فروز ہمیں کل کہیں جانا ھے تو آپ 12 ںجے تک گھر آجائیے گا
رات کو فروز جب سونے کے لئے لیٹا تو اچانک فضا بولی
خیریت تو ھے
کہاں جانا ھے ہم نے کہ تم اس طرح خوش ھو رہی ھو
فروز نے منہ بنا کر کہا وہ تب سے چڑچڑا سا رہتا تھآجب سے احمد آ فس آ نے لگا تھا اور فروز سے ہر چیز کا حساب مانگنے لگا تھا
اب بھی اسی لئے جل کر بولا
جی وہ احمد نے ایک لڑکی پسند کی ھے تو ہم کل اس کے گھر جا رھے ھیں رشتے کی بات کرنے
سچ میں فروز میں اتنی خوش ھوں کہ آپ کو کیا بتاؤں
میری اتنی خواہش ھے کہ احمد کی شادی ھو اور میں اپنے ارمان پورے کروں اب آپ دیکھئیے گا میں وہ سب ارمان پورے کروں گی
فضآجوش سے بولی جبکہ فروز شوکڈ سا فضا کے چہرے کو دیکھتا رھا
اور پھر کچھ دیر بعد خود کو ریلیکس کر کے بولا
فضا ابھی احمد کی شادی کرنے کی کیا ضرورت ہے میرا مطلب ھے کہ ابھی تو اس نے آ فس جانا شروع کیا ھے کچھ عرصہ آ فس سنبھال لے اس کے بعد شادی بھی کر لے
نہیں نا فروز
احمد کی خواہش ھے کہ وہ ابھی شادی کرنا چاہتا ھے اور رہ گئی بات سنبھالنے کی تو وہ شادی کے بعد بھی سنبھال لے گا یہ کوئی اتنا بڑا اشو نہیں ھے
اس لئے آپ فکر مت کریں
اب آپ سو جائیں کیونکہ مجھے بھی بہت نیند آ رہی ہے
پھر صبح فریش بھی تو نظر آ نا ھے
فضا نے مسکرا کر کہا اور کمبل لے کر آنکھیں بند کر لیں جبکہ فروز نے کروٹ بدلی اور زہریلی سوچیں سوچنے لگا
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل صبح حور بے چین سی پھر رہی تھی اسے اس بات کا ڈر تھا کہ احمد اب کیا کرنے والا ھے کیونکہ جب اسے انکار کیآجاے گا تو وہ چپ چاپ تو بالکل نہیں بیٹھے گا
ھاے اللّٰہ
پلیز سب ٹھیک ھو اور اس سائیکو چپکو کو تو مجھ سے ہمیشہ کے لئے دور کر دیں
حور نے سچے دل سے دعا کی جبکہ وہ اس بات سے انجان تھی کہ ضروری نہیں کہ ہر دعا کو قبولیت کا شرف عطا ھو
جبکہ دوسری جانب احمد مکمل تیار ھو کر خود پر پرفیوم لگا رھا تھا کہ اچانک اس کے موبائل پر اسامہ کی کال آئی
اسلام و علیکم اسامہ
کیا حال ہے سب ٹھیک تو ھے نا
احمد نے کال اٹینڈ کر کے کہا
یار تو جلدی آ یہاں عثمان کا بہت برا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اسے بہت شدید چوٹیں آئی ہیں یار مجھے تیری بہت ضرورت ہے
اسامہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا
تو ٹینشن مت لے
مجھے جگہ بتا میں ابھی آ رھا ھوں
احمد نے جگہ پوچھی اور جلدی سے باہر نکل گیآجبکہ جانے سے پہلے فضا کو کہ گیا کہ وہ اور فروز دونوں چلے جائیں حور کے گھر اسے بہت ضروری کام ھے اور پھر حور کے گھر کا ایڈریس بتا کر خود جلدی سے گاڑی سٹارٹ کر دی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حور ظہر کی نماز پڑھ رہی تھی کہ اچانک مزمل صاحب اس کے کمرے میں داخل ھوئے
تو حور کو نماز پڑھتے دیکھ کر صوفے پر بیٹھ کر اس کا ویٹ کرنے لگے جیسے ہی حور نے نماز مکمل کی تو مزمل صاحب اٹھے اور حور کو بیڈ پر بیٹھا کر خود بھی اس کے پاس بیٹھ گئے
