“کیسی ہو زری۔” بیگم سراج نے فون پہ کہا۔
” فرصت مل گئی آپ کو اپنے سوتیلے بیٹے سے ۔” زری طنزیہ انداز میں بولی۔
” اگر مجھے فرصت نہیں ملی اپنی سگی بیٹی سے بات کرنے کی تو بیٹی تو فون کر کر کے اپنا بیلنس ختم کرچکی ہے۔” وہ بھی جواباً اسی کے انداز میں بولیں ۔
” اُس دن میں نے گھر فون کیا تو ارسلان نے اٹینڈ کیا اور میری اتنی بےعزتی کی۔اس کے بعد میں آپ کے فون کا انتظار کر رہی تھی لیکن آپ نے بھی فون نہیں کیا۔”زری خفگی سے بولی۔
” ارسلان نے مجھے یہ بات نہیں بتائی۔”وہ حیرت سے بولیں ۔
” کس منہ سے بتاتا۔اور مجھے کہتا ہے کہ اگر تم یہ سمجھتی ہو کہ واپس آ سکو گی یا عنایہ کو مجھ سے چھین لو گی تو یہ تمہاری بھول ہے۔اگر میں نے یہ سب ہی کرنا ہوتا تو بہت پہلے کرچکی ہوتی۔” زری استہزایہ انداز میں بولی۔
” تمہارا شوہر کیسا ہے۔؟ تم خوش تو ہو نا۔” وہ فکرمندی سے بولیں ۔
” میں بہت خوش ہوں۔ان فیکٹ مجھے اب چلا کہ خوشی کسے کہتے ہیں ۔”وہ ہنس کر بول رہی تھی۔
” مجھے حیرت ہورہی ہے ارسلان جیسی محبت تمہیں کوئی نہیں دے سکتا ۔پھر بھی تم خوش ہو۔” انہوں نے دل کی بات زبان پہ لائی۔
” اور مجھے بھی حیرت ہورہی ہے۔سگی بیٹی کی خوشی آپ کو اچھی نہیں لگ رہی۔اور اتنے دھڑلے سے میرے ایکس ہزبینڈ کا ذکر کر رہی ہیں ۔” زری خفگی سے بولی۔
” ایسی بات نہیں ۔میری دعا ہے کہ تم ہمیشہ اس کے ساتھ خوش رہو۔”وہ گہری سانس لے کر بولیں ۔
تھوڑی دیر بات کرنے کے بعد انہوں نے فون بند کردیا۔
ہنس ہنس کر ناعمہ اور آئمہ کے پیٹ میں درد شروع ہوگیا تھا۔لیکن ان کی ہنسی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
ماہم شرمندگی سے سرخ چہرہ لیے سر جھکائے بیٹھی تھی۔جیسے جو ہوا ہے اس میں وہ قصوروار ہے۔پتا نہیں کچھ نہ کر کے بھی وہ خود کو کیوں قصوروار سمجھتی تھی۔
” میں کہتی ہوں چپ کر جاؤں ۔اتنا ہنس ہنس کر پھٹ نہ جانا۔”رفعت بیگم کو اپنی دونوں بیٹیوں کی ہنسی اس وقت زہر لگ رہی تھی۔
” اماں اتنے دنوں بعد ہنسنے کا موقع ملا ہے۔سچی میں تو ہنس ہنس کر پاگل ہوجاؤ گی۔اوئی اماں۔” ناعمہ پیٹ پہ ہاتھ رکھے ہنس کر بولی۔
ماہم کا سر شرمندگی سے مزید جھکا۔بات اتنی سی تھی کہ ان کے گھر کے پاس بنی پرچون کی دکان کا پچاس سالہ مالک ظفر جس کی بیوی مہینہ بھر پہلے مری تھی اور تین جوان بیٹے تھے۔وہ اپنا رشتہ ماہم کے لیے لایا تھا۔اس بات پہ صبح سے ناعمہ اور آئمہ اس کا مذاق اڑا رہیں تھیں ۔اسے بہت برا لگ رہا تھا۔پر وہ کچھ کہہ نہیں سکتی تھی۔
” سچ میں اماں ویسے پرفیکٹ رشتہ آیا ہے ماہم کا۔میں تو کہتی ہوں بیاہ دو۔پلے پلائے بیٹے مل جائیں گے۔” آئمہ ہنستے ہوئے بولی۔
” بالکل اور کماؤ گی تم دونوں ۔” وہ دونوں کو گھور کر بولیں ۔
” ہیں اماں تو تم ماہم کی شادی نہیں کرو گی۔” ناعمہ سیدھی ہوتی ہوئی ایک نظر ماہم پہ ڈال کر بولی۔
ماہم کے کان بھی کھڑے ہو گئے۔
” میرا کوئی دماغ خراب ہے اس کی شادی کر کے میں نے اپنا بڑھاپا برباد کرنا ہے ۔یہ کمائے گی اور بڑھاپے میں مجھے سنبھالے گی۔” انہوں نے سارا منصوبہ بنا رکھا تھا۔
