ہنی مجھے تم سے بات کرنی ہے؟؟؟ جی کہیئے ۔۔۔ حوریہ نے اکھڑے ہوئے لہجہ میں جواب دیا ۔۔ جب سے حوریہ ہاسٹل سے آئی تھی شاہ زیب کے سامنے کم آتی تھی اور اب تو پٹر پٹر بولنا بھی بند کردیا تھا ۔۔۔ دل دکھا تھا اسکا شاہ زیب کے رویہ سے اوپر سے شاہ زیب نے ایسکیوز بھی نہیں کیا ۔۔ وہ اپنے دل میں بد گمانی نہیں لانا چاہتی تھی لیکن جن سے محبت ہوتی ہو ان کی بے پرواہی کہا برداشت ہوتی ہے۔۔۔۔
اس جمعہ کو تیمور کا نکاح ہے۔۔ شاہ زیب نے گویا بم پھوڑا تھا ۔۔۔ کیا اس۔۔س جم۔۔۔معہ کو اور مجھے بتایا بھی نہیں ۔۔۔ حوریہ کا منہ کھل گیا تھا۔۔۔۔ منہ تو بند کر لو مکھی گھس جائے گی۔۔۔ تیمور کی آواز پر دونوں نے پلٹ کر دیکھا : حوریہ تو اٹھ کر جانے لگی تھی ۔۔ ارے ارے کیا حور گڑیا ناراض ہوگئی ہے ؟؟؟ نہیں بہت خوش ہوں نکاح بھی فائنل کر لیا اب ولیمہ پر ہی لالیتے نکاح کا بھی کیوں کہا ۔۔۔ حوریہ کی اواز میں شکوہ تھا ۔۔ اصل میں تمہاری دوست اتنی پسند آئی کہ اب دیر نہیں کرسکتا تھا ورنہ اس سے ہاتھ دھو بیٹھتا ۔۔۔ کیا اریشہ سے۔۔۔۔ کب سے چل رہا ہے یہ چکر؟؟؟ مجھے تو پہلے ہی شک تھا اس گھنی نے مجھے بتایا تک نہیں ۔۔۔ او او لڑکی چھری کے نیچے دم تو لینے دو بریک لگاو یار۔۔۔۔۔ ابھی بھی تم ویسی ہو بس لمبی ہوگئ ہو ۔۔ تیمور نے حوریہ کو چھیڑا ۔۔۔ دیکھ لیں آپ، اپنے دوست کو سمجھا دیں میرا مزاق نہ اڑائیں ۔۔۔ حوریہ نے شاہ کو بیچ میں گھسیٹا ۔۔ یہ تو کب سے تمہیں ہی دیکھ رہا ہے تیمور کی بات پر حوریہ نے شاہ کو دیکھا جو مسلسل اسے ہی دیکھ رہا تھا شاہ زیب نے حوریہ کے دیکھنے پر نظروں کا زاویہ پھیر لیا ۔۔۔۔۔ تو پھر شروع ہوگیا نہ ۔۔ اور تجھے اپنے گھر میں سکون نہیں ملتا جب بھی میں حوریہ سے بات کرنے بیٹھوں تو آدھمکتا ہے ۔۔۔ اب کہ شاہ زیب نے اپنا بدلہ پورا کیا ۔۔۔ چل چل بہت کرلی باتیں تو نے میں حور گڑیا کو لینے آیا ہوں جب تک رخصتی نہیں ہوگی تو حور سے نہیں ملے گا۔۔ حوریہ ہونقوں کی طرح دونوں کو دیکھ رہی تھی جب رہا نہیں گیا تو پوچھ لیا : کوئی مجھے بھی بتائے گا کہ کس کی رخصتی کی بات ہورہی ہے ؟ تمہاری بھی ہفتہ کو رخصتی ہے میں تمہیں بھائی کی طرح اپنے گھر سے رخصت کروں گا ۔۔۔ تیمور کی بات پر حوریہ کی انکھوں میں انسو اگئے بھائی کا مان کیا ہوتا ہے وہ اج جانی تھی ۔۔۔۔باپ اور بھائی کا رشتہ ایک لڑکی کے لئے امان اور محافذ ہوتا ہے جسے ایک بہن ہی سمجھ سکتی ہے۔۔ حوریہ تو خود رشتوں کی ترسی ہوئی لڑکی ہے تیمور کی بات پر اپنے انسو نہ روک سکی ۔۔۔ تیمور نے اگے بڑھ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔۔ شاہ زیب اسکے اشکوں کو دیکھ رہا تھا جو نجانے کس کس احساس کے تحت نکل رہے تھی یہ بات شاہ زیب سے بڑہ کر کون سمجھ سکتا تھا بھلا۔۔۔۔۔۔۔۔
