زبیر آہستہ آہستہ بیڈ کے قریب پہنچ رہا تھا ماہین کو اپنے جسم سے جان نکلتی محسوس ہورہی تھی اچانک بیڈ کے پاس پہنچا تو ماہین خوف سے پیچھے پیچھے ہونے لگی زبیر نے جھٹکے سے ماہین کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیا اور اسکو اپنی طرف کھینچا تھا ماہین کے ہاتھ کانپ رہے تھے جو زبیر بہ آسانی محسوس کر سکتا تھا۔
“”چھوڑ دو مجھے خدا کا واسطہ ہے تمہیں “” اب اللہ ہی اسے بچا سکتا تھا اسکا دل الله سے التجا کر رہا تھا””یا الله یا رب الکریم بچا لے مجھے اب بس تو ہی میری مدد کر سکتا ہے اے خدا مدد کر میری””
زبیر ماہین کے چہرہ ماہین کے چہرے کے قریب کیا اسکی نظر ماہین کے ہونٹوں پر تھی وہ ان پر جھکنے ہی لگا تھا کے اس کے کان میں موبائل کی رنگ سنائی دی جس سے ماہین نے بھی آنکھ کھولی تھی۔
زبیر کی نظر موبائل کو تلاش رہی تھی۔
“یہ کس کے موبائل کی آواز ہے زبیر اپنا فون دیکھتا ہوا بولا ۔
ماہین کو احساس ہوا یہ آواز اسکی جیکٹ سے آرہی ہے کانپتے ہاتھوں سے اس نے موبائل فون نکالا تھا۔
“”کسکا فون ہے دیکھاؤں مجھے ضرور تمھیں بھیجنے والے کا ہوگا “”زبیر ماہین سے فون چھینتے ہوئے بولا تھا موبائل پر نظر ماری تو یہ کوئی ان نو نمبر تھا اس نے فون اٹھا کے کان سے لگایا ۔
“”ہیلو ماہین کہاں ہے یار تو ٹھیک تو ہین نا “”نوشین نان سٹاپ بولنے گی اسکی آواز سے پتا لگ رہا تھا اسے ماہین کی فکر تھی۔
“”سوری یار تو سہی کے رہی تھی بس میں جانا چاہیے تھا تجھے تو راستے بھی ٹھیک سے نہیں پتا مجھے بتا کہاں ہے تو میں آتی ہوں لینے مووی دیکھنے نکلے تھے پورے دن کا ستیاناس ہو گیا اپر سے میرا موبائل بھی آف تھا کسی سے لے کر فون کیا ہے۔
میں تو اپنی دوست کے ساتھ فلم دیکھنے جا رہی تھی ۔
میں تو اپنی دوست کے ساتھ فلم دیکھنے جارہی تھی۔
زبیر کے کانوں میں ماہین کی آواز گونج رہی تھی اس نے نظر اٹھا کے ماہین کا چہرہ دیکھا جسکی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے
“”کک کسکا فون ہے “”ماہین نے ڈرتے ہوئے پوچھا تھا ۔
زبیر نے فون ماہین کی طرف بڑھا دیا ماہین نے کان سے لگا کے ہیلو بولا
“””یار کب سے بولے جارہی ہوں کچھ بول کیوں نہیں رہی تھی۔
“”نوشین “”ماہین آواز سن کے رونے لگی تھی “”
“”ہیلوماہین کیا ہوا سب ٹھیک تو ہیں نا تو رو کیوں رہی ہے””
ماہین کچھ بولنے ہی لگی تھی کے اسکے موبائل کی بیٹری ڈیڈ ہوگئی ماہین فون دیکھنے لگی ۔
زبیر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا اسے اسکی بات سن لینی چاہیے تھی ۔
“”کہاں ر ہتی ہو تم “زبیر ماہین سے بولا ماہین پہلے تو حیرت سے اسکی شکل دیکھنے لگی جیسے یقین کرنے کی کوشش کر رہی ہو پھر اپنے ہاسٹل کا نام بتایا ۔
“”چلوں میرے ساتھ زبیر شرٹ بند کرن لگا پھر گاڑی ک چابیاں اٹھاتا ہوا بولا اور بیڈ سے اترا ماہین بھی اسکے پیچھے چلنے لگی۔
۔۰۰۰۰۰۰
