وہ آنکھیں پھاڑے حیرانی سے حور کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
حور نم آنکھوں سے اسے تک رہی تھی۔۔
دلہن کے لباس میں حور کو دیکھ شفی کو ساری بات سمجھ آگئی تھی۔۔
اس نے گردن موڑ کر اپنے ساتھ کھڑے وصی کو دیکھا۔۔
“شفی میری بات۔۔” اس سے پہلے وصی کچھ کہتا شفی نے اس کی بات کاٹی۔۔
“تمہاری شادی حور سے ہورہی تھی؟”
شفی نے پوچھا۔۔
“ہاں۔۔۔مگر۔۔۔” وصی نے کچھ کہنا چاہا مگر شفی نے یک دم کلائی تھامی حور کی اور کمرے کی جانب بڑھ گیا۔۔
“شفی۔۔۔” شائستہ بیگم نے اسے پکارا۔۔
تبھی وصی نے انہیں روک دیا
“پھپھو انہیں مت روکیں۔۔۔”وصی نے کہا۔۔
وہ بے سدھ وجود سے اس کے ساتھ چل رہی تھی۔۔
البتہ نظریں شفی پر ہی تھی۔۔
شفی نے اسے کمرے میں لاتے ہی چھوڑا۔۔
“صرف اتنا سا انتظار کرسکی تم میرا؟”
شفی نے دہکتی آنکھوں سے پوچھا۔۔
مگر حور چپ چاپ نظریں جھکائے
رونے کا شغل پورا کر رہی تھی۔۔
“پتا ہے حور وہاں ایک پل ایسا نہیں تھا۔۔جب تمہیں یاد نا کیا ہو میں نے۔۔اور تم۔۔۔”
شفی نے اسے شانوں نے تھامتے ہوئے ہوئےکہا۔۔
مگر وہ اسی طرح خاموش تھی۔۔
“تمہاری خاموشی مجھے ہر بات کی وضاحت کر رہی ہے ۔۔شاید مجھے آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔۔
مگر تم ایسا نہیں سمجھنا کہ میں آگیا تو یہ شادی روک دوں گا۔۔۔نہیں۔۔یہ شادی نہیں رکے گی۔۔۔”
شفی یک دم اس سے دور ہوا۔۔
اور جانے کے پلٹا۔۔
تبھی حور کی آواز نے اس کے پاؤں روک دیے۔۔
“شفی۔۔۔” حور نے پکارا
وہ رک گیا مگر پلٹا نہیں۔۔
“خاموشیاں کبھی وضاحتیں نہیں کرتی۔۔”
حور نے آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا۔۔
“میری منگنی بچپن میں ہی آپ سے ہوگئی تھی۔۔۔مجھ سے کسی نے پوچھا؟، پھر۔۔۔پھر جب میں نے اس رشتے کو قبول کر لیا تو آپ مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔۔آپ نے جانے سے پہلے مجھ سے پوچھا؟۔۔۔اب میری شادی وصی سے تہ ہوئی۔۔۔مجھ سے کسی نے نہیں پوچھا کہ میں کیا چاہتی ہوں۔۔۔؟
میری مرضی تو کبھی کسی نے جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔۔” حور نے سنجیدگی سے کہا۔۔
“اس رشتے میں میری مرضی نہیں تھی۔۔ہمیشہ کی طرح یہ رشتہ بھی مجھ پر تھوپا گیا تھا۔۔
میں نے آپ کے علاوہ کبھی کسی کے بارے میں نہیں سوچا۔۔۔”
حور نے رورتے ہوئے کہا۔۔
اور شفی نے ضبط سے نم آنکھیں بند کی۔۔
وہ سادہ سے سوٹ میں سیڑھیوں کے پاس کھڑا تھا۔۔۔
جب شفی سیڑھیا اترتا اس کے پاس آیا۔۔
