ڈاکٹر جاوید احمد کامٹوی
ڈاکٹر جاوید احمد کامٹی میں پیدا ہوئے۔ منگرول پیر ضلع واشم میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد چندر پور کے اردو اسکول و جونیر کالج میں پرنسپل مقرر ہوئے تھے۔ سائنس ٹیچر ہونے کے باوجود ان کی ادبی دلچسپی نے انھیں صالحہ عابد حسین کے فکر و فن پر تحقیق کی ترغیب دی۔
ڈاکٹر جاوید احمد نے سائنسی مضامین بھی لکھے جو ان کی کتاب ’’ماحولیات اور انسان‘‘ میں شامل ہیں۔ ان کی دوسری کتاب ’’ادبی شذرات‘‘ (۲۰۱۲)میں دیگر تحریروں کے علاوہ پانچ مزاحیہ بھی ہیں۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی دلچسپ کہانیاں تحریر کی ہیں ان کہانیوں کا مجموعہ ’’اصلی پونجی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اپریل ۲۰۲۰ میں ان کا انتقال ہو گیا۔
ہم نے بھی کتّا پالا
ڈاکٹر جاوید احمد
زندگی امن و سکون کے گہوارے میں گزر رہی تھی۔ ریٹائرمنٹ زندگی کی دلچسپیاں جاری تھیں۔ ایک مدرس ہونے کے ناطے سابقہ دن رات بچوں، ان کے پرچوں اور ان کے شور سے پڑا تھا لہٰذا پہلی پسند ایک امن و چین والی زندگی کی تلاش تھی نیز ملازمت کے زمانے میں جو حسرتیں پوری نہیں ہوئی تھیں انھیں تکمیل تک پہچانے کا ولولہ تھا۔ شب و روز اطمینان سے ایک فارم ہاؤس میں گزر رہے تھے جو حال ہی میں ہم نے قدرے مہنگی زمین لے کر تعمیر کروایا تھا کیونکہ بقول دلال آج کل اسی کا کریز ہے۔
ہمارا یہ غریب خانہ ’’گلفشاں‘‘ آبادی سے تقریباً ۱۲ کلومیٹر فاصلے پر واقع تھا تو صاحبو! راوی قسمت میں چین ہی چین لکھتا تھا۔ ادھر شناسا اور ملاقاتی بہت ہی کم آتے۔ لہٰذا جو قسمت کا مارا آ نکلتا اس کی رہائی دو تین گھنٹوں بعد ضرور ہوا کرتی۔ امن و شانتی کے سمندر میں اس وقت ہلچل سی مچ گئی جب اس دور افتادہ مقام کو ہمارے پرانے دوست کی آمد کے پتھر نے ڈسٹرب کر دیا۔ انھوں نے مکان کی معقول حفاظت اور سیفٹی کے بارے میں تشویش کا پتھر پھینک کر اتھل پتھل سی مچا دی۔ بقول ان کے ان کی ’’ناقص رائے‘‘ میں مکان تو خوب عمدہ تعمیر ہوا تھا اور بڑا کشادہ اور دیدہ زیب بھی تھا۔ اس میں لوازمات کا بھی دھیان رکھا گیا ہے مگر اس کی حفاظت کی طرف دھیان نہیں دیا گیا ہے۔
انھوں نے اپنے سابقہ تجربات بیان کیے۔ پولس ڈائری کے اوراق سے کچھ نمو نے ڈکیتی، چوری وغیرہ کے ایسے سنائے کہ چوروں اور نقب زنوں نے لوٹ مار کے بعد گھر کے مکینوں کو اس حالت میں چھوڑا کہ وہ اپنی بپتا سے ہمسایوں کو بھی مطلع کرنے کے قابل نہ رہے۔ یہاں تو قریبی ہمسایہ ۲ کلو میٹر دور تھا۔ ہماری طبیعت لرز گئی۔ تجویز معقول تھی۔ ہم نے تو اس پہلو کی طرف دھیان ہی نہیں دیا تھا۔ موصوف نے اپنی ’’قیمتی رائے‘‘ کے عوض میں بطور فیس ایک تگڑا ناشتہ قبول کیا اور رخصت ہو گئے۔
