وہ سخت بے یقینی، تعجب اور حیرت سے سامنے اسٹیج کی طرف دیکھ رہی تھی،جہاں سے کوئی صور ہی تو اُس کی سماعتوں میں انڈیلا گیا تھا۔اُس کے چہرے پر کرب کا ایک جہان آبادتھا۔ الجھن،حیرت ،دکھ اور نہ جانے کیا کیا کچھ اُس کی آنکھوں سے کسی آبشار کی طرح بہہ رہا تھا ۔
’’میں نے کہا تھا ناں کہ زندگی انسانوں کو ہمیشہ ہر چیز بہترین نہیں دیتی۔بعض دفعہ کوئی دکھ ،تکلیف یا رنج کسی اندھے اسپیڈ بریکر کی طرح اچانک ہی سامنے آجاتاہے ۔انسان کو زیادہ نہ سہی ایک جھٹکا تو ضرور ہی لگتا ہے‘‘وہ ہی جسم کو چھیدتی ہوئی نگاہیں اُس کے چہرے پر ٹھہریں توسکینہ کے اعصاب تن سے گئے۔اُسے اپنے حلق میں نمک کا کھارا سا ذائقہ محسوس ہوا۔
’’وہ آنسوجن کو آنکھوں کے ذریعے باہر نکلنے کا راستہ نہ ملے وہ دل میں کتنی آگ لگاتے ہیں۔۔۔‘‘اس کرب کا اندازہ اُسے پہلی دفعہ ہوا اور وہ زیادہ دیر تک اس کرب کو برداشت نہیں کر پائی۔ سرجھکائے بے آواز آنسو بہاتے ہوئے وہ کچھ دیر تک کرسی کے ہتھے پر ہاتھ پھیرتی رہی۔
اُسے نہ جانے کیوں یقین نہیں آ رہا تھاکہ پہلی تین پوزیشنز میں اُس کا نام شامل نہیں ۔ہاں حوصلہ افزائی کے انعام کے لیے اُس کا نام پکارا جا رہا تھا ۔اُس نے اپنی آنکھوں کو زبردستی بند کر لیا تھا۔اُس کے جسم کی لرزش سے اُس کی ابتر ذہنی کیفیت کی عکاسی ہو رہی تھی۔
’’سکینہ اسٹیج پر تمہارا نام پکارا جا رہا ہے۔۔۔‘‘سسٹر ماریہ نے عجلت میں اُس کا کندھا ہلایا۔
’’مجھے نہیں جانا اسٹیج پر۔۔۔‘‘اُس کے دوٹوک قطعی انداز میں آنسوؤں کی آمیزش تھی۔سسٹر ماریہ نے بوکھلا کر اُس کاآنسوؤں کی بارش سے بھیگا چہرہ دیکھا۔وہ ان آنسوؤں کے پیچھے چھپے محرک کو سمجھنے سے قاصر تھی۔اُس نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا اور تعجب سے پوچھا۔’’کیوں نہیں جانا۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’ اپنے پاس رکھیں حوصلہ افزائی کا انعام ،مجھے نہیں لینا۔۔۔‘‘ اُس کے بھیگے لہجے میں عجیب سی بچگانہ ضد تھی ۔سسٹر ماریہ حیران ہوئی۔
’’جانتے تو آپ مجھے بھی نہیں تھے۔۔۔‘‘ وہ جو گاڑی کو پارکنگ میں کھڑا کرنے کے لیے مناسب جگہ دیکھ رہا تھا اس کی بات سے لطف اندوز ہوا۔
’’آپ کو تو پہلی نظر دیکھنے پرہی مجھے یوں لگا کہ جیسے ہمارے درمیان صدیوں کی آشنائی ہے۔کبھی کبھی اچانک ہی ہماری کسی بندے کے ساتھ کیمسٹری میچ کرنے لگ جاتی ہے ۔ہے ناں۔؟ وہ تھوڑا ساجھک کر شرارت بھرے انداز سے اُس سے تصدیق کرنا چاہ رہا تھا۔اُس کے لہجے میں کچھ تھا کہ عائشہ گڑبڑا سی گئی۔
’’ہاں شاید۔۔۔‘‘اُس نے اپنی بے ترتیب دھڑکنوں کو سنبھالنے کی کوشش کی۔
’’شاید ،نہیں یقینا۔۔۔‘‘وہ اس کی گہری نظروں کے حصار میں تھی ۔
’’آپ کو کیا کوئی شک ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ بڑے فاتحانہ انداز سے اس کے دل کے راستے عبور کر رہا تھا۔
’’مجھے کیوں شک ہونے لگا۔۔۔‘‘وہ اس اچانک واردات سے گھبرا سی گئی۔
’’ہونا بھی نہیں چاہیے۔۔۔‘‘اُس کی نظروں کی تپش عائشہ کے ہاتھ پیر پھلا رہی تھی۔
’’اوہ نو۔۔۔!!!!‘‘عائشہ کی نظر سامنے سڑک پر پڑی،وہ لوگ ایک ورکشاپ کے بالکل سامنے تھے جب ایک دس بارہ سالہ بچے کو ایک موٹر سائیکل پر سوار شخص ٹکر مار کر بھاگ گیا تھا۔ایک دم سے ہی شور مچ گیا ۔
’’مائی گاڈ۔۔۔!!!! وہ بہت عجلت میں گاڑی سے اترا ۔ورکشاپ کے آگے کچی سی جگہ پر مٹی کے اوپر گرے بچے کو اس نے بہت تیزی سے جا کر اٹھایا تھا۔اُس کے سر سے خون ایک فوارے کی صورت میں بہہ رہا تھا۔عائشہ ایک دم گھبرا سی گئی ۔
’’عائشہ ،یہاں پاس ہی میرے دوست کا کلینک ہے پہلے اسے وہاں نہ لے جائیں،اسے فوری ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے۔۔۔‘‘اُس بچے کاخون اس کی شرٹ کو خراب کر چکا تھا۔اس بچے کے کپڑوں اورہاتھوں پر لگی کالک اور گریس کے نشانات سے انہوں نے اندازہ لگایا کہ وہ سامنے والی ورکشاپ پر کام کرتا ہے۔اب وہاں کافی لوگ اکھٹے ہو گئے تھے۔ اُس نے اپنا رومال اُس بچے کے سر پر مضبوطی سے باندھ دیا تھا۔