“کب سے انتظار کر رہا ہوں۔۔۔شادی ہوجائے ایک بار پھر جتنا چاہو وقت ساتھ گزارنا۔۔۔”
وصی نے شرارت سے کہا۔۔
اور شفی اس کی بات کا مفہوم جان کر ہنس دیا۔۔
“چل اب جلدی تیار ہوجا۔۔مولوی صاحب تیرا نکاح کروانے سے پہلے ہی بھاگ جائے گا ورنہ ۔”
وصی نے ہنستے ہوئے کہا۔۔
“وصی۔۔۔” شفی نے سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔۔
وہ شفی کی نظروں کو سمجھ گیا۔۔۔
پھر ہلکا سا مسکرایا۔۔
“حور صرف تیرے لیے بنی ہے۔۔۔میں نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ میں حور سے شادی کرلوں۔۔۔یہ تو وقت نے مجھے اور حور دونوں کو مجبور کردیا تھا۔۔۔
میں خوش ہوں۔۔۔میرے لیے سب سے بڑی خوشی ہے کہ تو واپس آگیا۔۔۔”
وصی نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا۔۔
اور شفی اس کے گلے لگ گیا۔۔
سب کی موجودگی میں حور اور شفی کا نکاح ہوا۔۔
سب بہت خوش تھے۔۔
نکاح ہوتے ہی مبارک باد کا سلسلہ شروع ہوا۔۔
سب شفی کے گلے ملے اسے مبارک باد تھی۔۔
کتنی ہی دیر تصویروں کا شغل جاری رہا۔۔
سب نے ایک دوسرے کے ساتھ تصویریں بنائی۔۔
رات کافی ہوگئی تھی۔۔
سارے مہمان آہستہ آہستہ چلے گئے تھے۔۔
وہ سب لاؤنج میں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے۔۔
شائستہ بیگم اٹھ کر حور کے پاس چلی آئی۔۔
“حور۔۔۔” وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔۔
“جی مما۔۔” وہ سیدھی ہوئی۔۔
“تھک گئی ہو؟۔۔۔” انہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔۔
“اس جیولری۔۔۔اور ہیوی ڈریس سے۔۔”
حور نے منہ بنایا۔۔
اور شائستہ بیگم ہنس دی۔۔
“حور۔۔۔تم خوش ہو۔۔۔؟”
شائستہ بیگم نے اچانک سوال کیا۔۔
اس نے یک دم انہیں دیکھا۔۔
پھر ہلکا سا مسکرائی۔۔اور اثبات میں سر ہلایا۔۔
شائستہ بیگم نے اسے پیار کیا۔۔
اور دروازہ بند کر کے چلی گئی۔۔
وہ پھر سے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے آنکھیں موند گئی۔۔
رات کا جانے کون سا پہر تھا جب شفی کمرے میں آیا۔۔
اس کی نظر سامنے حور پر پڑی۔۔
جو بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے سورہی تھی۔۔
معصومیت اس کے چہرے سےچھلک رہی تھی۔۔
دلہن کے روپ میں اس کا حسن اور بھی چمک رہا تھا۔۔
وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھا۔۔
پھر قریب کھڑے ہوئے کھنکارا۔۔
کہ حور یک دم اٹھ بیٹھی۔۔
“کمال ہے یار تم تو میرا انتظار کرنے کے بجائے سو رہی ہو۔۔”
شفی نے شرارت سے کہا۔۔
