الغیب ہے۔ اسے ہر چیز کا علم ہے کہ کیا ہوتا ہے اورکس کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ سہیل تستری نے کہا اے حسین مجھے اتنی سکت نہیں کہ تمھاری گستاخانہ گفتگو سہہ سکوں۔ خداتم پر رحم کرے۔ اس گفتگو سے دلبرداشتہ اور اپنی بے چین طبیعت سے مجبور ہو کر حلاج مدرسہ چھوڑ کر عازمِ بصرہ ہوا۔ جو جملہ علوم کی ایک چھاؤنی کا مقام رکھتا تھا۔ جہاں وہ حسن بصری کے مدرسہ میں داخل ہو گیا مگر بصرہ میں ایسی جماعت سے رابطہ ہو گیا جو سیاسی طور پر حکومتِ وقت کے معتوب تھے۔ چنانچہ اس وجہ سے حلاج کو بصرہ چھوڑنا پڑا۔
حلاج بصرہ چھوڑ کر بغداد میں عمرو بن عثمان المکی کے سلسلۂ طریقت سے وابستہ ہوا اور خرقہ تصوف حاصل یا۔ عمرو عثمان نے حلاج سے پوچھا کہ سہیل بن عبداللہ تستری کی خانقاہ میں کیا کمی تھی جو ہمارے پاس چلے آئے ہو۔ حلاج نے جواب دیا کہ وہ نہایت مصلحت اندیش ہیں۔ عمرو عثمان نے کہا کہ تمھیں اصلاح کے لیے تہذیبِ نفس کی ضرورت ہے۔جب تک تم راہِ شوق اور سیر اللہ کے لیے خود کو تیار نہ کرو گے۔ یہاں آنا تمھیں کوئی نفع نہ دے گا۔ تمھاری بے قراری اور جو آگ تمھارے اندر بھڑک رہی ہے ایک دن تم اسی آگ میں جل مرو گے۔ انھوں نے حلاج کوسمجھاتے ہوئے کہا اگر حاکمِ وقت تمھیں کوئی قیمتی راز بتاتے ہوئے کہے کہ اسے افشانہ کرنا۔ ورنہ کڑی سزا جو موت ہو سکتی ہے دی جائے گی تو پھر بھی تم راز کو سینے میں نہیں رکھو گے؟ حلاج نے جواب دیا کہ اگر وہ راز حاکم وقت مجھ پر عیاں کرتا ہے واقعی اس قدر پوشیدہ ہے تو پہلی غلطی حاکم وقت کی ہے جس نے مجھے راز داں بنایا۔ جس راز کو وہ خود اپنے سینے میں نہیں رکھ سکاتووہ مجھ سے کیسے توقع کر سکتا ہے کہ میں اُسے سینے میں چھپاؤں جہاں تک سزا کا سوال ہے تو میرا سر ہر وقت زیرِ شمشیر رہتا ہے۔ اس صورت میں میرا جرم یہی ہوگا جو حاکمِ وقت سے ہو چکا ہے۔ اس پر عمروعثمان نے کہا تمھاری باتوں میں تمھارے لہو کا رنگ جھلکتا ہے کیونکہ تم گمراہ ہو چکے ہو۔
نتیجتاًحلاج نے عمرو عثمان المکی سے مراجعت کی اور اپنے سسر یعقوب الاقطع کے مشورے سے حضرت جنید بغدادی کی خدمت میں جا پہنچا۔ تاریخِ تصوف میں حضرت جنید کو بہت بلند مرتبہ حاصل ہے ۔ وہ مشہور صوفی سر سقطی کے بھانجے تھےؤ حضرت جنید کو سید الطائفہ، لسان القوم، طاؤس ، علماء سلطانِ محققین جیسے الفاظ سے تعظیم حاصل تھی۔ آپ مدرسہ نظامیہ کے استاد اعلیٰ، عالمِ بے بدل اور بغداد کے روحِ رواں تھے۔ انھیں علم کا سرچشمہ تسلیم کیا جاتا تھا۔ حضرت جنید نے حلاج کو سمجھایا کہ تم میں اَنا کا زیادہ ہی زعم ہے تم حسنِ صحبت کے تقاضوں کے علم نہیں رکھتے پہلے تم نے سہیل تستری کو چھوڑا۔ حسن بصری کے پاس نہ ٹھہر سکے۔ پھر عمرو عثمان المکی کو ناراض کیا۔ اب تم میرے پاس آکر ویسے ہی ہوش و حواس سے بیگانہ دعوے کر رہے ہو اور غلط نظریے رکھتے ہو۔ لہٰذا تم واپس سہیل تستری کے پاس چلے جاؤ جو تم پر توجہ کر سکتے ہیں۔ غرضیکہ حضرت جنید نے حلاج کو قبول نہ کیا کیونکہ وہ خود کو مرشد سمجھتے ہوئے کسی کو اپنا مرشد نہیں سمجھتا تھا۔ حضرت جنید نے حلاج کے رویے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے تختہ دار پر انجام کی پیش گوئی کی۔
۸۸۵ء میں حلاج نے فریضۂ حج ادا کیا ۔ قیام کے دوران تمام عرصہ کڑی دھوپ میں عبادت و ریاضت میں وقت گزارتا۔ اور چار لقمے روٹی اور چار گھونٹ پانی پر گزارا کرتا اور نماز کے وقت کے علاوہ اپنی جگہ سے نہ ہلتا۔ اس قدر کٹھن عبادت و ریاضت کرتے دیکھ کر کسی اہلِ نظر نے کہا کہ یہ ضرور خود کو کسی بڑی آزمائش میں اُلجھانے کی تیاری کر رہا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح نفس کشی کرکے میں بڑی بہادری دکھا رہا ہوں۔
حج ادا کرنے کے بعد حلاج تستر چلا گیا اور رشد وہدایت کا سلسلہ جاری کیا۔ جس کا مقصد اپنے اندر حق تعالیٰ کو تلاش کرنا تھا۔ اس دوران میں وہ اپنی کرامات کے سبب بہت مشہور ہوگیا۔ مٹھی بھر سائز کا انگور، دوبالشت گولائی کا سیب پیش کرتا ، بازو بلند کرتا تو ہاتھ درہموں سے بھرا ہوتا۔ سردی میں گرمیوں اور گرمی میں سردیوں کے پھل حاضر کرتا، سانپ کو کوڑا بناتاہر دروازے کے قلی کو چابی کے بغیر کھولتا، آتش کدے میں جس کے متعلق مشہورتھا کہ اس کی آگ کبھی نہیں بجھتی اس کو بجھایا اور دوبارہ روشن کردیا۔
