کیا ہوا ہے بھابھی جب سے ہم نکلیں ہیں آپ کافی خاموش خاموش ہیں۔
وہ تینوں لاہور جانے کے لیے صبح صبح ہی نکل گئے تھے۔ سارے سفر میں عنیزہ کافی خاموش تھی تو نوال نے پوچھا۔
نہیں تو۔
بس ویسے ہی۔
مسکراہٹ سجائے کہا۔
ہمم ٹھیک۔
اس نے بھی پیچھے ٹیک لگاتے کہا۔
اگر تم دونوں کو بھوک لگی ہے تو کچھ کھا لیتے ہیں پہلے؟
حازم نے ڈرائیو کرنے کے دوران پوچھا۔
مجھے تو بھوک نہیں ہے بھائی جان آپ بھابھی سے پوچھ لیں۔
نہیں مجھے بھی نہیں ہے۔
وہ بھی فورًا بولی۔
اوکے ٹھیک ہے جیسی تم دونوں کی مرضی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنیزہ آپ کچھ دیر آرام کر لو بیٹا۔ تھک گئی ہو گی آپ۔
وہ عفت بیگم کے پاس بیٹھی تھی جب انہوں نے اسے پیار سے کہا۔
نہیں آنٹی بلکل بھی نہیں۔ مجھے ذرا تھکاوٹ نہیں ہوئی۔ اور جو ہوئی بھی تھی یہاں سب کے ساتھ مل کر ختم ہو گئی۔
وہ سب کے ساتھ گل مل گئی تھی۔ نوال کی ساری کزنز اس کے آگے پیچھے ہی تھیں اس کا بھی دل لگ گیا تھا۔ آنے سے پہلے وہ یہی سوچ رہی تھی کے پتہ نہیں سب کیسے ہوں گے۔ پر یہاں سب بہت اچھے تھے۔ عفت بیگم کی دونوں بہنیں بھی ان جیسی ہی تھیں پیار کرنے والیں۔
عنیزہ بھابھی آپ بھی مہندی لگوائیں نا۔
زونیہ نے عنیزہ کے ہاتھوں کو دیکھ کے کہا۔
نہیں نہیں۔
آپ لوگ لگواو۔
وہ سیدھی ہو کر بیٹھی۔
لیکن کیوں بھابھی لگوائیں نا۔
نوال نے بھی حصّہ ڈالا۔
مجھے مہندی لگانا اتنا پسند نہیں ہے اس لیے تم لوگ لگاؤ۔
اس نے دل کی بات بتائی۔
لیکن کیوں بیٹا۔ تمہاری بھی تو ابھی شادی ہوئی ہے کونسا سالوں گزر گئے ہیں۔ تھوڑا بہت تیار رہا کرو۔ کہیں سے بھی شادی شدہ نہیں لگتی۔ اور آپ مہندی تو ضرور لگوائیں گیں ۔
زرمین بیگم صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولیں۔
اچھا جی آنٹی۔
میں لگوا لوں گی۔
عنیزہ مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوئی۔
لڑکیو پہلے عنیزہ کے لگاؤ۔
اوکے خالہ جان۔
نوال کی ایک کزن بولی۔
آپا اب آپ پراپر شادی کب کریں گی حازم کی؟
عفت بیگم کی بہن صوفیہ بیگم نے پوچھا۔
یہی میں سوچ رہی تھی صوفیہ۔
ان کے بابا سے بات کی تھی میں نے وہ کہ رہے تھے کے ابھی کچھ وقت ٹھہر جاؤ۔
اچھا۔۔
جلدی کریں آپا۔
نھنيال میں سب سے بڑا یہی ہے اور اب ہمیں بھی بہت انتظار ہے اس کی شادی کا۔
بہت سے ارمان ہیں ہمارے دل میں حازم کے شادی کے لیے۔
ہمم ان شاءاللّه یہاں سے جا کر فواد صاحب سے بات کروں گی۔
ان شاءاللّه اللّه خیریت کا وقت لائیں ۔
زرمین بیگم نے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنیزہ کمرے میں آئی تو حازم بھی کمرے میں ہی موجود تھا۔ وہ فوراً اس تک بڑھی اور اس کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔ وہ اپنی بازو پر کھڑا گھڑی لگا رہا تھا۔
یہ دیکھو کیسی لگ رہی ہے میرے ہاتھوں پر؟
اس نے اپنے ہاتھ حازم کے سامنے کر کے خوشی سے اس کی طرف دیکھ کے پوچھا۔
ہوں!!!
بس ٹھیک ہے۔
حازم منہ کے زاویےبنا کر بولا۔
بس اچھی؟
عنیزہ نے مہندی کی طرف دیکھا۔
اچھی کب کہا میں نے؟
میں نے تو کہا کے بس ٹھیک۔
وہ کہ کے ٹیبل کی طرف بڑھا۔
یہ کیا کر دیا ہے پاگل لڑکی؟ فون لے کر واپس آیا تو اس کے ہاتھوں کی طرف دیکھ کے چیخا۔
وہ اپنی مہندی خراب کر چکی تھی۔
تم سے مطلب؟
یہ کونسا اچھی تھی۔
ہاتھ کی سیدھی سائیڈ کو الٹی کی طرف بڑھاتے ہوۓ بولی۔ وہ سیدھی سائیڈ کی خراب کر چکی تھی اب الٹی سائیڈ کی کرنے لگی تھی۔
خبردار جو یہ خراب کی تو۔ میں بہت برے سے پیش آؤں گا۔
وہ غرایا۔
تمھے کیا ہے۔ میری مہندی ہے میں خراب کروں یا نہیں اس سے تمھے کوئی مسلہ نہیں ہونا چاہیے۔
وہ غصے سے بول کر سائیڈ پر ہوئی۔
مجھے کیوں نہیں مسلہ ہونا چاہیے میری بیوی کے ہاتھوں پر اتنی پیاری مہندی خراب ہو یہ تو اچھی بات نہیں ہے نا۔
حازم نے آرام سے کہا تھا اسے پتہ تھا اگر وہ غصے سے کہے گا تو وہ اور خراب کرے گی۔
تم ہو ہی برے۔
تمھے میری کبھی کوئی چیز پسند ہی کب آئی ہے جو یہ آئے گی۔ میں ہی پاگل تھی جو تمھے دکھانے آ گئی۔
یار میں مذاق کر رہا تھا۔ اور کیا میں تم سے مذاق بھی نہیں کر سکتا؟
میں نے کب تمہاری چیز کو برا کہا ہے؟
حازم اس کے سامنے کھڑا ہو کے بولا۔
