(Last Updated On: )
عدالت : جنٹل مین! کارروائی شروع کی جائے-
جیمز پی کینن
جوازاں قبل حلف لے چکے ہیں کٹہرے میںپہنچ کر مندرجہ ذیل گواہی دیتے ہیں-
براہ راست جرح (جاری )
از مسٹر گولڈ مین:
س:-اگر محنت کش عوام کو جمہوری حقوق فراہم کئے جائیں تو کیااس صورت میں پارٹی پرامن انقلاب کے تمام امکانات استعمال کرلے گی؟
ج:-جی ہاں! میرے خیال سے ہرممکن حدتک-
س:- یہاں تک کہ امریکی آئین میں قانون کے مطابق ترامیم کی کوشش بھی کی جائے گی؟
ج:- اگر یہاں جمہوری عمل جاری رہے اور جمہوری عمل میں حکومت فاشسٹ ہتھکنڈوں سے خلل نہ ڈالے اوریہ کہ سوشلسٹ نظریات رکھنے والی لوگوں کی اکثریت جمہوری عمل کے نتیجے میں فتح حاصل کرسکتی ہو تو میرے خیال سے وہ آئین میں جمہوری طریقے سے وہ ترامیم کرسکتے ہیں جونئی حکومت کی ضروریات پوری کرتی ہوں- قدرتی طور پرکچھ اہم نوعیت کی ترامیم کرنا پڑیں گی البتہ آئین کے کچھ حصے ایسے ہیں جن کو میں پارٹی پروگرام میںلکھنا چاہوں گا مثلاً بل آف رائٹس (Bill of Rights)ہے جس پرہم یقین رکھتے ہیں- آئین کاوہ حصہ جو نجی ملکیت کو تحفظ فراہم کرتاہے‘ ہم جس معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں اس میں بڑی صنعتوں پرنجی ملکیت کو ختم کرناضروری ہے-
س:- مگر کیاآپ یہ عقیدہ رکھتے ہیں یانہیں کہ اقلیت پرامن انقلاب کی اجازت نہ دے گی؟
ج:- یہ ہماری رائے ہے – اس رائے کی بنیاد تاریخی مثالیں ہیں- منظر سے ہٹنے سے قبل ہر مراعات یافتہ اقلیت نے‘ چاہے وہ کتنی ہی فرسودہ کیوں نہ ہوچکی ہو‘ اکثریت کی مرضی کو طاقت سے رد کرنے کی کوشش کی- کل میں نے کچھ مثالیں دی تھیں-
س:- کیا…؟
ج:- میں آپ کو ایک اورمثال دے سکتاہوں- مثلاً ہنگری میں بالشویک انقلاب خون کاایک قطرہ بہائے بغیر مکمل پرامن انداز میں برپا ہوا-
س:- یہ کب کی بات ہے؟
ج:- 1919ء میں – جنگ کے بعد وہاں جو حکومت بنی اس کا سربراہ کاونٹ کارولی تھا- وہ ملک کے حالات نہ سنبھال سکا- اسے عوام کی حمایت حاصل نہ تھی لہٰذا وہ بطور سربراہ حکومت ہنگری کی بالشویک پارٹی دراصل اسے کمیونسٹ پارٹی کہناچاہئے‘ کے سربراہ کے پاس گیا – وہ اس وقت جیل میں تھا- کارولی نے اسے پرامن اورقانونی طورپرحکومت بنانے کی دعوت دی – یہ بالکل ویسی ہی مثال ہے جیسا کہ فرانس کی پارلیمنٹ میں- یقینا پیٹن حکومت سے قبل…کابینہ کی تبدیلی- سو جب پرامن انداز میں اس سوویت حکومت کا قیام عمل میںآگیا تو جاگیرداروں سرمایہ داروں کا مراعات یافتہ طبقہ اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا- انہوں نے حکومت کے خلاف مسلح لڑائی منظم کی اوریوں حکومت کاخاتمہ کردیا- جو بڑا تشدد ہوا اس کا آغاز حکومت کی تبدیلی سے قبل نہیں بلکہ بعد میں ہوا-
س:- پارٹی میںکارل مارکس اوراس کے نظریات کیاحیثیت رکھتے ہیں؟
ج:- جن نظریات ‘ معاشرتی تجزیئے اورخیالات کوہم سائنسی سوشلزم یامارکسزم کہتے ہیں اورجن نظریات پرسائنسی سوشلزم کی تحریک آج تک استوار ہوئی ہے‘ کارل مارکس ان کا بانی ہے-
1848ء میں کمیونسٹ مینی فیسٹو میں اس کے نظریات کا خاکہ سامنے آیا اورپھر دیگر اہم تخلیقات بالخصوص سرمایہ میں‘ اس نے ان اصولوں کابھرپور سائنسی تجزیہ کیاجو سرمایہ دارانہ معاشرے کو چلاتے ہیں‘ اس نے اس معاشرے کے ان تضادات کی نشاندہی کی جو بطور معاشرتی نظام اس نظام کے خاتمے کی بنیاد بنیں گے‘ اس نے واضح کیاکہ کس طرح مالک اورمزدور کے مابین مفادات کاتضاد ایک مسلسل طبقاتی تحریک کی نمائندگی کرے گا تاآنکہ مزدور غلبہ حاصل کرکے سوشلسٹ معاشرے کی بنیاد رکھ دیں گے-
گویا کارل مارکس ہماری تحریک کابانی ہی نہیںبلکہ ہماری نظریات کا معتبر ترین علامہ ہے-