حلاج نے بہت سیاحت کی، چین تک سفر کیا۔ مختلف علاقوں میں بہت ہمنوا، معتقدین اورپیروکار پیدا ہوئے۔ تاہم مخالفین کی تعداد بھی کم نہیں تھی جو اسے جادوگر، شعبدہ باز ، جاہل ، گمراہ ، متکبر قرار دیتے۔ حلاج کو امام ربانی بھی کیا گیا ہے ہو ہاتھ کو حرکت دیتا تو لوگوں پر مشک جھڑنے لگتا، شاخ ہلاتا تو کھجوریں جھڑنے لگتیں یا سکّے برسنے لگتے۔ کثرتِ ریاضت و مجاہدہ سے لباس کا مطلقاًخیال نہ ہوتا۔ بڑی بڑی جوؤں اور کیڑوں نے لباس کو مسکن بنا لیا تھا۔ خوراک بے حد کم تھی بکثرت نمازیں اور نوافل پڑھتا۔ ہمیشہ روزے رکھتا، موافق و ہمنوا صوفیا لوگ اُسے شیخ صالح اور امام ربانی کہتے۔ بقول حلاج جو شخص اطاعتِ الٰہی میں جسم کو پاک رکھے جسم قلب کو نیک اعمال میں مشغول رکھے لذاتِ دنیوی سے کنارہ کش ہو۔ نفس کی خاہشات سے پاک رکھے، پھر صفائی قلب اور تزکیۂ نفس کے نتیجہ میں اس کی ہستی بشریت سے پاک ہو جا تی ہے۔ تب خدا کی روح اُس میں حلول کرجاتی ہے ہر چیز اس کے تا بع ہو جا تی ہے۔ اس کے افعال خدا کے افعال ہوتے ہیں۔ حلاج لوگوں سے کہاتا کہ اُسے یہ درجہ حاصل ہو گیا ہے۔
لوگوں نے یہ بات وزیر مملکت حامد عباس کو بتائی کہ یہ شخص گمراہ ہو گیا ہے۔ جادو شعبدے دکھا کر معجزات کادعویٰ کرتا ہے۔ خدائی کا دعویٰ کرتا اورکہتا ہے کہ گھر بیٹھے حج ہو سکتا ہے۔ وزیر نے تحقیقات کرائی تو کئی منسوب شدہ الزامات درست پائے۔ چنانچہ حلاج کو قید کر دیا گیا۔
شیخ ابن عطار کا شمار بہت بڑے صوفیوں میں ہوتا ہے وہ حلاج کو حق پر سمجھتے تھے اور حلاج کی اسیری کے دوران اس سے ملنے جاتے تاکہ حلاج سے ان کی تحریریں اقوال حاصل کرکے محفوظ کر لی جائیں۔ حلاج کو قید کے دوران انھوں نے عوام میں بڑی جرات اور جواں مردی سے ان کی طرف داری کی۔ جس پر حکومت وقت کے کارندوں نے انھیں مار مار کر ہلاک کر دیا۔
شیخ ابو بکر اسحاق نے حلاج کو شب بیدار عبادت گزار قائم الیل کہا اور دنیاوی خواہشات سے مستغنی لکھا ہے۔ حلاج کو جب حضرت جنید سے اپنے مسائل کا تسلی بخش جواب نہ ملا تو وہ آشفتہ و غمگین ہوئے اور واپس تستر چلے گئے جہاں وہ وعظ و خطاب سے مخلوق کو اسرارِ خداوندی بتاتے رہتے اور لوگوں نے انھیں حلاج الاسرار کے نام سے یا د کرنا شروع کر دیا۔
ابن منصور حلاج کے عقائد ونظریات کا اندازہ ان کی تصانیف سے کیا جا سکتا ہے ۔ ابن ندیم نے ‘‘الفہرست’’ میں حلاج کی ۴۶ کتابوں کا ذکر کیا ہے اور سب کے ناموں کی تفصیل دی ہے۔ اسماعیل پاشا نے بھی انھی کتاب کی تصدیق کی ہے۔ البتہ اپنی فہرست میں ایک اور کتاب الجہیم الاصغر و الجہیم الاکبر کا بھی ذکر کیا ہے جو ابن ندیم کی فہرست میں نہیں۔ان تصانیف سے حلاج کے صاحبِ علم و دانش ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہتا۔ جسے مخالفین جاہل و مگراہ کے الفاظ سے اپنی ذاتی تعصب کو تسین بہم پہنچاتے تھے۔ اب یہاں حلاج کے نعرۂ انا الحق کا جائزہ لیا جاتا ہے جو دراصل اُس کے خلاف ساری مہم کی جڑ ہے۔
انا الحق کا جملہ ابن منصور کی مشہور تصنیف کتاب الطواسین میں مرقوم ہے۔جس کی دریافت کا سہرا فرانش کے شہرۂ آفاق مستشرق لوئی مسامینوں کے سر ہے۔ جس نے اپنی زندگی کے ۵۵ سال اس متنازعہ فیہ لیکن فکری اعتبار سے انتہائی با اثر صوفی اور شخصیت کی سوانح حیات اور اس کے نظریات کی تحقیق میں صرف کر دیے۔ جس کی تحقیق کے نتیجہ میں حلاج کے بارے میں نیم تاریخی، غیر مصدقہ افسانوی واقعات و روایات و متضاد بیانات رفتہ رفتہ کم ہوتے گئے اور اس کی بجائے عالامہ سطح پر اس کے نظریات کا مطالعہ کا آغاز ہوا۔ اور علامہ اقبال جیسی معتبر ہستی کے خیالات میں یکسر تبدیلی رونما ہوئی۔
طواسین، قرآنی حروفِ مقطعات، طاسین کا مجموعہ ہے۔ اس کا مفہوم لفظ سجدہ کے گرد پھیلا ہوا ہے۔ یہ کتاب عربی میں گیارہ ابواب پر مشتمل ہے جو حلاج کی فکری سرگذشت ہے۔ جس میں وہ عقائد اور فکری و منطق استدلال سے پیدا ہونے والی کشمکش کو زیر بحث لاتا ہے اور استدلالی ڈھانچے کو عقل کے ذریعے نا قابل اعتماد قرار دیتا ہے۔ اس کتاب کا محوری نقطہ نبی کریمﷺ کی ذات پاک، واقعہ معراج اور حقیقتِ نورِ محمدیہ ہے۔