ماہم کا رنگ فق ہوا۔اور اس کا دل کیا دہاڑے مار مار کر روئے۔
” ویسے اس پاگل سے شادی کرے گا بھی کون۔”آئمہ خوش ہو کر بولی۔
رفعت بیگم نے ایک نظر اس” پاگل ” پہ ڈالی۔گوری رنگت، تیکھے نقوش اور سب سے بڑھ کر گہری نیلی آنکھیں بالکل سمندر جیسی۔اوپر سے براؤن بال۔وہ حسن کا شاہکار تھی۔رنگت اور آنکھوں کا رنگ اس نے اپنی ماں کا چرایا تھا۔جب کہ نقشے شبیر احمد والے تھے۔نویں جماعت سے ہی اس کے رشتے آنا شروع ہوگئے تھے۔شوہر کے سامنے تو انہوں نے چھوٹی ہے کہہ کر ٹال دیا۔اور بعد میں یہ مشہور کردیا کہ وہ بےوقوف ہے۔
رفعت بیگم نے ایک نظر اپنی بیٹیوں پہ ڈالی جن کی رنگت ان کی طرح دبتی ہوئی تھی۔لیکن نقوش شبیر احمد والے تھے۔جو موٹاپے کی تہہ میں چھپ چکے تھے۔
رفعت بیگم نے کبھی اسے نئے کپڑے نہیں لے کر دئیے۔ہمیشہ ناعمہ یا آئمہ کی اترن ہی پہننے کو دیتی تھیں ۔وہ دونوں اس سے قد میں لمبی بھی تھیں تو ان کے کپڑے کھلے ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے بھی ہوتے تھے۔قمیض اس کے ٹخنوں کو چھو رہی ہوتی تھی۔اس مضحکہ خیز حلیے میں وہ کچھ زیادہ ہی ہونق لگتی۔کوٹھی میں تو وہ ساتھ بڑی سی چادر کر کے جاتی تھیں جس سے وہ کچھ بہتر لگتی تھیں ۔
وہ سٹور میں ہی سوتی تھی۔وہ سوچتی تھی جب اس کی شادی ہوگی تو اسے ایک نیا کمرہ اور ڈھیر سارے اچھے اچھے کپڑے ملیں گے۔اس کا شوہر اور سسرال والے اسے عزت اور محبت سے رکھیں گے۔پر رفعت بیگم کی بات نے اسے پریشان کردیا۔اس پریشانی میں اسے نیند نہیں آرہی تھی اور صبح کام پہ بھی جانا تھا پہلے ہی ارسلان صاحب اسے کام سے نکالنے کے در پہ تھے۔
” جب ناعمہ اور آئمہ کی شادی ہو جائے گی تو پھر ان کا کمرہ خالی ہوجائے گا۔پھر یقیناً امی وہ کمرہ مجھے دے دیں گی کیونکہ صرف میں ہی ان کا خیال رکھنے والی رہ جاؤ گی۔ہوسکتا ہے پھر وہ مجھ سے محبت بھی کریں ۔” اس نے سوچا۔اس سوچ نے اسے مطئمن کردیا اور وہ سکون سے سو گئی۔
سراج ہاؤس کے تینوں مکین ناشتے کی ٹیبل پہ موجود تھے۔
” زری کا فون آیا تھا اور تم نے مجھے بتایا ہی نہیں ۔”بیگم سراج نے ناشتے کرتے ہوئے کہا۔
” اتنی اہم خبر نہیں تھی۔” ارسلان عنایہ کو جوس پلاتے ہوئے بولا۔
” اہم نہیں تھی تو چھپائی کیوں؟” وہ اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے بولی۔
” وہ میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی ۔اس سے جڑی بات مجھے یاد کرنے یا چھپانے کی ضروت نہیں ہے۔” وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
” مجھے پتا ہے تمہیں اس پہ بہت غصہ ہے اور تم دیکھنا ایک دن وہ اپنے فیصلے پہ بہت پچھتائے گی۔”وہ یقین سے بولیں ۔
” اس کے پچھتانے نہ پچھتانے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔وہ آپ کی بیٹی ہے آپ سے رابطہ رکھیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔لیکن برائے مہربانی اس سب میں مجھے یا عنایہ کو شامل نہ کریں ۔”اس کے ماتھے پہ شکنوں کا جال بچھا۔
بیگم سراج اس کے بعد کچھ نہ بولیں ۔
