حور اور ہادی کی شادی Delay کردی گی تھی۔۔۔۔مگر فکر کسے تھی سب خوش تھے ۔۔۔۔۔مرزا ہاوس کی خوشیاں لوٹ آٸی تھی۔۔۔۔
جو دس سال پہلے چلے گی تھی۔۔ایکسیڈنٹ کی وجہ سے سکندر پاوں میں فریکچر آیا تھا۔۔۔وہ ٹھیک طرح سے چل نہیں پارہا تھا اور صبا اسکا بہت اچھے سے خیال رکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
عورت چیز ہی ایسی ہے وہ جو کرتی ہے پوری شدت سے کرتی ہے۔۔۔چاہیے وہ محبت ہو نفرت ہو حسد ہو یا دنیا کی اور کوٸی چیز۔۔
*********
کیا حال ہیں پاٹنر۔۔۔۔۔ارمان فون پر مسکراتا ہوا بولنے لگا۔۔۔۔
ٹھیک ٹھاک تم کتنے بدتمیز نکلے نہ میری شادی سے پہلے بھاگ گے۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔۔ارمان بولنے لگا تو پھر بول پڑی
چپ بڑا پاٹنر کہتے ہو مجھے پتہ ہے کنجوس انسان تمھیں پتہ تھا کہ یہاں رہو گے تو حور ساری شاپنگ تمھارے ساتھ ہی کرنی ہے اسلیۓ بھاگ گے نہ ملے بھی نہیں۔۔۔۔
واہ پاٹنر تم تو دل کے حال جاننے لگی ہو۔۔۔بلکل صحیح کہا تم نے اب سب تم پر خرچ کرتا تو اپنی انگریز بیوی کو کیا دیتا۔۔۔
اللہ اللہ دیکھو تو ابھی سے جورو کے غلام بن گےہو۔۔۔😀😝ویسے کوٸی جورو ملی۔۔
کیسے ملے گی کوٸی کنگلے کو پاکستانی نہ ملے انگریز تو ہوتی بھی بڑی چالوں ہیں۔۔۔۔۔
سمن ارمان کو چاۓ پکراتے اشارے میں پوچھنے لگی۔۔۔ حور ہے دو مجھے۔۔۔
کیسی ہے حور صبا کیسی ہے۔۔۔۔ہاں اپیا ہم سب ٹھیک ہیں۔۔۔۔وہ لان میں ڈھلتی باتیں کررہی تھی۔۔۔۔
آپ بھی کتنی جلدی چلیں گی۔۔۔۔شادی تک تو روکتیں۔۔۔۔ارے یہ کیا بتاٶ یہ ارمان کی وجہ سے آنا پڑا۔۔۔۔اور ارمان سمن کو دیکھنے لگا۔۔۔۔
اب یہ کوٸی گوری لاتا اس سے پہلے میں نے قبضہ کر لیا۔۔۔۔۔😝😝واہ اپیا شاباش
اب تو میں تیرے بچوں کی شادی میں آٶں گی۔۔۔۔اللہ توبہ ہے اپیا۔۔۔باقی سب کیسے ہیں گھر میں۔۔۔اللہ کا شکر سب ٹھیک۔۔
تھینک یو پاٹنر میں تمھارا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گی۔۔۔۔
فضول باتیں نہ کیا کرو حور تم خوش ہو یہی بہت بڑی بات ہے۔۔
”اللہ ﷻ کبھی کبھی کچھ لوگوں کو دوسروں کی مدد اور سہارے کے لیے چن لیتے ہیں اور جب کام ہو جاتا ہے تو دوسرا راستہ دیکھاتے ہیں۔۔۔اور ایسے لوگوں کو اللہ کبھی تنہا نہیں کرتا جو اسکے بندوں کے کام آۓ۔۔۔۔اور ہمیں کبھی ایسا موقع ملے تو خوش ہونا چاہیے کے اللہ نے ہمیں اس قابل سمجھا کے ہم اسکے بندوں کے کا آسکیں“