حلاج کے نزدیک الوہی حقائق کا ادراک مخلوق کے بس کی بات نہیں۔ مشاہدۂ تجلی ذات کے اصلی مقام پر آنحضرت ﷺ کے سوا کوئی شخص فائز نہیں ہو سکا۔ معراج کا واقعہ آپﷺکے بلندئ مقام کی خبر دیتا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوہِ طور تجلی ذات کا موقع ملا مگر وہ بھی صاحبِ خبر ہیں۔ حضورﷺ اُن کے مقابلہ میں صاحبِ نظر ہیںؤ اس کے بعد منصور حلاج ہاتا ہے کہ میری مثال بھی ایسی ہے کہ میں جو کچھ کہتاہوں وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ مگر تعجب کی بات ہے کہ درخت سے انا للہ کی آواز آئے تو کوئی حرج نہیں اورمجھ میں انا الحق کی صدا بلند ہو توانکار اور مواخہ! آخر کیوں!موسیٰ علیہ السلام نے جو کچھ درخت سے سنا وہ درخت کی آواز نہیں تھی۔ بلکہ خود حق تعالیٰ کی آواز تھی۔ اس لیے جو کچھ میں کہتا ہوں اسے میرا کلام نہ سمجھنا چاہیے۔ ایک درخت اللہ تعالیٰ کی تجلی کا مزین بن جائے تو عجب نہین اور ایک ایسا انسان جو اشرف المخلوقات ہے اگر وہ الٰہی تجلی کا مرکز ہو جائے تو تعجب کیوں ہو؟
کتاب کے ایک باب میں حلاج نے بیان کیا ہے کہ حق تعالیٰ سے وصال اسی صورت میں ممکن ہے جب اپنی ذات کو فنا کر دیا جائے۔ اس کو راہِ سلوک کہا جاتا ہے۔ پہلے درجے میں انسان عالم ناسوت میں ہوتا ہے۔ دوسرا عالم ملکوت سے تعبیر کیا گیا ہے جسے عالم ارواح اور عالمِ غیب بھی کہتے ہیں ۔ تیسرا مقام عالمِ جبروت ہے جسے حقیقتِ محدایہ و مرتبۂ احدیت سے نسبت دی گئی ہے۔ یہ صفاتِ الٰہی کی عظمت و جلال کا مقام ہے یہ مرتبہ صور حضورﷺکو عطا ہوا ہے اور سب سے آخر مقام لاہوت ہے۔ حضورﷺپہلے تینوں درجات سے گزر کا مقام لاہوت پہنچ گئے اورجو قربِ خدا وندی آپ کو نصیب ہواوہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ لیکن اگر کوئی حضورﷺسے نسبت کاملہ اور عشق حقیقی رکھتا اور آپ کی شریعت و سنت کا پوری طرح پا بند ہو تو ایسے شخص کے لیے بعید نہیں کہ اُسے اعلیٰ مقام کی فضیلت سے حصہ نہ ملے۔
یہاں حلاج موسیٰ علیہ السلام، ابلیس اور فرعون کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ابلیس مقامِ ذات کا سب سے بڑا دانائے راز ہے۔ اُس نے اپنے اُس مکالمے کو قلمبند کیا ہے جو اُس کا عالمِ خیال میں ابلیس اور فرعون کے ساتھ استقامت و ثابت قدمی کے بارے میں ہوا۔ ابلیس نے کہا اگر میں آدم کو سجدہ کرتا تو استقامت اور ثابت قدمی کے مقام سے گر جاتا۔ فرعون نے کہا اگر میں موسیٰ علیہ السلام کے خدا پر ایمان لے آتا تو میں بھی وقار اور مردانگی کے مقام سے گر جاتا۔ اس پر حلاج نے کہا کہ میں بھی اپنے قول اناالحق سے باز آجاؤں تو مقامِ عزت و وقار سے دور جا پڑوں گا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ابلیس و فرعون جو دونوں مردود ہیں اتنے ثابت قدم ہوں اور مَیں جو حق پر ہوں اور حق تعالیٰ کا ایک پرتوہوں اور اپنے دعویٰ انا الحق سے دست بردار ہو جاؤں۔ اس لیے کہوں گا کہ ثابت قدمی اور الولالعزمی میں ابلیس اور فرعون میرے اُستاد ہیں۔ ابلیس نے سجدہ سے انکار کرکے اللہ تعالیٰ کی شانِ کبریائی اور یکتائی کو قائم رکھا اور آدم کو سجدہ نہ کرکے کسی غیر کو اُس کا شریک نہ ٹھہریا۔ گویا بقول غالب:
وفاداری بشرطِ اُسواری اصل ایماں ہے
پروفیسر نکلسن لکھتا ہے کہ حلاج نے دو لفظوں میں انا الحق کا ایسا جملہ زبان سے ادا کیا ہے جسے اسلام نے معاف کر دیالیکن فراموش نہیں کیا یہ ایک ایسا وجدانی اور روحانی فارمولا تھاجس پر صوفیانہ دبستان کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ رومی نے اناالحق کہنے والوں کو اس لوہے سے تشبیہ دی ہے جسے آگ میں ڈالا جائے اورلوہے کا رنگ آگ کی مانند ہو جائ۔ رومی کا کہنا ہے کہ بعض کے نزدیک حلاج انا الحق کہہ کر شرع سے آگے نکل گیا ہے مگر اہل بصیرت نے اُسے خلافِ شرع نہیں سمجھا۔ کیونکہ حلاج کو اناالحق کی ماہیت کا علم تھا اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے باخبر تھا کہ جو کچھ ہے ذاتِ بای تعالیٰ ہے اور مَیں بھی اسی ذاتِ باری تعالیٰ کی شعاؤں سے منور ہوں۔
