“السلام عليكم سعد کیسے ہو ؟؟”ارحم نے سعد کو فون لگایا
“وعلیکم السلام ،کیسے ہو ارحم خیر سے کال کی میں اس وقت آفس میں ذرا مصروف ہوں ”
“ہاں یار شام کو تجھے کہیں لے کر جانا ہے اور میں نا ہر گز نہیں سنوں گا “ارحم نے واضح کر دیا
“پر کہاں …………..”
“یار پر ور کو چھوڑ شام کو چھ بجے تیار رہنا ”
“اچھا بھائی ٹھیک ہے تجھ سے کون ہار سکتا ہے “سعد سانس خارج کرتے ہوئے بولا
“چل ok یار میں فون رکھتا ہوں “ارحم بولا
“اوکے خدا حافظ “،سعد نے جواب دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“دیکھو پارو میں آج تو کچھ نہیں کر پاؤں گی آج تو تم کو محفل میں جانا ہی پڑے گا کل میں ضرور کوشش کروں گی تمہیں یہاں سے بھگانے کی ،اچھا پارو یہ حمیرہ کون ہے جس کا ابھی تم نے ذکر کیا تھا ،دیکھو مجھے بتانے سے تم اپنا دل ہلکا کر سکتی ہو اگر نا بھی بتانا چاہو تو تمہاری مرضی میں تم پر کوئی دباؤ نہیں ڈالوں گی “،شمع پری کو پر سکون کرنے کی کوشش کر رہی تھی
“حمیرہ ،حمیرہ باجی بہت ہی نیک عورت تھیں ،پر میں نے ان کے ساتھ بہت برا کیا ،وہ میری آپا کی ہم عمر تھی ،ہمارے محلے میں ہی رہتی تھی ،میری آپا اور حمیرہ باجی ایک ہی اسکول میں پڑھاتی تھیں ،دونوں بہت گہری سہیلیاں تھی ،ایک روز بہت ہی امیر گھرانے سے حمیرہ باجی کا رشتہ آیا ………پری شمع کو حمیرہ کی کہانی بتا ہی رہی تھی کے اتنی دیر میں رنگیلی آگئی
“ارے شمع تو نے ابھی تک پارو کو تیار نہیں کیا باہر کتنے ہی سیٹھ آچکے ہیں ،چل باتیں چھوڑ جلدی تیار کر اس کو “،رنگیلی شمع کو دانٹ کر باہر چلے گئی اور شمع پری کو تیار کرنے کے لئے جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگی ،پری کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے وہ یہ سب نہیں کرنا چاہ رہی تھی پر وہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہو چکی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“یار ارحم یہ کون سی جگہ ہے ؟؟”سعد نے ارحم سے ماتھے پر شکن ڈالتے ہوئے پوچھا
“یار یہ ہے بازار حسن اور وہ سامنے رنگیلی کا کوٹھا ہے ، آج رنگیلی نے ایک بہت بڑی محفل کا انعقاد کیا ہے ،میں نے سوچا تجھے بھی ساتھ لے چلوں “ارحم مسکراتے ہوئے بولا
“یہ کیا بکواس ہے ارحم تو مجھے یہاں لے کر آنا چاہتا تھا ،میں ہر گز اندر نہیں جاؤں گا “،سعد غصّے سے طلملا اٹھا
“چل یار رہنے دے کچھ نہیں ہوتا اگر آج تو میرے ساتھ نا گیا تو میری اور تیری دوستی آج سے ختم “ارح منہ بناتے ہوئے بولا
“اچھا چلتا ہوں یہ جو تیری بلیک میلنگ کی عادت ہے یہ بہت بری ہے “ارحم نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور گاڑی سے اتر گیا
