حسام حرکو پشاورسے تعلق رکھنے والے اہلِ ادب میں ایک قابلِ ذکر نام شمارکیا جاتا ہے۔دبستان پشاوراردو،پشتو اور ہندکوتینوں زبانوں کے ادبی سرمایہ سے تشکیل پاتا ہے۔ماضی کے سرمایہ کے دوش بدوش حال کے ادبی سرمایہ میں حسام حر نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے۔’’حُسنِ تغزل‘‘ان کی غزلوں کا مجموعہ ہے ۔مجموعے کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ وہ غزل کو اس کے لفظی کاسمیٹک کے ساتھ میک اپ شدہ چہرے کی بجائے اس کی صورت کے اصل حسن میں دیکھنا اور دکھانازیادہ اہم سمجھتے ہیں۔
ادبی سطح پرحسام حر جدیدعہد اور اس کے مثبت ومنفی اثرات سے بڑی حد تک باخبر ہیں،ترقی پسندروایت ان کے مزاج کا حصہ ہے اور غزل کی بنیادی روایات کو انہوں نے خلوص دل کے ساتھ اپنے سینے سے لگا رکھا ہے۔یوں وہ اپنی غزل کی مشقِ سخن کے وقت اپنے تینوں زمانوں کوساتھ لے کر چلتے ہیں۔ ان تینوں زمانوں کی کارفرمائی کہیں قافیہ،ردیف کی صورت میں،کہیں بحور کے انتخاب کی صورت میں اور کہیں خیال کی پرواز میں اپنی جھلک دکھاتی ہے ۔ اس طرح غزل کے ارتقائی سفرکا قوس قزح جیساخوش کن منظر بارباردکھائی دیتا ہے۔
’’ حُسنِ تغزل ‘‘ آج کے دبستانِ پشاورکی شاعری کا ایک نمایاں رنگ ہے۔مجھے امید ہے کہ اس مجموعہ کو ساری ادبی دنیا میں دلچسپی کے ساتھ پڑھا جائے گااورپسند کیا جائے گا۔حسام حر کے اس شعری مجموعہ کی اشاعت پرمیں اس کا خلوصِ دل کے ساتھ خیرمقدم کرتا ہوں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(کتاب میں درج تاثرات)