“بیگم صاحبہ آپ کو راجہ جی بلا رہے ہیں ہال کمرے میں ” ملازمہ کی اطلاع پر سب نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا
“خیریت ہے نا؟؟” آملہ بیگم نے حیرانی سے استفار کیا
“جی پتہ نہیں”
“اچھا چلو ہم آتے ہیں ” عروسہ نے ملازمہ کو بھیج کر آملہ بیگم کو دیکھا
“چلو چل کر دیکھتے ہیں “ان کے کہنے پر سب ہال کمرے میں چلے آۓ جہاں راجہ ہاتھ کمر پر باندھے ادھر سے اُدھر ٹہلنے میں مصروف تھا جبکہ ایک طرف بڑے صوفے پر سجی سنوری رانی نروس سی بیٹھی تھی خود پر سب کی نظریں محسوس کر کے وہ مزید خود میں سمٹنے لگی
“کہیے کیسے یاد کیا آپ نے ؟؟” آملہ بیگم کی آواز پر راجہ کے چلتے قدموں کو بریک لگا اور وہ مڑ کر انہیں دیکھنے لگا
“آئیے آئیے ایک اہم خبر سنانی تھی آپ کو ” وہ رانی کو دیکھتے ہوئے دلکشی سے مسکرایا
“کیسی خبر ” اب کے سوال عروسہ بیگم کی طرف سے آیا تھا جو رانی کو کڑے تیوروں سے گھور رہی تھیں
“ہم نے شادی کر لی ہے رانی اب ہماری بیوی ہیں اور اب ہمارے ساتھ رہیں گی “راجہ نے گویا دھماکہ کیا تھا آملہ بیگم کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا اور عروسہ بیگم آنکھیں پھاڑے کبھی رانی کو اور کبھی راجہ کو دیکھتی ـ ملازمائیں بھی حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تک رہی تھیں
“یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟؟” آملہ بیگم بمشکل بول پائیں
“ٹھیک کہہ رہے ہیں ہم …. کسی کو کوئی اعتراض “اس نے نظر گھما کر سب کو دیکھا اور سب کی خاموشی پر مطمئن ہوتا بولا “چلیں آئیں رانی ہم آپ کو اپنا بیڈ روم دیکھاتے ہیں
★★★★★★
ہونٹوں پہ ہنسی آنکھ میں تاروں کی لڑی ہے
وحشت بڑے دلچسپ دوراہے پہ کھڑی ہے
چاہا بھی اگر ہم نے تیری بزم سے اُٹھنا
محسُوس ہوا پاؤں میں زنجیر پڑی ہے
دل رسم و رہِ شوق سے مانوس تو ہو لے
تکمیلِ تمنّا کے لیے عمر پڑی ہے
کچھ دیر کسی زُلف کے سائے میں ٹھہر جائیں
قابل غمِ دوراں کی ابھی دُھوپ کڑی ہے
قابل اجمیری
★★★★★★★★
زندگی اسے کس موڑ پر لے آئی تھی اسکے بارے میں تو اسنے کبھی سوچا بھی نہ تھا اسنے نظر گھما کر کمرے کو دیکھا پر آسائش اور قیمتی چیزوں سے آراستہ جسکی ہر چیز اسکے مالک کے اعلا ذوق کا منہ بولتا ثبوت تھی ایسا سب تو اسنے خواب میں بھی نہ سوچا تھا
” اور سجی “اسکی یاد آتے ہی اسلے ماتھے پر بل پڑ گئے وہ انہی سوچوں میں گم تھی جب کمرے کا دروازہ کھلا اور راجہ ابسام کمرے میں داخل ہوا
“کیا بات ہے جناب کیا کمرہ پسند نہیں آیا “وہ اسکے سامنے بیٹھتا ہوا بولا وہ تھوڑا ییچھے کو سرکی
“نہ نہیں ایسی بات نہیں “گھبراہٹ کے مارے بمشکل یہی بول سکی
“آپ ڈریے مت آرام سے بیٹھیے یہ سب اب آپکا ہی ہے” وہ مسکرا کر اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بولا
