رات کا پہلا پہر اپنے اختتام کو تھا ہرکوئی اپنے نرم گرم بستر میں خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا گاؤں کے لوگ تو اِس وقت اپنی آدھی نیند پوری کرنے کے قریب جبکہ گاؤں کے بیچوں بیچ بنائی گئی حویلی میں حو کا سما تھا ہلکی ہلکی سرگوشیوں اُس ماحول میں خلل ڈال رہیں تھیں
دوسری منزل پر بنے ہوئے طالش ابراہیم کے کمرے کا ماحول بھی اُس سے کچھ مختلف نہ تھا جہازی سائز بیڈ کی ایک کونر پر عندلیب بیٹھی ہولے ہولے سے کانپ رہی تھی تھوڑی دیر پہلے ہی ملازمہ اُسے اِس کمرے میں چھوڑ کر گئی تھی
"کتنا شوق تھا اُسے اُس کے کمرے کو دیکھنے کا اُسکی ہر چیز کو چھو کر دیکھنے کا لیکن آج کوئی بھی چیز اپنی طرف متوجہ نہیں کر رہی تھی ۔۔۔بچپن سے ہی عشق کیا تھا اُسکی ہر چیز سے ایک مرتبہ اُنکے گھر آیا تھا تو عندلیب جس کپ میں وہ چائے پی کر گیا تھا آج تک اُسی کپ میں چائے پی تھی
اُنہیں سوچوں سے نکل کر دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر ایک نظر اُس کمرے کو دیکھا جس کی ہر چیز اپنی جگہ پر ماجود تھی وائٹ اور گولڈن کلر کامبینیشن کی سکیم سے ہر چیز رکھی گئی تھی
ابھی نظریں کمرے کا طواف ہی کر رہی تھیں جب باہر سے بھاری قدموں کی آواز آئی تو عندلیب کا دل ساکٹر کر متھی میں آگیا سارا کمرے میں اگر کوئی آواز سنی جا سکتی تھی تو وہ اُسکے دل کی دھک دھک تھی زندگی میں پہلی بار اُس کے روبرو ہونا تھا وہ بھی ایک نئے رشتے سے
طالش دروازہ کھول کر اندر آیا کبارڈ سے اپنے آرام دہ کپڑے لے کر واش روم میں گھس گیا اُسے شاید یاد نہیں تھا یہ پھر نظر انداز کر رہا تھا کے کوئی اُسکا منتظر بیٹھا تھا
بالوں میں ٹاؤل چلاتے ہوئے باہر آیا وہ بال جو ہر وقت ایک مخصوص انداز میں سیٹ کیا ہوتے تھے اب ماتھے اور بکھرے ہوئے تھے عندلیب جو نظریں جھکائے بیٹھی تھی ایک بار بھی ہمت کرکے اُسے دیکھ نہیں سکی تھی
"یہ جو بناؤ سنگھار ہے اسے اُتار دو کوئی نہیں آئے گا اسے دیکھنے اور سونا ہے تو ٹھیک اگر کوئی رونے دھونے کا ڈراما کرنا ہے تو باہر چلی جاؤ۔میرا سر مت کھانا”
ہر قسم کے جذبات اور احساس سے خالی الفاظ جو الفاظ کم تیر زیادہ تھے کہتے ہوا دوسری طرف لیٹ گیا ایک غلط نظر بھی اُس سراپا حُسن پر نہیں ڈالی تھی
عندلیب جو پہلے ہولے ہولے سے کانپ رہی تھی اُسکی گمبھیر اور سخت آواز سے ڈر کے مارے زوروں سے کانپ رہی تھی بیمشکل اپنا وجود گھسیٹے ہوئے واشروم میں بند ہوگی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
اُسے بھاگتے ہوئے تقریباً چار گھنٹے ہوگے تھے لیکن مسلسل بھاگ رہی تھی اب اُس علاقے سے اتنا دور تو آ ہی گئی تھی کے اُسے پکڑنے والے کافی پیچھے رہ گئے تھے نہ ہموار راستے یہاں کبھی کیچڑ نما پانی پر اُسکا پیر آجاتا تو کبھی کسی کانٹے پر لیکن اُسے کوئی پرواہ نہیں تھی اپنا آپ بچانا تھا پہلی مرتبہ سانس لینے کے لیے کھڑی ہوئی تو اپنے آس پاس نظر دوڑائی