اگلے ہی دس منٹوں میں وہ دونوں قریبی کلینک میں تھے۔عائشہ کو اُس نے گاڑی میں ہی بیٹھے رہنے کی تلقین کی تھی جب کہ وہ خود اُس بچے کو لے کر کلینک میں چلا گیا تھا۔جب کہ عائشہ حیرانگی سے اُسے دیکھ رہی تھی جس کی شرٹ بالکل خراب ہو چکی تھی جب کہ وہ اس سے لاپرواہ بڑے پر اعتماد انداز سے چل رہا تھا۔عائشہ کو پہلی دفعہ احساس ہوا تھا کہ ان دونوں کی کیمسٹر ی بالکل ٹھیک میچ ہوئی ہے۔
* * *
’’ماہم تمہیں آخر ہوا کیا ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘
رامس کو اس کا مضطرب انداز بہت بے چین کر رہا تھا۔وہ اس کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی ساتھ نہیں تھی۔
’’تم سب لوگوں کو آخر یہ کیوں لگ رہا ہے کہ مجھے کچھ ہوا ہے۔۔۔؟؟؟‘‘ویلیج میں اس کے ساتھ ڈنر کرتی ماہم جھنجھلا گئی۔ابھی تو اُسے عائشہ کی تفتیش نے جی بھر کے بے زار کر رکھا تھا ۔
’’دیکھا۔۔۔؟؟؟اس کا مطلب ہے کہ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔‘‘ وہ پرجوش ہوا تو ماہم نے حیرانگی سے اُسے دیکھا۔’’جب میرے علاوہ بھی کسی اور کو لگ رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہی ہے کہ تم میں کوئی نہ کوئی تبدیلی تو آئی ہے ناں۔۔۔‘‘
’’کوئی تبدیلی نہیں آئی بس تم لوگوں کا دماغ خراب ہوگیاہے۔۔۔‘‘ماہم نے ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوڑا تو وہ تعجب انگیز نگاہوں سے دیکھنے لگا۔
’’حیرت ہے کہ تمہیں بھی غصّہ آتا ہے۔۔۔‘‘وہ فرائیڈ رائس پر منچورین ڈالتے ہوئے سادگی سے بولا ۔
’’کیوں میں انسان نہیں ہوں کیا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماہم نے ہاتھ میں پکڑا کانٹا پلیٹ میں پٹخا تو وہ حیران ہوا ۔
’’انسان تو ہو،لیکن تم ایک سائیکلوجسٹ بھی تو ہوناں۔۔۔‘‘رامس نے رشین سلاد اس کی طرف بڑھاتے ہوئے اُسے یاد دلایاتو اس نے ناگواری سے کندھے جھٹکے۔
’’میں ایک انسان پہلے ہوں اور سائیکلوجسٹ بعد میں ہوں۔مجھے بھی ان تمام مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو ایک عام انسان کودرپیش ہوتے ہیں۔۔۔‘‘ماہم کو نہ جانے کیوں اپنے غصّے پر قابو پانا دشوار ہو رہا ہے۔
’’لیکن تم عام انسانوں سے زیادہ ان مسائل پر قابو پانے کی اہلیت رکھتی ہوماہم۔۔۔‘‘رامس کی آنکھوں میں نرمی کا تاثر دیکھ کر وہ کچھ ڈھیلی ہوئی۔’’آئی ایم سوری رامس،پتا نہیں کیوں طبیعت پر کچھ بے زاری سی ہے۔پچھلے کچھ دنوں سے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا۔۔۔‘‘
’’ہوں۔۔۔‘‘وہ ذومعنی انداز سے مسکرایا۔’’مجھے تو یہ سب آثار محبت کے لگ رہے ہیں۔کہیں محبت وحبت تو نہیں ہو گئی تمہیں۔۔۔‘‘اُس نے چھیڑا۔
’’محبت۔۔۔؟؟؟‘‘وہ چونکی ۔’’مجھے۔۔۔؟؟؟‘‘اُس نے بے یقینی سے رامس کا مسکراتا چہر ہ دیکھا ۔’’یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔؟؟؟‘‘اُس نے بُرا سا منہ بنایا۔
’’کیوں تم انسان نہیں ہو،کیا تمہیں محبت نہیں ہو سکتی۔۔۔‘‘اُس نے شریر انداز سے اُسے جتایا تو وہ ہنس دی۔’’بہت تیز ہو تم،فورا ہی حساب برابر کرتے ہو۔۔۔‘‘
’’بائے گاڈنہیں،ایسے ہی زبان پھسل گئی تھی۔‘‘اُس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے بڑے خوشگوار انداز سے فوراً صفائی دی۔
’’ہوں،تمہیں لگتا ہے کہ مجھے محبت ہو گئی ہے۔۔۔‘‘وہ اب بڑی دلچسپی سے پوچھ رہی تھی۔بیزاری کااحساس ایک دم ہی ختم ہوا ۔
’’ہاں۔۔۔‘‘وہ ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے مسکرایا۔
’’وہ کس طرح۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماہم نے اپنی پلیٹ میں سلاد ڈالتے ہوئے اب تجسس بھرے انداز سے پوچھا ۔
’’کیونکہ جب میں محبت کی واردات سے گذرا تھا تو میرے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔عجیب سی بے چینی اور جھنجھلاہٹ نے پورے وجود کا احاطہ کر لیا تھا۔کچھ بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔بس دل کرتا تھا کہ ایک ہی شخص سے ملوں،اُسی کو دیکھوں،اُسی سے بات کروں۔۔۔‘‘وہ کانٹے اور چھری کا بڑی مہارت سے استعمال کرتے ہوئے اُسے اپنی داستان مزے سے سنا رہا تھا ۔ماہم نے خوشگوار حیرت سے اس کا انتہائی پراعتماد انداز دیکھا ۔وہ اس وقت بلیو جینز پر پنک ٹی شرٹ پہنے ہوئے بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔
’’اچھا۔۔۔؟؟؟‘‘ماہم نے اپنے گلاس میں پانی انڈیلا۔’’ویسے بائی داوے تمہیں کس سے محبت ہوئی تھی۔۔۔؟؟؟‘‘اُس کی خودساختہ بے نیازی پر وہ ہنسا۔
’’تمہیں نہیں پتا۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’نہیں۔۔۔‘‘ماہم نے بمشکل اس کی آنکھوں میں چمکتے جگنوؤں سے نظریں چرائیں۔
’’اگر تمہیں نہیں پتا ،تو پھر تو پوری دنیا میں کسی کو بھی نہیں پتا ہوگا۔۔۔‘‘اُس نے مصنوعی مایوسی سے اُسے دیکھا جو سرخ رنگ کے لان کے سوٹ میں دمک رہی تھی۔حالانکہ اس نے آنکھوں میں کاجل اور ہونٹوں پر ہلکا سا لپ گلوس لگا رکھا تھا۔معمولی سی تیاری نے بھی اس کے دلکش نقوش کو جاذبیت عطا کر دی تھی۔
’’مجھے کیا پتا۔۔۔‘‘ماہم نے بمشکل اپنی مسکراہٹ کو چھپایا۔
’’ذرا میری آنکھوں کی طرف دیکھ کر یہ بات کرو۔۔۔‘‘اُس کے لہجے سے زیادہ اس کی نظروں کی حدت نے ماہم کے چھکےّ اڑائے ۔
’’اس میں کون سی مشکل ہے۔۔۔‘‘وہ خود کو سنبھالے اب اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھ رہی تھی۔
’’ہاں تم ایسا کر سکتی ہو،کیونکہ تم کوئی عام سی لڑکی تھوڑ ی ہو۔۔۔‘‘اُس نے توصیفی انداز سے اُسے سراہا ۔
’’اس میں کوئی شک بھی نہیں۔۔۔‘‘اُس نے اپنی راج ہنس جیسی گردن اٹھا کر دیکھا ،اسی لمحے اس کی نظر گلاس وال سے باہر پارکنگ کی طرف پڑی۔اس کا دل دھک کر کے رہ گیا۔گلاس وال چونکہ رامس کی پشت کی جانب تھی اس لیے وہ نہیں دیکھ سکتا تھا۔جب کہ ماہم سخت بے یقینی سے اُسی شخص کو دیکھ رہی تھی جو اُسی دن والی لڑکی کے ساتھ اپنی گاڑی میں بیٹھ رہا تھا وہ لوگ شاید اس ہوٹل کے فرسٹ فلو ر پر بنے فیملی ہال سے کھانا کھا کر نکلے تھے۔
’’کیا ہوا۔۔۔؟؟؟؟‘‘رامس نے جانچتی نظروں سے اُس کا پھیکا پڑتا چہرہ دیکھا۔
’’کچھ نہیں ۔۔۔‘‘ماہم نے اپنی مرتعش ہوتی دھڑکنوں کو بمشکل سنبھالا ۔زبردستی مسکراتے ہوئے اُس نے پانی کا گلا س لبوں سے لگا۔وہ اب تنقیدی نظروں سے کبھی رامس اور کبھی اُس شخص کو دیکھ رہی تھی جو گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ رہا تھا ۔جب کہ اس کے ساتھ سیاہ سوٹ میں اسٹائلش سی لڑکی اس کے برابر کی سیٹ سنبھال چکی تھی۔اُس لڑکی کے انداز میں ایک محسوس کیا جانے والا استحقاق تھا۔
’’کن سوچوں میں گم ہو جاتی ہو؟؟؟؟؟‘‘وہ ہلکا سا جھنجھلایا۔
’تمہاری دھیان سے نکلوں تو کچھ اور سوچوں۔۔۔‘‘ماہم نے سراسر اُسے بہلایا۔جب کہ اس کے ایک چھوٹے سے جملے نے رامس کے چہرے پر اتنی روشنیاں پھیلا دی تھیں کہ ماہم کو اس کی طرف دیکھنا دشوار ہو گیا تھا۔
’’تم سوچ بھی نہیں سکتی ہو کہ تم نے میری زندگی کو کتنا بدل دیا ہے۔میں جو سوچتا تھا کہ بابا کے اس بہیمانہ قتل کے بعد میں دوبارہ کبھی نہیں سنبھل سکوں گااور ٹینشن کے فیز سے کبھی نکل نہیں پاؤں گا،تم نے کتنی خوبصورتی اور مہارت سے مجھے زندگی کا یہ حسین رخ دِکھایا ہے۔‘‘وہ کھلے دل سے اس کو سراہ رہا تھا۔
’’ماما تو صبح و شام تمہیں دعائیں دیتی ہیں۔بھائی کو بھی تم سے ملنے کا اشتیاق ہے۔کسی دن آؤ ناں ہمارے گھر۔۔۔‘‘اُس نے جیلی کسٹرڈ اپنے باؤل میں نکالتے ہوئے اُسے آفر کی۔
’’انکل جواد کے ساتھ آؤں گی کبھی۔۔۔‘‘ماہم نے اُسے یونہی تسلی دی ۔ اُس کا اس ڈنر سے ایک دم ہی دل اچاٹ ہو گیا تھا ۔بس نہیں چل رہا تھا کہ سب کچھ چھوڑ کر اُس شخص کے پیچھے نکل جائے جو اپنی ہنڈا اکارڈ میں ابھی ابھی یہاں سے نکلا تھا۔۔۔
’’آخر مجھے ہوا کیا ہے۔۔۔؟؟؟؟؟‘‘ وہ بُری طرح جھنجھلا گئی ۔وہ خود بھی اپنی حالت کو سمجھنے سے قاصر تھی۔
’’اُس شخص کے ساتھ کسی لڑکی کو دیکھ کر مجھے آخر کیوں غصّہ آتا ہے۔۔۔؟؟؟‘‘ذہن میں نمودار ہوتے اس سوال پر وہ چونکی اور اگلے ہی لمحے اُسے جھٹکالگا اور اُس نے سخت خوفزدہ نظروں سے اپنے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا جس کے دل کی دنیا اس کے نام سے آباد ہو چکی تھی۔جب کہ اُسے اپنے دل میں ویرانیاں سی اترتی محسوس ہورہی تھیں۔
