نوٹس پڑھ کر وقارتو بالکل ہی آپے سے باہر ہوگيا۔
وہ جو يہ سمجھ رہا تھا کہ يماما کی موت کے بعد اسکے تمام کيسز خودبخود ختم ہوجائيں گے۔ يا پھر جو بھی وکيل اب اس کا کيس ہينڈل کرے گا۔
وہ بآسانی اسے خريد لے گا۔ مگر وہ سوچ بھی نہيں سکتا تھا کہ اس کا نہ صرف کيس فاران لے لے گا۔ بلکہ وہ فاران کے اوپر يماما کی موت کو فتل قرار دے کر اسے اس ميں ملوث کرے گا۔
نوٹس پڑھ کر وہ غصے ميں آپے سے باہر ہوگيا۔
فورا سے پہلے سميع کو کال کی۔
“ہيلو ۔۔۔ سميع فورا ميرے پاس پہنچو”
بغير سلام دعا کے وہ تيز لہجے ميں بولا۔
“کيا بات ہے يار خيريت ہے ” سميع اسکے لہجے پر حيران ہوا۔
“خيريت نہيں ہے تو تمہيں بلوايا ہے نا۔۔ ” وہ پھر سے درشت لہجے ميں بولا۔
سميع نے بڑی مشکل سے اس کا حاکمانہ لہجہ برداشت کيا۔
“اوکے ميں اگلے آدھے گھنٹے ميں تمہارے پاس ہوں گا” اس کے يقين دہانی کراتے ہی وقار نے فون بند کرديا۔ وہ شدت سے سميع کا منتظر تھا۔
آدھے گھنٹے بعد سميع اپنے کہے کے مطابق اسکے سامنے موجود تھا۔
“اب کہو کيا ہوا ہے۔ پريشان لگ رہے ہو” لاؤنج ميں اسکے سامنے موجود سنگل صوفے پر بيٹھتے ہوۓ وہ بولا۔
“يہ پڑھو” اس نے غصے سے وہ نوٹس اس کے سامنے کيا۔
سميع نے ايک ايک سطر بڑے غور سے پڑھی۔
“ہمم۔۔ يہ تو بڑا مسئلہ بن گيا ہے”
“تمہارا ہی مشورہ تھا نا کہ اسکے آفس جاکر اسے دھمکاؤں۔۔ يہ دھمکانا ہی مجھ پر الٹا پڑھ گيا ہے” اس نے غصے سے سميع کو ديکھتے ہوۓ کہا۔ وہ استہزائيہ ہنسا۔
“يا تو مجھ پر اعتبار نہ کرتے يا پھر اگر کر ہی ليا تھا تو يوں لمحوں ميں بے اعتبار نہ کرتے” وہ متاسف نظروں سے اسے ديکھنے لگا۔
“يار اس نے صرف تم پر الزام لگايا ہے۔ تم ملزم ہو مجرم نہيں۔ “سميع نے پھر سے اسکی تصحيح کی۔
“اور دوسری بات يہ تو ميرے بھی وہم و گمان ميں نہيں تھا کہ يہ کيس اب فاران ڈيل کرے گا” سميع نے ايک اور نقطہ اٹھايا۔ وقار تھوڑا شرمندہ ہوا۔
“ميں نے يہ نہيں کہا کہ تم نے غلط مشورہ ديا ہے۔ مگر مسئلہ صرف يہ ہے کہ اس کے آفس مجھے نہيں جانا چاہئيۓ تھا” وقار نے دونوں ہاتھوں کی انگلياں مضطرب انداز ميں ايک دوسرے ميں پھنسائ۔
“يار اگر چلے ہی گۓ تھے تو مين نے تمہيں صرف اسے پيسے دينے کا کہا تھا۔ يہ نہيں کہا تھا کہ اسے اسکی جان کی دھمکی دے کر آؤ” سميع نے ايک بار پھر خود کو کور کرنا چاہا۔
“ہاں يار بس غلطی ہوگئ” وقار کو بھی اب اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
“خير اب جو ہونا تھا وہ ہوگيا۔ اب پچھلی باتوں کو دہرانے کا کوئ فائدہ نہيں۔ اب يہ سوچو کہ اس سب سے نمٹنا کيسے ہے؟” سميع نے اس کا دھيان اصل مسئلے کی جانب لگايا۔