تم نے اچھا بھی کب کہا ہے۔ جتنی دفعہ بھی جوس یا چائے بناتی ہوں تمھارے لیے کبھی بھی تم نے تعریف نہیں کی۔ اور اگر کبھی میں خود پوچھ لوں تو یہی کہتے ہو بس ٹھیک ہے۔
وہ آہستہ آواز میں غڑا رہی تھی۔ جیسے سارے حساب آج ہی چکتا کرنے ہوں۔
اچھا۔۔۔۔۔۔
تو تم سب کا حساب رکھتی ہو کے کب میں نے تمہاری تعریف کی اور کب نہیں؟
اس نے آنکھیں اچکا کے پوچھا۔
اوکے میں آج کرتا ہوں تمہاری تعریف۔
مجھے نہیں پتہ۔ اور دور ہو کر کھڑے ہو میرے سے۔
وہ خود بھی پیچھے کو ہوئی۔
تعریف تو سن لو پھر دور بھی ہو جاؤں گا۔ حازم نے بازو سے پکڑ کے اسے اپنے قریب تر کر لیا۔
وہ زور سے آنکھیں موند کے سانس بند کیے کھڑی ہو گئی۔
وہ اپنے کہنے پر پچھتا رہی تھی۔
تو کہاں سے شروع کروں موحترمہ کی تعریف۔
وہ کچھ نا بولی۔
حسِن جاناں کی تعریف ممکن نہیں۔
ٹھک ٹھک۔
ابھی وہ اتنا بولا ہی تھا جب دروازہ کھٹکا۔
اس کی گرفت ہلکی پڑی تو عنیزہ فوری اس سے دور ہوئی اور اپنا سانس بحال کرنے لگی۔
حازم دروازے کی طرف چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے اس کے گھر پر ریڈ کی تھی پر وہ لا پتہ ہے۔
اس کا باپ تو خود کہ رہا تھا کے اگر وہ پکڑا جائے تو خدا کے لیے اسے نا چھوڑنا۔
کچھ بھی کرو بابر مجھے وہ سلاخوں کے پیچھے چاہیے۔
اگر مجھے یہاں نا آنا ہوتا تو میں خود دیکھ لیتا اسے۔
فکر نا کر یار ۔ ان شاءاللّه بہت جلد وہ جیل میں ہو گا۔
ان شاءاللّه!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حازم آج مہندی ہے اور تمھارے اتنے تیار ہونے کی وجہ کیا ہے؟
تمہاری مہندی تو نہیں ہے۔
عنیزہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑی جھمکا پہن رہی تھی جب اس کی نظر حازم پر گئی۔
اور اگر یہی سوال میں پوچھوں تم سے تو؟
میں کہاں سے تیار ہوئیں ہو بتانا ذرا۔
ابھی آنٹی سے جا کر پوچھتی ہوں کے حازم کہ رہا ہے کے تم اتنا تیار کیوں ہوئی ہو۔
وہ لڑاکا عورتوں کی طرح قمر پر ہاتھ رکھ کے بولی۔
ہاں تو بتاؤ کیوں ہوئی ہو اتنا تیار۔
وہ بھی ڈریسنگ ٹیبل کی طرف آیا۔
لڑکیاں اتنا ہی تیار ہوتی ہیں۔ اور میں نے تو ابھی کچھ کیا بھی نہیں ہے۔ یہ تھوڑی سی جیولری اور ہلکا سا میک اپ کیا ہے بس۔
وہ اپنے سراپے کو آئینے میں دیکھ کے بولی۔
میں نے تو صرف کپڑے پہنے ہیں۔ اور تمہیں زیادہ تیار لگ رہا ہوں۔
وہ اوف وائٹ کرتا شلوار پہنے اوپر گولڈن رنگ کی واسکوٹ پہنے بڑی سی چادر گلے میں ڈالے بالوں کو اچھے سے سیٹ کیے بہت نک سک سا لگ رہا تھا۔
عنیزہ لائٹ گولڈن رنگ کی شارٹ فروک جس پر موتیوں کا کام ہوا ہوا تھا اور ساتھ کپڑی پہنے ہوۓ تھی۔ بالوں کا جوڑا کر کے ماتھے پر بندیا لگائے کانوں میں جھمکے پہنے اور ہلکا سا میکپ کیے ہوۓ تھی۔ دوپٹہ پیچھے سے سیٹ کیے دونوں بازؤں پر آ رہا تھا۔
اس پر سب بہت سوٹ کر رہا تھا۔ حازم اسے پہلی دفعہ ایسے دیکھ رہا تھا اور وہ بہت پیاری گڑیا جیسی لگ رہی تھی۔
کیا میں اچھی نہیں لگ رہی؟
وہ حازم کو اپنی طرف دیکھتا پا کر پریشانی سے بولی۔
یار اب میں کیا کہوں۔
اگر تمھے کچھ کہ دیا تو تم نے ناراض ہو جانا ہے اور دوسری بات اگر تعریف کر دی تو تم ویسے ہی بے ہوش ہو جاؤ گی۔ مجھے تو ڈر ہے کہیں تمھے کچھ ہو ہی نا جائے جیسے سانس بند کر لیتی ہو۔
حازم نے کچھ دیر پہلے والی بات پر اس کا مذاق اڑایا۔
ویری فنی۔
ذرا ہنسی نہیں آئی قسم سے۔
سنجیدگی سے کہا گیا۔
اوکے نا ہنسو۔
اچھا یہ چھوڑو مجھے تم سے ایک بات پوچھنی ہے؟
بولو کیا؟
حازم اسے سنجیدہ دیکھ کے خود بھی سنجیدہ ہوا۔
تمھے کیسے پتہ چلا تھا کے میں اور سحر اس ہوٹل میں ہیں؟
یہ کیوں پوچھ رہی ہو؟
اور چھوڑ دو اس ٹوپک کو۔ میں یاد نہیں کرنا چاہتا۔
وہ بیڈ پر بیٹھا۔
پلیز حازم بتاؤ نا۔
وہ منت بھرے لہجے میں بولی۔
میں گھر آیا تو تم کہیں بھی نہیں تھی۔ میں جب روم میں گیا تو تمہارا سیل فون سائیڈ ٹیبل پر پڑا تھا۔ مجھے لگا شاید یہی کہیں ہو گی۔
ابھی میں بیٹھا بھی نہیں تھا جب تمہارے سیل فون پر مسلسل میسجز آ رہے تھے۔ میں نے دیکھا تو وہ کسی ان نون نمبر سے تھے کافی مسڈ کالز بھی آئی ہوئیں تھیں۔
میسجز پڑھے تو تمھے ہوٹل میں بلایا گیا تھا اور ساتھ روم نمبر بھی تھا۔ سحر کو کڈنیپ کرنے کا لکھا ہوا تھا کچھ ۔۔
بس ایسے ہی!!!!!
