ابیہا بہت بے چین رہنے لگ گی تھی ۔۔روز وہ عالیان کے لوٹ آنے کی امید وہ اپنے دل میں پیدا کرتی تھی جو دن سے رات ہونے کے ساتھ کم ہوجاتی ھے۔۔۔لیکن وہ ہر دن اپنی امید بڑھاتی
ابیہا اپنی روز کی کشمکش کی وجہ سے گم سم رہنے لگ گی تھی وہ ہر ممکن کوشش کرتی اپنی بےچینی کو کم کرنے اور اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی کوشش کرتی اور کالج میں مصروف رہتی۔۔۔۔
موسم کیا تبدیل ہوا ہر طرف پرندوں کی آمد اور ہجرت نے آسماں پر عجیب سا سماں پیدا کردیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دن موسم میں خنکی زیادہ تھی ابیہا کالج سے آتے ہی بستر میں دبک گی اور کھانا بھی بستر میں ہی منگوا کے کھایا۔۔ابھی وہ چاۓ پی رہی تھی جب اسکے بابا کمرے میں آۓ ان سے باتیں کرنے کا پتہ ہی نہیں چالا اور پھر وہ سو گی ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام میں وہ اپنے بابا کے ساتھ چاۓپی رہی تھی اسکے بابا نے اپنے دوست کے فارم ہاؤس میں جانے کی بات کی انکے دوست کافی سال سے انہیں اور ابیہا کو اپنے پاس بلوانے کی ضد کرتے اور وہ ہر بار اپنی مصروفیات کی وجہ سے انکار کردیتے ۔لیکن اس بار انہوں نے ابیہا کے ساتھ جانے کا پلان بنالیا اور اگلے دن سامان پیک کرنے لگ گے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔,۔۔۔۔
ابیہا کا جانے کا موڈ نہیں تھا پھر بھی وہ اپنے بابا جانی کی خوشی کے لیے تیار ہوگی ۔۔۔جب وہ فارم ہاوس پہنچے تب شام کے ساہے گہرے ہوگے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرنل صاحب نے اپنے دوست اور انکی بیٹی کا باہر استقبال کیا اور انہیں اندر لے کے گے
ابیہا کمرے میں چلی گی اسے تھکاوٹ کا احساس ہورہا تھا اور وہ کمرے میں فریش ہونے آگی جو انکل نے اسکے لیے تیار کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
بہت بےچینی اسکے اندر پیدا ہوگی تھی جب اس نے انکل کے فارم ہاوس میں قدم رکھا اسے ایسے محسوس ہورہا تھا جسے کوی مقناطیس اسکو اپنی طرف کینچھ رہا ہو۔۔۔۔
:ابیہا کے بابا اور انکل فجر کی نماز کے بعد باہر سیر کے لیے چلے گے اور وہ نماز کے بعد پورا فارم ہاوس دیکھنے لگ گی جب وہ اوپر والی منزل میں آی تو اس نے اوپر ایک کمرے میں لیٹے نفوس کو دیکھا جسکی شکل اسے واضح نظر نہیں آرہی تھی لیکن اسے دیکنھا چاہتی تھی وہ مشین میں جکڑا ہوا تھا جب اس نے اندر قدم رکھا تب ہی ملازم اسے ڈھونڈتا ہوا ادھر آگیا اور وہ ویسے ہی پلٹ گی ۔۔۔۔ناشتے کی میز میں جب وہ بیٹھی تو وہ ناشتہ کرنے لگ گی
ناشتے کے دوران اس نے انکل سے اس لیٹے ہوے نفوس کے بارے میں پوچنے کی کوشش کی پھر وہ چپ ہوگی۔۔۔۔شام میں وہ انکل کے ساتھ اوپر والے پورشن میں آی تب اسنے انکل سے پوچھا تو انکل نے اسے ساری بات بتای لیکن نام نہ بتایا اسکا۔۔۔۔۔
ابیہا کو اسکی دوست ناجیہ کی کال آئی جسکی وجہ سے اسے جانا پڑا لیکن اسکے بابا کو کرنل صاحب نے روک لیا۔۔,۔۔۔
کرنل اور نواب صاحب چہل قدمی کے لیے ابھی باہر گھر سے دو قدم دور ہی نکلے ہی تھے جب فون آیا بشیر کا اور ڈاکٹر کو فون کیا جب وہ پہنچے تب اسکو ہوش آچکا تھا۔۔۔وہ بہت خوش ھوے جسے وہ انکا بیٹا ہو۔۔۔نواب صاحب نے جب اسے دیکھا تو عالیان نے انہیں پہچان لیا اور دونوں ایک دوسرے گلے لگ کے رونے لگ گے آنسو خوشی کے آنسو تھے۔ ۔,۔۔
کرنل ناسمجھی میں دیکھتے رہے پھر پوچھا تو ساری بات بتادی ۔۔۔۔۔
عالیان نے ابیہا کے بارے میں پوچھا تو نواب صاحب ہنسنے لگ گے اور پھر بتایا ۔۔۔۔
نواب صاحب نے اپنے دوست کو فون کیا اور جلدی گھر آنے کا بول دیا ۔۔
