مہمل پچھلے دو ہفتے سے پڑھ پڑھ کر تھک چکی تھی لیکن کام ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
بعض دفعہ اسے غصہ آتا کہ میڈیکل رکھی ہی کیوں لیکن پھر وہ دوبارہ سے پڑھائی میں مشغول ہوجاتی تھی۔
اسفر کا کچھ اتہ پتہ نہیں تھا۔
مہمل کا فون بج رہا تھا اسنے دیکھا تو مشوانی کی کال تھی۔
اسکے چہرے پر کسی گہری سوچ کی پرچھائی آئی تھی جو غائب بھی ہو گئی تھی۔
مہمل نے فون ویسے ہی سائلنٹ پر لگا کر چھوڑ دیا تا کہ بجتا رہے۔
اسنے دن کو بھی کھانا نہیں کھایا تھا اور ابھی رات کو بھی اسکا کھانا کھانے کا کوئی ارادہ نہیں لگ رہا تھا۔ اسے بھوک لگ رہی تھی لیکن وہ خود کو ایسے ہی اذیت دے رہی تھی۔
اسکے دروازے پر دستک ہوئی تو اسے حیرت ہوئی کہ رات کو کون آ گیا۔
اسنے آٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے شبنم خالہ کھڑی تھیں۔
“خالہ آپ!” مہمل نے انھیں اندر آنے کا راستہ دیا۔
“ارے وہ جنکے ساتھ رقیہ بہن گئی ہے انکا بیٹا آیا تھا ابھی کوئی آدھا گھنٹہ پہلے۔کہہ رہا تھا کہ مہمل اکیلی ہوتی ہے تو آپ اسکے ساتھ رات کو سو جایا کریں، رقیہ خالہ نے بھی یہی کہا تھا۔ تو بیٹا میں آ گئی ویسے بھی میرا بیٹا تو شکر ہی کرتا ہے کہ ماں گھر سے جائے۔ اسکی بیوی نے اس پر جادو جو کیا ہوا ہے۔خیر یہ کھانا ہے برتنوں میں ڈال کر لے آؤ۔ دونوں خالہ بھتیجی کھاتے ہیں ۔بڑا ہی اچھا نیک اور سلجھا ہوا بچہ ہے کھانا بھی خود ہی دے کر چلا گیا۔” حسب معمول خالہ نے لمبی داستان ایک ہی دفعہ سنائی تھی۔
مہمل انکی بات پر سر ہلاتی کچن میں چلی گئی اور پھر نہ نہ کرتے بھی خالہ نے اسے اچھا خاصا کھلا دیا تھا۔ خالہ کے آنے سے وہ ہلکی پھلکی ہو گئی تھی۔
جب وہ سونے کے لیے بیڈ پر لیٹی تو موبائل دیکھا جس پر اڑتالیس مس کالز تھیں مشوانی کی لیکن اسے رتی برابر بھی پرواہ نہیں تھی۔ اسنے واٹس ایپ کھولا تو وہاں مشوانی کا میسج آیا ہوا تھا
کبھی کبھی تیری بے نیازی سے خوف کھا کر
میں سوچتا ہوں تو میرا انتخاب کیوں ہے؟؟
(محسن نقوی)
مہمل کا جواب دینے کو دل نہیں تھا لیکن پھر بھی اسنے میسج لکھا
ہم سے مت پوچھو راستے گھر کے
ہم مسافر ہیں زندگی بھر کے
(محسن نقوی)
مہمل نے پانچ منٹ بعد دیکھا تو مشوانی آن لائن تھا اور اسکا میسج آیا ہوا تھا
شمار اسکی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص
چراغ بانٹتا پھرتا ہے چھین کر آنکھیں!!!
