ہالینڈ کے شہر ڈین ہیگ کے ساحل کی گیلی ریت سورج کی روپیلی شعاعوں سے دمک رہی تھی۔ آج سورج روشن تھا اور ڈین ہیگ کے باسی دھوپ کو کسی رنگین تہوار کی مانند سیلبریٹ کرتے تھے۔
بیلا کی سرمئی اداس آنکھوں نے دور تک ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو دیکھا نیلگوں پانیوں میں جھلکتا اس کا عکس بے پناہ دلفریب تھا۔ جینز کے پائنچوں کو فولڈ کرتے ہوئے اس کا دل چاہا، وہ ایک ہی جست میں سارا سمندر پار کر جائے شاید اس کی ذات سے بچھڑا وہ ممتا کی شفقت سے بھرپور ہجر کا مارا وجود لہروں کے اس پار کہیں مل جائے۔ عجیب خواہش تھی سرمئی آنکھوں پر سایہ فگن پلکوں کی جھالر نم آلود ہو گئی۔
’’بیلا کم آن۔‘‘ وہ چاروں اسے بلا رہی تھیں کیتھرین نے فٹ بال اس کی سمت اچھال دیا تھا جسے اٹھانے کو وہ نیچے جھکی تو دور اپنی گاڑی کے بونٹ سے ٹیک لگا کر کھڑے مانیک کی نظریں اس کی گوری سڈول پنڈلیوں پر جم سی گئیں اس نے فٹ بال اٹھایا۔
فٹ بال لہروں پہ اچھلتا رینگتا ہوا اس کی سمت چلا آیا تھا اور وہ سنہری دھوپ سی لڑکی اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے اب اس کے مقابل کھڑی ہانپ رہی تھی۔ وہ بلاشبہ بہت حسین تھی یہاں موجود لڑکیوں میں سب سے زیادہ خوبصورت اور ممتاز۔
اس نے آگے بڑھ کر فٹ بال اٹھا لیا اگرچہ یہ کافی نازیبا حرکت تھی مگر وہ اسے مزید کچھ پل نظروں کی گرفت میں رکھنا چاہتا تھا۔ نیچے بال اٹھانے کو جھکی بیلا نے اس بے ہودہ حرکت پر قدرے ناگواری سے اسے دیکھا تھا۔ مانیک کے لبوں پر دوستانہ سی مسکراہٹ تھی۔
’’فٹ بال واپس کرو۔‘‘ اس کا انداز روکھا سا تھا۔
وہ اپنی ماں الزبتھ کے ساتھ نیویارک میں رہتی تھی اس کا سارا بچپن لڑکپن اور جوانی کا ابتدائی دور وہیں گزرا تھا۔ الزبتھ استھما کی مریضہ تھی اس کی اچانک ڈیتھ کے بعد چند روز قبل وہ ہالینڈ اپنے ماموں رابرٹ کے گھر شفٹ ہوئی تھی جو اپنی بیوی جینفر اور اکلوتی بیٹی کیتھرین کے ساتھ رہتا تھا۔
مانیک کو پہلی بار اس نے دو روز قبل یونیورسٹی میں دیکھا تھا۔ وہ بلا کا ہینڈ سم اور ڈیشنگ تھا لیکن اس کا گیٹ اپ انتہائی لوفرانہ اور لا ابالی لڑکوں جیسا تھا۔ وہ چین اسموکر تھا اور بیلا سگریٹ پینے والوں سے سخت الرجک تھی۔
ہاں وہ وائلن بہت اچھا بجاتا تھا اور یونیورسٹی کی ہر لڑکی اس کے وائلن پر فدا تھی۔
وہ اور کیتھرین پری انجینئرنگ کی اسٹوڈنٹس تھیں جبکہ مانیک ایم بی اے کے فائنل سمسٹر میں تھا اور اپنی تمام تر فضولیات کے باوجود وہ یونیورسٹی کا ذہین اور فعال اسٹوڈنٹ تھا۔