س:- کیاپارٹی کارل مارکس کی تمام تصانیف میں پائے جانے والی تمام تحریروں کومانتی ہے؟
ج:- نہیں- پارٹی نے کبھی ایسا نہیں کیا- ہم مارکس کو غلطی سے ماورا نہیں سمجھتے- پارٹی مارکس کے بنیادی خیالات ونظریات کو اپنے بنیادی خیالات ونظریات سمجھتی ہے- مگر یہ کوئی پابندی نہیں کہ پارٹی یاپارٹی ممبر مارکس سے اختلاف نہیں کرسکتے تاآنکہ بات بنیادی نظریات کی ہو-
س:-کیایہ درست ہے کہ آپ مارکسی نظریات کی تشریح اوران کا اطلاق موجودہ حالات کے مطابق کرتے ہیں؟
ج:-جی ہاں! ہم مارکسزم کو وحی یاعقیدہ نہیں سمجھتے -اینگلز نے اس کی وضاحت یوں کی کہ مارکسزم کوئی عقیدہ نہیں بلکہ عمل کے لئے ایک رہنما ہے یعنی یہ وہ طریقہ کار ہے جسے مارکسی طالب علموں کو سمجھناچاہئے اور اس کا استعمال سیکھنا چاہئے- ممکن ہے کوئی شخص مارکس کا ہرخط اورہرتحریر پڑھ ڈالے مگر وہ شخص بے کار ہے اگر وہ یہ نہ سیکھے کہ ان تحریروں کو اس کے دور میں کس طرح استعمال کرناہے- ایسے لوگ موجود ہیں اورانہیں ہم شیخی مار عالم کہتے ہیں-
س:- کیاآپ کمیونسٹ مینی فیسٹو سے شناساہیں یانہیں؟
ج:- جی ہاں-
س:- کیاآپ کو یاد ہے… غالباً یہ مینی فیسٹو کی آخری شق ہے جہاں مینی فیسٹو کے مشترکہ مصنفین اینگلز اورکارل مارکس لکھتے ہیں: ’’ہم اپنے نصب العین چھپانے سے نفرت کرتے ہیں‘‘ اور پرتشدد انقلاب بارے نشاندہی کرتے ہیں-کیاآپ کو یاد ہے؟
ج:-تحریر یوں ہے کہ ’’ہم اپنے نصب العین چھپانے سے نفرت کرتے ہیں- ہم کھل کر کہتے ہیں کہ یہ نصب العین موجودہ معاشرتی اداروں کے بالجبرخاتمے سے ہی حاصل کئے جاسکتے ہیں‘‘-
س:- کمیونسٹ مینی فیسٹو کب لکھا گیا؟
ج:-1848ء میں-
س:- کمیونسٹ مینی فیسٹو کے بعد کیاکبھی مارکس نے جمہوری ممالک میںپرامن انقلاب کی بابت کبھی کچھ لکھا؟
ج:- جی ہاں-
س:- کہاں؟ اورجیوری کو واضح کیجئے کہ کیالکھا؟
ج:- سب سے معتبر حوالہ اورتشریح تو مارکس کی قابل فخر تصنیف سرمایہ کاابتدائیہ ہے- یہ ابتدائیہ اینگلز نے لکھا جو مارکس کاساتھی کارکن اورکمیونسٹ مینی فیسٹو کاشریک مصنف تھا- دنیا بھر میںمارکسی تحریک اسے مارکسی نظریات وخیالات کاجزو سمجھتی ہے- درحقیقت اینگلزنے کارل مارکس کی وفات کے بعد سرمایہ کی دوسری اور تیسری جلد کی تالیف اورایڈیٹنگ کی-
س:-اس ابتدائیہ میںاینگلز نے کیاکہا؟
ج:-اینگلز نے جو ابتدائیہ لکھا وہ سرمایہ کے انگریزی ترجمے کے لئے تھا اوراسے انگریزقارئین کے لئے پیش کیاجارہاتھا- اینگلز نے کہا… میرے خیال سے میںاینگلز کوحرف بہ حرف دہرا سکتاہوں… کہ اس کے خیال میں ایک ایسے شخص کی تصنیف جو عمر بھر اس رائے کا حاصل رہاکہ کم از کم برطانیہ میں معاشرتی تبدیلی پرامن اورقانونی ذرائع سے آسکتی ہے‘ اس کے خیال میںیہ حق رکھتی ہے کہ انگریز عوام کی توجہ حاصل کرے-اینگلز نے لگ بھگ یہ کہاتھا-
س:-برطانیہ کے بارے میں مارکس کی یہ رائے کیوں تھی؟
ج:- اس لئے کہ برطانیہ مطلق العنان ریاستوں سے اپنے پارلیمانی نظام ‘جمہوری عمل اور سیاسی عمل کے لئے شہری آزادیوں کے باعث مختلف تھا-
س:- کیایہ درست ہے کہ جب مارکس اور اینگلز نے 1848ء میں کمیونسٹ مینی فیسٹو لکھا تو اس وقت براعظم یورپ میںکوئی جمہوریہ موجود نہ تھی؟
ج:-پورا یورپ انقلابات کی لپیٹ میں تھا-
س:- اورکوئی جمہوری عمل موجود نہ تھا؟
ج:- کم ازکم اس مستحکم انداز میں نہیں جس طرح کہ برطانیہ میں تھا- میرے خیال سے ضروری ہے کہ میں جس ابتدائیہ کاذکر کر رہاہوں اس کے حوالے سے یہ اضافہ کروں کہ اینگلز نے ان ریمارکس جن کا میں نے پہلے ذکر کیاکے بعدکہا:’’یقینا مارکس نے قدیم وضع اورمحروم حکمران طبقے کی جانب سے غلام داری نظام جاری رکھنے کے لئے بغاوت کو خارج ازامکان قرار نہیں دیاتھا‘‘ یعنی اقتدار کی منتقلی کے بعد –
