شمع بیگم جلتی کڑھتی باورچی خانے میں گھس گئیں۔۔۔۔
حسنہ واپس چھوٹے کمرے میں جا کر موبائل نکال کر بیٹھ گئی۔۔۔اس گھر میں تین کمرے تھے۔۔ایک چھوٹا کمرہ۔۔ایک بڑا کمرہ اور ایک ابّا کا کمرہ۔۔۔۔
غریبوں کے گھر کمروں کے نام ایسے ہی رکھے جاتے ہیں۔۔قمر صاحب نے جس کمرے میں زندگی کے آخری ایام گزارے اُسے ابّا کے کمرے کا نام دے دیا گیا۔۔۔چھوٹا کمرہ بڑے کمرے کی نسبت تھوڑا چھوٹا تھا لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ بڑا کمرہ بہت بڑا ہے ۔۔۔
شرر ۔۔شرر۔۔شرر۔۔۔۔پانی گرنے کی آواز پر شمع بیگم صحن کے ایک طرف کونے میں بنے باورچی خانے سے باہر نکلیں۔۔۔
سیڑھیوں سے پانی گرتا صحن کو بھگو گیا تھا۔۔۔۔
شمع بیگم کا غصّہ آسمان کو پہنچ گیا۔۔۔۔مصدق میاں کی بیوی نے اوپر کا حصہ دھویا تھا۔۔۔اب سارا گندا پانی صحن میں کھڑا ہو گیا۔۔۔
پتہ نہیں کون سی منہوس گھڑی تھی جو اسے بیاہ لائی۔۔ہمارےسروں پر چڑھی بیٹھی ہے ۔۔وہ زور زور سے اوپر کی طرف دیکھ کر بولنے لگیں مقصد بہو صاحبہ کو سنانا تھا۔۔۔
حسنہ پیر پٹختی کمرے سے بر آمد ہوئی۔۔۔کیا مسئلہ ہے امّاں۔۔وہ رزلٹ سرچ کرنے کی کوشش میں لگی تھی۔۔۔رزلٹ ڈھونڈنے دو مجھے۔۔۔اتنا شور ڈال دیا ہے۔۔۔ ایک تو اس علاقے میں سگنلز ہی نہیں آتے ۔۔۔۔۔حسنہ بی بی کے اپنے ھی مسئلے تھے۔۔۔۔
امّاں تو پہلے ہی جلی ہوئی تھیں ۔۔۔
اے حسنہ اس بار بھی پیپر رکے نہ تو اب فیس نہ بھروں گی تمھاری۔۔۔۔۔رزلٹ تو ایسے ڈھونڈ رہی ہے جیسے ٹاپ کیا ہو۔۔۔۔
بس امّاں تمہارا سارا زور مجھ پے ہی چلتا ہے۔۔۔۔اتنی ہمت ہے نہ تو جا کے بہو صاحبہ سے کہو اپنی۔۔۔آ کر یہ گند صاف کرے۔۔۔حسنہ نے صحن میں کھڑے پانی کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
شمع بیگم کی بولتی بند ہوگئی اتنی ہمت نہیں تھی اُن میں کے زرینہ مصدق سے پنگا لیتیں۔۔۔۔
حسنہ نے تنگ آ کر خود ہی وائپر اٹھا لیا۔۔۔شہلا بھی آنے والی ہوگی۔۔۔وہ جلدی جلدی صحن صاف کرنے لگی۔۔
۔دروازے پر دستک کی آواز سن کر صحن میں بندھی رسی پر پڑا کالا دوپٹہ کندھے پے ڈالا اور دروازے کی طرف بڑھی۔۔۔
یہ کالا دوپٹہ بہت قسمت والا تھا ہر وقت رسی پر ڈلا رہتا۔۔۔حسب ضرورت تینوں خواتین اسی ایک دوپٹے کو استعمال کر تیں۔۔۔
دروازہ کھولتے ہی فراز کی شکل نظر آئی۔۔۔اپنے حلیے کا خیال آتے ہی حسنہ کو شرمندگی ہونے لگی۔۔۔۔اُس نے فراز کو اندر آنے کے لیے راستہ دیا اور خود دروازہ بند کر کے دوپٹے کو پھیلاتے ہوئے اُس کے پیچھے آئی۔۔۔صحن میں کہیں کہیں پانی اب بھی موجود تھا۔۔۔حسنہ نے وائپر ایک سائڈ کھڑا کر دیا۔۔۔۔