جو اپنے اساتذہ کا بے حد احترام کرتا تھا اور بوقت ضرورت ہر کسی کے کام آتا تھا۔
کیتھرین نے یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی اسے مانیک کے متعلق معلومات فراہم کر دی تھیں مگر بیلا کو وہ بالکل پسند نہیں آیا تھا تب ہی تو اس کی دوستانہ مسکراہٹ کے باوجود بھی اس کا انداز روکھا سا ہی رہا تھا۔
’’ہیلو مانیک! کم آن جوائن از‘‘ کیتھرین نے دور سے ہاتھ ہلاتے ہوئے اسے اپنے ساتھ کھیل میں شامل ہونے کی دعوت دی تو اس نے فٹ بال ہوا میں اچھال کر لہروں کے سپرد کر دیا۔
اب کیتھرین، جولیا، سوزین اور انجلین کے ساتھ وہ بھی کھیل رہا تھا جبکہ بیلا منرل واٹر کی بوتل منہ سے لگائے بنچ پر بیٹھی بے نیازی سے بالوں میں انگلیاں چلا رہی تھی۔
اسے مانیک کا کھیل میں شمولیت اختیار کرنا اچھا نہیں لگا جسے محسوس کرتے ہوئے مانیک کو افسوس سا ہوا۔
٭٭٭
واپسی پر انہوں نے گاڑی ایک اٹالین پزا شاپ پر روکی تھی۔ بیلا نے رسٹ واچ پر نگاہ دوڑاتے ہوئے آنکھوں کے خفیف سے اشارے کے ساتھ کیتھرین کو روکنا چاہا تھا جسے نظر انداز کرتے ہوئے وہ اس کا ہاتھ کھینچ کر گاڑی سے اتر گئی تھی۔
یہ ریڈلینڈ کروزر سوزین کی تھی وہ کیتھرین کی سب سے امیر دوست تھی اس کا شمار ڈین ہیگ کی ٹاپ اپر کلاس فیملز میں ہوتا تھا، وہ اپنی دولت بے دریغ دوستوں پر لٹایا کرتی تھی اس کی وجہ سے وہ لوگ ان جگہوں پر بھی گھوم چکے تھے عام حالات میں جہاں جانے کا تصور بھی ناگزیر تھا۔
کیتھرین کو لگ رہا تھا وہ کسی نئی دنیا میں قدم رکھ چکی ہے بوائے فرینڈ، اور ڈسکو پارٹیز اب زندگی کا لازمی جز تھے، بہت سی چیزیں تھیں جن کا ذائقہ اس نے پہلی بار چکھا تھا گناہوں کی لذت نے اس قدر مد ہوش کیا کہ اب رابرٹ کے اصول اور ان پر لگائی گئی پابندیاں انتہائی دقیانوسی لگنے لگی تھیں۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ نن نہیں بنے گی اب زندگی کو اسے اپنی مرضی سے جینا تھا۔
پزا شاپ سے وہ چاروں اکیلی باہر نہیں آئی تھیں۔ اب ان کے ساتھ ان کے بوائے فرینڈز بھی تھے اور سب کا ارادہ کیسینو جانے کا تھا۔
’’سوزین! مجھے راستے میں ڈراپ کر دینا۔‘‘ بیلا نے کیتھرین کی ڈھٹائی پر کڑھتے ہوئے سوزین سے کہا تو پہلا اعتراض انجلین نے کیا۔
’’گھر جا کر کیا کرو گی؟ ہمارے ساتھ چلو۔ دیکھنا! تمہیں کتنا انجوائے کرواتے ہیں۔‘‘