سعد سکندر اور ارحم دونوں رنگیلی کے کوٹھے کی جانب چل دیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اے شمع پارو تیار ہو گئی “رنگیلی چلاتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی
“جی پارو کو میں نے تیار کر دیا ہے “،شمع نے جواب دیا
“یہ منہ پر دوپٹہ کیوں اوڑھا ہوا ہے ؟”،رنگیلی نے پری کے منہ سے دوپٹہ اٹھایا
“ارے واہ بڑی خوبصورت لگ رہی ہے بالکل چاند کا ٹوٹا ،اب اچھا اچھا ناچیو تا کہ زیادہ پیسے ہاتھ آیں “رنگیلی مسکراتے ہوئے بولی
“میں ناچنا نہیں چاہتی خدا کے لئے مجھے میرے گھر بھیج دیں ،اتنے مردوں کے سامنے میں کیسے ناچوں سب میرے لئے نا محرم ہیں “،پری روتے ہوئے بولی
“خبردار جو بکواس کی میرے ساتھ ایک تھپڑ لگاؤں گی منہ پر کے حوش ٹھکانے آجائیں گے “رنگیلی چلا کر بولی
“چل اب یہ رونا دھونا بند کر اور دفعہ ہو باہر اگر اب مجھے سسکیوں کی ذرا بھی آواز آئ تو یہیں زندہ گاڑ دوں گی “رنگیلی نے نہایت بے دردی سے پری کے چہرے سے آنسو صاف کیے اور پری کو کھینچ کر باہر لے گئی
باہر محفل میں جوان سے لے کر بوڑھے عمر کے آدمی بیٹھے تھے جن میں سعد اور ارحم بھی شامل تھے ،سعد کو کوٹھے کا ماحول بہت عجیب سا لگ رہا تھا اس سے پہلے کے پری سعد کی آنکھوں کے سامنے آتی سعد تنگ آکر کوٹھے سے باہر چلا گیا
“چلو بھئی آگئی ہے پارو اب گانا لگاؤ “،رنگیلی نے منہ میں پان دبا لیا اور ایک جانب بیٹھ گئی
گانا چلا دیا گیا اور پری نے ناچنا شروع کر دیا ،پری لال رنگ کے جوڑے میں قیامت خیز لگ رہی تھی اوپر سے وہ بہت اچھا ناچ کے ہر کوئی عش عش کر اٹھا ،پری کے اوپر نوٹوں کی برسات ہونے لگی اور رنگیلی ندیدوں کی طرح پیسے اٹھانے میں مصروف رہی ،پری کی آنکھوں سے اداسی واضح طور پر چھلک رہی تھی ،محفل ختم ہوئی اور پری کمرے میں آگئی،کمرے میں آکر پری نے خوب آنسو بہاۓ ،محفل ختم ہونے کے بعد جب ارحم باہر آیا تو اس نے دیکھا کے گاڑی باہر موجود نہیں تھی ،گاڑی تو شاید سعد لے گیا تھا ،ارحم سعد کو برا بھلا کہتا ہوا رکشے میں سوار ہو کر چلے گیا
ابھی پری اپنے کمرے میں بیٹھی رو ہی رہی تھی کے اس کو کسی کی آہٹ محسوس ہوئی ،پری نے گھبرا کر چہرہ پیچھے کی جانب گھومایا ،اس نے دیکھا کے تقریباً 50 سے زیادہعمر کا آدمی دروازے کے قریب کھڑا مسکرا رہا تھا
“کون ،کون ہو تم چلے جاؤ یہاں سے میرے قریب مت آنا “پری روتے ہوئے بولی
“ارے ہم تو آپ کے مہمان ہیں اور آپ ہماری مہمان نواز پورے ستر ہزار دیے ہیں رنگیلی کو آپ کے لئے ”
رنگیلی نے باہر سے دروازے کو تالا لگا دیا
“یہ دروازہ اب صبح ہی کھلے گا “رنگیلی نے شمع کو تالے کی چابی پکڑاتے ہوئے ہدایت کی
