میجر صاحب سمیت باقی سارے لوگ بھی سونے کے لئے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے اور ہم ایک دوسرے سے باتوں میں مشغول ہو گئے۔ ہم تینوں الگ الگ سوئے ہوئے تھے، میں اور زوہیب بھائی بیڈ پہ تھے اور مجتبیٰ بھائی کو کہا گیا کہ ہم میں سے کسی کے ساتھ سو جائیں لیکن انہوں نے بھی الگ سونا تھا تو انھیں ایک عدد چارپائی لا کر دی گئی، مجتبیٰ بھائی اور زوہیب بھائی سو گئے۔ میں نے لیپ ٹاپ نکالا، موبائل سے ڈیٹا کاپی کرنا شروع کردیا، میں نے تصویریں دیکھنا شروع کر دیں، زوہیب بھائی کے خراٹوں کا شور اب شروع ہو گیا تھا لیکن ابھی نارمل تھے کیونکہ ابھی تازہ تازہ ہی ان کی موت واقع ہوئی تھی میرا مطلب تازہ تازہ ہی سوئے تھے ، ویسے نیند بھی تو موت کا دوسرا نام ہے۔( آپس کی بات ہے موت کی کوئی شکل ہوتی تو ہوبہو زوہیب بھائی کی ہمشکل ہوتی۔ ) سب سے زیادہ تصویریں میری اور زوہیب بھائی کی تھیں، میں نے زوہیب کی کچھ تصویریں دیکھیں جو مجھے اچھی لگیں، میں نے آنکھیں ملیں کہ شاید نیند اور تھکن کی وجہ سے مجھے ٹھیک نہ دکھ رہا ہو لیکن پھر بھی وہ تصویریں مجھے اچھی لگ رہیں تھیں، میں نے زوہیب بھائی کی طرف دیکھا جو کہ اس وقت قربانی کا دنبہ لگ رہے تھے اور چپکے سے shift+alt+dlt مار دی کہ ریسائیکل بن بھی اس کے شر سے محفوظ رہے، ابھی میں مزید تصویریں ڈیلیٹ کرنے کے لیے دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک انتہائی خوفناک طریقے سے بہت ہی وحشیانہ قسم کی چیخ ماری گئی جس نے میرے چھکے چوکے سمیت سنگل ڈبل بھی چھڑا دیئے، مجتبیٰ بھائی بھی اس وحشی درندے کی وحشی چیخ سے نہ بچ سکے اور اٹھ بیٹھے، یہ زوہیب بھائی کے خراٹے کی آواز تھی، دنیا کے سارے بےسروں کی آواز کو جمع کیا جائے تو زوہیب بھائی کے خراٹے بنتے ہیں، جو لوگ خراٹے لیتے ہیں ان کے ساتھ ایک مسئلہ ہے کہ نارمل خراٹے لیتے لیتے اچانک انہیں پتہ نہیں کون سا دورہ پڑ جاتا ہے کہ ایک زور دار دھماکہ خیز خراٹہ لیتے ہیں جس سے اردگرد بیٹھے یا سوئے ہوئے ان لوگوں کو بھی چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا ہے جنہوں نے کبھی پیا ہی نہیں ہوتا۔ اس خودکش دھماکے کے بعد مجتبیٰ بھائی نے زوہیب بھائی کی طرف دیکھ کر زور سے کہا “موت” یہ سن کر میں کھلکھلا کر ہنس پڑا اور مجتبیٰ بھائی کو حوصلہ دیتے ہوئے صبر کی تلقین فرمائی اور سو گئے۔