عدالت:معاف کیجئے گا مسٹرکینن! کیا آپ برائے مہربانی غلام داری نظام جاری رکھنے کی اصطلاح کی اہمیت بیان کریں گے؟
گواہ: جی ہاں- میرے خیال سے مارکس کے ذہن میںامریکی خانہ جنگی تھی- مارکس اوراینگلز نے بہت دھیان سے امریکی خانہ جنگی کاجائزہ لیااور اس کے بارے میں نیویارک ٹربیون میںخوب لکھا- ان تحریروں کا مجموعہ ‘ جو سیاسی بھی ہیں اورفوجی بھی‘ کتابی شکل میں شائع ہوچکا ہے اورہماری تحریک میںایک کلاسیک کی حیثیت رکھتاہے- اورجب مارکس ’’غلام داری نظام جاری رکھنے کے لئے بغاوت کاذکر کرتاہے تو اس کے ذہن میںامریکی خانہ جنگی کی مثال تھی جو اس کے خیال میں جنوب کے غلام داروں کی جانب سے نظام غلامی جاری رکھنے کے لئے بغاوت تھی- یقینا اس کاکہنا یہ نہیں تھا کہ انگریزبورژوازی غلاموں کی اس طرح سے مالک ہے مگریہ کہ وہ مزدوروں کا استحصال کرتی ہے-
س:-آپ کے خیال میں سوشلسٹ ورکرز پارٹی کے پرنسپلز آف ڈیکلریشن اور کارل مارکس کے نظریات میںکیاتعلق ہے؟
ج:-میں یہ کہوں گا کہ ہم جہاں تک مارکسی نظریات کو سمجھتے ہیں اس کے مطابق ڈیکلریشن امریکی معاشرتی مسائل کو مارکسی نظریات وخیالات کے مطابق حل کرنے کانام ہے-
س:-گویاڈیکلریشن آف پرنسپلز کارل مارکس کے بنیادی نظریات پرمبنی ہے؟
ج:- جی ہاں! ہم اسے ایک مارکسی ڈاکومنٹ سمجھتے ہیں-
س:- پارٹی لینن کو کیاحیثیت دیتی ہے؟
ج:- لینن ہماری نظرمیںمزدور تحریک اورانقلاب روس کاسب سے بڑا عملی لیڈر تھا مگر نظریاتی میدان میںوہ مارکس کاہم پلہ نہیں- لینن مارکس کاچیلہ تھا نہ کہ نظریہ ساز- بلاشبہ اس نے اہم نظریات میںحصہ ڈالا مگر آخری دم تک اس نے عالمی مارکسی تحریک میں مارکس کو ہی بنیاد بنایا- احترام کے حوالے سے اس کی وہ حیثیت ہے جو مارکس کی ہے مگر دونوں کے معیار میںفرق ہے-
س:-کیاپارٹی یاپارٹی ممبرلینن کی ہررقم کی ہوئی اورشائع شدہ تحریر سے اتفاق کرتے ہیں؟
ْج:- نہیں- جو رویہ مارکس کی جانب ہے وہی لینن کی جانب ہے- یعنی وہ بنیادی نظریات جن پرلینن نے عمل کیا‘ جن کو اس نے لاگو کیااورجن پروہ عمل پیر ارہا‘ ہماری تحریک ان کی حمایت کرتی ہے- اس کایہ مطلب نہیں کہ اس کی ہرتحریر سے اتفاق کیاجائے یایہ کہ پارٹی ممبر انفرادی حیثیت میں اہم حوالوں پرلینن سے اختلاف نہیں کرسکتے اور پارٹی میں ایسا کئی بار ہوا ہے-
س:-اچھا یہ بتائے کیایہ درست ہے کہ سوویت روس میں کمیونسٹ حکومت ہے؟
ج:-ہمارے خیال کے مطابق نہیں-
س:- کیایہ درست ہے کہ سوویت روس میں کمیونزم ہے؟
ج:- نہیں سوویت روس میں ہرگزبھی کمیونزم نہیں-
س:- کیاسوویت روس میں سوشلزم ہے؟
ج:- نہیں… اوں یوں ہے کہ میں اس کی یہاں وضاحت کرنا چاہوں گا- سوشلزم اورکمیونزم مارکسی تحریک میںایسی اصطلاحیں ہیں جن کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال کیاجاسکتاہے- کچھ لوگ دونوںمیں یہ فرق کرتے ہیں مثلاً لینن نے سوشلزم کی اصطلاح کمیونزم کے پہلے مرحلے کے لئے استعمال کی مگر کسی اورمعتبر شخص نے یہ اصطلاح استعمال نہیں کی- میں ذاتی طورپرسوشلزم اورکمیونزم کی اصطلاحات کو ایک دوسرے کامتبادل سمجھتا ہوں اورمیرے خیال سے ان سے مراد غیرطبقاتی معاشرہ ہے جس کی بنیاد منصوبہ بند پیداوار پرہوگی جوسرمایہ دارانہ نظام سے مختلف ہے اورجس کی بنیاد ملکیت اورپیداوار برائے منافع کے اصول پرہے-
س:-کیایہ ممکن ہے کہ سوشلسٹ معاشرہ میں اس قسم کی آمریت موجود ہو جیسی کہ اس وقت سٹالن نے قائم کررکھی ہے؟
