ہمیں کیا پتہ کیا کیا گل کھلاتی پھر رہی ہے اگر کچھ کہوں گی تو بری بنوں گی آخر سوتیلی جو ٹھہری” مزنہ جب یونیورسٹی سے گھرآئی تو ماں کی بات سن کر وہیں رک گئی انہیے اب کیا ہوا ہے وہ حیران ہوتی ڈرائنگ روم کی طرف آئی مگر سامنے دو عورتوں کو دیکھ کر دروازے میں ہی جم گئی وہ دونوں بھی اسے دیکھ چکی تھیں “لو آگئی ھے خود ہی پوچھ لو ”
کیا پوچھنا ہے وہ سواللیہ نظروں سے انہیں دیکھنے لگی “یہ کہہ رہی ہیں کہ تم کسی امیر زادے سے چکر چلا رہی ہو جو شادی شدہ بھی ہے” انکے جواب دینے سے پہلے اسکی ماں بول پڑی” میں…. کس سے ” اسے کچھ سمجھ نہ آیا “ارے واہ کتنی بھولی ہو تم میرے شوہر کو تو تم نے اپنی ان اداوں سے قابو کر لیا ہے میں تمہاری باتوں میں نہیں آوں گی “ثمانہ بیگم نفرت سے پھنکاریں” معلوم ہے مجھے تم جیسی لڑکیوں کی اوقات ٹکے ٹکے کے لیے بک جانے والی… “انففف خاموش ہوجائیں ” مزنہ اپنی اس قدر تزلیل پر پھٹ ہی پڑی ” میں نہیں جانتی آپ کون ہیں اور کیوں ایسے کہہ رہی ہیں مگر میں مزید برداشت نہیں کر سکتی” ہمیں بھی کوئی شوق نہیں تمہارے منہ لگنے کا بس ایک بات جان لو تم کسی بھول میں مت رہنا کہ تم سلطان خاندان کی بہو بن جاو گی ” سلطان کے نام پر وہ چونکی” سل ..طان …تو آپ عباد کی والدہ ہیں ” اسنے سلطانہ بیگم کو دیکھ کر سوال کیا مگر جواب ثمانہ نے دیا ” اوہ تو تم عباد کو بھی جانتی ہو واہ کس قدر چالاک ہو کس کس کو اپنے جال میں پھنسا رکھا ہے ” وہ چکرا کررہ گئی” مطلب کیا ہے آپکا مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا عباد نے بھیجا ہے کیا آپ لوگوں کو ”
” نہیں سلطان فرجاد نے ” وہ بری طرح چونکی” واٹ” “ہونہہ میرے مقابلے پر آنے کی کوشش مت کرنا ورنہ وہ حشر کروں گی کہ یاد کرو گی چلیں پھوپھی جان ” ان دونوں کے جانے کے بعد وہ تیزی سے کمرے میں چلی گئی دواری طرف ثمانہ بیگم نےجب بہت چالاکی سے اسکی لاعلمی کو انکار بنا کر اسکی عباد کے ساتھ عشق ومعشوقی کا قصہ سلطان فرجاد کو بتایا تو وہ غصے سے بھڑک اُ ٹھا “ایسا کیسے ہو سکتا ہے ”
ہم نے تو بہت کوشش کی اسے منانے کی مگر وہ تو صرف عباد ….. ثمانہ بیگم نے اسے مزید سلگایا “ہم خود بات کریں گے اس سے ” اور اگلے ہی دن وہ اسکے سامنے تھا
“کیوں انکار کیا ہے تم نے ” وہ اسے گھسیٹتا ہوا گاڑی تک لایا اور غصے سے اسے دیکھتے ہو ے پوچھنے لگا “میری مرضی ” اسنے لاپرواہی سے کندھے اچکاے “کیا کمی ہے مجھ میں ہوں بولو “اسنے اسکا بازو دبوچا ” یہی کمی ہے تم میں” اسنے اپنے بازو کی طرف اشارہ کیا ” سڑک کنارے روک کر دوسروں کا تماشا بنانے والے مرد زہر لگتے ہیں مجھے سنا تم نے ” وہ پھنکاری’ تم جانتی نہیں ہو مجھے میں چاہوں تو ابھی اٹھا