حور بیٹے آپ جانتے ھو نا کہ آپ ہمیں کتنے عزیز ھو اور آپ کی خوشی میں ہی ہماری خوشی ھے
اگر آپ حمزہ سے شادی نہیں کرنا چاہتے تو اس میں کوئی مجبوری نہیں ھے ہم انکار کر دیں گے مگر آپ یوں ناراض نہ ھوں
مزمل صاحب نے اپنا اندازہ لگایا کہ حور ان سے ناراض ہو کر یہ شادی کر رہی ھے اور اس لئے جلدی جلدی مچائی ھوئی ھے کیونکہ جب بھی وہ کوئی کام نہیں کرنا چاہتی تھی تو ناراضگی میں وہ جان بوجھ کر کرتی تھی
جسے کہ کسی پر احسان کر رہی ھو
یہ اس کی بچپن کی عادت تھی
( اف میرے معصوم بابا
کیا کیا سوچتے ھیں آپ )
حور نے دل میں سوچا مگر بولی تو صرف اتنا کہ
بابا ایسی کوئی بات نہیں ہے میں سچ میں دل سے راضی ھوں اس رشتے کے لئے
آپ سے کوئی ناراضگی نہیں ھے مجھے
جس کی بنآپر میں خود پر یہ ظلم کر رہی ھوں
آپ پلیز یہ سب سوچنا چھوڑ دیں
اور رہ گئی بات جلدی جلدی شادی کرنے کی تو میں تو ویسے بھی کب پڑھنا چاہتی تھی یہ تو اچھا بہانہ ہے کہ پڑھائی سے جان چھوٹ رہی ھے
سو ریلیکس
آپ پلیز ٹینشن مت لیں میں بہت خوش ھوں اور باقی سب کو بھی بتا دیں جنہوں نے آپ کو میرے پاس بھیجا ھے
حور مسکرا کر بولی
تو مزمل صاحب کو کچھ تسلی ھوئی
مزمل گھر میں کچھ مہمان آ ے ھیں اور آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں
پتہ نہیں کون ھیں
میں نے انھیں ھال میں بیٹھا دیا ھے آپ آجائیں
ابھی مزمل صاحب کچھ اور بھی بات کرنا چاہتے تھے کہ اچانک صبا بیگم کمرے میں داخل ھوکر بولیں
اس وقت کون آ گیا
بیٹے میں ابھی آ تا ھوں
مزمل صاحب بولتے ھوئے ھال میں چلے گئے جبکہ حور یہ سن کر ہی شوکڈ ھو گئ
کہیں وہ اس سائیکو کی فیملی تو نہیں ھے
پکا وہی ھیں اب کیا ھوگا
حور پریشانی میں سوچ رہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
معزرت
میں نے آپ کو پہچانا نہیں
کیا میں آپ کے آ نے کا مقصد جان سکتا ھوں
مزمل صاحب نے سلام دعا کیا اور پھر بولے
جی اصل میں آپ ہمیں نہیں جانتے لیکن ہم آپ کے بارے میں سن چکے ھیں میں زیادہ گمآپھرا کر بات نہیں کروں گی بات سیدھی سی ھے کہ میں اپنے بھائی رانا احمد کے لئے آپ کی بیٹی حور کا رشتہ مانگنے آئ ھوں
آپ چاھیں تو تفتیش کروا لیں ہمارے بارے میں
انشاللہ آپ کو تعریفیں ہی سننے کو ملیں گی
فضا مسکرا کر بولی اور جواب کا انتظار کرنے لگی جبکہ فروز ایک لفظ بھی نہیں بولا وہ تو پتہ نہیں آ کیسے گیا مجبوری سے
ورنہ ارادے تو یہاں آ نے کے بھی نہیں تھے
حور کے لئے
مگر بیٹے حور کا نکاح ھونے والا ھے میرے بھانجے سے اور کل حور کی مہندی ھے
میں معزرت خواہ ہوں مگر آپ نے تاخیر کر دی
مزمل صاحب شفقت سے نرم لہجے سے بولے
مگر فضا کا چہرہ اس ایک بات سے ہی مرجھا گیا کہ اس کے بھائی کی محبت کسی اور کی ھونے والی ھے
جبکہ فروز کا یہ سن کر دل کر رہا تھا کہ وہ بھنگڑے ڈالے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا وہ بھی بغیر کچھ کرے
بیٹے میرا مقصد آپ کا دل دکھانا نہیں تھا مگر میں مجبور ھوں
