’ہوٹل روشنی پیلیس‘ کے کاؤنٹر پر نام پتہ درج کروا کر اپنی چابی لے رہا تھا کہ اچانک مجھے احساس ہوا کہ کوئی مجھے غور سے دیکھ رہا ہے۔ سوٹ بوٹ پہنے کسرتی بدن کا وہ شخص جس کی آنکھوں پر گہرے ہرے گاگلس لگے ہوئے تھے اور کنپٹی پر سفیدی پھیلی ہوئی تھی۔ سیاہ مونچھوں میں مسکراہٹ اور آنکھوں میں انجانی سی گہری سی پہچان کی چمک لیے کھڑا تھا۔ میں نے سرسری نظرسے اُسے دیکھا اور جوں ہی مُڑا، پیچھے سے آواز آئی، ’’نہال … !!‘‘ میں نے پلٹ کر دیکھا، وہ مسکرا رہا تھا۔
’’معاف کیجئے گا، میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔‘‘ میں نے شرمندگی سے کہا۔
’’ امیر سورٹھیایار!‘‘ اس نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور دوسرے ہی لمحے ہم دونوں ایک دوسرے کے سینے سے لگے ہوئے تھے۔
اُن دِنوں میں بسکٹ کی مشہور کمپنی پارلے میں سیلز منیجر کے عہدے پر تعینات تھا۔ میں اسی سلسلے میں بھوپال ریلوے اسٹیشن پر اترا تھا۔ اسٹیشن سے باہر آتے ہی آٹو رکشہ والوں کے ہجوم نے سواگت کیا۔
’’نیا مارکیٹ۔‘‘ میں جلدی سے ایک رکشہ میں سوا رہو گیا۔
’’لگتا ہے صاحب پہلی بار بھوپال آئے ہیں۔‘‘ رکشہ چالک نے ریئر آئینے سے جھانکتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔ میں نے گردن ہلا کر ’ہاں ‘ میں جواب دیا۔ اُس کا مجھے یہ پوچھنا اچھا نہیں لگا تھا کہ ’لو اب نیا جان کر شہر بھر گھما گھما کر پیسے اینٹھے گا۔ ‘
’’آپ کو بتاتا چلوں بھوپال کا اصلی نام بھوج پال تھا۔‘‘ رکشہ والے نے اچانک کہا، ’’ … ہم وی آئی پی روڈ سے گزر رہے ہیں … دیکھ رہے ہیں، یہ بڑا تالاب ہے۔ بھوپال اسی کے پانی پر چلتا ہے۔ تین سو ساٹھ مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔‘‘
’’ذرا دو منٹ آٹو روکنا تو … ‘‘ میں نے اس کو ٹوکا۔
’’راجہ بھوج کے ساتھ فوٹو کھنچوائیں گے صاحب!‘‘
میں نے مسکرا کر کیمرہ چلایا اور موبائل اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔
’’دیکھئے صاب، اونچے پتھر کے ستون پر پرمار راجہ بھوج کا بڑا سا پُتلا کس طرح کھڑا ہے۔ دھوتی پہنے ہوئے دائیں ہاتھ کی تلوار زمین کو چھو رہی ہے۔ مضبوط جسم، کم قد، بڑی بڑی مونچھیں، گلے میں زیور، سر پر تاج، ہاتھ میں بریس لیٹ، گلے میں سینے سے نیچے تک پہنچتے ہوئے پٹکے کو بائیں ہاتھ کی مٹھی سے دھوتی کی کمر پر پیچھے کو ڈھکیلتا ہوا، پیروں میں موجڑی۔۔ ۔۔‘‘ رکشہ چالک نے کچھ اس طرح تفصیل بتائی جیسے رپورٹ دے رہا ہو، ’’جی صاب، بتائیے، راجہ بھوج کو تو جانتے ہیں نا!‘‘
’’کہاں راجہ بھوج کہاں گنگو تیلی۔‘‘ مجھے خوشی ہوئی، ’’گنگو تیلی کہاں ہے بھائی؟‘‘
’’وہ تو بس محاورے میں زندہ ہے۔‘‘ اس نے رکشہ شروع کی، ’’ نیا مارکیٹ میں کون سے ہوٹل جائیں گے؟‘‘
’’ کسی اچھے، خوبصورت سے ہوٹل کی تلاش ہے۔‘‘