پری کانپتے ہوئے پیچھے کی جانب جا رہی تھی ایک دم سے اس بوڑھے نے پری کی جانب چھلانگ لگائی اور چیل کی طرح اس کو دبوچ لیا ،پری کی چیخوں کی آوازیں شمع کی سماعت سے ٹکرا رہی تھیں پر وہ رونے کی بجاۓ کچھ نا کر سکی
اگلے روز رات کے وقت تقریباً ایک بجے شمع رنگیلی کے کمرے میں داخل ہوئی اور اس کے دراز سے نہایت احتیاط سے چابی نکال لائی
“چل پارو میرے ساتھ آج تو آزاد ہو جاۓ گی “،شمع آہستگی سے پری کے کان میں بولی جو سو رہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کہاں جاؤں گی میں شمع بائی ،اپنے گھر کس منہ کے ساتھ ،کیا کہوں گی کے میری عزت ایک بار نہیں دو بار لٹ چکی ہے ،کون قبول کرے گا مجھے ،کون کرے گا مجھ سے شادی “پری کی لہجہ نہایت غمگین تھا ،اس کی حالات ایسی تھی کے کوئی بھی اسے دیکھتا رو پڑتا
“نہیں پارو تم اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ مجھے یقین ہے کے کوئی اور نا صحیح وہ تو تمہیں ضرور قبول کریں گے ،اگر تم زندہ لاش بن کر یہاں رہنا چاہتی ہو تو تمہاری مرضی “شمع کی آنکھیں پری کے دل سوز جملے سن کر بھیگ گئیں
“لیکن رنگیلی نے تو کہا تھا کے اگر میں یہاں سے بھاگنے کی کوشش کروں گی تو وہ میرے گھر والوں کو نقصان پہنچاۓ گی “پری ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے بولی
“تم اس بات کی فکر مت کرو میں نے رنگیلی نے سے باتوں باتوں میں تمہارے گھر والوں کا پوچھا تھا، وہ تو ان کو جانتی بھی نہیں،بس تجھے ڈرا رہی تھی ،اچھا اب باتوں کو چھوڑو جلدی کرو کہیں رنگیلی اٹھ نا جاۓ ”
“پر باہر تو چوکیدار بیٹھا ہے اس کا کیا کریں گے “پری ابرو اچکاتے ہوئے بولی
“اوہ ہو اس کے بارے میں تو میں بھول ہی گئی “شمع سر پہ ہاتھ مارتے ہوئے بولی
“شمع بائی اب کیا کریں گے”
“چوکیدار فجر کے فورا بعد چلے جاتا ہے ،بھاگنے کے لئے وہ موقع صحیح رہے گا “شمع سوچتے ہوئے بولی
“ٹھیک ہے پر شمع مجھے اگر برقع مل جاۓ تو بڑی مہربانی ہو گی “،پری گزارش کرتے ہوئے بولی
“ہاں میرے پاس ایک برقع پڑا ہے جاتے وقت تم لے لینا ”
“شکریہ شمع “پری نے شمع کو گلے لگا لیا
رات کے ایک بجے گاڑی کا ہارن بجا
“ارشد میاں رات کے اس پہر کون آگیا “سعد آنکھیں مسلتا ہوا باہر آیا
“تمہاری ماں “سعد کو پیچھے سے آواز آئ ،سعد جیسے ہی پیچھے مڑا تو اپنی امی کو دیکھ کر حیران رہ گیا
“Mom what a pleasent surprise ”
” ،آپ مجھے بتا دیتی میں آپ کو ایئر پورٹ لینے آجاتا “سعد اپنی ماں کو گلے لگاتے ہوئے بولا
“کچھ نہیں ہوتا بیٹے مجھے آپ کو سرپرائز دینا تھا ویسے میں یہاں اپنے بیٹے کی شادی کرنے آئ ہوں ”