ج:- نہیں- مارکس اوراینگلز کے مطابق جب آپ غیرطبقاتی‘ سوشلسٹ اورکمیونسٹ معاشرے میں داخل ہوتے ہیں تو انسانی معاملات میںحکومت کاکردار کم ہوتا چلا جاتاہے یہاں تک کہ حکومت تحلیل ہوجاتی ہے اورا سکی جگہ انتظامی ادارہ لے لیتاہے جو لوگوں کے خلاف جبراستعمال نہیں کرتا-
ہماری تعریف کے مطابق حکومت کی اصطلاح طبقاتی معاشرے کا اظہار ہے- یعنی ایک طبقہ بالادست ہے اوردوسرا طبقہ محکوم- اس کا اطلاق سرمایہ دارحکومت پربھی ہوتا ہے جوہمارے خیال سے سرمایہ داری کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہے اورمزدوروں کسانوں پرجبر کرتی ہے اوراس کا اطلاق مزدورکسان حکومت پرہی ہوتا ہے جو انقلاب کے فوری بعدمزدوروں کسانوں کے مفادات کی نگرانی کرتی ہے اورمحروم شدہ سرمایہ دارطبقے کی جانب سے اختیار وحکومت حاصل کرنے کی کوششوں کاخاتمہ کرتی ہے- مگر ایک بارجب استحصالی طبقے‘ جس کاوقت پور ا ہوچکا ہو‘ کی مزاحمت دم توڑ دیتی ہے اوراس کے افراد نئے معاشرے کاحصہ بن جاتے ہیں‘ اس میںاپنا مقام پالیتے ہیں اورطبقاتی جدوجہد جو ہرطبقاتی معاشرے کے حاوی عنصر ہے‘ طبقاتی فرق کے خاتمے کی وجہ سے ختم ہوجاتی ہے تو اس کے ساتھ حکومت بھی تحلیل ہوجاتی ہے- مارکس اوراینگلز کاعمیق نظریہ یہ ہے اوران کے تمام پیرو کار اس کومانتے ہیں-
س:- کیالینن نے کسی تحریک کے لئے ’’بلانکی ازم‘‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی؟
عدالت: وہ کیاہے؟
مسٹرگولڈمین: بلانکی ازم-
گواہ: جی ہاں- لینن نے انقلاب روس کے دوران کئی بار کہا’’ہم بلانکی اسٹ نہیں ہیں-‘‘
س:- بلانکی ازم سے کیامراد ہے؟
ج:- بلانکی فرانسیسی انقلابی تحریک کی ایک شخصیت تھی جس کے پیروکار 1871ء کے پیرس کمیون میںشامل تھے- بلانکی پارٹی اورانقلاب بارے اپنی نظریات رکھتا تھا اور مزدور تحریک کے طالب علم اس کے نظریات کو بلانکی ازم کے نام سے یاد کرتے ہیں-
س:-اس کے نظریات کیاتھے؟
ج:- اس کانظریہ تھاکہ مستقل مزاج افراد کاایک چھوٹا گروہ جوزبردست ڈسپلن کاحامل ہو‘ بغاوت کی شکل میںانقلاب برپا کرسکتا ہے-
س:- بغاوت سے کیامراد ہے؟
ج:- اقتدار پرقبضہ ‘ ایک چھوٹے‘ مستقل مزاج ‘منظم گروہ کا اقتدار پرقبضہ جو عوام کے لئے انقلاب برپا کریں-
س:- لینن نے اس بارے میں کیاکہا؟
ج:- لینن نے اس نقطہ کی مخالفت کی اوراس کے مضامین ان مخالفین کی الزام تراشی کے جواب میںلکھے گئے جو بالشویکوں پرالزام لگارہے تھے کہ بالشویک اکثریت کے بغیر اقتدار پرقبضہ کرنا چاہتے ہیں- اس نے کہا: ’’ہم بلانکی اسٹ نہیں‘‘ ہم عوامی پارٹیوں اورعوامی تحریکوں پرانحصار کرتے ہیں اورجب تک ہم اقلیت میں ہیں ہم جبر کے ساتھ مسائل کی تشریح کرتے رہیں گے تا آنکہ ہمیں اکثریت حاصل ہوجائے اور جب تک ہم اقلیت میں ہیں ہم تمہاری حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش نہیں کریں گے- تم ہمارے پاس تحریروتقریر کی اورنظریات پھیلانے کی آزادی رہنے دو اورتمہیں ہماری طرف سے بلانکی اسٹ بغاوت کی فکر نہیں ہونی چاہئے- بغاوت سے جیسا کہ میں نے پہلے وضاحت کی‘ مراد اقتدار پراچانک ایک چھوٹے گروہ کاقبضہ ہے جو خفیہ حربے استعمال کرتاہے-
انقلاب روس کی حمایت میں آگے آنے والوں کے نظریات جامع نہ تھے
س:۔گویا لینن نے عوامی پارٹیوں اور ان پارٹیوں کے لئے عوامی حمایت پر انحصار کیا۔ کیا یہ درست ہے؟