’’ ’ہوٹل روشنی پیلیس‘ کی اِن دنوں یہاں خوب پبلسٹی کی جا رہی ہے صاحب۔ کرایہ بھی معقول ہے۔‘‘ اس نے رکشہ کے ڈیش بورڈ سے ایک معمولی سا سفید وزٹنگ کارڈ نکالا۔
’’یہ میرا کارڈ ہے۔ کبھی شہر کی سیر کرنی ہو تو بلا لیجئے۔‘‘
امیر کو وہاں دیکھ کر اچانک مجھے بیس برس پرانا وہ زمانہ یاد آ گیا۔ جب جوانی طوفانی تھی۔ خون میں جوش تھا۔
’’تمہیں یاد ہے، ہم اسکول میں ماسٹر صاحب کو کس طرح بیوقوف بناتے اور فلمیں دیکھا کرتے تھے … اور پھر کالج کے پہلے سال کے تین مہینے تو سبحان اللہ … واللہ!‘‘
’’صاحب کا کمرہ نمبر سات ہے۔ سامان روم میں پہنچا دو۔‘‘ امیر نے ویٹر سے کہا۔
’’یہ ہمارا وی آئی پی روم ہے۔‘‘ اس نے مجھ سے کہا۔
’’لگیج نہیں، بس یہ بریف کیس ہے۔ کل روانگی ہے۔‘‘
’’آؤ کچھ دیر باتیں کرتے ہیں۔‘‘ اس نے میرا ہاتھ تھام لیا۔
’’ سفر میں بیٹھے بیٹھے پریشان ہو گیا ہوں۔‘‘
’’یاد ہے وہ زمانہ!‘‘ اس نے میرا ہاتھ دبایا۔
’’ہاں یار! وہ جوانی کے دن … وہ محبتیں!‘‘ میں نے آنکھ ماری۔ امیر کی محبت دیکھ کر پرانی یادوں سے میں رومانی ہونے لگا تھا۔ ’’یار وہ نّمو تو اب بال بچوں والی ہو چکی ہو گی؟‘‘ ہم دونوں اس نئے ہوٹل کے شاندار کاؤنٹر کے پیچھے پڑی نرم کُرسیوں میں دھنسنے بھی نہیں پائے تھے کہ میں نے پہلا سوال داغ دیا۔
’’صرف نوَ بچے ہیں۔‘‘ اس نے اپنی معلومات سے مجھے متاثر کیا، ’’راجو جُلاہے سے اس کی شادی ہوئی تھی۔ بے چارہ اُس وقت ہی ادھیڑ عمر کا تھا۔ اب تک تو کافی ڈھل چکا ہو گا۔‘‘
’’اوہ بیچاری نمّو! خیر! وہ بھی کیا یاد کرتی ہو گی! کس گبرو سے پالا پڑا تھا نوجوانی میں! کیا ڈائیلاگ بولا کرتے تھے یار ہم بھی! لڑکیاں تو بس فدا تھیں ہم پر!‘‘ میں نے بھویں اچکائیں، ’’مگر یار! کچھ بھی کہو، بیچاری نمو پر تو مجھے ترس آتا ہے۔ کہاں مجھ جیسا جوان پٹّھا … کہاں راجو جُلاہا!‘‘
امیر نے قہقہہ لگایا۔
’’اور کہاں نو نو بچے!‘‘ میں نے سنجیدہ مسکراہٹ کے ساتھ لُقمہ دیا، ’’میں تو بال بال بچ گیا۔‘‘ وہ لگاتار مسکراتا رہا۔
’’اور تو نے کتنے کیلنڈر ایشو کر دیئے؟‘‘ میں نے بڑے رازدارانہ لہجے میں پوچھا تو اُس نے مسکرانا بند کر دیا۔
’’یار! میں ایک بات تو کہے بغیر نہیں رہوں گا۔‘‘ میں نے زندہ دلی سے اس کے کندھے پر دھپ لگا دیا، ’’تیری زندہ دلی تو گئی، کیا روشنی نے ہنسی بند کروا دی؟‘‘ میں نے قہقہہ لگایا لیکن وہ چونک گیا۔
جذبات کی شدت سے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اس کی غیر ہوتی حالت دیکھ کر میں پریشان ہو گیا۔
’’کیا بات ہے امیر؟‘‘
وہ کچھ بھی نہ بولا۔ میں نے جلدی سے کاؤنٹر کے پاس کی تپائی پر رکھے مگ سے گلاس میں پانی انڈیلا اور اس کے ہونٹوں سے لگا دیا۔ گلاس خالی کر کے اس نے مجھے لوٹا دیا۔
’’نہال! … تو تم کچھ بھی نہیں جانتے نہال!‘‘ ذرا سنبھل کراس نے کہا، ’’شاید تمہیں کالج کے بعد کی خبر نہیں ملی! تمہیں کسی بات کا بھی پتہ نہیں!‘‘
