کچھ پتا چلا میری بچی کا۔۔جب بلال صاحب سارے دن کے ٹھیکے ہارے گھر داخل ہوئے تو حنا بیگم نے ان سے حور کے بارے میں پوچھا۔۔۔۔
دیکھو حنا بیگم سمبھالو خود کو مل جائے گی ۔۔میں ابھی پولیس اسٹیشن سے ہی آرہا ہو چھان بین جاری ہے ابھی بودی نہں ملی ۔۔۔
بس دعا کرو کے ہماری بچی ٹھیک ہو۔۔۔
بلال صاحب نے حنا بیگم کو سمبھالتے ہوئے کہا۔۔۔۔
ان لوگوں سے کچھ نہیں ہوگا انکل میں خود جاونگی حورعین کو تلاش کرکے لاوگی۔۔۔
جب بلال صاحب حنا بیگم کو سمبھال رہے تھے تو ہانیہ نے انکے پاس آتے ہوئے کہا جو بہت کمزور نظر آرہی تھی ان کئ دنوں میں اس نے کتنے درد سہے تھے پہلے حنان سے دوری کا درد اور اب حورعین کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔۔۔
نہیں بیٹا تم کہی نہیں جاوگی پولیس اپنا کام کر رہی ہے ہم ایک بیٹی کی دوری اگے برداشت کر رہے ہے اللہ نا کرے تمھیں بھی کچھ ہوگیا تو ہم برداشت نہیں کر پائے گے۔۔۔
حنا بیگم نے روتے ہوئے کہا۔۔۔ پلیز انتی مت روئے میں کہی نہیں جاونگی۔۔ہانیہ نے انکے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا اور پھر خود کے انسو نا روک سکی تو اتھ کر کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔
یہ سب ہمارے کئے کی سزا ہے بلال صاحب ۔۔۔
جب ہانیہ کمرے میں گئ تو حنا بیگم نے ان سے کہا۔
نا ہم بھاگ کر شادی کرتے نا ہی میت اپکو شیخ سے ملے کا کہتی نا ہی ہم اس مظلوم مریم کی بیٹی لیتے۔۔
یہ سب میرے کئے کی سزا ہے میں خود ہی اپنی بہین کی دشمن بن گئ کس طرح بے رحمی سے اس سے اسکی بچی دور کردی وہ بھی ایسے ہی ترپی ہوگی جسے اب میں تڑپ رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حنا بیگم کی تین بہنیں تھی سونیا ۔۔حنا۔۔ اور مریم۔۔
سونیا انکی بری بہین تھی۔ جس کی شادی السلام آباد کے مشہور بزنس مین ارسلان سکندر سے ہوئی تھی اور مریم دوسرے نمبر پر تھی جس کی شادی کسی شیخ سے ہوئی تھی جو ایک شرابی اور جواری انسان تھا لیکن اس کی سچائی شادی کے بعد پتا چلی جبکہ حنا سب سے چھوٹی لادلی اور ضدی بیٹی تھی۔۔۔
شاہ صاحب تینوں بیٹیوں میں سے حنا کو بہت پیار کرتے تھے ان کی والدہ کی کسی حادثے میں موت ہوگئ تھی تب سے ان تینوں۔ بیٹیوں کو شاہ صاحب نے بہت لاد پیار سے پالا تھا ہر خواہش پوری کی تھی۔
جتنا پیار شاہ صاحب نے حنا کو دیا تھا اتنا کسی بیٹی کو نہیں ملا تھا۔۔حنا کالج میں پڑھتی تھی تو وہاں اسے ایک لڑکا پسند تھا جس سے وہ شادی کرنا چاہتی تھی جب کے مریم کو اس بارے میں پتا چلا تو اس نے اپنے والد کو بتایا ۔
کیونکہ ان کے خاندان میں ہسند کی شادی کی اجازت نہیں تھی اور مریم یہ نہیں چاہتی تھی کے حنا کوئی ایسا قدم اٹھائے جس وجہ سے اس کے والد کو شرمندہ ہونا پرے۔
تو ایک دن شادی کے بعد جب مریم گھر آئی تھی تو حنا کے موبائل پر کسی بلال کا نمبر دیکھ کر مریم بہت حیران ہوئی اس نے کچھ سوچ کر کال اٹھائی۔۔۔۔
ہیلو جی کون۔۔مریم نے کال اٹھاتے ہی کہا۔۔۔
جی میں بلال بات کر رہا ہو پلیز میری حنا سے بات کروا دے میں اسکا فرینڈ ہو۔۔
میری بات کان کھول کر سن لو اگر تم نے دوبارہ یہاں کال کرنے یا میری بہن سے ملنے کی کوشش کی تو اچھا نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔۔
کون تھا اپی۔۔جب حنا واش روم سے باہر آئی تو اسکی طرف دیکھتی ہوئی بولی جو ہاتھ میں موبائل لئے غصے سے اس کے پاس آئی اور زور دار تھپر اس کے منہ پر رسیدہ کیا۔۔۔۔
شرم آنی چاہیے تمہیں ۔۔تم کالج پرھنے جاتی ہو یا لڑکوں سے دوستیاں کرنے۔۔۔
مریم غصے سے بولی۔۔
تو اپکو پتا چل ہی گیا ۔۔ہاں تو اپکو کیا ہے ہے میں جو مرضی کرو میری زندگی ہے آپ اپنی شادی شدہ زندگی اور اپنے اس شرابی شوہر کی فکر کرے۔۔حنا نے طنزیہ کہا۔۔
بد تمیز شرم آنی چاہیے تمہیں تم ایسا کسے بول سکتی ہو ان کے بارے میں وہ جسے بھی ہے میرے شوہر ہے۔۔
اس وقت میں نے تم سے جو کہا ہے وہ بات کان کھول کر سنو ۔اگر تم نے دوبارہ اس لڑکے سے ملنے کی کوشیش کی تو اچھا نہیں ہوگا۔
۔
مریم نے اسکی طرف شہادت کی انگلی کرتے ہوئے کہا۔
جو اسکی طرف غصے سے گھور رہی تھی۔نہیں تو میں بابا کو سب بتا دونگی۔۔۔
تو بتا دے مجھے کسی چیز کی پروا نہیں شادی تو میں بلال سے ہی کرونگی۔۔
تو میں بھی بابا کو بتا دونگی میں اپنے بابا کی عزت تمھارے ہاتھوں خراب نہیں ہونے دونگی۔۔۔مریم کہتے ہوئے کمرے سے باہر گئ اور شاہ صاحب کے کمرے میں آئی ۔۔۔
پاپا میں اندر اجاو۔۔
مریم نے دروازے پر دستک دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔جو کمرے میں بیڈ پر بیٹھے تھے ۔۔تو اس کی آواز پر سیدھے ہوکر بیٹھے اور اسے اندر انے کو کہا۔۔۔ جی اندر اجاو۔۔۔۔۔۔
بابا مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے مریم نے ان کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا۔۔
جی بولو بیٹا کیا بات ہے۔۔
شاہ صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
بابا وہ ۔۔۔۔مریم کو بہت در لگ رہا تھا بتاتے ہوئے لیکن اسے بتانا بھی تھا اس سے پہلے کچھ برا ہوتا۔۔۔
کیا ہوا بیٹا بولو۔۔شاہ صاحب نے پھر پوچھا۔۔۔
پاپا حنا کا کسی سے چکر چل رہا ہے اور دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہے۔۔
مریم نے نظر جھکاتے ہوئے کہا ۔۔جس کی آنکھوں سے انسو بہے رہے تھے۔۔
ک کیااااااااا یہ کیا کہے رہی ہو بیٹا۔۔۔۔
شاہ صاحب نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔۔
یہ سچ ہے بابا ۔۔مریم نے روتے ہوئے کہا۔۔۔
حناااااااا۔۔اس سے پہلے مریم کچھ اور بولتی ایک زور دار اواز شاہ صاحب نے حنا کو بلانے کے لئے لگائی جو بھاگتی ہوئی ان کے کمرے میں آئی۔
وہ سمجھ گئی تھی اب کیا ہونے والا ہے اس نے ایک نظر روتی ہوئی مریم پر دالی اور دوسری اپنے والد کی طرف۔
جو اس کے پاس آئے اور ایک زور دار ٹھپر اس کے منہ ہر رسیدہ کیا۔
جو گیرنے والے انداز سے ہیچھے دیوار سے لگی۔
بد تمیز لڑکی اس دن کے لئے تمھیں کالج بھیجا تھا کے تم ہماری عزت کا جنازہ نکالو ۔۔میں تمھیں کبھی معاف نہیں کرونگا حنا کبھی نہیں تم نے ہمارے پیار کا یہ صلہ دیا ہے اب تم کالج نہں جاوگی سمجھی اور ہم کوئی اچھا سا لڑکا دیکھ کر تمہاری شادی کردےنگے سمجھی دفعہ ہوجاؤ میری نظروں سے۔۔۔۔