ساؤتھ افریقہ کی ساحلی پٹی پر ماجود ملک الجیرا جو کے تیسری دُنیا کا ملک ہے جہاں تقریباََ ہر مذہب کی منانے والے پائے جاتے لیکن کریسچن زیادہ اکثریت میں ہوتے ہیں یہ ایک غریب اور ہر لحاظ سے پستی میں گرا ہوا ملک ہے جہاں پر زمین میں سونا وافر مقدار میں پایا جاتا لیکن اُسے کارمند لانے کے لیے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں
جس جگہ پر وہ کھڑی تھی وہ الجیریا کا دُنیا بھر میں انسانی سمگلنگ میں مشہور شہر سٹیلف تھا جو بحری راستوں سے دوسرے شہروں اور ملکوں سے ملتا ہے
حکومت کا نہ ہونے کے برابر ہونے کی وجہ سے ایسی سرگرمیوں کھولے عام سر انجام دی جاتی ہیں ۔۔۔بہت سے پاور فل ملک ایسی جگوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسری دنیا( ڈوبلپنگ کنٹری) کے لوگوں کو سستے داموں خرید لیتے ہیں
"سر میں اِس وقت سٹلف میں ہوں ”
اپنے کانوں میں لگے ہیڈ فون میں خفیہ پیغام کوڈنگ کے ذریعے دیا
اگلی طرف سے کوئی بات کوڈنگ میں کہی گئی جس کے بعد رابطہ منطقہ ہوگیا
نیچے جُھک کر اپنے پاؤں میں لگے کانٹوں کو بیدردی سے نکالا اور بغیر بنڈگیجز کیا آگے کی طرف ڈور گئی
ابھی منزل آگے تھی اور تھک کر خود کو ہلکان نہیں کرنا چاہتی تھی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
محد کو آج پہلا دن تھا کام پر آئے ہوئے اُسے ایک شمپو بنانے والی کمپنی میں ملازمت ملی تھی کرنا بس یہ تھا کہ کسٹمر کی شکایات سن کر ایک تسلی بخش جواب دینا تھا اور وہی شکایت ایک فائلز پر درج کرکے منیجر کو جمع کروانی تھی اور تنخواہ دس ہزار تھی محد کے پاؤں زمین پر لگنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے
"جنٹل مین یہ تمہاری سیٹ ہے ۔۔۔اور کپڑے تھوڑے استری کرلیا کرو ۔۔۔بالوں میں یہ تو کنگھی کر لو یہ پھر کٹوا دو ”
ایک لڑکا اُسے ہدایات دے رہا اور ساتھ اُسکے سلوٹوں سے بھرے ہوئے کپڑے اور چار چار انچ لمبے بال دیکھ رہا تھا
"اچھا جی”
لہجے میں خالص پنجابی والی ریمک تھی
ابھی بیٹھا نہیں تھا جب تین چار فون ایک ساتھ بج اُٹھے
"ہیلو”
اتنا اونچی بولا تھا کی پاس بیٹھے دوسرے ورکر کے ہاتھوں سے چیزیں چھوٹ گئیں تھی
"باجی اپن بھی یہی شیمپو استعمال کرتا ہے ”
دوسری طرف سے شکایت سننے کے بعد تسلی دینے کی ایک چھوٹی سی کوشش
"جا باجی کوئی کم کر لے ۔۔۔۔۔۔۔۔بندہ نو پانی نہیں پلوندی ہونی آگئی شکاتوں ماسی بن کے”
اُس کی بات ابھی کمپلیٹ نہیں ہوئی تھی جب پورے آفس چھت پھاڑ قہقہوں کی زرد میں آگیا
"بھائی اس طرح نہیں ”
ایک ہمدردانہ انداز میں بولا
"لے پائی جان اگئوں چڑ چڑ تے بند نہی کردی”
انتہائی دُکھی انداز میں بولا
سارے ایک مرتبہ پھر لوٹ پوٹ ہوگئے
"بس آپ نے یہ کہنا ہے ہم اب پہلے سے بہتر کرنے کی کوشش کریں گے آپ کے قیمتی وقت کا بہت بہت شکریہ کمپنی آپکی مشکور رہے گی”
اُن میں سے ایک لڑکا بولا تو محد سکون کا سانس لے کر آرام سے بیٹھ گیا
"ویسے یہ بولنا جھوٹ ہی ہے پہلے ہی اتنے گناہ ہوگے ہیں میرے”
سارے اُسکی معصومیت پر حیران تھے جبکہ پیچھے کھڑا انسان بغور اُسکا جائزہ لے رہا تھا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