حازم بتا کے چپ ہوا۔
عنیزہ مکمل غور سے اسے سن رہی تھی۔
حازم اگر تمھے نا پتہ چلتا تو؟
کچھ نہیں ہوتا۔ جو ہوا نہیں اس کو سوچنے کا کیا فائدہ۔
ہممم۔۔
اچھا چلو باہر چلیں رسم بےشک شروع ہو گئی ہو۔
حازم کھڑا ہوا اور اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
عنیزہ نے بھی اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا اور دونوں باہر چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حازم مجھے آج مہندی میں ایسا لگا کے جیسے وہ لڑکا مسلسل مجھے ہی گھور رہا تھا۔
بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھی اسے بتا رہی تھی۔ وہ فنکشن سہی سے انجوئے نہیں کر پائی تھی ۔ وہ جہاں بھی جاتی وہ لڑکا اسے گھورتے ہوۓ ہی پایا جاتا۔
تمھے غلط فہمی ہوئی ہے ایسا کچھ نہیں ہے۔
حازم دوسری سائیڈ پر بیٹھتے ہوۓ بولا۔
ایسا بھی ہو سکتا ہے لیکن میں جب بھی مطلب اچانک سے بھی اس کی طرف دیکھتی تھی وہ میری طرف ہی دیکھ رہا ہوتا تھا۔
کہتے ساتھ ہی وہ کمفرٹر لے کر لیٹ چکی تھی۔
اچھا۔
کل دیکھیں گے اسے۔
ابھی تو بہت نیند آ رہی ہے۔
کہ کے لائٹ اوف کرتا وہ بھی لیٹ گیا۔
ہمم ٹھیک ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھابھی آج آپ کیسا ڈریس پہنیں گیں؟
صبح ناشتہ کرنے کے بعد سب لیونگ روم میں بیٹھے تھے جب نوال کی ایک کزن نے پوچھا۔
آج ریڈ کلر کا ہے۔
عنیزہ نے مسکرا کے بتایا۔
حازم بھی ساتھ ہی کچھ فاصلے پر بیٹھا ہوا تھا۔
آپ تو رات کو بھی ڈول ہی لگ رہیں تھیں۔
زونیہ خوشی سے چہکی۔
ماشاءاللّه کہو لڑکی۔
کیوں ہماری بہو کو نظر لگانی ہے۔
پاس بیٹھیں صوفیہ بیگم نے کہا۔
ماشاءاللّه خالہ جان۔
اور میری نظر نہیں لگتی آپ فکر نا کریں۔
منہ بنا کے کہا۔
ہمم پتہ ہے مجھے سب۔
آپ تو مجھے ذرا بھی پیار نہیں کرتیں عفت خالہ اتنی محبت کرتیں ہیں میرے سے۔
منہ بنا کے شکوہ کیا گیا۔
اب یہاں پیار کہاں سے آ گیا بھئی۔ میں نے تو جسٹ بات ہی کی۔
ناراض ہوں میں آپ سے۔
جواب آیا۔
حازم؟؟
عنیزہ نے آہستہ سے اسے آواز دی۔
جی۔
وہ دیکھو۔
سامنے صوفے کی طرف اشارہ کیا۔
حازم نے اشارے کی سیدھ میں دیکھا تو وہاں نمیر بیٹھا ہوا تھا جو عنیزہ کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔
حازم عنیزہ کی سائیڈ پر آیا اور نمیر کو دیکھتے ہوۓ ہی اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
نمیر اسے اپنی طرف دیکھتا پا کر نظر کا زاویہ بدل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوہ ماشاءاللّه!!
آج تو بہت پیاری لگ رہی ہو۔
حازم چینج کر کے نکلا تو عنیزہ کو دیکھ کے فورا اس کے منہ سے نکلا۔
ہاں تو اور کیا۔
میں ہوں ہی پیاری۔
وہ خوشی سے بولی اور ساتھ ساتھ بیڈ پر بیٹھی اپنی ہیل کا سٹریپ بند کر رہی تھی جو ہو ہی نہیں رہا تھا۔
بہت خوش فہمیاں ہیں تمھے اپنے متعلق۔
ہاں تو۔
غلط فہمی تو نہیں نا۔
تم تو ویسے بھی بہت جلتے ہو میرے سے۔
ہاں نا تم تو کہیں کی شہزادی ہو جو میں تم سے جلوں گا۔
دا ون اینڈ اونلی۔
“پرنسیس عنیزہ حازم فواد خان”
نا کرو حازم پہلے ہی یہ بند نہیں ہو رہا۔
وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی اور رونے والے انداز میں بتایا۔ وہ کافی دیر سے بند کرنے کی کوشش کر رہی تھی پر وہ ہو نہیں رہی تھی۔
کیا نہیں ہو رہا؟
حازم نے اس کے سامنے کھڑے ہو کر پوچھا۔
یہ۔۔۔۔
اس نے پاؤں میں پہنے جوتے کی طرف اشارہ کیا۔
افففف اتنا آسان کام ہے۔ اور رونے والا منہ تو ایسے بنایا ہوا ہے جیسے پتہ نہیں کیا ہو گیا ہو۔
تمھے ہر کام آسان ہی لگتا ہے۔
منہ پھلا کے کہا۔
اوکے میں بند کر دیتا ہوں۔
حازم نیچے بیٹھا اور دو منٹ میں سٹریپ بند کر دی۔
اوہ تھینک یو حازم۔
خوشی سے چیخی۔
ویلکم۔۔
مسکرا کے جواب دیا۔
عنیزہ ریڈ لونگ فروک پہنے جس کے لیفٹ سائیڈ پر چھوٹا سا موٹیو تھا باقی ساری سمپل تھی۔ ہلکے سے میک اپ میں بال کھولے کسی کے بھی دل کو دھڑکا سکتی تھی۔
اٹھ کے ڈریسنگ کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
ہمم اب میں تو تیار ہوں۔ تم جلدی سے تیار ہو جاؤ پھر ہم چلتے ہیں۔
تم سچ میں آج بہت پیاری لگ رہی ہو۔
حازم نے پھر سے تعریف کی۔
کہا تو ہے میں ہوں ہی پیاری۔
وہ خوشی سے چہچھائی۔
اور میں؟
تم میرے ساتھ پیارے لگتے ہو۔
آئینے میں اپنا دونوں کا عکس دیکھ کے بولی۔
وہ بلیک پہنے الگ ہی خوبصورت لگ رہا تھا۔
آگے بڑھا اور اس کے ماتھے پر بوسہ لیا۔ عنیزہ اپنی نظریں جھکا گئی۔
WithOut yOu, i’m nOthing..
With yOu, i’m sOmething..
TOgether, we’re everything..
حازم آہستہ سے گویا ہوا۔
جو عنیزہ با آسانی سن چکی تھی۔
اب مجھے لگتا ہے تم ریڈی ہو تو ہم لوگ چلیں؟
عنیزہ نے مڑ کے کہا۔
ہاں چلو۔
۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عفت باقی جو بھی ہے بہو تم نے کمال کی ڈھونڈھی ہے
۔ تمیز دار بھی بہت ہے اور ساتھ ساتھ خوب صورت بھی بہت ہے۔
حازم کے ساتھ یہی اچھی لگنی تھی۔
ہمم ماشاءاللّه!!
اللّه میرے دونوں بچوں کو ساتھ بہت خوش رکھیں اور دنیا کی ہر خوشی نصیب کریں آمین۔
عفت بیگم نے ان دونوں کو ہنستے ہوۓ دیکھ کے دل سے دعا دی۔
پر ہر دعا قبول بھی تو نہیں ہوتی نا۔
۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے گروسری کرنے جانا تھا پر گھر میں کوئی نہیں ہے۔ ساری چیزیں ختم ہوئی ہوئی ہیں۔
آنٹی اس میں اتنی پریشانی والی کیا بات ہے میں چلتی ہوں آپ کے ساتھ۔
تم کیسے؟
مجھے ڈرائیونگ آتی ہے اور میں بہت اچھی ڈرائیونگ کرتی ہوں۔
عنیزہ نے سنجیدگی سے بتایا۔
نہیں بیٹا آپ نہیں۔
اٹس اوکے آنٹی۔
ہم دونوں گھر میں بور ہی ہو رہے ہیں تو چلتے ہیں مارکیٹ۔ جلدی سے سارا سامان لے کر واپس آ جائیں گے۔
لیکن بیٹا!!
