روشنیوں میں نہایا گھر ماتم کی تاریکی میں کھو گیا تھا۔لوگ چیخنے رونے اور دلاسے دینے کے بعد چلے گۓ تھے۔
اب گھر کے مکین تھے گھر تھا اور تکلیف دہ یادیں تھیں۔
اور یادوں سے بڑی تکلیف دہ شائد اس دنیا میں کوئ نہیں۔یادیں اچھی ہوں یا بری بڑی تکلیف دہ ہوتی ہیں کیونکہ وہ یادیں ہوتیں ہیں۔ہمارا ماضی ہمارا گزرا زمانہ۔
ماما سنبھالیں خود کو۔۔۔سہیل کے اپنے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔درد تھا کہ اندر سے کھا جاۓ جا رہا تھا اس کو۔پھر بھر بھی وہ ماں کے گھٹنے سے لگ کر بیٹھا ان کو تسلیاں دے رہا تھا۔
کیسے کیسے کروں میں حوصلہ میری پھول سی بچیاں۔۔کہتے ہوۓ وہ چہرہ دونوں ہاتھوں میں دے کر رو پڑیں۔ان کے آنسو دل دہلا دینے والے تھے۔ان کا غم دیکھنے والوں کی آنکھوں سے بہتا تھا۔۔
آخر سہیل کی بھی ہمت ختم ہو گئ اور ماں کے قدموں میں بیٹھ کر رو دیا۔۔دونوں ماں بیٹے کے آنسوؤں نے ہچکیوں کا روپ لیا۔اس سنسان ماتم زدہ گھر میں میں دونوں کی آنسوؤں بھری ہلکی ہلکی ہچکیاں گونج رہیں تھیں۔
کچھ یادیں پرانی چپکے سے ذہن کے دریچے پر ابھریں۔۔
کبھی کبھی ہمارا حال اتنا تکلیف دہ ہوتا ہے کہ ہم ماضی میں جینا پسند کرتے ہیں۔۔
وہ بھی ماضی کی خوبصورت یادوں میں کھوتا چلا گیا۔۔
جہاں ان کی فیملی مکمل تھی نٹ کھٹ سی تین بہنیں ماں اور وہ مگر اب سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔۔
وقت بہت بےرحم ہوتا ہے۔اندر سے توڑتا ہے چھیتڑے کر دیتا ہے انسان کے ۔اتنے حصوں میں تقسیم کرتا ہے کہ جڑنے میں صدیاں بیت جاتی ہیں پھر بھی مکمل جڑ نہیں پاتا انسان۔ وقت رحم نہیں کرتا ۔۔۔
ماضی اس کی آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح چلنے لگا۔۔۔
___________________________
ممی ممی ناشتہ دے دو یونیورسٹی لیٹ ہو رہی ہوں۔۔رانیہ بیگ چیئر پر رکھتی کچن میں کام کرتی ماں کی طرف منہ موڑ کے زور سے بولی۔
ابھی لائ میرا بچہ۔۔۔وہ لاڈ سے کہتی ناشتے کی ٹرے لے کر کچن سے باہر آئیں۔۔۔
جلدی کریں بہت بھوک لگی ہے۔۔۔آلو کا پراٹھا پلیٹ میں رکھتے وہ بےصبری سے بولی۔۔۔
آرام سے بیٹا۔۔
ماما بہت ضروری پریزینٹیشن ہے جلدی پہنچنا ہے۔۔۔جلدی جلدی نوالے لیتی وہ ساتھ ساتھ بتانے لگی۔۔
صیح صیح۔۔وہ مسکراتے ہوۓ اسے دیکھنے ۔۔پنک لانگ شرٹ کے ساتھ وائٹ ٹراؤزر پہنے گلے میں مفر کے سٹائل میں پنک دوپٹہ ڈالے بالوں مانگ نکال کر دونوں اطراف میں پھیلاۓ وہ معصوم پری لگ رہی تھی۔۔۔
ماما ماما وانیہ کو دیکھیں تنگ کر رہی ہے۔۔۔آنیہ بھاگتی ہوئ آکر ماں کے پیچھے چھپ گئ۔۔
مما آج مت بچائیں اسے آج میں اس کو کچا چبا ڈالوں گی۔۔۔وانیہ ماں کے پیچھے چھپی آنیہ کی طرف بڑھی۔۔۔
کیوں لڑ رہی ہیں میری اینگری بڑڈز ۔۔۔ سہیل آفس جانے کے لیئے تیار تھا۔ان دونوں کو لڑتے دیکھ کر مسکرا اٹھا۔۔
بھیا دیکھیں ناں اسے میری پرفیوم توڑ دی جو آپ دبئ سے لاۓ تھے۔۔۔رونی صورت بناتے ہوۓ وہ سہیل کے گلے لگ گئ۔۔۔
کوئ نہیں میں اپنی اینگری برڈذ کے لیئے نیو منگوا دوں گا۔۔سہیل اس کا سر تھپک کر بولا۔۔
بھائ ان دونوں کا چلتا رہے گا میں چلتی ہوں۔۔۔رانیہ مسکراتے ہوۓ اٹھی اور اللّہ خافظ کہتی ہوئ چلی گئ۔۔۔
