حسنہ کو دیکھ کر فراز رک گیا تھا ۔آج وہ واقعی بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔عطیہ یا حسنہ ۔۔۔ دل نے لمحوں میں فیصلہ کیا تھا۔۔۔۔
حسنہ اُس سے نظر چراتی اندر جانے ہی لگی تھی کہ پاؤں کے نیچے پتھر آجانے کے وجہ سے وہ لڑکھڑا گئی فراز نے آگے بڑھ کر اُس کے بھاری بھرکم وجود کو سنبھالنے کے کوشش کی اور نتیجتاً وہ خود بھی لڑکھڑا گیا۔۔۔۔ارد گرد بیٹھے لوگوں کی دبی دبی ہنسی کی آوازیں سنائی دیں۔۔۔ حسنہ نے شرمندگی سے فراز کو دیکھا۔۔
سمبھل کر حسنہ۔۔۔۔فراز نے نرمی سے کہا۔۔۔
حسنہ فراز کے منہ سے کچھ سخت الفاظ سننے کے لئے تیار تھی مگر فراز کے لہجے نے اُسے ششدر کر دیا۔۔۔
چلو بھی اندر۔۔۔سارہ نے اُسے کھینچا۔۔۔۔دل میں بجتے گٹار سارہ کی آواز پر خاموش ہو گئے۔۔۔وہ دونوں اندر کی طرف چلی گئیں فراز پیچھے سے حسنہ کو جاتے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔ شہلا کی نسبت آج حسنہ اُسے زیادہ خوبصورت لگی تھی یا شاید یہ اُس بعزتی کا کمال تھا جو شہلا نے کی تھی۔۔۔
سارہ سن۔۔۔حسنہ اُس کے کان میں گھسی۔۔۔۔
کیا ہے سب دیکھ رھے ھیں۔۔۔۔سارہ نے اُسے دھکیلا۔۔۔
تعویذ کا کمال دیکھا۔۔۔فراز کا لہجہ ہی بدل گیا۔۔۔وہ خوشی سے سر شار ہو کر بولی۔۔۔۔۔
سارہ نے اُسے غصے سے دیکھا تھا۔۔۔۔
بہت خوب بھابی ۔۔۔ضرورت ہی نہ سمجھی نندوں کو پوچھنے کی۔۔۔
رشتا بھی ہو گیا اور شادی بھی رکھ دی۔۔۔اب بھی کیوں بلا لیا ہمیں۔۔۔۔شمع بیگم اور شمس بیگم آج بھابی سے لڑنے کے لئے تیار تھیں۔۔۔
برات آنے کو ہے اور آپ دونوں ہیں کے۔۔۔۔بھتجی کی شادی ہے برات کا استقبال کریں۔۔۔۔فرخندہ اور طاہرہ نے مل کر بات ختم کرنے کی کوشش کی۔۔۔
یہی تو کہہ رھے ہیں ہم۔۔۔ کے بھتیجی کی شادی ہے اور ہمیں مہمانوں کی طرح بلایا گیا ہے۔۔۔وہ دونوں ٹلنے کو تیار نہ تھیں۔۔۔۔
آمنہ کا میک اپ بہنا شروع ہو گیا تھا جگہ جگہ سے بیس پھٹنے لگی ۔۔ آنکھوں پر لگی چمکی اب گالوں پر آ ٹہری تھی۔۔۔۔مگر برات نہ آئی تھی ۔۔۔۔
ہائے آمنہ۔۔۔یہ میک اپ کو کیا ہوا ۔۔۔کیا حال ہو گیا۔۔۔سارہ کی چیخ نکلی تھی۔۔۔۔
آمنہ کی شکل بھی رونے والی ہو گئی تھی سارہ جو اُس کے ساتھ سیلفی لینے کے ارادے سے اندر آئی تھی اب اپنی اکیلے کی ہی سیلفیاں لے رہی تھی۔۔۔۔
برات دروازے پر کھڑی ہے چلو لڑکیوں ۔۔۔۔ چلیں نہ آپا آپ دونوں بھی ۔۔۔گلے شکوے پھر کبھی۔۔۔۔طاہرہ بیگم نے سب کو برات کے استقبال کے لیے بلایا۔۔۔۔
سب ہی دلہا دیکھنے کو بےتاب تھے سو جلدی سے باہر کو لپکے۔۔۔۔۔
پھولوں سے بھری پلیٹیں لیے مومنہ سارا عطیہ اور حسنہ سب سے آگے کھڑی تھیں۔۔۔آج عطیہ بہت بجھی بجھی تھی بار بار شکوہ کناں نظروں سے ذیشان کو دیکھتی اور منہ پیھرتی رہی۔۔۔۔
کیا ہوا عطیہ کیوں سڑ رہی ہو۔۔۔حسنہ پوچھ بیٹھی۔۔۔۔
میں کیوں سڑ نے لگی۔۔۔عطیہ کھول اٹھی۔۔ ۔
اچھا یہ تو بتاؤ دلہا کون ہے۔۔۔۔۔سارہ نے سہرے کے اندر چھپے دلہے کو جھانک جھانک کر دیکھنے کی کوشش کی۔۔۔
ابھی دیکھ لینا۔۔۔کون ہے۔۔۔۔اتنی کیا جلدی ہے۔۔۔۔عطیہ نے منہ بنایا۔۔۔۔
برات اندر آئے تو دیکھے نہ۔۔۔۔حسنہ نے دروازے پر اٹکی برات کو دیکھا۔۔۔۔