* * *
وہ سکینہ اللہ دتّا کی زندگی کا ایک اہم ترین دن تھا۔۔۔
موسم کی دلفریبی اپنی جگہ،ہلکی ہلکی سی کن من نے ایک سماں باندھ رکھا تھا۔ٹھنڈی ہوا اپنے ساتھ چمپا اور رات کی رانی کی مہک لیے آ رہی تھی۔اُس دن نہ جانے سکینہ کو کیا ہوا جو وہ واکر کے ساتھ چلنے پر مچل اٹھی حالانکہ اس سے پہلے ڈاکٹر خاور اور ان کے کولیگس نے کئی دفعہ ہمت بندھائی تھی لیکن سکینہ زمین پر پاؤں رکھنے کو آمادہ نہیں ہوئی تھی۔اُس دن اُس نے سسٹر ماریہ سے خود ہی تھوڑا سا چلنے کی خواہش کا اظہار کیا تو وہ بھی اس کایاپلٹ پر حیران رہ گئیں۔
’’شاباش،سکینہ ، ہمت کرو۔۔۔‘‘ سسٹر ماریہ نے خلوص دل سے سکینہ کی ہمت بندھائی۔وہ اپنے ساتھ ایک اور نرس کو مدد کے لیے لے آئی تھیں۔اس وقت وہ چاروں کوریڈور میں تھیں جہاں شام کا وقت ہونے کی وجہ سے اکادکا لوگ ہی تھے۔
’’سسٹر ماریہ ،میں گر تو نہیں جاؤں گی۔۔۔‘‘سکینہ کی آنکھوں میں خوف اور سراسیمگی صاف پڑھی جا رہی تھی۔
’’کچھ نئیں ہوتا پتّر،اللہ سوہنے کا نام لے کر ہمت کر۔۔۔‘‘نرس کے بولنے سے پہلے ہی جمیلہ مائی نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیر کر تسلی دی۔
’’اماّں۔۔۔‘‘سکینہ نے ڈرتے ڈرتے وہیل چئیر سے پہلاپاؤں زمیں پر رکھااور اُس کا سارا وجود ہی لرز گیا۔
’’بہت مشکل ہے امّاں۔۔۔‘‘وہ ایک جھٹکے سے وہیل چئیر پر بیٹھ گئی۔اُس کی سانسیں بے ربط اور ماتھے پر پسینے کی بوندیں نمایاں تھیں۔وہ اب زور زور سے سانس لے رہی تھی۔
’’چل میری دھی ،کوشش تے کر ناں۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے بازو سے پکڑ کر اُس کی ہمت بندھائی۔
’’نہیں ،ناں۔۔۔‘‘وہ ایک لمحے کو ہچکچائی۔
’’دیکھ پتّر،تیری جسمانی حالت کچھ مضبوط ہو گی تو ڈاکٹر وڈّا اپرایشن کریں گے ناں،چل میری شہزادی۔۔۔‘‘
’’سکینہ اٹھ ناں،دیکھ وہ ڈاکٹر خاور آ رہے ہیں ،وہ تجھے واکر کے ساتھ چلتا دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔‘‘سسٹر ماریہ کی بات پر اُسے کرنٹ سا لگا۔سارا خوف اور ڈر ایک لمحے کو فضا میں تحلیل ہو گیا۔وہ بڑے جوش کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی۔
’’شاباش۔۔۔!!!!‘‘وہ واکر کو مضبوطی سے پکڑ کر کھڑی ہوئی تو سسٹر ماریہ نے کھلے دل سے اُسے سراہا۔
’’امّاں۔۔۔‘‘پہلا قدم اٹھاتے ہی اُس نے باقاعدہ چیخ کر خوشی کا اظہار کیا تو جمیلہ مائی بے ساختہ مسکرائی۔سکینہ کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ہوا میں خنکی تھی لیکن اس کے باوجود اُسے لگ رہا تھا کہ پسینہ ہر مسام سے بہہ رہا ہے۔
’’ویری گڈ سکینہ۔۔۔‘‘نرس ماریہ کو بھی دل کی گہرائیوں سے خوشی کا احساس ہوا تھا۔سکینہ نے دوسرے کے بعد تیسرا قدم اٹھایا ہی تھا کہ اُسے اپنی پشت پر ایک نسوانی قہقہے کا احساس ہوا۔
’’ماشاء اللہ ،زبردست۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور کے توصیفی لہجے پر سکینہ کے واکر پر جمے ہاتھ بُری طرح کپکپائے۔وہ ساکت پلکو ں کے ساتھ وہیں جم گئی۔اُسے اپنی پشت پر ڈاکٹر خاور کی موجودگی کا احساس ہو رہا تھا۔وہ اس وقت مجسم سماعت تھی۔اُسے علم تھا کہ وہ اس کوریڈور کے دوسرے کونے سے اس طرف ہی آ رہے تھے۔
’’ویری نائس۔۔۔!!!!سکینہ اور ہمت کریں۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور کی آواز سن کر خوشی کے مارے سکینہ کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ بڑھ گئی۔
’’بسم اللہ۔۔۔‘‘اُس نے جیسے ہی اگلا قدم اٹھایا ۔امّاں کے منہ سے بے اختیار نکلا ۔