’’اگر وہ نہیں جانا چاہ رہی تو زبردستی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ جولیا نے اپنے لبوں پر سرخ لپ اسٹک کی تہہ جماتے ہوئے فوراً بیلا کی حمایت کی۔ اس نے نوٹ کیا تھا کہ ہیلر کا دھیان اس سے زیادہ بیلا پر تھا وہ تو دل سے چاہ رہی تھی کہ بیلا ان کے ساتھ نہ جائے۔ سوزین نے اسے قریبی اسٹاپ پر اتار دیا تھا۔
٭٭٭
’’کیتھرین کہاں ہے۔‘‘ جنیفر آنٹی نے کھانا میز پر لگا دیا تھا وہ فریش ہو کر نیچے آئی تو رابرٹ نے اس کے عقب میں دیکھتے ہوئے استفسار کیا۔ بیلا نے لب کھولے لیکن پھر جھوٹ بولنا پڑا۔
’’انکل! ایک ضروری اسائنمنٹ تیار کرنا تھی، وہ انجلین اور جولیا سوزین کے گھر گئی ہیں۔‘‘
’’اتنی رات کو …‘‘ ان کے ابرو تن گئے۔
’’بیلا! یہ سوپ پروفیسر صاحب کو دے آؤ۔ ان کو کل رات سے فلو ہے۔‘‘ جنیفر آنٹی نے اس کی مشکل آسان کر دی تھی۔ وہ جھٹ سے باؤل اٹھا کر غائب ہو گئی۔ ورنہ رابرٹ انکل بال کی کھال اتارنے والوں میں سے تھے۔ ویسے بھی ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا، وہ خود بھی چرچ میں بابو تھے اور ان کی خاندانی روایت کے مطابق کیتھرین کو آگے جا کر نن بننا تھا سو وہ بچپن سے ہی اس کی زندگی کے تمام معمولات پر گہری نگاہ رکھے ہوئے تھے۔
لیکن کیتھرین کے اندر جو بغاوتیں سر اٹھا رہی تھیں، بیلا ان کے متعلق سوچ کر کافی پریشان تھی۔
ان کے اپارٹمنٹ کے سامنے والا گھر پروفیسر ولیم کا تھا۔ وہ اکیلے رہتے تھے اور آج کل ریٹائرڈ لائف کے مزے لوٹ رہے تھے۔ بیلا اکثر فارغ وقت میں ان کے پاس آ جایا کرتی تھی، وہ کافی پر خلوص اور خوش مزاج انسان تھے بڑھتی عمر اور بیماری نے بھی ان کے خوش گوار موڈ پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں کیے تھے۔
بیلا کو ان کی پرانی یادیں سننے میں بہت مزا آتا تھا، وہ بھی انتہائی ذوق و شوق سے اپنے قصے سنایا کرتے تھے جس سے دونوں کا بہت سارا وقت اچھا گزر جاتا تھا۔
٭٭٭
گرمیوں کی چلچلاتی دوپہروں میں جب سب لوگ گھروں میں دبکے آرام دہ ٹھنڈے کمروں میں خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے۔ وہ عقبی صحن کے دالان میں ٹہلتی بے تحاشا بور ہو رہی تھی اسے شانی، ابا اور بی اماں سب یاد آ رہے تھے، وہ اس وقت کو کوس رہی تھی جب اس پر میڈیکل کی ڈگری کا بھوت سوار ہوا تھا اور وہ وادیِ کوہستان کی نرم ٹھنڈی خوش گوار فضاؤں کو چھوڑ کر یہاں لاہور میں آن بسی تھی حالانکہ اس کے ساتھ پھوپھو در نایاب اور زریاب بھی تھے۔
در نایاب تو یونیورسٹی سے آتے ہی کھڑکیاں بند پردے برابر کر کے بستر پہ ڈھیر ہو چکی تھی۔ رہا زریاب تو اس سے ابھی تازہ ترین جھگڑا ہوا تھا۔