ان کی بہن کے انتقال کے بعد سراج نے انہیں شادی کی پیشکش کی تھی۔وہ بھی بیوہ تھی اور ایک بیٹی کی ماں۔انہوں نے فوراً یہ پیشکش قبول کرلی ۔انہوں نے کبھی زری اور ارسلان میں کوئی فرق نہیں کیا تھا۔
ماہم نے تیار کردہ ڈونٹ اور کولڈ ڈرنک کا گلاس ٹرے میں رکھا اور لاؤنج کی طرف بڑھی۔عنایہ کو ٹیوٹر پڑھانے آئی تھی۔کولڈ ڈرنک ٹیچر کو پکڑانے کے بعد اس نے عنایہ کے سامنے ڈونٹ رکھے۔
” پڑھائی کے ٹائم کھانے کی چیزیں نہ لایا کریں ۔” ٹیچر ناگواری سے بولی۔
” ارسلان صاحب نے کہا ہے بےبی جو بھی فرمائش کرے فوراً پوری کرنی ہے۔” اس نے کہا۔
” لیکن پڑھنے کے ٹائم یہ سب ہو تو پڑھائی پہ دھیان نہیں رہتا ۔یہ سب اٹھا کر فریج میں رکھو۔” ٹیچر نے کہا۔
اس نے ایک نظر عنایہ کو دیکھا جو برے برے منہ بنا رہی تھی۔اسے سمجھ نہیں آرہی تھی وہ ٹیچر کی بات مانے یا نہیں۔کیونکہ اگر ارسلان کو پتا چلا کہ بےبی اس کی وجہ سے پریشان ہوئی ہے تو انہوں نے اسے نوکری سے نکال دینا تھا۔
” لے جاؤ۔”عنایہ نے کہا۔
اس نے چیزیں اٹھا کر فریج میں رکھ دیں۔
ٹیچر عنایہ کو پڑھانے لگی ۔لیکن ٹیچر کو نہیں پتا تھا یہ سب آفس میں بیٹھا ارسلان لیپ ٹاپ پہ دیکھ رہا ہے۔ارسلان نے اسی لیے لاؤنج میں کیمرے لگائے تھے کہ ٹیچر پہ اور ماہم پہ نظر رکھ سکے۔
پانچ منٹ بعد فون کی گھنٹی بجی تو ماہم نے فون اٹھایا۔
” ٹیچر سے بات کراؤ۔” وہ خطرناک حد تک سنجیدہ تھا۔
” آپ کی ہمت کیسے ہوئی میری بیٹی پہ سختی کرنے ۔آپ یہاں پڑھانے آئیں ہیں تو پڑھائیں نہیں تو میری بیٹی کے لیے ٹیوٹر کی کمی نہیں۔” وہ تیز لہجے میں بولا۔
” سوری۔” ٹیچر غصہ کنٹرول کرتے ہوئے بولی۔ ملازمت کی ضرورت نہ ہوتی تو وہ یہ نوکری اس مغرور آدمی کے منہ پہ مارتی۔
” جاؤ عنایہ کے لیے ڈونٹ لے آؤ۔ “ٹیچر نے فون بند ہونے کے بعد کہا۔
ماہم حیرت سے کچن کی طرف بڑھ گئی۔صاحب کو کس نے بتایا کہیں ان کے پاس جادو تو نہیں ہے۔
” ڈیڈ نے یقیناً یہاں پہ کیمرہ لگایا ہے تب ہی ان کو پتا چل گیا۔” ٹیچر کے جانے کے بعد عنایہ بولی۔
ماہم خوفزدہ ہوگئی اگر اس سے کچھ غلط ہوا تو ارسلان صاحب اس کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے۔
” لیکن کیمرہ نظر تو نہیں آرہا؟” وہ ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے بولی۔
” کہیں چھپا کر لگا ہوگا۔اب میں ہر وقت کارٹون بھی نہیں دیکھ پاؤ گی۔” عنایا منہ بنا کر بولی۔
ماہم سوچ رہی تھی کہ پہلے سے بھی زیادہ احتیاط سے رہنا ہے۔اس نوکری میں اسے بہت سہولت تھی اور سب سے بڑھ کر اسے عنایہ بہت اچھی لگتی تھی.وہ اس سے دور نہیں جانا چاہتی تھی۔
” تم اتنی دیر سے کیوں آئے ہو؟” زری نے احسن کو اندر آتے دیکھ کر شکوہ کیا۔
” میٹنگ تھی۔” وہ جواباً بولا۔
” اتنے اہم دن بھی تمہیں میٹنگ کی پڑی ہے۔” زری نے منہ پھلایا۔
” آج کون سا اہم دن تھا؟” وہ ٹائی کھولتے ہوئے بولا۔
” حد تک تم اتنا اہم دن بھول گئے۔آج کے دن ہم پہلی دفعہ ملے تھے۔ہمارے ملنے کی اینیورسری تھی اور تمہیں یاد ہی نہیں۔ “وہ خفا ہوئی۔