اور تھوڑی باتیں کر کے حور نے فون رکھا کے سامنے سے ہادی کو آتے دیکھا اور اسکے چہرے پر مسکراہٹ آگی۔۔۔۔اور وہ ہنستی ہوٸی ہادی کے پاس آگی۔۔۔
سکندر کے ایکسڈنٹ کے کچھ دن بعد ہی صبا نے اپنا گھر بیچ کر ارمان اورسمن کے نام کردیا تھا جس پر سمن ناراض بھی ہوٸی تھی۔۔۔۔
تم نے ارمان نے میرےلیے جو کچھ بھی کیا ہے اسکے بدلے یہ کچھ نہیں ہے میں تم لوگوں کا احسان نہیں اتار سکتی۔۔۔۔کیسی باتیں کررہی ہے اپنوں پر بھ کوٸی احسان کرتا ہے۔۔۔۔
اور وہ بھی ارمان کے پاس چلی گی۔۔۔حور اور صبا پھر مرزا ہاوس میں آگے تھے۔۔۔۔
کہاں گے تھے۔۔۔۔حور اسکے قریب آکر پوچھنے لگی۔۔۔۔۔
ابھی تو بیوی بنی نہیں ہو۔۔۔اور سوال جواب شروع۔۔۔یہ تو محبت کرنے سے پہلے سوچنا تھا اب تو یہ سوال جواب زندگی بہر کے ہیں۔۔۔اور بولتے بولتے اسکی نظر ہادی کے ہاتھ میں موجود اٸسکریم پر پڑی۔۔۔
تم اٸسکریم لاۓ ہو۔۔۔دو نہ ہادی وہ اسے اٸسکریم لینے کی کوشش کررہی تھی۔۔اور وہ کبھی ہاتھ پیچھے کر لیتا تو کبھی آگے کبھی اوپر۔۔۔
تم بہت برے ہو میں تاٸی امی کو بولوں گی۔۔۔۔اور وہ منہ بنا کر اندر جانے لگی اور ہادی ہنستا ہوا اسکے پیچھے جانے لگا۔۔۔۔
***********
صبو۔۔۔سکندر بیڈ پر لیٹا اسے آواز لگانے لگا ۔۔۔۔۔کیا ہوا سکندر کچھ چاہیے تھا۔۔۔۔۔
تم میرے پاس رہو مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔۔۔سکندر اسے اپنے پاس بیٹھاتا بولنے لگا۔۔۔۔
صبو۔۔۔۔ہہہہم وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بولنے لگا۔۔۔ایم سوری۔۔۔۔بس کرو سکندر تنی بار بولو گے۔۔۔جو ہوگیا سو ہوگیا میں بھی بھول گی تم بھی بھول جاو۔۔۔۔
اور حور کی شادی کے بارے میں سوچو ویسے ہی آخری وقت میں منع کیا تو کتنے رشتہ دار ناراض ہوۓ۔۔۔۔
چھوڑو صبو۔۔۔۔لوگوں کا اور کام کیا ہے ہم اچھا کریں یا برا ہم برے ہی رہیں گے۔۔لوگ کوٸی نہ کوٸی بات کو برا بنا کر پیش کریں گے۔۔۔
بلکل۔۔۔۔آمنہ بیگم اچانک ہی روم میں آگی۔۔تو اچانک سے کھڑی ہوگی۔۔۔
اوپسسس سوری۔۔۔مجھے نوک کرنا چاہیے تھا۔۔۔ارے بھابھی کیسی باتیں کر رہی ہیں۔۔۔آٸیں نہ پلیز۔۔۔۔
میرا بھاٸی ٹھیک کہہ رہا ہے ان کا کام ہے کہنا۔۔۔سکندر پوری طرح ٹھیک ہوجاے پھر ہم دھوم دھام سے کریں گے شادی۔۔۔۔
کس کی شادی کی بات ہو رہی ہے۔۔۔۔۔ اشفاق اور احمر بھی وہی آگے۔۔۔۔احمر نے پوچھا
تیرے بھاٸی کی۔۔۔۔ہاں جلدی جلدی کریں پھر میری بھی باری آۓ۔۔۔۔