سر کھانا لگا دوں””محمد دین ذین کے کمرے میں آتے ہوئے بولا۔
“”ہاں لگا دوں زبیر کو بھی بلا لو۔
“”سر وہ زبیر سر اس لڑکی کو چھوڑنے گئے ہیں۔
“کیا!!کب گئے ۔
“آدھا گھنٹا ہو گیا۔
“اچھا تم جاؤں ”
ذین سوچ میں پڑ گیا تھا وہ اسے چھوڑنے گیا ہے پر کیوں ۔
زبیر ڈرائنگ س۔یٹ پر بیٹھ۔ چکا تھا ماہین مرے مرے قدموں سے کار تک آئی تھی اور پیچھے بیٹھنے لگی تھی تبھی اسکی آواز سے وہی رک گئی ۔
“”آگے آ کر بیٹھو “”ماہین کے کانوں میں زبیر کی آواز پڑی تو وہ وہی ساکت ہوگئی ۔
“”سنائی نہیں دیا کیا یا میں کچھ مدد کروں””زبیر معنی خیزی انداز میں بولا تو ماہین پہلے تو اسکی باتوں کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرنے لگی اور سمجھ آنے پر جلدی سے آگے اکر بیٹھی تھی وہ ہر گز اسکے ساتھ آگے نہیں بیٹھنا چاہتی تھی پر مجبوری میں آیسا کرنا پڑا تھا۔
کار اپنا سفر طہ کر رہی تھی ماہین ساکت سی بیٹھی تھی زبیر بینچ بینچ میں ماہین کے چہرے کی طرف دیکھ رہاتھا وہ ابھی بھی رونے میں مگن تھی زبیر کو اسکے آنسو اچھے نہیں لگ رہے تھے۔
ہاسٹل کے سسامنےکار رکی تو ماہین جلدی سے کار سے ااتری تھی اور بھاگی تھی وہ جلد سے جلد اس شخص سے دور ہو جانا چاہتی تھی زبیر کی نظروں نے دور تک اسکا پیچھا کیا پر کار گھما کے احمد پیلیس کی طرف چل دیا۔
“”سر کھانا لگا دوں””محمد دین زبیر کے کمرے میں اکر پوچھنے لگا ۔
زبیر جو سوچوں میں گم تھا ہوش میں آیا تھا۔
“”نہیں مجھے بھوک نہیں ہے ۔
“”او کے سر۔
زبیر نے سیگریٹ سلگائی اور اس کے کش لینے لگا آنکھیں بند کرنے سے بار ںار ماہین کا روتا ہوا چہرہ اسکے سامنے آ رہا تھا رات بھر نا جانے کتنی سیگریٹ اسنے پی تھیں اسے اتنی بے چینی کیوں ہو رہی تھی وہ سمجھ نہیں پارہا تھا۔
صبح زین اور زبیر ناشتے کےلیے ڈائننگ ٹیبل
پر موجود تھے زبیر ناشتہ کرنے میں مگن تھا جب کے ذین کی نظریں بار بار زبیر کے چہرے پر جارہی تھی۔
“اس لڑکی نے کچھ بتایا”آخر کار ذین نے سوال کیا۔
“”ہاں ۔
“”کیا “”
“یہی کے وہ معصوم ہے اسکی کوئی غلطی نہیں ۔
“”اور تم نے یقین کر لیا۔ذین کو جیسے حیرت ہوئی ۔
زبیر ذین کو پوری بات بتانے لگا دکھ اسکو بھی ہوا تھا کیوں کے غلطی اسکی ذیادہ تھی پر زبیر اسکو گھر تک چھوڑ کے آیا یہ بات اس کو ہضم نہیں ہورہی تھی۔
۔۰۰۰۰۰۰۰۔
ماہین ہاسٹل پہنچ کے بھاگتی ہوئی اپنے روم جا کر دروازہ لوک کیا تھا اور بیڈ پر تکیے میں منہ دے کر پھوٹ پھوٹ کے رو دی اتنا کچھ ہو گیا اچانک سے اس کے ساتھ اسے یقین نہیں آرہا تھا پر الله نے اسے بچایا اسلئے بار ںار اسکا شکر ادا کرتی ۔
نوشین ہاسٹل آئی تھی جیسے ہی روم کی طرف آئی تو اندر سے لاک تھا وہ سمجھ گئی کے ماہین ہوگی پر ماہین نے کبھی اسطرح لاک نہیں کیا اسلئے وہ تھوڑا پریشان سی ہوکر دروازہ بجانے لگی۔
“”ماہین”!!!!کیا ہوا ہے تم ٹھیک تو ہو نہ دروازہ کھولو ۔
ماہین!!!