’’روشنی مجھے بھائی کہتی تھی امیر! اس نے مجھے سب کچھ بتا دیا تھا۔ وہ تم سے دل کی گہرائیوں سے محبت کرتی تھی۔ وہ تمہارے لئے ساری دنیا کو ٹھکرا دینا چاہتی تھی … لیکن اسے تم سے شکایت تھی … تمہاری بزدلی!‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں میرے بھائی! مگر یہ میری بزدلی ہی تو نہیں تھی۔‘‘ اس نے بھی شکایت کے لہجے میں جواباً شکایت کی۔
’’چھوڑو یار تم بھی کیا لے بیٹھے۔‘‘ میں نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا مگر وہ بولتا رہا۔
’’روشنی نے مجھے اپنی محبت میں باندھ رکھا تھا۔ مجھے حوصلہ دیا تھا۔ طعنے کسے تھے کہ میں دنیا سے ڈرتا ہوں … اور آخر دوستوں کی مدد سے ایک دن مدراس جا کر شادی کر لی۔
’’اچھا!‘‘ میری حالت دِگر تھی۔
’’روشنی اپنی شادی کے لئے رکھے ہوئے گہنے اٹھا لائی تھی۔‘‘
’’تو تم نے انہی پیسوں سے ترقی کرتے کرتے یہ شاندار ہوٹل کھڑا لیا؟ … ایک بڑے بزنس میں … ‘‘ میں نے اس کی بات اُچک لی اور طنز سے بولا۔
’’نہیں نہال، ایسا نہ ہو سکا۔ مجھے کوئی راستہ نہیں سوجھتا تھا۔ … میں ہر دن کام کی تلاش میں نکل جاتا اور وہ لاج کے ایک کمرے میں میرا انتظار کرتی رہتی … ایک دن سارا زیور بِک گیا۔ ہم مشکل سے گزارا کرنے لگے۔ پتہ چلا، روشنی ماں بننے والی ہے۔‘‘ وہ کہتے کہتے رک گیا اور میرے ہاتھ سے گلاس لے کر پانی لینے کے لیے اپنی جگہ سے ہٹا اور میرا دل اِس کہانی کے عجیب و غریب پہلوؤں کو جاننے کے لیے بے چین ہو اٹھا۔
’’جب روشنی کی حالت بگڑنے لگی اور ہوٹل میں رہنے لائق نہ رہے تو مجبوراً ہمیں گاؤں لوٹنا پڑا۔‘‘ امیر پانی پی کر اپنی جگہ لوٹ آیا اور اپنی بات جاری رکھی، ’’مگر نہ روشنی کے ماں باپ نے ہمیں اپنے گھر میں جگہ دی اور نہ میرے ماں باپ نے اسے بہوہی سویکار کیا۔ وہ اپنے ماں باپ کے لیے اچھوت ہو گئی تھی اور میرے ماں باپ اپنی غریبی اور سماج سے ڈر گئے تھے۔‘‘ وہ پھر چپ ہو گیا۔
’’پھر؟ … روشنی کا کیا بنا؟‘‘
’’ پھر میں اُسے لے کراِسی شہر بھوپال آ گیا۔ ایئرپورٹ روڈ کے ایک سنسان علاقے میں میرے بابو ماما پانچویں منزلے کے فلیٹ میں رہتے تھے۔ ماما نے اپنے کسی دوست کے ہاتھوں مجھے سفر کے پیسے بھجوائے تھے اور مجھے اپنا کوئی خالی کمرہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے چابی لینے کے لیے مجھے اپنے گھر بلایا تھا۔
وہ گھر پر ہی تھے۔
’’آپ کا گارڈن اجڑا اجڑا ہے۔ کوئی اس میں آتا جاتا نہیں؟‘‘ میں نے پوچھ لیا۔
’’پچھلے دنوں بلڈنگ کی سوسائٹی والوں کی آپسی لڑائی میں یہاں کام کرنے والوں کو تنخواہ نہیں ملی اور وہ کام چھوڑ کر دھمکی دے کر چلے گئے۔‘‘ انہوں نے مختصراً بیان کیا۔
’’گارڈن میں کیچڑ بھی ہے۔‘‘
’’ہاں وہ پائپ لائن کھلی رہ گئی تھی۔‘‘