رات کے کوئی دو تین بجے مجھے کچھ آوازیں سنائی دیں، میں اٹھا تو دیکھا کہ مجتبیٰ بھائی زوہیب بھائی کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں اور کچھ کہہ رہے ہیں اور زوہیب بھائی منع کر رہے، میں پریشان کہ یہ دونوں ایسے بندے تو نہیں تھے انہیں اچانک کیا ہو گیا ہے، میں نے مجتبیٰ سے پوچھا کہ کیا ہوا سب خیریت؟؟ یار نیند نہیں آرہی سردی سے مر رہا ہوں پاؤں گرم ہونے کا نام تک نہیں لے رہے زوہیب کو کہہ رہا ہوں کہ مہربانی کر کے ساتھ سونے دو، مجتبیٰ بھائی نے تفصیلی جواب دیا۔ میں نے خود مجتبیٰ بھائی کو کہتے سنا کہ” خدا کے لئے مجھے سونے دو ورنہ سردی سے مر جاؤں گا” مجھے اس وقت مجتبیٰ بھائی پر دوسری دفعہ ترس آیا اور آگے سے زوہیب نخرے دکھا رہا تھا کہ نہیں میں نہیں سونے دوں گا پہلے میری منتیں کرو اور وہاں مجتبیٰ بھائی زوہیب کے سامنے ہاتھ باندھے منت سماجت کر رہے تھے اور وہ سامنے سے پرنس چارلس بنے منہ پہ تیوری چڑھائے منہ ادھر ادھر کر کے ہوں شوں کرنے لگے لیکن بالآخر مان گئے اور سب دوبارہ سو گئے۔
ہماری گڈ مارننگ تو صبح بارہ بجے کے بعد انگڑائیاں لینا شروع کرتی ہے اور دو بجے کے قریب جا کر اس کی آنکھ کھلتی ہے پر ہم بھول گئے تھے کہ اس وقت ہم دنیا کے سب سے بڑے منظم ادارے کے منظم ترین لوگوں کے درمیان میں موجود ہیں، تو جی صبح سات بجے ہی میجر صاحب اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ پاکستان آرمی کی خوبصورت سی وردی زیب تن کئے ہمارے کمرے میں پہنچ گئے ، ان کے آنے سے یوں نیند کی حالت میں جاگ کر جب ہم نے فوجیوں کو ہتھیاروں سے لیس اپنے کمرے میں پایا تو دل میں خیال آیا کہ شاید زوہیب بھائی کے پھانسی کا وقت ہو گیا ہے اور اسے تختہ دار پر لٹکانے کے لئے لینے آئے ہوئے ہیں، ہم نے جاگنے کی زحمت بھی نہ کی اور کمبل اچھے سے لپیٹ کر دوبارہ سو گئے کہ اب زوہیب بھائی کی پھانسی کے لئے ہم اپنی پیاری نیند کیوں خراب کریں، ابھی یہی باتیں سوچ ہی رہا تھا کہ میجر الیاس صاحب کی گرجدار آواز آئی good morning gentlemen ۔ اس آواز کو سنتے ہی ہم نے بہت پیار سے اپنی نیند کو خراب کیا اٹھے میجر صاحب کو گڈ مارننگ کہا اور گپ شپ شروع کیا کہ اتنی دیر میں ناشتہ آ گیا جو کہ ہم سب نے اکھٹے نوش فرمایا۔ ناشتے کے بعد میجر صاحب ہمیں پیر چناسی جانے کا حکم دیتے ہوئے خود کسی میٹنگ میں شرکت کی غرض سے ہم سے الواع کر کے رخصت ہو گئے۔ ناشتے کے بعد ہاتھ منہ دھونے گئے تو پانی نے دور سے ہی قریب آنے سے بہت سختی سے منع کر دیا اور ہم بھی پانی کو یو برو کر کے واپس آ گئے۔ تیاری کی باہر نکلے، سارے دوستو سے اجازت مانگی، زوہیب بھائی نے پاکستان آرمی کے جوانوں کے ساتھ ڈھیر ساری سیلفیز لیں، کچھ منہ کو ٹیڑھا کر کے کچھ منہ کو میٹھا کر کے،اور ان کے منع کرنے کے باجود بھی بعد میں سوشل میڈیا پر وہ تصاویر دے دیں۔ ایک آدھ تصویر ہم نے بھی ان شیروں کے ساتھ بنوائی جن کی وجہ سے ہم تو راتوں کو سردی ہو یا گرمی سکون کی نیند سوتے ہیں پر یہ لوگ ٹھٹھرتی سردی میں اور آگ اگلتی گرمی میں اپنی جان کی بھی پرواہ کئے بغیر صرف ہمارے امن و امان کے لئے ہمارے سکون کے لئے پہاڑوں سے بھی مضبوط ازم لئے ہر وقت چاک و چوبند ہو کر اپنے فرائض منصبی انجام دیتے ہیں۔