کتنی ہی دیر دروازہ بجانے کے بعد ماہین نے دروازہ کھولا تھا
نوشین ماہین کو دیکھ کے پریشان ہو گئی تھی ۔رونے کی وجہ سے آنکھیں اور ناک لال ہو چکا تھا بال بکھرے ہوئے تھے ۔
“”ماہین کیا ہوا ہے تمھیں “نوشین نے آگے بڑھ کے ماہین کا چہرہ ہاتھوں میں لئے پوچھنے لگی ۔
ماہین اسکے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی کتنی ہی دیر وہ اسی طرح روتی رہی پھر آخر کار نوشین نے اسے چپ کروایا تھا۔
“”ہوا کیا ہے اب بتاؤں مجھے””
ماہین شروع سے ساری بات بتانے لگی اینڈ میں پھر وہ روتے ہوئے نوشین کے گلے لگ گئی تھی۔
“”ماہین کچھ نہیں ہوا دیکھو سب ٹھیک ہے چپ ہو جاؤ اور اس خدا کا شکر ادا کرو جس نے تمھیں بال بال بچایا ہے۔
“تم ٹھیک کہہ رہی ہو ۔
ماہین اٹھتے ہوئی کپڑے لے کر نہانے گئی اور پھر باہر آکر جا نماز پر نماز ادا کرنے لگی اور الله کا شکر ادا کرنے لگی۔
۔۰۰۰۰۰۰۔
زبیر اور ذین دونوں روم میں موجود تھے زبیر کام کےمتعلق انفا رمیشن لے رہا تھا ذین اسکے چہرے کو بار بار نوٹ کر رہا تھا جانے کیوں وہ اسے کل سے کچھ بدلا بدلا لگ رہا تھا۔
آغا کے مال پہنچ گیا??
“”ہاں پہنچ گیا۔
“”اس نے پیمینٹ کردی۔
“”نہیں ابھی آدھی کی ہے۔
“”آغا کو یہ بات پتہ ہے نا کے زبیر نہ تو ادھار رکھتا ہے نہ چھوڑتا ہے اسے کہو کل تک پیمنٹ کرے زبیر نے کہا ہے۔زبیر
ذین کو ہدایت دے کر کھڑکی کی طرف گیا اور وہاں سے باہر دیکھنے لگا۔
“”زبیر نہ تو ادھار رکھتا ہے نہ چھوڑتا ہے ۔اپنے ہی الفاظ اسکے کانوں میں گونجے تو اسے یاد آیا تھا کے ماہین کے ساتھ اسنے غلط کیا اور اسے سوری نہیں کیا۔
ماہین کے بارے میں سوچتے ہی اسکا دلکش سراپہ زبیر کی نظروں کے سامنے گھومنے لگا۔
“””ناز کے تیرے لب کیا کہیں””
“””اک پنکھڑی گلاب کی سی ہے””””
اسکے دلکش ہونٹ اسکے سامنے آئے تو اسکے منہ سے چند الفاظ نکلے تھے اور چہرے پہ اک انجانی سی مسکراہٹ آئی تھی۔
“”تم سے تو ملنا پڑے گا مس معصوم “”
ذین جو اتنی دیر سے اسکے چہرے کے ایکسپریشن نوٹ کر رہا اسکے چند الفاظ پر اسکے سامنے آکر اسکے چہرے کو حیرت سے دیکھنے لگا۔ زبیر جو اپنی سوچوں سے باہر آکر ذین کو اپنی طرف اسطرح دیکھتے پایا تو بولا ۔
“”کیا ہوا کوئی دوسری مخلوق دیکھ لی کیا””””
“ناز کے تیرے لب کیا کہیں”‘”
اک پنکھڑی گلاب کی سی ہے””
ذین شاعروں جیسی ایکٹنگ کرتا زبیر کا جملا دھرانے لگا۔
تیری طبیعت تو ٹھیک ہے نہ “”ذین زبیر کے ماتھے پر ہاتھ لگا کے چیک کر نے لگا۔