تو دیکھنا تیرا وہ فراک ماسی فقیراں کو دے دوں گی اپنی بیٹی کی شادی پر پہنیں گی وہ۔۔۔وانیہ زبان چراتے ہوۓ بولی۔۔۔
ہاہاہا کیا مذاق کرتی ہو وانیہ ۔۔۔آنیہ نے قہقہہ لگایا تو سہیل اور ماما بھی مسکرا اٹھیں۔۔۔
ان کی نوک جھوک میں ناشتہ ہوا۔۔وہ دونوں کالج چلی گئیں۔۔سہیل بھائ آفس چلے گۓ۔۔ماما ماسی فقیراں کے ساتھ مل کر گھر کے کام سنبھالنے لگیں۔۔۔
___________________________
صائم بھائ پلیز جانے دیں ۔۔صائم ریان کے پیچھے پیچھے سارے گھر میں گھوم رہا تھا۔اسے دوستوں کے ساتھ مضافاتی علاقہ جات میں جانے کی اجازت چاہیئے تھی۔۔
نو مینس نو بیٹا جانی ۔۔ریان ڈائینگ ٹیبل سے سیب اٹھا کر کھاتا باہر کی طرف بڑھا۔۔
بھائ پلیز ساڑھے پانچ فٹ سے ذیادہ کا ہو گیا ہوں۔اب تو مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔وہ بھاگتا ہوا اس کے پیچھے ہی باہر نکلا۔۔آج صائم کو ہر حال میں اجازت چاہئیے ہی تھی۔
اچھا. . . . . . اچھا کو لمبا کر کے بولتے ریان نے مڑ کر سر سے پیر تک اس کا جائزہ لیا۔۔ہممم واقعی ساڑھے پانچ فٹ سے ذیادہ ہو گۓ ہو۔۔
ہے نا بھائ اب چلا جاؤں۔۔صائم خوشی سے بولا شائد اسے لگا اجازت مل گئ ہے۔۔
جب میری عمر کے ہو گے تب جانا بنا اجازت ابھی نہیں۔۔ریان نے تیز مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہوۓ اسے مزید تپا دیا تھا۔۔
بھائ۔۔صائم نے بچوں کی طرح پاؤں پٹخے تھے۔۔ریان نے اس کی حرکت کو نوٹ کیا اور جاندار قہقہہ لگایا۔۔
بابا سے پوچھ لو۔۔ریان نے اسے کہہ کر ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کا اشارہ کیا۔۔ڈرائیور سر ہلاتا ہوا گاڑی کی طرف بھاگا۔۔
بھائ آپ دونوں باپ بیٹا مجھے اریٹیٹ کرتے ہو۔ایک کہتا ہے اس سے پوچھو،دوسرا کہتا ہے اس سے پوچھو۔بتا دیں میں آپ کا کچھ نہیں لگتا۔۔آخری خربے کے طور پر اس کے پاس ایموشنل بلیک میلنگ تھی۔ریان کے لیئے اس کا یہ پینترا پرانا ہو گیا تھا۔۔مسکراتے ہوۓ وہ گاڑی کی طرف بڑھا جہاں ڈرائیور گاڑی کا دروازہ کھولے کھڑا تھا۔
میں بتا رہا ہوں بھائ مجھے جانے دیں ورنہ۔۔تیز تیز چلتے ریان کے پیچھے چلتا ہوا وہ گاڑی تک پہنچا۔۔
ورنہ ۔۔۔ریان نے چلتے چلتے ایک دم مڑ کر اسے سرد لہجے میں اس سے پوچھا۔۔
ممم میں آپ کا لیپ ٹاپ یہ ڈرائیور انکل کے بیٹے کو دے دوں گا۔۔ریان کے ایک دم مڑنے پر وہ اس سے ٹکراتے ٹکراتے بچا تھا۔اوپر سے ریان کے سرد لہجے نے سارا اعتماد پل میں ہوا کیا تھا۔۔
اوکے۔۔ریان بےپرواہی سے کہتا ہوا گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔ڈرائیور نے دوڑ کر ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور گاڑی سٹارٹ کر کے مین ڈور سے باہر نکالی۔
پیچھے کھڑا صائم بےبسی سے مٹھیاں بھینچتا رہ گیا۔۔اپنی کوئ مرضی نہیں یار یہ کیا بات ہوئ۔منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا ہوا پاکٹ سے موبائیل نکال کر دوستوں کو منع کرتا ہوا وہ اندر کی طرف بڑھ گیا۔
__________________________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...