سعیدہ اماں سے اس کی پہلی ملاقات ڈاکٹر سبط علی نے ملتان جانے سے پہلے لاہور میں کروائی تھی۔ سعدہ اماں کے بہت سے عزیز و اقارب ملتان میں رہتےتھے۔ ڈاکٹر سبط علی امامہ کو ان سے آگاہ کرنا چاہتے تھے، تاکہ ملتان میں قیام کے دوران کسی بھی ضرورت یا ایمرجنسی میں وہ ان کی مدد لے سکے۔
سعیدہ اماں ایک پینسٹھ ستر سالہ بے حد باتونی اور ایکٹو عورت تھیں۔ وہ لاہور کے اندرون شہر میں ایک پرانی حویلی میں تنہا رہتی تھیں۔ ان کے شوہر کا انتقال ہوچکا تھا جبکہ دو بیٹے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہیں مقیم تھے۔ وہ دونوں شادی شدہ تھے اور ان کے بے حد اصرار کے باوجود سعیدہ اماں باہر جانے پر تیار نہیں تھیں۔ ان کے دونوں بیٹے باری باری ہر سال پاکستان آیا کرتے اور کچھ عرصہ قیام کے بعد واپس چلے جاتے تھے۔ ڈاکٹر سبط علی سے ان کی قرابت داری تھی۔ وہ ان کے کزن ہوتے تھے۔
ڈاکٹر سبط علی نے امامہ کے بارے میں پہلے ہی سعیدہ اماں کو بتا دیا تھا۔ اس لئے جب وہ ان کے ساتھ ان کے گھر پہنچی تو وہ بڑی گرمجوشی سے اس سے ملی تھیں۔ انہوں نے ملتان میں موجود تقریباً اپنے ہر رشتے دار کے بارے میں تفصیلات اس کے گوش گزار کر دی تھیں اور پھر شاید اس سب کو ناکافی جانتے ہوئے انہوں نے خود ساتھ چل کر اسے ہاسٹل چھوڑ آنے کی آفر کی جسے ڈاکٹر سبط علی نے نرمی سے رد کردیا تھا۔
“نہیں آپا! آپ کو زحمت ہوگی۔” ان کے بے حد اصرار کے باوجود وہ نہیں مانے تھے۔
“بہتر تو یہ ہے بھائی صاحب کہ آپ اسے میرے بھائیوں میں سے کسی سے گھر ٹھہرا دیں۔ بچی کو گھر جیسا آرام اور ماحول ملے گا۔
انہیں اچانک ہاسٹل پر اعتراض ہونے لگا اور پھر انہوں نے ہاسٹل کی زندگی کے کئی مسائل کے بارے میں روشنی ڈالی تھی مگر ڈاکٹر سبط علی اور خود وہ بھی کسی کے گھر میں رہنا نہیں چاہتی تھی۔ ہاسٹل بہترین آپشن تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سعیدہ اماں سے اس کی دوسری ملاقات ملتان جانے کے چند ماہ بعد اس وقت ہوئی تھی جب ایک دن اچانک اسے کسی خاتون ملاقاتی کی اطلاع ہاسٹل میں دی گئی تھی۔ کچھ دیر کے لئے وہ خوفزدہ ہوگئی تھی۔ وہاں اس طرح اچانک اس سے ملنے کون آسکتا تھا اور وہ بھی ایک خاتون۔۔۔۔۔ مگر سعیدہ اماں کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔ وہ اس سے اسی گرمجوشی سے ملی تھیں، جس طرح لاہور میں ملی تھیں۔ وہ تقریباً دو ہفتے ملتان میں رہی تھیں اور ان دو ہفتوں میں کئی بار اس سے ملنے آئیں۔ ایک بار وہ ان کے ساتھ ہاسٹل سے ان کے بھائی کے گھر بھی گئی۔
پھر یہ جیسے ایک معمول بن گیا تھا۔ وہ چند ماہ ملتان آتیں اور اپنے قیام کے دوران باقاعدگی سے اس کے پاس آتی رہتیں۔ وہ خود جب مہینے میں ایک بار لاہور آتی تو ان سے ملنے کے لئے بھی جاتی۔ کئی بار جب اس کی چھٹیاں زیادہ ہوتیں تو وہ اسے وہاں ٹھہرنے کے لئے اصرار کرتیں۔ وہ کئی بار وہاں رہی تھی۔ سرخ اینٹوں کا بنا ہوا وہ پرانا گھر اسے اچھا لگتا تھا یا پھر یہ تنہائی کا وہ احساس تھا جو وہ ان کے ساتھ شئیر کررہی تھی۔ اس کی طرح وہ بھی تنہا تھیں۔ اگرچہ ان کی یہ تنہائی ان کے ہمہ وقت میل جول کی وجہ سے کم ہوجاتی تھی مگر اس کے باوجود امامہ ان کے احساسات کو بنا کوشش کئے سمجھ سکتی تھی۔