ابن ِ عربی نے بھی اناالحق کی تشریح تمام تر وحدت الوجود کی روشنی میں کی ہے۔
حلاج کی طرح حضرت بایزید بسطامی کا قول سبحانی ما اعظم شانی اور ابن فرید کا قول اناالحی سے بھی وحدت الوجود کا نظریہ ثابت کرنا قرین قیاس ہے۔
امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں کہ حلاج کا نعرۂ انا الحق یہ معنی رکھتا ہے کہ کائنات میں اصل وجود حق ہے اس کے ما سوا جو کچھ ہے وہ ہلاک ہونے والا یعنی عدم ہے۔
امام غزالی فرماتے ہیں کہ حالتِ جذب و مستی کے عالم میں ماوراء عقل حقائق کا ادراک اتنا یقینی ہوتا ہے جیسے کوئی شخص ہاتھ سے کسی چیز کو چُھو کر اس کے وجود کو حقیقی سمجھتا ہے۔
بایزید بسطامی مزید کہتے ہیں کہ عرش مَیں ہوں ، کرسی مَیں ہوں، لوح و قلم مَیں ہوں، جبرئیل و میکائیل و اسرافیل مَیں ہوں، جو شخص حق تعالیٰ میں محو ہوجاتا ہے وہ حق بن جاتا ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی لکھتے ہیں کہ بعض مشائخ کے اقوال جو بظاہر شریعت کے مخالف ہوتے ہیں۔ بعض لوگ انھیں توحیدِ وجودی پر محمول کرتے ہیں جیسے حلاج کا نعرہ انا الحق اور بایزید کا سبحانی کہنا۔ چونکہ غلبہ حال میں ماسویٰ حق تعالیٰ کے ہر شے ان کی نظر سے پوشیدہ تھی تو ایسے الفاظ صادر ہو گئے۔ انا الحق کا معنی ہے کہ حق ہے۔ مَیں نہیں ہوں، حضرت داتا گنج بخش فرماتے ہیں کہ حلاج سرسستانِ بادۂ وحدت اور مشتاقانِ جمال احدیت تھے اور اپنے حال میں اس قدر مغلوب ہو جاتے تھے کہ ان میں استقامت باقی نہیں رہتی تھی اور ایسے صوفیاء کی اتباع نہیں کرنی چاہیے۔ تاہم وہ حلاج کی عزت اورعظمت کے قائل تھے اور اُن کی سزا کےخلاف تھے۔
اب دیکھیں علامہ اقبال کیا فرماتے ہیں۔ پہلے پہل اقبال بھی حلاج کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے تھے مگر جب انھوں نے ان کی کتاب الطواسین کا مطالعہ کیا جس کا مرکز حضورﷺ کی ذات اقدس سے والہانہ شگفتگی و وابستگی ہے تو ان کے خیالات میں تبدیلی واقع ہوئی ۔ پھر انھوں نے دیکھا ہوگا کہ اُن کے مرشد معنوی مولانا روم بھی حلاج کو پسند کرتے ہیں توان کی عقیدت اور بڑھ گئی چنانچہ وہ کتاب الطواسین کو بہت عزیز رکھتے تھے۔
حلاج کے اناالحق نے تصوف کی دنیا میں حشر برپا کر دیا۔ اُس نے برملا کہا مجھے مار ڈالا جائے، میرے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں ، مَیں اپنے قول اناالحق سے باز نہیں آؤں گا اور واقعتاًاُسے تختہ دار چڑھایا گیا ۔ اُس کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالےگئے مگر وہ اناالحق کہنے سے باز نہ آیا۔ اس نے انا الحق کے معانی بیان کیے۔ مگر لوگ اس کا صحیح مفہوم نہ سمجھ سکے اور اُس کے خلاف موت کا فتویٰ دے دیا گیا۔ مگر صاحب نظر بزرگانِ دین نے اُسے خراجِ عقیدت پیش کیا۔ جیسا کہ بیان کر دیا گیا ہے۔
تو اب یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ حلاج نے ‘‘انا’’کو خدا کے متشابہ قرار دیا ہے۔ خدا نہیں کہا حلاج کہتا ہے کہ رسول اکرم ﷺہی انا کے مفہوم کو جانتے ہیں ۔ انسانیت کی معراج بھی وہی تھے۔وہ جب حقیقت کے اعلیٰ ترین مدارج پر پہنچے تو قرآن حکیم کے مطابق ان میں دو قوسوں سے بھی کم فاصلہ تھا ۔ حلاج نے اس آیت کا بار با رحوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ رسول اکرم ﷺبلند ترین مدارج پر ہوتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ سے الگ رہے ان میں استقامت تھ ۔ وہ صابر و شاکر تھے ، بھلا وہ اناالحق سے مَیں خدا کیسے کہہ سکتے تھے۔ بلکہ اُس کا عقیدہ یہ تھا کہ محبت کرنے کی حقیقت یہ ہے کہ تو دلدار کے پہلو میں کھڑا رہے۔ اپنے اوصاف ترک کر دے اور حق کی صفات سے متصف ہو جائے۔ گویا خالق و مخلوق کوایک دوسرے سے جدا سمجھتے ہیں کہ حق ہمیشہ حق رہے اور مخلوق مخلوق۔
علامہ اقبال بھی انسان کو خدا کا حصہ قرار دیتے ہیں مگر اُسے خدا نہیں کہتے۔ مثلاً:
ہاتھ ہے اللہ کا بندہِ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کارکشا کارساز
خاکی و نوری نہاد بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیاز
