” چلو تم اب آرام کرو کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دینا۔” سیما خالہ کھانے کے برتن اُٹھاتے ہوئے بولیں۔ کردم کی ہدایت کے مطابق انہوں نے زبردستی اسے پیٹ بھر کر کھانا کھلایا تھا۔
” نہیں اب کسی چیز کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ آپ بھی جا کر آرام کریں۔” آئینور لیٹتے ہوئے بولی۔
” اچھا !! چلو تم آرام کرو اور ہاں کردم کو فون کر لینا۔ اُس نے کہا تھا جب تم اُٹھ جاؤ تو تمہیں بول دوں۔”
” ٹھیک ہے میں کر دونگی آپ کے لاڈ صاحب کو فون۔”
آئینور کی بات پر وہ مسکراتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں۔ ان کے جانے کے بعد آئینور نے فون کرنے کے لیے اپنا موبائل ڈھونڈنا چاہا پر وہ وہاں موجود نہیں تھا۔
” اففففف !! میرا فون کہاں گیا؟ ” وہ سائڈ ٹیبل کی درازیں دیکھنے لگی پر وہاں بھی نہیں تھا۔
” لگتا ہے کل گھر پر ہی رہ گیا۔” آئینور ڈھونڈنے کی کوشش ترک کرتی واپس بیڈ پر بیٹھ گئی۔
” اب کیا کروں؟ ماما کو بھی کال کرنی تھی۔” وہ خود سے ہی سوال کرتی اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل آئی۔ کچن میں جا کر اس نے سیما خالہ کو دیکھا پر وہ وہاں موجود نہیں تھیں۔
” شاید اپنے کمرے میں آرام کر رہی ہوں۔”
وہ سوچتے ہوئے لاؤنج میں چلی گئی اور وہاں لگے ٹیلی فون سے اس نے کردم کو کال ملا دی۔
۔****************۔
آغا حسن کچھ دیر پہلے ہی اڈے سے گیا تھا۔ اب بیٹھک میں صرف کردم موجود تھا۔ جو سر جھکائے بیٹھا حساب کتاب دیکھ رہا تھا۔ لیکن زہنی طور پر وہ آئینور کو سوچ رہا تھا۔
” وہ وہاں اکیلی کیوں تھی اور وہ دونوں کہاں گئے؟
کیا واپس چلے گئے؟ اگر ہاں تو پھر آئینور جھوٹ بول کر کیوں گئی؟ ”
کچھ دیر ہونہی بیٹھا سوچتا رہا جب دروازہ کھول کر ایک خوبصورت سی لڑکی چُست لباس زیب تن کیے اندر داخل ہوئی۔
دروازہ کھولنے کی آواز پر کردم نے سر اُٹھا کر دیکھا تو وہاں ” لیلہ” تھی۔ کردم کو زرا دیر نہیں لگی تھی، اسے پہچان نے میں۔ یہ وہی تھی، جس سے آغا کے گھر سے نکلتے وقت ٹکرایا تھا۔ اور اس کی شرٹ پر لپ اسٹک کا نشان لگ گیا تھی۔
” ہائے !! ” وہ اس کے سامنے بیٹھتی ایک ادا سے بولی۔
” تم کون اور یہاں کیا کرنے آئی ہو؟ ” کردم روکھائی سے کہتا جان کر بھی انجان بن گیا۔
” ارے !! آپ تو بھول ہی گئے یاد ہے۔ آغا حسن کے گھر سے نکلتے وقت آپ مجھ سے ٹکرا گئے تھے۔” اس نے کہتے ہوئے بالوں کو پیچھے جھٹکا دیا۔
” تو؟ ” کردم کی بیزاری عروج پر تھی۔
” تو بس سوچا اس چھوٹی سی ملاقات کو تھوڑا آ گے لے جائیں۔ اس لیے آپ کے بارے میں معلومات حاصل کر کے یہاں تک پہنچ گئی۔” وہ مسکرا کر بولی۔
کردم سمجھ گیا تھا۔ یہ معلومات اس نے آغا یا اس کے گھر کے کسی ماتحت سے حاصل کی ہوگی۔
” اب تم۔۔۔”
کردم بول نے ہی لگا تھا، جب اس کی جیب میں رکھا موبائل وائبریٹ ہونے لگا۔ موبائل نکال کر دیکھا تو گھر سے کال تھی۔ وہ پریشان ہوگیا۔ پہلا خیال اسے آئینور کی طبیعت کے خراب ہونے کا آیا تھا۔ لمحے کی دیر کیے بغیر اس نے کان سے لگی بلیو ٹوتھ کے زریعے کال ریسیو کی۔