اور اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا۔۔
وہ یک دم سمٹی۔۔
“ویسے تو ہمیشہ ہی پیاری لگتی ہو مگر آج کچھ زیادہ لگ رہی ہو۔۔”
شفی نے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔
اور وہ نظریں جھکائے مسکرا دی۔۔
“ویسے تو آج مجھے تمہیں کوئی گفٹ دینا چاہیے منہ دکھائی کا مگر اس وقت میرے پاس کچھ نہیں۔۔۔
ہاں ایک وعدہ ضرور ہے کہ تمہارے ہونٹوں سے یہ مسکراہٹ میں کبھی الگ نہیں ہونے دوں گا۔۔”
شفی نے مسکرا کر کہا۔۔
شفی نے اس کا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں لیا۔۔
حور نے یک دم اپنا ہاتھ چھڑوایا۔۔
“وہ میں۔۔۔وہ واش روم۔۔۔”
اس نےگھبراتے ہوئے کہا
“جاؤ۔۔۔”وہ اس کی گھبراہٹ کو سمجھتے ہوئے مسکرا دیا۔۔
اور وہ اٹھ کر وارڈ روب سے کپڑے لیے واش روم گھس گئی۔۔
دروازہ بند کر کے اس کی جان میں جان آئی۔۔
اس نے ایک گہرا سانس ہوا میں خارج کیا۔۔
اور یک دم ہی اپنی گھبراہٹ کو نوٹس کر کے مسکرادی۔۔
وہ جب واش روم سے باہر آئی تو شفی حور کاموبائل ہاتھ میں لیے اس میں گم تھا۔۔
وہ آہستہ قدم چلتی بیڈ کے قریب آئی۔۔۔
شفی نے ایک ترچھی نگاہ اس پر ڈالی پھر واپس موبائل پر انگلیاں چلانے لگا۔۔
حور بنا کچھ کہے بیڈ پر چادر اوڑھ کر لیٹ گئی۔۔
شفی نے گردن موڑ اسے دیکھا۔۔
“حور۔۔۔”
شفی نے کہا۔۔
اور اس کی آواز سن کر حور نے آنکھیں میچ لی۔۔
جب کوئی جواب نا ملا تو شفی مسکرا دیا۔۔
پھر لیمپ بند کر کے لیٹ گیا۔۔
اس کے یہی خوشی کی بات تھی کہ حور اس کے پاس تھی
اس کی بیوی کے روپ میں۔۔
وہ دونوں بہت برے وقت سے گزرے تھے
وہ اسے سمجھتا تھا۔۔
وہ خود کو اور اسے کچھ وقت دینا چاہتا تھا۔۔
حور بہت گھبرائی ہوئی سی۔۔کم گو لڑکی تھی۔۔
وہ بچپن سے اسے ایسا ہی دیکھتا آیا تھا۔۔
اس لیے آج اسے اس کی گھبراہٹ کوئی نئی نہیں لگی۔۔
بارش ہونے کی وجہ سے ٹھنڈ ہوگئی تھی۔۔موسم خوشگوار تھا۔۔
فجر کی نماز ادا کر کے اس نے ایک نظر بیڈ پر گہری نیند سوئے ہوئے شفی پر ڈالی۔۔
پھر کھڑکی کی طرف چلی گئی۔۔
کھڑکی سےباہرجھانکنے لگی۔۔
تبھی اس کی نظر لان میں کھڑے وصی پر پڑی۔۔
جو بلاوجہ ہی یہاں وہاں چکر کاٹ رہا تھا۔۔
شاید کسی گہری سوچ میں تھا۔۔
حور اسے دیکھنے میں مصروف تھی۔۔جب اسے خود پر کسی کا لمس محسوس ہوا۔۔
اس نے یک دم گردن موڑ کر دیکھا۔۔
شفی اس کےگرد بازو حمائل کیے۔۔اسے دیکھ رہا تھا۔۔
وہ گھبرا کر پیچھے ہٹی۔۔
“یہاں کیا کر رہی ہو؟” شفی نے کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے کہا۔
