وہ بابا کو سوپ پلا رہی تھی جب اچانک بیل کی آواز پہ
اس نے مڑ کر دیکھا امی ابھی تک نماز پڑھ رہی ہے اس لیے اس خود اُٹھنا پڑیں گا
“جاو بیٹا دیکھ آو۔”
بابا نے اس کو کہا جو اُٹھنے والی تھی
“جی بابا جارہی ہوں ۔”
وہ سوپ سائڈ ٹیبل پہ رکھ کر اپنا ڈوپٹہ دُرست کر کے گیٹ کی پاس آئی لیکن کھولنے سے پہلے بولی
“جی کون ۔”
“علی سر گھر پر ہے میں غازی مس ہیر ۔”
غازی کی آواز سُن کر اس کا دل تیزی سے دھڑک اُٹھا اور لب آپے آپ مسکرا اُٹھے اس دُنیا میں آج تک اتنا خوبصورت اور اتنا اچھا انسان کو نہیں دیکھا تھا سے بابا کے ہوسپیٹل کے بل سارے اس نے ادا کیے ان سے ملنے آیا کرتا تھا اور خالی ہاتھ تو بالکل نہیں آتا تھا اس کی اتنے احسان پر ہیر اور اس کے فمیلی شرمندہ بھی ہوگئی تھی لیکن اس نے انھیں ہونے بھی نہیں دیا وہ کہتا تھا اس کے بابا نہیں ہے تو ہیر کے ابو کو دیکھ کر اسے اپنے بابا یاد آگئے تو وہ اپنے بابا سمجھ کر یہ سب کررہا ہے اور جب سے بابا ہوسپیٹل سے ڈیسچارج ہوکر گھر آئے تھے تب وہ روز کے بجائے جمعہ کو آتا تھا اور آج ہیر کو یاد آیا جمعہ ہی ہے وہ بھول کیسے گئی اس نے دروازہ کھولا جہاں سفید شلوار قمیض میں آنکھوں پہ کلاسس پہنے ہاتھ میں ڈھیر شاپر پکڑیں وہ ہینڈسم غازی تھا
“اسلام و علیکم !”
ہیر کی محیوت کو اپنی دلکش آواز سے توڑتے ہوئے وہ ہولے سے مسکرایا
“وعلیکم و سلام ۔”
وہ اتنی دھیمے آواز پہ سر جکھا کر بولی کے غازی بامشکل ہی سُن پایا
“کیا میں اندر آسکتا ہوں ۔”
“جی جی ۔۔”
وہ ناجانے گھبڑا کیوں رہی تھی ۔غازی نے اپنی مسکراہٹ دبائی
“آپ سائڈ پہ ہوگی تو میں اندر آو گا ۔”
بات انتہائی سادے الفاظ اور سادے لہجے میں کہے گئی تھی لیکن پتا نہیں کیوں ہیر کے چہرے سے دھوا نکلنے لگا
“جی سوری !”
وہ اندر اچکا تھا اس کی کلون کی خشبو چاروں طرف مہکنے لگی
“انکل اُٹھے ہوئے نا ؟”
وہ اس کے پیچھے آرہی تھی جب وہ ہلکہ سا مڑ کر بولا
“جی جی بابا اُٹھے ہیں ۔”
وہ آہستگی سے بولی اور نظریں جکھائی ہوئی تھی اس میں اتنی ہمت نہیں تھی ان ہری آنکھوں کو اپنے اوپر مرکوز ہوتا دیکھے ۔
“طبیعت کیسے ہے ان کی ۔”
وہ گفتگو کو طویل کرنا چارہا تھا ہیر آگئے سے جواب دیتی کے مسز علی کون ہے ہیر کہتی ہوئی آئی اور پھر خود ہی بولی غازی ہوگا اور غازی کو دیکھتے ہی مسکرا پڑئ غازی سلام کرتے ہوئے جھک گیا کے وہ آرام سے اس کی پیٹھ تھپک کر اس کا کندھا چومے وہ ماں صدقے ماں واری ہوگئی اس نیک اور خوب سیرت جوان لڑکے کو وہ بہت ہی جلد ان کے دلوں میں گھس چکا تھا اور سب کو خود ہی نہیں پتا چلا تھا کے وہ ایک ہفتے پہلے بالکل اجنبی ہی تھی ،انسان اگر اپنا رویے میں نرمی اور مٹھاس رکھے تو کوئی بھی آپ کا اسیر ہوسکتا ہے چاہیے وہ سخت دل کا ہی کیوں نہ ہو اس کا دل ایک نہ ایک دن نرم رویے سے پگھل جاتا ہے اور یہی چیز غازی نے کی تھی