” ہیلو !! ” کانوں میں پڑتی آئینور کی آواز رس گھول گئی۔ جس کے باعث کردم کا سارا غصّہ ( جو آئینور پر تھا ) جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ پریشانی بھی یکدم غائب ہوگئی۔ بس اس کے ہونٹوں پر مدھم سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
” کیسی ہو تم؟ ”
” میں ٹھیک ہوں۔” آئینور دھیرے سے بولی۔
اور اُدھر کردم کے سامنے بیٹھی لیلہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ کردم کے موبائل پر آتی کال نہیں دیکھ سکی، اس لیے وہ یہ ہی سمجھی کہ کردم اس سے مخاطب ہے۔
” تو آپ نے پہچان ہی لیا جناب !! ۔۔۔ اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔” وہ کردم کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی اور کردم بظاہر تو یوں لگ رہا تھا۔ وہ اسے دیکھ رہا ہے مگر۔۔۔ اس کی نظریں دروازے کی طرف تھیں، گویا یوں جیسے آئینور کو دیکھ رہا ہو۔
” وہ میرا سامان گھر پر رہ گیا اور موبائل بھی، آپ کسی سے منگوا دیں۔” دوسری طرف آئینور نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
” ٹھیک ہے۔”
کردم کہتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا اور اپنا سامان سمیٹنے لگا۔ سامنے بیٹھی لیلہ بھی کھڑے ہو کر اس کے قریب آگئی۔
ادھر آئینور کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا بات کرے۔ فون بھی کاٹ نہیں سکتی تھی، کیونکہ اپنی بات کہہ کر فون بن کردینا بھی خودغرضی تھی۔ اس لیے بنا سوچے سمجھے پوچھ بیٹھی۔
” کب تک آئینگے آپ؟ ”
اس کی بات پر کردم کے چہرے کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔ جس کی وجہ سے لیلہ جو اس کے قریب ہو کر کھڑی ہو گئی تھی۔ اسے مزید ڈھارس ملی۔
” کیا ہم آج مل سکتے ہیں؟ ”
وہ اس کے بازو پر ہاتھ رکھتی ایک ادا سے پوچھنے لگی۔ مگر وہاں ہوش کسے تھا۔۔۔؟ لاڈ صاحب تو ارد گرد سے بے نیاز پوری طرح اپنی نور کی جانب متوجہ تھے۔
” گیارہ بارہ بجے تک۔”
اس نے آئینور سے جھوٹ بولا۔ جبکہ وہ یہاں سے نکلنے کی ہی کر رہا تھا اور ادھر اس کی بات پر لیلہ جھوم ہی اُٹھی، پھر چہکتی ہوئی آواز میں بولی۔
” ٹھیک میں آ جاؤں گی۔”
آئینور جو آگے کچھ بولنے کے لیے سوچ ہی رہی تھی، دوسری طرف سے آتی لڑکی کی آواز سن کر ٹھٹھک گئی۔ اس نے ریسیور کان سے ہٹا کر اسے گھورا اور ٹیلی فون پر پٹخ کر واپس کمرے کی جانب چل دی۔ اسے بُرا لگا تھا، لیکن کیوں اسے خود بھی سمجھ نہ آیا۔
وہاں کردم جو آئینور سے مزید کچھ سننے کا منتظر تھا۔ فون کے بند ہونے پر بدمزہ ہوگیا۔
” یہ بھی نا !! ” وہ بڑبڑایا۔
” کیا ہوا ؟ ”
لیلہ کے پوچھنے پر وہ چونک کر ہوش کی دنیا میں واپس لوٹا، تبھی لیلہ کا ہاتھ اسے اپنے بازو پر محسوس ہوا۔ اس نے چہرہ موڑ کر لیلہ کی طرف دیکھا جو بالکل اس کے پاس کھڑی تھی، پھر بازو کی طرف جہاں لیلہ کا ہاتھ دھرا تھا۔ اس نے فوراً لیلہ کا ہاتھ ہٹانے کے لیے ہاتھ بڑھایا مگر۔۔۔ کلائی تک جاتا ہاتھ یکدم رکا۔ کردم نے لیلہ کی شرٹ کی آستین کو کونے سے پکڑ کر ہاتھ جھٹک دیا اور اپنا سامان اُٹھا کر باہر کی جانب بڑھ گیا۔