کچھ گڑ بڑ لگ رہی ہے سارہ۔۔۔مامی ماموں کی شکل دیکھ۔۔۔۔لگتا ہے کوئی مسئلہ ہو گیا ہے۔۔۔۔۔حسنہ کو تشویش ہوئی۔۔۔۔
جاؤ جا کر پتہ کر کے آو۔۔۔عطیہ نے اُسے ہی بھیجا ۔۔۔
حسنہ فورا کھوج لگانے آگے بڑھ گئی۔۔
کتنا ٹائم لگے گا مصدق ۔۔۔یہ برات اندر کیوں نہیں آ رہی۔۔۔۔زرینہ بیٹھے بیٹھے تھک گئی۔۔۔۔
پتہ نہیں یار۔۔۔۔لڑکے کی بہن نے کوئی ڈیمانڈ رکھ دی ہے۔۔بس وہی مسئلہ چل رہا ہے۔۔۔مصدق بیزار ہو کر بیٹھ گیا۔۔۔
افف ۔۔۔کن لوگوں میں رشتا کر دیا۔۔۔صبح کا ناشتہ کیا تھا بس ۔۔۔سوچا تھا اب شادی میں ہی کھا لوں گی۔۔۔مگر تمھارے خاندان میں جب تک دس ڈرامے نہ ہو جائیں نہ کوئی کام پورا نہیں ہوتا۔کم ازکم کھانا ہی کھول دیتے۔۔۔زرینہ نے حسب عادت سسرال کو برابھلا کہا۔۔۔
ہاں ہاں ۔۔۔بس ٹھیک ہے۔۔۔۔پتہ ہے مجھے۔۔۔یہاں شادی رکی ہوئی ہے تمہیں کھانے کی پڑی ہے۔۔مصدق اٹھ کر چلا گیا۔۔۔
سچ بولنے کا تو زمانہ ہی نہیں ہے۔۔۔۔اُس نے پرس سے ایک بسکٹ کہ پیکٹ نکال کر کھولا۔۔۔۔
پہلے ہی کہا تھا میں نے ۔۔پتہ نہیں کس سے رشتا جوڑ دیا ۔۔۔اب دیکھو۔۔۔۔دکھادی نہ اوقات۔۔۔۔شمس بیگم نے آہستہ سے شمع بیگم کے کان میں کہا۔۔۔
ہائے آپا مانگا کیا ہے یہ تو بتاؤ۔۔۔۔۔شمع بیگم ابھی تک لا علم تھیں۔۔۔۔
لڑکے کی ایک بہن ہے گلشن۔۔۔ عمر میں بڑی ہے سرکاری اسکول میں ہیڈ ماسٹرنی ہے ۔۔۔اُس کی شادی نہیں ہو رہی۔۔۔تو دوسری شادی شدہ بہن نے شرط رکھی ہے کے ریحان کا نکاح اُس سے کروایا جائے آج ہی۔۔۔۔ایاز اور آمنہ کے نکاح کے ساتھ۔۔۔جب ہی ایاز اور آمنہ کا نکاح ممکن ہے۔۔ ۔۔دبی دبی آواز میں اُنہوں نے سارا ماجرا سنایا۔۔۔۔
ہائے ہائے۔۔۔یہ کیا کہہ رہی ہیں آپا۔۔۔۔شمس بیگم کی آنکھیں کھل گئیں۔۔۔۔ریحان بیچارے کا کیا قصور۔۔۔
دیکھ لو زمانہ۔۔۔۔قیامت بس آنے کو ہے۔۔۔۔۔۔شمس بیگم کو شہلا کا رویّہ بھی یاد آ گیا۔۔۔
اب کیا ہوگاآ پا۔۔۔
بس خاموش بیٹھ کر تماشا دیکھو۔۔۔ہم تو مہمان ہی ہیں ویسے بھی۔۔۔۔شمس بیگم اور شمع بیگم بھی ایک کونے پر لگی کرسیوں پر بیٹھ گئیں۔۔۔۔
مومنہ عادت سے مجبور خبر ملتے ہی آمنہ کی طرف دوڑی۔۔۔۔آمنہ پہلے ہی اپنے میک اپ سے پریشان بیٹھی تھی یہ خبر سن کر تو اُس کے طوطے ہی اُڈ گئے۔۔۔
ایاز کی بہن فساد ن ہے یہ تو اُسے اندازہ ہو گیا تھا لیکن شادی روکنے کے لیے ایسے ہتکھندے استعمال کرے گی یہ آمنہ کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔۔۔۔
ریحان کبھی نہیں مانے گا۔۔۔آمنہ کے آنسو اُس کے چہرے کو مزید بگاڑ گئے۔۔۔۔
ریحان باہر ہی موجود ہے آمنہ۔۔۔تسلی رکھو تم۔۔۔مومنہ نے اُسے غلط وقت پر خبر دی تھی۔۔۔آمنہ کے رونے میں شدت آ گئی تھی۔۔۔
وہ کبھی نہیں مانے گا مومو۔۔۔آمنہ کِسی طور چپ ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔۔
اگر سیدھی طرح میری ایاز سے شادی نہ ہوئی نہ تو میں اپنی جان لے لوں گی۔۔۔۔۔جاؤ جا کر بتا دو ریحان اور امّاں کو اور ایاز کو بھی۔۔۔۔۔۔۔آمنہ نے دھمکی دی۔۔۔
مومنہ دھمکی لیے باہر کی طرف بھاگی۔۔۔۔۔
آمنہ کی دھمکی پر سب ہی پریشان ہوئے تھے۔۔۔صرف شمع بیگم شمس بیگم اور زرینہ اطمینان سے بیٹھے تماشا دیکھ رھے تھے۔۔۔۔