ہم ان عظیم لوگوں کی عظیم مہمان نوازی اور ان کے اس ڈھیر سارے پیار و محبت کا شکریہ ادا کیا، اجازت لی اور حضور پیر چناسی کے دربار پر حاضری لگوانے نکل پڑے ، میجر صاحب کے بقول وہاں پر سنو فال ہو رہی تھی اور ہم جلد از جلد وہاں پہنچ کر سنو فال میں دھمال ڈالنا چاہتے تھے یعنی کہ انجوائے کرنا چاہتے تھے، راستے کٹھن ہونے کے باوجود بے حد دلکش تھے، سورج ہمیں اتنے پاس لگ رہا تھا کہ تھوڑا آگے جا کر لفٹ ہی نہ مانگ لے کہ برو ساتھ پیر صاحب کے پاس چلتے ہیں، راستے میں ہر طرف پڑی برف نے ہمارا حوصلہ بڑھایا اور ہمارے منہ سے پانی گرنا شروع ہو گیا کہ آج حضور مرشد پیر چناسی کے روبرو سنو فال کو رنگے ہاتھوں پکڑیں گے اور اس موقع پر میرے ذہن میں انشاء جی کا وہ خوبصورت شعر آ گیا جو اس وقت کی ہماری کیفیت کو بیان کرنے کے لئے بہترین ہے ارض کیا ہے، ارشاد کہنا نہ بھولئے گا۔
” ہم کو یاں در در پھرایا یار نے
لامکاں میں گھر بنایا یار نے ”
پیر چناسی سے واپس آنے والی گاڑیوں پر پڑا برف دیکھ کر ہم اتنے زیادہ خوش ہو رہے تھے جیسے ابھی اوپر پیر صاحب ہمارا نکاح پڑھانے کے انتظار میں بیٹھے ہیں، ہم نے ایک جگہ پہ گاڑی روکی اردگرد پڑا برف اٹھایا گاڑی پر گرایا کیونکہ صرف ہماری ہی گاڑی تھی جس پر برف نہیں پڑا ہوا تھا ورنہ آنے جانے والی تمام گاڑیوں پر برف پڑی تھی، ہم جلد از جلد اوپر پہنچنا چاہتے تھے (اوپر مطلب پیر چناسی، آپ زیادہ اوپر نہ پہنچا آئیں ) تاکہ اپنی اس حسرت کو بالآخر آج پورا ہوتے ہوئے اپنی ان نیک آنکھوں سے دیکھیں،کچھ جگہوں پر لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے راستہ تھوڑا خراب تھا لیکن گاڑیاں آرام سے گزر رہی تھیں، ہم حد سے بھی زیادہ excited تھے سنول فال دیکھنے کے حوالے سے ، آگے راستے اب زیادہ خراب آنے لگے، اور گاڑی لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے سلپ بھی ہونے لگی لیکن الحمدللہ ہمیں کہیں پہ بھی مسئلہ نہ ہوا اور ہم چلتے رہے، ہم نے دور سے ہی ٹاپ پر بہت سارے لوگوں کو دیکھا وہیں پہ گاڑیاں وغیرہ کھڑی تھیں ہم نے سوچا کہ یہی پیر چناسی ہے ساتھ میں چہروں سے خوشی بھی اڑ گئی لیکن ایک دوسرے کو دلاسا دلایا کہ ابھی وہ تھوڑا دور ہے وہاں سنو فال ضرور ہو رہی ہو گی، ہم اپنے حوصلے بڑھانے کے لیے خوامخواہ میں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر پاگلوں جیسا منہ لئے ہی ہی کرنے لگے اور جب اس جگہ پہنچے تو وہاں پر ہر طرف برف ہی برف تھی پر سنو فال نہ تھی، پتہ چلا کہ ابھی آدھا گھنٹہ پہلے یہاں سنو فال رکی ہے اور لینڈ سلائیڈنگ ہوئی ہے جس کی وجہ سے اوپر پیر چناسی کی طرف جانا ناممکن ہے جو کہ یہاں سے صرف ڈیڑھ کلو میٹر دور ہے، یہ سن کر ہمیں ایسا لگا جیسے