۔****************۔
وہ کمرے میں آ کر سیدھا بیڈ پر جا لیٹی۔ دل ایکدم ہی بوجھل سا ہوگیا تھا۔ اسے رونا آ رہا تھا، لیکن رونا کیوں آ رہا تھا۔۔۔ یہ ہی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
” تو مس آئینور اسلم !! اگر آپ خوش میں مبتلا ہورہی تھیں، تو دیکھ لیں۔ اللّٰه نے اس خوش فہمی کو مزید بڑھنے سے پہلے ہی حقیقت کو سامنے کر دیا۔
آخر میرے باپ نے بھی کسی کی بیٹی کو بیوی بنا کر بھی وفا اور محبت نہ دی تو اُس کی اپنی بیٹی کو پھر کیسے ملے گی؟
میری ماں بھی خالی ہاتھ رہی اور اب مجھے بھی خالی ہاتھ ہی رہنا ہے، تو پھر رونا کیسا۔۔۔ یہ دکھ درد کیسا۔”
آئینور نے تلخی سے سوچتے ہوئے اپنے آنسو صاف کیے۔ مگر دل میں اُٹھتی تکلیف کو کیسے روکتی۔ کافی دیر تک وہ یونہی لیٹی سوچ کے گھوڑے دوڑاتی رہی کہ اچانک سیما خالہ دروازے پر دستک دے کر اندر آئیں۔
” لڑکی یہ سامان رحیم دے کر گیا ہے۔”
سیما خالہ کی بات پر آئینور نے چہرہ موڑ کر ان کی طرف دیکھا۔
” کیا ہوا تمہیں؟ ”
اس کی سرخ ہوتی آنکھیں دیکھ کر وہ فکر مند ہوتی اس کے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔
” کچھ نہیں !! بس بخار کی وجہ سے۔” اس نے بہانہ بنایا۔
” ٹھیک ہے !! تم آرام کرو میں زرا کھانے کا انتظام کروں۔”
وہ اسے سامان دے کر واپس چلی گئیں۔
آئینور نے موبائل اُٹھا کر اون کیا تو عدیل کے لاتعداد میسج موصول ہوئے۔
” افففف !! یقیناً وہ لوگ پریشان ہو رہے ہونگے۔” اس نے بڑبڑاتے ہوئے کال ملا دی۔
دوسری طرف پہلی بیل پر ہی فون اُٹھا لیا گیا۔
” ہیلو آپی !! ”
عادی کی آواز اسپیکر میں ابھری۔
” السلام علیکم !! کیسے ہو عادی تم؟ ”
” وعلیکم السلام !! میں ٹھیک ہوں۔ لیکن آپ کیسی ہیں؟ صبح سے فون اور میسجز کر کے تھک گیا مگر آپ کا موبائل ہی بند جا رہا تھا۔”
عدیل کے فکر مند لہجے پر وہ مسکرائے بغیر نہ رہ سکی۔
” میں بھی بالکل ٹھیک ہوں۔ تم اپنی بتاؤ سفر کیسا رہا؟ ” اس نے بات بدلی۔
” سفر ٹھیک تھا، ہم خیریت سے گھر پہنچ گئے تھے۔”
” یہ تو اچھی بات ہے۔ چلو اب میری ماما سے بات کرواؤ۔”
” ہاں !! بات کریں۔ وہ ویسے ہی کل سے آپ کے لیے پریشان ہو رہی ہیں۔” عدیل نے کہہ کر فون رخسار بیگم کو پکڑا دیا۔
” کیسی ہو نور؟ ” بغیر کسی سلام دعا کے وہ بے صبری سے پوچھنے لگیں۔
“میں ٹھیک ہوں۔ مجھے کیا ہونا ہے؟ ” اس نے ضبط سے کہا، ایک بار پھر آنکھیں جھلکنے کو بیتاب تھیں۔
” تمہاری آواز سے تو ایسا نہیں لگ رہا۔” وہ کسی بھی طور مانے کو تیار نہیں تھیں۔
“میں۔۔۔ میں آپ لوگوں کے پاس آنا چاہتی ہوں ماما۔” بالآخر اس کا ضبط ٹوٹا۔ وہ رو دی۔
” کیا ہوا ہے؟ بتاؤ مجھے کردم نے کچھ کہا؟ ” وہ پریشانی سے بولیں۔
” نہیں !! اُس نے کچھ نہیں کہا، بس مجھے یاد آ رہی ہے آپ دونوں کی۔”
وہ خود کو سنبھالتی ہوئی بولی۔ اس کی بات پر رخسار بیگم کی فکر کچھ کم ہوئی۔ وہ مسکرا دیں۔
” کل ہی تو ہم وہاں سے آئے ہیں، اور تمہیں یاد بھی ستانے لگ گئی۔ اب ہماری فکر چھوڑو اور شوہر پر دھیان دو۔” ان کی بات پر آئینور کا حلق تک کڑوا ہوگیا۔