ج:۔جی ہاں۔ کمیونسٹ انٹرنیشنل کے ابتدائی دور میں، یہ وہ دور ہے جس سے میں ذاتی مشاہدے اورتحریک میں ذاتی شمولیت کی بنا پر واقف ہوں۔ لینن نے ہمیشہ اس نظریے پر زور دیا نہ صرف روسی ناقدین کے مقابلے پر بلکہ ایسے بے شمار افراد اور گروہوں کے مقابلے پر بھی، جو انقلاب روس کی حمایت میں آگے آئے مگر ان کے نظریات جامع نہ تھے۔ مثلاً جرمنی میں مارچ 1921ء میں جرمن پارٹی نے، جو اس وقت تک قائم ہوچکی تھی، عوامی حمایت کے بغیر سرکشی کی کوشش کی۔ ہماری تحریک کے عالمی لٹریچر میں اس واقعہ کو ’’مارچ ایکشن‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار کو چند جرمن لیڈروں کے اس نظریئے کو کہ وہ اپنی مستقل مزاجی اور قربانیوں سے انقلاب برپا کرسکتے ہیں، اس سارے نظرئیے کو ’’مارچ ایکشن‘‘ اور اس سے وابستہ تمام نظریات کو لینن اور ٹراٹسکی کی تحریک پر کمیونسٹ انٹرنیشنل کی تیسری کانگرس میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے اس تھیوری کو رد کرکے اس کے مقابلے پر عوامی پارٹیوں، عوامی تحریکوں اور اکثریت حاصل کرنے کی سوچ کو پیش کیا۔
انہوں نے جرمن پارٹی کو دس لاکھ ممبر کا نعرہ دیا۔ کمنٹرن کے چیئر مین زینویف نے جرمن مسئلے پر اپنا ایک بڑا نظریہ پیش کیا کہ جرمن پارٹی کے بے صبرا نہیں ہونا چاہیے اور اسے تاریخ کو مجبور نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایجی ٹیشن اور پراپیگنڈے میں مصروف ہو کر پارٹی کیلئے دس لاکھ ممبروں کا نصب العین متعین کرنا چاہئے۔
س:۔کیا یہ دس لاکھ ارکان نے خود سے انقلاب برپاکردئیے؟
ج:۔یقینا نہیں۔ لینن کو یہ توقع نہ تھی کہ لوگوں کی اکثریت پارٹی ممبر بن جائے گی بلکہ یہ کہ ان کی اکثریت پارٹی کی حامی بن جائے گی۔ جب اس نے بلکہ اس کے نائب زینویف جو کمیونسٹ انٹرنیشنل کا چیئر مین تھا، نے ’’جرمن پارٹی میں دس لاکھ ممبرز‘‘ کانعرہ دیا تو یہ اس جانب اشارہ تھا کہ جب تک عددی لحاظ سے ان کی پارٹی بڑی پارٹی نہ ہوگی، انہیں لوگوں کی اکثریت کی حمایت حاصل نہ ہوسکے گی۔
س:۔لیون ٹراٹسکی کے سوشلسٹ ورکرز پارٹی کے ساتھ اگر کوئی تعلقات رہے ہیں تو وہ کیا تھے؟
ج:۔1928ء میں جب ہمارے دھڑے کو کمیونسٹ پارٹی سے نکال دیا گیا تو ہم ٹراٹسکی کا پروگرام قبول کرچکے تھے۔ ہم ٹراٹسکی کے پروگرام کی اسے ملنے سے بہت پہلے ہی سے حمایت کررہے تھے۔ اسے روسی پارٹی سے نکال دیا گیا تھا اور الماآتا کے ویران ایشیائی علاقے میں جلاوطن کردیا گیا تھا۔ ہمارا اس سے کوئی رابطہ نہ تھا۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں ہے، زندہ بھی ہے یا نہیں، مگر ہمارے پاس اس کا ایک اہم پروگرامیٹک ڈاکومنٹ موجود تھا جس کا عنوان تھا ’’کمنٹرن کے ڈرافٹ پروگرام کی تنقید‘‘ اس کتاب میں سٹالن کے مقابلے پر اس کے بنیادی نظریات کو تفصیل سے لکھا گیا تھا۔ ہم نے اس پروگرام کو اپنے پروگرام کے طور پر قبول کیا اور شروع سے ہی ہم نے خود کو ٹراٹسکی کا دھڑا قرار دیا۔ ہم نے چھ ماہ تک بغیر ٹراٹسکی سے کوئی رابطہ ہوئے کام کیا یہاں تک کہ اسے ترکی (قسطنطنیہ) جلاوطن کردیا گیا اور وہاں ہمارا اس سے بذریعہ خط رابطہ ہوا۔ بعدازاں پارٹی کے مختلف اہم راہنمائوں نے اس سے ملاقات کی۔ ہماری اس سے اکثر خط وکتابت رہتی، خط وکتابت کے ذریعے اورپارٹی ممبروں کی ملاقاتوں کے ذریعے، ہمارا ٹراٹسکی سے قریبی تعلق تھا اور ہم نے اسے ہمیشہ نظریہ دان اور اپنی تحریک کا استاد مانا۔
س:۔ٹراٹسکی سے آپ کی پہلی ملاقات کب ہوئی؟
ج:۔1934ء میں فرانس میں پہلی دفعہ میں نے اس سے ملاقات کی یعنی پارٹی سے ہماری اخراج کے بعد پہلی دفعہ۔
س:۔سوشلسٹ ورکرز پارٹی کے نظریات وضع کرنے میں ٹراٹسکی نے اگر کوئی کردار ادا کیا تو وہ کیا تھا؟
ج:۔اس نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ گوٹراٹسکی نے ہمارے پارٹی ڈاکومنٹ نہیں لکھے مگر عصر حاضر کے حوالے سے اس نے مارکسی نظریات کی جوتشریح کی، ہمارے لئے وہ نظریہ سازی کا ایک ذریعہ تھی اور ہم نے اسے امریکی اصطلاحات میں ڈھال کرپیش کیا اور اسے امریکی حالات پر لاگو کرنے کی کوشش کی۔