زبیر اپنا چہرہ ادھر اودھر کرتے ہوئے بولا۔
“”کچھ نہیں ہوا کام پہ دھیان دے بیٹا۔
وہ اسکا گال تھپتھپاتہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
“”یار یونی نہیں جانا کیا تو کل بھی نہیں گئ تھی نوشین ماہین کو جھنجھوڑ کے اٹھانے لگی۔
“”میرا دل نہیں کر رہا یار تو چلے جا””ماہین اترے ہوئے چہرے کے ساتھ کہنے لگی
“”دو دن ہو چکے ہیں یار اب اس بات کو بھولنے کی کوشش کر کب تک اسطرح چھپ کے بیٹھی رہے گی باہر نکل کچھ موڈ فریش ہو۔
“”میرا دل نہیں کرتا اس انسان نے جو میرے ساتھ کیا میں اس سے شدید نفرت کرتی ہوں الله آئندہ میرے سامنے وہ کبھی نہ آئے ۔
“”آمین۔ویسے وہ تھا کون ??
مجھے نہیں پتا۔
ارے کچھ نام وغیرہ تو پتا چلا ہوگا۔
مجھے کوئی بات نہیں کرنی اس انسان کے بارے میں۔
اچھا نام تو بتاؤں نا یار تو نے جسطرح بتایا اس سے تو ایسا لگرہا ہے کوئی بڑا پاور فل انسان ہے۔
تو نہیں مانے گی نہ۔
اچھا نا اب کوئی بات نہیں بس نام۔
زبیر احمد نام ہے تھا اسکا۔
زبیر احمد وہ جو الیکشن جیتا تھا۔
پتا نہیں مجھے۔
یار وہ تو بہت بڑا انسان ہے بیلینر ہے پر کام کچھ اچھا نہیں کرتا پر اسکو آج تک پولیس پکڑ نہیں پائی کیونکہ کوئی اسکے خلاف گواہی نہیں دیتا ۔
بس میں نے کہا تھا نا مجھے کوئی بات نہیں کرنی اس انسان کے بارے میں وہ جو بھی ہو مو اس سے شدید نفرت کرتی ہوں ۔
اچھا نہ اب رونا نہیں جلدی سے تیار ہو جا۔
مجھے نہیں جانا۔
یار ابھی تو نے کہا کے اسکے بارے میں کوئی بات نہیں کرنی اور تو اس حادثے کو بھولانہ بھی نہیں چاہ رہی۔
اچھا چلتی ہوں ۔
ہمم یہ ہوئی نا بات۔
ماہین کپڑے نکال کے فریش ہونے چلی گئی باہر نکل کے گیلے بال جو اسکی کمر سے نیچے تک آتے تھے آنکوں سلجھانے لگی اسنے بلو پینٹ جو گٹنو سے تھوڑا اپر تک ڈیمج تھی اور یلو ہالف سیلوس ٹی شرٹ پہنی تھی بال سلجھا کے کمر تک ایسے ہی کھلے چوڑ دیے تھے مک اپ وہ نہیں کرتی تھی کبھی کبھی موڈ ہونے پر تھوڑا بہت کر لیتی تھی ہونٹوں پر ہلکا لپلوس لگانے لگی۔
جلدی آؤ ماہین “نوشین کمرے سے باہر نکلتی ہوئی بولی ۔
آئی بس ۔ماہین بھی باہر نکلی تھی۔۔
۔۰۰۰۰۰۔۔
ذین اور زبیر دونوں لاؤنج میں بیٹھے تھے ۔
آج میٹنگ ہے ملک صاحب کے ساتھ۔
ہاں تو سمبھال لے نا۔ زبیرسیگریٹ کے کش لیتا ہوا بولا۔
نہیں تجھے چلنا ہوگا۔
تجھے پتہ ہے نا کے ملک صاحب تیرے بغیر کانٹریکٹ سائن، نہیں کرے گے اور کانٹریکٹ کی رقم بھی تیرے ہاتھ میں ہی دیں گے اسلئے تجھی چلنا ہوگا۔ “او کے ۔