” آپ کو یاد ہے ہماری پہلی ملاقات کہاں ہوئی تھی” اسکے نفی میں سر ہلانے پر وہ کھل کر مسکرایا
“ہمیں معلوم تھا آپ بھول جائیں گی “وہ اسکے قریب بستر پر نیم دراز ہو گیا
“لیکن ہمیں تو کچھ بھی نہ بھولا ایک لمحے کو بھی نہیں آج بھی ہمیں سب یاد ہے اور جب تک یہ سانس چل رہی ہے ہمیشہ یاد رہے گا ”
رانی نے کچھ بولنا چاہا مگر راجہ نے اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش کروا دیا
” آج صرف ہم کہیں گے اور آپ سنیں گی آج صرف ہمارا دن ہے ”
★★★★★★★
“کیسے ـ ـ کیسے کر سکتے ہیں راجہ یہ ” عروسہ کا غصہ عروج پر تھا وہ بے چینی میں ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہی تھی
“یہاں بیٹھ جاؤ عروسہ ” آمو جان نے اسے ٹھنڈا کرنا چاہا
“کیسے بیٹھ جاؤں یہاں انہوں نے دو ٹکے کی لڑکی کو میرے سامنے لا کھڑا کیا ہے اور یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے “وہ انگلی اٹھا کر بدتمیزی سے بولی”ایک بیٹا قابو نہیں ہوتا آپ سے ہونہہ “آمو جان نے سر جھکا لیا
“اس طرح واویلا کرنے سے کوئی فائدہ نہیں عروسہ کچھ ہی دنوں میں تم دیکھنا راجہ کا دل بھر جائے گا اس سے اور پھر وہ بیچاری اسی محل کی دیواروں سے سر ٹکرا ٹکرا کر مر جائے گی مگر راجہ اس کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھے گا ” آملہ بیگم نے اسے تسلی دی
“ایسا ہی ہوتا ہے یہاں یہ کچھ نیا نہیں ہے راجہ جب چاہتے ہیں اپنی من پسند لڑکی کو اٹھا کر اپنی آرام گاہ میں لے آتے ہیں اور پھر بہت جلد ان سے دامن بھی چھڑا لیتے ہیں ” صغریٰ بیگم نے بھی اپنی بیٹی کو سمجھایا
” اس دن کا انتظار ہے مجھے گن گن کر بدلے لوں گی اس رانی سے میں ہونہہ ” اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھےاور لفظ لفظ زہر میں لپٹا ہوا تھا
★★★★★★★
“اماں اماں” رانی نے صحن میں پہنچتے ہی اماں کو پکارنا شروع کر دیا اسکی آواز سن کر اماں کمرے سے نکلیں
“رانی رانی یہ تو ہے مجھے تو یقین نہیں آرہا میں تجھے دیکھ رہی ہوں “اماں خوشی سے اس کا چہرہ چومتے ہوئے بولیں “تو راجہ سے پوچھ کر آئی ہے نا ” یکدم اماں نے پریشانی سے پوچھا
“ہاں اماں پوچھ کر آئی ہوں ” اس نے ماں کو تسلی دی “چل آبیٹھ “اماں اس کا ہاتھ پکڑ کر بٹھاتے ہوئے بولیں
“کتنی اچھی لگ رہی ہے نا تو یہ کپڑے یہ زیور ” اماں ہر چیز کو چھو کر دیکھتے ہوے بولیں “تو خوش تو ہے نا ”
“ہاں اماں بہت خو ش ہوں “خوشی اس کے چہرے سے عیاں تھی اماں مطمئن ہو گئیں
” آملہ بیگم کا رویہ کیسا ہے تیرے ساتھ ”
“پتہ نہیں اماں میں ملی نہیں ان سے ”
“کیا مطلب ملی نہیں دو دن تو کہاں رہی ”
“اپنے کمرے میں راجہ نے کہا تھا کسی سے نہ ملوں میں ابھی ”
“اچھا پھر ٹھیک ہے راجہ کی بات ہی مان یہ نہ ہو کسی دن اسے غصہ آجا ۓ اور ،،،،، ”
