” بیس منٹ کے بعد حیات…… آیت اور عائشہ کے ہمراہ تیزی سے قدم بڑھاتیں ہوئیں نیچے آئیں۔۔۔۔”
” ہو گئے تم لوگوں کے پورے پندرہ منٹ؟؟؟
جیک نے سرسری نگاہ آیت پہ ڈالتے ہوئے ہاتھ میں پہنی ہوئی گھڑی کی طرف اشارہ کیا۔ کیونکہ جیک کافی جلدی میں تھا۔۔۔”
” وہ نہ، آیت نے زیادہ دیر لگائی ہے تیار ہونے میں۔ حیات اٹکتے، اٹکتے سہمے ہوئے لہجے میں آیت کیطرف اشارہ کر کے بولی۔۔”
” آیت نے سر اٹھا کر تعجب سے حیات کیطرف دیکھا۔۔۔۔ کیونکہ حیات جھوٹ بول رہی تھی۔۔”
” لیکن حیات نے یہ سوچ کر جھوٹ بولا تھا۔۔ کیونکہ اُسے پتا تھا کہ اگر وہ آیت کا نام لے گی تو جیک زیادہ غصے نہیں دیکھائے گا۔۔”
” میری وجہ سے دیر نہیں ہوئی۔ حیات آپی۔۔۔
آیت جھٹ سے دھیمی آواز میں بولی۔ ”
” کیونکہ جیک نے دیر کی وجہ سے آیت کو تیکھی نظروں سے دیکھا تھا۔۔ اس لیے مجبوراً آیت کو وضاحت دینی پڑی۔۔۔”
” بس اب ایک دوسرے پہ الزام لگانا شروع ہوجاؤ فوراً۔۔۔۔ جیک نے شکستہ لہجے سے کہا اور آگے بڑھ گیا۔۔۔”
” اب جلدی چلو اِس سے پہلے کے ماما ہمیں دیکھ لیں۔۔۔۔ حیات نے ادھر اٌدھر دیکھا اور پھر ان دونوں کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔۔ اور وہ دنوں حیات کے اشارے پہ، اس کے پیچھے چل پڑھیں۔۔۔”
” ویسے جانا کہاں ہے؟ جیک نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہی سوالیہ نظروں سے حیات کو دیکھا۔۔۔”
"Please God help me. Please God help me.”
” زیر لب آیت بولے جارہی تھی ۔۔۔”
” اور آیت گاڑی میں سب سے پہلے بیٹھ گئ تھی۔۔۔۔ آیت دل ہی دل میں گھبرائی ہوئی تھی کہ جیک کو آج اتنا غصہ ہے۔ پتا نہیں ان دونوں کی بات بھی ہوپائے گی۔ کہ نہیں۔۔۔۔ کئ سوال اس کے ذہن میں رونما ہو رہے تھے۔۔”
” دونوں کی آنکھوں اداس اور دل بے چین تھا۔۔۔ ”
” تم چلو تو سہی، راستہ ہم بتا دیں گے۔۔۔۔
روکھے پھیکے لہجے میں حیات نے جیک کو جواب دیا۔۔۔۔ ”
” جیک کھڑا سوالیہ نظروں سے ابھی بھی حیات کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ کیونکہ حیات نے پہلے کبھی بھی اتنی رات کو باہر جانے کہ ضد نہیں کی تھی ۔۔۔۔”
” جیک اسے تفحیص انداز میں دیکھ رہا تھا۔”
” اب بیٹھو بھی۔۔ کیا دیکھ رہے ہو؟ بدمزگی سے حیات بولتی ہوئی جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔”
” سوچوں میں گم جیک نے گاڑی اسٹرٹ کی۔”
” ان تینوں کی سرگوشی کی اگرچہ آواز جیک کے کانوں تک پہنچ تو رہی تھی۔ مگر ٹریفک کے شور کیوجہ سے وہ ٹھیک سے ان کی باتیں سننے سے متاثر ہو رہا تھا۔۔۔۔”
” جیک نے گاڑی کو یو ٹرن میں لیا۔ اور شیشے میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔”
” کیا لینا ہے اور کہاں سے جانا ہے۔۔۔۔ اب تو ہم کافی آگے تک آچکے ہیں۔۔۔ جیک نے اپنا سوال زور دے کر دہرایا۔۔۔”
” وہ اپنا یہ سوال کئ مرتبہ دہرا چکا تھا۔ مگر ان تینوں نے ہر دفع جیک کے اس سوال کو نظر انداز کر دیا۔۔۔
ان میں سے کسی نے بھی جیک کو اصل بات آگاہ نہیں کیا تھا۔۔”