“ايک آئيڈيا ہے۔ ميری ايک دوست ہے۔ اگر اسے اسکے پيچھے لگوا کر اس کيس سے ہٹايا جاۓ تو کيسا رہے گا۔ عورت وہ آلہ کار ہے جو ہر جنگ کا پانسہ پلٹ کر رکھ ديتی ہے” سميع نے آنکھ دبا کر شيطانی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر کہا۔
“ارے واہ۔۔ کيوں نہيں۔۔ يہ خيال پہلے کيوں نہيں آيا۔ مگر اس سب کے لئے تو مجھے عدالت پھر سے جانا پڑے گا” وقار نے خوش ہوتے اسکی ہاں مين ہاں ملائ۔
مگر پھر نوٹس کی جانب نظر پڑی تو وہ پھر سے پريشانی کا شکار نظر آنے لگا۔
“ارے يار ابھی اس معاملے کو لٹکا دو۔ اور تب تک عدالت ميں جانے کا کڑوا گھونٹ پی لو۔ تب تک ميں تمام معاملہ ديکھتا ہوں۔” سميع نے اسے پھر سے تسلی دلائ۔
وہ سر ہلا کر خاموش ہوگيا۔
کچھ دير بعد وہ چاۓ پی کر اسکے گھر سے چلا گيا۔
اسکے نکلتے ہی وقار نے ايک نمبر ملايا۔
“ہاں۔۔۔ شرافت ايک کام کرو۔ ابھی جو لڑکا ميرے گھر سے نکلا ہے چند دن تم نے اسکا پيچھا کرنا ہے” فون کے دوسری جانب موجود کسی بندے کو ہدايات دے کر اس نے فون بند کرديا۔
نجانے کيوں اسے سميع اب کچھ مشکوک انسان لگا تھا۔
________________________
شام تک وہ لوگ نائل کے گھر پہنچ چکے تھے۔
مہک کچھ دير پہلے ہی ايک چيريٹی شو سے واپس آئيں تھيں۔
لاؤنج ميں بيٹھيں وہ شمس کو اپنے شو کی کاميابی کے بارے ميں تفصيل بتا رہی تھين کہ اسی اثناء مين نائل اور يماما گھر ميں داخل ہوۓ۔
“السلام عليکم” اس نے اونچی آواز ميں سلام کيا۔
ان دونوں کی پشت دروازے کی جانب تھی۔
مہک خوشی سے دمکتا چہرہ لئے فورا مڑيں۔
“ميرا بچہ ۔۔ ميرا نائل” بے اختيار وہ اسکی جانب بڑھيں۔
اس نے بھی مسکراتے ہوۓ ماں کو اپنی مضبوط بازوؤں ميں ليا۔
”
کيسی ہيں ممی؟” محبت سے انہيں اپنے ساتھ لگاۓ وہ شمس اور يماما کو سلام دعا کرتے ديکھ رہا تھا۔
شمس نے محبت سے يماما کے سر پر ہاتھ پھيرا۔
ان کے بيٹے ۔۔ ان کی جان کے ٹکڑے کی جان اس وقت انکے سامنے کھڑی تھی۔ انہيں تو بن ديکھے ہی وہ عزيز ترين ہوگئ تھی۔
اور اب جب اسے سامنے کھڑے ديکھ رہے تھے تو خوشی سنبھالنی مشکل لگ رہی تھی۔
“کيسی ہو بيٹا؟” انہوں نے محبت سے اسے ديکھتے ہوۓ پوچھا۔
“جی ٹھيک” يماما نے مختصر جواب ديا۔
“گڈ”
مہک اب نائل سے الگ ہو کر سواليہ نظروں سے يماما اور پھر نائل کو ديکھنے لگيں۔
“ممی يہ ميری فرينڈ ہے۔۔ لاہور سے يہاں آئ ہے۔ کچھ ڈاکومنٹری اس نے بنانی تھی۔ بس اسی سلسلے ميں” نائل نے گلا کھنکھار کر سوچی سمجھی اسکيم کے تحت سوچی کہانی ماں کو سنائ۔
“اچھا ماشاءاللہ۔۔ اس بچی کی شکل وہ وکيل يماما سے کتنی ملتی ہے” نائل نے ماں کی بات پر متوحش نظروں سے شمس کی جانب ديکھا۔
شمس نے گلا کھنکارا۔
“بالکل ۔۔۔ بالکل ۔۔ بس اتفاقات بھی تو اسی دنيا ميں ہوتے ہيں نا” شمس نے فورا بات سنبھالی۔
