(Last Updated On: )
ہوں انا الصحرا کبھی پوچھو مجھے کیا چاہیے
آسماں جتنا بڑا پینے کو دریا چاہیے
اتنا سنجیدہ نہ ہو، سب مسخرے لگنے لگیں
زندگی کو نیم عریانی میں دیکھا چاہیے
جانتا ہوں کیوں یہ آسانی مجھے مشکل لگے
طے نہ کر پاؤں کہ کس قیمت پہ دنیا چاہیے
یہ رہا سامان دنیا، یہ رہے اسباب جاں
کوئی بتلاؤ مجھے ان کے عوض کیا چاہیے
کچھ نہیں تو اس کے تسکین تغافل کے لیے
ایک دن اس یار بے پروا سے ملنا چاہیے
یا زیاں کو سود سمجھو یا کہو سر پیٹ کر
سوچ کو حد مروج ہی میں رہنا چاہیے
٭٭٭