س:۔کیا ان دنوں ٹراٹسکی نے متحدہ امریکہ کے حالات وواقعات کے بارے کچھ لکھا؟
ج:۔مجھے نہیں یاد کہ ان دنوں امریکہ کے بارے میں اس نے کوئی خاص لکھا ہو۔
س:۔کیا ان دنوں کبھی اس نے آپ کوبتایا کہ امریکہ میں آپ کے گروپ کو کیا اقدامات کرنے چاہیں؟
ج:۔جی ہاں! ان دنوں ایک اختلافی مسئلہ یہ تھا کہ امریکہ میں ہمارے گروپ کس قسم کے کام میں ملوث ہوں۔
ٹراٹسکی اس خیال کا حامی تھا کہ ہمارا گروپ ان ابتدائی دنوں میں خالص پراپیگنڈہ کا کام کرے نہ کہ جسے ہم عوامی کام کہتے ہیں۔ ہم سوائے پرچہ چھاپنے اور کچھ لوگوں کو اپنے بنیادی نظریات کی طرف مائل کرنے کے اور کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ حالات نے ہمارے گروپ کو روٹین پراپیگنڈے کا عاجزانہ کام سونپ دیا تھا اور ٹراٹسکی اس کا حامی تھا۔
س:۔ٹراٹسکی سے آپ کا زیادہ رابطہ کب ہوا؟
ج:۔ٹراٹسکی کو فرانس سے نکام دیا گیا تو وہ ناروے چلا گیا۔ وہاں سے بھی نکال دیا گیا اور آخر صدر کارڈنیاس کی وجہ سے اسے میکسیکو میں پناہ ملی۔
اگر میں درست ہوں تو میرے خیال سے یہ جنوری 1937ء کی بات ہے۔ اس کے بعد وہ 21اگست1940ء تک میکسیکو میں رہا تاآنکہ اسے قتل کردیا گیا۔ میں وہاں اسے دوفعہ ملنے گیا۔ ایک بار 1938ء میں اور دوبارہ 1940ء کے موسم گرمامیں۔ دیگرپارٹی عہدیدار اور ممبر اس سے عموماً ملتے رہتے۔ میرا اور دیگر پارٹی ممبروں کا خط وکتابت کے ذریعے اس سے قریبی رابطہ رہا اور میں یہ کہوں گا کہ جب وہ میکسیکو آگیا تو ہمارا اس سے قریبی رابطہ رہا۔
س:۔ٹراٹسکی کی حفاظت اوراخراجات کیلئے سوشلسٹ ورکرز پارٹی نے کیا کہا؟
ج:۔ہمیں معلوم تھاکہ ٹراٹسکی سٹالن کے نشانے پر ہے۔ سٹالن عملی طور پر انقلاب کے تمام اہم رہنمائوں کو عدالتوں، جھوٹے مقدموں وغیرہ کے ذریعے ختم کرچکا تھا۔ ہمیں معلوم تھا کہ ٹراٹسکی جوسٹالن کا سب سے بڑا مخالف تھا، اس کے قتل کا فیصلہ ہو چکا ہے اور ہم نے اس کی حفاظت کیلئے اقدامات کئے۔ ہم نے ایک خصوصی کمیٹی بنائی جس کا مقصد اس کام کیلئے فنڈ اکٹھا کرتا تھا۔ ہم نے گارڈز فراہم کئے، سرمایہ فراہم کیا تاکہ جس حد تک ممکن ہو اِس کے گھر کو ایک قلعے میں بدل دیا۔ ہم نے اس کے لئے گھر خریدنے کی خاطر فنڈ اکٹھے کئے۔ جو گارڈز وہاں بھیجے گئے ان کے اخراجات کیلئے فنڈ مہیا کئے اور عمومی طور پر اس کی حفاظت اور اس کے کام کو ممکن بنانے کیلئے جو ہوسکتا تھا وہ کیا۔
س:۔ٹراٹسکی سے ملاقاتوں کے دوران کس نوعیت کی بحثیں ہوئیں؟
ج:۔عالمی تحریک کے تمام اہم مسائل پر بحث ہوئی۔
س:۔امریکی مزدور تحریک کے کسی مسئلے پر بھی بات ہوئی؟
ج:۔جی ہاں
س:۔کیا آپ نے کبھی لوکل 544اور یونین ڈیفنس گارڈز پر بھی بات کی۔
ج:۔نہیں! 544ڈیفنس گارڈز کے حوالے سے کبھی اس کے ساتھ میری بات نہ ہوئی۔ ہم نے اس کے ساتھ عمومی طور پر یونین ڈیفنس گارڈز کے موضوع پر بات کی۔ میرے خیال سے یہ 1938ء کی بات ہے۔
س:۔کیا آپ کے ذاتی علم میں ہے کہ ٹراٹسکی سے بے شمار لوگ ملنے آتے تھے؟
ج:۔جی ہاں! مجھے معلوم ہے کہ ٹراٹسکی بے شمار لوگوں سے ملتا اور مجھے یہ اس لئے معلوم ہے کہ میں بطور پارٹی سیکرٹری ان لوگوں کو تعارفی خط دیا کرتا تھا جو اس سے ملتا چاہتے تھے۔ اس کے ملنے والوں میں ہمارے ممبر ہی نہیں بلکہ صحافی، اساتذہ، میکسیکو کا دورہ کرنے والی ہسٹری کی ایک کلاس اورجب وہ میکسیکو میں تھا تو مختلف رائے رکھنے والے مختلف لوگ اس سے ملتے۔
س:۔کیا ٹراٹسکی سے آپ کی جو بحثیں ہوئیں ان کی نوعیت سیاسی تھی کیا یہ درست ہے؟
ج:۔جی ہاں۔ جنگ، فاشزم، ٹریڈ یونین!
