وہ لان میں بیٹھی موبائل ہاتھ میں پکڑے بیٹھی تھی۔۔
تبھی وصی وہاں آیا۔۔
وہ سر جھکائے موبائل پر انگلیاں چلا رہی تھی۔۔
“کیا ہورہا ہے؟” وصی کرسی کھسکا کر بیٹھا۔۔
وہ اس کی آواز پر چونکی۔۔
“جی۔۔نہیں کچھ نہیں” وہ بوکھلائی
“آگیا چلانا؟” وصی نے پوچھا
اس نے نفی میں سر ہلایا۔۔
“لاؤ۔۔میں سکھاؤں۔۔” وصی نے ہاتھ بڑھایا۔۔
حور نے چپ چاپ اس کے ہاتھ میں موبائل رکھ دیا۔۔
“اگر کسی کا نمبر سیو کرنا ہوتو۔۔۔یہاں۔۔نمبر۔۔” وصی موبائل پر انگلی چلا رہا تھا۔۔کہ رک کر اسے دیکھا۔۔
حور اسے دیکھ رہی تھی۔۔
“مجھے نہیں۔۔یہاں دیکھو” وصی نے موبائل کی طرف اشارہ کیا۔۔
“جی۔۔وہ۔۔۔” حور نے نظریں جھکائی۔۔
“کیا وہ؟” وصی نے پوچھا۔۔
“وہ موبائل۔۔آپ کے ہاتھ میں ہے۔۔میں کیسے دیکھوں؟” حور نے معصومیت سے کہا
اور شفی ہنس دیا۔۔
“یہ لو۔۔” وصی نے اس کی طرف بڑھا دیا۔۔
جسے اس نے خاموشی سےتھام لیا۔۔
“چلاتی رہو گی نا۔۔خود ہی آجائے گا۔۔بس ڈر کر مت چلانا کہ خراب نا ہوجائے۔۔۔پھر نہیں سیکھ پاؤ گی۔۔” وصی نے کہا۔۔
اور اس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔
“اور ہاں۔۔۔فضول چیز کچھ بھی استعمال مت کرنا۔۔فیس بک، واٹس اپ۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔سمجھ رہی ہو نا؟” وصی نے پوچھا۔۔
“مجھے دکھاؤ۔۔۔میں نمبر سیو کرتا ہوں” وصی نے موبائل مانگا۔۔
پھر اس میں نمبر سیو کر کے اسے واپس تھما دیا۔۔
” میں نے۔۔اس میں نمبر سیو کردیے۔۔انجانے نمبر کی کال مت اٹھانا۔۔۔ٹھیک ہے معصوم سی گڑیا” وصی نے مسکرا کر کہا۔۔
اور وہ بھی مسکرا دی۔۔
تبھی شفی وہاں آیا۔۔
“وصی۔۔” شفی نے پکارا
“ہاں۔۔” شفی کی اواز پر وہ مڑا۔۔
“ہمیں واپس جانا ہے۔۔تیاری کر جلدی۔۔” شفی نےکہا۔۔
“کیوں؟” وصی نے حیرت سے پوچھا
اور شفی نے اسے تفصیل بتائی۔۔
انہیں فوری طور پر آنے کا آڈر ملا تھا۔۔
جنگ کے امکانات کی وجہ سے انہیں بلایاگیا تھا۔۔
جس کے باعث انہیں جلد از جلد نکلنا تھا۔۔
ان لوگوں نے تیاری کی۔۔۔اور سب کی دعاؤں میں وہ نکلنے کے لیے تیار تھے۔۔
وہ دونوں کاندھے پر بیگ ٹانگے کھڑے تھے۔۔
ددو نے انہیں پیار کیا اور ڈھیروں دعائیں دی۔۔
جاتے جاتے شفی کی نظر حور پر پڑی۔۔
لمحہ بھر اسے دیکھنے لگا پھر باہرنکل گیا۔۔
“اسمائل پلیز۔۔۔۔” وصی حور سے مخاطب تھا۔۔
وہ نم آنکھوں سے مسکرا دی۔۔۔
“یہ ہوئی نا بات۔۔۔اللہ حافظ۔۔”
وصی سب کو خدا حافظ کہتا باہر نکل گیا۔۔
دو دن ہوگئے تھے شفی اور وصی کو گئے۔۔
مگر ان سے بات نہیں ہوپارہی تھی۔۔
وہ اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھی گہری سوچ میں گم تھی۔۔
اس کا دل نہیں لگ رہا تھا۔۔
رات گہری ہورہی تھی
مگر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔
اسے وصی اور شفی کی فکر ہورہی تھی۔۔
وہ اداس بیٹھی تھی کہ اس کا فون بجنے لگا۔۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر فون اٹھایا۔۔
اسکرین پر شفی کا نمبر جگمگا رہا تھا۔۔
ایک مسکان اس لبوں کو چھو گئی
اس نے جلدی سے کال رسیو کی اور کان سے لگایا۔۔
“ہیلو۔۔” حور نے بےتابی سے کہا
“ہیلو اسلام وعلیکم۔۔”
شفی کی نرم آواز اس کے کانوں کو چھو گئی
“وعلیکم السلام۔۔کیسے ہیں آپ ٹھیک تو ہیں؟” حور نے سلام کا جواب دیا۔۔
“ہاں۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔تمہیں فکر ہورہی تھی؟”
شفی نے پوچھا۔۔
“یہ۔۔پوچھنے کی بات ہے؟” حور نے خفگی سے کہا۔۔
اورشفی کا قہقہہ گونجا۔۔
“فکر مت کرو۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔ہاں البتہ۔۔۔تمہاری یاد آرہی تھی۔۔” شفی نے کہا۔۔
وہ خاموشی سے سر جھکا گئی۔۔
“اچھا۔۔۔گھر میں سب کو بتا دینا۔۔وصی اور میں ہم دونوں ٹھیک ہیں۔۔فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔۔”
شفی نے کہ کر کال کاٹ دی۔۔
اور وہ فون کو دیکھ مسکرا دی۔۔
ہر طرف رونے کی آوازیں گونج رہی تھی۔۔
اس کے کانوں میں آوازیں پڑ رہی تھی۔۔
وہ اپنے کمرے سے نکل کر باہر آئی۔۔
آوازیں اور تیز ہورہی تھی۔۔
اس کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔۔۔
وہ گھبراتی۔۔آہستہ آہستہ سیڑھی اتر رہی تھی۔۔
وہ جیسے جیسے نیچے اتر رہی تھی۔۔
آوازیں اور تیز ہورہی تھی۔۔
سامنے ہی کوئی لیٹا تھا۔۔جس پر سفید چادر پڑی تھی
شائستہ بیگم۔۔۔نانو،۔۔۔۔اور کئی عورتیں رورہی تھی۔۔
وہ مرے قدموں سے آگے بڑھی۔۔
دل مانو پھٹنے کو تھا۔۔
وہ اس چادر کو گھور رہی تھی۔۔
تبھی اس کے چہرے سے کسی نے چادر ہٹائی۔۔۔
اسے چہرہ نظر آیا۔۔
اس نے دیکھتے ہی پوری قوت سے چیخ ماری۔۔۔
“شفی۔۔۔” وہ کہتے ساتھ اٹھ بیٹھی۔۔اور ساتھ ہی ایک بھیانک خواب اختتام کو پہنچا۔۔
اس نے یہاں وہاں دیکھا۔۔کوئی بھی نہیں تھا۔۔
نیم تاریکی کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔۔
اور وہ بیڈ پر بیٹھی یہاں وہاں دیکھ رہی تھی۔۔
اس کے ماتھے پر پسینہ چھلکنے لگا۔۔
اسے احساس ہوا یہ ایک خواب تھا۔۔
اس گہرا سانس لیا۔۔
دور کہیں سے آتی فجر کی آذان کی آواز اسے سنائی دی۔۔
وہ اٹھی اور واش روم گئی۔۔
وضو کیا۔۔اور جائے نماز بچھا کر نماز ادا کرنے لگی۔۔
دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنسوؤں کی قطار بندھ گئی۔۔
اس کے اس بھیانک خواب نے اسے ہلا کر رکھ دیا تھا۔۔
وہ آنسوؤں کے ساتھ وصی اور شفی کے لیے دعائیں کرنے لگی۔۔
ان کی سلامتی کے لیے دعا مانگی۔۔
وہ جب کچن میں داخل ہوئی تو۔۔
شائستہ بیگم ناشتہ بنا رہی تھی۔۔