تجھے بڑی جلدی ہے کہی گوڑی پھنسا کرتو نہیں آیا۔۔۔حور اور ہادی ساتھ آۓ حور جا کر سکندر کے پاس بیٹھ گی۔۔۔۔
اور آہستہ آہستہ وہی جمع ہوتے گے۔۔۔۔رمیسہ بھی آگی اور سب نے مل کر ڈی وی ڈی پر کومیڈی مووی لگاٸی اور ہنستے کہلتے ایک دوسرے کو چھڑتے وہ دن بھی گزر گیا۔۔۔۔
رشتہ وہی اچھے ہوتے ہیں جو دن سے نبھاۓ جاٸیں جہاں ادب لحاظ تو ہو مگر کوٸی بھی اپنے دن کی بات کہنے میں ہچکچاۓ نہ۔۔۔۔💓
______
دن گزرتے گے۔۔سکندر جلدی کرو باپ ہو اور کتنا لیٹ کر رہے ہو۔۔۔۔وہ اپنا ڈریس سنمبھالے کور میں پیسے رکھ رہی تھی اور ساتھ سکندر کو آواز لگا رہی تھی۔۔۔جو اب تک تیار ہوکر نہیں نکلا تھا۔۔۔۔۔
سکندر اب بہت بہتر ہوگیا تھا۔۔۔۔ اور وہ سفید شلوار پر پیلا کرتا پہنے باہر نکلا تو ایسا لگ رہا تھا جیسے اسکی مہندی ہے۔۔۔۔
اور صبا اسے دیکھتی رہ گی۔۔۔۔ایسے کیا دیکھ رہی ہو کبھی خوبصورت لڑکا نہیں دیکھا۔۔۔
ہاہاہا۔۔۔۔لڑکا…وہ ہنستے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔
چالیس سال کا لڑکا صرف تم ہی ہو سکتے ہو۔۔۔۔ویسے لگ تو اچھے رہے ہو۔۔۔میں کہتی تھی نہ شیو ججتی ہے تم پر دیکھو کتنے اچھے لگ رہے ہو۔۔۔صبا اسے ڈریسر کے سامنے لاتی آٸینے میں خود کو اسکے ساتھ دیکھ کر مسکرانے لگی۔۔۔۔
اللہ ہمیں بری نظر سے بچاۓ۔۔۔۔ آمین
چلیں اب ہم اپنی بیٹی کی مہندی میں لیٹ پہنچے گے تو کیسا لگے گا۔۔۔۔وہ اسکے ساتھ کبھی مرر سیلفی لیتا تو کبھی سمپل سیلفی لیتا اور تنگ آکر صبا اسکا موباٸل چھینتی ہاتھ پکرتی اسے باہر لے جانے لگی۔۔۔۔
باہر بہت دھوم مچی ہوٸی تھی۔۔۔
احمر لڑکوں کے ساتھ مل کر ڈانس کر رہا تھا۔۔۔۔ہادی کو لال چادر کے نیچے سے گزار کر اسٹیج کے پاس لایا گیا اور پھر حور کی اینٹری ہوٸی۔۔۔
اور دونوں کو ساتھ بٹھایا گیا۔۔۔اور حور کے قریب ہوتا اسکے کان میں سر گوشی کرنے لگا۔۔۔۔یار یہ اینٹری ساتھ کیوں نہیں ہوٸی اسلیے پیسے دیا تھے۔۔حور سامنے دیکھتی مسکراتے مسکراتے ہادی کو کہنے لگی۔۔۔۔
تم چپ رہو گے۔۔۔اور یہ کون سا وقت ہے یہ باتیں کرنے کا۔۔پہلے تو تم مجھے یہ تم کہنا بند کرو۔۔ہادی اسکی بات اگنور کرتا اپنی بات پر آیا۔۔۔
ایک منٹ اووو ہیلو مسٹر زرا یاد کرے اس دن تم نے کہا تھا کے تم مجھے آپ بولو گے اور ابھی سے پلٹی مار رہے ہو۔۔۔
اچھا چلو ڈیل کر لیتے ہیں۔۔۔۔وہ دونوں اپنی باتوں میں مگن بھول گے تھےکہ انکی مہندی کا فنکشن چل رہا ہے۔۔۔۔وہ دونوں تو اپنے مسلٸے سلجھانے میں لگے تھے۔۔۔