لیکن کچھ نہیں آنٹی۔
آپ تیار ہو جائیں میں بھی اپنا حجاب لے آؤں۔
اوکے جیسے آپ کہیں۔
عنیزہ اٹھی اور کمرے کی طرف چلے گئی۔
ان کو شادی سے واپس آئے تین ہفتے گزر چکے تھے اور سب اپنی روٹین میں دوبارہ سے مصروف ہو گئے تھے۔ حازم تو کچھ زیادہ ہی مصروف ہو گیا تھا وہ صبح کو جلدی چلے جاتا اور شام کو لیٹ واپس آتا۔
جب سے وہ شادی سے واپس آیا تھا مسلسل عدیل کی تلاش میں تھا جو اسے ڈھونڈھنے سے بھی نہیں مل رہا تھا۔
ہر اس جگہ ریڈ کیا تھا جہاں اس کے ہونے کی امید تھی پر نا ممکن۔ لیکن اس دوران اسے اس کے خلاف کافی ثبوت اکھٹے ہو چکے تھے۔
حازم بھی بغیر ہمت ہارے لگا ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنٹی کیا سارا سامان لے لیا ہے؟
عنیزہ نے ٹرولی کی طرف دیکھ کے پوچھا۔
لگتا تو ہے لیکن رکو میں ایک دفعہ لسٹ دوبارہ دیکھ لیتی ہوں۔
عفت بیگم لسٹ کھولے دیکھنے لگیں۔
اوہ ہو۔۔
اتنی اہم چیز میں کیسے بھول گئی۔
لسٹ کو دیکھتے ہی بولیں۔
کیا رہ گیا آنٹی؟
سب سے مین چیز آئل لانا تو میں بھول ہی گئی۔
چلیں لے آتے ہیں۔
وہ اپنا رخ دوبارہ اندر کی جانب کرتے بولی۔
نہیں آپ ایسا کرو یہ سامان لے جا کر کار میں رکھو میں دو منٹ میں لے کر آئی۔ یہاں ان کو چیزیں جمع کرواؤ پھر لو تو بہت ٹائم لگ جائے گا۔
اوکے آنٹی میں کار میں ہی آپ کا انتظار کر رہی ہوں آپ آ جائیے گا۔
اوکے۔
وہ سامان لے کر کار کی طرف چلے گئی۔
کار روڈ پر ہی کھڑی تھی۔
سب کچھ پیچھے رکھنے کے بعد کار میں بیٹھ گئی اور عفت بیگم کا انتظار کرنے لگی۔
اسے بیٹھے کچھ ہی وقت گزرا تھا جب اس کا فون رنگ ہوا۔
اس نے دیکھا تو کسی میسج تھا۔
کھولا تو اندر لکھے الفاظ دیکھ کے حیرت میں مبتلا ہوئی۔
اس کا دیہان ابھی فون پر ہی تھا جب سامنے سے سپیڈ میں آتی کار اس کی کار سے ٹکرائی۔
فون اس کے ہاتھوں سے گرا ۔ دوبارہ سے وہ کار پیچھے گئی اور پھر سپیڈ سے آ کر ٹکرائی۔
عنیزہ خون سے لت پت کار کے اندر تھی۔
۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوصلہ کریں فردوس بہن عنیزہ کو کچھ نہیں ہو گا۔
عفت بیگم اپنے آنسو صاف کر کے بولیں۔
میری بچی کتنی تکلیف میں ہو گی۔ وہ تو ہم سب کی لاڈلی تھی پھر یہ سب اسی کے ساتھ ہی کیوں ہونا تھا۔
رونے کے دوران کہا۔
اللّه ہے نا اوپر۔ وہ إن شاءاللّه سب ٹھیک کریں گے۔ اور جس نے یہ کیا ہے خدا غارت کرے اسے۔
عفت بیگم کرسی کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھیں۔
آپریشن تھیٹر میں عنیزہ کا آپریشن ہو رہا تھا۔ اس کے سر پر کافی گہری چوٹیں آئیں تھیں خون بھی کافی بہ گیا تھا۔ جس کے باعث ڈاکٹرز ان کو پہلے ہی بتا چکے تھے کے اب اللّه ہی آپ کے مریض کو زندگی دے سکتے ہیں۔
سب لگاتار عنیزہ کے لیے دعائیں کر رہے تھے۔
عنیزہ کی فیملی کو بھی حازم انفارم کر چکا تھا وہ سب بھی ہسپتال میں موجود تھے۔
سب باہر کھڑے انتظار میں تھے۔
بہت مشکل سے حازم اور فائق نے سب کو سمبھالا ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر صاحب کیا کنڈیشن ہے ہمارے پیشنٹ کی؟
ڈاکٹر کو آپریشن تھیٹر سے باہر آتا دیکھ کے حازم فورا ان کی طرف لپکا۔
آپریٹ تو ہم نے کر دیا ہے لیکن دو تین گھنٹوں کے اندر اندر ان کا ہوش میں آنا ضروری ہے۔ پھر ہی ہم کچھ کہ سکتے ہیں۔
مینز شیز از آوٹ آوف ڈینجرس؟
یہ تو ہوش میں آنے کے بعد ہی بتا سکتے ہیں کے وہ خطرے سے باہر ہیں یا نہیں۔
کیا ہم ان سے مل سکتے ہیں ابھی؟
فائق نے پوچھا۔
وہ ابھی انڈر آبزرویشن ہیں ہوش میں آنے کے بعد ہی آپ مل سکتے ہیں۔
اوکے تھینک یو۔
وہ مودب سا بولا۔
آپ دعا کریں اللّه ان شاءاللّه بہتر کریں گے۔
ان شاءاللّه!!
ڈاکٹر وہاں سے جا چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنیزہ جلدی سے یہ دودھ کا گلاس ختم کرو۔
ماما آپ کو پتہ ہے نا میں دودھ نہیں پیتی۔
اس نے منہ بسور کے کہا۔
بعد میں نا پینا ابھی آپ بیمار ہو تو ابھی پیو گی۔
وہ اسے کہ رہی تھیں اور ساتھ ساتھ اس کا کمرہ سیٹ کر رہیں تھیں۔
یار اب میں بہت ٹھیک ہوں۔
ہاں پتہ ہے مجھے کے کتنی ٹھیک ہو۔
اتنی کمزور ہو گئی ہو۔
افففف ماما۔
آپ کو تو میں ہر وقت کمزور ہی لگتی ہوں۔
ہو تو لگو گی بھی۔
اچھا ایک بات بتاؤ؟
وہ اس کے سامنے بیٹھ کے بولیں۔
جی پوچھیں۔
جب سسرال میں تھی تب بھی دودھ پیتی تھی یا نہیں؟
سسرال کا سن کے اس کا رنگ فوراً پھیکا پڑا۔
جو فردوس بیگم بغور دیکھ چکیں تھیں۔
ماما میں آج کافی تھک گئی ہوں کچھ دیر ریسٹ کرنا چاہتی ہوں۔ اور یہ دودھ میں رات کو پی لوں گی۔
اوکے بیٹا جیسی آپ کی مرضی۔
فردوس بیگم نے مزید کچھ پوچھنا مناسب نہیں سمجھا اور وہ اٹھ کر چلیں گئیں۔
عنیزہ لائٹ اوف کر کے لیٹ گئی۔
تکیے پر اس کے آنسو جذب ہو رہے تھے۔
ایک مدت ہوئی تجھ سے ملے
تو تو کہتا تھا رابطے میں رہیں گے
(تہذیب حافی)
اس کے ذہن میں یہی لائنیں گھوم رہی تھی۔ وہ جتنا چاہتی تھی اسے یاد نا کرے وہ اتنا ہی یاد آتا تھا۔
ایک ہفتہ ہسپتال میں رہنے کے بعد وہ اپنے گھر آ گئی تھی۔ فواد صاحب اور عفت بیگم نے اسے بہت زور لگایا تھا کے اپنے گھر چلے پر وہ اسی بات پر بضد تھی کے ماما کی طرف جانا ہے۔ وہ اپنے گھر والوں سے اپنے برے رویے کی معافی مانگ چکی تھی۔ سب کھلے دل سے اسے معاف کر چکے تھے۔
عفت بیگم تو روز اس سے ملنے آتیں تھیں نوال اور سحر بھی زیادہ تر ساتھ آ جاتی تھیں۔
گھر آئے اسے دو ہفتوں سے زیادہ کا وقت ہو گیا تھا اور حازم سے ملنا تو دور اس سے بات بھی نہیں ہوئی تھی۔ جب وہ ہسپتال میں تھی تب بھی اس کی اس سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔
عنیزہ کے ذہن میں ہر ٹائم وہی گھومتا تھا پر اب وہ فیصلہ کر چکی تھی کے وہ مزید اسے تنگ نہیں کرے گی۔ اس کی وجہ سے حازم کو بھی بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اب وہ خود کو اس سے دور کر لے گی۔
گنگناتے راستوں کی دلکشی اپنی جگہ…
اور سب کے درمیاں تیری کمی اپنی جگہ!!
۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنیزہ جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ پھر ہم تمھے گھر لے کر جائیں۔
تایا ابو کا گھر اتنا سنسان لگتا ہے تمھارے بغیر۔ اور وہ تمھارے مجنو صاحب تو گھر آتے ہی نہیں ہیں۔ اس کا فل فوکس عدیل پر ہے۔ پکڑا تو وہ خبیث گیا ہے اب بس سزائے موت باقی ہے اس کی۔
سحر نے نخوت سے سر جھٹکتے اسے بتایا۔
کیا حازم گھر نہیں آتے؟
عنیزہ نے سیدھی ہو کر بیٹھ کے پوچھا۔
کہاں یار۔
رات کو بہت لیٹ آتا ہے اور صبح صبح ہی نکل جاتا۔
کیا تمہاری بات نہیں ہوتی اس سے؟
سحر نے جواب دینے کے ساتھ فوری سوال کیا۔
ہا ہاں ہو جاتی ہے۔
عنیزہ گڑبڑائی۔
جھوٹ بول رہی ہو نا؟
سحر خوفگی سے بولی۔
اصل میں میرا فون تو تب کار میں ہی کہیں۔ اس وجہ سے بہت کم۔
عنیزہ نے بروقت بہانہ بنایا۔
اچھا میں نمبر ملا کر دیتی ہوں تم میرے فون سے بات کر لو۔
سحر نے پاکٹ سے فون نکالنا چاہا جب اسے عنیزہ نے روک دیا۔
نہیں ابھی رہنے دو میں فائق بھائی سے لے کر کر لوں گی۔
پکا؟
ہاں پکا۔
اوکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حازم مجھے سچ سچ بتاؤ سب؟
ماما جان میں سچ کہ رہا ہوں میری عنیزہ سے کوئی ناراضگی کیوں ہو گی بھلا۔
اگر نہیں ہے تو پھر آپ اسے دیکھنے ایک بھی دفعہ اس کے گھر نہیں گئے اور مجھے تو لگتا ہے آپ نے کبھی فون کر کے بھی اس کا حال نہیں پوچھا۔
ماما ایسی کوئی بات نہیں ہے یار۔
میں عدیل کے معاملات میں بہت مصروف تھا جس کے باعث مجھے وقت نہیں ملا۔
اس نے وضاحت دی۔
سیریسلی حازم۔
وہ آپ کی بیوی ہے اور آپ کے پاس اسی کے لیے ٹائم نہیں ہے۔ ایسی بھی کیا مصروفیت ہوئی۔ حیرت ہو رہی ہے مجھے آپ پر۔
آپ کم از کم اسے ایک فون تو کر لیتے۔
کیا سوچتی ہو گی وہ کے حازم کی تو جان چھوٹی میرے سے۔
عفت بیگم غصّے سے بولیں۔
انھیں اپنے بیٹے سے ایسی امید نہیں تھی۔
ماما جان آئی پرومیس ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میرے لیے بھی یہ آسان نہیں ہے۔ اتنا وقت گزارا ہے میں نے اس کے ساتھ۔ بس میں یہ چاہتا تھا کے یہ کیس ختم ہو جائے اسے گھر ہی لے آؤں گا۔ اور جہاں تک فون کرنے کی بات ہے اس کے پاس کوئی فون نہیں ہے۔ میرے پاس صرف فائق کا نمبر ہے اور وہ سارا دن میرے ساتھ ہوتا ہے۔ اور رات گئے جب وہ گھر جاتا ہے تو ظاہری سی بات ہے وہ سو جاتی ہو گی۔
بس کل لاسٹ ہیرنگ ہے ان شاءاللّه۔ اس کے بعد میں اسے لے آؤں گا۔
حازم نے ان کا ہاتھ دبا کر ج۔ انھیں مطمئن کرنا چاہا۔
اگر یہی بات ہے تو پھر ٹھیک ہے۔
وہ سکون کا سانس لیتے بولیں۔
ہمم۔
آج حازم کچھ جلدی آ گیا تھا تو عفت بیگم نے اس کی کلاس لگا لی تھی کے کیا بات ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنیزہ یہ تمھارے لیے فون۔۔۔۔۔
ابھی وہ بول ہی رہا تھا جب عنیزہ اس کی بات کاٹتے ہوۓ بولی۔
بھائی جان مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے ۔
پہلے یہ تو۔۔۔۔۔
بھائی جان باقی سب باتیں بعد میں پہلے میری بات۔
وہ اسے لیے بیڈ پر بیٹھ گئی۔
ہاں بتاؤ۔
فائق نے پوچھا۔
بھائی جان میں حازم سے ڈائیورس لینا چاہتی ہوں۔ میں مزید اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔
وہ بہت ہمت جمع کر کے بول گئی تھی۔ کافی دنوں سے وہ فائق کو کہنا چاہ رہی تھی پر کہا نہیں جا رہا تھا آج اس نے ہمت کر کے کہ دیا تھا۔
عنیزہ کی بات سن کے فائق کا رنگ اڑا۔
اس نے ایک نظر فون کی طرف ڈالی جو اب کٹ چکا تھا۔
لیکن کیوں؟
وہ ساکت سا بولا۔
بس میں ان پر مزید بوجھ نہیں بن سکتی۔
آپ حازم کو طلاق کا کہ دیجئے گا نہیں تو ہم خلع لے لیں گے۔
اب حازم کو کہنے کی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔ وہ خود ہی سب سن چکا ہے۔
فائق کہ کے کمرے سے باہر چلا گیا۔
عنیزہ اپنا سر ہاتھوں میں پکڑ کے بیٹھ گئی۔
آنسو اس کی آنکھوں سے رواں تھے۔ یہ وہی جانتی تھی اس نے کس ضبط سے کہی تھی یہ بات۔
چلو ہم مان لیتے ہیں
کہ تم بن ہم بہت روئے
کئی راتوں کو نہ سوئے
مگر افسوس ہے جاناں۔۔
اب کے تم جو لوٹو گے
ہمیں تبدیل پاؤ گے
۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج عدیل کو سزائے موت سنا دی گئی تھی اس نے بہت سی لڑکیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ گواہوں کی بنیاد پر وہ لوگ کیس جیت گئے تھے۔ حازم گھر آیا فرش ہوا اور اس نے فائق کو کال کی۔
جو وہ دو منٹ بجنے کے بعد ہی اٹھا چکا تھا کچھ دیر حازم نے اس سے بات کی پھر عنیزہ سے بات کروانے کا کہا۔
فائق اوکے کہتا فون عنیزہ کے کمرے میں لے گیا۔ پر اگلی طرف سے کچھ ہی باتیں سننے کے بعد حازم نے فون کاٹ دیا تھا۔
وہ ضبط کی آخری حدوں کو چھو رہا تھا لیکن پھر بھی اپنے آپ کو ریلکس کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
زیادہ ہی غصّہ آیا تو اس نے فون اٹھا کے ڈریسنگ ٹیبل پر دے مارا۔
ڈریسنگ کا آئینہ ٹوٹ گیا تھا اور فون کی بھی حالت خاصی خراب ہو گئی تھی۔
کیوں آخر کیوں؟
وہ چیخا۔
لمبی سانس لیتا وہ اٹھ کے بالکونی کی طرف چلا گیا۔
کھڑا ہو کر لمبی لمبی سانسیں ہوا میں منتقل کرنے لگا ۔
ضبط کے باوجود آنکھ سے آنسو لڑکھا۔
اس نے غصّے سے ہاتھ کی پشت سے صاف کیا۔
کتابیں سینکڑوں پڑھ لیں مگر یہ رمز نہ جانی!