” اوہ کم آن کیا بچوں جیسے باتیں کررہی ہو۔”وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
“حد ہے اتنے اہم موقع کو تم ایسے کہہ رہے ہو۔” زری حیرت سے بولی۔
” تم اٹھائیس سال کی ہو اٹھارہ کی نہیں جو ایسا ری ایکٹ کررہی ہو۔پلیز بڑی ہوجاؤ۔”وہ ناگواری سے کہتا ڈریسنگ روم کی طرف بڑ گیا۔
زری کو ایک دم سے ارسلان یاد آیا تھا جو اُن دونوں سے منسلک ہر موقع کو اچھے سے سیلیبریٹ کرتا تھا۔
” افف میں بھی کیا سورچ رہی ہوں ۔ٹھیک ہی تو کہتا ہے اب بڑا ہو جانا چاہیے۔”زری نے سر جھٹکتے ہوئے خود کلامی کی۔
” یہ تم اتنی دیر سے کیوں آئی ہو؟” ابھی اس نے لاؤنج میں قدم ہی رکھا تھا کہ ارسلان کی آواز سن کر گھبرا گئی۔
” جی میں تو اتنے بجے ہی آتی ہوں ۔” وہ نیچے دیکھتے ہوئے بولی۔ارسلان سامنے صوفے پہ بیٹھا تھا۔
” اتنی دیر سے تم آتی ہو تو تمہارے آنے کا فائدہ۔” وہ اسے گھور کر بولا۔اس لڑکی پہ پتا نہیں کیوں اسے شک تھا حالانکہ وہ کیمرے میں سب دیکھتا تھا ۔
” صاحب جی بیگم صاحبہ نے کہا ہے کہ آٹھ بجے آیا کرو۔” اس نے کہا ۔
” آئندہ تم جلدی آیا کرو۔عنایہ کا سکول شروع ہوگیا تو اتنی دیر سے آنے کا فائدہ۔” اس نے سنجیدہ لہجے میں کیا۔
” میں جلدی نہیں آسکتی” ۔اس کے منہ سے بےساختہ نکلا۔دوسرے ہی لمحے وہ منہ پہ ہاتھ رکھ چکی تھیں ۔
” کیوں؟ “خاصے سخت لہجے میں پوچھا گیا۔
” وہ جی گھر پہ بڑے کام ہوتے ہیں ۔میں اتنی صبح آگئی تو کام کون کرے گا۔”وہ اس کی طرف دیکھ کر منہ بنا کر بولی۔
” یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔”وہ کندھے اچکا کر بولا۔
” جی میں نے کب کہا آپ کا مسئلہ ہے۔یہ تو میرا مسئلہ ہے کیونکہ کام تو میں نے کرنا ہوتا ہے۔جاڑو، برتن اور ناشتہ اگر میں آگئی تو ہمارے گھر کا کام کون کرے گا۔”وہ منہ پھلا کر انگلیوں پہ کام گنوانے لگی۔
ارسلان نے حیرت سے اس کا انداز ملاحظہ فرمایا۔
” اور پھر اماں اتنی جلدی نہیں آنے دیں گی۔”اس نے مزید کہا۔
” تم نے نوکری کرنی ہے یا نہیں ۔”اس نے ابرو اٹھا کر پوچھا۔یہ لڑکی اسے کھسکی ہوئی لگی تھی۔
” جی جی کرنی ہے کیوں نہیں کرنی۔” اس نے جھٹ سے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
” تو جو کہا ہے وہ کرو۔عنایہ کے لیے ملازموں کی کمی نہیں ۔”وہ سخت لہجے میں کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔
ماہم نے رونی صورت بنا کر ارسلان کی پشت کو دیکھا ۔تب ہی ارسلان مڑا۔ماہم نے فوراً سے تاثرات بدلے لیکن ارسلان دیکھ چکا تھا۔نفی میں سر ہلاتے ہوئے اس نے ٹیبل سے موبائل اٹھایا۔
” بیگم صاحبہ چھوٹے صاحب نے کہا ہے کہ میں جلدی آیا کرو۔میں جلدی کیسے آسکتی ہوں ۔” اب کی بار اس نے اپنا دکھڑا بیگم سراج کے آگے رویا۔
” میں اس سے بات کرتی ہوں ۔تم جاؤ عنایہ کو دیکھو۔” انہوں نے کہا۔
بیگم سراج سوچ رہی تھیں ارسلان پتا نہیں کب ٹھیک ہوگا۔اس کا یہ پوزیسو رویہ پہلے زری کو اس سے دور لے گیا اور اب عنایہ کو نہ لے جائے ۔