“جی امی کل میں پری کے گھر جاؤں گا کے دیکھ لوں کیا واقعی پری وہاں رہتی بھی ہے کے نہیں ،پھر میں پرسوں کو آپ کو پری سے ملوانے لے جاؤں گا انشا اللّه “سعد لڑکیوں کی طرح شرما رہا تھا
“ٹھیک ہے بیٹے جیسے آپ کہو”امی مسکراتے ہوئے بولی
چلو پارو چوکیدار چلے گیا ہے “شمع برقع زیب تن کیے ہوئے پری کو بولی
“جی اچھا “پری نے جواب دیا
شمع نے دروازے کو چابی لگائی ،دروازہ کھول کر گلی کے دونوں اطراف میں دیکھا
“بھاگ جاؤ پارو راستہ صاف ہے “شمع نے پری کو گلے لگایا اور پری بھاگ نکلی
“اللّه کے امان میں پارو “شمع آنسو پونچھتے ہوئے بولی اور دروازہ بند کر دیا
پری مسلسل بھاگتی رہی جب وہ بھاگی تھی تب وقت تقریباً چھے بجے کے قریب ہوگا اور اب شاید آٹھ بج رہے تھے ،پری چاہتی تو رکشہ یا ٹیکسی پکڑ لیتی پر اس کے پاس تو پیسے تھے ہی نہیں ،دو گھنٹے کی مسافت کے بعد پری اپنے جانے پہچانے محلے میں پہنچ گئی ،اس کی آنکھیں اشک بار تھیں
“آپا میں پری ہوں دروازہ کھولو “پری دروازہ بجاتے ہوئے بولی
علیزہ پری کی آواز سن کر خوشی خوشی دروازے کی جانب بھاگی
“رک جا علیزہ بھول گئی تو یہ وہی پری ہے جس کی وجہ سے تجھے طلاق ہوگئی ،یہ وہی پری ہے جو ہمارے منہ پر قالک مل کر گئی تھی “پری کی ماں روتے ہوئے بولی
“پر امی ”
“علیزہ میں نے کہہ دیا نا چپ کر کے یہاں بیٹھ جاؤ ”
“میری پیاری آپا دروازہ کھول دو نا آپا میں بہت تکلیف میں ہوں “پری مسلسل رو رہی تھی
ادھر علیزہ کو ایک پل چین نا تھا وہ پری کے گلے لگ کر رونا چاہ رہی تھی
اچانک پری کو محسوس ہوا کے کسی نے زور سے اس کی گردن پر پتھر مارا ہو ،پری نے جب چہرہ پیچھے گھمایا تو دیکھا کے محلے کی کئی عورتیں ہاتھوں میں پتھر ،انڈے اور ڈنڈے پکڑے ہوئے تھے اور ان سب میں عائشہ سر فہرست تھی
“کیا کرنے آئ ہے اب تو یہاں بری عورت “عائشہ چلائی ،اس سے پہلے پری کچھ کہتی عائشہ نے پری کے سر پے انڈا دے مارا پھر کیا تھا سب عورتوں نے پری پر کو پتھر مارے ،اس پر انڈے برساۓ ،اس کو ڈنڈے مار مار کر چھلنی کر دیا
“میں کسی کے ساتھ نہیں بھاگی تھی ،میری بات سنیں “پری چلاتی رہی مگر ان عورتوں نے پری بیچاری کی ایک نا سنی اس کو نا کردہ گناہوں کئی سزا دیتی رہیں
شور سن کر علیزہ نے جلدی جلدی دروازہ کھولا
اس سے پہلے کے پری کو مزید پیٹا جاتا افضل آگیا اور اس نے پری کو ہجوم سے باہر نکالا
پری نے علیزہ کو دیکھ لیا تھا پری علیزہ کی جانب روتے ہوئے بھاگی لیکن علیزہ نے دروازہ بند کر لیا
افضل پری کو اپنے ساتھ سامنے والے پارک لے گیا ،عائشہ پری کو جاتا دیکھ مسکرانے لگی ،پری نے افضل کو اپنی پوری آپ بیتی سنائی
“پری میں تم کو تحفظ دوں گا میں تم سے نکاح کروں گا “افضل نہایت پر عزم دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