امید کرتا ھوں کہ آپ میری بات سمجھ رہے ھو
مزمل صاحب نے کہا تو فضا نے نم آ نکھوں کے ساتھ ان کی طرف دیکھا اور پھر بولی
کوئی بات نہیں انکل یہ فیصلے تو اللّٰہ کے ھیں ہم تو صرف کوشش کر سکتے ھیں
معافی چاھوں گی کہ آپ کا وقت ضائع کیا اب اجازت دیں
فضا کہ کر اٹھ گئی اور پھر اللّٰہ حافظ کہ کر باہر نکل گئی جبکہ فروز بھی مسکرا کر فضا کے پیچھے چل پڑا
اس بات سے انجان کے ہم چاھے لاکھ کسی کا برا کرنا چاہیں مگر اللّٰہ وہ تو سب کے ہیں نا
وہ کیسے ہمارا برا ھونے دیں گے
مگر یہ بات فروز کو کیسے پتہ ھوگی جو کہ صرف حسد کرنآجانتا ھے
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
فضآجب سے گھر آئی تھی اپنے کمرے میں بیٹھی روے جا رہی تھی جبکہ فروز اسے جھوٹ موٹ چپ کروانے کی کوشش کر رہا تھا اور یہ ثابت کر رہا تھا کہ وہ بھی بہت دکھی ھے
مگر یہ بات تو صرف اللّٰہ جانتے تھے کہ وہ کس طرح منافقت کر رہا تھا
ابھی فضا رو ہی رہی تھی کہ اچانک احمد کمرے میں داخل ھوا
آپی کیا ھوا آپ رو کیوں رہی ھیں
سب ٹھیک تو ھے نا
احمد بھاگ کر فضا کے پاس آ کر بولا
فروز بھائی آپ بتائیں کہ کیا ھوا ھے جو آپی اس طرح رو رہی ھیں
حالانکہ آپ لوگ تو حور کے گھر گئے تھے
فضا سے کچھ بولا ہی نہیں جا رہا تھا تو احمد نے فروز سے وجہ پوچھی
وہ احمد
اصل میں ہم جب حور کے گھر گئے تو انھوں نے کہا کہ حور کی کل منہدی ھے ہم نے دیر کر دی آ نے میں
اور رشتے سے انکار کر دیا
فروز نے دکھی سا چہرا بنا کر کہآجبکہ احمد کا چہرہ ایک دم سے سرخ ھو گیا
احمد مجھے معاف کر دو میں تمہاری خواہش پوری نہیں کر سکی
فضا روتے ھوئے بولی جبکہ احمد غصے سے بولا کہ
خواہش تو میری اب بھی پوری ھو گی آپی
عزت راس نہیں آ ئ نا انھیں
ٹھیک ھے ایسے تو ایسے سہی اب میں وہ کروں گآجو انھوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ھو گا
آپ کو رلایا نا انھوں نے اب خود رویں گے وہ
تم ایسا کچھ نہیں کرو گے احمد
فضا نے احمد کو روکنا چاہا مگر احمد سرخ آ نکھوں سے بولا
میں ایسا ہی کروں گا اور آپ مجھے روکیں گی نہیں آپی
ان لوگوں کے ساتھ ایسا ہی کرنا چاھئے
احمد نے غصے سے کہا اور اٹھ کر باہر نکل گیا
جبکہ فضا اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی کیونکہ وہ جانتی تھی احمد کے بارے میں کہ وہ کس حد تک جا سکتا ھے
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد غصے سے اپنے کمرے میں گیا اور حور کو کال کی
حور جو ابھی ٹھیک سے خوش بھی نہیں ھو پائی تھی کہ اس کی جان اب احمد سے چھوٹ گئی ھے
مطلب اس کی بہن اس کی شادی کہیں اور کروا دے گی
(اف کتنی بے وقوف ھے حور
احمد کو سمجھتی کیا ھے وہ محبت کرتا ھے اس سے وہ بھی جنون کی حد تک
تو اب کیسے اسے چھوڑ کیسے سکتا ھے )
اچانک احمد کی کال اپنے موبائل پر آ تی دیکھ کر حور ڈر گئی پہلے تو دو تین بار کال کاٹ دی مگر پھر جب احمد بار بار کال کرتا رھا تو ناچار کال پک تو کر لی مگر بولی کچھ نہیں