(محسن نقوی)
“محبت کیا جرم ہے مہمل خان یوسفزئی؟”
مہمل کچھ دیر تو اسکا سوال دیکھتی رہی اور پھر لکھا
پہلے خوشبو کے مزاجوں کو سمجھ لو محسن
پھر گلستان میں کسی گل سے محبت کرنا
(محسن نقوی)
مہمل نے کچھ دیر بعد دیکھا تو ایک غزل آئی ہوئی تھی
تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے
دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کر کے
آتے جاتے ہیں کئی رنگ مرے چہرے پر
لوگ لیتے ہیں مزا ذکر تمہارا کر کے
ایک چنگاری نظر آئی تھی بستی میں اسے
وہ الگ ہٹ گیا آندھی کو اشارہ کر کے
آسمانوں کی طرف پھینک دیا ہے میں نے
چند مٹی کے چراغوں کو ستارہ کر کے
میں وہ دریا ہوں کہ ہر بوند بھنور ہے جس کی
تم نے اچھا ہی کیا مجھ سے کنارہ کر کے
منتظر ہوں کہ ستاروں کی ذرا آنکھ لگے
چاند کو چھت پر بلا لوں گا اشارہ کر کے
(راحت اندوروی)
مہمل کو غصہ آیا اور اسنے لکھا تھا کہ “بند کرو اردو ادب کہ کلاس! مجھے سونا ہے ابھی۔”
اسکے بعد مشوانی نے کوئی جواب نہیں دیا تھا لیکن مہمل کی نیند اڑ چکی تھی
– – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – –
“کیسی لگی ہماری مہمان نوازی؟” نور چپ چاپ ایک کونے میں کھڑی تھی جب شاہ اسکے پیچھے آ کر کھڑا ہو گیا۔
“اوہ ڈاکٹر شاہ آپ ہیں!” نور نے پیچھے دیکھتے ہوئے کہا جس پر شاہ سامنے آ کر بولا۔
“کیوں آپ کو کیا لگا تھا کہ کون ہوگا؟”
“نہیں وہ ایسے ہی مجھے امید نہیں تھی نا کہ آپ اس مصروف ترین فنکشن میں بات کریں گے۔” نور نے اسے جواب دیا۔
“آپ کے لیے تو انسان وقت نکال ہی سکتا ہے۔” شاہ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
“جی؟” نور حیران ہوئی تھی۔
“میرا مطلب ہے کہ اچھی لگ رہی ہیں۔” شاہ خجل ہوا تھا۔
نور وہاں سے ہٹنے لگی تو شاہ نے اسے روکا۔
” مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے نور!”
“جی کہئے!” نور متوجہ ہوئی تھی۔
“مجھ سے لمبی تمہید نہیں باندھی جاتی صاف کہوں تو آپ مجھے بہت اچھی لگی۔ مجھے کبھی کسی لڑکی کو دیکھ کر اچھا محسوس نہیں ہوا لیکن آپ کو دیکھ کر اچھا لگتا ہے۔ آپ کے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے، اس لیے آپ سے کہہ رہا ہوں یہ بات! قصہ مختصر یہی ہے کہ میں چاہوں گا کہ آپ مجھ سے شادی کر لیں۔” نور شاہ کی بات سن کر ہکا بکا رہ گئی تھی۔
وہ یہی چاہتی تھی لیکن اسے امید نہیں تھی کہ شاہ یوں اچانک سب کہہ دے گا لیکن پھر بھی اسنے خود کو نارمل کیا اور سوچنے کی مہلت مانگ کر دوسری طرف چلی گئی۔ لیکن اسکا دماغ ہل کر رہ گیا تھا۔
اسے کچھ سمجھ نہیں آئی تھی کہ کب اسوہ کو لایا گیا اور کب کونسی رسم کی جارہی ہے؟ وہ ہر چیز سے لاتعلق بیٹھی تھی۔
اسکا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔
جو وہ چاہ رہی تھی ویسا ہی ہو رہا تھا لیکن کہیں کوئی خلش باقی تھی۔ اسکا دل یہ سب قبول نہیں کرنا چاہتا تھا۔