لاہور واپس شفٹ ہونے سے بہت عرصہ پہلے ہی انہوں نے امامہ سے یہ جان لینے کے بعد کہ وہ ایم ایس سی لاہور سے کرنا چاہ رہی ہے، اسے ساتھ رکھنے کے لئے اصرار کرنا شروع کردیا۔
اسی عرصے کے دوران ڈاکٹر سبط علی کی سب سے بڑی بیٹی ان کے پاس بچوں سمیت کچھ عرصہ کے لئے رہنے چلی آئیں۔ ان کے شوہر پی ایچ ڈی کے لئے بیرون ملک چلے گئے تھے۔ وہ ڈاکٹر سبط علی کے بھتیجے تھے۔ جانے سے پہلے وہ اپنی فیملی کو ان کے ہاں ٹھہرا گئے۔ ڈاکٹر سبط علی کے گھر میں جگہ کی کمی نہیں تھی مگر امامہ اب ان کے گھر میں رہنا نہیں چاہ رہی تھی۔ وہ جلد از جلد اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتی تھی۔ ڈاکٹر سبط علی کے احسانات کا بوجھ پہلے ہی اسے زیر بار کررہا تھا۔ وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ ان کے پاس رہ کر تعلیم حاصل کرے اور اس کے بعد اس کے جاب کرنے پر بھی وہ اسے کہیں اور رہنے نہ دیتے لیکن اگر وہ پہلے ہی علیحدہ رہائش اختیار رکھتی تو اس کے لئے ان سے اپنی بات منوانا آسان ہوتا۔ سعیدہ اماں کا گھر اسے اپنی رہائش کے لئے بہت مناسب لگا تھا۔ وہ جاب شروع کرنے پر انہیں مجبور کرکے کرائے کی مد میں کچھ نہ کچھ لینے پر مجبور کرسکتی تھی مگر ڈاکٹر سبط علی شاید یہ سب کبھی گوارا نہ کرتے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر سبط علی کے لئے اس کا فیصلہ ایک شاک کی طرح تھا۔
“کیوں آمنہ! میرے گھر پر کیوں نہیں رہ سکتیں آپ؟” انہوں نے بہت ناراضی سے اس سے کہا۔ “سعیدہ آپا کے ساتھ کیوں رہنا چاہتی ہیں؟”
“وہ بہت اصرار کررہی ہیں۔”
“میں انہیں سمجھا دوں گا۔”
“نہیں، میں خود بھی ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ میں ان کے ساتھ رہوں گی تو ان کی تنہائی دور ہوجائے گی۔”
“یہ کوئی وجہ نہیں ہے۔ آپ ان کے پاس جب چاہیں جاسکتی ہیں، مگر ساتھ رہنے کے لئے نہیں۔”
“پلیز، آپ مجھے وہاں رہنے کی اجازت دے دیں، میں وہاں زیادہ خوش رہوں گی۔ میں اب آہستہ آہستہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتی ہوں۔”
ڈاکٹر سبط علی نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
پیروں پر کھڑے ہونے سے کیا مراد ہے آپ کی؟”
وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر اس نے کہا۔
“میں آپ پر بہت لمبے عرصے تک بوجھ نہیں بننا چاہتی۔ پہلے ہی میں بہت سال سے آپ پر انحصار کررہی ہوں، مگر ساری زندگی تو میں آپ پر بوجھ بن کر نہیں گزار سکتی۔”
وہ بات کرتے کرتے رک گئی۔ اسے لگا اس کے آخری جملے نے ڈاکٹر سبط علی کو تکلیف دی تھی۔ اسے پچھتاوا ہوا۔
“میں نے کبھی بھی آپ کو بوجھ نہیں سمجھا آمنہ! کبھی بھی نہیں۔ بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں اور میرے لئے آپ ایک بیٹی کی طرح ہیں پھر یہ بات۔۔۔۔۔ مجھے بہت دکھ ہوا ہے۔”
“میں جانتی ہوں ابو! مگر میں صرف اپنی فیلنگز کی بات کررہی ہوں۔ دوسرے پر ڈیپینڈنٹ ہونا بہت تکلیف دہ بات ہے۔ میں سعیدہ اماں کے ساتھ رہ کر زیادہ پرسکو ن رہوں گی میں انہیں پے (pay) کروں گی۔ آپ کو میں کبھی پے(pay) کرنا چاہوں بھی تو نہ کرسکوں گی۔ شاید مجھے دس زندگیاں بھی ملیں تو میں آپ کے احسانات کا بدلہ نہیں اتار سکتی مگر اب بس۔۔۔۔۔ اب اور نہیں۔۔۔۔۔ میں نے زندگی کو گزارنے کے سارے طریقے ابھی سیکھنے ہیں۔ مجھے سیکھنے دیں۔”