اندر چل کر بات کرتے ہیں آرام سے۔۔۔۔جاوید صاحب نے معاملہ نمٹانے کی کوشش کی۔۔۔
آپ لوگ جائیے اندر۔۔۔ہم تب تک اندر نہیں آئیں گے جب تک ریحان گلشن سے نکاح کے لیے ہامی نہیں بھرتا۔۔۔ایاز کی باجی نے جھٹ سے جواب دیا۔۔۔
چلو ریحان اندر ۔۔۔۔سب ریحان کو لیے آمنہ کے پاس چلے آئے۔۔۔
ریحان بھائی۔۔۔۔آمنہ ریحان کو دیکھتے ہی چیخی۔۔۔۔آج تو کچھ بھی کر کے ریحان کو منانا تھا۔۔۔۔
بتاؤ ریحان۔۔۔کیا فیصلہ ہے تمہارا۔۔۔امّاں ابّا کے سوال پر بیچارے ریحان کے پسینے چھوٹ گئے۔۔۔
ایک طرف بہن کی محبت اور ایک طرف حسنہ کی۔۔۔
ابا ۔۔۔ یہ سب ڈراما ہے ایاز کی بہن یہ رشتا کرنا ہی نہیں چاہتی۔۔۔۔ریحان نے اپنی جان چھڑوانے کے لیے کہا۔۔۔۔
ہاں مگر ہم اُس کی شرط ابھی مان لیں تو آمنہ کا بیاہ ممکن ہے۔۔۔۔پیسے والے ہیں بیٹی کو خالی ہاتھ تو نہیں بھیجیں گے نہ۔۔۔۔گلشن بھی ہیڈ ماسٹر نی ہے ساری زندگی کما کے کھلائے گی۔۔۔۔امّاں نے ریحان کو روشن مستقبل دکھایا۔۔۔۔۔
ریحان شش و پنج میں پڑ گیا تھا۔۔۔
آمنہ کا میک اپ رو رو کر ہی ختم ہو گیا تھا اور جو تھوڑی بہت چمکی باقی تھی وہ مومنہ نے صاف کر ڈالی۔۔۔اب اُس کی شکل قدرے بہتر نظر آ رہی تھی۔۔۔۔
میں تو کہتی ہوں مامی اور ریحان کو ہاں کر دینی چاہیے آمنہ کی شادی ٹوٹی تو وُہ مر جائے گی۔۔۔حسنہ نے دِل گرفتگی سے کہا۔۔۔
منہوس ہزار بار کہا ہے اپنی کالی زبان سے نہ کہا کر کچھ۔۔منہ بند رکھ اپنا۔سارہ نے اُسے ڈپٹا۔۔۔۔
عطیہ بھی پاس ہی بیٹھی تھی اب اُس کا موڈ قدرے بہتر تھا۔۔۔۔دل کو اس تماشے سے ٹھوڑی ٹھنڈ پڑی تھی۔۔۔۔
پتہ نہیں کیا فیصلہ کرتے ہیں یہ لوگ۔۔ہم بھی اندر چلیں کیا آپا۔۔شمع بیگم سے باہر بیٹھے نہیں جا رہا تھا۔۔۔
کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔کِسی نے جھوٹے منہ پوچھا تک نہیں ۔۔ پھوپو ہیں ہم ۔۔کِسی کھاتے میں نہیں ڈالا ہمیں۔۔۔اب پچھتانے دو خود ہی۔۔۔۔شمس بیگم تپی بیٹھی تھیں۔۔
بہن ہی بہن کی سگی ہوتی ہے آپا۔۔۔۔کچھ بھی کر لو بھابھی بہن کی جگہ تھوڑی لے سکتی ہے۔۔۔شمع بیگم نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔۔۔۔
میں تو کہتی ہوں فراز کا رشتا بھی بہت اپنوں میں کرنا ۔۔غیروں کا کیا بھروسہ۔۔۔۔شمع بیگم کی بات پر شمس بیگم نے سامنے بیٹھی حسنہ اور عطیہ کو دیکھا۔۔۔۔
حسنہ خوش مزاج تھی کام کاج میں بھی اچھی تھی اور سب سے بڑھ کر بہن کی بیٹی تھی۔۔۔عطیہ کے مقابلے میں اُنھیں حسنہ کا پلڑا بھاری لگا۔۔۔۔
سوچ تو میں بھی یہی رہی ھوں شمع۔۔۔اب دیکھو فراز کیا کہتا ہے۔۔۔اُنہوں نے اشاروں کنایوں میں اپنی رضا مندی سنائی۔۔۔۔
شمع بیگم کا دل تو خوشی سے پھسلیاں توڑ کر نکلنے کو تھا۔۔۔جہاں شمس بیگم بیٹھی تھیں بلکل اُس کے پیچھے ہی وہ جگہ تھی جہاں تعویذ دبایا تھا وہ تشکر بھری نظروں سے اُس جگہ دیکھنے لگیں۔۔۔۔
کیا دیکھ رہی ہو شمع۔۔۔۔شمس بیگم نے اُن کی نظروں کو محسوس کیا۔۔۔۔
کچھ نہیں آپا۔۔۔وہ گڑ بڑ ا گئیں۔۔۔۔
،
امّاں میں پنکھے سے لٹک جاؤں گی امّاں۔۔۔۔۔آمنہ نے اوور ایکٹنگ کی انتہا کی۔۔۔
جا لٹک جا۔۔۔ٹینوں کی چھت سمیت زمین پر ہوگی۔۔۔امّاں غصے سے بولیں۔۔۔۔