ایسے میں اسکے کانوں میں کسی کے الفاظ گونجے تھے اور وہ سن ہو کر رہ گئی تھی۔
– – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – –
“السلام علیکم! خالہ کیا کر رہی ہیں؟” مہمل نے گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
“ارے بیٹا کچھ نہیں ایسے ہی بیٹھی ہوں۔اس عمر میں مجھ بڑھیا کے پاس کرنے کو ہے ہی کیا؟” شبنم خالہ آج کچھ زیادہ ہی دل گرفتہ تھی۔
“آپ کو اپنا پوتا یاد آ رہا ہے نا؟” مہمل نے اپنی چادر اتاری تھی۔
“بیٹا کہتے ہیں نا انسان کو سود زیادہ پیارا ہوتا ہے وہی حال ہے بیٹے سے اتنا پیار نہیں جتنا اسکے بیٹے سے ہے۔جب تک یہاں نہیں آئی تھی تب گھر میں اسی کے پیار میں سب کڑوی کسیلی باتیں برداشت کرتی تھی۔ یہاں سکون تو ہے مگر دل نہیں لگتا مجھے پوتا بہت یاد آتا ہے۔ اب اپنے خون سے تو ہر کسی کو پیار ہوتا ہی ہے۔۔” خالہ کی آنکھوں میں نمی سی تھی۔
“خالہ بات خون کی کشش کی نہیں بات احساس کی ہے آپ کا بیٹا آپ کے دل سے اتر گیا ہے کیونکہ آپ کا احساس نہیں کرتا وہ۔” مہمل انکے پاس بیٹھی تھی۔
“ارے نا میرا بچہ میرا دل ماں کا دل ہے، ماں کا دل کبھی اپنے بیٹے سے محبت کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور کوئی احساس کتنا ہی کرے خون کے رشتوں کی بات الگ ہی ہوتی ہے۔” خالہ اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے سمجھا رہی تھی۔
“خالہ کونسے خون کے رشتے؟ کہاں ہوتے ہیں وہ؟ مجھے کیوں نظر نہیں آتے؟” مہمل ہنسی تھی لیکن سوال کرتے ہوئے اسکی ہنسی کھوکھلی تھی۔
“ہائے یوں نہ ہنسا کر میری بچی میرا دل دہل جاتا ہے تجھ جیسی خوب سیرت لڑکی کو ایسے کمزور دیکھ کر۔” خالہ نے دہل کر کہا تھا۔
“خالہ کچھ نہیں ہوتا!” مہمل نے لٹھ مار انداز میں کہا تھا۔
“تو بتا آج تو کیوں ایسے کرتی ہے؟کیوں خون کے رشتوں کو نہیں مانتی؟” خالہ نے اس سے پوچھا تھا۔
“خالہ کہاں اچھے ہوتے ہیں یہ رشتے۔ ہر کوئی مجھ سے سوال پوچھتا ہے میری تلخی کا۔ خالہ کہاں تلخ ہوں میں؟ آپ بتائیں اگر کوئی ایسا بچہ ہو جسکے خونی رشتوں نے اسکے باپ کو مفلوج اور بہن بھائیوں کو قتل کر دیا ہو وہ کیسے آرام سے خوشیوں بھری زندگی گزار سکتا ہے؟ اسے تو خوشیاں کسی ناگن کی طرح ڈستی ہیں۔ہر موڑ پر اپنوں کے ظلم اور بچھڑے ہوئے پیاروں کی یاد ستاتی ہے۔ ایسے میں کوئی کیسے پرسکون رہ سکتا ہے؟” مہمل پھٹ پڑی تھی۔
خالہ کے چہرے پر ایک مسکان تھی۔ وہ انھیں اپنے بچوں سے زیادہ عزیز تھی۔ پچھلے کچھ عرصے سے وہ اسکے گھر نہیں آتی جاتی تھی مگر اب انھیں اسکے ساتھ رہنے کا موقع ملا تھا۔
“بچہ اچھے بھی تو موجود ہیں۔ تیرا ماموں تجھے کتنی بار بلا چکا ہے مگر تم ضدی ہو۔ کیوں نہیں سن لیتی اسکی بات؟ کیوں سفاکیت پر اتر آئی ہو؟” خالہ نے اسے اس رشتے کا حوالہ دیا جو وہ سننا نہیں چاہتی تھی۔