ان تصریحات کے بعد بھی اگر کوئی کہے حلاج نے خدائی کا دعویٰ کیا تو اُسے جہالت کے سوا کیا کہیں گے اورمحض ضد اور جھوٹی اَنا کے تحت حلاج کو سولی پر چڑھا دیا گیا۔
خیال آتا ہے کہ حلاج جیسا شخص جو حددرجہ عبادت گزار، ریاضت و مجاہدے میں مستغرق، مستقل روزہ دار، دن رات میں دو دفعہ چند نوالے روٹی اورچند گھونٹ پانی پر زندہ رہنے والا اورنفیس لباس و جسمانی و نفسانی خواہشات سے مستغنی ہو۔ آخر اس کی اتنی عبادت و ریاضت و نفس کشی عشقِ الٰہی کے لیے نہیں تھی تو کس کے لیے تھی ؟ ایسا شخص جو دن رات اللہ تعالیٰ کے حضور قیام و سجود میں رہتے ہوئے اپنی ہستی کو خدا کی ہستی میں معدوم جان کر ‘‘اناالحق’’ پکار اٹھے۔ گویا صرف اللہ تعالیٰ ہی حقیقت ہے ما سوا کچھ نہیں ہے تو اُس پر خدائی کا دعویٰ کرنے کا الزام لگا کر ہلاک کرنا کہاں تک حق بجانب ہے۔ اس کی عبادت تو احسان کی تعریف میں آتی ہے گویا:
اصل نماز ہے یہی ، روحِ نماز ہے یہی
میں تیرے روبرو ہوں تو میرے روبرو رہے
تو ظاہر ہے ہوا کہ حلاج کو ہلاک کرنے والے برسرِ اقتدار دشمن طبقے اور گروہ مخالفین میں اُس کی بے باک گفتگو کی تاب لانے کا حوصلہ نہ تھا۔ کیونکہ سچ آکھیاں بھانپڑ مچدا اے۔ اور چونکہ حلاج بھی نعرۂ انا الحق بلند کرنے پر قائم رہا اور ہلاکت سے بالکل خائف نہ ہوا تو انجام تو یہی ہونا تھا کہ ‘‘کجھ شہر دے لوک وی طالم سن۔ کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی’’۔ خود حلاج کی دوستیوں میں اس کا ذکر موجود ہے اور یہی اندیشہ ہائے گوں ناگوں اس ضمن میں اقبال کہتے ہیں :
حیات کیا ہے؟ خیال و نظر کی مجذوبی
خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناگوں
یعنی اقبال نے زندگی کے اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے خیال و نظر کی مجذوبی یعنی جذبۂ عشق کے تحت دیوانہ وار جدوجہد، عمل پیہم کو لازمی قرار دیا ہے۔ مگر اس طوفانِ آفرین میں توازنِ استقامت اور جوش کے ساتھ ہوش ضروری ہے۔ جس سے حلاج ارادتاًبے نیاز رہا۔ لہذا وہ ناراض معاشرے اور کرگسوں کے انتقام کا شکار ہوگیا۔
اقبال خود بھی مذہبی تقلید پسند ٹھیکداروں کی تنگ نظری کا شکار ہوا۔ اس کے کلام اور اسرارِ خودی کی وجہ سے کفر کے فتویٰ لگے اور اگر اُس کے دکن میں دئیے گئے انگریزی کی اعلیٰ انشاء پردازی میں دانشورانہ اور مجتہدانہ لیکچر اُن کی سمجھ میں آ جاتے تو ممکن ہے اقبال کو بھی منصورثانی بنا دیا جاتا ۔
بہرکیف تقلید پر مضرِ ر جعت پسند علما نے اپنی تنگ نظری اور کم علمی کی وجہ سے اسلام کی ارتقائی حیثیت کبھی قبول نہیں کی۔ بلکہ زمانے کے جدید تقاضوں کے خلاف اپنی طرزِ کہن پر اڑتے ہوئے مطلق العنان، جابر اور عیش پرست حکمرانوں کے جامد و ساکت اور کوتاہ اندیشہ رویوں کو خوف یا طمعِ زر کے تحت اپنے فتوؤں سے تحفظ دے کر اسلامی دنیا کے لیے زمانے کے حالات کے مطابق ترقی کرنے کے راستے مسدود کردیے۔ نتیجہ سب کے سامنے کہ اللہ تعالیٰ کے غالب دین کے عالم اسلام میں پیروکارانِ تقلید اور رجعت پسند عانصر کی وجہ سے بے علمی، بے عملی کے ہاتھوں آج مغلوب و مقہور، غلامی، ذلت اور پس ماندگی میں مبتلا ہیں اور نجات کے لیے کسی مردِ غیب کی آمد میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر بیٹھے ہیں۔ اقبال نے صحیح کہا ہے:
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا خدا فریبی کہ خود فریبی؟
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
اقبال نے الطواسین کا مطالعہ کیا تو ان پر منکشف ہوا کہ حلاج نے فنائے خودی نہیں بلکہ اثبات خودی کا درس دیا تھا۔ چنانچہ دیکھتے ہیں کہ اقبال نے جا بجا حلاج کے خیالات سے اتفاق کیا ہے اور انا الحق کی شرع اس طرح کی ۔جو حلاج کا مقصود تھا۔ وہ حلاج کے اور اپنے خیالات میں اس قد ر مماثلت پاتے ہیں کہ اپنے آپ پر حلاج کی تشبیہ دیتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ انھوں نے بھی حلاج کی طرح ہی راز خودی فاش کیا ہے۔ مثلاً:
حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر
ایک مردِ قلندر نے کیا راِزِ خودی فاش
کیا نوائے انا الحق کو آتشیں جس نے
تری رگوں میں وہی خوں ہے قم باذن اللہ
اور جا وید نامہ میں کہتے ہیں کہ :