کوئی اپنا بچھڑ جائے تو کیسے صبر کرتے ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عفاف اب کیا رہ گیا ہے یار جلدی کرو میں تھک گئی ہوں۔
عنیزہ اس کے ساتھ چلتے ہوۓ بولی۔
آپی بس یہ آخری شاپ پر جا رہے ہیں اس کے بعد ہم سیدھا گھر جائیں گے۔
ایسے تو تم کب سے کہ رہی ہو۔
ہائے اللّه آپی آپ کتنی لیزی ہو گئی ہو۔ پہلے تو ایسی نہیں تھیں۔
عفاف آگے ہوئی تھوڑا سا اس سے۔
ہاں ہوں میں لیزی تم ٹھیک رہو بی بی۔
جلدی چلو گھر واپس اس کے بعد میں کسی شاپ پر نہیں جاؤں گی۔
عنیزہ نے حتمی انداز میں کہا۔
اوکے آپی۔
شاپ کے اندر داخل ہو کر وہ جوتے دیکھنے لگی۔
عنیزہ چپ چاپ ایک طرف کھڑی ہو گئی جب پیچھے سے کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
وہ فورا مڑی۔
عنیزہ بھابھی آپ یہاں؟
نوال خوشی سے بولی۔
ہممم۔
عنیزہ بھی مسکرا کے اس سے ملی۔
آپ اکیلی آئیں ہیں؟
نہیں نہیں۔
میرے ساتھ عفاف ہے۔ اسے کچھ چیزیں لینی تھیں۔ تو مجھے کہتی آپ بھی ساتھ آ جاؤ تو میں آ گئی۔
عنیزہ نے بتایا۔
اور تم اکیلی آئی ہو؟
نہیں میں بھی بھائی جان کے ساتھ آئی ہوں۔
وہ بتا ہی رہی تھی جب حازم بھی شاپ کے اندر داخل ہوا۔
دونوں ایک دوسرے کو دیکھ چکے تھے۔
دونوں ہی ایک دوسرے کو مہینے بعد دیکھ رہے تھے۔
اوہ نوال ، حازم بھائی آپ؟
عفاف نے آ کر خوشی سے کہا اور نوال سے بغلگیر ہوئی۔
نوال میں کار میں تمہارا ویٹ کر رہا ہوں جلدی آ جانا۔
حازم کہ کے بغیر عنیزہ کی طرف دیکھے وہاں سے چلا گیا۔
ایک دم عنیزہ کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر آ گیا۔
عفاف چلیں گھر۔
عنیزہ ضبط کرتے بولی۔
جی چلیں۔
اچھا نوال پھر ملاقات ہو گی آپی کافی تھک گئیں ہیں۔
اوکے اللّه حافظ۔
ساتھ ہی تینوں باہر آئیں اور اپنی اپنی کار میں بیٹھ کے روانہ ہو گئیں۔
عنیزہ کی طلاق کی بات سب تک پہنچ گئی تھی لیکن کسی نے کچھ کہا نہیں تھا۔ سب ابھی خاموش تھے۔ وہ عنیزہ کو سوچنے کا وقت دے رہے تھے۔
کب تک رہو گے آخر یوں دور دور ہم سے
ملنا پڑے گا تم کو ایک دن ضرور ہم سے
دامن بچانے والے یہ بے رخی ہے کیسی
کہہ دو اگر ہوا ہے کوئی قصور ہم سے
ہم چھین لیں گے تم سے یہ شان بے نیازی
تم مانگتے پھرو گے اپنا غرور ہم سے
ہم چھوڑ دیں گے تم سے یوں بات چیت کرنا
تم پوچھتے پھرو گے اپنا قصور ہم سے
کب تک رہو گے آخر یوں دور دور ہم سے
ملنا پڑے گا تم کو ایک دن ضرور ہم سے
۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ عنیزہ کو کیا ہوا؟
وہ آتے ہی سیدھا اپنے کمرے میں چلے گئی تو فردوس بیگم نے عفاف سے پوچھا۔
شاپ پر حازم بھائی بھی تھے تو۔۔۔۔
وہ اصل بات بتا کے چپ ہوئی۔
اچھا۔
اب ہمیں ہی کچھ کرنا ہو گا۔
ان لوگوں نے تو پتہ نہیں کیا سوچا ہوا ہے۔
فردوس بیگم نے کچھ سوچتے ہوۓ کہا۔
کیا کریں گے آپ لوگ؟
عفاف نے پوچھا۔
آج فائق کو آنے دو اسے لے کر جاؤں گی حازم کے گھر۔
فواد صاحب اور عفت بہن سے بات کر کے جو ہمیں سمجھ آیا وہ کریں گے۔
ماما آپی سے پوچھ لیجئے گا۔
کیا پوچھوں اس سے؟
حالت دیکھی ہے اس کی؟
نکاح کے بول میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ یہ دونوں فریقین کے دلوں میں محبت اجاگر کر ہی دیتی ہے۔
عنیزہ مانے یا نا مانے اب وہی ہو گا جو ہم چاہیں گے۔
حتمی لہجے میں کہا گیا۔
ماما کہیں وہ ناراض نا ہو جائیں پھر سے؟
عفاف نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔
نہیں اس دفعہ وہ ناراض نہیں ہو گی۔
مجھے پورا یقین ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں ہر طرف پھولوں کی مہک سمائی ہوئی تھی۔ لیمپس کی ہلکی ہلکی روشنی میں کمرے کا ماحول اور بھی فسوں خیز لگ رہا تھا۔
وہ بیڈ پر پھولوں کے درمیان بیٹھی پھول ہی لگ رہی تھی۔ اس کا دل کسی اور ہی لے پر دھڑک رہا تھا۔
ایک طرف سے پریشان تھی کے پتہ نہیں حازم کیسا رویہ اختیار کرے اس کے ساتھ۔
اللّه میاں جی سب ٹھیک ہی ہو پلیز۔۔
اس نے دل میں دعا کی۔
ابھی مزید کوئی دعا کرتی جب کمرے کا دروازہ کھلا۔
وہ ساکت اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔
اچھے سے جانتی جو تھی کے کون ہے۔
حازم نے اندر آ کر دروازہ بند کر دیا اور سیدھا بیڈ کی طرف بڑھ گیا۔
عنیزہ نے دونوں ہاتھوں میں اپنا لہنگا دبوچ لیا اور آنکھیں جھکا گئی۔
حازم اس کے سامنے آ کر بیٹھ گیا۔
یہ اتنی تیاری کس لیے؟
وہ سنجیدگی سے بولا۔
عنیزہ چپ رہی۔
اتار دیتی یار آرام کرتی ایویں تھک گئی ہو گی۔
وہ طنز کے تیر چلا رہا تھا جو عنیزہ اچھے سے سمجھ رہی تھی۔
سوری حازم۔۔
وہ نظریں جھکائے آہستہ سے منمنائی۔
بہت آسان ہے نا یہ کہنا۔
تم ازالہ کر سکتی ہو میری اس اذیت کا جو میں نے برداشت کی۔
حازم نے اس کی بازو دبوچ کے اپنے قریب کر کے کہا۔
میرے لیے بھی یہ آسان نہیں تھا حازم۔
ہاں آسان نہیں تھا تو اسی لیے اتنا کچھ کر گئی۔ اگر آسان ہوتا تو آج طلاق لے چکی ہوتی شاید۔
وہ غصّے سے کہ رہا تھا۔
نہ نہیں تو۔
میں سچ میں بہت شرمندہ ہوں حازم۔
وہ اس کے چہرے کی طرف دیکھ کے گویا ہوئی۔
پتہ ہے مجھے اچھے سے کے تم کتنی شرمندہ ہو۔
وہ نخوت سے بولا۔
پلیز سوری نا۔
سچ میں مجھے لگا تھا کے میرے آنے کی وجہ سے آپ کی پروبلمز بڑھ گئی ہیں اس لیے میں نے وہ کہا تھا۔ اور یہ میرے لیے بھی کوئی آسان بات تھوڑی تھی۔
I’m sOrry fOr what i have dOne, fOr saying thOse things that hurt yOu..