” وہ بتاتی تو کیا بتاتیں ؟ کیونکہ وہ تینوں جیک کو اپنی پلاننگ کے تحت ساتھ لائیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
” اب یہ راستے میں جیک کو ایسا کچھ نہیں بتانا چاہتیں تھیں۔ کہ وہ غصے سے آدھے راستے میں گاڑی کی باریک لگاتا، اور گاڑی کو گھر کیطرف واپس موڑ لیتا ۔۔۔۔۔”
” جیک آج گرمی کچھ زیادہ ہے نہ ۔۔۔ حیات! جیک کو ادھر اٌدھر کی باتوں میں مشغول کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ تاکہ انہیں جیک کے کسی سوال کا جواب نہ دینا پڑے۔۔۔”
” ہاں گرمی تو بہت ہے۔۔۔ جیک نے مخصوص انداز میں کہا۔ اور گاڑی کی رفتار کو تیز کیا۔”
” جو میں نے پوچھا ہے اٌسکا جواب تو تم نے ابھی تک نہیں دیا۔۔ جیک کو ان پر غصہ بھی آرہا تھا۔۔۔۔۔”
” دیکھو اگر بتاؤ گی نہیں، تو مجھے کیسے پتا چلے گا کہ کہاں جانا چاہتی ہو تم؟
جیک نے شیشے میں دیکھ کر بڑے تحمل لہجے سے کہا۔۔۔۔ شاید اب یہ بتا دیں۔۔۔”
” آج گرمی بہت زیادہ ہے۔ کیوں نہ کسی
آئس کریم پارلر چلیں؟ حیات جیک کی سیٹ کے پاس جھک کر خوشگوار انداز میں بولی۔۔۔”
” ویسے آئیڈیا برا نہیں۔ جیک نے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا۔ مگر ابھی تو مجھے کسی ضروری کام سے جانا ہے پہلے ہی تم لوگوں نے کافی دیر کر دی ہے۔ ”
” جیک کو ہسپتال جانا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ ان کو جلدی جلدی گھر واپس لے جانا چاہتا تھا۔۔۔ اسے پہلے ہی کافی دیر بھی ہوچکی تھی۔۔ ”
” وہ بار بار اپنی گھڑی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ اٌسکی نظریں وہیں اپنی گھڑی پر ٹکی ہوئیں تھیں۔۔۔۔ وہ اس وقت بے چین نظر آرہا تھا۔۔۔ ”
” اب تم یہاں آئس کریم پارلر میں بھی آدھا گھنٹہ لگاؤ گی۔۔۔۔ وہ کس قدر جھنجھلا کر بولا تھا کہ آیت کو فوراً برا لگ گیا تھا۔۔۔۔”
” رہنے دیں حیات آپی۔۔ نم لہجے سے آیت نے کہا۔۔۔”
” اوہ ! تو یہ ان کی فرمائش ہے۔
گرم
جوشی سے جیک فوراً بولا۔
جیک کے ہونٹوں پہ استہزائیہ سی مسکراہٹ آگئی۔ ”
” ہاں۔ حیات نے ہلکی سی مسکراہٹ سے آیت کیطرف دیکھ کر کہا۔۔ اور آیت بھی حیات کیطرف دیکھ کر ہلکا سا مسکرائی۔۔۔”
” اب تم ہمیں کسی اچھے سے آئس کریم پارلر لے چلو۔۔۔۔۔ حیات نے جیک کو کہا۔”
” جیک ان تینوں کو اپنے ایریا کے کسی اچھے سے آئس کریم پارلر میں لے گیا۔۔۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” فلایور بتاؤ جلدی جلدی، ٹائم ویسٹ نہ کرو۔۔ مجھے آگے بھی کہیں جانا ہے۔۔۔ ”
” مجھے نہیں کھانی ۔۔۔۔۔ آیت نے آئس کریم کھانے سے انکار کر دیا۔۔۔۔ جیک حیرانگی سے سرسری نگاہ اس پر ڈالی۔۔”
” وہ منہ بنا کر بیٹھ گئی۔۔۔ وہ چاہتی تھی کہ جیک اٌسے اصرار کرے۔۔۔ جیک اٌسے منائے۔
اور وہ پھر آئس کریم کھائے۔۔ مگر ایسا نہیں ہوا تھا۔ ”
” اتنے میں جیک کے فون کی گھنٹی بجی۔ وہ فون سننے کی غرض سے تھوڑا باہر کاونٹر کے پاس کھڑا ہو گیا۔۔”
” کیوں تم نے کیوں نہیں کھانی؟
آئس کریم کھانے کا مشورہ تو تمہارا ہی تھا۔ اب تم کہہ رہی ہو کے مجھے نہیں کھانی ۔۔۔۔ سرد لہجے سے حیات نے اس سے پوچھا۔۔۔۔ ”