کر لے جاسکتا ہوں تمہیں کیا کر لو گی تم … ہوں” وہ اسکا بازو جھٹک کر بولا ” مگر ایسا کروں گا نہیں عزت سے لے جانا چاہتا ہوں بہتر ہے آرام سے مان جاو ورنہ … ” اسکی دھمکی پر وہ کھول کر رہ گئی” ہونہہ دیکھتی ہوں کیا کرلے گا ” اس دن کے بعد مزنہ نے یونیورسٹی جانا بند کر دیا وہ دل ہی دل میں اسکی دھمکی سے ڈرگئی تھی دوسری طرف سلطان فرجاد کو اسکا بار بار کا انکار آگ لگا گیا تھا
*******
کبھی سجدے کبھی آنسو ہزاروں کوششیں لیکن
جو قسمت میں نہیں لکھا وہ رونے سے نہیں ملتا
وہ رو رو کر تھک چکی تھی مگر آنسو تھے کہ رُکنے کا نام نہیں لے رہے تھے یہ تھی اس کی محبت کی قدر وہ محبت جس کی خاطر اس نے اپنی پیاری دوست کا دل دکھایا اس پر جھوٹا الزام لگایا اسے رہ رہ کر وہ دن یاد آرہا تھا جب شیزہ کے ساتھ مل کر اسنے گھٹیا پلان بنایا تھا ـ اس دن وہ شیزہ کے ساتھ شاپنگ پر آئی تھی جب وہ اسے ریسٹورنٹ لے آئی
” مجھے لگتا ہے کہ تم اس شادی سے خوش نہیں ہو ” شیزہ نےاسے گہری نظروں سے دیکھتےہوئے کہا
” نہ نہیں ایسا تو کچھ نہیں ہے ” اسکی زبان لڑکھڑائی
” مجھے پتا ہے اور میں نہیں چاہتی کہ تم ایک ان چاہے بندھن میں بندھ کر ساری عمر گزارو اس لیے تم ابھی سے کوئی اسٹینڈ لے لو ویسے بھی اسد تم میں نہیں غانیہ میں انٹرسٹڈ ہے ” شیزہ نے بم پھوڑا انعم بے یقین نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی
” اگر میری بات مان لو تو میں تمھاری مدد کر سکتی ہوں ”
” کون سی بات ؟؟؟” انعم نے حیرانی سے پوچھا
” ممانی جان کہہ رہی تھیں کہ وہ غانیہ کو اپنی بہو بنانا چاہتی ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ ایسا نہ ہو ”
” لیکن اگر مما ایسا چاہتیں ہیں تو تمھیں کیا اعتراض ہے ”
“کیونکہ غانیہ مؤ حد جیسے ڈیشنگ بندے کے لائق نہیں ” شیزہ کے لہجہ میں حقارت ہی حقارت تھی ” خیر تم پلان سنو اور بعد میں بتانا کہ تم میرا ساتھ دے سکتی ہو کہ نہیں ” اورپھر وہ اپنی اپنی محبت کی خاطر خود غرض بن گئی اور ہر طرح کا الزام غانیہ پر لگا وہ تقریباً اپنے مقصد میں کامیاب ہو ہی گئی تھی مگر آج ـ ـ ـ ـ ـ آج اسی محبت نے اسے مات دے دی تھی وہ جتنا پچھتاتی کم تھا
* * * * * *
” ہیلو ایم ولید بخاری ” ولید بخاری نے اپنا ہاتھ مصافحے کے لیے آگے بڑھایا جسے سلطان فرجاد نے تھام لیا “مجھے کہا گیا تھا کہ آپ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں ”
” ہاں ـ ـ ـ آؤ بیٹھو ” فرجاد نے اسے بیٹھنے کااشارہ کیا ” شکریہ ”
” مزنہ تمھاری بہن ہے نا” فرجاد سیدھا اصل بات پر آیا
” ہا ہا ہا ہاں جی ہم ہی وہ خوش قسمت ہیں ” ولید نے چاۓ کا کپ تھامتے ہوئے کہا
” قیمت بتاؤ اسے ہماری عزت بنانے کی ”