یہ کیا بکواس ھے حور
تم شادی کر رہی ھو
احمد غصے سے دھاڑآجبکہ بھی غصے سے بولی
ھاں کر رہی ھوں
اور ضرور کروں گی
تم ھوتے کون ھو مجھ پر غصہ کرنے والے دوبارہ مجھے کال مت کرنا
سمجھ آئی
حور نے غصے سے کہا اور کال کاٹ دی جبکہ احمد نے غصے میں موبائل زمین پر پٹخ دیا
بس حور بہت ھو گیا
تم میری محبت کو ضد بنا رہی ھو
ٹھیک ھے تو پھر ایسے ہی سہی
اب تمہیں پتہ چلے کا کہ میں کون ھوں
احمد نے حور کا تصور کرتے ہوئے کہا اور پھر غصے میں گھر سے باہر نکل گیا
۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
آج حور کی مہندی تھی جو کہ بہت سادگی سے کی جا رہی تھی کیونکہ یہ حور نے کہا تھا کہ وہ سادگی سے شادی کرنا چاہتی ھے
اس لئے صرف حور کی کچھ دوستیں اور مزمل صاحب کے کچھ بہت عزیز لوگ ہی انوایٹ تھے
صلہ بار بار حور کو حمزہ کے نام سے چھیڑ رہی تھی مگر حور کسی گہری سوچ میں تھی اس لئے صرف ھوں ھاں میں ہی جواب دیتی
حور یہ سوچ سوچ کر حیران تھی کہ احمد نے ابھی تک کچھ کیا کیوں نہیں
چپ چاپ کیوں بیٹھا ھے حالانکہ وہ چپ رہنے والوں میں سے تو بالکل بھی نہیں ھے
اسی سوچ میں مہندی کا دن گزر گیا
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کیونکہ نکاح تھا اس لئے معمول سے زیادہ افراتفری تھی سب اپنے اپنے کاموں میں لگے ھوئے تھے مگر حور اپنی ہی سوچوں میں گم تھی
کہ اچانک صبا بیگم کمرے میں داخل ھوئیں
حور بیٹے آپ ابھی تک تیار کیوں نہیں ھوئی باہر مہمان آ رھے ھیں بیٹے اور آپ کا فون کیوں بند ھے
صلہ کی ابھی کال آئ ھے وہ کہ رہی ھے کہ تھوڑی دیر ھو جائے گی اسے آ نے میں
اور بیٹے آپ بھی جلدی سے تیار ھو جاؤ میں رضوانہ کو بھیجتی ھوں تاکہ وہ آپ کی مدد کر دے
صبا بیگم مسکرا کر بولیں جبکہ حور نے سر ہلا دیا تو وہ باہر نکل گئیں
اس بات سے انجان کہ جس رضوانہ کو وہ حور کی مدد کے لئے بھیج رہی ھیں وہ کسی اور کی ہی مدد کر رہی ھے
اللّٰہ میں کیوں سوچ رہی ھوں اس سائیکو کے بارے میں
کیآپتہ اسے عقل آ گئی ھو اس لیے ابھی تک کچھ نہیں کیا
مگر وہ اتنی جلدی کیسے بدل سکتا ھے وہ بھی اس جیسا چپکو سائیکو
نہیں وہ ضرور کوئی پلینگ کر رھا ھے
ھاے اللّٰہ
آپ پلیز اس سائیکو کو عقل دے دیں تاکہ وہ میری جان چھوڑ دے ہمیشہ کے لئے
حور نے دونوں ھاتھوں کو پھیلا کر سچے دل سے دعا کی اور پھر اپنے کپڑے اٹھا کر باتھ روم میں چلی گئی جبکہ رضوانہ حور کے کمرے میں آئ اور اس کے کمرے کی کھڑکی کھول کر باہر نکل گئی
تاکہ احمد اندر آ سکے احمد نے رضوانہ کو کچھ پیسے دے کر اپنی وفادار بندی بنا لیا تھا اس لئے وہ جان بوجھ کر ہمیشہ حور کے کمرے کی کھڑکی کھول دیتی تھی اور حور کے بارے میں ہر خبر وہ احمد تک پہنچاتی تھی
اب بھی احمد کے ہی کہنے پر ایسا کیا تھا
رضوانہ نے باہر جا کر احمد کو کال کی تو احمد جو اسی انتظار میں حور کے گھر کے باہر موجود تھا چھپتے چھپاتے حور کے کمرے میں داخل ھو گیا اور حور کا ویٹ کرنے لگا