فراز صحن میں موجود چار پائی پر ہی ٹک گیا۔۔۔۔
جی تو یہ ہیں فراز مرزا۔۔۔۔۔حسنہ کے دل کے مالک۔۔۔صرف حسنہ کے مطابق۔۔۔۔فراز نے کبھی حسنہ کو گھاس بھی نہیں ڈالی۔۔۔۔
سانولی رنگت۔۔۔درمیانہ قد۔۔۔چھوٹی چھوٹی آنکھیں۔۔۔چہرے پر غرور۔۔۔۔
ایم اے پاس کو غرور تو بنتا ہے نہ حسنہ کے مطابق۔۔۔۔
اوپر سے سرکاری نوکری۔۔۔ایک سرکاری دفتر میں فائلیں ادھر سےاُدھر کرتا ۔۔۔۔فراز کا دماغ ساتویں آسمان پر تھا۔۔۔۔۔۔۔
وہ چارپائی پر بیٹھا حسنہ کو دیکھ کر منہ بسورنے لگا۔۔۔ڈھنگ بھی ہے کچھ تمھیں۔۔۔
حسنہ نے خود کو اوپر سے نیچے تک دیکھا۔۔ غصے میں وائپر مارتے ہوئے اُس نے اپنے کپڑے کافی حد تک گیلے کر لیے تھے۔۔۔شلوار کا ایک پائنچا اوپر ایک نیچے ۔۔۔سوٹ کا نیلا رنگ دھل دھل کر ہلکا پڑ چکا تھا۔۔۔
ہر وقت بھنگن بنی رہنا۔۔۔مغرور انداز میں اُس کا مذاق اڑاتا ہوا بھی حسنہ کو وہ شہزادہ لگا۔۔۔۔
جی بس کام کر رہی ہوں نہ تو اس لیے۔۔۔وہ جھینپی جهینپی ہنس دی۔۔۔
ارے میرا بیٹا آیا ہے۔۔۔شمع بیگم فراز کو دیکھ کر بہت محبت کا اظہار کرتیں۔۔۔
اُن کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح فراز اُن کا داماد بن جائے ۔۔۔۔فراز خاندان کا سب سے ہونہار لڑکا تھا۔۔۔۔پورے خاندان کی نظریں فراز پر تھیں ایم اے پاس سرکاری نوکری۔۔۔اپنا گھر۔۔اکلوتا بیٹا۔۔۔سب کی نظروں میں اُس کی حیثیت کسی دودھ پیڑے سے کم نہیں تھی۔۔۔اسی بات نے اُسے مغرور بنا دیا تھا۔۔
شمع اور شمس دو بہنیں تھیں۔۔جاوید اور نوید اُن سے چھوٹے دو بھائی تھے۔۔۔سب ہی صاحب اولاد تھے۔۔۔
شمس بیگم کا اکلوتا بیٹا فراز ہے۔۔۔جاوید صاحب کی ایک بیٹی عطیہ اور ایک بیٹا فرحان ہے۔۔۔۔نوید صاحب کی دو بیٹیاں آمنہ ، مومنہ اور دو بیٹے ذیشان اور ریحان ہیں۔۔۔۔
جاوید صاحب کی بیگم یعنی بڑی بھابی کو بھی عطیہ کے لیے فراز پسند ہے۔۔۔اور چھوٹی بھابی یعنی نوید صاحب کی بیوی کو بھی آمنہ کے لیے فراز پسند ہے۔۔۔
(وجہ تو آپ سب جان ہی چکے ہیں۔۔۔۔ہاں جی سرکاری نوکری۔۔۔ایم اے پاس۔۔۔اپنا گھر۔۔۔ )
ارے حسنہ یہاں کیوں کھڑی ہے جا جلدی چائے چڑھا چولہے پر۔۔۔حسنہ کو آنکھیں دکھاتی شمع بیگم نے چارپائی پر پڑے گول تکیے کے نیچے سے کالا چھوٹا پرس بر آمد کیا۔۔۔
زپ کھول کر دس دس کے پانچ نوٹ نکال کر دو بار گنے۔۔۔
حسنہ او حسنہ۔۔۔۔۔۔شمع بیگم کی آواز پر وہ دوڑ کر آئی۔۔۔
لے یہ پکڑ۔۔۔نوٹ اُس کے ہاتھ میں تھما ئے۔۔۔سروری کے چھوٹے سے کہہ نکڑ سے سموسے لے آئے۔۔۔وہ گرم جوشی سے بولیں۔۔