“بہت اچھا کیا اس وقت آگئے میں کب سے انتظار میں تھی کے غازی آئے گا آج جمعہ ہے نا آو علی آپ کا انتظار کررہے ہیں ۔”
ہیر کو اشارہ کیا کے کچن میں جائے اور کولڈ ڈرنک کا انتظام کریں
وہ اندر آیا تو علی صاحب جو موبائل فون پہ مصروف تھے غازی کو دیکھ کر ان کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ آئی
غازی آگئے بڑھنے لگا پھر احساس ہوا ابھی تک شاپر اس نے پکڑے ہوئے تھے
“او سوری انٹی یہ لے ۔”
اس نے مڑ کر انٹی کو دیں۔
“بیٹا بس بھی کردو اتنا تکلف ۔”
غازی نے منہ بنایا
“بیٹا بھی کہتی ہیں اور تکلف کی بات ناٹ فیر آنٹی چلے پکڑیے ۔”
اس نے گویا بات ہی ختم کردیں ۔
ہیر اندر آئی اور اس نے جوس سے بھرا گلاس پیش کیا غازی نے اب اسے نہیں دیکھا تھا وہ اتنا لحاظ کرتا تھا کے وہ اس کے ماں باپ کے سامنے نہ دیکھے اس نے تھینک یو کہہ کر انکل کی طرف متوجہ ہوا اور جو فون بند کر کے اب مسکرا کر دیکھ رہے تھے
“آج بہت دیر کردی تھی آپ نے بیٹا ۔”
“بس انکل معذرت جمعے کی نماز کے بعد آفس میں مجھے ایک کام تھا وہ کام نمٹا کر پھر سیدھا بازار گیا اور کچھ دُکانیں پتا ہے جمعے کو بند ہوتی ہیں اس لیے مال جانا پڑا مال میں ٹائیم لگ گیا اور اب آپ کے سامنے ہوں ۔”
“ماشااللّٰلہ اللّٰلہ آپ کو خوش رکھے حمدا باتیں تو ہوتی رہے گی زرا بیٹے کے لیے کچھ کھانے کا انتظام کریں بیٹا میں نے ابھی دوائی کھائی تو مجھے ہلکی سی گنودگی محسوس ہورہی ہے اگر آپ ۔۔۔”
وہ کہتے ہوئے ہچکچائے
“ارے انکل ریلکس میں چلتا ہوں بس آپ سے ملنے آیا ہوں آپ آرام کریں ۔”
“ارے بیٹا کھانا تو کھا کر جاو میں نے ابھی تمھارے لیے قورمہ اور پلاؤ بنایا ہے پتا تھا آو گئے ۔”
“ارے آنٹی اس کی کیا ضرورت تھی ۔”
“لو جی خود کہتے ہو بیٹا ہوں کیسے تکلف اب خود تکلف کررہے ہو چلو شاباش ہیر پلیٹیں لگا دیں ۔”
ہیر اسے ہی دیکھ رہی تھی امی کے بے ساختہ کہنے پر اپنی نظریں بدلی
“جی امی ۔”
وہ اس مڑ کر چلی گئی جبکہ وہ بھی اٹھتا ہوا انٹی کئ تلقید میں کمرے سے نکلا
※※※※※※※※※※※※※※※※