“کیونکہ میں سفاک لوگوں سے ہوں۔۔۔۔ خالہ مجھے اچھائی کا سبق مت پڑھائیں۔۔۔ میری رگوں میں صرف سفاکیت ہے۔جہانداد خان کے خاندان سے ہوں۔۔۔ جہانداد خان کی سفاکیت، جہانگیر خان کی ضد ہے مجھ میں۔۔۔ ٹوٹنے والوں میں سے نہیں ہوں میں اور جب میرا کام شروع ہوگا تو باقی کچھ نہیں بچے گا اور صرف تباہی ہوگی!صرف تباہی!” مہمل یہ کہہ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ چکی تھی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – –
نور مہندی کی تقریب میں اسکے بعد کوشش کر رہی تھی کہ شاہ سے سامنا نہ ہو اور شاہ اسکا گریز دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔
“ہیلو!” نور نے فون اٹھایا تھا۔
کبھی سلامتی بھی بھیج دیا کرو مجھ پر!” اگلے کی ہشاش بشاش آواز نور کے کانوں میں پڑی تھی۔
“پھر سے نیا نمبر مسٹر؟” نور نے سوال کیا تھا۔
“اسکو چھوڑو مسئلہ تو نہیں ہے نا کوئی؟” اسنے سامنے لیپ ٹاپ پر دیکھ کر کہا تھا۔
“عمیر بہت اچھل رہا ہے فی الحال اسے اسکی عزیز از جان چیز کی دھمکی دی ہے اور وہ چپ ہے۔ اور۔۔۔۔۔” نور کہتے کہتے رک گئی تھی۔
“اور کیا نور؟” اسکی آواز میں تشویش تھی۔
“شاہ نے مجھے نکاح کا کہا ہے۔” نور نے ہچکچاتے ہوئے یہ بات بتائی تھی۔
“تم راضی ہو؟” اگلے کی آواز میں تاسف تھا۔
“دل تو راضی ہے مگر۔۔۔۔” نور نے دانستہ جملہ ادھورا چھوڑ دیا تھا۔
“تمہارا دل غلط جگہ لگا ہے اور تم باقی سب بھول رہی ہو۔” لہجے سے افسوس کا اظہار ہو رہا تھا۔
” کچھ نہیں بھولی اور میں جانتی ہوں کہ تم کسکی طرفدار ہو مگر ایک بات کہوں وہ جتنا بھی اچھا سہی لیکن میں کیا کروں دل مانا ہی نہیں میرا۔” نور نے چاند کو دیکھا تھا جو اداس معلوم ہو رہا تھا۔
“تم یوسفزئی ہو نا دل تو تمہارا بھی سفاک ہونا ہی تھا۔” طنز کیا گیا تھا۔
“پلیز!!!!!!!” نور کی آنکھ میں نمی آئی تھی۔
“مجھے بھی وہ پسند نہیں لیکن اسکے جذبے تمہارے لیے سچے تھے۔ تمہارے لیے وہ واحد انسان ہے جو ہمیشہ تمہارا ساتھ دیگا۔ مجھے بس افسوس ہوتا ہے کہ تم نے سچی محبت۔۔۔۔۔ بلکہ محبت نہیں۔۔۔۔۔اسکے عشق کو ٹھکرایا ہے۔ وہ تو شاید یہ بات برداشت کر لے لیکن عشق کو ٹھکرانے والے کبھی سکون میں نہیں رہ پاتے اور مجھے لگتا ہے وہ دن دور نہیں جب تم بھی عشق میں تڑپو گی۔” غصے سے کہے گئے یہ الفاظ نور کو کانوں میں پگھلے ہوئے سیسے کی طرح محسوس ہوئے تھے۔
“تم۔۔۔۔۔۔۔ تم بد دعا دے رہے ہو مجھے؟” نور نے حیرانگی سے پوچھا۔
“نہیں مکافاتِ عمل سے خبردار کر رہا ہوں۔ مجھے اسکو دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ کہیں۔۔۔۔۔۔” بات ادھوری تھی کہ نور بولی:
“بس مجھے کچھ نہیں سننا۔”
کال کاٹ دی گئی تھی مگر نور کا دل اس تقریب سے اچاٹ ہو چکا تھا وہ فوراً اپنے کمرے میں آ گئی تھی۔
اسکے کانوں میں مسلسل یہ الفاظ گونج رہے تھے کہ:
“عشق کو ٹھکرانے والے کبھی سکون میں نہیں رہ پاتے۔”
وہ اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھے نیچے بیٹھی خود کو پرسکون رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
مگر کہیں کچھ غلط تھا!