ریحان چل بس ۔۔۔نکاح ہی کرنا ہے نہ ابھی ۔۔رُخصتی کے وقت سوچیو جو سوچنا ہے۔۔۔اٹھ شاباش۔۔۔۔امّاں نے ریحان کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا۔۔۔۔
امّاں وہ حسنہ۔۔۔۔ریحان نے بمشکل حسنہ کہ نام لیا۔۔۔۔
حسنہ ۔۔۔کیا حسنہ۔۔۔۔وہ پہلے ہی ہمارے گوشت سبزی کے پیسوں پر بہت عیش کر چکی ریحان۔۔۔اگر اُسے بہو بنا کر لائی نہ تو ہم سب کو فاقے کروائے گی وہ۔۔۔اور اپنی پھوپو کی عادت کا نہیں پتہ کیا۔۔۔۔چل بیٹا شاباش۔۔۔ماں باپ کی عزت کا مان رکھ لے۔۔۔وہ اُسے تقریباً گھسیٹتے ہوئے باہر لے آئیں۔۔۔
چلو لڑکیوں پھولوں کی پلیٹیں اٹھا کر آؤ۔۔۔وہ سب کو حکم دیتیں خود بھی ٹینٹ کے دروازے کی طرف گئیں۔۔۔۔
عطیہ حسنہ اور سارا پلیٹیں اٹھا کر ایک دوسرے کو آنکھوں ہی انکھوں میں اشارے کرتے مامی کے پیچھے چل پڑیں۔۔۔
مصدق ایک کاغذ میں لپٹا برگر لیے زری کے پاس آیا تھا۔۔۔یہ لو۔۔۔۔بہت چھپا کر برگر زرینہ کو پکڑایا۔۔۔۔
اب امّاں سے چھپا کر نگلو اسے۔۔۔۔چبانے کی بھی ضرورت نہیں سمجھیں۔۔۔زرینہ نے غصے سے اُسے گھورا۔۔۔
چھپانے کی کیا بات ہے گیارہ بج گئے ہیں اب تک بریانی کی دیگیں نہیں کھلیں۔۔۔ہمارا قصور ہے کیا۔۔۔۔زرینہ ناشتا کر کے آئی تھی بس اُس کا حال برا ہو رہا تھا۔۔۔۔
اُس نے منہ نیچے کر کے جلدی سے ایک ٹکڑا کھایا۔۔۔۔اب وہ مسکراتے مسکراتے ہلکے ہلکے چبانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔
شاباش بس اسی طرح ختم کرو جلدی۔۔۔۔مصدق کی جان حلق میں اٹکی ہوئی تھی اگر امّاں کو پتہ چلتا تو وہ یہیں ذلیل کر کے رکھ دیتیں۔۔۔۔
مصدق۔۔۔۔کولڈڈرنک بھی لے آتے نہ۔۔۔۔زرینہ نے اُسے آہستہ سے کہا۔۔۔
مصدق کا دل چاہا اُس کا سر پھوڑ دے۔۔۔
برات اندر آ گئی تھی۔۔۔نکاح شروع ہو چکا تھا باری باری آمنہ اور ریحان کا نکاح پڑھایا گیا تھا۔۔۔اب دونوں دلہنیں اسٹیج پر اپنے اپنے دلہے کے ساتھ بیٹھی تھیں۔۔۔
ریحان کی نظریں حسنہ پر جمی ہوئی تھیں جو فراز کے ساتھ کھڑے ہو کر سیلفیاں لے رہی تھی۔۔۔۔
کیسے بھولوں میں اُس کا وہ طرز محبت
اُس کا مجھ سے وہ محبت سے چنا چاٹ مانگنا
مسکرا کر دیکھنا وہ ایک ادا سے میری طرف
اور پان کے کھو کے سے وہ میٹھا پان خریدنا
کبھی آئسکریم کبھی جوس اور کبھی چاکلیٹ
اُس کی ہر فرمائش کو، میرا پورے کرتے جانا۔۔۔
ریحان نے ایک سرد آہ بھر کر پہلی دفعہ گلشن کی جانب دیکھا ۔۔۔ ریحان کا منہ کھلا ہی رہ گیا اُسے لگا شاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔اُس نے دس بار آنکھوں کو مسل ڈالا۔۔۔مگر ہر بار وہی چہرہ نظر آیا۔۔۔۔
اپنی فزکس کی اُستانی کو برابر میں بیٹھا دیکھ کو ریحان کے چودہ طبق روشن ہو گئے تھے۔۔۔۔
مس گلشن آپ۔۔۔وہ حكلا یا تھا۔۔۔۔
گلشن عمر میں اُس سے کوئی بارہ برس تو بڑی تھی ہی لیکن شکل سے عمر معلوم نہ ہوتی تھی۔۔۔
ہاں میں۔۔۔۔گلشن اپنے سابقہ اُستانی والے کرخت لہجے میں بولی۔۔۔۔
ریحان کو اپنی جان نکلتی محسوس ھوئی۔۔۔پیروں کی حرکت ختم ہو گئی تھی اب تو ہاتھ بھی سن ہو رھے تھے۔۔۔بس جان لبوں پر آ کر اٹک گئی تھی۔۔۔۔اُس نے ایک نظر حسنہ پر ڈالی اور دوسری گلشن پر۔۔۔اُس کی زندگی کے گلشن میں ہمیشہ کے لیے خزاں اُتر آئی تھی۔۔۔۔