اسے دیکھ مسکرائی۔۔
“اٹھ گئی میری بیٹی۔۔۔” انہوں نے پیار سے کہا۔۔
“مما۔۔شفی کی کال آئی تھی۔۔وہ لوگ ٹھیک ہیں”
حور نےبتایا۔۔
“ہاں۔۔۔ابا کے پاس بھی آئی تھی۔۔اللہ کا کرم ہے۔۔” شائستہ بیگم نے مصروفیت سے کہا۔۔
“مما۔۔میں آج بہت برا خواب دیکھا”
حور نے اداسی سے کہا۔۔
“کیا خواب دیکھا۔۔؟” انہوں نے پوچھا۔۔
اور حور نے سارا خواب انہیں سنا دیا ۔
اور ایک آنسوں اس کے گال پرلڑھک گیا۔۔
“ایسا کچھ نہیں ہوا۔۔وہ لوگ بلکل ٹھیک ہیں۔۔
اور جب ہم نے انہیں فوج میں بھیجا تھا تو کیا یہ پہلے نہیں سوچا تھا۔۔؟۔۔۔اگر وہ وطن کے یے اپنی جان دیتے ہیں توخوش قسمتوں میں آتے ہیں۔۔” شائستہ بیگم نے اسے پیار کرتے ہوئے کہا۔۔
“اور پتا ہے حور۔۔۔جسے ہم خواب میں مرتے دیکھیں۔۔۔
اس کی زندگی بڑھ جاتی ہے۔۔سنا ہے نا؟”
انہوں نے پوچھا۔۔
اور حور نے اثبات میں سر ہلایا۔۔
“تو بس پھر۔۔فکر کس بات کی جب اللہ ان کے ساتھ ہے۔۔
بس دعا کرو۔۔” شائستہ بیگم نے اسے گلے سے لگایا۔۔
کتنے ہی دن ہوگئے تھے۔۔ان لوگوں کو کسی قسم کی چھٹی نہیں دی جا رہی تھی۔۔ہر چھٹی منسوخ کردی گئی تھی۔۔
کتنے ہی دن ہوگئے انہیں۔۔ان وادیوں میں آئے۔۔
کتنے ہی دہشتگردوں کو انہوں نے مار گرایا تھا۔۔
یہ آج انہی دشمنوں کو مارنے آئے تھے۔۔جنہوں نے ان کے ملک کے کتنے ہی معصوموں کی جان لی تھی۔۔
یہ وہ پاکستانی جانباز تھے جو۔۔کفن سر پر باندھے۔۔دشمنوں سے لڑ رہے تھے۔۔
اس وقت ان دونوں کے خیالوں میں نا ددو،ددا،پھپھو،حور کوئی نہیں تھا۔۔
شفی وصی کے اندر وہ جذبہ دیکھ رہا تھا۔۔
جو شاید اس نے خود میں بھی نہیں دیکھا تھا۔۔
ابھی بھی وہ پہاڑوں میں چھپے دشمنوں پر گولیاں برسا رہے تھے۔۔
وصی کے کے سامنے نور کا چہرہ جھلملا رہا تھا۔۔
اور اس کے غصہ کو اور بھی ہوا دے رہا تھا۔۔
اس نے جانے کتنے ہی چھپے دہشتگردوں کو اپنا نشانا بنایا تھا۔۔
وہ جیسے گولی چلانے لگا۔۔ایک ہوا میں اڑتی گولی اسے لگی۔۔
اور وہ لڑکھڑایا۔۔
پاس کھڑے شفی کی کی نظر اس پر پڑی۔۔تو اس کے چہرے کا رنگ اڑا۔۔
“وصی۔۔” شفی نے اسے پکڑا۔۔۔
“ٹھیک… ہوں۔۔۔”وصی نے سرخ آنکھوں سے کہا۔۔
اس کے بازو پر گولی لگی تھی۔۔
شفی نے اسے وہیں بیٹھایا۔۔
یک دم ہی سناٹا چھا گیا۔۔جیسے گولیاں چلنی کم ہوگئی۔۔
شفی چونکا۔۔
شفی اٹھ کر آگے بڑھا۔۔
وصی کو وہیں پہاڑ کی آڑ میں بٹھا کر۔۔وہ جائزہ لینے آگے چل دیا۔۔
درد سے وصی کی آنکھیں بند ہورہی تھی۔۔
اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔۔
وہ زبردستی آنکھیں کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔۔
مگر اچانک ہی اس کی آنکھیں بند ہوگئیں۔۔۔
“پتا نہیں میرے بچے کیسے ہوں گے کیا حالات ہیں وہاں؟”
اماں نے فکر سے کہا۔۔