” میں ماہم کے لیے رشتہ لائی ہوں۔” شکورن نے کہا۔جو رشتے کرانے کی وجہ سے پورے محلے میں خالہ شکورن کے نام سے مشہور تھی ۔
” میری بیٹیاں ماہم سے بڑی ہیں اور میں نے تم سے ماہم کا رشتہ لانے کے لیے نہیں کہا تھا۔” رفعت بیگم ناگواری سے بولیں ۔
” ہاں لیکن ابھی جس کا آیا ہے اس کا تو کر دو۔ایک بوجھ تو کم ہوگا۔” خالہ شکون سنبھل کر بولیں ۔
” میرے بوجھ کی تم فکر نہ کرو۔رائمہ اور آئمہ کے لیے اچھا اور امیر سا لڑکا دیکھو۔جسے دیکھو ہمدردی کا بخار چڑھا رہتا ہے۔” وہ بدلحاظی سے بولیں ۔
” بی بی بات سنو پہلے اپنی ان بھینسوں کو تو انسان بناؤ۔کھا کھا کر کہیں پھٹ نہ جائیں پھر مجھے کچھ کہنا۔”خالہ شکورن کو تو دو منٹ لگتے غصہ آنے میں اور کونسا رفعت بیگم نے انہیں پیسے دیئے تھے جو وہ ان کی باتیں سنتیں ۔
” اپنی حد میں رہو۔اس ماہم سے ہزار درجے بہتر ہیں میری بیٹیاں ۔کم از کم عقل تو رکھتی ہیں وہ تو نری بےعقل ہے۔”وہ تلملا کر بولیں ۔یہ طعنہ انہیں تیر کی طرح لگتا تھا۔
” پاگل نہیں ہے وہ بس ذرا سے سادی ہے ۔ہاں اگر تمہارے ساتھ رہی تو پاگل ہو جائے گی۔اور تمہاری بیٹیوں کو تو عجیب و غریب فیشن کے علاوہ آتا ہی کیا ہے۔بدزبان اور پھوہڑ ہیں ۔اس بن ماں باپ کی بچی پر ظلم کرنے کے بجائے اپنی بیٹیوں کی ہی تربیت کر لی ہوتی۔” خالہ شکون چپل پاؤں میں اڑستے ہوئے غصے سے بولیں اور یہ جا وہ جا۔
” دیکھ رہی ہو کمبخت ماریوں اسی لیے کہتی ہوں کم ٹھونسا کرو۔یہ ہی حال رہا تو گھر ہی بیٹھی رہ جاؤ گی۔”انہوں نے دروازے کے پاس کھڑی ناعمہ اور آئمہ پہ غصہ کیا۔
” بس کرو اماں ہم کون سا زیادہ کھاتے ہیں ۔” لیز کا بڑا پیکٹ کھاتے ہوئے آئمہ نے منہ بنایا۔
” ہر وقت تو تم دونوں کا منہ چلتا رہتا ہے ۔”وہ آئمہ کو گھورتے ہوئے بولیں ۔
” یہ بس لوگوں کی باتیں ہیں ۔میری دوست شکیلہ دیکھی ہے کیسی توے جیسی کالی تھی پر اسے کتنا اچھا شوہر مل گیا۔اور کیسے ملا جانتی ہو ۔اس کے ابا نے ٹرک بھر کر جہیز دیا اور ساتھ میں گاڑی بھی۔ہمارے ابا بھی کچھ چھوڑ کر گئے ہوتے تو ایسے نہ ہوتا۔ابا تو بس اس چٹی کبوتری کو چھوڑ گئے جو ہماری زندگی عذاب بنا رہی ہے۔”ناعمہ ہاتھ نچا نچا کر بول رہی تھی۔
ناعمہ کی بات رفعت بیگم کے دل کو لگی ۔واقعی ہی آج کل تو لوگ لڑکی کے بجائے جہیز دیکھتے ہیں پر مسئلہ یہ تھا کہ نہ تو ان کے پاس اتنے پیسے تھے اور نہ ہی انہیں اپنی اولاد نرینہ سے کسی نوکری کی امید تھی۔
” آج تو بہت مزا آئے گا تم دیر تک ادھر ہو۔” عنایہ خوش ہو کر بولی۔
ماہم جواباً مسکرائی۔بیگم سراج کو ضروری کام تھا انہوں نے اسے مغرب تک رکنے کا کہا تھا اور زیادہ دیر رکنے کے پیسے بھی دے دئیے تھے۔وہ پہلے بھی اکثر ایسا کرتی رہتیں تھیں ۔
” پھر ہم کیا کھیلیں گے؟ “اس نے عنایہ سے پوچھا۔
” میں کارٹون لگاتی ہوں تم میرے لیے چپس بنا کر لاؤ۔” عنایہ نے کہا۔
وہ اثبات میں سر ہلاتی کچن کی طرف بڑھ گئ۔واپس آئی تو عنایہ نے ٹام اینڈ جیری لگائے ہوئے تھے۔