ارے کیا ہوگیا ہے تم دونوں کو رسم شروع ہونے والی ہے اب خاموش رہنا اور حور بیٹا سب بڑوں کا ہاتھ چوم نا۔۔۔جی تاٸی امی وہ تعبداری سے کہتی سیدھی بیٹھنے لگی۔۔
امی سے کیسے پیار سے بات کرتی ہو اور مجھ سے تو بھوکی شیرنی کی طرح چیپٹ جاتی ہو۔۔۔
اب انسان انسان پر ڈیپینڈ کرتا ہے۔۔۔۔وہ منہ پر ہاتھ رکھے ہنسنے لگی۔۔۔۔
ہنس لو ہنس لو جانی آخری رات ہے کال سارے بدلے پورے کروں گا۔۔۔
سب سے پہلے صبا اور سکندر آۓ اور حور کے ہاتھ پر مہندی لگاٸی مٹھاٸی کھلاٸی اور سر پر پیسے وارتے صدقہ اتارا۔۔۔
اور ایسے ہی سب نے رسم ادا کی اس یادگار لمحوں کو کپچر کیا۔۔۔
*********
مبارک ہو۔۔۔۔آج اپنی کے فرض سے بھی سبوک دوش ہوگے اللہ کا کروڑوں احسان ہے۔۔۔۔اللہ ہماری بیٹی کے نصیب اچھے کرے آمین۔۔۔
آج حور کی رخصتی بھی ہوگی تھی اور تمام رسموں کے بعد حور کو اسکے کمرے میں بیٹھا کر بہت ساری نصیحتیں کٸ۔۔۔
بیٹی ایک گھر سے دوسرے گھر جاۓ شہر جاۓ یا دوسرے کمرے میں جاۓ رشتے بدلتے ہیں اور یہی دنیا کا اصول ہے۔۔۔وہ دونوں بھی غمگین تھے انکی بیٹی تھی تو اسی گھر میں۔۔۔مگر حقدار بدل گے تھے۔۔۔۔
صبا سکندر کے لیے چاۓ لاٸی۔۔۔تھینک یو یار مجھے اسکی بہت ضرورت تھی۔۔۔
اللہ بہت کریم ہے نا صبا۔۔۔۔بلکل
”بے شک میرا رب بدترین سے گزار کر بہترین سے نوازتا ہے“۔۔۔
مجھے پتہ تھا۔۔۔تمھیں اسکے بنا چین نہیں آۓ گا۔۔۔
صبو۔۔۔۔سکندر نے پکارہ
وہ چاند کو دیکھتی بولنے لگی۔۔۔ہہہہہم
کیوں نہ ہم پھر شادی کریں۔۔۔سکندر کی بات پر صبا اسے دیکھنے لگی۔۔۔
کیا۔۔۔کیا کہہ رہے ہو۔۔۔میرا مطلب ہے۔۔۔سکندر چاۓ کا کپ کھڑکی پر رکھ کر صبا کا ہاتھ پکڑتا اس سے کہنے لگا۔۔
صبا بنت سلیمان کیا آپ کو سکندر مرزا ڈھیر سارا پیار ہر ہفتے شاپنگ سال میں ایک بار پاکستان ٹور حق مہر میں اور ایک شادی شادہ بیٹی کے ساتھ قبول ہے۔۔۔وہ مسکراتے ہوۓ کہنے لگا۔۔۔
کیا آپ کو قبول ہے۔۔۔
قبول ہے قبول ہے قبول ہے۔۔۔۔وہ جلدی جلدی کہنے لگی اور سکندر اسکی اس ادا پر کھل کر ہنسنے لگا۔۔۔
چلو اب چاۓ پیو وہ اسے چاۓ کا پیالا اٹھا کر دینے لگی اور اسنے اسی کے ہاتھ سے چاۓ پی۔۔۔
اہہہممم۔۔۔۔سکندر منہ بناتا چاۓ کی پیالی کو منہ سے دور کرتا کہنے لگا۔۔۔کیا ہوا اچھی نہیں بنی ۔۔۔اور سکندر ہاں میں سر ہلاتا پیالی اسکی طرف بڑھاتا ہے۔۔۔