” کیا ” ولید تو حیرت کے مارے اچھل ہی پڑا ” میرا مطلب ہے ”
” مطلب وطلب کو چھوڑو جو کہا ہے وہ کرو ”
” آر یو سیریس ” ولید اب بھی بے یقین تھا مگر اس کے کڑے تیور دیکھ کر سیدھا ہو بیٹھا ” وہ بہن ہے میری اور میں اس کا سودا کر دوں امپاسبل”وہ شریف بنا
” ہونہہ پتا ہے مجھے جتنا تمھیں اپنی بہن سے پیار ہے سیدھی طرح اپنی اصلیت پر آؤ ورنہ مجھے سیدھا کرنا آتا ہے ہم چاہیں تو یہ کام کوئی بھی کر سکتا ہے ہماری ایک کال پر وہ یہاں ہو گی مگر ہم اسے اس کے گھر والوں کی مرضی سے حاصل کرنا چاہتے ہیں اور آپ کی مرضی تو ہم جانتے ہیں ” وہ طنزیہ مسکرایا
” ہا ہا ہابہت خوب داد دینی پڑے گی آپ کی ذہانت کی ” پھر کچھ سوچتے ہوئے بولا ” دو کروڑ “فرجاد نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا ” ٹھیک ہے جب تم اسے ہمارے حوالے کرو گے ہم تمھیں باقی کی ادائیگی کر دیں گے یہ ایڈوانس رکھو اور اب تم جا سکتے ہو ” اسنے چیک کاٹ کر اسے دیتے ہوئے کہا وہ خوشی سے چیک چومتا ہوا وہاں سے نکل گیا
* * * * * * *
” آپ ـ ـ آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ” مزنہ نے ولید کو دھکا دیتے ہوئے کہا
” ہا ہا ہا پاگل تمھاری بھلائی کے لیے ہی تو کیا ہے ” وہ اُسے دھوکے سے یہاں لایا تھا اور یہاں آکر جب اسے حقیقت پتا چلی تو وہ تڑپ اُٹھی اس بات نے اس کے دماغ میں شرارے بھر دئے کہ وہ بیچ دی گئی ہے اس کی قیمت لگ گئی ہے
” میں نہیں رہوں گی یہاں ” وہ تیزی سے باہر کی طرف لپکی ولید نے اسے بازو سے پکڑ کر روکا ” نہیں میری پیاری بہنا اب تم ہمیشہ یہہں رہو گی ” اور دھکا دے کر سلطان فرجاد کے قدموں میں گرا دیا ـ فرجاد جو کب سے اُسے واویلا کرتے دیکھ رہا تھا سیدھا ہوا اور گارڈ کو اشارہ کیا وہ تیزی سے باہر چلا گیا اس نے روتی ہوئی مزنہ کو بازو سے پکڑ کر اٹھایا اورصوفے پر بٹھا دیا ” میں تم سے نکاح کروں گا عزت بناؤ ں گا اپنی اس لیے فضول میں رونا بند کرو کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ تمھارا نقصان ہی ہے شاباش چپ کرو ” وہ اسکے آنسو صاف کرنے لگا تو مزنہ نے اس کے ہاتھ جھٹک دیئے
” خبردار مجھے ہاتھ مت لگاؤ ” وہ لب بھینچ کر بیٹھ گیا ـ وہ جان گئی تھی کہ اب احتجاج فضول ہے اسکے سگے اسے جس دلدل میں دھکیل گۓ تھے اب وہ چاہ کر بھی اس دلدل سے نہیں نکل سکتی تھی اس نے چپ چاپ نکاح نامے پر سائن کر دئیے وہ فرجاد کے ساتھ دلہن بنی جب حویلی آئی تو شام ڈھل چکی تھی سب سے پہلا ان کا سامنا عباد سے ہوا وہ ایک نظر اسےدیکھ کر رخ پھیر گیا وہ حیران رہ گئی تو کیا وہ پہلے سے جانتا تھا ـ ثمانہ بیگم نے کوئی احتجاج نہیں کیا جبکہ اس کے چہیتے ایاد نے اپنے مخصوص انداز میں اسے گلے لگا کر مبارک باد دی ـ