زبیر کا فون بج تھا اور وہ اٹھا کے بات کرنے لگا تھا
پتا چلا۔
جی سر پتہ چل گیا ہے۔
ہمم گڈ کونسی یونی ہے۔
سر پنجاب یونیورسٹی بیکوم سیکنڈ ایر کی طالبہ ہے پورا نام ماہین خان ہے قریب ہی ہاسٹل میں رہتی ہے او کے۔
فون بند کرتے ہی زبیر چابیاں اٹھائے سن گلاسز لگا کے چہر ے مسکراہٹ لیے باہر کی طرف جانے لگا۔
میٹنگ کتنے بجے ہے۔زبیر پلٹ کر ذین سے پوچھنے لگا۔
پانچ بجے ۔
او کے ۔
ذین
زبیر دور تک دیکھ رہا تھا ۔
یونی۔!!ذین کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا وہ زبیر کی کچھ باتیں سن چکا تھا اور سمجھنے کی کوشش کر رہاتھا۔
۔۰۰۰۰۰۔
ماہین اورنوشین کلاس لے کر باہر آئی تھی ۔
آپ کا نام ماہین ہے نہ ۔
جی کہیے۔اک لڑکاجو یونی کا اسٹوڈنٹ تھا ماہین کو آواز دیتا ہوا بولا۔
اپکو سر وقار نے اپر کلاس میں بلایا ہے۔
مجھے پر کیوں ۔ماہین اسکی شکل دیکھتی ہوئی بولی۔
آئی ڈونٹ نو”وہ کہتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
تو چل میں آتی ہوں “ماہین نوشین کو کہتی اپر کی طرف چل دی ۔
اپر آکر ماہین سر وقار کو ارھر اودھر تلاش کرنے لگی تبھی پیچھے سے کسی کے درازہ لاک کرنے کی آواز آئی تھی ماہین نے فوراً پلٹ کے دیکھا۔
“”زبیر احمد”ماہین کے منہ سے نکلا تھا اور چہرے پر خوف کے آثار دکھنے لگے تھے۔
زبیر احمد!!ماہین کے چہرے پہ خوف کے آثار دکھنے لگے تھے ذبیر کلاس کا دروازہ بند کرکے اب ماہین کی طرف بڑھ رہا تھا۔
ماہین خوف سے کانپنے لگی تھی زبیر کا ہر بڑھتا قدم آسکی جان لے رہا تھا اسکے قدم پیچھے کی طرف بڑھنے لگے تھے آنکھیں برسنے کو تیار بیٹھی تھی آخر کار زبیر سارے فاصلے ختم کرتا ماہین تک پہنچ چکا تھا اور ماہین دیوار سے لگ چکی تھی اور خوف سے اسکا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
“”ت تم یہاں کیا کرے ہو۔ماہین کہ منہ سے آخر کار آواز نکلی تھی۔
کچھ بات کرنی ہے تم سے””وہ دیوار پر اپنا باذو رکھتا ہوا بولا۔
مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی اور دور رہو مجھ سے۔ماہین اسکو دھکا دے کر دور ہٹانے کی کوشش کرنے لگی۔
سنو لڑکی!!میری بات جب تک ختم نہیں ہوگی نہ میں یہاں سے جاؤں گا نہ تمہیں جانے دو گا۔وہ اسکا بازوں اپنی گرفت میں لیتا ہوا بولا ۔
چھوڑوں میرا ہاتھ!!وہ چلا کے بولی تھی اور اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی۔