وصی ابھی بھی وہیں تھا۔۔
شفی نے ایک نظر حور کو دیکھا۔۔
پھر بنا کچھ کہے وارڈ روب کی جانب بڑھ گیا۔۔
اپنے کپڑے لیے اور واش روم میں گھس گیا۔۔
حور خاموش کھڑی اسے دیکھتی رہی
پھر کمرے سے باہرنکل گئی۔۔
شائستہ بیگم ناشتہ بنانے میں مصروف تھی
جب حور کچن میں داخل ہوئی۔۔
“ارے تم اتنی جلدی کیوں اٹھ گئی حور؟”
شائستہ بیگم نے اسے دیکھتے ہی ٹوکا۔۔
“بس ویسے ہی۔۔۔میں ہیلپ کرواؤں آپ کی؟”
حور نے قریب آتے ہی کہا۔۔
“نہیں میں کرلوں گی۔۔ابھی کل ہی تو شادی ہوئی ہے میری بیٹی کی۔۔”
انہوں نے پیار سے کہا۔۔
“تو کیا ہوا مما یہ گھر میرے لیے نیا تو نہیں ہے”
حور نے مسکرا کر کہا۔۔
“شفی اٹھ گیا؟”
شائستہ بیگم نے پوچھا
“جی اٹھ گئے”
حور نے جواب دیا
“اچھا۔۔۔بس بن گیا ناشتہ۔۔میں وصی کو بھی اٹھا کر آتی ہوں۔۔”
شائستہ بیگم نے کہا
“وہ بھی اٹھ گئے۔۔۔باہر لان میں دیکھا تھا میں نے”
حور نے کہا
“اچھا۔۔۔کیا بات ہے آج تو سب ہی ٹائم پر اٹھ گئے۔۔”
شائستہ بیگم نےہنس کر کہا۔۔
اور حور بھی مسکرا دی۔۔
ناشتہ کے بعد۔ وہ سب لوگ لاؤنج میں بیٹھے تھے
“شفی پرسوں سے ڈیوٹی جوئن کرنی ہے۔۔
سب نے مل کر تیرے لیے پارٹی بھی رکھی ہے۔۔
تونے جو ملک کے لیے کیا، کتنا کچھ سہا۔۔
سب کو فخر ہے تجھ پر۔۔”
وصی نے خوشدلی سے کہا۔۔
“ہاں اللہ میرے پوتے کو خوب ترقی دے۔۔۔”
ددو نے شفی کو پیار کیا۔۔
“لیکن اتنی جلدی انہیں بتا دیتے نا شادی ہوئی ہے شفی کی”
شائستہ بیگم نے کہا۔۔
“ارے پھپھو۔۔۔پارٹی وغیرہ رکھی ہے نا۔۔۔اس کا جانا لازمی ہے۔۔”
وصی نے کہا۔۔
“میری ددو کی دعائیں تھی۔۔”
شفی نے ددو کے گلے لگتے ہوئے کہا۔۔
ددو بھی خوش ہوئی۔۔
“آج گھومنے چلتے ہیں۔۔۔” وصی نے یک دم مشورہ دیا۔۔
“کہاں؟” شفی نے پوچھا۔۔
“پارک وغیرہ اور بھی بہت سی جگہیں ہیں یار تو چل تو سہی۔۔۔”
وصی نے کہا۔۔
“اچھا چلو پھر۔۔۔”
شفی اٹھ کھڑا ہوا۔۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ لوگ گھومنے کی غرض سے نکل پڑے۔۔
انہیں گھومتے ہوئے وقت کا پتا نہیں لگا۔۔
دوپہر کے تین بجے وہ لوگ ریسٹورنٹ کی جانب بڑھے۔۔
وصی نے گاڑی روکی اور سب لوگ اتر کر آگے بڑھے۔۔
تبھی حور کی نظر ایک فقیر پر پڑی جو چل نہیں سکتا تھا۔۔
حور نے کچھ پیسے پرس نکال کر اس فقیر کو دیے۔۔
جب پلٹی تو وہاں کوئی نہیں تھا وہ لوگ ریسٹورنٹ کے اندر چلے گئے تھے۔۔
وہ جلدی سے آگے بڑھی مگر یک دم کسی سے ٹکراؤ ہوا۔۔
وہ کوئی نوجوان لڑکا تھا۔۔
“سوری۔۔۔” حور نے کہا آگے بڑھنے ہی لگی تھی کہ اس نے راستہ روکیا۔۔