ڈاکٹر سبط علی نے اس کے بعد اسے دوبارہ اپنے گھر میں رہنے پر مجبور نہیں کیا تھا۔ وہ اس کے لئے بھی ان کی احسان مند تھی۔
سعیدہ امان کے ساتھ رہنے کا تجربہ اس کے لئے ہاسٹل میں یا ڈاکٹر سبط علی کے ہاں رہنے سے بالکل مختلف تھا۔ اسے ان کے پاس ایک عجیب سی آزادی اور خوشی کا احساس ہوا تھا۔ وہ بالکل اکیلی رہتی تھیں۔ صرف ایک ملازمہ تھی جو دن کے وقت گھر کے کام کردیا کرتی تھی اور شام کو واپس چلی جایا کرتی تھی۔ وہ بے حد سوشل لائف گزارتی تھیں۔ محلے میں ان کا بہت آنا جانا تھا۔ اور نہ صرف محلے میں بلکہ اپنے رشتے داروں کے ہاں بھی اور ان کے گھر بھی اکثر کوئی نہ کوئی آتا رہتا تھا۔
انہوں نے محلے میں ہر ایک سے امامہ کا تعارف اپنی بھانجی کہہ کر کروایاتھا اور چند سالوں کے بعد یہ تعارف بھانجی سے بیٹی میں تبدیل ہوگیا تھا، اگرچہ محلے والے پچھلے تعارف سے واقف تھے، مگر اب کسی نئے ملنے والے سے جب وہ امامہ کو بیٹی کی حیثیت سے متعارف کرواتیں تو کسی کو کوئی تجسس نہیں ہوتا تھا۔ لوگ سعیدہ اماں کی عادت سے واقف تھے کہ وہ کتنا محبت بھرا دل رکھتی تھیں۔ ان کے بیٹے بھی امامہ سے واقف تھے بلکہ وہ باقاعدگی سے فون پر سعیدہ اماں سے بات کرتے ہوئے اس کا حال احوال بھی دریافت کرتے رہتے تھے۔ ان کی بیوی اور بچے بھی اس سے بات چیت کرتے رہتے تھے۔
ان کے بیٹے ہر سال پاکستان آیا کرتے تھے اور ان کے قیام کے دوران بھی امامہ کو کبھی ایسا محسوس نہیں ہوتا تھا۔ جیسے وہ ان کی فیملی کا حصہ نہیں تھی، بعض دفعہ اسے یوں ہی لگتا جیسے وہ واقعی سعیدہ اماں کی بیٹی اور ان کے بیٹوں کی بہن تھی۔ ان دونوں کے بچے اسے پھپھو کہا کرتے تھے۔
پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی کرنے کے بعد اس نے ڈاکٹر سبط علی کے توسط سے ایک فارماسیوٹیکل کمپنی میں جاب شروع کردی۔ اس کی جاب بہت اچھی تھی اور پہلی بار اس نے مالی طور پر خودمختاری حاصل کرلی تھی۔ یہ ویسی زندگی نہیں تھی جیسی وہ اپنے والدین کے گھر گزارتی تھی نہ ہی ویسی تھی جیسی زندگی کے وہ خواب دیکھا کرتی تھی مگر یہ ویسی بھی نہیں تھی جن خدشات کا وہ گھر سے نکلتے وقت شکار تھی۔ وہ ہر ایک کے بارے میں نہیں کہہ سکتی مگر اس کے لئے زندگی معجزات کا دوسرا نام تھی۔ سالار سکندر جیسے لڑکے سے اس طرح کی مدد، ڈاکٹر سبط علی تک رسائی۔۔۔۔۔ سعیدہ اماں جیسے خاندان سے ملنا۔ تعلیم کا مکمل کرنا اور پھر وہ جاب۔۔۔۔۔ صرف جلال انصر تھا جس کا خیال ہمیشہ اسے تکلیف میں مبتلا کردیتا تھا اور شاید اسے مل جاتا تو وہ خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھتی۔
آٹھ سالوں نے اس میں بہت سی تبدیلیاں پیدا کردی تھیں۔ گھر سے نکلتے وقت وہ جانتی تھی کہ اب دنیا میں اس کے نخرے اٹھانے والا کوئی نہیں تھا۔ اسے کسی سے کوئی توقعات وابستہ کرنی تھیں نہ ہی ان کے پورا نہ ہونے پر تکلیف محسوس کرنی تھی۔ اس کا رونا دھونا بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتا جارہا تھا۔ بیس سال کی عمر میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوفزدہ اور پریشان ہونے والی امامہ ہاشم آہستہ آہستہ اپنا وجود کھوتی گئی تھی۔ نئی نمودار ہونے والی امامہ زیادہ پراعتماد اور مضبوط اعصاب رکھتی تھی مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ بہت زیادہ محتاط بھی ہوگئی تھی۔ ہر چیز کے بارے میں، اپنی گفتگو کے بارے میں۔ اپنے طور اطوار کے بارے میں۔