س:۔ان بحثوں کا پارٹی سرگرمیوں یا پارٹی کی کسی مخصوص یونٹ سے تعلق نہ تھا؟
ج:۔نہیں۔ مجھے نہیں یاد کہ ٹراٹسکی کبھی یونٹوں کے بارے تفصیل میں گیا ہو۔
س:۔ٹراٹسکی کس قدر معروف آدمی تھا؟
ج:۔میں اس سے زیادہ معروف شخص کو کبھی نہیں ملا۔ اپنے سیاسی کام، بے شمار خطوط کتابت اور صحافت کام کے علاوہ اس نے ہمارے لئے بے شمار مضامین اورپمفلٹ لکھے۔ وہ بے شمار اخبارات ورسائل مثلا نیویارک ٹائمز سیٹر ڈے ایوننگ پوسٹ، لبرٹی اور دیگر رسائل کیلئے لکھتا ۔ اس کے علاوہ 1929ء میں جب سے ترکی جلا وطن کیا گیا تب سے لیکر 1940ء میں اپنی موت تک، گیارہ سالوں میں اسے نے جولکھا اس کا حجم ایک ایسے کل وقتی لکھاری سے کہیں زیادہ ہے جو لکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتا۔ اس نے انقلاب روس کی تاریخ پر تین ضخیم جلدیں لکھیں اور ادبی کام کے حوالے سے کسی بھی لکھاری کیلئے یہ عمر بھر کا کام ہوتا۔ اس نے ’’انقلاب سے غداری‘‘نامی ایک پوری کتاب لکھی، اپنی سوانح عمری لکھی اور اس عرصے میں اس نے بے شمار چھوٹی موٹی کتابیں، پمفلٹ اورمضامین لکھے۔
س:۔تو کیا پارٹی نے کبھی پالیسی اور سرگرمیوں کے حوالے سے اٹھنے والے مسائل سے اسے پریشان نہ کیا؟
ج:۔میرے علم کے مطابق نہیں۔ مجھے معلوم ہے میں نے کبھی نہیں کیا۔
س:۔کیا آپ جیوری اور عدالت کو بتائیں گے کہ ورکرز ڈیفنس گارڈز پر سوشلسٹ ورکرز پاٹی کا کیا موقف ہے؟
ج:۔پارٹی اس بات کی حمایت کرتی ہے کہ جہاں مزدوروں کی تنظیم یا ان کے اجلاس کو غنڈہ گردی کا خطرہ ہو وہاں وہ ڈیفنس گارڈز تشکیل دیں۔ مزدوروں کو ہر گز یہ اجازت نہیں دینی چاہیے کہ کو کلاکس کلین، وائٹ شرٹس یا دیگر فاشسٹ غنڈے اوررجعتی ان کے جلسے الٹائیں ان کے دفتر میں توڑ پھوڑ کریں اور ان کے کام میں مداخلت کریں بلکہ انہیں چاہیے کہ وہ اپنی گارڈز تشکیل دیں اور جہاں ضروری ہو اپنا دفاع کریں۔
س:۔آپ جس گروپ کے ممبر ہیں اس کی جانب سے ورکرز ڈیفنس گارڈز کا نظریہ کتنا عرصہ قبل پیش کیا گیا؟
ج:۔یہ نظریہ، جسے ہم نے ایجاد نہیں کیا، میں تیس سال سے جانتا ہوں جب سے میں مزدور تحریک میں آیا ہوں۔ ابھی میں نے انقلاب روس بارے سنا بھی نہیں تھا تب سے میں مزدوروں کو منظم ہوتے دیکھتا رہا ہوں اور اس سلسلے میں ان کی مدد کرتا رہا ہوں۔
س:۔کیا سوشلسٹ ورکرز پارٹی کے قیام سے قبل کبھی ٹراٹسکی اسٹ گروپ نے اس قسم کی گارڈز تشکیل دینا شروع کی؟
ج:۔جی ہاں!1929ء میں اپنی تشکیل کے پہلے سال میں کمیونسٹ پارٹی نے سٹالن کے حامیوں نے تشدد کے ذریعے ہمارے اجلاس الٹانے کی کوشش کی۔ انہوں نے ہمارے کئی اجلا س الٹائے اور اس کا جوا ب ہم نے ورکرز ڈیفنس گارڈز بنا کر دیا تاکہ ہم اپنے اجلاسوں کی حفاظت کرسکیں۔ اس گارڈز میں ہم نے ٹراٹسکی اسٹوں کو ہی نہیں بلکہ ان دیگر مزدور تنظیموں کو بھی شامل ہونے کی دعوت دی جن کے اجلاس سٹالن کے حامی الٹا دیتے تھے۔ مجھے ذرا اس کی وضاحت کرنے دیجئے۔ ان دنوں ان کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ سوشلسٹ پارٹی، اے ڈبلیو پرولتاری نامی ایک چھوٹے گروپ اور ہر اس گروپ کے اجلاس پر دھاوا بول دیتے جو ان سے اتفاق نہیں کرتا تھا۔ وہ سٹالن کے کلیئے پر عمل پیرا تھے کہ مخالف کو توڑ دو لہٰذا بغیر کسی کی بنائی ہوئی تھیوری کے ہم نے اپنے اجلاسوں کی حفاظت کیلئے ڈیفنس گارڈز تشکیل دی۔ میں نے سرراہ یہاں یہ اضافہ بھی کرنا چاہوں گا کہ ہم نے اپنے اجلاسوں کی خوب حفاظت کی اور غنڈہ گردی رک گئی گو اس کیلئے کچھ سرضرور پھٹے مگر ان دنوں میں اس پر بہت خوش تھا۔