جہاں آمنہ ایاز کی رفاقت میں مسکرائی تھی وہیں ریحان گلشن کے پہلو میں بیٹھ کر آنسو بہا رہا تھا۔۔۔
آمنہ کی رخصتی دے دی گئی تھی گلشن کی رخصتی کے لیے وقت لیا گیا تھا۔۔۔زرینہ تو کھانا کھاتے ہی نکل گئی تھی۔۔۔شمع بیگم حسنہ اور سارہ آخر تک موجود تھے۔۔۔۔
ذیشان نے انہیں گھر چھوڑنے کے لیے رکشا اسٹارٹ کیا تو زبردستی عطیہ کو بھی گھسا لیا۔۔۔
ہائے ہائے عطیہ کا کیا کام۔۔۔جگہ کہاں ہے حسنہ چلا اٹھی۔۔۔
عطیہ اُسے دھکّا مارتی اپنی جگہ بنا چکی تھی۔۔۔
ہمارا مستقبل کیا ہے شانو۔۔۔عطیہ نے واپسی کے راستے میں پوچھا وہ دونوں ہی تھے رکشے میں اب۔۔۔۔
تمھیں پوری دنیا گھما وں گا میری انار کلی۔۔۔۔ذیشان نے محبت سے چور لہجے میں کہا۔۔۔۔
اس رکشے میں۔۔۔عطیہ کو غصّہ آیا۔۔۔۔۔
فکر کیوں کرتی ہوں عطیہ ۔۔۔ سب ہو جائے گا ایک دن۔۔۔وہ بے فکر ہو کر بولا۔۔۔۔
ہاں ہاں لاٹری نکل آئے گی نہ تمھاری۔۔۔۔وہ منہ پھیر کر بیٹھ گئی۔۔۔۔
اُس کے لیے بھی پہلے لاٹری لینی پڑتی ہے۔۔۔وہ ڈھیٹ بن کر ہنسا۔۔۔۔
اُس کے ہنستے ہی عطیہ کی نظر اُس کے لال دانتوں پر پڑی۔۔۔وہ بھنا گئی۔۔۔
نہیں کرنی تم سے شادی سمجھے۔۔۔۔تم زندگی بھر رکشا ڈرائیور ہی رہنا۔۔۔۔
یہ رکشا نہیں ہوائی جہاز ہے۔۔۔تم نے اس کے پیچھے لکھا ہوا کبھی پڑھا نہیں۔۔۔۔ذیشان آج اُسے زچ کرنے پر تلا تھا۔۔
گھر آ گیا تھا عطیہ تن فن کرتی اُتر گئی۔۔۔۔
عجیب لڑکی ہے اس لیے تو ساتھ نہیں لے گیا تھا نہ۔۔۔۔بس لڑائی کرنی آتی ہے۔۔۔ذیشان منہ ہی منہ میں عطیہ کو کوسنے لگا۔۔۔
کھانا اچھا نہیں تھا امّاں۔۔۔۔حسنہ نے گھر پہنچتے ہی تبصرہ جھاڑا۔۔۔
ہاں اور کچھ لوگ تو بھوکے ہی رہ گئے اتنا کم تھا۔۔
میر ہادی کو بھی نہیں ملا اور سونو حسن تو ٹوٹ ہی پڑی تھی چمچ لے کر پلیٹ پر۔۔۔چاٹ مصالحہ کی اکیلی کی دعوت تھی اور وہ مزید چار دوستوں سمیت چلی آئ۔۔۔ یہ تو ہونا ہی تھا پھر۔۔۔۔سارہ نے بھی لقمہ دیا۔۔۔
امّاں نے بھی تو ڈھائی سو کا لفافہ رکھا ہے۔۔۔اتنے میں تو ایسا ہی ملنا تھا۔۔۔اوپر سے زرینہ نے جھانک کر آگ لگانے کو جملہ کسا۔۔۔۔
ہاں اور تم خاندانی بھوکی۔۔۔چھپ چھپ کر برگر کھاتے دیکھا تھا میں نے۔۔۔۔شمس آپا کی وجہ سے خاموش رہی میں۔۔۔۔میاں میں بھی ذرا شرم نہیں ہے اتنے مہمانوں کے بیچ کیسے کاغذ میں لپیٹ کر لایا۔۔۔جوروکا غلام۔۔۔۔شمع بیگم زرینہ کی حرکتوں سے غافل نہیں تھیں۔۔۔۔
زرینہ غصے میں واپس اپنے کمرے میں گھسی تھی۔۔۔
تمھاری امّاں کی آنکھوں میں ایکسرے مشین فٹ ہے مصدق۔۔۔۔بنا چبائے نگلا میں نے ۔۔۔پھر بھی پتہ لگ گیا اُنھیں۔۔۔اُس نے ہیلز اُتار کر مصدق کی طرف اچھالی۔۔۔۔
اپنے میاں کا کھا تی هوں میں۔۔۔کِسی کو کیا۔۔۔۔کھینچ کر آنکھوں سے نقلی پلکیں الگ کی۔۔۔
مصدق نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔۔۔
امّاں وہ میری فزکس کی اُستانی تھی۔۔بہت مارتی تھی امّاں ۔۔۔ اُس سے کروا دی میری شادی۔۔۔۔ریحان اب باقاعدہ رو رہا تھا۔۔۔۔
کوئی بات نہیں بھائی۔۔۔اب آپ بدلہ لینا۔۔۔مومنہ نے اُسے دلاسہ دیا۔۔۔
دفعہ ہو جا یہاں سے۔۔۔ریحان کا بس نہیں چل رہا تھا پورا گھر جلا دیتا۔۔۔
بہن سے تمیز سے بات کرو۔۔۔امّاں نے غصّہ دکھایا۔۔۔