“ہے بیوٹیفل۔۔۔اب ٹکرا ہی گئی ہو تو اپنا نام بھی بتا دو۔۔۔”
اس لڑکے نے مسکرا کر کہا۔۔
حور یک دم گھبرا گئی۔۔
تیزی سے اس کی آنکھوں میں نمی امڈ آئی۔۔
“ہے پرنسس رو کیوں رہی ہیں۔۔۔میں تو صرف نام پوچھ رہا ہوں۔”
اس لڑکے نے کہا۔۔۔
“مجھے۔۔۔جانے دیں پلیز۔۔۔”
حور نے گھبرا کر کہا۔۔
اس کی آنکھوں سے آنسوں بہ رہے تھے۔۔
وہ سب لوگ ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے ۔۔۔
تبھی وصی کا فون بجنے لگا۔۔
“آپ لوگ چلیں میں آتا ہوں۔۔۔”
وصی نے جیب سے فون نکالتے ہوئے کہا۔۔
وہ لوگ آگے بڑھ گئے اور ایک ٹیبل پر بیٹھ گئے۔۔
“حور کہاں گئی۔۔؟”
شفی نے پوچھا۔۔
“شاید وصی کے ساتھ رک گئی ہوگی۔۔”
ددو نے کہا۔۔
وصی فون پر بات کر رہا تھا کے شیشے سے اس کی نظر باہر روڈ پر پڑی جہاں حور کھڑی رو رہی تھی۔۔
اور اس کے پاس ایک لڑکا کھڑا اسے کچھ کہ رہا تھا۔۔
یکدم اس کے چہرے کے رنگ بدلے وہ تیزی فون بند کر باہرکی جانب بڑھا۔
“تم کہیں شادی پر جارہی ہو۔۔۔؟”
اس لڑکے نے اس کے مہندی والے ہاتھوں کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔۔
تبھی وصی نے اسے کالر سے پکڑ کر سامنے کیا۔۔
“تجھے میں بتاتا یہ شادی شدہ ہے یا نہیں۔۔۔”
وصی نے غصہ سے کہا
اور وصی کا ایک مکہ اس کے منہ کا نقشہ بگاڑ گیا
لوگوں نے اسے پکڑا۔۔۔
حور گھبرائی ہوئی کھڑی سب دیکھ رہی تھی۔۔
تبھی شفی اور سب گھر والے بھی وہاں آن پہنچے۔۔
“کیا ہورہا ہے یہاں۔۔۔؟” ددا نے تلخ لہجے میں پوچھا۔۔
“ددا یہ لفنگا حور کو چھیڑ رہا تھا۔۔۔”
وصی نے غصہ سے کہا ۔
حور شائستہ بیگم کے پاس کھڑی رو رہی تھی۔۔
“وصی پھر بھی تجھے ہاتھا پائی نہیں کرنی چاہیے تھی۔۔۔”
شفی نے کہا
“کیا ہوگیا ہے شفی؟ وہ آوارہ لڑکا حور کو چھیڑ رہا تھا اور تجھے مجھے ہی کہ رہا ہے کہ مجھے مارنا نہیں تھا۔۔۔
میرا بس نہیں چلا ورنہ اسے وہیں گاڑ دیتا میں۔۔۔”
وصی نے غصہ سے کہا۔۔
“ملک میں پتا نہیں ایسے پتا نہیں کتنے ہیں۔۔کس کس کو مارے گا؟”
شفی نے کہا۔۔
“ان کا پالا مجھ سے نہیں پڑا۔۔۔ویسے آج بات ہماری عزت پر آگئی تھی۔۔
حور کو کو تنگ کر رہا تھا وہ کسی پرائے کو نہیں۔۔۔
اور تو الٹا مجھے سنا رہا ہے”
وصی نے تلخ لہجے میں کہا
“تو۔۔۔وہ میری بیوی بھی ہے میری بھی عزت ہے۔۔۔
جب میں نارمل ہوں۔۔تو تجھے ہائپر ہونے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔؟”
شفی نے کے جملے نے نا صرف وصی کو چونکایا۔۔
بلکے سب کو حیران کردیا تھا۔۔