“وہ میرا شوہر نہیں ہے۔ سمجھتی کیوں نہیں آپ؟ ” وہ جھنجھلا اُٹھی۔
” تم پھر وہی باتیں لے کر بیٹھ گئی ہو نور۔” رخسار بیگم سدمے سے بولیں۔ انہیں تو لگا تھا۔ وہ اس رشتے کو قبول کر چکی ہے، مگر وہ اب بھی وہیں کھڑی تھی۔
” وہیں باتیں !! یہ حقیقت ہے ماما، جو بدل نہیں سکتی۔ میں کردم جیسے شخص کو شوہر مان لوں۔ جس کے نہ جانے کتنی لڑکیوں کے ساتھ تعلقات قائم ہوں گے اور نہ جانے کس کس سے اس کی ناجائز اولادیں اس دنیا میں سانس لیتی ہوں گی۔” ایک بار پھر اس کی زبان بنا سوچے سمجھے چل پڑی تھی۔
اور اُدھر کمرے کے دروازے پر کھڑا کردم اس باتوں پر ساکت رہ گیا۔ وہ اس قدر اس سے بدگمان تھی۔ وہ سوچ کر رہ گیا۔ آئینور کی طبیعت کے باعث وہ جلدی آ گیا تھا۔ لیکن اب اس کے لفظوں نے کردم کے اندر وہ ہمت باقی نہیں رہنے دی تھی، جس سے وہ اس کا سامنا کرتا۔ وہ الٹے قدموں واپس چلا گیا۔
دوسری طرف آئینور رخسار بیگم سے باتوں میں لگی رہی۔ یہ جانے بغیر اس کی باتوں نے کسی کا دل چیر کر رکھ دیا ہے۔
۔***************۔
وہ بلاوجہ ہی سڑکوں پر گاڑی دوڑا رہا تھا۔ آئینور کی باتوں نے تکلیف پہنچائی تھی، اس لیے وہ اکیلا ہی نکل آیا تھا۔ غفار نے اس کے ساتھ آنا چاہا تو اس نے صاف انکار کر دیا۔ اسے گاڑی یوں ہی سڑکوں پر دوڑاتے تقریباً دو گھنٹے گزر نے والے تھے جب اس نے گاڑی لے جا کر ” بازارِ حُسن ” کی گلیوں میں روک دیا۔
وہ گاڑی میں بیٹھا سامنے نظر آتی بازارِ حُسن کی ان تنگ گلیوں کو دیکھ رہا تھا۔ جہاں دن میں تو سناٹا چھایا رہتا تھا۔ لیکن رات میں یہاں رونق لگی ہوئی ہوتی تھی۔ ابھی بھی ان گلیوں میں ادھر سے اُدھر گھومتی دوشیزائیں اپنے حُسن کے جلوئے بکھیر رہی تھیں۔ لائٹس کے زریعے گلیوں میں چھت سی بنائی ہوئی تھی۔ جو جگمگا کر ان گلیوں کی رونق کو اور بھی بڑھا رہی تھیں۔
وہ گاڑی سے باہر نہیں نکلا بس وہیں بیٹھا لوگوں کو ادھر سے اُدھر جاتے دیکھتا رہا۔ یہ وہ جگہ تھی، جہاں سے اس کا بہت گہرا تعلق تھا۔
” تم ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہو نور؟ ”
وہ نظریں ان لائٹس سے بنی چھت پر جمائے اپنے خیالوں میں آئینور سے مخاطب ہوا۔
” مانا تم زبان کی تیز ہو۔ بنا سوچے سمجھے بول جاتی ہو۔
اور اب تک تم نے مجھے اور عادی کو جو کچھ غصّے میں بولا۔ وہ ٹھیک بھی تھا، کیونکہ حقیقت جو تھا۔
لیکن میرے جس باب کو جانتی نہیں تم اُس کے بارے ميں ایسا کیسے بول سکتی ہو؟
ہاں !! میرا ماضی بالکل بھی نیک نہیں۔ عورتوں سے میرے تعلقات رہے ہیں مگر۔۔۔ اس حد تک نہیں کہ میری کوئی اولاد ہو۔ وہ بھی ناجائز۔”
اس نے سر گاڑی کی سیٹ سے ٹکا لیا البتہ آنکھیں ابھی بھی وہیں جمی ہوئی تھیں۔
” سنا تھا محبت آزماتی ہے، لیکن آج دیکھ بھی لیا۔ پر اس میں تمہارا قصور نہیں، کیونکہ گناہوں کی دنیا میں رہتے ہوئے یہ الزام بھی ماتھے پر سجنا ہی تھا۔” وہ بڑبڑایا اور پھر کچھ سوچتا ہوا، گاڑی اسٹارٹ کر کے واپس گھر کی جانب بڑھا لے گیا۔
۔***************۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...