بھول جاؤ پرانی باتیں ۔۔۔اب وہ بیوی ہے تمھاری۔۔۔اور اگر کبھی مارا بھی تو کیا ہوا تم تھے ہی پڑھائی چور۔۔۔۔امّاں نے اُسے ہی برا بھلا کے دیا۔۔۔۔
وہ دل برداشتہ ہو کر گھر سے نکل گیا۔۔۔
غم عاشقی تیرا شکریہ
میں کہاں کہاں سے گزر گیا
ریحان کی حالت اس وقت ایسی تھی جیسے فزکس کے پیپر میں کیمسٹری کی تیاری کر کے چلا گیا ہو۔۔۔کوئی کوئی ہی اُس کا درد سمجھ سکتا ہے بس۔۔۔
گھونگٹ اٹھا کر کو آمنہ کے چہرے کو دیکھا تو ایاز کو صدمہ سا لگا۔۔۔
آمنہ یہ تمھیں کیا ہوا۔۔۔ایاز نے اُس کے گالوں کو چھوا۔۔۔کچھ چمکی ایاز کی انگلیوں پر بھی لگ گئی۔۔۔۔
کچھ نہیں تمھاری باجی نے اتنا رولایا کے میک اپ بھی رو دیا۔۔۔۔آمنہ نے چالاکی سے سارا الزام باجی کے سر ڈالا۔۔۔۔
معاف کر دو آمنہ۔۔۔۔مجھے نہیں پتہ تھا آخری وقت میں۔ وہ یہ تماشا کرنے والی ہیں۔۔۔۔ایاز نے شرمندگی سے مافی مانگی۔۔۔
اچھا چلو چھوڑو۔۔۔ تحفہ دو میرا۔۔۔آمنہ نے شرما کر کہا۔۔۔۔
اپنی دو بھینسیں میں نے تمھارے نام کر دی ہیں آمنہ۔۔۔ایاز نے فخر سے بتایا۔۔۔
کیا۔۔یہ تحفہ ہے دو بھینسیں۔۔۔آمنہ کو لگا چھت اُس کے سر پر آ گری۔۔۔۔
ہاں آمنہ۔۔۔تم اب دو بھینسوں کی مالکن ہو۔۔۔اُس نے آمنہ کو اپنے قریب کیا۔۔۔
دو بھینسیں۔۔۔منہ دکھائی میں۔۔۔۔
آمنہ ایک دم ہی اُس کے بازوں میں جھول گئی۔۔۔
آمنہ اُٹھو آمنہ۔۔۔کیا ہوا۔۔۔ایاز نے پانی کے چھینٹے اُس کے چہرے پر مارے۔۔۔
آمنہ کو ہوش آیا تھا
۔۔۔۔ایاز۔۔۔۔ایاز۔۔۔۔
ایاز ۔۔۔میں سب کو کیا کہوں گی میرے شوہر نے منہ دکھائی میں بھینسیں دی ہیں مجھے۔۔۔اُس کا پھر سے رونے کا سیشن شروع ہو چکا تھا۔۔۔۔آمنہ کا آج رونے کا دِن نکلا ہوا تھا۔۔۔
آمنہ۔۔۔دو بھینسوں کا مطلب پتہ ہے تمھیں۔۔۔۔چار لاکھ روپے۔۔۔ایاز نے اُسے سمجھانا چاہا۔۔۔
اگر نہ فروخت کی تو زندگی بھر خالص دودھ اور مکھن بھی ملے گا۔۔۔۔تمھیں دودھ کے فائدے پتہ ہیں۔۔۔۔وہ ایک ایک کر کے خالص دودھ کے فوائد بتانے لگا۔۔۔
چپ کر جاؤ خدا کے لیے۔۔۔آمنہ نے ہاتھ جوڑے۔۔۔یہ ہماری سُہاگ رات ہے یا دودھ کی کوئی نئی دکان کھلی ہے۔۔۔۔حد ہے ایاز۔۔۔۔بھینسوں سے آگے بھی دنیا ہے۔۔۔۔۔
اگر پندرہ سولہ ہزار کی کوئی انگوٹھی دے دیتا نہ تو تم نے خوش ہو جانا تھا چار لاکھ کی بھینسوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔۔۔۔۔ایاز دلبرداشتہ ہوا تھا اُسے لگا تھا آمنہ کو اُس کا تحفہ پسند آئے گا۔۔۔
آمنہ ایاز کا اُترا چہرہ دیکھ کر خاموش ہو گئی۔۔۔۔اچھا کوئی نہیں۔۔۔کل مجھے میری پسند کا بھی کچھ دلا دینا۔۔آج شادی کی رات وہ ایاز کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔
حسنہ یا عطیہ۔۔۔کیا فیصلہ ہے تمہارا۔۔۔۔شادی سے واپسی میں شمس بیگم نے بیٹے کو ٹٹولا۔۔۔۔
فراز کا دل دھڑک اٹھا تھا۔۔۔
حسنہ کی معصومیت اُس کا اپنے آگے پیچھے پھرنا۔۔۔وہ حسنہ کے جذبات سے انجان نہیں تھا۔۔۔اور شہلا سے ملنے والے دھوکے نے اُسے حسنہ کی قدر سیکھا دی تھی۔۔۔۔عطیہ تو اُسے دیکھ کر سڑ یل منہ بناتی تھی۔۔۔۔
بولو بیٹا۔۔۔۔۔شمس بیگم نے اُسے خیالوں میں گم دیکھ کر پھر سے پوچھا۔۔۔۔
حسنہ ٹھیک ہے امّاں۔۔۔۔جھجکتے ہوئے اُس نے حسنہ کا نام لے دیا۔۔۔