کم نگاہاں فتنہ ہا انگیختند
بندۂ حق را بدار آویختند
اور جب اقبال حلاج سے پوچھتے ہیں کہ تمھارا گناہ کیا ہے؟ تو کہتا ہے کہ میرا گناہ وہی ہے جو تمھارا ہے لہٰذا تمھیں بھی ڈرنا چاہیے۔ کیونکہ تمھارے دور میں بھی کم نگاہاں افراد بکثرت موجود ہیں جو معلوم تمھارے ساتھ کیا کر گزریں گے؟
آنچہ من کردم تو ہم کردی بترس
محشر بر مردہ آوردی بترس
چنانچہ معلوم ہوا کہ علامہ اقبال بھی وہی کچھ کر رہے ہیں جو حلاج نے کیا تھا بلکہ وہ نہ صرف خود اناالحق کہہ رہے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی کہنے کا پیغام دے رہے ہیں۔ اس فرق کے ساتھ کہ اقبال کا ‘‘اناالحق’’ ہستی انسان کو صرف باطل کی طرح مٹانے کی بجائے ، قطرے کے اندر دجلہ دکھاتا ہے۔
جاوید نامہ میں اقبال نے جہاں مشاہیرِ اسلام کا ذکر نہایت دلپذیر انداز میں کیا ہے۔ وہاں حلاج کو نمایاں خصوصیت حاصل ہے جس کی زبانی علامہ نے بڑے دلکش اشعار کہلوائے ہیں۔ جو لازماًحلاج کی کتاب الطواسین کا کرشمہ ہیں۔حلاج کے متعلق متشرق میسی نیون نے لکھا ہے کہ وہ تقدیر پرستی کا قائل تھا اورانسان کو افعال و اعمال میں مجبور سمجھتا تھا۔ مگر علامہ اقبال کے جبرکے نہیں قدر کے قائل ہیں۔ حلاج کے جبر کی بڑی خوبصورتی سے تعریف کرتے ہیں اور اسے قدر کا ہی ایک رخ قرار دیتے ہیں۔ اشعار ملاحظہ ہوں:
حلاج
ہر کہ از تقدیر دارد سازو برگ
لرزد از نیروئے او ابلیس و مرگ
جبر، دینِ مردِ صاحب ہمت است
جبر مرداں، از کمالِ قوت است
پختہ مردے پختہ تر گردد زجبر
جبر مرد خام را آغوشِ قبر
جبر خالد عالمے برہم زند
جبر ما بیخ دبنِ ما برکند
کارِ مرداں است تسلیم و رضا
بر ضعیفاں راست ناید ایں قبا
یہ وہ جبر ہے جس سے اختیار ملتا ہے۔ یعنی ضبطِ نفس بذریعہ اطاعت الٰہی ۔
می شود از جبر بیدا اختیار
ان اشعار میں انھوں نے حلاج کے نظریۂ جبر کا دفاع کیا ہے کہ مردِ کامل کے لیے جبر بھی قوت بن جاتا ہے جیسے حضرت خالد بن ولید کے لیے۔ مگر نا پختہ لوگوں کے لیے جبر کا نظریہ موت کی حیثیت رکھتا ہے ۔ تسلیم و رضا کا سبق پختہ کار لوگوں کے لیے مناسب ہے۔ کمزوروں اور غلاموں کے لیے نقصان دہ ہے۔ دراصل اقبال کی شاعری مسلمانوں کو ترقی ے مدارج طے کرنے کے لیے رقم کی گئی ہے۔ اہلِ اسلام کو غلامی کی زنییروں سے آزاد کرنے کے لیے انھوں نے جبر کی بجائے قدر اور خود انحصاری کی راہ کو پسند کیا۔ لیکن اگر کوئی جبر کا قائل بھی کارہائے نمایاں سرانجام دے جیسے حلاج نے جاں کی بازی لگائی تو انھیں اُس کے جبر پر پیار آنے لگتا ہے۔ چنانچہ وہ مرد مومن کے بر کو بھی قدر ہی قرار دیتے ہیں۔
علامہ اقبال نے جاوید نامہ میں حلاج، قرۃ العین، طاہرہ اور غالب کو سفر فردوس میں فلک مشتری پر اکٹھے دکھایا ہے۔ ان تینوں کو اقبال نے طبقہ عشاق میں شمار کیا ہے۔جن کا عقیدہ ہے ۔ کسے کہ کشتہ نشد از قبیلۂ ما نیست۔ عشق کے اِن شہسواروں سے اقبال کو بے حد پیار ہے۔ وہ ان سے مختلف سوالات کرتے ہیں۔ جن میں حلاج سے کیے گئے سوالات و جوابات خاص اہمیت رکھتے ہیںؤ اقبال نے ان پاکیزہ ارواح کو جنت میں داخلہ نہیں دیاگیا۔ بلکہ انھوں نے خود ہی جنت میں پابند ہو کر رہنا پسند نہیں کیا اور کائنات میں آزادانہ سیر بینی اور گردش کو ترجیح دی ہے۔ اقبال نے جب حلاج سے پوچھا کہ وہ مومنوں کی جنت سے کیوں دور رہتے ہیں تو وہ جواب دیتا ہے کہ جو شخص نیک و بد کے فلسفہ سے آگاہ ہے اُس کی روح جنت میں نہیں سما سکتی۔ وہ مُلاّاور آزاد مردوں کی جنت کا فرق بتاتا ہے اور وضاحت کرتا ہے کہ فراق سے عشق کی آگ بھڑکتی ہے اور یہی عشاق کے لیے سازگار ہے۔ اقبال بھی وصال سے زیادہ فراق کے قائل ہیں اور مُلاّ کی جنت کو پسند نہیں کرتے۔ حلاج کی زبانی اقبال نے اپنے خیالات کا اظہار اشعار میں اس طرح کیا ہے:
مردِ آزا دے کہ داند خُوب و زِشت
می نگنجد رُوحِ اُو اندر بہشت
جنتِ مُلاّ مئے د خور و غلام
جنتِ آزاد گاں سیرِ دوام
جنت مُلاّ خور و خواب د سُرور
جنت عاشق تماشائے وجود
حشرِ مُلاّ شقِّ قبر و بانگِ صور
عشقِ شور انگیز خود صبحِ نشور
ایں دلِ مجبور ِ ما مجبور نیست
ناوکِ ما از نگاہِ حورُ نیست
زیستن این گونہ تقدیرِ خودی است
از ہمیں تقدیر تعمیرِ خودی است