The mOst , i didn’t mean to hurt yOu..
وہ اس کے سینے سے لگے کہ رہی تھی۔
حازم کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی۔
اس روپ میں تم معافی مانگو گی تو کون ظالم معاف نہیں کرے گا۔
حازم کی شرارت بھری آواز عنیزہ کو سنائی دی۔
وہ فورا اس سے پیچھے ہٹی پر حازم نے اس کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔
کیا ہے حازم پیچھے کو ہو جائیں تو۔
آہستہ سی آواز آئی۔
اب بھی پیچھے کر رہی ہو؟
اتنے عرصے بعد تو ملی ہو تم یار۔
افففف حازم اتنا عرصہ کہاں صرف ڈھیر منتھ کی ہی تو بات تھی۔
وہ پیچھے ہو کر بولی۔
ہاں تمھارے لیے تو بہت آسان تھا پر میرے لیے نہیں۔ مجھے تو تمہاری عادت ہو گئی تھی۔ جب تم مجھے اس روم میں نظر نہیں آتی تھی دل تو چاہتا تھا آگ لگا دوں پر۔۔۔۔
پر کیا؟
اس کے رکنے پر کہا۔
کچھ نہیں۔
اچھا میری منہ دکھائی تو دیں؟
عنیزہ نے اپنا ہاتھ اس کے آگے کیا۔
کونسی منہ دکھائی؟
یہ چہرہ تو میں بہت پہلے ہی دیکھ چکا تھا اب کونسی منہ دکھائی ہوئی۔
حازم نے آنکھوں میں شرارت لیے چہرے پر سنجیدگی سجائے کہا۔
حازم؟؟؟؟
وہ چیخی۔
یہاں ہی ہوں میں کہیں دور نہیں گیا۔
دیں نا آپ۔ جلدی کریں۔
ایک منٹ ویٹ ویٹ ویٹ۔۔۔۔۔
حازم نے اس کی بات کاٹی۔
جی؟
یہ تم مجھے آپ کب سے کہنے لگی؟
حازم نے حیرانگی سے پوچھا۔
عنیزہ مسکرا کے نظریں جھکا گئی۔
بتاؤ نا؟
حازم نے اس کا ہاتھ دبایا۔
بس ایسے ہی۔
یار تم مجھے تم ہی کہو۔ آپ سے اپنے والی فیلنگ نہیں آتی۔
عزت راس نہیں ہے لگتا۔۔۔۔
ہاہاہاہا۔۔
اس نے قہقہ لگایا۔
I lOve yOu..
حازم اسے اپنے ساتھ لگاتا گویا ہوا۔
I lOve yOu tOo mOre than everything..
وہ بھی جوابًا بولی۔
محبت ہو تو دائم،رہے تو واحد ہے
اس راہ پر قبلہ نہیں بدلا جاتا۔۔۔
جو رہو تو ایک ہی دین دھرم ہے
رت بدلے،موسم نہیں بدلا جاتا۔۔۔
عشق ہے نام دوجہ،دوام کا
لاکھ کر سعی،نام نہیں بدلا جاتا۔۔۔
شب و روز محو تصّور یار رہو
مقام بدلے،کام نہیں بدلا جاتا۔۔۔۔۔
ایک بار جو دِل نامِ یار کر بيٹھیں
لاکھ ہوں طالب،صبح و شام نہیں بدلا جاتا۔۔
بارہا کہا ہے اب چھوڑ دو ناصح۔۔
تمھاری مان لینے سے۔۔مقام نہیں بدلا جاتا۔۔
عشق وہ جام جو سر چڑ بولے،بن پیۓ
ہوں فتوے ہزار،یہ دوامِ مے نہیں بدلا جاتا۔۔
ہوش میں نہ بھی ہوں تو طواف ہوتا ہے
عکسِ حوا۶
سمت بدلتی ہے فقط،کعبہ نہیں بدلا جاتا۔۔
(عک¬سِ حوا ۶)
۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(پانچ سال بعد)
حازم کل میں نے تمہاری بات مانی تھی نا۔
تو آج تم میری بات مانو گے۔۔
وہ چہرے پر مسکراہٹ لیے بولی۔
مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کے اس مسکراہٹ کے پیچھے بہت بڑی سازش چھپی ہے۔
حازم اس کی مسکراہٹ کو دیکھ کے بولا۔ اس کو دال میں کچھ کالا لگ رہا تھا۔ ویسے وہ اس سے اتنے آرام سے بات نہیں کرتی تھی۔
نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔ بس مجھے یہ چلانا ہے۔
وہ پیچھے کیے ہوۓ ہاتھ آگے کر کے معصومیت سے بولی۔
حازم فوری بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا۔
خبردار جو ایک قدم بھی آگے آئے ورنہ میں تم پر چلا دوں گی۔
اس نے پسٹل دونوں ہاتھوں میں پکڑ کےحازم پر سیٹ کیا۔
تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے لڑکی؟
کہیں پاگل واگل تو نہیں ہو گئی۔
نیچے رکھو اسے۔ یہ کھلونا نہیں ہے۔
حازم نے اسے ڈپٹا۔۔
نہیں رکھوں گی جو مرضی کر لو۔
اور ایک قدم بھی آگے آئے تو میں چلا بھی سکتی ہوں۔ یہ نا سمجھنا مجھے آتا نہیں ہے۔
ہمارے گھر میں بھی تھا۔ اس لیے مجھے کچھ کچھ آتا ہے۔
وہ بے خوفی سے بولی۔
مجھے تو یہ سمجھ نہیں آ رہی تم میرے پر چلاؤ گی کیوں؟
کیوں کے تم میری بات نہیں مانتے۔۔
عنیزہ نے جواز پیش کیا۔۔
اوہ مائے گاڈ۔۔
تم بلکل ہی پاگل ہو۔۔
وہ جھنجلایا۔۔
حازم سر تھام کے رہ گیا۔
اب بتاؤ سکھاؤ گے یا نہیں؟
ویسے ہی اس پر سیٹ کیے پوچھا۔
تم۔۔۔۔۔۔۔
مام؟؟؟
حازم کے بولنے سے پہلے ہی وہ دروازہ کھول کے اندر آیا۔
آپ یہ کیا کر رہی تھیں؟
اس نے عنیزہ کے ہاتھ میں پسٹل دیکھ کے پوچھا۔
میں یہ آپ کے ڈیڈا سے چلانا سیکھ رہی تھی۔
مجھے بھی سیکھنا ہے؟
وہ معصومیت سے بولا۔
سیکھاؤ اب اسے بھی۔
حازم کہ کے بیڈ پر بیٹھ گیا۔
نہیں میری جان یہ بچے نہیں سیکھتے۔