وہ دیکھ رہی تھی وہ سفید فراک میں ملبوس نروس سی لیکن ہاتھوں میں ریپر کو کھولتی سر جکھائے جس سے اس کا چہرہ ہلکا سا ہی نظر آیا لیکن پھر بھی پیٹنگ کو غور سے دیکھا جاتا تو ہر طرح کی ایموشنز تھے خوشی ،اشتیاق ،گھبراہٹ ،عجیب سی در آنے والی نمی تصویر میں بے شک کسی کو نہ پتا چل رہا ہو لیکن ہیر کو پتا تھا وہ اس وقت کیا محسوس کررہی تھی اور اسے لگا تصویر کو دیکھ وہ اُدھر ہی چلی گئی ہو کاش وہ پل واپس آجائے اور وہ انھیں خوش پل کو اپنے ہاتھوں سے مٹا دیں لیکن غازی کا ہی کہنا تھا ایک بار جو چیز لکھی جاچکی ہوتی ہے تو وہ وہ ہوکر ہی رہتی اور لکھی کو کون ٹال یا مٹا سکتا ہے ۔
“آپی یہ ہے میرا پیانو ڈیڈی لائے میرے لیے پہلے تو خود بجانے کی کوشش کی پر انھیں تو آتا ہی نہیں ہی ہی فنی طریقے سے اس کو بجا رہے تھے ۔”
زینی کی آواز سے وہ ہوش کی دُنیا میں ایک بار پھر واپس آئی اس نے مڑ کر خشمگیں نظروں سے غازی کو دیکھا جو فورن نظر پھیر کر زینی کو دیکھنے لگا
“ناٹ فیر زینی پاپا کا مزاق اُڑاتی ہو پاپا ہی تو لائے آپ کی فیورٹ ٹیچر اچھا انکل فرید سے کہو آپ کی آپی کے لیے جوس لائے کب سے آئی ہوئی ہے ۔”
ہیر اس سے پہلے کچھ بولتی وہ ایک پاپا کہہ کر مڑ گئی
غازی نے مڑ کر ہیر کو دیکھا جو سُرخ چہرہ لیے اسی کو یقینن دیکھ رہی تھی
“پوچھ سکتی ہو ایک شادی شدہ اور بچی کا باپ ہوتے ہوئے کسی غیر عورت کی تصویر رکھنے کا کوئی جواز ۔”
لہجہ بے پناہ کاٹ دار
“کیسی ہو رانجھی !
وہ نرمی سے لیکن تھکی سی مسکراہٹ سے اسے دیکھتے ہوہے بولا
“ڈونٹ خبرادر آپ نے مجھے اس نام سے پکارا مسڑ غازی ورنہ آپ کی بیٹی کی موجودگی کا لحاظ نہیں کرو گی ۔”
“تو یہاں کیوں آئی ہو یہاں سے بھاگ کیوں نہیں گئی اگر اتنا زہر لگتا ہوں ۔”
وہ تھوڑا سا چل کر اس کے سامنے آیا
“زہر! آپ مجھے کچھ نہیں لگتے اور رہی بات اتنی دیر سے رہنے کی میری مجبوری ہے اور وہ مجبوری میری ماں ہے جو دن با دن موت کے قریب آتی جارہی ہے لیکن کم پیسے کے خاطر خاموش ہے بابا کو کھونے کے بعد اب میں امی کو نہیں کھو سکتی ۔”
بولتے ہوہے اس کی آواز بھرا گئی غازی کے چہرے پہ پریشانی آگئی
“انٹی کیسی ہے کیا ہوا ہے انھیں ۔”
وہ اب مزید قریب آیا اور اس کے کندھے کو پکڑنے لگا کے ہیر نے اس کا ہاتھ جھٹکا وہ کچھ بولنے لگی جب اچانک زینی تیزی سے آئی
“بابا انکل نے کہا ہے کھانا لگا دیا ہے آپ اور آپی آجائے ۔”
“سر مجھے کوئی ٹائیم بتا دیں کے کب سے کام شروع کرو ۔”
وہ اب اپنے لہجے کو نارمل کرتے ہوئے بولی
“آج مجھے کسی کام سے جانا ہے زینی بھی میرے ساتھ جائے گی اس لیے کل سے آپ جوائن کر لیجیے گا چار گھنٹے کی کلاس ہوگی ۔”
اس نے جھٹکے سے سر اُٹھایا وہ مسکراتی نظروں سے اسے دیکھ رہے تھا جیسے اپنی بیٹی کی موجودگی کا فائدہ اُٹھا رہا تھا
“دو گھنٹے ! ٹھیک ہے چلتی ہوں اللّٰلہ حافظ !”