***************************************
اریشہ اور تیمور کا نکاح تھا جبکہ رخصتی ایک سال بعد ہونا قرار پائی تھی ، اور شاہ زیب کی باقاعدہ شادی تھی جمعرات کو مایوں بیٹھنا تھا دونوں کو ۔۔۔۔ اور مایوں کا اور برات کا فنکشن تیمور نے ڈیسائیدڈ کیا تھا جبکہ ولیمہ شاہ زیب نے کرنا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
***************************************
حوریہ کو تیمور کے گھر اکر اپنا اپنا لگا وہاں کے مکینوں نے حوریہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا تھا علیزہ بھی اپنے بچوں سمیت آگئ تھی وہاں حوریہ کا دل لگ گیا تھا وہاں کے لوگوں کی آپس کہ محبت اور چھیڑ چھاڑ سے حوریہ خوب لطف اندوز ہوتی تھی اج بھی سارے گپ شپ کرنے، حوریہ اور تیمور کی گد بنانے میں لگے ہوئے تھے۔۔۔۔ جس میں علیزہ اگے اگے تھی ۔۔
تیمور بھائی آپ کتنے چپھے رستم نکلے میری دوست پر نظر رکھے ہوئے تھے اور مجھے پتا بھی نہیں چلنے دیا ؟؟؟ او لڑکی تصیح کرلو نظر نہیں رکھی بلکہ دل میں رکھا ہے جس کا عملی ثبوت نکاح ہوگا ۔۔۔۔ او۔۔۔ووو۔۔۔۔۔۔۔ہووووو۔۔ تیمور کی بات پر سب کے قہقہہ بلند ہوئے ۔۔۔۔۔۔
شاہ زیب اور بی اماں دونوں لاونج میں بیٹھے تھے ۔۔۔۔ بی اماں کی عمر اب ایسی تھی کے وہ بھاگ بھاگ کر کام نہیں کرتی تھیں جبھی انہوں نے اپنی بیٹی کو بلا لیا تھا شادی کی تیاری بھی تو کرنی تھی ۔۔۔ اور پھر جاتے جاتے حوریہ شاہ سے کہہ کر گئی تھی کہ شاہ میں شاہ ولا میں آوں گی رخصت ہوکر اپنے ماں باپ کے گھر میں ۔۔۔۔ شاہ زیب بھی یہ ہی چاہتا تھا یوں اج یہ لوگ اپنا مختصر سامان باندھ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
***************************************
مایوں کا دن بھی آگیا اسکی ساری تیاری علیزہ اور تیمور نے مل کر کی تھی جبکہ برات اور ولیمہ کا جوڑا شاہ زیب نے خود لیا تھا پورے گھر کو گیندے کے پھول سے سجایا ہوا تھا ارینج مینٹ سے پتا لگ رہا تھا کہ مایوں ہے ۔۔۔۔۔
حوریہ کو ڈوپٹہ کی چھاوں میں اسٹیج پر لایا گیا ۔۔۔ حوریہ نے پیلا جوڑا زیب تن کیا ہوا تھا اور ڈوپٹہ سے اگے کو گھونگھٹ گرایا ہوا تھا جس سے حوریہ کا چہرہ چھپ گیا تھا ۔۔۔ شاہ زیب نے سفید کرتا پہنا ہوا تھا جس میں اسکی خوبصورتی نمایاں ہورہی تھی ۔۔۔۔
حوریہ کو شاہ زیب کے برابر میں بٹھایا گیا اور رسمیں شروع ہوگئیں ۔۔۔۔۔ حوریہ کی کپکپاہٹ شاہ زیب کو واضح محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔۔ حوریہ سمٹی سی بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔۔
شاہ زیب کی نظر حوریہ کے ہاتھوں پر گئ تھی۔۔۔ نازک کلائیوں میں گجرے اسکے ہاتھوں میں سجے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔
***************************************
کیا آج ہی سارا دیدار کرے گا ؟؟ تیمور کی آواز پر سب کی ہنسی چھوٹ گئ جب کہ شاہ زیب نے گھورنے پر ہی اکتفا کیا ۔۔۔۔۔ یوں یہ رات بھی گزرگئ۔۔۔۔۔
جمعہ کا دن تھا اور تیمور کا نکاح جمعہ کی نماز کے بعد رکھا گیا تھا ۔۔۔ ہر طرف گہما گہمی چھائی ہوئی تھی ۔۔۔۔ حوریہ نے تو کہا تھا کہ وہ بھی نکاح میں جائے گی لیکن اسے یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ مایوں کی دلہن گھر میں ہی رہتی ہے ۔۔۔ جبکہ شاہ زیب تیمور کے ساتھ ساتھ تھا ۔۔۔۔۔
نکاح کی تقریب گھر میں سادگی سے ہی رکھی گئ تھی نکاح کے وقت اریشہ کو پتا چلا کہ اس کا نکاح تیمور سے ہوا ہے ابھی وہ بے یقین ہی تھی کہ کمرہ کا دروازہ بجا اور اندر آنے والے شخص کو دیکھ کر اریشہ کھڑی ہوگئ ۔۔۔۔ تیمور کے قدم حوریہ کی جانب تھے اور وہ حیرت سے تیمور کو دیکھے جارہی تھی جو بلیک شیروانی میں خوبرو لگ رہا تھا تیمور بھا۔اااا۔ اسکے شگرفی لبوں پر انگلی رکھ کر تیمور نے اسے بولنے سے روکا ۔۔۔۔ کچھ تو خیال کرو ابھی تو نکاح ہوا ہے ۔۔۔ اریشہ نے شرم کے مارے نظریں نیچے جھکالی تھیں ۔۔۔۔۔ اور وہ اس کے سوہنے سے مکھڑے کو تکے جارہا تھا جب کوئی جواب نہیں ایا تو اریشہ نے نظریں اٹھا کر دیکھا ۔۔ اتنے میں دروازہ کی دستک نے تیمور کی محویت کو توڑا تھا ۔۔۔۔ ٹائم ختم ہو گیا دلہا بھائی ۔۔۔ رامیںن کمرہ سے باہر ہی آواز لگا رہی تھی ۔۔۔ تیمور نے اریشہ کے ماتھے پر اپنی محبت کی نشانی ثبت کی اور کمرہ سے نکلتا چلا گیا اور اریشہ اسکے لمس میں کھوگئ تھی ۔۔۔۔۔۔۔
***************************************
اج چونکہ تیمور کے نکاح کے بعد شاہ زیب کا بھی نکاح تھا سو بارات کے آتے ہی نکاح کی تیاری شروع ہوگئ تھی یوں بھی شاہ زیب چاہتا تھا کہ نکاح دوبارہ حوریہ کی بھرپور رضامندی سے ہو ۔۔۔۔
حوریہ کو اپنے والدین اتنے یاد آرہے تھے کہ اسکے آنسو خشک ہی نہیں ہورہے تھے یہ بات بھی شاہ زیب کو تیمور نے بتائی تھی۔۔۔۔ بہرہال نکاح کے بعد حوریہ کو اسٹیج پر لے جایا گیا شاہ زیب تو اسکے حسن کو دیکھتا ہی رہ گیا نورانی چہرہ پر مہارت سے کئے گئے میک اپ ریڈ اور گولڈن کلر کے شرارے میں وہ سچ میں جنت کی حور لگ رہی تھی ۔۔۔ امممممم ہممممم تیمور کی شوخی اور شرارت اپنے عروج پر تھی ۔۔۔۔
شاہ زیب نے گولڈن کلر کہ شیروانی پہنی ہوئی تھی اج وہ کسی ریاست کا شہزادہ لگ رہا تھا دونوں کی جوڑی بہت جج رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