ڈاکٹر سبط علی اور سعیدہ اماں دونوں کے خاندانوں نے اسے بہت محبت اور اپنائیت دی تھی لیکن اس کے باوجود وہ ہمیشہ کوشش کرتی تھی کہ وہ کوئی ایسی بات یا حرکت نہ کرے، جو انہیں قابلِ اعتراض یا ناگوار لگے۔ ہاشم مبین کے گھر میں اسے یہ ساری احتیاطیں نہیں کرنی پڑتی تھیں مگر وہاں سے نکل کر اسے یہ سب کچھ سیکھنا پڑا تھا۔
سعیدہ اماں کی گمشدگی کے دوران وہ آفس میں تھی۔ چار بجے کے قریب جب وہ گھر آئی تو گھر کو تالا لگا ہوا تھا۔ اس کے پاس اس تالے کی دوسری چابی تھی، کیونکہ اس سے پہلے بھی سعیدہ اماں کئی بار اِدھر اُدھر چلی جایا کرتی تھیں۔ اسے تشویش نہیں ہوئی۔
لیکن جب مغرب کی اذان ہونے لگی تو وہ پہلی بار فکر مند ہوئی کیونکہ وہ شام کو بتائے بغیر کبھی یوں غائب نہیں ہوئی تھیں ساتھ والوں کے ہاں پتا کرنے پر اسے پتا چلا کہ ان کا بیٹا انہیں بلال کے گھر صبح چھوڑ آیا تھا۔ سعیدہ اماں پہلے بھی اکثر وہاں آتی جاتی رہتی تھیں اس لئے امامہ ان لوگوں کو اچھی طرح جانتی تھی۔ اس نے وہاں فون کیا تو اسے پتا چلا کہ وہ دوپہر کو وہاں سے جاچکی تھیں اور تب پہلی بار اسے صحیح معنوں میں تشویش ہونے لگی۔
اس نے باری باری ہر اس جگہ پتا کیا جہاں وہ جاسکتی تھیں مگر وہ کہیں بھی نہیں ملیں اور تب اس نے ڈاکٹر سبط علی کو اطلاع دی۔ اس کی حالت تب تک بے حد خراب ہوچکی تھی۔ سعیدہ اماں کا میل جول اپنے محلے تک ہی تھا۔ وہ اندرون شہر کے علاوہ کسی جگہ کو اچھی طرح نہیں جانتی تھیں۔ انہیں کسی دوسرے جگہ جانا ہوتا تو وہ ہمسایوں کے کسی لڑکے کے ساتھ جاتیں یا پھر امامہ کے ساتھ اور یہی بات امامہ کو تشویش میں مبتلا کررہی تھی۔
دوسری طرف سالار اندرون شہر کے سوا شہر کے تمام پوش علاقوں سے واقف تھا۔ اگر اسے اندرون شہر کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات بھی ہوتیں تب بھی وہ سعیدہ اماں کے ادھورے پتے کے باجود کسی نہ کسی طرح ان کے گھر پہنچ جاتا۔
ڈاکٹر سبط علی نے رات گئے اسے سعیدہ اماں کی خیریت سے اپنے کسی جاننے والے کے پاس ہونے کی اطلاع دی اور امامہ کی جیسے جان میں جان آئی۔
مزید ایک گھنٹے بعد دروازے کی بیل بجی تھی اور اس نے تقریباً بھاگتے ہوئے جاکر دروازہ کھولا۔ دروازے کی اوٹ سے اس نے سعیدہ اماں کے پیچھے کھڑے ایک خوش شکل آدمی کو دیکھا، جس نے دروازہ کھلنے پر اسے سلام کیا اور پھر سعیدہ اماں کو خداحافظ کہتے ہوئے مڑ گیا اور اس دوسرے دراز قامت شخص کے پیچھے چلنے لگا جس کی امامہ کی طرف پشت تھی۔ امامہ نے اس پر غور نہیں کیا وہ تو بے اختیار سعیدہ اماں سے لپٹ گئی تھی۔
سعیدہ اماں اگلے کئی دن اس کے سامنے ان دونوں کا نام لیتی رہیں، سالار اور فرقان۔ امامہ کو پھر بھی شبہ نہیں ہوا کہ وہ سالار۔۔۔۔۔ سالار سکندر بھی ہوسکتا تھا۔۔۔۔۔ مردہ لوگ زندہ نہیں ہوسکتے تھے اور اسے اگر اس کی موت کا یقین نہ بھی ہوتا تب بھی سالار سکندر جیسا شخص نہ تو ڈاکٹر سبط علی کا شناسا ہوسکتا تھا نہ ہی اس میں اس طرح کی اچھائیاں ہوسکتی تھیں جن اچھائیوں کا ذکر سعیدہ اماں وقتاً فوقتاً کرتی رہتی تھیں۔