’’دھیان سے،کہیں بہت تیز چلنے کی کوشش میں کوئی نقصان نہ کروا لینا۔۔۔‘‘زہر میں بجھے اُس لہجے نے سکینہ کے پاؤں جکڑ لیے۔وہ جھٹکے سے مڑی،آواز کی سمت دیکھنے کی کوشش میں اُس کا پاؤں لڑکھڑایا،اور ہاتھوں کی گرفت واکر سے بالکل ختم ہوگی۔ڈاکٹر زویا کی آواز پر دونوں نرسوں اور جمیلہ مائی کا دھیان بھی صرف ایک لمحے کو ہٹا تھا اور سکینہ ہسپتال کے ٹائلوں والے فرش پر بُری طرح گری تھی۔اُس کی دل دہلا دینے والی چیخوں سے پورا کوریڈور گونج اٹھا تھا۔اُس کی آواز میں اتنا کرب اور تکلیف کا احساس تھا کہ وہاں موجود تمام لوگوں کو اپنا دل پھٹتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ایک لمحے کو تو ڈاکٹر زویا کو بھی اپنی روح فنا ہوتی ہوئی اور جسم کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہوئے محسوس ہوئے تھے۔
* * *
’’ثنائیلہ زبیرآپ جاب کیوں کرنا چاہتی ہیں۔۔۔؟؟؟‘‘وہ پیپر ویٹ اپنی ہتھیلی پر گھماتے ہوئے اپنے سامنے بیٹھی لڑکی کو دیکھ رہا تھا۔جس کے چہرے پر لکھی کوفت کی تحریر با آسانی پڑھی جا سکتی تھی۔اُس نے دو دن پہلے ہی اُسے انٹرویو کے لیے کال کیا تھا۔
’’لوگ جاب کیوں کرتے ہیں۔۔۔؟؟؟‘‘ثنائیلہ کو اپنا بنایا ہوا بت ٹوٹنے کا اتنا افسوس تھا کہ وہ زیادہ دیر تک تحمل کا مظاہر ہ نہیں کر سکی تھی۔اُس کے لہجے کی تپش پر وہ مسکرایا۔اُسے اندازہ تھا کہ اُس نے پورے تین گھنٹے انتظار کے بعد اُسے اپنے آفس میں بلوایا تھا۔سیاہ آبنوسی لکڑی کی میز کے پیچھے بیٹھا وہ خاصا شاندار لگ رہا تھا۔
’’ہوں ،اچھا سوال ہے کہ لوگ جاب کیوں کرتے ہیں۔۔۔؟؟؟‘‘ اُس نے ہاتھ میں پکڑا پیپر ویٹ میز پر رکھ کر اُسے غور سے دیکھا اور کچھ توقف کے بعد گویا ہوا۔’’کچھ لوگ معاشی حالات کی تنگی کی وجہ سے جاب کرتے ہیں،کچھ ٹائم پاس کے لیے اور کچھ اپنی صلا حیتوں کو آزمانے کے لیے۔۔۔‘‘
’’اور کچھ اپنے گھر کی ٹپکتی چھتوں کو ٹھیک کروانے اور اپنی بیمار والدہ کا بہتر علاج کروانے کے لیے۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے اس کی بات عجلت میں کاٹ کر تلخی سے کہا تو وہ ایک لمحے کو چپ سا رہ گیا۔
’’آپ کے والد۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُ س نے تھوڑا سا سنبھل کر پوچھا۔
’’انتقال ہو گیاہے۔۔۔‘‘ اُس کے دل پر بوجھ سا آن پڑا۔
’’بھائی کتنے ہیں۔۔۔؟؟؟؟
’’صرف ایک ،اور وہ بھی ملک سے باہر۔۔۔‘‘ وہ ناخن کھرچتی بے نیازی سے بولی ۔
’’ملک سے باہر ہیں پھر تو انکم اچھی خاصی ہونی چاہیے آپ کی۔۔۔‘‘ اُس کے لہجے میں طنز کی آمیزش شامل ہوئی تو ثنائیلہ نے گہرا سانس بھرا۔
’’جی انکم اچھی خاصی ہی ہے۔۔۔‘‘وہ استہزائیہ انداز سے ہنسی۔ ’’لیکن صرف ان کی بیگم اور ان کے خاندان کے لیے۔۔۔‘‘اُس کے لہجے میں دکھ کی جو آنچ تھی اس کی تپش سامنے بیٹھے شخص نے اپنے دل میں محسوس کی تھی۔
’’کیا مطلب۔۔۔؟؟؟؟‘‘وہ الجھا۔
’’مطلب یہ کہ بھائی صاحب کے پاس اپنی مجبوریوں کی لمبی فہرست ہے اور میرے کوئی اور بہن بھائی نہیں اس لیے مجھے سب کچھ خود ہی کرنا ہے۔‘‘اُس کے طنزیہ لب و لہجے میں جی بھر کے تلخی تھی ۔ اس کی بات پر سامنے بیٹھے شخص نے ایک لمبا سانس لیا تھا۔
’’اس سے پہلے آپ کا گھر کیسے چلتا تھا۔۔۔؟؟؟؟‘‘اُس نے لحظہ بھر کو اُسے دیکھا۔
’’ہماری دوتین اپنی دکانیں ہیں لیکن چونکہ وہ ایک محلے کے اندر ہیں اس لیے زیادہ کرایہ نہیں اور پھر روز بہ روز بڑھتی مہنگائی نے مسائل کو بھی بڑھا دیا ہے۔‘‘اُس نے مختصراً بتایا۔
’’ہوں۔۔۔‘‘اُس کے چہرے پر سوچ کا تاثر بہت گہرا تھا۔’’ایسا ہے کہ آپ کی کوالفیکشن تو اچھی ہے اور کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ میں سیٹ بھی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہاں پر آپ سے پہلے کوئی خاتون نہیں ہیں۔۔۔‘‘
’’تو اس میں کیا مسئلہ ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ثنائیلہ نے تعجب سے پوچھا۔
’’مسئلہ تو کوئی نہیں ہے ،مجھے لگا کہ کہیں آپ اتنے سارے مردوں کے درمیان کام کرنے پر تیا ر نہ ہوں۔۔۔‘‘اُس نے بڑی دلچسپی سے اپنے سامنے بیٹھی لڑکی کو دیکھا جو اُس کو لمحہ لمحہ حیران کر رہی تھی۔
’’جب کوئی عورت کسی کام کے لیے گھر سے نکل آئے اور اُس کے پلّو کے ساتھ مجبوریوں کی ایک لمبی قطار بھی بندھی ہوئی ہو تو وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے ویسے ہی لاتعلق ہو جاتی ہے۔‘‘ اُس کے لبوں پر وہ ہی دل جلا دینے والی مسکراہٹ نے احاطہ کیا تھا۔