اریشہ بھی برات میں شریک تھی یوں بھی نکاح تو ہو ہی گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
رخصتی کے مراحل طے کرنے کے بعد اریشہ نے شاہ ولا میں شاہزیب کے روم میں حوریہ کو لے گئ۔۔۔ اریشہ اور تیمور دونوں بارات کے ساتھ آئے تھے ۔۔۔
شاہ زیب کمرہ میں داخل ہوا تو گلاب کے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو نے اسکا استقبال کیا ۔۔۔ وہ حوریہ کے قریب بیڈ پر بیٹھ گیا حوریہ گھبرہٹ میں اپنی انگلیوں کو مروڑ رہی تھی۔۔۔ توڑو گی کیا انگلیاں ؟؟ کیوں ظلم کر رہی پو ان پر ؟؟ شاہ زیب نے اس کا ہاتھ تھام کر اپنے لبوں سے لگایا ۔۔۔۔ شاہ زیب کی حرکت پر حوریہ نے کرنٹ کھا کر ہاتھ کھیچنا چاہا لیکن شاہزیب کی گرفت مضبوط ہوگئ تھی ۔۔۔ ہنی شاہ زیب کی آواز کی گھمبیرتا نے حوریہ کے رہے سہے اعصاب بھی کمزور کر دیئے تھے ۔۔۔۔ میری طرف نہیں دیکھو گی ؟؟؟ حوریہ نے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔ کیوں ؟ آپ نے مجھے ڈانٹا تھا ۔۔۔ او حوریہ تم اتنی پرانی بات دل میں رکھ کر بیٹھی ہو ؟؟؟ ہاں تو آپ کو سب کے سامنے میری حمایت کرنی چاہیئے تھی ۔۔۔۔۔ اچھا لو اب میں نے کان پکڑلئے ۔۔۔ میرے نہیں اپنے پکڑیں ۔۔۔ شاہ زیب نے حوریہ کے کان پکڑلیے تھے جس پر حوریہ نے گھور کر کہا ۔۔۔۔ شکر ہے تم نے مجھے دیکھا تو صحیح ۔۔۔۔ شاہ آپ کو پتا ہے نہ میں آپ سے زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتی ۔۔۔۔ جان شاہ میں بھی اپنی ہنی کو اب نہیں ڈانٹوں گا ۔۔۔
شاہ زیب نے سائیڈ ٹیبل کی ڈراز سے ایک مخملی کیس نکالا اور کھول کر اس میں سے ہیروں کا ہار اسکی طرف کر کے اجازت طلب نظروں سے حوریہ کو دیکھا جس نے شرما کر اپنا سر جھکالیا تھا ۔۔ شاہ زیب نے اسکی ادا پر نہال ہوتے ہوئے اسکی گردن میں پہنا دیا تھا اور پیچھے ہو کر خود اسے اپنے بازو کے ہلکے میں بھر لیا تھا ۔۔۔۔۔۔ رات دھیرے دھیرے سنہرے خوابوں کی تعبیر لیے ڈھل رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
***************************************
دوسرے دن ولیمہ میں حوریہ نے سلور کلر کی میکسی پہنی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔ یہ جوڑا بھی شاہ زیب کی پسند کا تھا ۔۔۔ جبکہ اریشہ بے نیوی بلو ساڑی پہنی تھی اس کے نازک سراپہ پر جچ رہی تھی اور بالوں کو کھلا چھوڑ دیا تھا ۔۔۔۔ تیمور بلیک پین کوٹ میں خوبرو لگ رہا تھا۔۔۔۔۔ کیا خیال ہے اج ہی رخصتی نہ کروالوں تمہاری۔۔۔ تیمور نے اریشہ کے کان میں بولا تھا ۔۔۔ اریشہ کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا جلدی سے گھبرا کر ادہر ادھر دیکھا ۔۔۔۔ او گوڈ اریشہ اتنا کیوں گھبرتی ہو مجھ سے؟؟؟ وہ وہ کوئی دیکھ لے گا پپلیز اپ جائیں ۔۔۔ دیکھتا ہے تو دیکھنے دو میں اپنی بیوی کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے تم سے بات کرنی ہے کل شام میں ریڈی رہنا ہم اوٹنگ پر چلیں گے ۔۔۔ تیمور یہ کہہ کر اسٹیج کی جانب چلا گیا اور اریشہ جو اسکو انکار کرنے لگی تھی مواقع ہی نہ ملا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوریہ صوفہ پر بیٹھی ہوئی تھی وہ اپنی سوچوں میں اتنی گم تھی کہ شاہ زیب کے اندر انے کی آہٹ بھی محسوس نہ کرسکی ۔۔۔ ولیمہ کے بعد سب شاہ ولا میں موجود تھے جس میں اریشہ اور تیمور اگے اگے تھے ۔۔۔۔ حوریہ تھوڑی دیر وہاں بیٹھ کر چینج کرنے کی غرض سے روم میں چلی آئی تھی ۔۔۔ اسکا دل اپنے ماں باپ کو یاد کررہا تھا۔۔۔۔ شاہ زیب اسکے برابر میں اکر بیٹھا ۔۔۔ہنی؟؟؟ حوریہ اسکی اواز پر چانکی تھی اور جلدی سے انکھوں کے گوشوں کو صاف کیا۔۔۔ وہ شاہ زیب کو بتا کر دکھی نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔ شاہ زیب نے اسکے کندھوں کو پکڑ کر اسکا رخ اپنی جانب کیا ۔۔۔ کیا ہوا ہنی کیوں رو رہی ہو ؟؟ نہیں کچھ نہیں ہوا میں چینج کرلوں ۔۔۔ حوریہ نے کھڑا ہونا چاہا لیکن ناکام رہی شاہ زیب نے اسکا ہاتھ پکڑ کر بٹھالیا تھا ۔۔۔ کیا تم مجھے اب اس قابل نہیں سمجھتی کہ تم مجھ سے اپنے دکھ شئیر کرسکو ؟؟؟ وہ شاہ زیب ہی کیا جو حوریہ کے چہرے کو نہ پڑھ سکے بچپن سے لیکر اب تک وہ اسکی عادتوں سے واقف تھا۔۔۔ نہ نہ نہیں ایسی بات نہیں ہے آپ غلط سمجھ رہے ہیں ۔۔۔ حوریہ نے اس پر واضح کرنا ضروری سمجھا ۔۔۔ اچھا پھر کیسی بات ہے؟؟؟ شاہ زیب نے حوریہ کے چہرے کو اپنے نظروں کے حصار میں رکھتے ہوئے پوچھا؟؟ مجھے مما یاد آرہی ہیں شاہ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ وہ کہیں سے اکر مجھے گلے لگائیں ۔۔۔ شاہ میرا دل چاہ رہا ہے میں مما کے پاس چلی جاوں۔۔ حوریہ کی ہچکی بندھ گئ تھی یاد تو اسے بھی ارہی تھی لیکن وہ مرد تھا مضبوط تھا ۔۔۔۔
ہنی آنی خوش ہوگیں میں نے ان کی سالوں پہلے خواہش کو عملی طور پر نبھایا ہے تم رو رو کر خود بھی ہلکان ہورہی ہو اور انہیں بھی تکلیف دے رہی ہو ۔۔۔ شاہ میں کیا کروں میں رونا نہیں چاہتی لیکن جب مجھے ان کی یاد آتی ہے میرے آنسو بےقابو ہو جاتے ہیں ۔۔۔ انسووں سے بھری بڑی بڑی انکھیں اس کے حسن کو خیرہ کر رہیں تھیں ۔۔۔ شاہ زیب نے اسکے رخساروں پر بہتے موتیوں کو اپنی انگلی کی پوروں سے چن لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
***************************************