وہ کہہ کر جانے لگے جب زینی شروع ہوگئی
“آپی پلیز تھوڑی دیر تو روکے نا ۔”
وہ چلتے ہوئے ان سے لپٹ گئی
“جی مس ہیر اگر زینی اصرار کررہی ہے تو رُکے نا ۔”
وہ شرارت سے بولا وہ اسے اگنور کر کے زینی کے گال چھوئے
“زینب ! ابھی میری ماما کو کھانا دینا ہے ان کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتے نا ۔”
زینی مان گئی
“ٹھیک ہے آپی ۔”
“تھینک یو سویٹی میں کل آو گی ۔”
※※※※※※※※※※※※※※※※※
وہ بیٹھی کوئی ناول پڑھ رہی تھی جب ڈور بیل ہوئی امی بابا کو ڈاکڑ کے پاس چیک آپ کروانے کے لیے گئی تھی ابھی تو گئے تھے جلدی واپس آگئے لگتا ہے کوئی چیز رہ گئی ہوگی وہ سیدھا چلتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھی اور بنا پوچھے ہی دروازہ کھول دیا دیکھا تو غازی کو دیکھ کر وہ پہلی حیرت سے دیکھنے لگی پھر اسے ڈھیروں شرم آئی اس نے جلدی سے ڈوپٹہ پھیلایا اور سر پہ اوڑھا
“آ آ آپ ۔”
“اسلام و علیکم ۔”
وہ گرے سوٹ میں ملبوس سے ہلکی شیو میں چھایا ہوا اس سے مسکراتے ہوئے بولا
“بابا نہیں ہے ۔”
وہ نظریں جھکاتے ہوئے بولی
“اچھا انکل کدھر ہے۔”
“بابا ہوسپیٹل چیک آپ کے لیے آپ جمعے کو نہیں آتی تھے ۔”
وہ اب اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی
“جی آپ کو یاد ہے میں کب کب آتا ہوں ۔”
“یاد کیسے نہیں ہوگا میں تو انتظار۔۔۔۔”
اس نے لب کو تیزی سے دبائے یہ کیا کہنے جارہی تھی
وہ اپنے ہنسی نہیں روک پایا
“اچھا صرف میں ہی نہیں جسے جمعے کا شدت سے انتظار ہوتا ہے ۔”
وہ اب اپنی گلاسس اُتار کر اپنی ہری آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا ہیر کا چہرہ سُرخ ہوگیا پھر اسے یاد آیا پریشر کُکر کو بند کیا تھا
“ہائے اللّٰلہ ۔”
وہ اپنے سر پہ ہاتھ مار کر تیزی سے بھاگی کچن کی طرف
غازی بھی اس کے پیچھے آیا اور شُکر ہے آگیا ورنہ ہیر کا تو نقصان ہوجانا تھا وہ جیسے آئی پریش کُکر پھٹا اس نے چیخ ماری جب کسی نے اس کا بازو پکڑ کر تیزی سے کھینچا سر اس کے سینے سے جاکر ٹکرایا دل تیزی سے دھڑکنے لگا جسم کانپنے لگا غازی نے پہلے کچن کی طرف دیکھا پھر چہرہ موڑ کر ہیر کو دیکھا جو گھبڑا گئی تھی
“شُکر ہے میں آگیا ورنہ پتا نہیں کیا ہوجاتا اللّٰلہ تیرا لاکھ لاکھ شُکر ہیر ریلکس ٹھیک ہے آپ ۔”
اس نے ہیر کو الگ کر کر اس کا سفید چہرہ دیکھا
“کچھ نہیں ہوا ہوجاتا ہے لیکن آئیندہ احتیاط کیجیے گا وہ تو شُکر ہے آج میں آگیا ورنہ پتا نہیں کیا ہوجاتا ۔”
“ابھی امی ڈانٹے گی دیکھے کیا حال ہوگیا کچن کا ۔”
ڈر اور پریشانی کی مارے بھول گئی کے غازی اس کے اتنے قریب تھا
“فکر نہ کریں ان کے انے سے پہلے صاف ہوجائے گا ۔”