’’محترمہ لاتعلق ہو جانا اتنا آسان بھی نہیں ہوتا،جتنا آپ سمجھ رہی ہیں ایسی صورت میں جب آپ صنف مخالف سے تعلق رکھتی ہوں اور اپنے ڈپارٹمنٹ میں واحد خاتون بھی ہوں۔‘‘اُس کی آنکھوں میں تمسخرانہ سی چمک اتنی واضح تھی کہ ثنائیلہ کی پیشانی پر خاصے گہرے بل پڑے۔
’’اب آپ مجھے کیا جتانا چاہتے ہیں۔۔۔‘‘
’’میں آپ کو ’’جتانا‘‘نہیں ’’سمجھانا‘‘چاہتا ہوں کہ کسی اسکول سائیڈ پر کوئی جاب دیکھیں تو بہتر ہے۔۔۔‘‘اُس نے وضاحت دینے کی کوشش کی۔
’’پھر میں آپ کی طرف سے انکار سمجھوں۔۔۔؟؟؟؟‘‘اُس نے ایک ہی جملے میں اس شخص کو چپ کروایا۔
’’میں نے ایسا کب کہا محترمہ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ حیرانگی سے اُسے کھڑا ہوتے ہوئے دیکھ رہا تھا ثنائیلہ کا چہرہ شدید قسم کے تناؤ کا شکار لگ رہا تھا۔
’’مطلب تو وہ ہی تھا ناں۔۔۔‘‘اُس کے انداز میں عجلت تھی۔
’’محترمہ آپ کے مطلب سمجھنے والی حّس خاصی کمزور ہے۔اس کا پہلی فرصت میں علاج کروائیں۔۔۔‘‘اُس کے چہرے پر شگفتگی رقم تھی۔ثنائیلہ عجیب سے مخمصے کا شکار ہوئی کہ چلی جائے یا یہیں کھڑی رہے۔
’’بہرحال آپ کو اپائٹمنٹ لیٹر مل جائے گا لیکن آپ کوئی بھی فیصلہ ہو سوچ سمجھ کر کیجئے گا۔میری یہ بالکل نئی فیکٹری ہے میں کام کے معاملے میں کوئی رعایت ہر گز نہیں دوں گا۔‘‘اُس کی بات پر ثنائیلہ کے ساکت صامت وجود میں گویا بجلی سی دوڑی۔
’’تھینکس۔۔۔!!!! اپنے کام میں کوئی بھی رعایت لینا میرے اصولوں میں بھی کہیں شامل نہیں،آپ بھی اس بات کو اپنے ذہن میں رکھیے گا۔‘‘ثنائیلہ کی بات پر اُس کے چہرے پر محظوظ کن سی مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔جب کہ ثنائیلہ بڑی متوازن چال کے ساتھ اس کے آفس سے نکل آئی تھی۔
’’مائی گاڈ۔۔۔!!!!‘‘نابیہ نے ساری داستان سن کر شرارت سے آنکھیں پٹپٹائیں۔’’تم نے یہ ساری باتیں سکندر شاہ کو کہہ دیں۔۔۔‘‘ثنائیلہ اس کی بات کا بُرا منائے بغیر مسکراتے ہوئے اس کے بنائے پکوڑوں سے انصاف کرتی رہی۔وہ اس انٹرویو کے بعد سیدھی نابیہ کے پاس ہی آئی تھی جو خوبصورت موسم سے لطف اندوز ہونے کے لیے برآمدے میں چارپائی بچھائے بیٹھی تھی۔اُسے دیکھ کر وہ جھٹ سے پکوڑے تل لائی تھی جن کا آمیزہ اُس نے آسمان پر بادل دیکھتے ہی بنا لیا تھا۔پکوڑوں اور چائے کی مہک پورے صحن میں پھیل گئی تھی۔
’’تم نے اُسے اپنی کہانی کے کردار سکندر شاہ کا بتایا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اس کی بات پر ثنائیلہ نے ایک دھپ اُسے رسید کی تو وہ ہنستی چلی گئی۔
’’مجھے اٹھا کر اُس نے آفس سے باہر پھینک دینا تھا ویسے ہی بڑا روکھا پھیکا سا بندہ لگتا ہے۔۔۔‘‘اُس نے آسمان پر روئی کے گالوں جیسے بادلوں کو دیکھتے ہوئے اُسے اطلاع دی۔
’’یار تمہاری اسٹوری کا سکندر شاہ تو بڑا رومینٹک سا تھا۔۔۔‘‘نابیہ نے متبسم لہجے میں کہا۔
’’ہاں،لیکن یہ تو اُس سے بالکل مختلف ہے۔۔۔‘‘ ثنائیلہ تھوڑا سا اُداس ہوئی۔’’اُس میں سکندر شاہ والی کوئی بات ہی نہیں۔۔۔‘‘
’’نہیں ہے تو اُس میں وہ تمام خوبیاں بنا لو۔۔۔‘‘نابیہ نے ہری مرچ پکوڑے میں سے نکالتے ہوئے مفت مشورہ دیا۔
* * *
’’ابّا۔۔۔‘‘سکینہ نے دیسی گھی میں شکر ڈال کر روٹی کھاتے اللہ دتّا کمہار کو مخاطب کیا۔جو صبح ہی سفر کر کے ہسپتال پہنچا تھا۔اب فریش ہونے کے بعد سکون سے روٹی کھا رہا تھا۔
’’کیا ہوا پتّر۔۔۔؟؟؟؟‘‘اللہ دتے نے مسکرا کر اپنی لاڈلی بیٹی کا سنجیدہ چہرہ دیکھا۔*
’’ابّا ،اگر اللہ بد صورت جسم کے سینے میں دل نہ ڈالتا تو کتنا اچھا ہوتا۔۔۔‘‘سکینہ کی بات پر اللہ دتاّ اگلا لقمہ لینا بھول گیا ۔جب کہ سکینہ نے جمیلہ مائی کی غیر موجودگی کا بھرپور فائدہ اٹھا کر یہ سوال کیا تھا۔
’’وہ کیوں پتّری۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُس نے کھوجتی نظروں سے استفسار کیا ۔سکینہ کے انداز پہلی دفعہ اُسے کچھ چونکا سے گئے تھے۔