شاید مکافاتِ عمل کا کا آغاز ہو چکا تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
“السلام علیکم!” مشوانی کالج سے باہر نکلتی مہمل کی طرف بڑھا تھا۔
“وعلیکم السلام!” مہمل نے سلام کا بادل نخواستہ جواب دیا تھا۔
“مہمل بات کرنی ہے۔” مشوانی کا لہجہ ہر احساس سے عاری تھا۔
“کرو!” مہمل نے آگے پیچھے دیکھتے ہوئے کہا۔
“تم گاڑی میں بیٹھو میں تمہیں گھر چھوڑ دیتا ہوں اور راستے میں بات بھی ہو جائے گی۔” مشوانی نے گاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
“مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔” مہمل پل بھر کو رکی تھی لیکن پھر وہ اسکے ساتھ گاڑی کی طرف بڑھ گئی تھی۔
مشوانی نے اس کے لیے فرنٹ ڈور کھولا مگر مہمل پچھلا دروازہ کھول کر پیچھے بیٹھ چکی تھی۔
مشوانی کے چہرے پر ایک زخمی مسکراہٹ آئی تھی مگر وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتا گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا۔
“اتنی بے اعتباری بھی اچھی نہیں ہوتی مہمل خان!” مشوانی نے اسے کہا تھا۔
“اعتبار زیادہ کیا جائے تو اسکی دھجیاں بکھر جاتی ہیں۔” مہمل کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی تھی۔
“اس ہفتے کو بڑے لالہ کی منگنی ہے۔” مشوانی نے اسے مطلع کیا تھا۔
“تو؟” مہمل کی ہر ادا سے بے نیازی جھلک رہی تھی۔
“داجی چاہتے ہیں کہ میری منگنی بھی ساتھ ہی ہو جائے۔” مشوانی نے اپنے تئیں بڑی اہم اور سنجیدہ بات کی تھی،مگر مہمل آرام پرسکون بیٹھی تھی۔
“اوہ مبارک ہو داؤد خان مشوانی!” مہمل اسکی برداشت کا امتحان لینے پر تلی تھی۔
“مطلب تم مجھ سے منگنی کے لیے راضی ہو؟” مشوانی نے سوال پیش کیا، یہ جاننے کے باوجود کہ وہ سیدھی بات کبھی نہیں کرتی تھی۔
“میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ مجھے اس سب میں دلچسپی نہیں تم کسی سے بھی شادی کر لو مگر میں تم سے شادی نہیں کر سکتی۔” مہمل کے لہجے میں غصہ تھا۔
“مہمل تم کیوں نہیں سمجھ رہی کہ۔۔۔۔۔۔” مشوانی کی بات کاٹتے ہوئے مہمل بولی:
“کیونکہ میں سمجھنا نہیں چاہتی اور پلیز گاڑی تیز چلاؤ مجھے گھر جانا ہے۔”