“سب ٹھیک ہوگا۔۔۔آپ پریشان نہیں ہوں۔۔
طبیعت خراب ہوجائے گی”
شائستہ بیگم نے انہیں تسلی دی۔۔
“اللہ اپنے حفظ و امان میں رکھے میرے بچوں کو ۔”
اماں دعا کرنے لگی۔۔
“آمین۔۔۔” شائستہ بیگم نے کہا۔۔
“حور۔۔۔” شائستہ بیگم نے پاس کھڑی حور کو مخاطب کیا۔۔
“جی۔۔” حور نے کہا
“پانی لے آکر اماں کے لیے۔۔۔” شائستہ بیگم نے کہا ۔
“جی۔۔” وہ کہتی باہر نکل گئی۔۔
وہ باہر نکلی تو فاروق صاحب فون پر بات کر رہے تھے۔۔
اور ان کے الفاظ سن اس کے پاؤں وہیں جم گئے۔۔
“وصی ہسپتال میں ہے۔؟”
فاروق صاحب نے چونک کر کہا۔۔
“وہ ٹھیک تو ہے نا؟”
انہوں نے پریشانی سے پوچھا۔۔
“ٹھیک ہے میں پہنچتا ہوں۔۔” فاروق صاحب نے کہ کر فون بند کردیا۔۔
وہ جیسے ہی پلٹے سامنے حور کھڑی تھی۔۔
انہیں سوالیاں نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔
“نانا ابا۔۔۔کیا ہوا ہے وصی کو۔۔؟”
اس نے گھبراتے ہوئےپوچھا۔۔
“ٹھیک ہے وہبس گولی لگی ہے۔۔۔پریشانی کی بات نہیں۔۔۔”
انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ شفقت سے ہاتھ رکھا۔۔
اور اندر کی جانب بڑھ گئے۔۔
مگر وہ وہیں ساکت کھڑی تھی۔۔
وہ قطرے آنکھ سے گرے۔۔۔
شان ہوسپٹل کے کوریڈور میں کھڑا تھا۔۔۔۔۔
جب فاروق صاحب اور سب وہاں پہنچے۔۔
“کیسا ہے وصی۔۔؟” فاروق صاحب نے پوچھا۔۔
“جی۔۔ٹھیک ہے۔۔گولی نکال دی ہے ڈاکٹر نے۔۔۔مگر اسے حوش نہیں آیا ابھی تک۔۔۔” شان نے کہا۔۔
تبھی سامنے سے آتے کرنل صاحب پر فاروق صاحب کی نظر پڑی۔۔
اور وہ ان کی طرف بڑھ گئے۔۔
ددو وصی کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔
وہ دروازہ کھول کر اندر گئی۔۔
سامنے ہی وصی آنکھیں بند کیے لیٹا تھا۔۔
“وصی۔۔۔” ددو کی آنکھ بھر آئی۔۔
“اماں۔۔۔” شائستہ بیگم نے کاندھوں سے پکڑا۔۔
حور بھی ان کے پیچھے ہی کھڑی تھی۔۔
اس کی نظر وصی پر تھی۔۔
خون کی ڈرپ سے قطرہ قطرہ خون کے جسم میں اتارا جارہا تھا۔۔
بازو پٹیوں سے ڈھکا تھا۔۔
اور وہ زرد چہرہ لیے انکھیں موندے پڑا تھا۔۔
اس کی آنکھوں میں آنسوں ابلنے لگے۔۔
“تمہارے ابا کہاں چلے گئے؟”
ددو نے شائستہ بیگم سے کہا۔۔
“پتا نہیں اماں۔۔کرنل صاحب کے ساتھ گئے تھے۔۔”
شائستہ بیگم نے جواب دیا۔۔
“کتنی دیر ہوگئی۔۔میرے وصی کو حوش نہیں آیا۔۔”
ددو نے نم آنکھوں سے کہا۔۔
“آپ فکر نہیں کریں۔۔اللہ بہتر کرے گا۔۔ہمارے وصی کو کچھ نہیں ہوگا۔۔”
شائستہ بیگم نے تسلی دی۔۔
“وصی کو حوش آگیا ہے”
ڈاکٹر حمنہ نے خبر دی۔۔
اور وہ لوگ۔۔وصی کے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔۔
مگر حور اسی انداز میں بیٹھی رہی۔۔۔
پتا نہیں وہ کن سوچوں میں گم تھی۔۔
سر جھکائے بیٹھی اسے ارد گرد کی کوئی خبر نہیں تھی۔۔
“Excuse me..”