دالان کے سامنے بڑا سا باغیچہ تھا جہاں آم کے درخت پر لگی کیریاں اسے دور سے ہی دکھائی دے گئی تھیں۔
’’علی پور کا ایلی‘‘ اس کے بیگ میں تھا جو وہ کل ہی کالج سے لے کر آئی تھی اور اب جھولے میں بیٹھی کیری کو نمک مرچ لگا کر کھاتے ہوئے ناول پڑھنے میں … منہمک تھی۔
جھولے کے اوپر بوگن ویلیا کی بڑی بڑی بیلیں تھیں، چمن کے گلابی اور سفید پھول ہوا کے مدھم جھونکوں کے ساتھ اس کے زرد آنچل دامن اور جھولے کے اردگرد خشک گھاس پر گر رہے تھے۔
ابھی اس نے ایک صفحہ بھی ختم نہیں کیا تھا جب کوئی پتلی سی چیز اس کے پاؤں کے اوپر رینگی اور ساتھ ہی زریاب کی چیخ نما آواز۔
’’سانپ سانپ۔‘‘ وہ ناول پھینک کر اچھلی اور بس پھر اس کی وحشت زدہ چیخوں نے سارا کمال ہاؤس ہلا دیا۔
گہری نیند میں ڈوبی در نایاب کی آنکھ کھلنے کی وجہ یہ شور اور ہنگامہ ہی تھا اس نے سرعت سے اٹھ کر کھڑکی کھولی اور عقبی لان میں جھانکا۔ مہک ایک ٹانگ پر کھڑی آنکھیں بند کیے مسلسل چیخ رہی تھی۔ کچھ فاصلے پر کھڑا زریاب اس کی حالت سے محظوظ ہو رہا تھا۔
’’کیا ہو رہا ہے یہ سب؟‘‘ اس نے آتے ہی کڑے تیوروں سے دونوں کو گھورا۔
’’پھوپھو۔ سانپ‘‘ مہک روہانسے لہجے میں بولی۔
’’کہاں ہے ؟‘‘ اس نے ادھر ادھر جھانکا پھر زریاب کا کان کھینچ کر بولی۔
’’کہاں ہے سانپ؟‘‘
’’کون سا سانپ۔‘‘ وہ یوں بولا جیسے سرے سے وہاں موجود ہی نہ ہو یا پھر صورت حال اس کے فہم سے بالاتر ہو یا یہ شوشا کسی اور کا چھوڑا ہوا ہو در نایاب نے کان پر گرفت مضبوط کر دی تھی۔ وہ درد سے بلبلا اٹھا۔
’’میرا کان تو چھوڑیں۔‘‘ اس نے مصنوعی دہائی دی۔ مہک نے بند آنکھوں کے ساتھ ہی اپنے پیروں کی سمت اشارہ کیا تھا۔ در نایاب نے نیچے جھک کر دیکھا اس کی شلوار کے ساتھ گندم کا سٹہ چمٹا ہوا تھا۔
’’مہک تم بھی نا۔‘‘ اس نے سٹہ اتار کر دور پھینکا۔
’’تو پہلے اس نے ہی شور مچایا تھا۔‘‘ وہ کھسیانی سی ہو کر بولی۔
’’تو تم نہ مچاتیں۔‘‘ وہ مزے سے بولا۔
در نایاب چلی گئی تو مہک خشمگیں نظریوں سے گھورتے ہوئے تن فن کرتی اس پر جھپٹی۔
’’میں تمہارا منہ نوچ لوں گی۔‘‘
زریاب نے اس کے دونوں بازو اپنی مضبوط گرفت میں جکڑ لیے تھے۔
’’نوچ کر دکھاؤ۔‘‘ وہ اس کی سنہری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اتنے گمبھیر لہجے میں بولا کہ مہک کی دھڑکنیں اتھل پتھل ہو کر رہ گئیں۔
’’میرا بازو چھوڑو۔‘‘ ساری اکڑفوں نکل گئی۔
زریاب ہنستے ہوئے پلٹ گیا تھا۔
اور وہ اپنا بازو سہلاتے ہوئے اس کی پشت کو گھورتی رہ گئی۔
٭٭٭