وہ عنایہ کو چپس کھلا رہی تھی ساتھ ساتھ کارٹون بھی دیکھ رہی تھی۔اسے یہ کارٹون بڑے پسند تھے پر نہ بچپن میں اور نہ اب اسے دیکھنے کا موقع ملتا تھا کیونکہ اس کی بہنیں تو ڈرامے اور فلمیں لگائے رکھتی تھیں ۔
” افف بہت بورنگ ہیں ۔” دس منٹ بعد عنایہ بولی۔
” اچھے ہیں نا۔” اس کے منہ سے بےساختہ نکلا پھر اسے یاد آیا کیمرہ لگا ہے یہ نہ ہو یہ بات سن کر ارسلان صاحب اسے نوکری سے نکال دیں ۔
” میرا مطلب ہے ٹھیک ہی ہیں۔ دوسرے ہی لمحے اس نے بات بدلی۔
” چلو میرے کمرے میں چلتے ہیں ۔باربی کی شادی کریں گے۔” عنایہ صوفے سے اٹھتے ہوئے بولی۔
ماہم کے پاس انکار کی گنجائش نہیں تھی۔
” مجھے بھی بچپن میں گڑیا بہت اچھی لگتی تھیں ۔” وہ عنایہ کے کمرے میں موجود مختلف سائز کی گڑیا دیکھتے ہوئے بولی۔
اسے عنایہ کا کمرہ بہت اچھا لگتا تھا۔ایسے لگتا تھا وہ کسی دوسری دنیا میں آگئی ہے۔کمرے کی تھیم پنک کلر کی تھی۔بڑا سا ڈول ہاؤس، خوبصورت سا بیڈ جس کے بیڈ کراؤن پہ باربی بنی تھی، ڈھیر سارے کھلونے۔
” پھر تمہاری بھی گڑیا تھیں ۔” عنایہ نے پوچھا۔
” نہیں اماں نے کبھی لے کر ہی نہیں دیں۔دراصل ان کے پاس فالتو پیسے نہیں ہوتے تھے۔” وہ سادہ سے لہجے میں بولی.
” یہ سٹیپ مدر ایسی ہی ظالم ہوتیں ہیں ۔پر میری تو ریئل مدر بھی ایسی تھی ۔ہر وقت ڈیڈ سے لڑتی تھیں پھر ہمیں چھوڑ کر چلی گئی ۔شکر ہے چلیں گئیں ۔ان کے جانے کے بعد ہی ڈیڈ کو میرا خیال آیا۔”عنایہ منہ بنا کر بولی۔
” ایسے نہیں کہتے وہ تمہاری مما ہیں ۔” اس نے کہا۔
” مجھے وہ بالکل اچھی نہیں لگتی۔کاش ان کی جگہ تم میری ماما ہوتی۔”عنایہ نے کہا۔
ماہم نے منہ کھول کر اس کو دیکھا ۔یہ عنایہ کیسی باتیں کرتی ہے۔
” جب تمہاری شادی ہوجائے گی پھر تم نوکری چھوڑ دو گی ۔پھر تو میں بور ہوجاؤ گی۔”عنایہ اداس ہوئی۔
” میری شادی نہیں ہوگی۔”اس نے عنایہ کی اداسی دور کی۔
” جھوٹ ۔سب کی شادی ہوتی ہے ۔” عنایہ کو یقین نہیں آیا۔
” سچی ۔اماں کہہ رہیں تھیں کہ وہ میری شادی نہی کریں گی۔دراصل وہ مجھ سے پیار کرتی ہیں نا اس لیے وہ مجھے اپنے پاس رکھیں گی۔”یہ اس کی خوش فہمی تھی۔
” پھر تو بہت ہی اچھی بات ہے۔تم ہمیشہ میرے ساتھ ہی رہو گی۔”عنایہ اس سے لپٹتے ہوئے بولی۔
وہ عنایہ کے اس انداز پہ تھوڑا گھبرا گئی ۔بیگم سراج یا پھر ارسلان صاحب نے دیکھا تو اس کی خیر نہیں ۔
” پتا نہیں صاحب جی تو کہتے ہیں کہ میں تمہارا ٹھیک سے خیال نہیں رکھتی۔ہوسکتا ہے وہ مجھے نوکری سے نکال دیں ۔”وہ اداسی سے بولی۔
” میں پاپا سے بات کرو گی۔ایسا نہیں ہوگا۔تم تو بہت اچھی ہو۔” عنایہ نے کہا۔
اور وہ خوش ہوگئی۔
ارسلان نے ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوئے سیٹ سے ٹیک لگائی۔آفس کی ٹائمنگ چھ بجے تک تھیں ۔لیکن اس کی ہوٹل میں میٹنگ تھی اس لیے عشاء ہوگئی۔
وہ سنجیدگی سے لیپ ٹاپ پہ آئی ای میل چیک کرنے لگا۔وہ ہمیشہ سے اتنا سنجیدہ اور غصے والا نہیں تھا آٹھ مہینے پہلے جب زری کی اور اس کی طلاق ہوئی تھی تو وہ عنایہ اور مما کے علاوہ ہر شخص کے لیے سخت مزاج کا ہوچکا تھا۔