اس کے کچھ عرصے بعد اس نے جس شخص کو اس رات سعیدہ اماں کے ساتھ سیڑھیوں پر کھڑے دیکھا تھا اس شخص سے اس کی پہلی ملاقات ہوئی۔ فرقان اپنی بیوی کے ساتھ ان کے ہاں آیا تھا۔ اسے وہ اور اس کی بیوی دونوں اچھے لگے تھے پھر وہ چند ایک بار اور ان کے گھر آئے تھے۔ ان کے ساتھ ان کی شناسائی میں اضافہ ہوگیا تھا۔
اسے جاب کرتے تب دوسال ہوچکے تھے۔ کچھ وقت شاید اور اسی طرح گزر جاتا۔ اگر وہ اتفاقاً ایک روز اس سڑک سے نہ گزرتی جہاں جلال کے بنائی ہوئے ہاسپٹل کے باہر اس کا نام آویزاں تھا۔ جلال انصر کا نام اس کے قدم روک دینے کے لئے کافی تھا مگر کچھ دیر تک ہاسپٹل کے باہر اس کا نام دیکھتے رہنے کے بعد اس نے طے کیا تھا کہ وہ دوبارہ اس سڑک پر کبھی نہیں آئے گی۔
جلال شادی کرچکا تھا۔ یہ وہ گھر چھوڑتے وقت ہی سالار سے جان چکی تھی اور وہ دوبارہ اس کی زندگی میں نہیں آنا چاہتی تھی مگر اس کا یہ فیصلہ دیرپا ثابت نہیں ہوا۔
دو ہفتے کے بعد فارماسیوٹیکل کمپنی کے آفس میں ہی اس کی ملاقات رابعہ سے ہوئی۔ رابعہ وہاں کسی کام سے آئی تھی۔ چند لمحوں کے لئے تو اسے اپنے سامنے دیکھ کر اس کی سمجھ ہی میں نہیں آیا کہ وہ کس طرح کا ردعمل ظاہر کرے۔ یہ مشکل رابعہ نے آسان کردی۔ وہ اس سے بڑی گرمجوشی کے ساتھ ملی تھی۔
“تم یک دم کہاں غائب ہوگئی تھیں۔ کالج اور ہاسٹل میں تو ایک لمبا عرصہ طوفان مچا رہا۔”
رابعہ نے چھوٹتے ہی اس سے پوچھا۔ امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔
“بس میں گھر سے چلی گئی تھی۔ کیوں گئی تھی تم تو جانتی ہی ہوگی۔” امامہ نے مختصراً کہا۔
“ہاں، مجھے کچھ اندازہ تو تھا ہی مگر میں نے کسی سے ذکر نہیں کیا۔ ویسے ہم لوگوں کی بڑی کم بختی آئی۔ میری، جویریہ، زینب، سب کی۔۔۔۔۔ پولیس تک نے پوچھ گچھ کی ہم سے۔ ہمیں تو کچھ پتا ہی نہیں تھا تمہارے بارے میں، مگر ہاسٹل اور کالج میں بہت ساری باتیں پھیل گئی تھیں تمہارے بارے میں۔”
رابعہ اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھی مسلسل بولے جارہی تھی۔
“تم اکیلی ہی گئی تھیں؟” اس نے بات کرتے کرتے اچانک پوچھا۔
“ہاں۔” امامہ انٹر کام پر چائے کا کہتے ہوئے بولی۔
“مگر گئی کہاں تھیں؟”
“کہیں نہیں، یہیں لاہور میں تھی۔ تم بتاؤ، تم کیا کررہی ہو آج کل اور جویریہ۔۔۔۔۔ باقی سب۔”
امامہ نے بات بدلتے ہوئے کہا۔
“میں پریکٹس کررہی ہوں لاہور میں۔ جویریہ اسلام آباد میں ہوتی ہے۔ شادی ہوگئی ہے اس کی ایک ڈاکٹر سے۔ میری بھی فاروق سے ہوئی ہے۔ تمہیں تو یاد ہوگا کلاس فیلو تھا میرا۔”
امامہ مسکرائی۔ “اور زینب؟” اس کا دل بے اختیار دھڑکا تھا۔
“ہاں، زینب آج کل انگلینڈ میں ہوتی ہے۔ ریزیڈنسی کررہی ہے وہاں اپنے شوہر کے ساتھ۔ اس کے بھائی کے ہاسپٹل میں ہی فاروق پریکٹس کرتے ہیں۔”
امامہ نے بے اختیار اسے دیکھا۔ “جلال انصر کے ہاسپٹل میں؟”
“ہاں، اسی کے ہاسپٹل میں۔ وہ اسپیشلائزیشن کرکے آیا ہے کچھ عرصہ پہلے لیکن بے چارے کے ساتھ بڑی ٹریجڈی ہوئی ہے۔ چند ماہ پہلے طلاق ہوگئی ہے۔ حالانکہ اتنا اچھا بندہ ہے مگر۔”
امامہ اس کے چہرے سے نظر نہیں ہٹا سکی۔
“طلاق۔۔۔۔۔! کیوں؟”