’’آپ کے گارڈن کے پیچھے بھی تو سرکاری گارڈن ہے!‘‘
’’ہاں وہ سوکھ چکا ہے۔ کسی کام کا نہیں۔‘‘
بابو ماما پریشان سے لگے۔
فلیٹ میں مجھے ہلکے پھلکے ناشتے کے ساتھ بٹھا کر اپنی کار سے چابی لینے وہ نیچے گئے۔
’’شاید میرا موبائل گاڑی میں رہ گیا ہے۔ تمہارے موبائل سے رِنگ کر لوں؟‘‘ کہہ کر میرا موبائل ساتھ لے گئے۔ کافی دیر بعد میں نے دروازہ کھول کر دیکھنا چاہا کہ بات کیا ہے! لیکن وہ دروازہ لاک کر کے جا چکے تھے۔ پیپ ہول سے باہر کے گرل پر تالا دکھائی دے رہا تھا۔ سارا گھر پنجرا سا تھا۔ لوہے کی جالی سے گھِرا ہوا۔ میں پریشانی میں بے تحاشہ ٹہل رہا تھا۔ فرج میں کھانے پینے کا سامان موجود تھا مگر فون کی لائنیں کٹی ہوئی تھیں۔ میں نے سارا گھر ڈھونڈ ڈالا۔ رابطے کا کوئی سامان نہیں تھا۔ تیسرے دن دوپہر بابو ماما فلیٹ پر آئے۔
’’یہ کیا کیا آپ نے؟ … وہ نیچے … ‘‘ میں دروازے کے پاس بھاگا کہ روشنی کی خبر لوں۔
’’ٹھہرو۔‘‘ ماما نے مجھے پکڑ لیا، ’’کہاں چلے؟‘‘
’’اپارٹمنٹس کے پچھواڑے میں روشنی کو سرکاری گارڈن کے جھولے پر انتظار کرتا چھوڑ آیا تھا۔‘‘ میں نے چیخ کے لہجے میں کہا۔
’’تم نے مجھے بتایا نہیں تھا کہ اسے گارڈن میں چھوڑ آئے ہو یا کہ وہ گارڈن میں بیٹھی تھی، نہیں تو کیا میں اُسے تمہارے پاس چھوڑ نہ جاتا؟‘‘
بابو ماما نے کہا۔ ’’صبح ایک لڑکی گارڈن میں سردی سے اکڑی ہوئی ملی تھی۔ بلڈنگ والے اسے ایک رکشہ میں ڈال کراسپتال میں چھوڑ آئے تھے۔‘‘
’’کون سا اسپتال؟‘‘ اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتے، میں اپنے آپ کو بابو ماما کے ہاتھ سے چھڑا کر دروازے سے باہر نکل گیا اور لفٹ کا بٹن دبا دیا۔ لفٹ اوپر آ رہی تھی۔ پہلے منزلے تک پہنچی ہی تھی مگراس کے فلور پر آنے سے پہلے ہی میں سیڑھیوں سے اتر نے لگا، بابو ماما نے آواز لگائی۔
’’امیر!‘‘ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ اُس وقت میری آنکھوں میں جیسے دھول اُڑ رہی تھی۔
’’ہمیں کیا معلوم تھا کہ وہ تمہاری روشنی ہے! اگر ایسا تھا تو تم چیخے چلّائے کیوں نہیں۔‘‘
’’بلڈنگ میں آپ کی بدنامی کے ڈر سے … !‘‘
بابو ماما عجیب نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔
’’مجھے لے چلئے وہاں!‘‘ میں بے حال ہو رہا تھا۔
’’اب مت جاؤ۔ پولیس انکوائری ہو رہی ہو گی۔ بچو گے نہیں۔‘‘
’’اس کے سامان میں ہماری شادی کے دستاویز ہیں۔‘‘ میرے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔
’’نہیں! شاید چوری ہو گیا سامان۔‘‘
’’آپ کیوں مجھے بند کر کے چلے گئے تھے؟آپ جانتے تھے میں اس کے ساتھ تھا!‘‘ میں نے گہری سانس لے کر کہا۔
’’۔۔ ۔ وہ لوٹ کیوں نہیں گئی … !!‘‘ ماما کی آواز میں پچھتاوا تھا۔
’’کہاں جاتی؟‘‘
’’ اپنے ماں باپ کے گھر۔۔ اور کہاں۔۔ ۔ کاش وہ ایسا کرتی!‘‘ بابو ماما نے آہ بھر کر دھیرے سے کہا۔