اگر نہ چھوڑوں تو”وہ اسکے مزید قریب ہوتا اسکی خوبصورت آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا تھا۔
یہ تمہارا گھر نہیں ہے زبیر احمد یہ یونیورسٹی ہے میں چلاؤں گی تو ابھی سب یہاں اکھٹے ہو جائے گے تم یہاں میرے ساتھ کوئی زبر دستی نہیں کر سکتے۔وہ اپنا ڈر چھپانے کی کوشش کرنے لگی۔
کتنا پیارا لگتا ہے میرا نام تمہارے منہ سے وعدہ ہے اک دن یہ نام تم بہت عزت سے لو گی اور رہی زبردستی کی بات تو اگر میں تمہیں سب کے سامنے اٹھا کے بھی لے جاؤں تو کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
تم جیسے مرد اور کر کیا سکتے ہیں اپنی طاقت کے دم پر کسی کے ساتھ زبر دستی ہی کر سکتے ہیں ۔اسکی آنکھوں سے اب آنسو گرنے لگے تھے ۔
میری نظر میں تم اک نہ مر۰۰۰۰۰۰
اپنی ذبان کو قابو میں لاؤ لڑکی ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا “وہ اسکی کلائی پیچھے موڑتا ہوا بولا تھا اسکی آنکھیں غصہ سے سرخ ہو چکی تھی ماہین کےے لفظ وہیں ٹوٹ گئے تھے اور تکلیف سے اسکے منہ سے آہ نکلی تھی اور اب وہ آنکھیں بند کرے آنسو بہاں رہی تھی۔
زبیر جو غصہ سے بے قابو ہورہا تھا اب اسکا معصوم سہ چہرہ دیکھ کے پگھلنے لگا تھا۔
بالوں کی لٹیں کچھ چہرے پر تھی اور باقی اسکی کمر پر بکھرے ہوئے تھے وہ جو آنسو بہانے میں مگن تھی ہر ہچکی کے ساتھ اسکی سانس اپر نیچے ہورہی تھی زبیر کبھی اسکے چہرے کو دیکھتا کبھی اسکی سانسوں کو کبھی اسکی آبشار جیسی گھنی پلکوں کو اب اسکی نظر اسکے ہونٹوں پر تھی سرخ ہونٹ جن پر اک نازک سا تل تھا ۔
“”تیرے ہونٹوں پر جو تل ہے””
“”اس پہ اٹکا میرا دل ہے””
زبیر کے دل نے اسکے تل کو انگلی سے چھونا چاہا تھا اپنے دل کی آواش پر لبیک کہتا وہ اسکے تل پر انگلی لگانے لگا تھا۔
وہ جو رونے می مگن تھی اسکے چھونے سے ہوش میث آئی تھی اسکی انگلیاں اپنے ہونٹوں پر محسوس کر کے جیسے کرنٹ سا لگ گیا تھا اسے اسنے زبیر کو زور سے دھکا دیا تھا۔
اسکے دھکے سے وہ ہوش می آیا تھا اور اسکا چہرہ دیکھتے ہوئی بولا تھا۔
میں تو تمہیں یہاں سوری کہنے آیا تھا پر مس ماہین خان اب میں تمھیں تب سوری کہوں گا جب تم میرے بیڈ روم میں میری بیوی بن کر موجود ہو گی اور اپنے سارے جملہ حقوقِ میرے نام کروا چکی ہو گی۔