“بالکل۔۔ اب ميری ايک کوليگ کی بيٹی کی شکل ميری ايک کالج کی دوست سے اس قدر ملتی ہے کہ انسان حيران رہ جاۓ” انہوں نے خود ہی اپنی بات کی تائيد کی۔
“بالکل ۔۔ آئيں بيٹا بيٹھيں پليز” شمس نے جلدی سے بات سنبھلنے کا شکر کرتے ہوۓ۔ يماما کو بيٹھنے کا کہا۔
“بيٹی کا نام کيا ہے؟” نائل نام بتانا بھول گيا تھا۔
“ان کا نام کنزہ ہے” يماما کی بجاۓ نائل نے جواب ديا۔
“ماشاءاللہ پيارانام ہے” مہک نے مسکراتے ہوۓ تعريفی کلمات ادا کئے۔ جن کا جواب يماما نےمحض ہلکا سا سر ہلا کر ديا۔
“جاؤ بيٹا۔ کنزہ کو گيسٹ روم دکھاؤ۔۔ فريش ہو جاؤ۔ تب تک ميں کچھ کھانے کو لگاتی ہوں ساتھ چاۓ بھی بناتی ہوں” مہک نے ان دونوں کو اوپر کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔
“جی ممی۔”
“بيٹا بس يہ اتنا سا سامان ہے تمہارا؟” مہک نے حيرت سے نائل کے ہاتھ مين تھامے بيگ کی جانب اشارہ کيا۔
نائل اور يماما کی نظر بھی اس چھوٹے سے ليدر کے بيگ کی جانب گئ۔ جس ميں نائل کا سامان تھا۔
“جی جی۔۔ ميں اصل ميں زيادہ کپڑوں کی شوقين نہيں ہوں” يماما نے اب کی بار اعتماد سے کہا۔
“ارے ماشاءاللہ پہلی لڑکی ديکھی ہے جسے کپڑوں سے کوئ سروکار نہيں ہے” شمس نے بھی خوش مزاجی سے کہا۔
“اچھا چلو جاؤ اب”مہک نے پھر سے انہيں اوپر جانے کا اشارہ کيا۔
اوپر والے ہی پوورشن ميں نائل کے کمرے سے اگلا کمرہ چھوڑ کر گيسٹ روم بنايا گيا تھا۔
يماما کو وہيں ٹہرنا تھا۔
يماما نائل کی تقليد ميں اوپر آگئ۔
“افف شکر ہے”يماما نے اوپر اکر سکھ کا سانس ليا۔
اسکے وہم و گمان ميں بھی نہيں تھا کہ سب کی طرح نائل کی ماں بھی ٹی وی اور نيوز کے ذريعے اس بات سے ضرور آگاہ ہوں گی کہ يماما مر چکی ہے۔
نائل اسے ايک کمرے ميں لے آيا۔
“ميری ممی بے چاری بڑی سادی ہيں باتوں ميں آجاتی ہيں” نائل نے شرارتی لہجے ميں کہا۔
“جی جی بالکل۔۔۔ ” يماما نے اسکی بات پر سر دھنا۔
“اچھا يہ بتائيں کہ اب ميں کپڑوں کا کيا کروں۔۔ ميرے پاس تو چينج کرنے کو کوئ جوڑا ہی نہيں” يماما کو اب اپنے ڈريس سے شديد وحشت ہورہی تھی۔ وہ شاور لے کر ان کپڑوں کو دوبارہ سے نہيں پہننا چاہتی تھی۔
“ايک منٹ ميں آتا ہوں” نائل اسکی بات کا جواب دينے کی بجاۓ کمرے سے نکل گيا۔
يماما نے گہری سانس بھری۔ وہ کچھ کہہ رہی تھی اسے اپنی پڑی تھی۔
اسکے جاتے ہی يماما نے کمرے کا جائزہ ليا۔
ايک درميانے سائز کا بيڈ۔۔ ٹيبل اور ايک صوفہ وہاں موجود تھا۔ ساتھی ہی اٹيچڈ باتھ بھی موجود تھا۔
ابھی وہ پوری طرح کمرے کا جائزہ بھی نہيں لے پائ کہ نائل ہاتھ مين ايک شاپر لئے اندر آيا۔