س:۔میں 1928ء اور 1930ء کا نشان زدہ ملیٹنٹ آپ کو دکھاتا ہوں، آپ اسے دیکھ کر یاد کیجئے اور جیوری کو بتائیے کہ کن موقعوں پر ٹراٹسکی اسٹ گروپ نے ورکرز ڈیفنس کونسل تشکیل دی۔ مضمون پڑھئے اور جیوری کو جواب دیجئے۔ جیوری کومضمون سنانے کی ضرورت نہیں۔
ج:۔پہلا مضمون یکم جنوری 1929ء کا ہے۔ اس میں اس اجلاس کا ذکر ہے جونیوہون، کونیکٹی کٹ میںہوا اور میں نے اس سے خطاب کیا۔ اس کا عنوان ہے۔ ٹراٹسکی اور اپوزیشن پلیٹ فارم بارے سچ‘‘ یہ مضمون اس اجلاس کی رپورٹ پر مبنی ہے۔
س:۔مسٹر کینن! اسے پڑھئے اور پھر جیوری کوبتائے کہ آپ کو اس حوالے کیا یاد آتا ہے؟
ج:۔مجھے اچھی طرح یاد ہے، انہوں نے غنڈوں کا ایک گروہ بھیجا جس نے اجلاس پر دھاوا بول دیا اور مجھے میری تقریر بھی مکمل نہ کرنے دی، انہوں نے ہنگامہ کھڑا کردیا اور اس ہنگامے کے دوران پولیس پہنچ گئی اور اس نے اجلاس ختم کردیا۔ یہ رپورٹ ہے 21دسمبر 1929ء کو لیبر لاسٹیم، نیوہیون، کونیکٹی کٹ میں ہونے والے اجلاس کی۔
س:۔کیا اس کے بعد آپ نے ڈیفنس گارڈز تشکیل دی تاکہ اپنے اجلاسوں کی حفاظت کرسکیں؟
ج:۔جی ہاں! یہیں ایک اور جلسے کی رپورٹ ہے جو 27دسمبر کو فلاڈیلفیا میں ہوا۔ میکس شاٹ مان نے یہاں خطاب کیا۔ رپورٹ کے مطابق نیوہیون سے سبق سیکھتے ہوئے انہوں نے ورکرز ڈیفنس گارڈز تشکیل دی جس نے جلسے کی حفاظت کی اور مقرر نے بغیر کسی مداخلت کے اپنا خطاب مکمل کیا۔
س:۔کیا آپ نے کبھی ایسے جلسے سے خطاب کیا جس کی ورکرز ڈیفنس گارڈز نے حفاظت کی ہو؟
ج:۔جی ہاں! یہاں (اشارے کرتے ہوئے) 15جنوری 1929ء کا ملیٹنٹ ہے۔ اس میں کلیولینڈ، اوہیو میں ہونے والے اجلاس کی رپورٹ ہے جس پر میں ان دنوں بول رہاتھا ’’ٹراٹسکی اور روسی اپوزیشن بارے سچ‘‘ اور رپورٹ کے مطابق سٹالن کا ایک گینگ وہاں آگیا اور اس اجلاس الٹانے کی کوشش کی، مقرر کو دھکے دئیے اور تشدد شروع کرنے کی کوشش۔
س:۔کیا مقرر آپ نہیں تھے؟
ج:۔میں مقرر تھا اورمجھے یاد ہے میری حفاظت گارڈز نے کی جو ہم نے مقرر کررکھی تھی اور رپورٹ کے مطابق مزدوروں کے جتھے نے ہنگامہ کرنے والوں کو اجلاس سے نکال دیا اورمقرر نے آخر تک اپنا خطاب مکمل کیا۔
س:۔کیا اس کے بعد بھی آپ نے کبھی کسی ایسے جلسے سے خطاب کیا جس کی حفاظت ورکرز ڈیفنس گارڈز نے کی ہو؟
ج:۔جی ہاں! یہاں فروری 1929ء کے ملیٹنٹ میں ایک رپورٹ ہے جس میں میاناپولیس میں ہونے والے دو اجلاسوں کا ذکر ہے جن سے میں نے خطاب کیا۔
س:۔کیا آپ کو یاد ہے ان اجلاسوں کا کیا بنا؟
ج:۔جی ہاں۔پہلا اجلاس ایک ہال میں منعقد کرنے کی کوشش کی گئی۔ مجھے ہال کا نام یا دنہیں یہاں رپورٹ کے مطابق یہ اے اویوڈبلیو ہال تھا۔ مجھے یاد ہے اجلاس شروع ہونے سے قبل سٹالن کے حامیوں کے ایک گروہ نے اجلاس پردھاوا بولا اور آسکر کو ورکوزدوکوب کیا، میرے خیال سے آسکرگیٹ پر کھڑا ٹکٹ چیک کررہا تھا، اس کے بعد وہ ہال میں زبردستی داخل ہوکر اگلی نشستوں پربیٹھ گئے، ابھی لوگ آنے شروع نہیں ہوئے تھے، جوں ہی حاضرین جمع ہوئے اور میںا سٹیج پر پہنچ کر تقریر کرنے لگا، وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور دھکم پیل شروع کردی تاآنکہ دوبدولڑائی شروع ہوگئی اورمجھے اپنی تقریر کرنے کا موقع نہ مل سکا۔