“”ایسا کبھی نہیں ہو گا زبیر احمد!! !میں تم سے نفرت کرتی ہوں شدید نفرت تم سے شادی کرنے سے اچھا میں مرنا پسند کروں گی!!!وہ چلا کے بولی تھی اب اسکا صبر جواب دے گیا تھا انکھیں رونے کی وجہ سے سرخ ہو چکی تھی۔
تم چیلنج کر رہی ہو”وہ بھی زبیر کو -وہ اسکے مزید قریب ہوتا ہوا بولا تھا ۔
بیوی بن کر تو تم ہی آؤ گی میری یہ وعدہ ہے میرا تم سے۔وہ انتہائی اعتماد کے ساتھ کہتا آنکھو ں پر سن گلاسس لگائے پلٹ گیا تھا۔
ایسا کبھی نہیں ہوگا زبیر احمد !!!کبھی نہیں !!!وہ پیچھے سے چلا کر بولتی ہوئی دیوار سے ٹیک لگائے رونے لگی تھی اور وہ اپنی بات مکمل کر کے جا چکا تھا ۔
دیوار سے لگ کر وہ کتنی ہی دیر روتی رہی اور پھر پھر آنسوؤں کو بے دردی سے رخسار سے صاف کر کے وہ کلاس سے باہر نکلی تھی۔
۔۰۰۰۰۰۰۔
کہاں رہ گئی یہ لڑکی۔نوشین جو اسکا انتظار کر کر کے تنگ آ چکی تھی اکتا کے بولی تھی۔
ماہین سامنے سے آتی ہوئی نظر آئی تو نوشین اسکو دیکھتے ہی شروع ہوئی تھی ۔
کہاں رہ گئی تھی کیا سر وقار نے وہیں کلاس لینے بیٹھا لیا تھا ۔
ماہین نے کوئی جواب نہیں دیا اور خاموش چیئر پر بیٹھ گئی تھی ۔
کیا ہوا تو روئی ہے کیا انکھیں اتنی لال کیوں ہیں اب کیا ہوا کچھ تو بتا۔نوشین ماہین کو جھنجھوڑتی ہوئی بولی ۔
زبیر احمد آیا تھا۔
کیا وہ یہاں کیوں کیسے؟
ماہین نوشین کو ساری بات بتانے لگی۔اور پھر رونے لگی تھی نوشین اسے چپ کرانے لگی۔
۔۰۰۰۰۰۔
محمد دین!!
محمد دین!!زبیر گھر میں آکر آوازیں لگانے لگا۔
جی سر۔
کھانا لگا۔اور ذین کہاں ہے؟
سر وہ اپنے کمرے میں ہے۔
بلاؤ اسے بھی میں نے بات کرنی ہے او کے سر۔
تھوڑی دیر میں دونوں کھانے کے لیے ڈائننگ ٹیبل پر موجود تھے۔
کہو کیا بات کرنی ہے۔ذین نوالہ منہ میں لیتا ہوا بولا ۔
کچھ بتانا ہے تمھیں ۔
ہمم بتاؤ ۔
مجھے وہ لڑکی چاہئے ۔
کون وہ اس دن والی نہ جس سے آپ سچ اگلوانے کے لئے بیڈ روم تک لے گئے تھے۔
ہاں ۔
اٹھوا لو جب دل بھر جائے چھوڑ دینا ۔
مجھے اس سے شادی کرنی ہے گوڈ ڈیمیڈ!!!وہ ٹیبل پہ ہاتھ مارتا ہوا بولا تھا۔
او تو پیار ہو گیا ہے جناب کو۔
نہیں بس اس نے مجھے چیلنج کیا ہے اسلئے اسکو تو اپنی بنا کر اسکا غرور توڑوں گا ۔
اپکو پیار ہو گیا ہے جناب۔
نہیں ایسا کچھ نہیں بول دیا نہ۔زبیر چڑتے ہوئے بولا تھس۔
اک بار کہہ دیا نا نہیں تو نہیں ۔
ہو گیا ہے تجھ کو تو پیار سجنا ۔
لاکھ کر لے تو انکار سجنا۔
ذین گانے کی لائن بار بار دھرا رہا تھا زبیر اسکو غصے سے گھورنے لگا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...