“اس ميں کچھ کپڑے ہيں جو بھی ٹھيک لگے پہن لو” ايک ہاتھ سے ماتھے پہ انگلی پھيرتے دوسرے ہاتھ مين موجود شاپر اسکی جانب بڑھايا۔
يماما نے حيرت سے وہ شاپر پکڑتے اس ميں سے کپڑے نکالے۔ بالکل نئے ٹيگ لگے چار پانچ سوٹ تھے۔
“يہ کس کے ہيں؟” يماما نے اچنبھے سے پوچھا۔
“يہ کچھ عرصہ پہلے ہی تمہارے لئے تھے” اب کی بار نائل کی لو ديتی نظريں يماما کے صبيح چہرے پر ٹکيں۔
وہ دو قدم چل کر اسکے بے حد قريب کھڑا ہوا۔
يماما نے جھجھک کر نظريں جھکائيں۔
“آپ تو ہميشہ سے ہی مجھ پر نظر رکھتے تھے۔۔” يماما نے اسے چھيڑنے والے انداز ميں کہتے اسکی نظروں کے اثر کو زائل کرنا چاہا۔
“اور يہی محبت بھری نظر تمہارے دل پر بھی ہميشہ سے اثر انداز ہوتی تھی۔ يہاں تک کہ اب بھی” نائل نے اسکے ہاتھ تھام کر آنچ ديتے لہجے مين کہا۔
“اور اسی محبت نے مجھے اتنا سير کرديا تھا۔ کہ مجھے کبھی کسی اور کی چاہ ہی نہيں ہوئ” يماما کی آواز ميں نمی گھلی۔
نظريں اٹھا کر اسکی جانب ديکھا۔
جس آنکھوں ميں محبتوں کا الگ ہی جہان آباد تھا۔
يکدم دروازے پر ناک ہوا۔
جو کہ پہلے سے ادھ کھلا تھا۔
وہ دونوں سرعت سے فاصلے پر ہوۓ۔
شمس کو دروازہ کھول کر اندر آتے ديکھ کر نائل نے گہری سانس بھری۔
“اف ڈرا ديا تھا آپ نے” شمس کی نظروں ميں چھپی شرارت نائل کی نظروں سے اوجھل نہيں تھی۔
“ذرا حوصلہ رکھو برخوردار۔۔ تمہاری ماں ہماری بہو کو ابھی صرف تمہاری دوست ہی سمجھتی ہے” انہوں نے جيسے اسے حدبندی قائم رکھنے کا اشارہ کيا۔
“جی جناب معذرت۔۔ وہ کيا ہے نہ کہ اتنے سالوں بعد بيوی کو ديکھ کر ابھی تک يقين نہيں ہوا کہ يہ ميرے سامنے ہی موجود ہے۔ تو بس يہی يقين خود کو دلانے کی کوشش کررہا تھا۔ ” نائل کی بے باک گفتگو سے بچنے کے لئے يماما ايکسکيوز کرتی واش روم ميں بند ہوچکی تھی۔
“آگيا يقين۔۔ تو اب اپنے کمرے کی طرف تشريف لے جاؤ۔ بچی بے چاری کو شرمندہ کرديا” انہوں نے تنبيہی نظروں سے اسے ديکھا جو اب کان کھجا رہا تھا۔
_________________________
ماضی۔
“خيريت ہے صاحب آج آپ نے مجھے کيسے ياد کيا” وہ ہاتھ باندھے سرتاج کے قدموں ميں بيٹھا تھا۔ اس علاقے کے جاگيرداروں کا بيٹا۔ جو باپ کی جگہ اب اسی کی کرسی سنبھال چکا تھا۔
سياست ميں اس کا ايک نام بن چکا تھا۔
مگر اپنے علاقے کے لوگوں کو وہ جانوروں سے بھی بدتر سمجھتا تھا۔
اس کی عمر سے دوگنا عمر کا وہ بندہ اس لمحے اسکے قدموں ميں بيٹھا تھا۔
“سنا ہے بيٹے کو وکالت کی ڈگری کے لئے شہر بھيجا ہوا ہے” مونچھوں کو تاؤ ديتے وہ حيرت سے گويا اس کا مذاق اڑانے والے لہجے ميں بولا۔
“نہ۔۔ نہ۔۔ صاحب وہ تو بس نوکری کے۔۔۔۔”ابھی اس بوڑھے شخض کی بات منہ ميں ہی تھی۔ کہ اپنے جوتے کی نوک سرتاج نے اس بوڑھے کی ٹانگ پر اتنی زور سے ماری کہ وہ بلبلا اٹھا۔