جیتا رہے میرا بیٹا۔۔۔کل ہی بات کرنے جاتی ھوں شمع کے گھر۔۔۔۔وہ تو تیار بیٹھی ہے حسنہ کو بیاہنے کو۔۔۔۔اور حسنہ کا وزن بھی کچھ کم دکھائی دے رہا ہے اب۔۔۔۔شمس بیگم بیٹے کی رضامندی پا کر خوشی سے نہال ہوئیں۔۔۔
فرحان تم نے پوری شادی میں نظر اٹھا کر نہیں دیکھا مجھے۔۔۔۔مومنہ سیڑھیوں پر فرحان کے ساتھ بیٹھی تھی۔۔۔
دیگوں سے کھانا نکالنے کا زمہ میرا تھا مومنہ بیبی۔۔۔
گوشت چاولوں میں چھپا بیٹھا تھا اتنی مشکل سے کھانا نکا لا ہے کیا بتاؤں۔۔۔۔
نہ بتاؤ مجھے یہ سب۔۔۔یہ بتاؤ میں کیسی لگ رہی تھی۔۔۔مومنہ نے ہاتھ اٹھا کر فرحان کی آنکھوں کے سامنے چوڑیاں چھنکائی۔۔۔۔
سچ کہوں تو دیکھا نہیں ٹھیک سے تمھیں۔۔۔میں بہت دیر میں پہچانا کے تم مومنہ ہو۔۔فرحان نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
کیا مطلب۔۔۔۔مومنہ نے نظریں اُس کے چہرے پر جمائیں۔۔۔
مطلب چہرے پر دو کلو بیس ۔۔ایک کلو آنکھوں پر رنگ۔۔۔ ایک ایک کلو گالوں پر۔۔۔۔آنکھوں میں یہ بلی کے رنگ جیسے لینس۔۔۔بالوں میں اتنی لہریاں۔۔۔۔ناخنوں تک کا رنگ بدل ڈالا۔۔۔۔بندہ پہچانے بھی تو کیسے۔۔۔فرحان اپنی بات مکمل کرتا تیزی سے سیڑھیاں اُتر گیا پیچھے سے آتی مومنہ کی ہیلز اُس کی کمر سے ٹکرائیں تھیں۔۔۔
وہ آخری اسٹیپ پر کمر پکڑتا رکا تھا۔۔۔۔اور ہاں ۔۔۔قد لمبا کرنے کے لیے یہ ہیلز بھی۔۔۔پھر کیسے پہچانتا میں بھلا ۔۔۔۔یہ کہتا وہ اندر کو بھاگا تھا۔۔۔۔
مومنہ نے پیچھے سے اُسے گالیاں دے ڈالی۔۔۔۔
سچی محبتیں ایسی ہی تو ہوتی ہیں جھوٹ سے پاک۔۔۔کوئی لمبے چوڑے پیار بھرے جملوں اور دعووں کی ضرورت نہیں ہوتی ۔۔۔ ایک احساس ہوتا ہے اپنے پن کا۔۔۔اور کچھ جان جلانے والی حرکتیں ۔۔۔
ماما کو گھر آنا ہے تمھارے۔۔۔۔احسن نے اُس کے کیبن میں آ کر پٹاخہ پھوڑ دیا۔۔۔
سارہ نے خوشی اور صدمے کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ احسن کو دیکھا۔۔
کیا ہوا۔۔۔احسن نے جواب نہ پا کر حیرت سے اسے دیکھا۔۔۔
اپنی ماما سے پوچھ کر آپ کو بتاؤں گی۔۔۔۔اُس نے بات بنائی۔۔۔
ہممم۔۔ٹھیک ہے شام میں ہی بات کر لو۔۔۔۔زیادہ انتظار نہیں کروں گا میں ۔۔۔معنی خیز لہجے میں کہتا وہ واپس چلا گیا ۔۔مگر جاتے جاتے سارہ کا چین و سکون لے گیا۔۔۔
افف۔۔کیا کروں گی اب میں۔۔۔کیا کروں گی۔۔۔زرینہ بھابی تو دوبارہ ساتھ نہیں دینے والیں۔۔۔۔ویسے بھی کب تک چلنا ہے اس جھوٹ کو۔۔۔۔اُس نے غصے میں پیپر ویٹ اٹھا کر پٹخ دیا۔۔۔
سوچ سارہ سوچ۔۔۔۔احسن احمد کے لیے سوچ۔۔۔دماغ نت نئے راستے دکھا رہا تھا ۔۔۔دل کہہ رہا تھا سچ بول دو۔۔۔وہ عجیب مصیبت میں پھنس گئی۔۔۔
شمس بیگم اگلی ہی صبح رشتا ڈالنے شمع بیگم کے گھر پہنچ گئیں۔۔۔۔اس دفعہ مٹھائی لانے کی زحمت نہ کی تھی۔۔۔۔
آپا آپ۔۔۔صبح صبح۔۔۔شمع بیگم نے حیرت سے بہن کو دیکھا۔۔۔۔
دیکھ شمع۔۔۔۔آج میں بہن بن کر نہیں آئی۔۔۔مہمان بن کر آئی ھوں اچھے سے خاطر مدارت کرو میری۔۔۔وہ اکڑ کر بولیں۔۔۔
کیا مطلب۔۔۔مہمان کیوں ہونے لگیں آپ۔۔۔۔شمع بیگم کو بات سمجھ نہ آئی۔۔۔۔
فراز کا رشتا لائی ہوں حسنہ کے لیے۔۔۔۔اُنہوں نے محبت سے حسنہ کو دیکھا۔۔۔۔