وہ فیس بک پہ بیٹھی مختلف ٹاپکس اور کمنٹس دے رہی تھی۔ جب اچانک ایک ونڈو باکس سامنے کھل گیا جہاں مختلف خاکے بنے ہوئے تھے اور ساتھ لکھی عبارت پر نگاہ پڑتے ہی اس کا چہرہ طیش کے باعث سرخ پڑ گیا ماؤس پٹختے ہوئے اس نے سسٹم شٹ ڈاؤن کر دیا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ کیتھرین اس کے بدلتے موڈ پر چونک پڑی۔
’’میری سمجھ میں نہیں آتا، یہودی اور عیسائی … مسلم پرافٹ کی شان میں ایسی گستاخانہ حرکتیں کیوں کرتے ہیں۔ کبھی تم نے کسی مسلم شخص کو دیکھا ہے کہ اس نے ہمارے یسوع کی شان میں کبھی کوئی گستاخی کی ہو … کبھی خاکے بنائے ہوں یا کوئی کالم لکھا ہو؟ جب وہ ہمارے یسوع کا اتنا احترام کرتے ہیں تو پھر ہمیں ایسی سطحی حرکتیں زیب نہیں دیتیں۔‘‘ غصے سے اس کا خون کھول رہا تھا۔ بس نہیں چلتا تھا کہ ایسے لوگوں کو گن گن کر شوٹ کر دے۔
’’تم اتنی ہائپر کیوں ہو رہی ہو؟ اس لیے کہ تمہارے ڈیڈ مسلم ہیں ؟‘‘ کیتھرین کو شاید اس کا اتنا شدید ردِّ عمل عجیب لگا تھا۔ جبکہ وہ اس کی بات پر مزید طیش میں آ گئی۔
’’مذہب کا تعلق انسانوں سے ہوتا ہے رشتوں سے نہیں۔‘‘
’’تم نے ہمارے۔ یسوع کہا۔ انٹرسٹنگ۔ جبکہ تم مقدس انجیل کو نہیں مانتیں۔ ’’کیتھرین کو خوشی ہوئی تھی لیکن انجانے میں پھر طنز کر گئی۔
’’میں مقدس انجیل کو تم سے زیادہ مانتی ہوں۔ ہاں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کو عقل تسلیم نہیں کرتی اور میں لکیر کی فقیر نہیں ہوں، میرے پاس عقل بھی ہے اور شعور بھی۔‘‘
’’کیوں خود کو الجھاتی ہو۔‘‘ کیتھرین کو اس پر بے پناہ ترس آیا۔
’’کیونکہ یہ الجھنیں مجھے وراثت میں ملی ہیں۔‘‘ آنکھیں موند کر اس نے منہ پر تکیہ رکھ لیا۔
٭٭٭
وہ پانچوں یونیورسٹی کے لان میں بیٹھی اپنے اپنے افیئرز ڈسکس کر رہی تھیں۔
’’انتھونی سے تو میں اکت اچکی ہوں۔ میری نظر آج کل اس ایشین لڑکے پر ہے اس کے بلیک ہیئر اور بلیک آئیز اتنی اٹریکٹو ہیں اف! میری تو ہارٹ بیٹ بڑھ جاتی ہے اسے دیکھ کر۔‘‘ جولیا نے دور کھڑے لڑکے کو دیکھ کر اک سرد آہ بھری۔ اس کی یہی بری عادت تھی، وہ جتنی جلدی کسی سے متاثر ہوتی تھی اتنی ہی جلدی اکتا بھی جاتی تھی۔ ابھی کل تک ایسے ہی انتھونی کے لیے مری جا رہی تھی۔
’’میں کل پیٹر کے ساتھ ڈیٹ پر جا رہی ہوں۔‘‘ انجلین نے اپنے پروگرام سے آگاہ کیا۔ یہ اس کی پہلی ڈیٹ تھی۔ اس وجہ سے وہ کافی پرجوش ہو رہی تھی۔
بیلا کچھ بددل سی ہو کر اٹھ گئی۔ اسے ان بورنگ باتوں میں قطعاً کوئی دلچسپی نہیں تھی، اس کا رخ لائبریری کی سمت تھا۔