کسی نے ہماری عزت لوٹ لی ہو، جیسے کسی نے ہمیں رنڈوا ہونے کی خبر سنائی ہو، جیسے کسی نے ہمارے بال بچے بیوی گھر بار سب جلا کر خاکستر کر دیئے ہوں جو کہ ابھی تک ہمارے پاس تھے ہی نہیں، سب وہاں پر خوش ہو کر سیلفیاں بنا رہے تھے ، کھا پی رہے تھے، ہنسی مذاق کر رہے تھے اور ہم تینوں ایسے پھر رہے تھے جیسے اپنا جنازہ خود اٹھائے پھر رہے ہوں، میں ابھی خودکشی کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک سامنے میری نظر ایک انتہائی خوبصورت دوشیزہ پر پڑی جو کہ کسی نیوز چینل والے کو اپنے تاثرات بتا رہی تھی، ہم نے خودکشی کا پروگرام پانچ منٹ کے لئے کینسل فرمایا اور اس طرف چل دیئے اور اس دوشیزہ کے قریب جا کر کھڑے ہو گئے کہ شاید ہم سے بھی ایک آدھ سوال پوچھ لے اور ہم یہاں آنسوؤں کا ریلا بہا دیں کہ ہمارے ساتھ کتنی بڑی tragedy ہوئی ہے، ابھی ہم اپنے سوالوں کے جواب ہی سوچ رہے تھے کہ اس رپورٹر نے ہاتھ کے اشارے سے ہمیں سائیڈ پر ہو جانے کو کہا جس کے اس اقدام کو انتہائی ناپسند فرماتے ہوئے ہم نے اسے اپنا انٹرویو دینے کا فیصلہ موخر فرما دیا اور وہاں سے چلے گئے اور جا کر دوسرے دونوں لاشوں کے ساتھ بیٹھ گئے جو کہ اب غم بھلا کر تھوڑے نارمل ہو گئے تھے، ہم باتیں ہی کر رہے تھے کہ ایک نوجوان سا بندہ ہمارے پاس آیا اور مجتبیٰ بھائی سے پوچھا کہ بھائی آپ مونسٹر ٹرک چلاتے رہے ہیں کیا؟؟میں کچھ سمجھا نہیں، مجتبیٰ بھائی نے کہا۔ یار آپ کیا کمال گاڑی چلاتے ہیں ہم جہاں سے گاڑی لیجانے کے لئے رک کر سوچتے تھے آپ شوں کر کے وہاں سے غائب ہو جاتے، یہ دوست سندھ سے تعلق رکھتے تھے اور ہماری طرح سنو فال کی تمنا لئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے تھے۔ وہاں پر موجود تقریباً تمام لوگ ٹورسٹ تھے جو کہ گھومنے پھرنے آئے ہوئے تھے
ہم وہاں مزید نہ ٹھہر سکے کیونکہ وہاں پر پڑی تازہ تازہ برف ہر لمحہ ہمارے دل پہ بجلیاں گرانے کا کام کر رہی تھی اور ہم کسی خوبصورت حسینہ کے علاؤہ کسی کی بھی بجلیوں کی تجلیوں کو برداشت کرنے سے قاصر تھے تو ہم نے وہاں سے واپس جانے کا پروگرام بنایا اور بیواؤں جیسا منہ لئے واپس مری کے لئے روانہ ہو گئے کیونکہ ہمارا سامان وہیں پہ آنٹی سمینہ کے گھر پڑا تھا ۔
دوستو یہاں پر میں آج کی قسط کا اختتام کروں گا اس کے بعد کی قسط کو کوشش کروں گا کہ آخری قسط بنا کر مکمکل تفصیل سے اگلے تمام واقعات لکھوں جن میں ابھی واپسی پر نتھیا گلی میں ہمارا ایکسیڈنٹ، آنٹی سمینہ کی نئی ذد ، اسلام آباد میں پولیس والوں کے ساتھ دنگل، واپسی پر میم سکینہ نے انگلش میں ہمارے ایٹیٹیوڈ اور پرسنیلٹی کی کیا خوب شان بڑھائی اور ساتھ سدرہ کا دل کو چیر پھاڑ کر دینے والا نخروں سے بھرا گپ شپ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...