“اماں تو فکر نہ کر راجہ ایسا نہیں ہے ”
“پتر تو نہیں جانتی شروع شروع میں سب ایسے ہی لگتا ہے پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے ”
“اماں میں کسی کو تو نہیں جانتی پر راجہ کو جان گئی ہوں وہ ایسا نہیں ہے ” وہ ماں کو مطمئن کر رہی تھی اماں مطمئن ہوئی یا نہیں مگر اسے مطمئن دیکھ کر خاموش ضرور ہو گئی تھی
“رانی وہ سجی ” اماں نے کچھ کہنا چاہا
“نام مت لینا اماں اسکا ” وہ غصے سے بات کاٹ گئی
“نہیں رانی میں ”
“نہیں اماں وہ میری زندگی سے نکل گیا ہے میں اب چلتی ہوں راجہ نے کہا تھا جلدی آ جانا “وہ جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی اماں بھیگی آنکھوں سے اسے جاتا دیکھتی رہیں اور دل ہی دل میں اس کے لیے دعا کرتی رہی
★★★★★★★
“راجہ جی” رانی نے آنکھیں مون کر لیٹے راجہ کا کندھا ہلایا وہ مسکراتے ہوۓ آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگا
” حکم کیجیے ”
“کھانا نہیں کھائیں گے ”
“نہیں آج بھوک نہیں ہے آپ نے کھا لیا”
“جی کھا لیا ”
“ہمیں یاد نہیں کیا سارا دن” اسنے روز کا پوچھا سوال دوہرایا رانی نے مسکرا کر اسکے کندھے سے سر ٙٹکا دیا
“کیا بہت ”
“ہاہا سچ”
“ہاں جی ”
“ہم سوچ رہے ہیں آپ کو کوئی تحفہ دیں” وہ اسکے بال سہلاتا ہوا بولا
“تحفہ کونسا ”
“جو بہت خاص ہو بالکل آپکی طرح”
“آپ کو معلوم ہے کل اماں نے مجھے کیا کہا “اسکے یوں بات بدلنے پر وہ حیران ہوا
“کیا کہا ”
“راجہ کبھی ہم کم زاتوں کو سر پر نہیں بٹھاتے جب جی بھر جاتا ہے تو قدموں کی خاک بنا دیتے ہیں” اسکی بات پر اسکے بال سہلاتا ہاتھ رک گیا
” کیا آپ بھی ایسا کریں گے”
اسکے یوں براہ راست سوال پر وہ لب بھینچ گیا پھر جب بولا تو لہجہ مضبوط تھا
“ہم ایسا نہیں کریں گے رانی ہم عشق کرتے ہیں آپ سے”
“لیکن ہم چاہتے ہیں آپ اپنی محبت کا ثبوت دیں ہمیں معتبر کریں “وہ اسکے کندھے سے سر اٹھا کر اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ بولی
“کیا مطلب ”
“آپ مجھے تحفہ دینا چاہتے ہیں نا تحفے میں یہ محل دے دیں”
اسکی اس قدر اچانک فرمائیش اسے ساکت کر گئی وہ تیزی سے اٹھ کر بیٹھ گیا
“کیا کہہ رہی ہیں آپ رانی” اسکا چہرہ سرخ ہو گیا
“معلوم تھا آپ یونہی غصہ کریں گے شاید میں نے اپنی اوقات سے زیادہ مانگ لیا معافی چاہتی ہوں غلطی ہو گئی “یہ کہہ کر وہ اٹھنے لگی جب راجہ نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا
“ہم سوچیں گے رانی ” وہ نیم رضامندی سے بولا رانی خاموشی سے اسے دیکھیے گئی اور پھر اسکی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اگلے ہی دن راجہ نے محل کے کاغزات اسے تھما دئیے
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...