عندلیب ایک گھنٹے بعد متواتر سوجی ہوئی انکھوں کے ساتھ واشروم سے نکلی تھی گہری سیاہ آنکھیں رونے کی وجہ سے سُرخ ہی چُکی تھیں ہاتھوں پر لگی مہندی کو ایک نظر دیکھا ایسا رنگ زندگی میں پہلی بار آیا تھا اور اُسکی زندگی کے رنگ اپنے ساتھ لے گیا تھا شاید اگر اُسے پہلی نظر دیکھا جاتا تو کہیں سے بھی چوبیس سال کی ہونے کا گمان نہیں کیا جا سکتا تھا البتہ طالش اپنی جسامت کی وجہ سے عندلیب سے چار بڑا لگتا تھا
اب طالش کے ہی سلیپنگ شوٹ میں ماجود تھی کیوں کے وہ اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لائی تھی اور نہ ہی کوئی اُسکے کمرے میں آیا تھا جس سے وہ کہہ دیتی
وہ چھوٹی سی گڑیا جیسی لڑکی طالش کے اتنے بڑے بڑے کپڑوں میں نظر ہی نہیں آرہی تھی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی بیڈ تک آئی طالش جو شاید گہری نیند میں تھا اب کروٹ اُسکی طرف کو لی ہوئی تھی اور بھاری سانسوں کی آواز سے بھی ظاہر تھا کہ وہ نیند میں ہے آہستہ سے اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹ کر بیڈ کی کارنر پر لیٹ گئی نیند میں اگر دوسری طرف کروٹ لینے کی کوشش بھی کرتی تو پہلی فرصت میں نیچے ہوتی کیوں کہ طالش آدھے سے زیادہ بیڈ پر حکمران بنا لیٹا ہُوا تھا
ابھی لیٹی کو کچھ دیر ہی ہوئی تھی جب خود پر کسی کی نظروں کی مسلسل تپس محسوس ہوئی آنکھیں کھول کر دیکھا تو طالش ابھی بھی ویسے ہی لیٹا ہُوا تھا پھر ایک نظر پورے کمرے کو دیکھا کوئی نہیں تھا
"طالش ”
آواز شاید خود کو بھی سنائی نہیں دی تھی لیکن ابھی طالش کا خوف نہیں تھا وہ ایک گاؤں میں تھی اور حویلی کی دیواریں بھی بہت چھوٹی تھیں کوئی چور آسانی سے پھلانگ کر آسکتا تھا یہی سوچ کر شیر کی کیشر میں ہاتھ ڈالا تھا لیکن اگلی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا
"طالش ۔۔۔چ۔۔چور”
پھر آواز نہیں نکلی اب ہاتھ آگے کرکے طالش کا بازو ہلانے کی کوشش کرنے ہی والی تھی جب اسکا ہاتھ اہنی گرفت میں آگیا
اُسکے ہاتھ پر طالش کا ہاتھ شاید نیند میں رکھا گیا تھا اور دوسری طرف دھڑکنوں میں انتشار بھرپا ہوا تھا جذبات کا ایک ٹھاٹھے مارتا سمندر جو اب آنکھوں کے ذریعہ بیڈ شیٹ کی نظر ہورہا تھا ہلنے اور اپنا ہاتھ آزاد کروانے کی ہمت باقی نہیں رہی تھی
ہلکی ہلکی سسکیوں رات کی یکسوئی میں خلل کا کام ادا کر رہیں تھی کتنے خواب دیکھئے تھے طالش کو اپنے زندگی میں شامل کرنے کے حوالے سے سارے چکناچور ہوگئے تھے ساری اُمیدیں اُسکی قسمت کی نظر ہوگئی تھیں
"اگر اب تمہاری آواز آئی تو چور کے آگے ڈال کر اؤنگا ”
ہاتھ اُسکی گرفت سے آزاد ہوگیا تھا اور طالش کی سخت اور بھاری آواز عندلیب کا گلا خُشک کر گئی تھی ڈر کی وجہ سے ایک سیکنڈ میں آنکھیں بند کرلیں سر درد اور طالش کے خوف سے سانس دبا کر لیٹ گئی تھی جب دوبارہ طالش کے نیند میں ہونے کہا گمان ہُوا تو آہستہ سے اُسکا مضبوط بازو اپنے نازک ہاتھوں میں لے کر تھوڑا ڈر کم ہوا تھا جو اُسے نیند کی وادیوں میں لے گیا تھا
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...