وہ چاۓ چکہتی ہے تو بلکل صحیح ہوتی ہے۔۔۔۔صحیح تو ہے اتنے گندے منہ کیوں بنا رہے ہو۔۔۔۔اچھا ذرہ دیکھانا وہ صبا کے ہاتھ سے پیالی لے کر واپس چکھ کر کہنے لگا۔۔۔
ہہہہممم۔۔۔۔اب ٹھیک ہے۔۔۔۔کچھ ذیادہ میٹھی ہوگی۔۔۔تم بھی نہ سکندر اور وہ دونوں ہنسنے لگے
*********
وہ لال عروسی جوڑے میں اسکے بیڈ پر پورے حق سے بیٹھی تھی گھونگھٹ ڈالا ہوا تھا۔۔۔۔ وہ آہستہ قدم چلتا اسکے پاس آرہا تھا۔۔۔۔وہ اسکے برابر بیٹھتا اسکا گھونگھٹ اٹھاتا۔۔۔جس پر اس نے کچھ حرکت نہ کی۔۔۔۔
خیر تو ہے مینڈک کی طرح بولنے والی آج ساٸلنٹ موڈ میں طوفان سے پہلے کی خاموشی لگ رہی ہے۔۔۔۔وہ اسے دیکھ کر سوچنے لگا جو پلکے جھکاۓ بیٹھی تھی۔۔۔۔
حور تم چپ کیوں ہو۔۔۔۔ہادی کے بولنے پر اسکی نظریں اٹھیں۔۔۔
کیا ہوا ہے ناراض ہو۔۔۔۔یار میں تو مزاق کر رہا تھا تم مجھے تم ہی کہنا کوٸی مسلہ نہیں۔۔۔۔حور اب بھی خاموش تھی۔۔۔
اب تو کچھ بولو۔۔۔۔میں ویسے بھی تمھیں آپ نہیں کہنے والی تھی۔۔۔حور نے انتہاٸی سنجیدگی سے کہا۔۔۔
ہادی اس کی بات پر مسکرانے لگا۔۔۔تو پھر مسلہ کیا ہے اتنی سنجیدہ کیوں ہو۔۔۔۔
تمھیں پتا ہے ابھی ماما آٸی تھی۔۔۔ اور کہنے لگی۔۔۔۔
حور دیکھو بیٹا اب تمھاری شادی ہوگی ہے۔۔۔تو ہادی کی عزت کرنا اسے لڑنا بلکل نہیں۔۔۔کبھی غلطی ہوجاۓ تو بیٹھ کر اسے سلجھانا۔۔۔اسکے اٹھنے سے پہلے اٹھ جانا ناشتہ بنا کر دینا۔۔۔۔ماما بس کریں آپ اپنے لاڈلے کی شادی گھر کی ماسی سے کروا دیتی۔۔۔
حور بری بات شوہر کے کام بیوی کو ہی کرنے چاہیے۔۔۔۔اچھا میں سمجھ گی ضرور اسی نے بولا ہوگا۔۔۔۔
حور منہ بنا کر بتا رہی تھی اور ہادی اپنی ہنسی روکنے کی نہ کام کوشش کررہا تھا۔۔۔
میں تم سے بات نہیں کروں گی ہادی۔۔۔۔وہ اپنا جوڑا سمنبھالتی ڈریسر کے پاس جانے لگی۔۔۔۔
اچھا۔۔۔ابھی مجھے دیکھنے تو دوں۔۔۔۔پوری زندگی تم نے مجھے ہی دیکھنا ہے اسلٸے سامنے سے ہٹو میں بہت تھک گی ہوں۔۔۔
سوچ لو منہ دیکھاٸی نہیں دوں گا۔۔۔۔وہ اسے جاتا دیکھ پیچھے سے چلایا۔۔۔۔
دیکھ چکی ہوں میں اور نکال کے چھپا بھی چکی ہوں۔۔۔۔حور باتھ روم کا دروازہ بن کرتی کہنے لگی۔۔۔۔
یا اللہ کتنی چالاک ہے۔۔۔۔ہادی خالی باکس کو دیکھ کر بولنے لگا۔۔۔
چل ہادی بیٹا تیار ہوجا اسنے تجھے اچھے سے سیدھا کرنا ہے۔۔۔۔وہ اپنی شیروانی اتار کر بیڈ پر رکھتا خود سے ہم کلام تھا۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...