گاڑی پورچ میں رکی تو وہ اپنا بیگ اٹھا کر اندر کی طرف بڑھ گیا۔لاؤنج کا دروازہ کھول کر اس نے اندر قدم رکھا ۔سامنے کھڑی عنایہ نے اسے ہونٹوں پہ انگلی رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔اس نے حیرت سے عنایہ کو دیکھا۔تب ہی کسی نے اس کے بازو پہ رکھا۔
وہ ایک جھٹکے سے مڑا ۔سامنے ماہم آنکھوں پہ پٹی باندھے کھڑی تھی۔
” پکڑ لیا ۔” ماہم آنکھوں سے پٹی ہٹاتے ہوئے خوشی سے بولی لیکن سامنے ارسلان کو دیکھ کر اس کا حلق خشک ہوگیا۔اس نے فوراً سے اپنا ہاتھ ہٹایا اور سر ڈھانپا ۔
” وہ مم میں سمجھی عنایہ ہے۔” وہ خشک ہوتے ہونٹوں پہ زبان پھیر کر بولی۔
” تم ابھی تک ادھر کیا کر رہی ہو۔”وہ حیرت سے بولا۔عنایہ اس کے پاس آچکی تھی۔
” وہ بیگم صاحبہ نے کہا تھا جب تک آپ یا وہ گھر نہیں آجاتے میں بےبی کے پاس رہوں ۔” وہ نیچے دیکھتے ہوئے بولی۔
” دادو کہاں ہیں ۔”اس نے عنایہ سے پوچھا۔
” میٹنگ پہ۔” عنایہ نے جواب دیا۔
” ٹھیک ہے تم گھر چلی جاؤ۔” ارسلان نے کہا اور اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔
وہ واپس آیا تو ماہم وہیں موجود تھی۔
” تم ابھی تک گئی نہیں ۔”وہ ناگواری سے بولا۔
” وہ جی رکشے والا تو کب کا چلا گیا۔”اس نے بات شروع کی۔
“تو؟”
” آپ بیگم صاحبہ کو فون کر کے کہیں کہ وہ میری اماں کو فون کر کے کہیں کہ رکشے والے چاچا کو بھیج دیں۔” اس نے ایک سانس میں بات مکمل کی۔
” تم نمبر بتاؤ ۔میں تمہاری بات کروا دیتا ہوں ۔” وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
” نمبر تو نہیں یاد۔”وہ شرمندگی سے بولی ۔
” ڈرائیور تمہیں چھوڑ آتا ہے۔”وہ ناگواری سے بولا۔
” گھر کا پتہ بھی نہیں معلوم ۔”وہ مزید شرمندہ ہوئی۔
” پاگل خانے سے تو نہیں آئی۔” وہ بگڑا۔پتا نہیں مما نے اس بےوقوف لڑکی کو کیا سوچ کر رکھا تھا۔
” گھر سے آئی ہوں۔” اس نے فوراً سے جواب دیا۔خفت سے چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔
” شکر ہے بتا دیا۔” وہ طنزیہ انداز میں بولا۔
” جب تک بیگم صاحبہ نہیں آتیں میں انتظار کرلیتی ہوں ۔”وہ اب اور کیا کہہ سکتی تھی۔
” وہ لاہور چلی گئی ہیں ۔” وہ موبائل نکالتے ہوئے بولا۔کیا مصیبت گلے پڑ گئی تھی۔
” میں اب گھر کیسے جاؤں گی۔” وہ رونے والی ہوگئی۔
” تم ہمارے گھر رہنا بہت مزا آئے گا۔” کب سے خاموش بیٹھی عنایہ بولی۔
” اماں نے میرا قیمہ بنا دینا ہے۔” اس کے منہ سے نکلا۔
مما سے بات کرتے ارسلان نے اس کی طرف دیکھا۔ماہم کی نیلی آنکھوں میں نمی تھی۔اس نے سر جھٹکا۔
” میں نے نمبر ملا دیا ہے بات کرلو۔” ارسلان اپنا قیمتی موبائل اس کی طرف بڑھا کر بولا۔
اس نے احتیاط سے موبائل تھاما۔
” ابھی تک واپس نہیں آئی۔کیا ادھر رہنا ہے اور یہاں کام تیری ماں آکر کرے گی۔” فون پہ رفعت بیگم کی پاٹ دار آواز گھونجی۔
” صاحب آگئے ہیں ۔آپ رکشے والے چاچا کو بھیج دیں ۔”وہ آہستہ آواز میں بولی۔اپنی ماں کے بارے میں یہ سن کر اسے اچھا نہیں لگا تھا۔
” رکشے والا تیری ماں کا بھائی نہیں ہے جو اس وقت آجائے گا۔فہد آرہا ہے۔”رفعت بیگم نے کہا۔
” شکریہ صاحب ۔” وہ نم آنکھوں کے ساتھ بولی۔
