(Last Updated On: )
احمد صغیر صدیقی
ہم پر جو کشادہ تھا
بے سود افادہ تھا
اتنا ہی تھا وہ رنگیں
جتنا کہ میں سادہ تھا
کرنا ہی نہیں تھا کچھ
کیا خواب ارادہ تھا
جی بھر کے ہنسے ہم بھی
کچھ درد زیادہ تھا
سمجھے تھے سفر میں ہیں
منزل تھی نہ جادہ تھا
جاں عرش نشینی تھی
دل خاک نہادہ تھا
جو ہم نے نبھایا تھا
پیماں تھا، نہ وعدہ تھا