(Last Updated On: )
نصرت ظہیر(دہلی)
ہم پر بھی کوئی پینے کا الزام تو آئے
وہ ہونٹ وہ آنکھیں نہ سہی جام تو آئے
دل ایک تبسم کو لئے بیٹھا ہے کب سے
آنکھوں سے بھی اس کا کوئی پیغام تو آئے
جاں نذر کریں گے ترے ناموس کی خاطر
لیکن کبھی ہم پر کوئی الزام تو آئے
جو کچھ تھا وہ سب چھین چکے ہم سے شب و روز
اب صبح مقدر میں نہیں شام تو آئے
سرخی ہی کسی کے لب و عارض کی بڑھادے
آخر دلِ ناکام کسی کام تو آئے
دوہرانے کو بیتاب ہے دنیا مراقصہ
لیکن ابھی اس کاکوئی انجام تو آئے
اک چاند نکلتا ہے دریچے سے سرِ شام
کچھ حوصلہ اپنا بھی لبِ بام تو آئے