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اسے اپنے عقب میں قدموں کی دھمک محسوس ہوئی تھی۔ یوں جیسے کوئی اسے متوجہ کرنے کی خاطر زور زور سے زمین پر پاؤں مار رہا ہو۔ وہ بنا دیکھے بھی جان سکتی تھی کہ یہ کون ہو گا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ یونیورسٹی کے کسی بھی گوشے میں چلی جائے، دو نگاہیں ہمہ وقت اس کے تعاقب میں رہتی ہیں۔
ریک سے اپنی مطلوبہ کتاب نکال کر وہ کارنر والی ٹیبل پر آ کر بیٹھ چکی تھی اسے اپنی اسائنمنٹ تیار کرنا تھی۔ فی الحال وہ یکسوئی کے ساتھ مطالعہ کرنا چاہتی تھی۔
’’کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں۔‘‘ وہ گہری سرمئی آنکھیں اس کی آنکھوں میں ڈالے کہہ رہا تھا۔
’’شیور۔‘‘ وہ سپاٹ لہجے میں قدرے ناگواری سے کہہ کر دوبارہ سے اپنی کتابوں کی سمت متوجہ ہو چکی تھی۔ وہ اس سے الجھنا نہیں چاہتی تھی۔
اس سے قبل کہ وہ لفظوں کو ترتیب دیتا، حجاب کا آخری پردہ بھی گرا دیتا۔ کنارا ہی بہتر تھا وہ اپنے نوٹس سمیٹ کر اٹھ گئی تھی۔
مانیک کو عجیب سی ہتک کا احساس ہوا، وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ لڑکی یوں بھی اس کی ہتک کر سکتی ہے۔
٭٭٭
گھر آ کر کھانا کھانے کے بعد وہ ٹیرس پہ کھڑی کافی پی رہی تھی جب نظر پروفیسر انکل سے ٹکرا گئی۔ وہ میں ڈور کے باہر کھڑے پوسٹ باکس سے اپنی آج کی ڈاک نکال رہے تھے، بیلا نے دور سے ہی ان کی طبیعت کا پوچھا تھا۔
’’میں ٹھیک ہوں۔ کچھ دیر قبل گرو سری کے لیے گیا تھا تمہارے لیے امرود لایا ہوں بس جلدی سے آ جاؤ۔‘‘ بالوں کو ربڑ بینڈ میں جکڑتے ہوئے اس نے شوز اتار کر سلیپر پہنے، اسکارف اوڑھا اور سیڑھیاں اترنے والی تھی جب اچانک ریک میں رکھی اس سیاہ کتاب کا خیال آیا تو وہ دو قدم پیچھے پلٹی اور اس کتاب کی جلد پر نرمی سے ہاتھ پھیرا۔
یہ اس کے ڈیڈی کی کتاب تھی۔ ممی نے اسے بہت سنبھال کر رکھا تھا نیویارک سے آتے ہوئے وہ اسے اپنے سامان کے ساتھ لے آئی تھی اس نے بارہا اس کتاب کو کھول کر دیکھا تھا لیکن نامانوس زبان کی وجہ سے وہ ان لفظوں کا مفہوم نہیں جان پائی تھی۔ اسے اس کتاب کو پڑھنے کا اشتیاق اس لیے بھی تھا۔ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ ضرور اس کا تعلق ہسٹری سے ہو گا اور تاریخ کا مضمون اس کا جنون تھا۔
پروفیسر انکل ہسٹری کے استاد رہ چکے تھے، اس کے علاوہ کئی زبانوں کے ماہر بھی تھے۔ کچھ سوچ کر اس نے وہ کتاب اٹھالی۔