ارسلان نے حیرت سے اس لڑکی کو دیکھا جس کی آنکھیں ہر وقت برسنے کو تیار رہتی تھیں ۔
” تو تم جارہی ہو ۔ادھر رک جاتی۔” عنایہ نے منہ بنایا۔
” بھائی لینے آرہا ہے۔”وہ مسکرا کر بولی ۔
ارسلان نے حیرت سے اپنی بیٹی کو دیکھا جو پتا نہیں کیوں اس بیوقوف لڑکی سے اٹیچ ہوگئی تھی۔
” صاحب جی کھانا لگا دوں ۔” ملازمہ نے ارسلان سے پوچھا۔
” لگا دو۔” اس نے جواب دیا۔
” تم بھی کھانا کھاؤ گی۔” عنایہ نے پوچھا۔
” میں گھر جا کر کھاؤں گی۔” پیٹ میں دوڑتے چوہوں کو نظر انداز کر کے اس نے کہا۔یہاں تو صرف دن کا کھانا ملتا تھا وہ رات کا کیسے کھاتی۔
” چلو۔ “ارسلان نے عنایہ کو پکارا۔
” میں باہر بیٹھ کر بھائی کا انتظار کرتی ہوں۔”اس نے عنایہ سے کہا۔ڈائننگ ٹیبل لاؤنج میں ہی تھا تو ایسے بیٹھنا اسے عجیب لگا۔
ارسلان کے دل میں خیال آیا کہ اسے کھانے کا کہہ دے آخر کو وہ اس کی بیٹی کے لیے اتنی دیر رکی تھی۔لیکن پھر نے اُس نے اس خیال کو یہ سوچ کر جھٹک دیا کہ وہ اپنی ڈیوٹی کر رہی تھی۔
جب فہد آگیا تو وہ اطلاع دے کر باہر نکل آئی۔
” بیگم سراج نے کتنے پیسے دئیے ہیں ۔” رکشے میں بیٹھتے ہی فہد نے اس سے پوچھا ۔
“پندرہ سو۔” وہ حیرت سے بولی ۔
” مجھے دو۔” فہد نے کہا۔
” اماں ماریں گی۔” وہ نفی میں سر ہلا کر بولی۔
” ان لوگوں کے لیے چکن کڑاہی لینی ہے۔دو پیسے۔” وہ جنھجھلا کر بولا۔
ماہم نے تذبذب کا شکار ہوتے ہوئے روپیہ فہد کو پکڑائے۔محلے کی ایک دوکان سے جب فہد نے کڑاہی اور نان لیے تو اس نے سکون کا سانس لیا۔
فہد گیٹ پہ اسے کڑاہی دے کر واپس چلا گیا۔
” آگیا کھانا۔” گیٹ کے پاس چکر لگاتی آئمہ نے نعرہ لگایا۔
” باقی کے پیسے کدھر ہیں ۔” اس نے ابھی چادر اتار کر تخت پہ رکھی ہی تھی کہ رفعت بیگم نے پوچھا۔
” فہد بھائی کے پاس سارے پیسے تھے۔” وہ تخت پہ پڑا اپنا دوپٹہ اٹھاتے ہوئے بھی بولی۔جو صبح اس نے ادھر جلدی میں رکھ دیا تھا اور ابھی تک ادھر ہی پڑا تھا۔
” چھ سو کی کڑاہی دے کر نو سو وہ لے گیا۔نی تیری مت ماری گئی تھی تو نے اسے پیسے کیوں دئیے۔” رفعت بیگم اسے دھکا دیتے ہوئے غصے سے بولیں ۔
وہ لڑکھڑا کر زمین پہ گر گئی۔
” وہ آتا ہے تو حساب لے لینا۔ابھی تو کھانا کھاتے ہیں ۔بہت بھوک لگ رہی ہے ساتھ میں گرما گرم نان بھی ہیں ۔”ناعمہ نے کہا۔
رفعت بیگم اسی گھورتی تخت پہ بیٹھ گئیں ۔
وہ آنسو پیتی اٹھ کھڑی ہوئی ۔
” اور تم تو ویسے بھی گوشت کھاتی رہتی ہو۔اس لیے تمہیں نہیں ملے گا ۔ہے نا اماں۔”ناعمہ نے کہا اور ساتھ ہی ماں سے تائید چاہی۔
” اس کا میں قیمہ نہ بنا دوں۔ جو اس نے حرکت کی ہے اس کو آج کھانا نہیں ملے گا۔” وہ سفاکی سے بولیں ۔
” اماں معاف کردو۔آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔مجھے بڑی سخت بھوک لگی ہے۔”اس نے منت کی۔نیلی آنکھیں پانی سے بھر چکی تھیں ۔
” نکل ادھر سے ورنہ تیرا قیمہ بنا دینا ہے۔”وہ غصے سے بولیں ۔
وہ روتی ہوئی سٹور روم میں چلی گئی۔باہر اس کی کمائی سے کڑاہی کھا جارہی تھی اور اندر وہ بھوکی رو رہی تھی۔