* * * * * * * *
” انعم انعم بیٹا دروازہ کھولو ” صوفیہ بیگم انعم کے کمرے کا دروازہ بجا رہی تھیں مگر کوئی جواب نہیں آیا وہ تیزی سے مؤ حد کے کمرے میں گئیں ” مؤ حد بیٹا انعم دروازہ نہیں کھول رہی صبح سے کمرے میں بند ہے اسے دیکھو بیٹا میرا دل بیٹھا جا رہا ہے ” ” آپ پریشان نا ہوں میں دیکھتا ہوں ” وہ تیزی سے کمرے سے نکلا
* * * * * * *
“بھیا سارا پینا پڑے گا آپ کو کیا آپ بچوں کی طرح ضد کرتے ہیں چلیں شاباش منہ کھولیں نا ” ایاد فرجاد کو سوپ پلا رہا تھا وہ ایسا ہی تھا فرجاد کے لیے ـ فرجاد منہ بنا بنا کر سوپ پی رپا تھا ” زرا بھی مزے کا نہیں ہے پتا نہیں کوک کو کب اچھا کھانا بنانا آۓ گا ” سلطان فرجاد نے پیالا اسکے ہاتھ سے لے کر رکھ دیا اشارہ تھاکہ اب وہ اور نہیں پی سکتا ـ ایاد گہری سانس بھر کے اسکی گود میں سر رکھ کر لیٹ گہا وہ اسکے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا
” اب مزنہ بھابھی جیسا کھانا تو نہیں بنا سکتا نا کوئی ” ایاد کے دکھ بھرے انداز میں کہنے پر اس کے ہاتھ یکلخت رک گے اُسے یاد آیا کہ وہ اس کا کتنا خیال رکھتی تھی اور وہ اسے بری طرح جھڑک دیتا ” کوٹھا” اسے پتا ہی نہ چلا کب اس کی آنکھوں سے آنسو نکل کر ایاد کے ماتھے پر گرے وہ اٹھ بیٹھا ” بھیا آپ رو رہے ہیں کیا ہوا بھیا مجھے بتائیں ” ایاد نے اسکا چہرہ اپنی طرف موڑا
” مزنہ ـ ـ ـ مزنہ چاہئے مجھے ” وہ اونچا لمبا مرد ہچکیوں سے رو رہا تھا ایاد نے اسے گلے لگا لیا ” بھیا ہم ڈھونڈ رہے ہیں انہیں عباد بھائی کوشش کر رہے ہیں آپ جلدی سے ٹھیک ہو جائیں ہم مل کر ڈھونڈیں گے آپ حوصلہ رکھیں ” ایاد اسے تسلیاں دینے لگا
* * * * * * * *
مزنہ کو اس گھر میں آۓ دوسرا دن تھا جب سارے گھر کے کاموں کی ذمہ داری اُس پر آگئی شروع شروع میں تو اس نے خوب احتجاج کیا مگر پھر خاموش ہو گئی کہتی بھی تو کس سے ـ وہ جوکبھی اُس سے محبت کا دعویٰ کرتاتھا اب اسے جوتے کی نوک پر رکھتا تھا ـ ثمانہ بیگم نے آہستہ آہستہ سلطان فرجاد کے دل میں یہ خیال ڈال دیا تھا کہ مزنہ اور عباد چھپ چھپ کر ملتے ہیں جسے سن کر فرجاد کو آگ ہی لگ جاتی اور پھر اس آگ میں مزنہ کو ہی جلنا پڑتا ـ اس کی چیخ و پکار سے حویلی کے درودیوار لرز اٹھتے ملازم بھی پناہ مانگتے تھے مگر اس پتھر دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا ـ لیکن یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ بعد میں کتنا پچھتاتا تھا خود کو کوستا تھا اور آج جب وہ چلی گئی تھی تو اسے ہر گزری بات یاد آرہی تھی وہ پوری پوری رات رو رو کر گزارتا مگر اسے چین کہاں ملتا چین و سکون تو وہ اپنے ساتھ لے گئی تھی
* * * * * * *