دسترخوان پر جب گھر کے سبھی افراد اکٹھا ہوتے ہیں یہ موضوع چھیڑ دیا گیا۔ مختلف تجاویز پیش کی گئیں۔ کسی نے ماڈرن الکٹرانک حفاظتی آلات کا ذکر کیا، کسی نے اچھی سی سیکورٹی ایجنسی کی خدمات حاصل کرنے کا مشورہ دیا تاکہ دو با وردی گارڈ باری باری سے دن رات تعینات کر دیے جائیں۔ چونکہ انسان لائق اعتبار نہیں وہ ذرا سی لالچ سے پھسل کر خود ہی گھر کو لوٹنے کی سازش میں شریک ہو سکتا ہے اس لیے سیکورٹی گارڈ کی تجویز رد کر دی گئی۔ الکٹرانک سامان کی کوئی گارنٹی نہیں اور ہم بھی اس کی موافقت میں نہیں تھے کیونکہ ہمیں بھی ان مشینوں پر نہ جانے کیوں اعتماد نہیں تھا۔ امتحان کے زمانے میں لمبے لمبے حساب کیلکولیٹر سے کرنے کے بعد جب تک ہم اپنے طور پر روایتی طریقے سے چیک نہیں کر لیتے ہمیں اطمینان نہیں ہوتا لہٰذا ماڈرن الکٹرانک آلات کی تجویز بھی نامنظور کر دی گئی۔ اچانک ہمارے منھ سے نکل پڑا کیوں نہ ایک کتّا پال لیا جائے!! کتے کی وفاداری تو ضرب المثل ہے مگر والدہ کی خشمگیں نگاہوں سے اندازہ ہو گیا کہ یہ ناؤ بھی پار لگنے والی نہیں۔ ان کا یہ استدلال بڑا مضبوط تھا کے کتا نجِس جانور ہے۔ اس کی رال سے بھی بچنا چاہیے۔ لے دے کے معاملہ وہیں آ گیا۔ ہم نے اور بچوں نے کتے کے حق میں دلائل دیئے کہ اگر ایسا موقعہ آ جائے تو بصورت مجبوری کتے کو رکھوالی کے لیے پالا جا سکتا ہے۔ اس شرط کے ساتھ کہ یہ کبھی گھر کی دہلیز پار کر کے گھر میں داخل نہیں ہو گا۔ بڑے ردّ و قدح کے بعد والدہ راضی ہوئیں مگر اہلیہ کی اپنی رائے بھی کم وزنی نہیں تھی۔ پہلے ہی گھر کے افراد کی خدمت کرتے کرتے تھک چکی تھیں۔ کسی سے کوئی مدد کی امید نہیں تھی۔ بچیوں کا سارا وقت اسکول/ کالج کے آنے جانے اور اپنی پڑھائی کرنے میں صرف ہو جاتا تھا اب ایک اور کتے کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے وہ تیار نہیں تھیں۔ بہرحال انھیں بڑے دلائل دے کر منانا پڑا۔ اب ایک اچھے سے کتے کی تلاش کا سلسلہ شروع ہوا۔