احمد کو زیادہ انتظار نہیں کرنآپڑا کیونکہ اگلے پانچ منٹ میں اسے باتھ روم کے دروازے کے کھلنے کی آواز سنائی دی تو اس نے حور کے باہر نکلتے ہی اسے پکڑا اور زور سے دیوار کے ساتھ لگا دیآجس سے حور کی ہلکی سی چیخ نکل گئی مگر پھر احمد کو اپنے سامنے دیکھ کر حور شوکڈ ھو گئی اور آنکھیں کھولے بس احمد کو ہی دیکھے گئ
معمول سے زیادہ بڑھی ہوئی شیو سرخ آنکھیں بکھرے بال اور سلوٹ زدہ لباس
تمہاری ہمت کیسے ھوئی کہ تم مجھے چھوڑ کر اس حمزہ سے شادی کرنے والی ھو
تم کیسے کر سکتی ھو ایسے حور
میری محبت کو ٹھکرانے کی تم نے ہمت بھی کیسے کی
مجھ پر
رانا احمد پر تم اس حمزہ کو فوقیت دے رہی ھو
مجھے چھوڑ کر اس کے ساتھ جا رہی ھو
کیوں
کیوں کیا تم نے ایسا ھاں
کیوں
احمد اس وقت کوئی جنونی مجنوں ہی لگ رہا تھآجو حور کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر اس سے جواب مانگ رہا تھا مگر حور آنکھیں بند کیے
بس کانپے جا رہی تھی
ٹھیک ہے حور
تم نے اپنی مرضی کی اب میں اپنی مرضی کروں گا اگر تم میری نہیں ھو سکتی تو پھر تمہیں کسی اور کا کیسے ھونے دوں
احمد نے کہ کر اپنی جیکٹ سے گن نکالی اور حور کے سر کر رکھ دی
جبکہ حور نے اپنے سر پر کسی چیز کا دباؤ محسوس کیا تو فوراً آنکھیں کھول دیں مگر پھر گن کو دیکھ کر بہت زیادہ ڈر گئی
تو حور اب بتاؤ
میرے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ھو یا میرے ساتھ اس دنیا کو ہمیشہ کے لئے چھوڑنا چاہتی ھو
جلدی جواب دو حور
ت۔۔۔۔۔تم
ای۔۔۔۔۔۔ایسے نہیں ک۔۔۔۔۔کر سکتے
یو ل۔۔۔۔۔لو می
حور کانپتے ہوئے بولی
جس سے احمد کرب سے مسکرایا اور پھر بولا
ھاں
کرتا ھوں تم سے محبت بہت محبت کرتا ہوں
مگر تم نے کیا کیا
ھاں
انسلٹ کی میری محبت کی ٹھکرایا میری محبت کو اور
اور اس حمزہ سے شادی کر رہی ھو
اب ایسے تو نہیں ھوتا نا حور
چلو جلدی سے اپنا فیصلہ سناؤ
تاکہ پھر میں عمل کرو
احمد آ ہستہ آہستہ سےسے بولتے ھوئے گن سے حور کے بالوں کو پیچھے کر رھا تھا
جس سے حور ڈر کر رونے لگی اور پھر بہت آ ہستہ سے بولی
م۔۔۔۔میں تیار ھ۔۔۔۔ھوں
حور جلدی سے بولی اس سوچ کے ساتھ کے اگر ایک دفعہ وہ باہر سب کے پاس چلی گئی تو اپنی بات سے مکر جاے گی اور احمد کو جیل کروا دے گی
مگر یہ صرف اس کی سوچ تھی کیونکہ احمد حور کی سوچ سے مکمل طور پر واقف تھا
لیکن بیچاری حور
اف کتنی معصوم تھی وہ
کس چیز کے لیے
احمد نے حور کو غور سے دیکھ کر کہآجیسے اس کی سوچ سے واقف ھو
ت۔۔۔۔۔تم سے شا۔۔۔۔۔شادی کے لئے
حور نے کہ کر آنکھیں زور سے بند کر لیں جبکہ احمد حور کو دیکھ کر ہلکے سے مسکرایا
گڈ
اچھا فیصلہ کیا تم نے
چلو باہر مولوی صاحب آ گئے ھوں گے
احمد نے کہ کر گن اپنی جیکٹ میں ڈالی اور حور کے کانپتے ھوئے ھاتھ کو پکڑ کر باہر ھال میں آ گیآجبکہ حور بھی احمد کے ساتھ کھینچتی چلی گئی
جب احمد اور حور ھال میں پحنچے تو سب مہمان آ چکے تھے اور مولوی صاحب بھی موجود تھے