پانی پیتے پیتے حسنہ کو اچھو لگ گیا وہیں شمع بیگم کے حلق میں بھی پان پھنسا تھا۔۔۔
کیا ۔۔۔کیا کہا آپا۔۔۔
ارے فراز اور حسنہ کا رشتا کرنا چاہتی ہوں۔۔۔تمھیں کوئی اعتراض ہے کیا۔۔۔۔میں نے سوچا تم بیوہ ہو کہاں رشتے ملیں گے تمھیں بچیوں کے۔۔۔ حسنہ میری بہانجی ہے۔۔۔اپنے ہی اپنوں کا خیال کریں گے نہ۔۔۔اُنہوں نے جتا کر کہا۔۔۔۔
شمع بیگم جھٹ آپا کے گلے لگ گئیں وہیں حسنہ شرما کر باورچی خانے کا رخ کر گئی۔۔۔۔۔
چائے چڑھاتے حسنہ کے ہاتھ بھی کانپ رہے تھے۔۔۔فراز سے شادی۔۔۔نور بیبی کا احسان تھا۔۔۔۔وہ اُن کی پکی مرید ہو گئی۔۔۔۔شہلا بہت دِن سے نہیں آئی تھی اُس نے شہلا کو خوش خبری سنانے کے لئے فون کر ڈالا۔۔۔۔
کیا ہے حسنہ اتنی صبح صبح۔۔۔شہلا کی نیند میں ڈوبی آواز سنائی دی۔۔۔
فراز کے ساتھ میرا رشتا پکّا ہوگیا شہلا۔۔۔۔حسنہ نے اپنے تئیں خوش خبری سنائی تھی۔۔۔
دوسری طرف شہلا کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔۔۔۔
وہ نا مراد فراز۔۔۔۔شہلا کی زبان سے پھسلا۔۔۔۔
شہلا۔۔۔۔۔دوبارہ ایسا کوئی لفظ اُن کے لیے استعمال نا کرنا۔۔۔حسنہ کا دل دکھا۔۔۔۔
میں شام کو آتی ہوں پھر بات کروں گی۔۔۔شہلا نے فون کاٹ دیا۔۔۔۔
ایک دن آپ یوں
ہم کو مل جائیں گے
پھول ہی پھول راہوں میں
کھل جائیں گے
میں نے سوچا نہ تھا۔۔۔۔۔۔
حسنہ گنگنانے لگی تھی۔۔۔۔
میں نے سوچا نہ تھا۔۔۔
آمنہ میکے جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی۔۔۔ایاز نے اُسے محبت سے اپنے قریب کیا۔۔۔
کب واپس آؤ گی میری جان۔۔۔۔۔۔ایاز نے اُس کے بالوں سے کلپ نکال دیا۔۔۔۔
یہ کیا کیا۔۔۔آمنہ نے ناراضگی سے کلپ کی طرف دیکھا۔۔
کھلے بالوں میں بہت حسین لگتی ہو جان۔۔۔۔ایاز نے اُس کے بالوں میں اُنگلیاں پھیریں۔۔۔
ایاز کی اُنگلیاں اُس کے بالوں میں ہی اٹک گئیں۔۔۔
آں۔۔۔۔آمنہ سسکی۔۔۔
اتنے اُلجھے ہوئے بال۔۔۔ایاز کا سارا رومانٹک موڈ غارت ہو گیا۔۔۔۔
ہاں تو ۔۔۔سر پے جو اتنا بڑا جوڑا بنایا تھا نہ شادی میں۔۔۔وہ ان کو اُلجھا کر بنایا تھا۔۔۔آمنہ نے بال سلجھانے کی کوشش کی جو کسی طور سلجھنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔۔۔
کیا مطلب۔۔بال بنانے کے لیے بالوں کو الجھاتا کون ہے۔۔۔ایاز کو منطق سمجھ نہ آئی۔۔۔
ارے انگلش میں کہتے ہیں کچھ ۔۔۔پارلر والی بھی کوئی نام بتا رہی تھی۔۔۔آمنہ کو انگلش کے لفظ کہاں یاد رہنے والے تھے۔۔۔۔
چلو ہوگا کچھ ۔۔۔چھوڑو۔۔۔۔ایاز نے پھر اُسے تنگ کرنے کے لیے اُس کا بازو پکڑ کر سینے سے لگایا ہی تھا کہ دروازہ کھول کر باجی اندر گھسی چلی آئیں تھیں۔۔۔۔
ایاز نے جلدی سے آمنہ کو جھٹکے سے دور کیا تھا وہ لڑ کھڑا کر ڈریسنگ ٹیبل سے ٹکرائی۔۔۔۔
شرم کرو۔۔۔ایاز ۔۔۔جوان بہنوں کے گھر میں ایسی حرکتیں۔۔۔۔باجی نے اُن دونوں کو دیکھ لیا تھا۔۔۔۔۔
جوان بہنوں کو بھی دروازہ بجا کر اندر آنا چاہیے تھا نہ۔۔۔۔آمنہ نے لفظ جوان پر زور ڈالتے ہوئے باجی کو آگ لگائی۔۔۔۔
ہائے توبہ۔۔۔۔کیسی منہ زور گائے اٹھا لائے ایاز۔۔۔۔پہلے ہی دن قینچی کی طرح زبان چل رہی ہے اس کی تو۔۔۔۔۔باجی نے بات کو بڑھانے کے لئے زور زور سے واویلا شروع کیا۔۔۔۔
ایاز نے سر پکڑ لیا۔۔۔۔۔