“جھوٹ بولتا ہے۔۔۔ بکواس کرتا ہے ميرے ساتھ” وہ غصے سے کف اڑانے لگا۔
وہ بے چارا ہاتھ باندھے رونے لگا۔
“تيرے خيال ميں۔۔۔۔ ميں يہاں آنکھيں بند کئے بيٹھا ہوں۔
پرندہ بھی پر مارے تو مجھے معلوم ہوجاتا ہے۔ تو نے اپنے چھوٹے بيٹے کو سر چڑھا رکھا ہے۔ ميں جانتا تھا وہ شہر پڑھنے گيا ہے۔ سوچا تھا ايف اے ۔۔ بی اے کرکے آۓ گا تو اپنا منشی رکھ لوں گا۔ مگر وہ تو خود کو افسر بنانے کے خواب ديکھ رہا ہے۔۔ ہمارے علاقے ميں سے نکل کر پڑھ لکھ کر ہم سے اونچا ہونا چاہتا ہے” وہ غصے سے غرايا۔
سب وڈيرے اپنے علاقے کے کسی گھر کے لڑکوں کو ميٹرک سے آگے پڑھنے نہيں ديتے تھے۔
ليکن محمد بخش کا بيٹا اور ہی سوچ رکھے ہوۓ تھا۔ وہ اپنے باپ دادا کو انکی غلامی کرتے اور غیر انسانی سلوک کرتے ديکھتا تھا۔
مگر وہ چاہتا تھا کہ اسکی نسل کم از کم اس سب سے نہ گزرے۔
چھوٹی عمر ميں شادی کروادی گئ تھی۔ ايک بيٹی يماما اور ايک بيٹا منان تھا۔
وہ سب اکٹھے ايک ہی گھر ميں رہتے تھے۔
ايک بڑا بھائ ذوالفقار اور يہ خود نواز اور ايک بہن جو شادی شدہ نہيں تھی سب ماں باپ کے ہمراہ اپنے بيوی بچے لئے ايک ہی گھر ميں رہتے تھے۔ شادی اور اولاد کے بعد بھی اس نے اپنے شوق کو ختم نہيں ہونے ديا۔
بلکہ وہ چاہتا تھا کہ اسکے بھائ کا بڑا بيٹا نائل، اس سے چھوٹا شمائل ۔۔ اسکی اپنی بيٹی يماما اور بيٹا منان سب پڑھ لکھ کر اس فرسودہ نظام کا خاتمہ کريں۔
جاب کے ساتھ ساتھ اس نے شہر سے ايل ايل بی کی ڈگری بھی لينے کا ارادہ کيا۔
اور يہی بات سرتاج کو ہضم نہيں ہوئ۔
وہ جانتا تھا کہ نواز شہر جاکر نوکری کرتا ہے۔ گو کہ وہ يہ بھی نہيں چاہتا تھا۔ پھر بھی اس نے اسے کچھ نہ کہا۔
مگر اب ايل ايل بی کی ڈگری لے کر وہ افسروں ميں وکيلوں ميں شمار ہونے لگے گا۔
وہ جو کل کو انکے جوتے ٹھيک کرتے تھے اب سر اٹھا کر ان سے مليں گے۔
يہ سرتاج نہيں ہونے دے سکتا تھا۔
اسی قصے کو ختم کرنے کے لئے اس نے محمد بخش کو اپنی حويلی بلا کر دھمکياں ديں ۔
“اس سے کہو جلداز جلد يہ خناس اپنے دماغ سے نکال دے۔
نہيں تو مجھے کوئ اور طريقہ استعمال کرنا پڑے گا” غصے سے لال آنکھوں سے اسے ديکھا۔
جو ہاتھ باندھے روتا ہوا اس سے معافی مانگ رہا تھا۔
“جاؤ۔۔ دفع ہوجاؤ اور اب اپنے بيٹے کا دماغ سيدھا کرکے ہی ميری حويلی ميں قدم رکھنا۔ نہيں تو تيرے خاندان کی اينٹ سے اينٹ بجادوں گا” اسے وہاں سے جانے کا اشارہ کرتے ہوۓ وہ دھمکی دينے سے باز نہيں آيا۔
“جی جی صاحب” محمد بخش بچارا فورا وہاں سے اٹھ کر بھاگنے والے انداز ميں نکلا۔
_________________________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...