“پتا نہیں، فارق نے پوچھا تھا اس سے۔ کہہ رہا تھا انڈراسٹینڈنگ نہیں ہوئی۔ بیوی بھی بڑی اچھی تھی اس کی۔ ڈاکٹر ہے وہ بھی لیکن پتا نہیں کیوں طلاق ہوگئی۔ ہم لوگوں کا تو خاصا آنا جانا تھا ان کے گھر میں۔ ہمیں کبھی بھی اندازہ نہیں ہوا کہ ایسا کوئی مسئلہ ہے دونوں کے درمیان۔ ایک بیٹا ہے تین سال کا ۔وہ جلال کے پاس ہی ہے۔ اس کی بیوی واپس امریکہ چلی گئی ہے۔”
رابعہ لاپروائی سے تمام تفصیلات بتا رہی تھی۔
“تم اپنے بارے میں بتاؤ یہ تو میں جان گئی ہوں کہ یہاں جاب کررہی ہو، مگر اسٹڈیز تو تم نے مکمل نہیں کی۔”
“ایم ایس سی کیا ہے کیمسٹری میں۔”
“اور شادی وغیرہ؟”
“وہ ابھی نہیں۔”
“پیرنٹس کے ساتھ تمہارا جھگڑا ختم ہوا یا نہیں؟”
امامہ نے حیرت سے اس کو دیکھا۔
“نہیں۔” پھر اس نے مدھم آواز میں کہا۔
وہ کچھ دیر اس کے پاس بیٹھی رہی پھر چلی گئی۔ امامہ باقی کا سارا وقت آفس میں ڈسٹرب رہی۔ اس نے جلال انصر کو کبھی بھلایا نہیں تھا۔ وہ اسے بھلا نہیں سکتی تھی۔ اس نے صرف اپنی زندگی سے اس کو الگ کردیا تھا مگر وہاں بیٹھے ہوئے اس دن اسے احساس ہوا کہ یہ بھی ایک خوش گمانی یا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ وہ جلال انصر کو اپنی زندگی سے الگ بھی نہیں کرسکتی تھی۔ وہ صرف اس کی زندگی میں داخل ہو کر اسے کسی پریشانی سے دوچار کرنا چاہتی تھی نہ ہی اس کی ازدواجی زندگی کو خراب کرنا چاہتی تھی لیکن یہ جاننے کے بعد کہ اس کی ازدواجی زندگی پہلے ہی ناکام ہوچکی ہے اور وہ ایک بار پھر اکیلا تھا۔ اسے یاد آیا آٹھ سال پہلے وہ کس طرح اس شخص کے حصول کے لئے بچوں کی طرح مچلتی رہی تھی۔ وہ اسے حاصل نہیں کرسکی تھی۔ تب بہت سی دیواریں، بہت سی رکاوٹیں تھیں جنہیں وہ پار کرسکتی تھی نہ جلال انصر کرسکتا تھا۔
مگر اب بہت وقت گزر چکا تھا۔ ان رکاوٹوں میں سے اب کچھ بھی ان دونوں کے درمیان نہیں تھا۔ اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی کہ وہ ایک شادی کرچکا تھا یا اس کا ایک بیٹا بھی تھا۔
“مجھے اس کے پاس ایک بار پھر جانا چاہیے، شاید وہ اب بھی میرے بارے میں سوچتا ہو شاید اسے اب اپنی غلطی کا احساس ہو۔” امامہ نے سوچا تھا۔
اس نے آخری بار فون پر بات کرتے ہوئے اس سے جو کچھ کہا تھا، امامہ اس کے لئے اس کو معاف کرچکی تھی۔ جلال کی جگہ جو بھی ہوتا وہ یہی کہتا۔ صرف ایک لڑکی کے لئے تو کوئی بھی اتنے رسک نہیں لیتا اور پھر اس کا کیرئیر بھی تھا جسے وہ بنانا چاہتا تھا۔ اس کے پیرنٹس کی اس سے کچھ امیدیں تھیں جنہیں وہ ختم نہیں کرسکتا تھا۔ میری طرح وہ بھی مجبور تھا۔ بہت سال پہلے کہے گئے اس کے جملوں کی بازگشت نے بھی اسے دلبرداشتہ یا اپنے فیصلے پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا۔
“مجھے اس کے پاس جانا چاہئے۔ ہوسکتا ہے یہ موقع مجھے اللہ نے ہی دیا ہو۔ ہوسکتا ہے اللہ نے میری دعاؤں کو اب قبول کرلیا ہو۔ ہوسکتا ہے اللہ کو مجھ پر اب رحم آگیا ہو۔”
وہ باربار سوچ رہی تھی۔
“ورنہ اس طرح اچانک رابعہ میرے سامنے کیوں آجاتی۔ مجھے کیوں یہ پتا چلتا کہ اس کی بیوی سے علیحدگی ہوچکی ہے۔ ہوسکتا ہے اب میں اس کے سامنے جاؤں تو۔۔۔۔۔۔” وہ فیصلہ کرچکی تھی۔ وہ جلال انصر کے پاس دوبارہ جانا چاہتی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“میں ڈاکٹر جلال انصر سے ملنا چاہتی ہوں۔” امامہ نے ریپشنسٹ سے کہا۔
“اپائنٹمنٹ ہے آپ کی؟ اس نے پوچھا۔