جب وہ آے تب عالیان کو دیکھ کے بے یقینی میں دیکنھے لگ گے جب عالیان نے گلے لگالیا۔۔۔۔۔
*****************************
سب لاونج میں خوش گپیوں میں مگن تھے جب ابیہا کی کال نواب صاحب نے اٹینڈ کی تب وہ بتانے ہی لگے تھے عالیان نے اشارے سے منع کر دیا حال وغیرہ پوچھ کے بند کر دیا۔۔۔۔
عالیان نے انکل کو سارا پلان بتایا اور کہا کے وہ ابیہا کو نہ بتاے پہلے تو وہ نہ مانے پھر :عالیان نے سبکو اپنے ساتھ ملالیا اور اور نواب صاحب وعدے کے مطابق گھر کے لیے نکل پڑے شام میں وہ گھر پہنچے رات میں جب وہ گھر پہنچی تو بابا کو دیکھ کے چونکی اور پھر کپڑے تبدیل کرنے کے بعد انکے پاس بیٹھ گی ۔۔ ۔
بابا خیر ھے نہ آپ بغیر بتاے اچانک آگے ۔۔ہاں ہاں بس خیر ہی ھے ۔مجھے تم سے ایک بات کرنی ھے ۔میں نے تمہارا رشتہ طے کر دیا تمہارے انکل کے بیٹے سے۔۔ایک ہفتے بعد تمہارا نکاح ھے۔۔۔۔
ابیہا جب سنا اسکے دماغ میں سائیں سائیں ہونے لگی اور وہ بغیر کچھ کہے کمرے میں چلی گی ۔۔۔
*******”””********
ابیہا کمرے میں آتے ہی رونے لگ گی اور دل ہی دل میں عالیان سے باتیں کرتے کرتے کب اسکی آنکھ لگی اسے خبر نہ ہوئی جب وہ اٹھی تب وہ اپنے آپکو کافی حد تک سبنھال چکی تھی۔۔۔۔وہ اپنے بابا کو اپنی وجہ سے کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس نے اپنے بابا کو کہ دیا جسے وہ چاہتے ویسا ہی ہو گیا اور وہ بہت سی دعائیں دیتے کمرے میں کی طرف چل دیے ابیہا آنسو ضبط کیے کمرے میں چلی گی ۔۔۔
دوسری طرف عالیان کو پتہ چک گیا تھا جسکی رپورٹ انکل سے ملی ۔۔۔دل ہی دل میں ابیہا کو آئندہ زندگی میں آنے پر خوش آمدید کہنے لگا۔۔۔,
ابیہا کو تین دن پہلے ہی مایوں بیٹھا دیا ۔۔۔ابیہا نے لڑکے کی تصویر دیکھنے سے انکار کردیا اور نہ اسے اسکا نام جاننے میں دلچسپی تھی وہ عالیان کی یادوں میں کھوئی اسے کسی چیز کا کوئی ہوش نہ تھا۔۔۔۔۔
اسے بتایا گیا کہ سب کچھ دولہے کی پسند کا ھے اور اس نے خرید کے بیجھا ہے,۔لیکن اسے کسی میں بھی دلچسپی نہ تھی۔۔۔
نکاح کا دن بھی آن پہنچا ۔۔
نکاح نامے پر سائن اس نے بغیر دیکھے سائن کیے اور اپنے بابا اور دوست کے گلے لگ کے پھوٹ پھوٹ کے رو دی اپنے آنسوؤں کے ساتھ اس نے اپنا غم بھی بہادیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
**************”””************
رخصتی تک اس نے کسی کو بھی نہ دیکھا کون اسکے پہلو میں بیٹھا کون نہیں
۔,۔۔۔۔۔
گھر جب کمرے میں اسے بیٹھایا گیا تب وہ ہوش میں آئی دروازے پر دستک ہوئی لیکن وہ دیکھ نہ پائی اندر آنے والا کون ھے۔۔۔۔جب عالیان نے سلام کیا اسے ایسا لگا جیسے عالیان کی آواز ہو لیکن اپنے گھوگھٹ کی وجہ سے وہ اسکی شکل دیکھ نہ پائی
جب عالیان اسکے پاس آیا اور گھوگھٹ ہٹایا کچھ پل تو وہ اسے بے یقنی سے دیکھتے رہی پھر اسی پل وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہوگی ۔۔۔۔
جب اسے ہوش آیا عالیان کو اس پر جھکے دیکھ کر اٹھ گی۔عالیان کیا تم سچ میں میرے پاس ہو وہ اسے دیوانہ وار ہاتھ لگا کر محسوس کرنے لگی۔ ۔عالیان نے اسے یقین دلانے کے لے اسے گلے لگا کیا اور وہ اسکے گلے لگتے ہی رونے لگ گی ۔عالیان نے اسے چپ کروایا اور ساری بات بتائی پہلے وہ اپنے بابا سے پوچنا چاہتی تھی لیکن عالیان نے اسے بتایا کے نہ بتانے کا پلان اسکا تھا اور اس نے سب کو منع کیا تھا ۔۔۔۔وہ مسکراتے ہوے اسکے گلے لگ گی۔۔۔۔آسمان تاروں سے بھرا ایسے محسوس ہو رھا تھا جسے وہ ابیہا عالیان کے ملن پر جھوم رہے ہو۔۔۔۔۔۔
ختم۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...