وہ پسٹل ڈریسنگ پر رکھ کے اس کے سامنے بیٹھ کے بولی۔
نو۔۔
جو نیزہ سیکھے گی وہ میں بھی سیکھوں کا حادم سے۔
بری بات مام کو نیزہ نہیں کہتے۔
اس نے اس کے پھولے پھولے گالوں پر پیار کر کے کہا۔
مقابل اس نے بھی عنیزہ سے ویسے ہی پیار کیا۔
حادم بھی تو نیزہ کہتے ہیں۔
اس نے جواز پیش کیا۔
وہ ڈیڈا ہیں نا تو وہ کہ سکتے ہیں آپ نہیں کہ سکتے۔
اور حازم نہیں کہتے ڈیڈ کہتے ہیں۔
آپ بھی تو حادم کہتیں ہیں۔
اففففف۔۔۔
بس کرو عون۔
آپ بہت بولنے لگ گئے ہو اب۔
وہ اس کے سامنے سے اٹھ کے کھڑی ہو گئی۔
کٹی آپ سے۔۔
وہ منہ بسوڑتا کہ کے حازم کے پاس چلا گیا۔
ڈیڈا اسکول چلیں؟
جی میرے شہزادے چلو۔
حازم اسے پیار کرتا باہر لے گیا۔
ان پانچ سالوں میں کافی کچھ بدل گیا تھا۔ حازم اور عنیزہ کو اللّه نے بیٹا دیا تھا جو چار سالوں کا تھا اس کا نام انہوں نے عون رکھا تھا۔
سب گھر والوں کی اس میں جان بستی تھی۔ شرارتی بھی حد سے زیادہ تھا۔ حازم کی کیا مجال کے اس کے سامنے عنیزہ کو کچھ کہ دے۔
فائق کی شادی سحر سے کر دی تھی۔ فردوس بیگم کو سحر پسند آئی تھی تو انہوں نے فائق کے لیے مانگ لی۔
عفاف کی منگنی بابر کے ساتھ ہو گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عون آپ ایسا کرو سو جاؤ رات کو مل کے ڈیڈ کو تنگ کریں گے۔
وہ سکول سے آیا تو کھانا کھلانے کے بعد عنیزہ اسے روم میں لے گئی تھی اور سلانے کی کوشش کر رہی تھی۔
بری بات ڈیڈا کو تنگ نہیں کرتے اللّه ناراض ہوتے ہیں۔
معصومیت سے کہا گیا۔
یہ آپ کو کس نے سکھایا ہے؟
عنیزہ نے پوچھا۔
یہ میرے جان سے پیارے ڈیڈا نے۔
عون آپ میری ٹیم چھوڑ رہے ہو؟
عنیزہ نے سنجیدگی سے پوچھا۔
نہیں مام آپ تو پرنسیس ہیں نا۔
وہ اس کا منہ ہاتھوں میں لے کر بولا۔ باتیں بنانے میں تو وہ پہلے ہی ماہر تھا .
اور یہ آپ کو کس نے سکھایا؟
یہ مجھے خود ہی پتہ ہے۔
وہ مسکرایا۔
ماشاءاللّه!! میری جان ، میرا شہزادہ۔
کتنا پالا ہے۔
وہ بیڈ پر لٹائے اسے پیار کرتے بولی۔
۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیڈا مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے؟
سب لاؤنج میں بیٹھے تھے جب وہ حازم کے پاس آ کے بولا۔
جی کیا بات ہے۔
حازم نے اسے اٹھا کے اپنی گود میں بٹھایا۔
مجھے شادی کرنی ہے۔
مجھے بھی نیزہ جیسی ایک بیوی چاہیے۔
موٹے موٹے گال پھلا کے حازم سے کہا۔
اس کی بات سن کے سب کے قہقے گھونجے۔
بچے ایسی باتیں نہیں کرتے۔ اور آپ کو ابھی بیوی کیوں چاہیے؟
کیوں کے میں نے اس کے ساتھ کھیلنا ہے۔
اپنی انگلیوں کو مروڑتے وہ اپنے خیالات بتا رہا تھا۔
تو میری جان آپ اپنے ٹوئز سے کھیلو نا۔
فواد صاحب نے مشورہ دیا۔
نہیں دادو۔۔
یار تو جو مرضی کر لے یہاں تو ابھی میں کنوارہ بیٹھا ہوں تو تو پھر بہت چھوٹا ہے۔
ابراھیم اسے اپنے پاس لیتے بولا۔
منہ بسوڑتا وہ اس کے پاس سے اٹھ گیا جیسے اس کی بات پسند نا آئی ہو ۔
مام آپ میری شادی کروائیں گی نا؟
عنیزہ کے پاس جا کر پر امید لہجے میں کہا۔
کیوں نہیں۔
آپ تھوڑے سے بڑے ہو جاؤ میں نے آپ کی شادی کروا دینی ہے۔
عنیزہ نے اسے گود میں بٹھایا۔
تھینک یو۔۔
وہ خوشی سے چہکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیڈ آپ بیٹھیں میں آپ کا آج میک اپ کروں گا۔
حازم کو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھا کر عون عنیزہ کی لپس سٹک ہاتھ میں لے کے کہا ۔
لڑکے میک اپ نہیں کرتے عون۔
حازم نے اسے سمجھایا۔
نہیں میں آپ کا کروں گا۔
اس کی بات سنتے ہی کمرے میں داخل ہوتی عنیزہ کا قہقہ گھونجا۔
یہ بلکل تم پر گیا ہے۔ تم بھی مجھے ایسے ہی کہتی تھی کے آؤ حازم میں تمہارا میک اپ کروں۔
حازم نے خوفگی سے جتایا۔
ہاں تو۔
میرا بیٹا ہے میرے جیسا ہی ہو گا نا۔
کھلکھلا کر کہتی وہ ساتھ ساتھ الماری سیٹ کر رہی تھی۔
حازم اس سے لپ سٹک لے کر سائیڈ پر رکھ چکا تھا اور اسے فون پکڑا دیا تھا۔
فون کا تو وہ پہلے ہی بہت شوقین تھا۔
مام آئیں ہم تینوں سیلفی لیں۔
فون کا فرنٹ کیمرہ کھول کے اس نے عنیزہ کو آواز دی۔
اچھا آتی ہوں۔
جلدی آئیں نا۔
آ رہی ہوں یار دو منٹ ٹھہرو۔
تینوں کا ہنستا مسکراتا منظر اس نے کیمرے میں قید کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد…
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...