پھر وہ حلاج سے جناب رسالتمآب ﷺکی عظمت کا راز پوچھتے ہیں۔ کیونکہ اُسے رسولِ اقدس کی ذات پاک سے والہانہ عقیدت و محبت تھی۔ اوراس کے جواب میں حلاج سے لاجواب شعر کہلوائے ۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
پیش اُو کیتی جبیں فرسودہ است
خویش را خود عبدۂ فرمودہ است
عبدۂ از فہم تو بالا تر است
ز آنکہ او ہم آدم و ہم جوہر است
عبدۂ صورت گرِ تقدیر ہا
اندر و ویرانہ ہا تعمیر ہا
عبدۂ ہم جانفرزا ہم جانستاں
عبدۂ ہم شیشہ ہم سنگِ گراں
عَبد دیگر عبدۂ چیزے دگر
ما سراپا انتظار اُو منتظر
عبدۂ دہر است ودہر از عبدۂ ست
ما ہمہ رنگیم اُو بے رنگ و بُو ست
عبدۂ با ابتدا بے انتہا ست
عبدۂ را صبح و شامِ ما کجاست
کس ز سرِّ عبدۂ آگاہ نیست
عبدۂ جُز سرِّ الاّ اللہ نیست
جاوید نامہ میں حلاج کی زبان سے عبدۂ کی تعریف میں جو کہا گیا ہے وہ اُنھی نادر عشقِ رسالت میں ڈوبے خیالات کی بازگشت ہے جو حلاج نے اپنی کتاب الطواسین میں بیان کیے ہیں۔ لگتا ہے کہ الطواسین کے مطالعہ سے اقبال میں ابلیس کے متعلق خیالات میں بڑی تبدیلی پیدا ہوئی اور اس کے بعد وہ آئندہ اشعار میں رومی کی زبان سے ابلیس کو خواجۂ اہلِ فراق ہی کہتے ہیں۔ ابلیس خدا تعالیٰ سے کہتا ہے کہ مجھ سے بڑھ کر علام میں تیرا شناسا کہاں ہے؟ مجھے تجھ سے محبت ہے ایسی محبت جو شدیدی بھی ہے اور قدیمی بھی ہے۔ اب میں تیرے سوا کسی اورکو کیسے سجدہ کروں؟
عالم سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق
وصل میں مرگِ آرزو ہجر میں لذتِ طلب
گرئ آرزو فراق شورش ہائے و ہُو فراق
موج کی جستجو فراق نقطرے کی آبرو فراق
جدائی شوق را روشن بصر کرد
جدائی شوق را جوئندہ تر کرد
بہرکیف ابلیس کے بارے میں اقبال کے تحسین آمیز خیالات کے باوجوداُسے مردود سمجھتے ہیں کیونکہ اُس نے تکبرمیں آکر خدا کی نافرمانی کی اور اُسے تقدیر و مجبوری کا نام دیا۔ تاہم معلوم ہوتا ہے کہ ابلیس کا آدم کو سنجدہ نہ کرنا ایسی مشیت خدا وندی تھی۔ مرشد اقبال حضرت رومی کے بقول انکار سجدہ کو مشیت الٰہی کہنے پر عزازیل کو ابلیس کا لقب ملا۔ کہ اس نے اپنے جرم کا الزام اللہ کو دیا (تقدیرِ الٰہی) اور مردود ٹھہرا ۔آدم و حوا نے شجرِ ممنوعہ کے پاس جانے کو اپنا جرم کہا اور خلافتِ ارضی کے سزا وار ٹھہرے۔ اقبال اسی فکر کا نمائندہ ہے۔ وہ جمادات و نباتات کو تقدیر کا ذاتی مگر انسان کو احکام الٰہی کا پابند تسلیم کرتا ہے۔جس نے آدم کی ابلیس پر فوقیت ظاہر کرکے اُسے دنیا میں بھیج کر رزمگاہ حق و باطل کے لیے تیار کرنا تھا۔ بقول اقبال:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا مروز
چرچراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
اب ابلیس کے بارے میں اقبال کے خیالات میں حلاج سے زیادہ وسعت ہے۔اگرچہ حلاج کے خیالات نے ہی اقبال کے خیالات کو مہمیز لگائی ہے۔
حلاج کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد آخر میں اُس کے دلخراش، عبرتناک انجام کی طرف آتے ہیں۔ یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ حلاج انوکھی اور الگ تھلگ طبیعت و مزاج کا مالک تھا۔ اُس کی فطری ذہانت ، فطانت اور احساس برتری نے اُسے ہمیشہ بے چین اور سیماب پا رکھا۔ اُس کے ذاتی احساسِ برتری نے اپنے برگزیدہ معلمانِ کرام، ہمدرسوں، ہم جلیسوں سمیت کسی کے آگے جھکنا یا سمجھوتہ کرنا نہ سیکھا تھا۔ چنانچہ وہ اپنے اوّلین استاد سہیل تستری ، حسن بصری دیگر اصحاب علم و فضل پھر بغداد میں عمروعثمان المکی اپنے سسر اور حضرت جنید بغدادی اور کسی سے بھی نباہ نہ کر سکا۔ جس کی بنیادی وجہ حلاج کے پیچیدہ، غیر شرعی، اختراعی سوالات ہوتے۔ یا خلافِ شرع بیانات۔ مثلاًایک دوست کو کہا کہ میں قرآن حکیم کا مثل لکھ سکتا ہوں۔ جس پر وہ شخص ناراص ہو کر ہمیشہ کے لیے چلا گیا۔ اس طرح حلاج نے عمرو عثمان المکی اور حضرت جنید بغدادی کا الٰہی راز افشا نہ کرنے کی تلقین کو تکرار سے ردّ کر دیا۔ چنانچہ حضرت جنید بغدادی نے پیش گوئی کہ میں تمھیں سولی پر دیکھ رہا ہوں۔ حلاج کی تلوّن مزاجی کے پیش نظر غالب نے اُس کے بارے میں ٹھیک کہاہے۔
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن
ہم کو منظور تنگ ظرفئ منصور نہیں ۔
(دیوانِ غالب)
مگر حلاج کا اپنا نظریہ اور رویہ فیض کے شعر کے مطابق اس طرح کا ہے:
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
اس کے باوجود مولانا سید سلیمان ندوی کی رائے میں بڑا وزن ہے کہ حلاج شہیدِ شریعت سے زیادہ قتیل سیاست ہے۔ کیونکہ خلیفہ وقت مقتدر باللہ پر لے درجے کا عیاش دن رات عورتوں اور خبرو لوندوں میں گھرا رہتا ہے۔اُس کے درباری، وزیر قاضی ، حاجب، سپہ سالار، کارندے سبھی کرپٹ، بددیانت، زرپرست، عیاش اور رشوت خور تھے۔ خلافتِ عباسیہ زوال کی طرف رواں دواں تھی۔ چنانچہ خلیفہ اور اہلکارانِ دربار حلاج کی عوام میں مقبولیت سے خوفزدہ تھے اور اس کی تبلیغی تحریک کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ ان حالات میں اُن کے پاس حلاج کو ہلاک کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ چنانچہ اُس پر اس طرح کے الزام لگا کر موت کا فتویٰ حاصل کیاگیا۔ کہ حلاج:
۱-انا الحق کہہ کر خدائی کا دعویٰ کرتا ہے۔
۲-حلول کا قائل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی اُس میں اس طرح حل ہے ۔ جس طرح شراب میں صاف پانی۔
۳-حج کو لازم نہیں سمجھنا اور کہتا ہے کہ گھر بیٹھے حج ہو سکتا ہے۔
۴-قرامطی فرقے سے تعلق رکھتا ہے(حالانکہ وہ سنی تھا، قرامطی نہیں تھا) جنھوں نے صبح شام صرف دو دو رکعت نمازیں فرض قرار دی ہیں۔ اُس کے علاوہ زکوۃ ختم، غسلِ جنابت غیر ضروری، بہن بیٹی کا رشتہ حرمت ختم، علی ہذا القیاس۔
چنانچہ آٹھ سال سات ماہ قید کے بعد آخر سزا پر عملدرآمد اس طرح کیا گیا کہ پہلے اُسے ایک ہزار کوڑے لگائے گئے۔ روزانہ اُسے سولی پر لٹکایا جاتا اور سنگ زنی کی جاتی۔ شورش سے بچنے کے لیے باقی سزا جلدی اس طرح دی گئی ۔ پہلے دن اُس کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے۔ اُس دن اُس کے دوست ابو بکرشبلی نے دریافت کیا۔ بتاؤ تصوف کسے کہتے ہیں ؟ جواب دیا کہ جو تم دیکھ رہے ہو۔ یہ اُس کا ادنیٰ درجہ ہے۔ پوچھا کہ اعلیٰ درجہ کیاہے؟جواب دیا کہ کل دیکھ لینا۔ دوسرے دن اُس کے کان، ناک ، زبان کاٹے گئے اور آنکھیں نکالی گئیں۔ پہلی دن ہاتھ کٹنے کے بعد حلاج نے خون آلودہ بازو چہرے پر مل لیے تاکہ خون نکل جانے کی وجہ سے چہرے پر زردی سے وہ کمزور، خوفزدہ اور غمگین نظر نہ آئے ۔ گویا وہ چیلنج قبول کر رہا تھا۔ بقول فیض:
کرو کج جبیں پہ سر کفن مرے قاتلوں کو گمان نہ ہو
کہ غرور عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا
جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
(فیض احمد فیض)
تیسرے دن حلاج کی گردن اتار دی گئی۔ اُس کے جسم کو جلا دیا اور راکھ دریائے دجلہ میں بہا دی گئی۔ اس تمام اذیت ناک اور انتہائی وحشیانہ سزا کو حلاج نے نہایت صبر، حوصلے، اطمینان اور استقامت سے برداشت کیا۔ گویا اُسے سزا کی بجائے جز مل رہی ہے۔ اُسے اپنی منزل مل گئی اور وہ اپنے انجام پر شادشاکر و مطمئن ہے۔ فیض نے اس کیفیت کو یوں بیان کیا ہے۔
راہ تھی فیض سر بسر منزل
ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے
اسی رمز میں فیض نے یوں بھی کہا ہے :
سہل یوں را زندگی کی ہے
ہر قدم ہم نے عاشقی کی ہے
حرف ِ آخر کی طور پر حضرت داتا صاحب کا فرمان فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے کہ حلاج سرمستانِ بادۂ وحدت اور مشتاقِ جمال احدیت تھا۔ ایسے صوفیاچونکہ مغلوب الحال، استقامت اور سلامت روی سے عاری ہوتے ہیں۔ اس لیے اُن کا کلام لائق اتباع و پیروی نہیں ہوتا۔
تاہم علامہ اقبال کے نزدیک حلاج کی عشق الٰہی میں غرق اور سرکارِ دو جہاں کی محبت میں سرفروشانہ اور مجاہدانہ زندگی میں بھی دوسروں کے لیے عمل ِ پیہم اور خودی کی نشوونما کا پیغام ہے کہ وہ دنیا میں آئے ہیں تو کچھ کرکے اور بن کر دکھائیں۔ جو انسانی زندگی کا مقصد ہے۔ چاہے اس کٹھن راہ میں کتنے ہی مصائب کیوں نہ جھیلنے پڑیں۔ چنانچہ حلاج کے بارے میں مذکورہ بالا معروضات کا خاتمہ اس شعرپر مناسب معلوم ہوتا ہے:
بنا کر دند خوش رسمے بخاک دخون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را