نہیں خالہ بس جلدی میں ہوں چائے ہی کافی ہے۔۔۔امّاں نے کہا آپ سے پیسے لے آؤں بس اس لیے آیا تھا۔۔۔فراز نے آنے کا مقصد بیان کیا۔۔۔
کون سے پیسے بیٹا۔۔۔شمع بیگم کو بات سمجھ نہ آئی۔۔۔
پرسوں آپ امّاں کے ساتھ مارکیٹ گئیں تھیں نہ ۔۔۔دونوں طرف کا کرایہ امّاں نے لگایا تھا ۔۔۔فراز نے یاد دھیانی کروائی۔۔۔
ہاں ہاں۔۔۔شمع بیگم کو یاد آیا۔۔۔۔۔۔
تو امّاں نے کہا کہ ایک طرف کے کرائے کے پیسے آپ سے لیتے آؤں۔۔۔۔فراز کی بات سن کر شمع بیگم کا خون کھول اٹھا۔۔۔مگر بات بگاڑنے کا وقت نہیں تھا ابھی۔۔۔حسنہ کو بیاہنہ تھا بہن کے گھر۔۔۔جذبات کو قابو کرتیں شمع بیگم نے ساٹھ روپے نکال کر بھانجے کے ہاتھ میں دھر دئیے۔۔۔۔
امّاں نے پینسٹھ روپے کہے تھے۔۔۔وہ کمال ڈھیٹائی سے بولا۔۔۔۔
حسنہ چائے لے ائی تھی شمع بیگم کا دِل چاہا اُس کے سر پر الٹ دیں گرم گرم چائے۔۔۔۔ہائے مجبوری حسنہ کی شکل دیکھ کر پھر ضبط کرنا پڑا۔۔۔۔
پرس کھول کر الٹا کر دیا کچھ نہ نکلا۔۔زور سے چارپائی پر جھٹکا تو ایک پانچ کا سکّہ گرا۔۔اٹھا کر فراز کے ہاتھ میں تھمایا۔۔۔ایک جھوٹی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر چائے کا کپ فراز کی طرف بڑھایا۔۔۔
حسنہ نے چائے بناتے ہوئے ہی اپنا حلیہ تھوڑا بہتر کر لیا تھا۔۔۔ وہ باورچی خانے کی دہلیز پر ہی ٹک گئی۔۔۔فراز کسی مغرور شہزادے کی طرح چارپائی پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھا چائے پی رہا تھا۔۔۔۔حسنہ کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔۔
فراز کے جاتے ہی شمع بیگم پھٹ پڑیں۔۔۔۔۔
آپا کو ذرا شرم نہیں ہے حد ہے منہ اُٹھا کر بیٹے کو بھیج دیا پینسٹھ روپے کے لیے۔۔۔سروتا اٹھائے چھالیہ ایسے کترنے لگیں جیسے چھالیہ نہیں شمس بیگم ہوں۔۔۔
بیوہ بہن کا ذرا لحاظ نہیں ہے۔۔۔ارے قمر صاحب مجھے کیوں چھوڑ گئے تنہا۔۔۔۔دیکھ رھے ھیں نہ میرا حال۔۔اُنہوں نے بین ڈالا۔۔۔
۔امّاں ابّا حوروں کے ساتھ مزے سے ہوں گے تمھیں کیوں دیکھنے لگے اب۔۔۔۔حسنہ نے لا پرواہی سے کہا ۔۔امّاں نے جوتی اٹھا کر کھینچ ماری۔۔۔
دفعہ ہو جا میرے سامنے سے نگوڑ ماری۔۔۔تیری خاطر خاموش رہی ورنہ اس فراز کو تو ایسی سناتی نہ۔۔۔دل ہی دل میں سنا بھی ڈالی۔۔۔
ہاں تو ٹھیک ہے نہ امّاں ایک طرف کا کرایہ ہی مانگا ہے نہ خالہ نے اس میں غلط کیا ہے۔۔تم بھی تو مفتہ ہی ڈھونڈتی ہو نہ۔۔۔۔حسنہ نے سچ بات کہہ ڈالی تھی اس لیے کمرے میں بھاگی۔۔۔۔۔۔