وہ اب ہیر کے بازو چھوڑ کر سیدھا کولر کے پاس گیا اور گلاس اُٹھا کر پانی ڈالا اور ہیر کو دیا یہ لیے پیے اور بالکل ریلکس ہیر کے ہاتھ ابھی تک کانپ رہے تھی اس سے گلاس بھی نہیں پکڑا جارہا تھا
“اچھا بیٹھ جائے یہ نہ ہوں گھبڑاہٹ سے گر ہی نہ جائے ۔”
وہ اسے اشارہ کرتے ہوئے بولا ہیر بیٹھ گئی اور گھونٹ لینے لگی اور غازی اسے دیکھ رہا تھا جو وائٹ قمیض اور پنک پرنٹٹ شلوار کے ساتھ سادہ سا وائٹ دوپٹہ جو اب اس کے سر سے پسھل گیا تھا جس سے اس کے لائٹ براون بال جس کی لٹی اس کے چہرے پہ آگئی غازی ان لٹ کو اپنی انگلی پہ لپیٹنا چاہتا تھا اپنی دل کی خواہش پر وہ جنجھلایا اس کیا ہوگیا وہ کب اتنا بے اختیار ہوا نظر پھیر لی کیونکہ وہ یہ حق کم سے کم ابھی نہیں رکھتا تھا ۔
کچن سے جلنے کی سمیل اب یہاں تک پھیل چکی تھی کے غازی کو اپنے ناک پہ ہاتھ رکھنا پڑا
“اب تو امی ماردیں گی یہ کیا کردیا میں نے ۔”
اب اسے نئی پریشانی سوار ہوئی
“ارے آپ اتنا پریشان کیوں ہوتی ہے ہر چیز کو سر پہ سوار نہیں کرنا چاہیے ۔”
“آپ کو نہیں پتا جب امی کے جوتے پڑیں نا تب آپ کو پتا چلے ۔”
وہ اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی
“اچھا جوتے مجھے تو ہینگر تک پڑے ہے اور خدا کی قسم جوتی پھر ٹھیک تھی لیکن ہینگر اللّٰلہ معاف کریں کسی دُشمن کو بھی نہ پڑے ۔”
ہیر پہلے اسے دیکھتی رہی پھر اس کی ہنسی چھوٹ گئی غازی کو لگا جیسے کوئی میوزک بج اُٹھا تھا جو دماغ کو پُرسکون کردیں
“اللّٰلہ آپ امیروں کو مار بھی پڑتی تھی ۔”
“جی ایسی ویسی اور سزائیں آپ لوگ تو پھر لکی ہیں خیر کچن کی بات کریں کیا آپ کے پاس کوئی ہارپک اور کوئی الکیلیز وغیرہ ہے ۔”
وہ اب اپنا کوٹ اُتارتے ہوئے کہنے لگا ہیر چونکئ
“کیوں آپ کیا کریں گے اس کا ۔”
“میں اس کا سالن بناؤ گا آفکورس کچن صاف کرو گا ۔”وہ اب ٹائی اُتار کر اپنے کف لنکس کھول رہا تھا اور سلیوز مڑورنے لگا ہیر کی نظر اس کی رولکس پہ پڑی جو اب اتار رہا تھا وہ گھڑی اور گاڑی کے ساتھ اتنے مہنگے کپڑے دیکھ کر بتا سکتی تھی وہ کتنا پیسے والا ہے لیکن اتنی سادگی اسے کوئی پروا نہیں تھا وہ کیا ہے اور وہ اب اس کے ساتھ کچن صاف کریں گا
“کیا ہوا مس رانجھی ویسے ہیر کیا آپ کی مدر نے ان کی سٹوری سے انسپائرڈ ہوکر رکھا تھا ۔”
وہ سوچ سے نکلی جو اب کھڑا اس کا منتظر تھا
“نہیں ایسی بات نہیں ہے میرا نام میری نانی نے رکھا ان کو پسند تھا ۔”
“اچھا یانی نانی کی پسند تھی گُڈ اب زرا دیں ورنہ آپ کی امی آجائے گی پھر جوتے وہ میرے سامنے اچھا تو نہیں لگے گا ۔”
وہ شرارت سے بولا ہیر نے اسے گھورا
“ایسی بھی بات نہیں ہے ۔”
“تو کیسی بات ہے ۔”
وہ پُر شوق نظروں سے دیکھ رہا تھا ہیر سپٹا گئی
“میں کیمیکل لاتی ہوں ۔”
وہ تیزی سے وہاں سے بھاگی غازی ہنسنے لگا
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...