مشوانی کے اعصاب تن چکے تھے۔ وہ مہمل کو کچھ کہہ نہیں سکتا تھا مگر گھر جا کر آج اسنے توڑ پھوڑ لازمی کرنی تھی۔
“مادام آ گیا آپ کا گھر!” مشوانی نے طنز کیا۔
“شکریہ!” مہمل یہ کہہ کر اتری۔
“مہمل!!” مشوانی نے اسے آواز دی تو مہمل پلٹی تھی۔
نظروں کا ٹکراؤ ہوا تھا، وہ لمحہ کچھ خاص رکھتی تھا۔ نگاہوں نے ایک دوسرے کو پڑھا تھا۔ مشوانی کی آنکھوں میں بس سوال تھا اور آگے سے جواب دے دیا گیا تھا۔
مگر مشوانی نے کچھ نہیں کہہ کر اسے جانے کا کہا لیکن اس کی نظر میں کچھ ٹوٹنے کا احساس تھا۔
مہمل چلی گئی تھی،مگر مشوانی کے ہونٹوں پر زخمی مسکراہٹ رقصاں تھی۔ شاید اسے بے چین ہی رہنا تھا ابھی!!
وہ بد دعا بھی نہیں کر سکتا تھا۔
وہ اسی اداس دل کے ساتھ وہاں سے چل پڑا۔۔۔۔۔
مہمل کے دل پہ ایک بوجھ تھا لیکن وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔
لیکن لکھا تو سب جا چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺗﺠﮭﮯ ﻋﺸﻖ ہو ﺧﺪﺍ ﮐﺮﮮ
ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺠﮭ کو ﺍﺱ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﮐﺮﮮ
ﺗﯿﺮﮮ ہونٹ ہنسنا ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺋﯿﮟ
ﺗﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﭘﺮﻧﻢ رہا ﮐﺮﮮ
ﺗﻮ ﺍﺱ کی ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﮮ
ﺗﻮ ﺍﺳﮑﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺳﻨﺎ ﮐﺮﮮ
ﺍﺳﮯ دیکھ ﮐﮯ ﺗﻮ ﺭﮎ ﭘﮍﮮ
ﻭﻩ نظر جھکا ﮐﮯ ﭼﻼ ﮐﺮﮮ
ﺗﺠﮭﮯ ہجر کی ﺍﯾﺴﯽ جھڑی ﻟﮕﮯ
ﺗﻮ ﻣﻠﻦ ﮐﯽ ہر ﭘﻞ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﮮ
ﺗﯿﺮﮮ ﺧﻮﺍﺏ بکھرے ﭨﻮﭦ ﮐﺮ
ﺗﻮ ﮐﺮﭼﯽ ﮐﺮﭼﯽ ﭼﻨﺎ ﮐﺮﮮ
ﺗﻮ ﻧﮕﺮ ﻧﮕﺮ پھرا ﮐﺮﮮ
ﺗﻮ ﮔﻠﯽ ﮔﻠﯽ ﺻﺪﺍ ﮐﺮﮮ
ﺗﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺗﯿﺮﺍ گھر ﺟﻠﮯ
ﺗﯿﺮﺍ ﺑﺲ ﭼﻠﮯ نہ بجھا ﺳﮑﮯ
ﺗﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﺳﮯ یہی ﺩﻋﺎ ﻧﮑﻠﮯ
نا گھر ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺟﻼ ﮐﺮﮮ
تجھے ﻋﺸﻖ ہو پھر ﯾﻘﯿﻦ ہو
اسے تسبيحوں پہ ﭘﮍﮬﺎ ﮐﺮﮮ
ﻣﯿﮟ کہوں کہ “ﻋﺸﻖ اک ﮈﻫﻮﻧﮓ ہے”
ﺗﻮ نہیں نہیں کہا ﮐﺮﮮ۔۔۔۔!!
– – – – – – – – – – – – – – – –
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...