’’دیکھ ناں ابّا۔یہ دنیا کتنی ظالم ہے۔ہر خوبصورت چیز پر بس خوبصورت لوگوں کا حق سمجھتی ہے۔لوگوں کو لگتا ہے کہ بدصورت جسم کے اندر کوئی پتھر کا دل ہے جس میں کو ئی جذبہ نہیں پیدا ہو سکتا ۔وہ ہم جیسوں کی طرف ہر بات کے جواب میں ایسے دیکھتی ہے جیسے کہہ رہی ہو کہ پہلے اپنی اوقات پہچانو،پھر چاند کو اپنے دامن میں بھرنے کی خواہش کرنا۔۔۔‘‘سکینہ کا لہجہ بڑا بے بس کر دینے والا تھا۔
’’ہاں تو پتّری ،چاند کو پکڑنے کی خواہش کرنا بھی تو کوئی دانشمندی نہیں۔۔۔‘‘اُن کا لہجہ ناصحانہ تھا اور وہ اب سکینہ کی ہر بات کو غور سے سن رہے تھے۔بھوک کا احساس ایک دم ہی ختم ہو گیا تھا۔
’’پھر ابّا،دل کو انوکھا لاڈلا کیوں کہتے ہیں۔۔۔؟؟؟؟‘‘سکینہ استہزائیہ انداز میں ہنسی۔
’’پتّری یہ انوکھے لاڈلے زندگی میں اکثر وختا ہی ڈالے رکھتے ہیں ۔اس لیے ان کو اتنے لاڈو میں نہ ہی رکھا جائے تو چنگا ہوتا ہے۔ورنہ بندہ بڑا تنگ ہوتا ہے۔۔۔‘‘اللہ دتے نے شکر کا ڈبّہ بند کرتے ہوئے سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’کیا کہہ رہی ہے یہ سکینہ۔۔۔؟؟؟؟‘‘جمیلہ مائی جو ابھی ابھی غسل خانے سے نکلی تھی ۔اُس نے اپنے شوہر کے آخری جملے سے گفتگو کا اندازہ لگانے کی کوشش کی۔اُس کے تیکھے سے انداز پر سکینہ کا رنگ اڑا اور اللہ دتّا کی زمانہ شناس نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکا۔
’’کچھ نہیں،بس ادھر اُدھر کی باتیں کر رہی تھی دھی رانی۔۔۔‘‘ابّے نے سراسر ٹالا تھا۔سکینہ کی رنگت بحال ہوئی ۔
’’یہ جاجی کہاں گیا ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘جمیلہ مائی کی بات پر سکینہ نے بُرا سا منہ بنایا۔ ’’ہمیں کون سا بتا کر جاتا ہے۔۔۔‘‘
’’وہ ذرا فوٹو اسٹیٹ والی دکان پر میرے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی کروانے گیا ہے۔۔۔‘‘اللہ دتّا کو آج پہلی دفعہ سکینہ کے انداز بہت حیران کر رہے تھے یا پھر اُس میں تبدیلی ہی اتنی نمایاں آ ئی تھی کہ سبھی کو کھٹک رہی تھی۔
’’شناختی کارڈ کی کاپی کیا کرنی ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘جمیلہ مائی نے کھانے کے برتن سمیٹتے ہوئے سادگی سے پوچھا۔
’’ڈاکٹر خاور نے منگوائی ہے ،سکینہ کی فائل میں لگانے کو۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور کے نام پر سکینہ کا دل بے ہنگم انداز میں دھڑکا۔اُس نے کنکھیوں سے دونوں کو دیکھا جو اپنی اپنی جگہ پر کسی گہری سوچ میں تھے۔سکینہ نے بھی اپنا لان کا دوپٹہ منہ پر ڈالا اور سونے کے لیے لیٹ گئی ویسے بھی جمیلہ مائی کی موجودگی میں وہ بے دھڑک ہو کر ابّے سے اوٹ پٹانگ سوال تو کر نہیں سکتی تھی۔
’’کیا کچھ ،کہا ہے ڈاکٹر صاحب نے۔۔۔؟؟؟؟‘‘جمیلہ مائی نے اپنے شوہر کے پاس بیٹھتے ہوئے اُس کے چہرے کے تاثرات کا بغورجائزہ لیا۔
’’ڈاکٹر صاحب کوئی بہت زیادہ پر امید نہیں ہیں بھلیے لوکے۔۔۔‘‘اللہ دتا نے گہری سانس بھر کے دلگرفتگی سے کہا۔البتہ اس کی آواز اتنی دھیمی تھی کہ بس جمیلہ مائی کی سماعتوں تک بمشکل پہنچی تھی۔
’’ڈاکٹروں سے امید تو مجھے بھی نئیں،بس مولا سائیں اپنا کرم کرئے گا۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے تسلی آمیز انداز سے اپنے شوہر کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
’’ہوں۔۔۔‘‘اللہ دتّا نے کسی خیال کے زیر اثر سر ہلایا۔
’’اپریشن کا کچھ کہا انہوں نے۔۔۔‘‘قدرے تفکر آمیز اندازسے اُس نے پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔‘‘اُس نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’کہیں اپریشن کرنے سے انکار تو نہیں کر دیاانہوں نے۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے اپنے بد ترین خدشے کا اظہار کیا۔
’’انکار تو نہیں کیا،لیکن وہ کہتے ہیں کہ سکینہ کی جسمانی حالت جب تک بہتر نہیں ہو جاتی ،ہم کوئی رسک نہیں لے سکتے۔۔۔‘‘اللہ دتّا نے فوراً وضاحت کی۔کمرے میں ایک بوجھل سا سنّاٹا بڑی سرعت سے پھیل گیا تھا۔سکینہ دوپہر کے کھانے کے بعد اب گہری نیند میں تھی۔