حنا کچھ بولی نہیں تھی لیکن مریم کے لئے نفرت اس کی آنکھوں میں صاف نظر آرہی تھی اس نے ایک غصے کی نگاہ مریم پر دالی اور وہاں سے چلی گئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب حنا کمرے میں آئی تو زور زور سے رونے لگی۔۔۔۔میں تمہیں کبھی معاف نہیں کرونگی مریم آج سے تمھارا اور میرا رشتہ ختم بس اب ایک ہی رشتہ ہے وہ ہے دشمنی کا میں تمہیں برباد کردونگی مریم برباد۔۔۔۔۔
حنا نے اپنا موبائل لیا اور اس پر بلال کو کال کرنے لگی کال پہلی بیل پر ہی اٹھائی گئ۔۔۔۔
بلال تم چاہتے تھے نا کے ہم جلد سے جلد شادی کرلے تو ٹھیک ہے میں تیار ہو لیکن بھاگ کر میں تھوڑی دیر میں یہاں سے نکلوگی اوکے تم مجھے ہائی وے روڈ پر ملو۔۔۔
بلال نے اسے کچھ نہیں کہا بس اچھا کہے کر کال بند کردی۔۔۔۔
حنا نے اپنا سارا سامان پیک کیا اور پیچھے کے دروازے سے نکل گئ۔۔۔
وہ گاڑی کے پاس گئ اپنا سامان رکھا اور گاری چلا کر نکل گئ۔۔۔۔
بہادر دروازہ کھولو۔۔حنا نے دروازے کے پاس بیٹھے چوکیدار کو آواز دی اس نے دروازہ کھولا اور حنا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وہاں سے چلی گئ۔۔۔۔اور بلال سے ملی۔۔۔۔۔
حنا نے گاری بلال کے پاس روکی جو کھرا اسکا منتظر تھا۔۔۔
اس نے کالے کلر کی شلوار قمیض پہن رکھی تھی جو دیکھنے میں چھبیس سال کا تھا جس کا چھ فت قد سفید گول چہرا
برون آنکھیں ہلکی ہلکی کلین شیپ اور بالوں کی کٹنگ کروا رکھی تھی جس کی شخصیت نے حنا کو اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا کے وہ اس کے لئے اپنا گھر تک چھوڑ آئی تھی ۔۔۔
بلال جب گاری میں بیٹھا تو اس نے بیٹھی حنا پر ناظر دالی جس نے گلابی کلر کی فراک پہن رکھی تھی اور گلے میں سفید دوپٹہ لے رکھا تھا۔۔جس کے چہرے کا سفید رنگ کالی سیاہ آنکھیں جن کا کلر کالا تھا بالوں کی ہائی ٹیل پونی بنا رکھی تھی ۔۔
وہ اس وقت بغیر میک آپ کے بھی حیسن لگ رہی تھی جس کی عمر بیس سال تھی ۔۔
کیا ہوا حنا ایسے اچانک اتنا برا فیصلہ۔۔۔۔
بلال نے اسکا چہرا اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا ۔۔۔جو اب آنسو بہا رہی تھی رو رو کراسکی آنکھیں سرخ پڑگی تھی۔۔۔
بلال مریم اپی نے پاپا کو سب بتا دیا تھا جس وجہ سے انھوں نے مجھے گھر سے نکلنے سے منا کردیا اور میری شادی کرنے کا فیصلہ کیا لیکن میں تمھارے علاوہ کسی سے شادی نہیں کرونگی گھر سے بھاگنے کا فیصلہ میرے لئے بھی بہت مشکل تھا لیکن بس مجھے یہ قدم اٹھانا پرا۔۔۔
حنا نے روتے ہوئے کہا۔۔
پلیز رونا بند کرو میں ہونا اپکے ساتھ پلیز رو مت۔۔
بلال نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔۔۔
بس میں مریم کو کبھی معاف نہیں کرونگی برباد کردونگی اسے اور تمھیں میرا ساتھ دینا ہوگا کیا ۔
۔حنا کی آنکھوں میں بدلے کی آگ بھڑک رہی تھی اسے بس بدلہ لینا تھا اور اسے برباد کرنا تھا۔۔۔۔
۔نا جانے کیا ہونے والا تھا مریم کے ساتھ اور کیا کرنے والی تھی حنا اس کے ساتھ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا حنا ایسے کیوں چپ ہو۔۔
جب حنا گارڈن میں بیٹھی کسی گہری سوچ میں گم تھی تو بلال نے اس سے پوچھا۔۔
کچھ نہیں بس سوچ رہی ہو کے ایسا کیا کرو جس سے اس مریم کو برباد کر سکو۔۔جس وجہ سے میرے پاپا بھی دنیا سے چلے گئے۔۔۔۔۔۔۔
حنا نے غصے بھرے لہجے سے کہا۔۔۔