“نہیں، اپائنٹمنٹ تو نہیں ہے۔”
“پھر تو وہ آپ سے نہیں مل سکیں گے۔ اپائنٹمنٹ کے بغیر وہ کسی پیشنٹ کو نہیں دیکھتے۔” اس نے بڑے پروفیشنل انداز میں کہا۔
“میں پیشنٹ نہیں ہوں۔ ان کی دوست ہوں۔” امامہ نے کاؤنٹر پر ہاتھ رکھتے ہوئے مدھم آواز میں کہا۔
“ڈاکٹر صاحب جانتے ہیں کہ آپ اس وقت ان سے ملنے آئیں گی؟” ریپشنسٹ نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
“نہیں۔” اس نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔
“ایک منٹ، میں ان سے پوچھتی ہوں۔” اس نے ریسیور اٹھاتے ہوئے کہا۔
“آپ کا نام کیا ہے؟” وہ ریپشنسٹ کا چہرہ دیکھنے لگی۔
“آپ کا نام کیا ہے؟” اس نے اپنا سوال دہرایا۔
“امامہ ہاشم۔” اسے یاد نہیں اس نے کتنے سالوں بعد اپنا نام لیا تھا۔
“سر! کوئی خاتون آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔ وہ کہہ رہی ہیں کہ آپ کی دوست ہیں۔ امامہ ہاشم نام ہے ان کا۔”
وہ دوسری طرف سے جلال کی گفتگو سنتی رہی۔
“اوکے سر۔” پھر اس نے ریسیور رکھ دیا۔
“آپ اندر چلی جائیں۔” ریپشنسٹ نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا۔
وہ سر ہلاتے ہوئے دروازہ کھول کر اندر چلی گئی۔ جلال انصر کا ایک مریض باہر نکل رہا تھا اور وہ خود اپنی میز کے پیچھے کھڑا تھا۔ امامہ نے اس کے چہرے پر حیرت دیکھی تھی۔ وہ اپنے دھڑکتے دل کی آواز باہر تک سن سکتی تھی۔ اس نے جلال انصر کو آٹھ سال اور کتنے ماہ کے بعد دیکھا تھا۔ امامہ نے یاد کرنے کی کوشش کی۔ اسے یاد نہیں آیا۔
“What a pleasant surprise Imama” (کیسا خوشگوار سرپرائز ہے امامہ!)۔
جلال نے آگے بڑھ کر اس کی طرف آتے ہوئے کہا۔
“مجھے یقین نہیں آرہا، تم کیسی ہو؟”
“میں ٹھیک ہوں، آپ کیسے ہیں؟”
وہ اس کے چہرے سے نظریں ہٹائے بغیر بولی۔ پچھلے آٹھ سال سے یہ چہرہ ہر وقت اس کے ساتھ رہا تھا اور یہ آواز بھی۔
“میں بالکل ٹھیک ہوں، آؤ بیٹھو۔”
اس نے اپنی ٹیبل کے سامنے پڑی ہوئی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ خود ٹیبل کے دوسری جانب اپنی کرسی کی طرف بڑھ گیا۔
وہ ہمیشہ سے جانتی تھی۔ وہ جلال انصر کو جب بھی دیکھے گی اس کا دل اسی طرح بے قابو ہوگا مگر اتنی خوشی ،ایسی سرشاری تھی جو وہ اپنے رگ و پے میں خون کی طرح دوڑتی محسوس کررہی تھی۔
“کیا پیو گی؟ چائے، کافی سوفٹ ڈرنک؟” وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔
“جو آپ چاہیں۔”
“اوکے، کافی منگوا لیتے ہیں۔ تمہیں پسند تھی۔”
وہ انٹر کام اٹھا کر کسی کو کافی بھجوانے کی ہدایت دے رہا تھا اور وہ اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر داڑھی اب نہیں تھی۔ اس کا ہیر اسٹائل مکمل طور پر تبدیل ہوچکا تھا۔ اس کا وزن پہلے کی نسبت کچھ بڑھ گیا تھا۔ وہ پہلے کی نسبت بہت پر اعتماد اور بے تکلف نظر آرہا تھا۔
“تم آج کل کیا کررہی ہو؟” ریسیور رکھتے ہی اس نے امامہ سے پوچھا۔
“ایک فارماسیوٹیکل کمپنی میں کام کررہی ہوں۔”
“ایم بی بی ایس تو چھوڑ دیا تھا تم نے۔”
“ہاں، ایم ایس سی کیا ہے کیمسٹری میں۔”
“کونسی کمپنی ہے؟” امامہ نے نام بتایا۔
“وہ تو بہت اچھی کمپنی ہے۔”
وہ کچھ دیر اس کمپنی کے بارے میں تعریفی تبصرہ کرتا رہا۔ وہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔
“میں اسپشلائزیشن کرکے آیا ہوں۔”
وہ اپنے بارے میں بتانے لگا۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر کسی معمول کی طرح اسے دیکھتی رہی۔ بعض لوگوں کو صرف دیکھنا ہی کتنا کافی ہوتا ہے۔ اس نے اسے بات کرتے دیکھ کر سوچا تھا۔
“ایک سال ہوا ہے اس ہاسپٹل کو شروع کئے اور بہت اچھی پریکٹس چل رہی ہے میری۔”
وہ بولتا رہا۔ کافی آچکی تھی۔
“تمہیں میرا کیسے پتا چلا؟” وہ کافی کا کپ اٹھاتے ہوئے بولا۔
“میں نے آپ کے ہاسپٹل کے بورڈ پر آپ کا نام پڑھا پھر رابعہ سے ملاقات ہوئی۔ آپ جانتے ہوں گے۔ زینب بھی واقف تھی اس سے۔”
“رابعہ فاروق کی بات کررہی ہو۔ بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ اس کا شوہر ڈاکٹر فاروق میرے ساتھ کام کرتا ہے۔” اس نے کافی پیتے ہوئے کہا۔
“ہاں، وہی۔۔۔۔۔ پھر میں یہاں آگئی۔”
امامہ نے ابھی کافی نہیں پی تھی۔ کافی بہت گرم تھی اور بہت گرم چیزیں نہیں پیتی تھی۔ اس نے کسی زمانے میں میز کے دوسری جانب بیٹھے ہوئے شخص کو آئیڈلائز کیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس میں ہر خوبی تھی، ہر وہ خوبی جو ایک مکمل مرد میں ہونی چاہیے۔ ہر وہ خوبی جو وہ اپنے شوہر میں دیکھنا چاہتی تھی۔ ساڑھے آٹھ سال گزر گئے تھے اور امامہ کو یقین تھا کہ وہ اب بھی ویسا ہی ہے۔ چہرے سے داڑھی کے ہٹ جانے کا مطلب یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کو اب حضرت محمد ﷺ سے محبت نہ رہی ہو۔ اپنے ہاسپٹل کی کامیابی کے قصیدے پڑھتے ہوئے بھی امامہ اس کی اسی آواز کو اپنے کانوں میں گونجتا ہوا محسوس کررہی تھی، جس آواز نے ایک بار اس کی زندگی کا سب سے مشکل فیصلہ آسان کردیا تھا۔
وہ اس کے منہ سے کامیاب پریکٹس اور شہرت کا سن کر مسرور تھی۔ جلال نے زندگی میں ان ہی کامیابیوں کو سمیٹنے کے لئے ساڑھے آٹھ سال پہلے اسے چھوڑ دیا تھا مگر وہ خوش تھی۔ آج سب کچھ جلال انصر کی مٹھی میں تھا۔ کم از کم آج فیصلہ کرنے میں اسے کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
“تم نے شادی کرلی؟” بات کرتے کرتے اس نے اچانک پوچھا۔
“نہیں۔” امامہ نے مدھم آواز میں جواب دیا۔
“تو پھر تم کہاں رہتی ہو،کیا اپنے پیرنٹس کے پاس ہو؟” جلال اس بار کچھ سنجیدہ تھا۔
“نہیں۔”
“پھر؟”
“اکیلی رہتی ہوں، پیرنٹس کے پاس کیسے جاسکتی تھی۔” اس نے مدھم آواز میں کہا۔
“آپ نے شادی کرلی؟” جلال نے کافی کا ایک گھونٹ لیا۔
“ہاں، شادی کرلی اور علیحدگی بھی ہوگئی۔ تین سال کا ایک بیٹا ہے میرا۔ میرے پاس ہی ہوتا ہے۔” جلال نے بے تاثر لہجے میں کہا۔
“آئی ایم سوری۔” امامہ نے اظہار افسوس کیا۔
“نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔ اچھا ہوا یہ شادی ختم ہوگئی۔”
“It was not a marriage, it was a mess” (یہ شادی نہیں تھی، ایک بکھیڑا تھا) ۔
جلال نے کافی کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔ کچھ دیر کمرے میں خاموشی رہی پھر اس خاموشی کو امامہ نے توڑا۔
“بہت سال پہلے ایک بار میں نے آپ کو پروپوز کیا تھا جلال؟”
جلال اسے دیکھنے لگا۔
“پھر میں نے آپ سے شادی کے لئے ریکوئسٹ کی تھی۔ آپ اس وقت مجھ سے شادی نہیں کرسکے۔”
“کیا میں یہ ریکویسٹ آپ سے دوبارہ کرسکتی ہوں؟”
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...