کتے کے طفیل ان دوستوں سے تجدید ملاقات کی نوبت آئی جو پہلے سے مالکانِ سگ تھے اور کتے پالنے کا اچھا خاصا تجربہ رکھتے تھے۔ کتابوں اور انٹرنیٹ کو چھانا گیا۔ اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہارات کا سہارا لیا گیا۔ اپنے رشتے داروں اور دور کے پڑوسیوں سے مشورے کیے گئے۔ انھیں بھی کتا تلاش مہم میں لگا دیا گیا۔ شاید کسی لڑکی والے کو اچھے بر کی تلاش میں اتنا سرگرداں نہیں ہونا پڑا ہو گا جتنی تگ و دو ہمیں کرنی پڑی۔ بلی کو خواب میں چھیچھڑے نظر آتے ہیں ہمیں خواب میں کتے ہی کتے نظر آنے لگے۔ بلکہ بعض اوقات تو پطرس بخاری کی طرح بکری کے ہیولے پر کتے کا گمان ہونے لگتا۔ آخر سلسلہ ایک جرمن شیفرڈ پر جا کر ختم ہوا کہ اس سے بہتر نسل چوکیداری کے لیے نہیں۔ کچھ دوستوں کی رائے تھی کہ اسی نسل کی ایک کتیا خرید لی جائے، ’’آم کے آم گٹھلیوں کے دام‘‘ کے مصداق اس سے حاصل ہونے والے پلّوں کی فروخت سے کچھ منافع بھی حاصل کیا جا سکتا ہے مگر اس رائے کو اہلیہ نے یکسر ویٹو کر دیا۔ گھر میں تین تین لڑکیوں کی نگہداشت اور نگرانی سے پہلے ہی زیر بار ہونے کے باعث وہ مزید ایک ’’مادہ‘‘ کو گھر میں رکھنے کے حق میں نہیں تھیں۔ باہر کے آوارہ کتوں کی سردردی کون مول لے گا اس لیے کتیا کے بدلے کتا ہی بہتر ہے بہر خیر یہ تجویز منظور کر لی گئی۔
جو کتّا ہماری قسمت میں آیا وہ تین آقاؤں کی صحبت میں رہ چکا تھا۔ موجودہ مالک کا آسام کے دورافتادہ مقام پر ٹرانسفر ہو گیا تھا اس لیے انھیں اس سے جدائی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ ایک فوجی کا کتا ہونے سے ہمیں اس سے ڈسپلین کی پوری توقع تھی مگر بعد میں پتہ چلا کہ اسے نئے ماحول اور ضرورت کے اعتبار سے ٹرینڈ کرنا پڑے گا۔ گھر میں کتے کی آمد بڑے کرّ و فر کے ساتھ ہوئی۔ اس کے پرائس ٹیگ(قیمت کی پرچی) کے حساب سے اس کا استقبال کیا گیا۔ گھر میں جشن کا سا سماں تھا۔ ہر کوئی نازاں و فرحاں تھا کہ ایسے نایاب نسل کا کتا ہمارے گھر کا حصہ بننے جا رہا ہے اس کے دیدار شریف کے لیے پڑوس کے لوگ اور بچوں کے دوست آنے لگے۔ ان کے لیے ہلکے پھلکے ناشتے کا انتظام بھی کرنا پڑا۔ اسی روز کتے کی نام رکھائی کی رسم بھی ادا کی گئی اور سب نے ’’شیرو‘‘ نام پر آمنا و صدقنا کہا۔ وہ دن تو بخیر و عافیت گزر گیا مگر اگلے ایام بڑے سخت تھے۔
دوسری صبح بڑی الجھن، فکر اور پریشانیاں لے کر نمودار ہوئی۔ ایک تو گھر میں کتے کے داخلے سے والدہ ناراض ہوئیں دوسرے کتے نے رات بھر میں صوفے اور فرش کو گندگی سے ستیاناس کر دیا۔ اہلیہ کی ناراضگی کو ٹالنے کے لیے ہمیں ہی صفائی پر جٹ جانا پڑا کیونکہ یہ الٹی میٹم مل چکا تھا کہ اگر کتے کی گندگی کے صفائی کے بعد وقت ملا تو گھر میں ناشتہ تیار ہو گا۔ کتوں کے بارے میں مزید معلومات کے لیے ہمیں سگ برادر دوستوں کی طرف رجوع ہونا پڑا۔ اس کے رکھ رکھاؤ، صاف صفائی، غذا اور رہائش سے متعلق معلومات مطلوب تھیں۔ ان کے تجربات کی روشنی میں ہم نے ایک ویٹا سٹور کا رخ کیا جہاں کتے کے لوازمات جیسے خوبصورت بیلٹ، ناخن کاٹنے کا آلہ، برش، صابن، بسکٹ، سیل بند غذا اور ہڈیوں کے پیکٹ سبھی دستیاب تھے۔ ان کی قیمتیں دیکھ کر آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔
جب میزان کیا گیا تو پتہ چلا کہ یہ تو ہمارے پورے گھر کے بجٹ سے بھی تجاوز کر رہا ہے۔ ایک دوست نے ڈھارس بندھائی کے اچھی نسل کے کتے کے لیے یہ قربانی ضروری ہے اور کون ہر مہینے اتنے سامان خریدنے کی نوبت آئے گی لہٰذا دل پر جبر کر کے ساری چیزیں خرید لی گئیں۔ ساتھ ہی انھوں نے مشورہ دیا کہ اب کتے کی ٹریننگ ضروری ہے۔ ہمیں بھی اس میں بہتری نظر آئی ورنہ دوسرے دن بھی صفائی کی نوبت آئے گی۔ کتے کی تربیت ہو جائے تو کم از کم اس بری عادت سے نجات مل جائے گی۔ اب ٹرینر کی تلاش کا سلسلہ شروع ہوا۔
دوسرا دن بھی صفائی کی نذر ہو گیا ساتھ ہی کتے کو چہل قدمی کے لیے لے جانے کی ذمہ داری ہمارے ہی کاندھوں پر آئی۔ یہ بڑا سخت مرحلہ تھا۔ کبھی تو یہ جناب اکڑ کر راستے میں کھڑے ہو جاتے اور کبھی تو ہم سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے۔ دیکھنے والے کو مغالطہ ہوتا کہ کون کس کو ٹہلا رہا ہے۔ اس رسّہ کشی میں خاصی کسرت ہو گئی۔ دیگر چہل قدمی کرنے والے بڑی دلچسپی سے ہماری حالت زار دیکھ رہے تھے۔ بعض محظوظ ہو رہے تھے اور کمینٹ بھی کر رہے تھے۔ مشکل تو اس وقت آپ پیش آتی جب کوئی دوسرا کتا اپنے مالک کے ساتھ پاس سے گزرتا دونوں (یعنی کتے) ایک دوسرے کو دیکھ کر غرّانے اور بھنبھوڑنے کی کوشش کرتے۔ خدا خدا کر کے کوئی ناخوشگوار واقعے کی نوبت نہیں آئی مگر ایک جھونپڑی کے پاس سے گزرتے ہوئے کتا بے قابو ہو گیا اور اس نے دو مرغیوں پر ہلّہ بول دیا۔ لاکھ روکنے کے باوجود اس نے دونوں کو زخمی کر دیا اور ہمیں اس کی اور اپنی گردن بھاری جرمانہ دے کر چھڑانی پڑی۔ یہ سلسلے قریب پاس کی مرغیوں اور بکریوں کے ساتھ چلتا رہا اور ہمیں تشویش ہونے لگی کہ یہی حال رہا تو ہم جرمانہ دیتے دیتے قلاش ہو جائیں گے اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ ٹرینر کا فوری طور پر انتظام کیا جائے۔