حنا کی شادی کو ایک سال گزر چکا تھا لیکن ہر دن اس کے دل میں مریم کے لیے نفرت بھرتی جارہی تھی حنا کو جب پتا چلا کے اس کے جانے کے بعد اس کے والد کا انتقال ہوگیا۔
اسکا زیمدار بھی حنا مریم کو ٹھہرا رہی تھی اس لئے اس کے دل میں مریم کے لئے نفرت اور بھی گہری ہوگی تھی۔۔
ایک کام کیو نہیں کرتے تم ایسا کرو شیخ کے اڈے پر جاؤ جہاں وہ جووا کھیلتا ہے تم اس سے اس کی بیٹی کا سودا کرلو کیونکہ مجھے خبر ملی ہے کے آج ہی اس کی دوسری بیٹی کی پیدائش ہوئی ہےاور شیخ اسے بیچنا چاہتا ہے۔
تم ایسا کرو تم خرید لاو پھر جب وہ ترپے گی نا اپنی بیٹی کے لئے پھر مجھے سکون ملے گا۔۔۔۔
حنا نے اپنے کچھ بودی گارڈ لگارکھے تھے جو اسے ہر خبر دیتے رہتے تھے سننے میں آیا تھا کے شیخ کو بیٹیوں سے نفرت ہے اس نے اپنی پہلی بیٹی بھی کسی شرابی کے ہاتھ بیچ دی تھی اور دوسری بھی بیچنا چاہتا ہے ۔۔۔
حنا نے طنزیہ مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
دیکھو حنا میری بات آرام سے سنو۔۔مریم نے جو بھی کیا ٹھیک ہے۔
لیکن تم ایسا مت کرو تم بھول جاو سب ہمارا کوئی حق نہیں بنتا کے ہم ایک ماں سے اس کی بیٹی کو دور کرے۔ ۔۔بلال نے اسے دھیرے سے کہا۔۔
بلال ایک اچھا انسان تھا اور وہ نہیں چاہتا تھا کے کچھ بھی غلط ہو۔۔۔۔۔
مجھے کچھ نہیں سننا میں نے جو کہا ہے تم کروگے کے نہیں۔۔
حنا نے غصے سے کہا۔۔
نہیں میں اتنا برا گناہ نہیں کر سکتا۔۔بلال نے غصے سے کہا۔۔۔
تو ٹھیک ہے میں یہاں سے چلی جاونگی۔۔
حنا غصے سے چلاتی ہوئی بولی۔۔۔
اوکے اوکے سوری تم جیسا کہوگی ویسا ہی ہوگا لیکن پلیز مجھے چھوڑ کر مت جاؤ۔۔۔
بلال نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔۔۔
حنا بدلے کی اگ میں اتنی بری بن گئ تھی۔ جسے دیکھ کر بلال بہت پریشان تھا ۔
لیکن وہ جب بھی اسے سمجھانے کی کوشش کرتا تھا ۔۔
تو وہ اسے چھوڑ کر جانے کی دھمکی دیتی جسے مجبور ہوکر اس کی بات ماننی پڑتی تھی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔
میں نے سنا ہے تم ایک بچی بیچنا چاہتے ہو ۔۔۔
بلال نے اسکی طرف ایک پیسوں سے بھرا ہوا بیگ بڑھاتے ہوئے کہا ۔۔۔
شیخ جو کسی جگہ پر موجود نشے کی حالت میں تھا ۔۔
اس نے پیسوں سے بھرا بیگ دیکھا اور زیر لب مسکرایا ۔۔۔
وہ اسے نہیں جانتا تھا ۔۔اور اسے کچھ فرق بھی نہیں پڑتا تھا۔۔
اسے بس پیسوں سے مطلب تھا تو کیا فرق پرتا تھا کے وہ کون ہے۔
لیکن وہ نہیں جانتا تھا کے یہ اسی کی سالی کا شوہر ہے کیونکہ حنا کے علاوہ اس کا کوئی گھر والا بلال کو نہیں جانتا تھا۔۔۔
ہاں اس منحوس کو بیچنا چایتا یو آؤ میرے ساتھ۔۔۔
شیخ جو نشے کی حالت میں تھا اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔اور اسے اپنے ساتھ آنے کاکہا۔۔۔
بلال اٹھ کر اس کے ہیچھے گیا شیخ اسے ایک پرانے سے گھر کے پاس لے گیا جو باہر سے کافی قدیمی لگتا تھا۔۔۔
تم ادھر روکوں میں لے کر آتا ہو۔۔
شیخ نے اسے باہر روکنے کا کہا اور اندر سے اس بچی کو لے آیا مریم کی رونے کی اوازے باہر اتی رہی جسے سن کر بلال بہت شرمندہ ہوا لیکن وہ بھی مجبور تھا ۔۔۔
شیخ نے اس کی جھولی میں بچی دالی اور وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...