’’وہ نہیں گئی۔ اُس کے پاس کچھ پیسے بھی تھے … لوٹ سکتی تھی … مگر … اُسے مجھ پر اعتماد تھا … کہ میں اُسے … اور میں سمجھا … ‘‘
بابو ماما مجھے سینے سے لگانے لگے۔
’’روشنی مر گئی نہال … وہ مر گئی۔‘‘ وہ اپنی روَ میں کہتا چلا گیا، ’’سردیوں کی ٹھنڈی راتوں میں بھوکی پیاسی بیٹھے بیٹھے اکڑ کر مر گئی۔ طاقت بھی کہاں تھی بیچاری میں موسم کا مقابلہ کرنے کی … ساتھ میں بچہ!‘‘
میری نسوں میں سرد سی روَ بہنے لگی۔
’’اور تم خاموش تماشہ ہی دیکھتے رہے! … تو تم … تو تم اس کی لاش کو کندھا دینے نہ جا سکے؟‘‘
نہیں نہال! اسے کوئی کندھا نصیب نہ ہوا … !‘‘ اس کا گلا رُندھ گیا۔
’’کیونکہ تم سے شادی کر کے وہ کہیں جگہ پانے کے لائق نہیں رہی تھی۔ یہی نا؟‘‘ میں نے طنز سے کہا۔
’’پولیس نے اسے لا وارث قرار دیا … ہاں۔ وہ لا وارث … ‘‘ اُس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں مگر میرے دل پر اس کا اثر نہیں ہوا۔
’’جھوٹ! … تم اُس کے وارث تھے۔‘‘
’’میں کیا کرتا! … میرے حالات۔۔ میری عمر … ! کالج میں پڑھتے ہوئے لڑکے میں اتنی پختگی کہاں تھی!‘‘
’’یہ سب اُسے لے جانے، بیاہنے سے پہلے خیال میں نہیں آیا تھا کہ شادی ہوتی ہے تو پریوار بڑھتا ہے۔ اسے سنبھالنے کے لئے آمدنی کی ضرورت ہوتی ہے … ایک چھت کی ضرورت ہوتی ہے … ؟‘‘
’’ … نوجوانی کے جوش میں ہوش نہیں رہا تھا۔‘‘
’’ہاں اب یہی کہو گے تم؟ … سارے عقل کے اندھے یہی کہتے ہیں … مگر یاد رکھو، تم خونی ہو … دو انسانوں کے خوابوں، ان کے مستقبل کے ہی نہیں، دو جانوں کے بھی خونی … تم ان دونوں کے مجرم ہو!‘‘ غصے کی شدت سے میرا خون کھول اٹھا تھا۔ میرا ہاتھ اٹھ گیا، مٹھیاں کس گئیں۔ میں نے مشکل سے خود کو شانت کیا اور بولا،
’’آؤ اُن دونوں کی آتماؤں کی شانتی کے لئے دو منٹ کا مَون کریں۔‘‘ امیر نے مجھے حیرت سے دیکھا مگر میرے ساتھ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کھڑا بھی تھا۔
دو منٹ ہو گئے۔ میں نے اپنی آنکھیں کھولیں۔
’’سچ بتانا، تم نے شور اِس لئے نہیں مچایا تھا نا کہ وہ کہیں چلی جائے اور تم پر الزام نہ آئے … تم خود کو بے بس کہلاؤ … کہہ لو … ؟ تمہارے بابو ماما نے اپنی بیٹی سے
تمہاری شادی کروا دی ہو گی۔ اِس ہوٹل کو روشنی کا نام دے کر خود کو بہلا لیا ہو گا! بولو ہے نا! صحیح کہا نا میں نے؟‘‘
مگر وہ خاموش رہا جیسے سنا ہی نہ ہو۔ چار پانچ … دس منٹ۔ امیر نے اپنی آنکھیں نہیں کھولی تھیں۔ اس کا ہاتھ سینے پر بندھا ہوا ہی تھا اور گردن سینے پر جھُکی ہوئی تھی۔ میں اُس کے سُرخ چہرے کو ذرا دیر غور سے دیکھتا رہا۔ بریف کیس کے نیچے دبا ہوا کاغذ نیچے گرنے کی تیاری کر رہا تھا۔ میں نے پاس پڑے بِلّوریں پیپرویٹ کو کاغذ کے اُس ٹکڑے پر رکھ دیا اور بریف کیس اٹھا کر وہاں سے نکل گیا۔
٭٭٭