ڈاکٹر حمنہ نے کہا۔۔
مگر وہ اسی طرح بیٹھی رہی۔۔
“Hello?”
ڈاکٹر حمنہ نے اس کے سامنے ہاتھ ہلایا۔۔
“جج۔۔جی۔۔۔” وہ ہڑبڑائی۔۔
اور سوچوں کا تسلسل ٹوٹا۔۔
وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
“ڈاکٹر۔۔۔وص۔۔وصی۔۔ٹھیک تو ہوجائے گا نا؟”
حور نے سوال کیا
“وصی ٹھیک ہے پریشان ہونے کی بات نہیں۔۔”
ڈاکٹر حمنہ نے مسکرا کر کہا۔۔
“حوش آگیا ہے وصی کو جائیں۔۔”
ڈاکٹر حمنہ نے روم کی طرف اشارہ کیا
اور وہ اثبات میں سر ہلاتی آگے بڑھ گئی۔۔
اس نے آنکھیں کھولی تو سامنے ددو کا چہرہ دکھائی دیا
اس نے یہاں وہاں دیکھا۔۔
ساتھ ہی شائستہ بیگم کھڑی تھی۔۔
“وصی۔۔” ددو نے اس کے پیشانی کو چھوا۔۔
“ددو۔۔۔” وصی کی آواز ابھری۔۔
“ہاں میرے بچے۔۔” ددو نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔۔
“اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔۔تو بلکل ٹھیک ہے وصی۔۔” شائستہ بیگم نے کہا ۔
“ددو۔۔شفی۔۔شفی کہاں ہے؟”
وصی کےسوال پرسب چونکے۔۔
پاس کھڑی حور اس کے الفاظ سن چکی تھی ۔
“دیکھیے میجرفاروق۔۔۔ہم کوشش کر رہے ہیں۔۔
باقی اللہ کی مرضی۔۔” کرنل صاحب نے کہا۔۔
فاروق صاحب کی پریشانی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔۔
“اگر ہم انہیں ڈھونڈ بھی لیتے ہیں تو مجھے نہیں لگتا کہ وہ زندہ ہوگا”
کرنل صاحب کے الفاظ فاروق صاحب کو ہلا گئے۔۔
“ہمت رکھیں فاروق صاحب۔۔آپ خود فوج کا حصہ رہ چکے ہیں۔۔ہمارے بہت سے سپاہیوں کے موقع پر شہادت نصیب کی۔۔۔ہمیں گرو ہے اپنے سپاہیوں پر جن میں شفی اور وصی۔۔بھی شامل ہیں۔۔”
کرنل صاحب کی آواز ان کے کانوں میں پڑی۔۔
وہ انہیں تسلی دے رہے تھے۔۔۔
مگر وہ خاموش تھے۔۔۔۔
وہ ایک مضبوط انسان تھے۔۔
اس کے بعد کرنل صاحب نے بہت کچھ کہا۔۔
جسے فاروق صاحب نے ہمت سے سنا۔۔۔۔