’’بس بہت ہو چکی فراغت، اب آپ کو میرا ایک کام کرنا ہے۔‘‘ امرود کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے اس نے پروفیسر انکل کو ذہنی طور پر تیار کرنے کی کوشش کی۔
’’اس کتاب کو انگلش میں کنورٹ کرنا ہے۔‘‘ وہ اٹھ کر میز پر رکھی کتاب اٹھالائی۔
پروفیسر انکل نے اس کے عنوان پر نگاہ جمائی۔‘‘
’’قصص الانبیائ۔‘‘
’’ہسٹری سے ریلیٹڈ ہے ؟‘‘ اسے جاننے کی جلدی تھی۔
’’ہاں۔‘‘ انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’انٹرسٹنگ! آپ آج سے ہی اپنا کام اسٹارٹ کر دیں۔‘‘
٭٭٭
’’میری شرٹ استری کر دینا۔‘‘ پانی پیتی مہک کے سر پر چپت لگاتے ہوئے اس نے آرڈر جاری کیا تھا جبکہ سر پر لگنے والے اس اچانک جھٹکے کے باعث وہ گلا پکڑے زور زور سے کھانسنے لگی تھی۔ کھانستے کھانستے اس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا، ناک سرخ ہو گئی۔
’’سوری یار۔‘‘ وہ تاسف سے بولا۔ مگر جواب میں کچھ بھی کہے بغیر اس کی شرٹ اٹھا کر چلی گئی۔ وہ اس قدر تابعداری پر بے ہوش ہوتے ہوتے بچا تھا۔
در نایاب نے انجوکے ساتھ مل کر میز پر کھانا لگا دیا تھا۔
وہ تینوں تعلیم کے سلسلے میں لاہور میں رہائش پذیر تھے۔ انجو گھریلوکام کاج کے لیے ان کے ساتھ آئی تھی۔ ڈرائیور اور چوکیدار اس کے علاوہ تھے۔
مہک کا بھائی شانی اسکار شپ پر ایم ایس کے لیے بیرون ملک گیا ہوا تھا۔ زریاب اس کے چچا مجتبیٰ کمال کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کے چچا اور چچی کا پانچ سال قبل انتقال ہو چکا تھا۔ زریاب حویلی میں ان کے ساتھ رہتا تھا۔
در نایاب اس کی اکلوتی پھوپھو تھی۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے سائیکالوجی میں ماسٹرز کر رہی تھی۔ حویلی میں آج کل بی اماں اور اباہی تھے۔
’’آج پھر کریلے۔‘‘ زریاب نے ڈوں گا دیکھ کر منہ بسورا۔
’’آج پھر سے تمہاری کیا مراد ہے۔ پورے سترہ دن بعد بنائے ہیں، مہک اتنے دنوں سے کہہ رہی تھی۔‘‘ در نایاب اس کے نخروں سے عاجز تھی۔
’’نیم چڑھے لوگ ایسی ہی فرمائشیں کرتے ہیں۔ میں دیکھوں اس نے میری شرٹ استری کر دی ہے۔‘‘ بیٹھتے ہی وہ اچانک ہڑبڑا کر اٹھا اور استری اسٹینڈ کے اوپر رکھی شرٹ کو دیکھ کر اس کا منہ کھلا اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔
اس کی پسندیدہ قیمتی شرٹ کا گریبان سارا جلا ہوا تھا۔ ساتھ ایک نوٹ بھی تھا۔
’’شرٹ کا منہ کالا۔‘‘ اس نے لب بھنیچتے ہوئے بیڈ روم کے بند دروازے کو دیکھا جہاں وہ اب مزے سے بستر پر لیٹی واک میں سن رہی تھی۔
٭٭٭