آخر ایک کرم فرما نے یہ مشکل بھی آسان کر دی اور یہ مژدہ سنایا کہ مطلوبہ ٹرینر کل صبح آپ کی خدمت میں پہنچ جائے گا۔ انھوں نے مزید بتلایا کہ وہ تو راضی نہیں تھا کیونکہ وہ کافی بزی ہے تاہم دیرینہ تعلقات کی بنا پر ہم پر یہ کرم کیا گیا ہے۔ اس کی کچھ شرطیں بھی تھیں۔ ایک موٹی رقم کے علاوہ اس کی فیس میں ناشتہ چائے وغیرہ بھی شامل تھے۔ گھر میں کوئی تقریب وغیرہ ہونے کی صورت میں اسے وی آئی پی کا درجہ دیا جائے۔ دل پر پتھر رکھ کر ان شرائط کو منظور کرنا ہی پڑا۔
حسب وعدہ دوسری صبح اس کی تشریف آوری ہوئی۔ گیٹ پر ایک اسمارٹ نوجوان کو پایا۔ دیدہ زیب کپڑے، بال فلمی ہیروؤں کے انداز میں بکھرائے ہوئے، کالا ہیٹ، کالا چشمہ، ہاتھ میں قیمتی موبائل فون، پیر میں چرمی موزے اور جوتے۔ اگر پہلے سے اطلاع نہ ہوتی تو شاید ہم گہرے مغالطے کا شکار ہو جاتے۔ اس کا پُر جوش استقبال کیا گیا۔ اس نے بھی گردن کو ٹیڑھی کر کے اسے قبول کر کے ہم پر احسان کیا۔ ناشتے سے فراغت کے بعد اس نے اپنے ’’گاہکوں‘‘ کی طویل فہرست پیش کر دی جنھوں نے ماضی میں اپنے کتوں کے لیے اس کی خدمات حاصل کی تھیں۔ فہرست پر نظر ڈالنے سے ہمیں اس بات پر فخر ہوا کہ اطراف و اکناف میں کافی اہم لوگ رہتے ہیں اور ہم بھی اس گراں قدر فہرست کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔ اس کی اس ’’ہُوز ہُو‘‘ لسٹ نے بلکہ ہمیں احساسِ کمتری میں مبتلا کر دیا۔ ساتھ ہی یہ خوشی تھی کہ اس کی اگلی لسٹ میں ہم جیسے حقیر فقیر کا نام نامی بھی شامل ہو جائے گا۔
خریدے گئے سارے سامان کا گٹھا اس کے سامنے لا کر رکھ دیا گیا۔ سامان کو دیکھنے کے بعد اس نے اضافی سامان کی ایک فہرست اور تھما دی اور دوسرے دن اس کی فراہمی کی ہدایت کر کے یہ چلتے بنا کہ سامان آنے کے بعد ہی تربیت کا مرحلہ شروع ہو گا۔ رواروی میں ہم یہ تو بتانا ہی بھول گئے تربیت کے لیے کم از کم تین ماہ درکار ہوں گے۔ کتے کی سیکھنے کی رفتار کو دیکھتے ہوئے اس میں اضافہ بھی ممکن ہے۔ یہ دونوں باتیں سن کر طبیعت بجھ سی گئی۔ جب اوکھلی میں سر دیا ہے تو اب موسلوں کی مار بھی سہنی پڑے گی یہ سوچ کر دل کو مضبوط کر لیا اور بینک کا رخ کیا تاکہ کچھ رقم نکالی جا سکے اور ٹریننگ کا آغاز ہو۔
آخر وہ مبارک صبح بھی آ گئی جب ٹریننگ شروع ہوئی۔ کتے کو ہدایت انگریزی میں دی جاتی اور وہ اسے بخوبی سمجھ بھی لیتا تھا۔ ہم اپنی جگہ خوش تھے کہ چلو کم از کم بچوں کو تو انگریزی دانی کا فائدہ ہو گا اور انگریزی کے لب و لہجہ کی نقل بھی وہ کر سکیں گے۔ آتے جاتے ہم اس ٹرینر کو انگریزی میں ہدایت دیتے اور گھڑکیاں دیتے سن کر خوش ہوتے کہ ٹریننگ اچھی چل رہی ہے۔ ایک دن یہ انکشاف ہوا کہ گھر کا کھانا کتے کے لیے مناسب نہیں۔ شہر میں ایک خاص اسٹور پر کتوں کے لیے تیار ڈبے ملتے ہیں لہٰذا اس سٹور میں نام درج کروایا گیا۔ اس ’’ٹفن‘‘ کی قیمت روزانہ ڈیڑھ سو روپے ہو جاتی اور اسے پہچانے والے کو۲۵روپے الگ سے دینے پڑتے۔ ہم بچوں کے سامنے خفت محسوس کر رہے تھے کہ ان کے لیے کبھی اتنے اعلیٰ پیمانے پر ہم نے خرچ نہیں کیا۔ بہرحال کتے کے لیے اس خاص ٹفن کا اہتمام کیا گیا۔
جب ہم ایک قریبی عزیز کے یہاں شادی کے دو مہینے بعد گھر لوٹے تو پتہ چلا کہ کتا اپنے سبق میں کورا ہے۔ اس نے اطراف کے فارم ہاؤس والوں کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ وہ خود سر اور ضدی ہے۔ اس پر کوئی ہدایت یا سختی کا اثر نہیں ہوتا۔ جب ٹرینر کی توجہ اس بات کی طرف دلائی گئی تو اس نے ’’نو پرابلم‘‘ کہہ کر ہماری تشفی کر دی اور اطمینان دلایا کہ ابھی تو ٹریننگ کا ایک مہینہ باقی ہے۔ تیسرا مہینہ بھی یوں ہی گزر گیا۔ کتے کی عادت میں کوئی تبدیلی نہ دیکھ کر ہمارا پارہ آسمان کو چھونے لگا اور ہمارا دل اسے بھنبھوڑنے کے لیے ہونے لگا۔ ہم نے بلیغ انگریزی میں خوب صلواتیں سنائیں کہ ٹرینر یہی زبان سمجھتا تھا۔
ہم نے اپنا سارا غصہ اور پچھلے تین مہینوں کے خرچ کا غبار فصیح انگریزی میں نکال دیا۔ بچے اپنی جگہ دُبک سے گئے تھے البتہ ہماری والدہ کے چہرے سے طمانیت کا اظہار ہو رہا تھا۔ ٹرینر کتے کا بیلٹ تھا مے کچھ اس انداز میں کھڑا تھا گویا ہمارا روئے سخن کہیں اور ہے۔ ہم نے اسے گھور کر دیکھا۔ اس نے دبے لہجے میں کہا، ’’آپ نے کیا کہا صاحب! ہم بالکل نہیں سمجھے۔ آپ انگریزی میں نہ بولیں۔‘‘ اس پر بھنانا فطری تھا۔ ہم نے چیخ کر کہا، ’’ہم تم سے ہی انگریزی میں بول رہے تھے کیونکہ تین ماہ سے تم بھی تو کتے کو انگریزی میں ٹریننگ دے رہے تھے۔‘‘ اس نے مسمسی صورت بناتے ہوئے کہا صاحب ہمیں انگریزی نہیں آتی۔ ظاہر ہے اس سے پوچھا گیا کہ آخر وہ کس طرح کتے کو انگریزی میں سکھا اور پڑھا رہا تھا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا، ’’صاحب انگریزی تو آتی ہے پر کتوں کے لائق۔‘‘ یہ سن کر بچے کھلکھلا کر ہنسنے لگے۔ ہمارا غصہ ساتویں آسمان کو پار کر گیا اور اسے ہندوستانی میں گیٹ آؤٹ کہہ کر ہم نے کتے کے بیلٹ کو تھام لیا اور یہ تہیہ کر لیا کہ کل ہی اس کتے کو کسی کی نذر کر دیں گے۔ ایسے ٹرینر اور کتے سے تو چور بھلے۔ ویسے بھی اب ہمارے پاس لٹانے کو کچھ بچا نہیں تھا۔
(ادبی شذرات۔ ۲۰۱۲)