’’سکینہ کی ماں۔۔۔‘‘ اللہ دتّے نے اپنی بیوی کے جھکے سر کو دیکھتے ہوئے الجھن آمیز لہجے میں کہا۔’’یہ اپنی سکینہ کچھ بدل نہیں گئی۔۔۔‘‘
’’کیا مطلب۔۔۔؟؟؟؟‘‘جمیلہ مائی نے بوکھلا کر اپنے شوہر کی شکل دیکھی۔
’’وہ اب بہت عجیب وغریب سے سوال کرنے لگی ہے،اُس کی باتوں میں قناعت اور شکرگذاری کم اور گلے شکوے زیادہ جھلکنے لگے ہیں۔۔۔‘‘اللہ دتّا کی بات پر جمیلہ مائی آمادگی سے مسکرا دی۔
’’اس میں پریشان ہونے والی کون سی لوڑ ہے۔۔۔‘‘اُس نے تحمل بھرے انداز سے مناسب الفاظ کا چناؤ کرتے ہوئے مزید کہا۔ ’’ہماری دھی رانی کی سوچیں تو کسی جھرنے کے پانی کی طرح صاف شفاف تھیں۔بس بیماری اور آزمائش نے اُسے تھوڑا سا گدلا کر دیا ہے۔اس میں اس نمانی کا کیا قصور،بندے کی ذات میں ہی بے صبرا اور ناشکرا پن کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔‘‘جمیلہ مائی نے بھرپور طریقے سے اپنی بیٹی کا دفا ع کیا تھا۔
’’اک تے مجھے تیری سمجھ نئیں آتی،ویسے سارا دن اُس معصوم کے پیچھے ڈنڈا سوٹا لے کر پڑی رہتی ہے،اور اب کیسے اُس کی طرفداری کر رہی ہے۔‘‘اللہ دتّا اُس کی سادگی پر ہنستے ہوئے کہ رہا تھا۔جمیلہ مائی نے فٹ جواب دیا۔
’’ہاں ناں،اُس کے سامنے کہوں گی تو زیادہ شوخی ہو جائے گی ۔‘‘
’’ویسے سکینہ کی ماں،تجھے کبھی کبھی اللہ سے گلہ تو ہوتا ہوگا،کہ اللہ سوہنے نے اکوّں اک دھی دی اور وہ بھی معذور۔۔۔‘‘اللہ دتے کو نہ جانے آج کیا سوجھی تھی جو جمیلہ مائی سے یہ سوال کر بیٹھا۔
’’توبہ کرو سکینہ کے ابّا توبہ۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے فوراً کانوں کو ہاتھ لگائے۔ ’’کیوں مجھے گناہ گار کرتے ہو،پہلے ستاراں(سترہ)سال سوہنے رب کی منتیں مرادیں کرکے اولاد لی،اور اب کیا اُس ذات سے گلہ کرتی میں چنگی (اچھی)لگوں گی،میں کون ہوتی ہوں سوہنے رب کو مشورے دینے والی ،کہ اللہ ایسی نئیں ،ویسی اولاد دینی تھی۔مولا کا کرم ہے،اُس کا احسان ہے کہ میری سونی گود کو اُس نے بھرا۔‘‘جمیلہ مائی فطرتاً قناعت پسند تھی۔اللہ دتاّ کو اُس کی یہی ادا تو سب سے زیادہ بھاتی تھی۔
’’فیر وی سکینہ کی ماں ،اگر تیری دھی ٹھیک نہ ہوئی تو۔۔۔‘‘اللہ دتے نے ایک اور دل دکھاتا سوال کیا ۔
’’مجھے فیر وی سوہنے مالک سے کوئی شکوہ نہیں۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے اپنی ایک بات سے اُسے چپ کروا دیا ۔’’اگر اللہ سوہنے نے میری دھی کو ایسے ہی رکھنا ہے تو اس میں بھی کوئی اس کی مصلحت ہوگی۔‘‘
’’اچھا،پھر تو کیا کرئے گی۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اللہ دتے نے صافے سے منہ صاف کرتے ہوئے اُسے چھیڑا۔اُسے آج جمیلہ مائی سے بات کر کے لطف آ رہا تھا۔
’’کجھ نئیں،اللہ نے مجھے یہ دو ہاتھ دیے ہیں ناں،اسے اٹھا کرہمیشہ دعا کروں گی کہ وہ میرے دل کے ٹکڑے کو کسی آزمائش میں نہ ڈالے،دعا کرنے کا اختیار تو رب نے اپنے بندے کو دیا ہے ناں۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے اٹھ کر پنکھے کی ہوا کو تیز کیا۔
’’لے یہ کیا بات ہوئی،پہلے تو اللہ کے فیصلوں پر راضی تھی،اب کہتی ہے کہ دعا کر کے فیصلہ تبدیل کروائے گی۔۔۔‘‘اُس نے دوبارہ اُسے تنگ کرنے کو کہا۔
’’جب اللہ سوہنے نے کہا ہے کہ مجھ سے مانگو،تو میں اُسی سے مانگوں گی ناں۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی۔’’میں اللہ کو مشورہ تو نہیں دوں گی بس اُسے اپنے دل کی آرزو بتاؤں گی ،آگے پوری کرنا یا نہ کرنا تو اُس کا اختیار ہے ناں۔۔۔‘‘
’’تیرا کیا خیال ہے کہ اللہ تیری آرزو پوری کر دے گا۔۔۔‘‘اللہ دتے نے اپنی بیوی کا پرعزم چہرہ دیکھا۔
’’جب اللہ سوہنامجھے سترہ سال کی دعاؤں کے بعد اولاد دے سکتا ہے تو اگلے سترہ سال کی دعاؤں سے میری دھی کوشفاء بھی دے سکتا ہے۔بس بندے کی نیت صاف اور اللہ پر بھروسہ ہونا چاہیے ‘‘ جمیلہ مائی آج اُسے حیران کرنے پر تلی ہوئی تھی۔
* * *
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...