”مجھے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا اتنی جلدی سب کیسے ہوگا”۔ شائستہ بیگم نے سب کو چائے سرو کرتے ہوئے فکرمندی سے کہا۔ ”اتنے کم دن رہ گئے ہیں کیسے ہوں گے سارے انتظامات میں تو خود پریشان ہوں”۔ غضنفر علی بھی متفکر تھے۔ ” سب ہو جائے گا غضنفر بھائی آپ اتنے فکر مند نہ ہوں”۔ ضیافت علی نے چائے کا کپ ٹیبل سے اٹھاتے ہوئے انہیں تسلی دی۔ ”حورین نے الگ خود کو کمرے میں بند کر رکھا ہے سب سے بہت ناراض ہے بھلا اتنی جلدی بھی کیا تھی بھائی صاحب کم از اسٹڈیز کمپلیٹ ہونے تک کا وقت ہی لے لیتے”۔ ثانیہ بیگم نے ماتھے پہ بل ڈالے شکوہ کیا۔ ” لو جی تم پھر سے شروع ہو جاؤ پچھلے دس دنوں میں دس ہزار بار یہ بات دہرا چکی ہو، پہلے ہی بھائی بھابھی فکرمند ہیں”۔ ضیافت علی نے مسکراتے ہوئے بیگم سے کہا۔ ” کہہ تو ٹھیک رہی ہیں بھابھی اتنی جلدی کیسے اتنی بڑی ذمہ داری اٹھائے گی میری حور”۔ شائستہ بیگم مزید متفکر ہوئیں۔ ”ارے بھابھی وہ کوئی بیک ورڈ فیملی تو ہے نہیں کہ جاتے ہی حورین پر گھر کے کام کاج کی ذمہ داری ڈال دیں گے”۔ ضیافت علی نے انہیں تسلی دینے کو کہا جبکہ دل تو اپنا بھی پریشان تھا گھر کی اکلوتی بیٹی ہونے کی وجہ سے حورین چاچو، چاچی کی بھی جان تھی۔ ہمدان سے ملاقات کے بعد عارش کو تسلی ہو گئی تھی کہ ہمدان کو کچھ یاد نہیں ہے اور حورین ایسے ہی ڈر رہی ہے جبکہ حورین کا خوف جوں کا توں تھا ادھر عارش سے ملاقات کے اگلے ہی دن ہمدان کی فیملی شادی کی ڈیٹ فکس کر کے جا چکے تھے حوریں کا احتجاج کسی کام نہ آیا مجبوراً اسے سب کے فیصلے کے آگے سر خم کرنا پڑا۔ عارش نے اسپیشلائیزیشن کے لئے لندن مین اپلائی کر رکھا تھا اور اسکے جانے کا پروانہ اسے مل چکا تھا۔ حورین کی شادی کے اگلے دن اسنے روانہ ہونا تھا۔ شادی کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھی آج حورین نے شادی کا جوڑا لینے جانا تھا وہ روم میں ریڈی ہو کر بیٹھی ہمدان کی مما کا انتظار کر رہی تھی جب شائستہ بیگم نے اسکا روم ناک کیا۔ ” آگئیں ہمدان کی مما؟؟ اسنے شائستہ بیگم کو دیکھ کر اٹھتے ہوئے کہا۔ ” نہیں بیٹا ہمدان کی مما تمہارا بوتیک میں ہی ویٹ کر رہی ہیں ہمدان آیا ہے لینے جلدی سے آجاؤ”، شائستہ بیگم مسکراتے ہوئے کہتی جانے کو مڑ ی تھیں۔ ” مما لیکن ہمدان کیوں”۔ حورین نے گھبراتے ہوئے کہا۔ ” ارے میری بچی ہونے والا شوہر ہے تمہارا اور گھبراؤ نہیں اچھا لڑکا ہے اسی لئے اجازت دی ہے آجاؤ چلو”، وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ ہی باہر لے آئی تھیں۔ ” السلام و علیکم”۔ حورین کو پر شوق نگاہوں سے دیکھتے ہمدان اسے سلام کرتے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ ” وعلیکم السلام” حورین نے اسکی نظروں کو خود پر محسوس کر کے نظریں جھکائے جواب دیا۔ ” خیال سے جانا ”۔ جاتے ہوئے شائستہ بیگم نے تاکید کی۔ وہ باہر آئی تو ہمدان چہرے پہ مسکراہٹ سجائے اسکے لئے فرنٹ ڈور کھولے کھڑا تھا۔ وہ جولیمن اینڈ آف وائیٹ شلوار کمیز کے ساتھ ٹی پنک دوپٹہ سر پہ ٹکائے ہاف کیچ بالوں میں سے آزاد ہوتی لٹوں کو کان کے پیچھے سرکاتی گھبراتی ہوئی چلی آرہی تھی اسے یوں کھڑا دیکھ حیران ہوئی پھر جلدی سے کار میں بیٹھ گئی تھی جبکہ ہمدان نے حورین کے سراپے کو آج بہت غور اور محبت سے دیکھا تھا۔ شاپنگ کے دوران بھی ہمدان کی نظریں حورین کو کنفیوز کرتی رہی تھی شاپنگ کے بعد ہمدان کی مما تو فوراً گھر چلی گئی تھیں جبکہ ہمدان اسکے لاکھ انکار کے باوجود ڈنر پر لے آیا تھا۔ ” اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہو حور”۔ ہمدان نے اسے شرارت بھری نظروں سے دیکھتے کہا۔ ” نہ۔۔ نہیں تو میں تو نہیں گھبرا رہی”۔ حور نے کامپتے ہاتھوں کو گود میں رکھ کر خود کو نارمل کرتے کہا کھانا آتے ہی دونوں کھانا کھانے لگے حوریں چاہتی تھی جلد از جلد گھر چلی جائے۔ ”تمہارے ہاتھ بہت خوبصورت ہیں خاص کر یہ رائیٹ والا”۔ ہمدان نظریں اسکے ہاتھوں پہ جمائے شرارت سے کہہ رہا تھا۔ ” جی۔۔ یہ والا کیوں ؟؟ حورین کو اسکی بات پر حیرت ہوئی۔ ” اس لئے کیونکہ اس پر یہ جو کالا تل ہے یہ اس ہاتھ کو اور پر کشش بنا رہا ہے”۔ ہمدان کے انداز پہ حورین نے جھیمپتے ہوئے ہاتھ گود میں رکھ لئے۔ اس کی اس ادا پہ ہمدان قہقہہ لگا کہ ہنس دیا۔ ” بھلا کوئی ہاتھوں کی تعریف بھی کرتا ہے اور کچھ خوبصورت نہیں کیا ہونہہ۔۔۔۔” وہ دل ہی دل میں سوچتی منہ بنا کہ رہ گئی۔
حورین شاپنگ سے لوٹی تو عارش لان میں ہی ٹہلتا اسکا انتظار کر رہا تھا۔ ” اتنا ٹائم کیوں لگ گیا ایسا کیا لینے لگ گئی تھی”۔ عارش نے ٹٹولتی نظروں سے پوچھا۔ ” ایک بات بتاؤ تم نے میری چوکیداری کب سے شروع کردی ہے میں جب جاؤں جب آؤں تمہیں اس سے مطلب نہیں ہونا چاہئے”۔ حوریں نے بھنائے ہوئے لہجے میں کہا اور اندر کی طرف جانے لگی۔ ” حور مجھے کچھ بات کرنی ہے”۔ عارش کے لہجے سے بے بسی صاف جھلک رہی تھی۔ ”ہاہاہا۔۔۔۔ مجھ سے بات کرنی ہے واہ۔۔۔۔”۔ حورین نے قہقہہ لگایا جیسے عارش نے کوئی جوک سنایا ہو۔ ” مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی تمہیں سمجھنے میں اسکا انداذہ مجھے اب ہوا ہے”۔ عارش کے لہجے میں بلا کی سنجیدگی تھی۔ ”غلطی؟؟؟؟ خیر تو ہے لگتا ہے آج کچھ زیادہ مزاق کے موڈ میں ہو آگ کے گولے ”۔ حورین نے لاپروائی سے کہا۔ ”حور ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا میں۔۔۔۔ میں سب ٹھیک کردونگا میں نے کیسے اتنا غلط سمجھا تمہیں اس دن۔۔۔۔ میں بھی تم سے۔۔۔ میں بھی تم سے اپنی محبت کا اقرار کرنے آیا تھا۔۔۔ لیکن جب تم نے خود سے کہا تو مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آیا میں کیسے اتنا اوور ری اکٹ کر گیا”۔ وہ جیسے اپنی صفائی پیش کر رہا تھا۔ ”ہاہاہا مسٹر عارش آپکا دماغ خراب ہو گیا ہے آپ کیسے مجھ جیسی ”گھٹیا ” لڑکی سے محبت کر سکتے ہیں؟؟؟؟ حورین نے لفظ چبا چبا کے گھٹیا پر زور دیتے کہا۔ ” حور میں بہت شرمندہ ہوں پلیز مجھے ایک موقعہ دے دو”۔ عارش نے التجا کی۔ ” تم وہی ہو نہ جو کل میری محبت کا منکر تھا آج کیسے مجھ سے محبت ہو گئی؟؟؟ اچھی طرح سمجھتی ہوں تمہں میری شادی کیا ہو رہی ہے تمہیں آگ لگ گئی تم تو ابھی بھی خوش فہمی میں ہو گے کی میں تم سے محبت کرتی ہوں ہونہہہ۔۔۔۔ محبت میں بہت خوش ہوں ہمدان کے ساتھ آج تم نے یہ بکواس کردی ہے دوبارہ مجھ سے ایسی فضول بات کی تواچھا نہیں ہوگا”۔ حورین اسے غصے سے گھورتی کہہ رہی تھی۔ ” حور میں نے ہر پل تم سے محبت کی ہے پلیز ایسا مت کرو میں بہت شرمندہ ہوں میں نے تمہارے ساتھ جو کیا اسکے بعد سے خود کو کوستا ہوں دن رات”۔ عارش افسردگی سے کہہ رہا تھا جیسے اگر حورین نہ مانی تو اسکا دم گھٹ جائے گا۔ ” اچھا واقعی۔۔ تم نے جتنی تکلیف مجھے دی ہے نا تم سوچ بھی نہیں سکتے شکل گم کرو اب اپنی”۔ حورین غصے سے کہتی اندر کی جانب بڑھ چکی تھی جب کہ عارش اسی جگہ اسی طرح دل شکستہ کھڑا تھا جہاں سال پہلے تھا بس فرق یہ تھا کہ اس روز دل عارش نے توڑا تھا اور آج حورین حساب برابر کر گئی تھی۔ سب کو جلدی میں شاپنگ دکھاتے تھک گئی ہوں کا بہانہ کرتی حورین اپنے روم میں آگئی تھی۔ ” غلطی۔۔۔ ہونہہہ۔۔ احساس ہوگیا عارش۔۔۔۔۔۔ تمہیں کیا پتہ کتنا روئی تھی۔۔ کتنا تڑپی تھی تمہاری محبت کی التجا کس دل سے کی تھی تم سے۔۔۔ کتنے دن لگے تھے ہمت کرنے میں تمہارے یوں بے دردی سے دھتکارے جانے کے بعد خود کو سمبھالنے میں۔۔۔ میں نے کس آس سے تمہارے سامنے اپنے دل کا حال رکھا تھا اور تم نے۔۔۔ تم نے کیا کچھ نہ کہا، ہاں میں نے پہل کردی تھی تو ہم کوئی غیر تو نہ تھے کتنی خوش تھی اس دن میں اپنا سمجھ کر تم سے کہہ دیا اور تم نے یوں ایک پل میں مجھے میری ہی نظروں میں گرا دیا ایسے بیگانہ کردیا جیسے مجھے جانتے تک نہ تھے۔ میں نے تم جیسے انسان سے کیسے محبت کرلی تھی۔۔۔۔ بھاڑ میں جاؤ اب تم ”۔ ہاتھ میں پہنا بریسلیٹ اتار کر ڈریسنگ ٹیبل پہ ذور سے پھینکتے وہ خود سے باتیں کر رہی تھی غصہ سے آنسوندی کی طرح بہے جا رہے تھے۔ ” ارے ماشاء اللہ بہت پیاری لگ رہی ہے میری بچی کسی کی نظر نہ لگے”۔ شائستہ بیگم حورین کے ہال پہنچتے ہی دیکھ نظر اتارنے لگی تھیں۔ وہ رچ ریڈ اینڈ گولڈ امبرائیڈڈ لہنگے پہ رچ ریڈ پیپلم میں نفاست سے دوپٹہ سر پہ ٹکائے بہت خوبصورت دلہن لگ رہی تھی۔ اس دن کہ بعد سے عارش اور حورین کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی عارش اسکی نظروں سے چھپتا رہا تھا۔ بارات آچکی تھی۔۔۔ ہمدان بھی دولہے کے روپ میں بہت ہینڈسم لگ رہا تھا حورین نے کن اکھیوں سے ہمدان کی وجاہت کو سراہا تھا جبکہ ایک خوف اس کے دل میں اب بھی موجود تھا۔ بارات کا فنکشن بہت اچھے سے گزر گیا تھا۔ حورین اور ہمدان کی جوڑی کو ہر شخص نے رشک بھری نگاہ سے سراہا تھا عارش ان میں سب سے آگے تھا۔ ” بیٹا اب آپ ریلیکس ہو جائیں میں بھی اپنے روم میں چلتی ہوں”۔ ہمدان کی مما کہتی روم سے نکل گئیں کچھ ہی دیر بعد ہمدان روم میں داخل ہو چکا تھا اسے روم میں اینٹر ہوتا دیکھ حورین کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئی تھی۔ ” ہمدان چلتا ہوا حورین کے بالکل سامنے آبیٹھا تھا۔ ” یو نو حور میں نے آج سے پہلے اتنی خوبصورت لڑکی کبھی نہیں دیکھی”۔ ہمدان کا انداز ایسا تھا جیسے اپنی قسمت پے رشک کر رہا ہو حورین کی نظریں شرم سے مزید جھکی تھیں۔ ”اور پتہ ہے اتنے خوبصورت ہاتھ دنیا میں شاید کسی کے بھی نہیں”۔ ہمدان نے محبت سے حورین کا دایاں ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔ حورین کو اسکی یہ بات عجیب لگی۔ ”پوچھو گی نہیں کیوں؟؟ ہمدان پھر گویا ہوا احورین کو لگا جیسے کسی نے سر پہ بم گرایا ہو۔ ” کیوں؟؟ حورین نے بالآخر ہمت کر کے پوچھ ہی لیا۔ ” کیوںکہ اس ہاتھ سےمجھے زندگی میں پہلی بار کسی کا تھپڑ پڑا ہے ”۔ ہمدان نے حورین کے ہاتھ پہ گرفت مزید سخت کرتے ہوئے کہا۔ انداز کاٹ کھانے والا تھا۔ ” ج۔۔۔جی۔۔۔۔” حورین نے ہمدان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ ” جی۔۔۔ اسی ہاتھ سے تھپڑ مارا تھا نا مس حورین غضنفر؟؟ وہ چہرے پہ تنزیہ مسکراہٹ سجائے پوچھ رہا تھا۔ ” آپ نے تو عارش سے کہا تھا کہ آپکو۔۔۔ آپکو یاد نہیں۔۔۔ مجھے معاف کردیں پلیز”۔ حورین حیرت کے مارے روہانسی ہوکر التجا کر رہی تھی۔ ” ارے ارے تم تو رونے لگی، تھپڑ مارتے ہوئے کیوں نہیں سوچا؟؟ کاش انجام سوچ لیتی تو آج ایسا نہ ہوتا چلو بتاؤ کیوں مارا تھا تھپڑ وہ بھی پورے کالج کے سامنے”۔ ہمدان بالکل نارمل انداز میں پوچھ رہا تھا۔ ”وہ مجھ سے غلطی۔۔۔” حورین کی آنسو ٹپ ٹپ بہہ رہے تھے اس سے صرف اتنا ہی کہا گیا۔ ” میں نے کہا تھا نہ حوریں غضنفر یہ تم نے اچھا نہیں کیا، اب تمہیں پتہ چلے گا کہ تھپڑ کیسے مارا جاتا ہے وہ بھی بلا وجہ”۔ ہمدان کی بات پہ حورین کا تو جیسے سانس ہی رک گیا تھا۔ ہمدان کا اٹھا ہاتھ دیکھ کر آنکھیں بند کئے وہ چلا رہی تھی۔ ” نہیں۔۔۔ پلیز نہیں۔۔۔۔۔”
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...