حور کے ساتھ احمد کو دیکھ کر وہاں موجود سبھی لوگ شوکڈ ھو کر انہیں دیکھ رہے تھے جب مزمل صاحب اٹھ کر حور کے پاس آ ے اور حور کے ھاتھ کو احمد کے ھاتھ سے کھینچ کر نکالا
اور حور تو جیسے اسی کا انتظار تھا بھاگ کر مزمل صاحب کے پیچھے چھپ گئی اور بولنے لگی
بابا آپ پلیز جلدی سے پولیس کو کال کریں اس گنڈے کے پاس گن ھے
ی۔۔۔یہ مجھے ما۔۔۔۔۔مارنے آ یا ھے
اس سے وہ گ۔۔۔۔۔گن چھین لیں بابا
حور کے اس طرح کرنے سے احمد کو بہت تکلیف ھوئی مگر اس وقت اسے دماغ سے کام لینا تھا اس لئے بھاگ کر حمزہ کے پاس گیا اور اس کے گلے کو دبوچ کر سر پر گن رکھ دی
تو مسٹر حمزہ ایک فیصلہ کر لو
تم حور سے شادی کر کے میرے ھاتھوں مرنا چاہتے ھو یا حور کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر زندہ رہنا چاہتے ھو
جلدی سے جواب دو مجھے
احمد دانت پیستے ہوئے بولآجبکہ حمزہ تو اس اچانک حملے پر ہی بوکھلا گیا تھا
اور پھر احمد کی دھمکی اسے اور خوفزدہ کر رہی تھی اس لئے وہ جلدی سے بولا
بھئ مجھے مرنا نہیں ھے
کر لو تم جو حور کے ساتھ کرنا ھے بس مجھے چھوڑ دو
حمزہ کے اس طرح کہنے سے مزمل صاحب اور حور حیران رہ گئے جبکہ احمد طنز سے مسکرایا
دیکھ لیا حور
تم ایسے انسان سے شادی کر رہی تھی جو تمہاری حفاظت تک نہیں کر سکتا
اس ڈرپوک کو تم مجھ پر فوقیت دے رہی تھی
چلو اچھا ھے کہ تمہیں پتہ چل گیا کہ تمہارے لئے کون بہتر ھے
تو مولوی صاحب جلدی سے ہمارا نکاح کروانا شروع کریں تاکہ ہم یہاں سے جا سکیں
احمد نے حور کو دیکھ کر کہآجو کہ مزمل صاحب کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہی تھی جیسے وہ اس طرح احمد سے بچ جائے گی
مولوی صاحب آپ کو لگتا ھے میری بات سمجھ نہیں آئی
احمد نے غصے سے کہا تو مولوی صاحب نے نکاح پڑھنا شروع کیا
احمد نے مسکرا مسکرا کر قبول ھے کہآجبکہ جب حور سے قبول ھے پوچھا گیا تو وہ چپ تھی
حور
مولوی صاحب کچھ پوچھ رھے ھیں
جواب دو انھیں
احمد نے دانت پیستے ہوئے کہا تو حور نے بھی ڈر کر قبول ھے کہ دیا
اور اس طرح آج حور ہمیشہ کے لئے احمد کی ھو گئی
احمد اس بات پر جتنا خوش تھا حور اتنی افسردہ
وہ بس شوکڈ سی بیٹھی سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ یہ اچانک ھوا کیا ہے
جبکہ سبھی مہمان آپس میں باتیں کر رہے تھے کچھ حور کو برا کہ رھے تھے تو کچھ اس کے خاندان کو
احمد نے کچھ دیر تو سب برداشت کیآپھر غصے سے دھاڑا
آپ سب یہاں سے جا سکتے ھیں
کیونکہ آپ جیسے لوگوں کی یہاں کوئی ضرورت نہیں ہے باقی جو چغلیاں رہ گئی ھیں نا وہ اپنے گھر جا کر کریے گا
اور حور چلو ہمیں گھر جانا ھے
احمد نے حور کے ھاتھ کو پکڑ کر کھینچا تو وہ اچانک ھوش میں آ کر بولی
چھ۔۔۔۔۔چھوڑو مجھے
ب۔۔۔۔بابا مجھے ن۔۔۔۔نہیں جانا اس کے سا۔۔۔۔ساتھ
حور چیخ کر مزمل صاحب سے بولی جبکہ وہ خاموشی سے اسے جاتا دیکھتے رھے
احمد نے زبردستی حور کو گاڑی میں بیٹھایا اور گاڑی سٹارٹ کر دی جبکہ حور زور زور سے رونے لگی
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...