وہ شام سے ہی کیتھرین کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے تھی جو اسے کافی مشکوک لگ رہی تھیں۔ اس کے باوجود کہ انکل رابرٹ کبھی بھی اسے نیم برہنہ لباس پہننے کی اجازت نہیں دیں گے، وہ اپنے لیے منی اسکرٹ لے کر آئی تھی۔ یونیورسٹی سے آ کر اس نے اپنی اسکن پالش کی تھی اور پھر نہا کر طبیعت خرابی کا کہہ کر سو گئی تھی۔
اور اب رات گیارہ بجے جب سب سو چکے تھے بیلا اپنی نوٹ بک کھولے کچھ لکھنے میں مگن تھی۔ اس نے کیتھرین کو اٹھ کر واش روم کا رخ کرتے دیکھا تھا۔ جب وہ باہر نکلی تو میرون منی اسکرٹ میں ملبوس تھی پھر اس نے اسے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر خوب میک اپ کرتے دیکھا تو پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔
’’کہاں جا رہی ہو۔‘‘
’’مارک اور میں آج کی رات ایک دوسرے کے ساتھ انجوائے کرنے والے ہیں۔‘‘ وہ سرگوشی نما آواز میں دورازے کی سمت دیکھتے ہوئے مزے سے بولی تو بیلا کا سانس اندر ہی کہیں حلق میں اٹک گیا۔
’’کیتھی آر یو کریزی؟‘‘ وہ بستر سے اٹھ آئی تھی۔
’’تم جانتی ہو یہ کتنا ناپاک کام ہے پلیز مت جاؤ۔‘‘ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اسے کیسے روکے۔
’’میں کیسی لگ رہی ہوں ؟‘‘ میک اپ کو فائنل ٹچ دیتے ہوئے اس نے بیلا سے پوچھا تو اسے کیتھرین کے حسین چہرے سے کراہیت محسوس ہوئی۔
’’بدن کا حسن پاکیزگی ہے۔ ناپاکی کی نجاست … اس کو نہ چھوئے تو یہ چراغ کی مانند روشن رہتا ہے اور روشن چہرے کبھی اتنے بدصورت نہیں لگتے۔‘‘
’’بیلا۔‘‘ اس کی آواز صدمے سے ٹوٹ گئی۔
بیلا نے رخ موڑ لیا۔
’’اپنے باپ سے نہ ڈرو کیتھی! وہ بدن کو قتل کر سکتے ہیں، روح کو نہیں … اس سے ڈرو جو روح اور بدن دونوں کو جہنم میں ہلاک کر سکتا ہے۔‘‘
کیتھرین نے ایک بار پھر سے پلٹ کر دروازے کی سمت دیکھا۔ رابرٹ اور جنیفر سو رہے تھے۔ وہ احتیاط سے سیڑھیاں اترنے والی تھی جب بیلا کی آواز سماعتوں سے ٹکرائی تو ایسا لگا جیسے قدموں کو کسی نادیدہ طاقت نے جکڑ لیا ہو۔ وہ چاہ کر بھی دہلیز کے اس پار قدم نہیں بڑھا سکی تھی۔
’’کیا مصیبت ہے، یہاں ہر کوئی اپنی مرضی سے جیتا ہے۔ بس ان فضول پابندیوں کے لیے میں ہی رہ گئی ہوں۔‘‘ بڑبڑاتے ہوئے وہ بستر پر نیم دراز ہو گئی۔
بیلا کے لیے اتنا کافی تھا کہ وہ اب کہیں نہیں جا رہی تھی اس نے بیگ میں رکھی کتاب باہر نکالی وہ آج یہ کتاب لائبریری سے لے کر آئی تھی پہلے صفحے پر کسی نے گرین انک سے لکھا تھا۔
“BEILA I LOVE YOU“وہ کتنی ہی دیر گم صم سی بیٹھی ان لفظوں کو گھورتی رہی۔
٭٭٭