” حیات اس بات سے باخبر تھی کہ آیت نے جیک کی توجہ کو چاہنے کیلئے ایسا کہا ہے۔۔۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
” ﮨﺎﺋﯽ ۔ ﻣﺴﭩﺮ ﺟﯿﮏ۔ ﺧﻮﺵ ﺍﺧﻼﻗﯽ
ﺳﮯ ڈﺍﮐﭩﺮ ﺗﮩﻤﯿﻨﮧ ﻧﮯ ﺟﯿﮏ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ۔۔۔
ﻭﮦ ﺟﯿﮏ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻭﮨﺎﮞ ﺭﮎ ﮔﺌﯽ۔۔۔۔۔”
” ﺟﯿﮏ ﻣﯿﮟ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ
ﺗﻢ۔………ﻣﻠﺘﺠﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﯼ
ﻃﺮﻑ ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﻓﻮﻥ ﭘﮧ ﺑﺎﺕ ﮐﺮ
ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺳﮯ ﮐﮩﺎ۔۔۔۔”
” ﺍﭼﮭﺎ ﺧﺪﺍ ﺣﺎﻓﻆ ۔۔ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ
ﺳﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﯾﮧ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺍﺩﺍ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﻮ
ﺟﯿﮏ ﻧﮯ ﻓﻮﻥ ﺑﻨﺪ ﮐﯿﺎ۔۔۔۔”
” ﺟﯿﮏ ڈﺍﮐﭩﺮ ﺗﮩﻤﯿﻨﮧ ﮐﻮ ﺩﻭﺳﺮﮮ
ﭨﯿﺒﻞ ﭘﮧ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔۔۔۔”
” ﺟﻮ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ ﺟﯿﮏ ﮐﯽ ﮨﻢ ﻋﻤﺮ ﮨﯽ
ﺗھی.
کس قدر خوبصورت تھی.. لمبی ستواں ناک بھورے بال بھوری کانچ جیسی آنکھیں بلا شبہ وہ ایک چلتا پھرتا فتنہ تھی.. ”
” ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﻗﺎﺑﻞ ڈﺍﮐﭩﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ
ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﯾﮏ ﺳﻤﺠﮭﺪﺍﺭ ﻟﮍﮐﯽ ﺑﮭﯽ
ﺗﮭﯽ۔۔ ”
” جیک کی نظریں اسکی لمبی دراز پلکوں پر ہی اٹکی تھیں….جیک کی آنکھوں میں عجیب چمک تھی,”
” ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﺮ ﺟﻮﺵ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ۔۔
ﮨﯿﻠﻮ۔ ﮐﯿﺴﯽ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ؟
” ﻣﯿﮟ ﺑﻠﮑﻞ ﭨﮭﯿﮏ۔۔۔ ﺑﮍﯼ ﺍﭘﻨﺎﺋﯿﺖ
ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ دیا گیا.”
” آپ پچھلے دو ہفتوں سے چیک اپ کیلئے نہیں آرہے۔ گھر میں سب خیریت تو ہے نہ؟؟
ڈاکٹر تہمینہ نے پیشانی پہ بل ڈالتے ہوئے استفسار کیا۔”
” جی سب خیریت ہی ہے۔ جیک نے انہیں زخمی مسکراہٹ سے جواب دیا۔۔۔”
” کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ڈاکٹر تہمینہ آیت اور اس کی بہن کے سامنے کوئی ایسی ویسی بات کر دیں ۔۔۔
جو ان کے سامنے والے ٹیبل پہ بیٹھیں تھیں۔”
” آیت یہ سب دیکھ رہی تھی۔۔ آیت کیلئے یہ منظر ناقابل برداشت تھا کہ وہ جیک کو کسی اور کیساتھ دیکھے۔۔۔”
” آیت کیلئے یہ لمحہ کسی اذیت کم نہیں تھا۔۔۔
وہ اک دم خاموش بیٹھی تھی۔ اس کے دل میں ویرانی گھر کر گئ تھی۔۔۔
آیت غضب ناک آنکھوں سے جیک کو گھور رہی تھی۔۔۔۔”
” تو پھر کیا مسئلہ ہے آپکو؟۔ ڈاکٹر تہمینہ کو جیک کی آنکھیں مایوسی سے بھیگی پڑی دکھائی دے رہی تھیں.”
” آپ نے ابھی ایک ریپوٹ کروائی ہے۔۔ اس میں یہ لکھا ہے کہ آپ کو کنسر ”
” جیک نے سرسری نگاہ آیت پہ ڈالی تو آیت کا سارا دھیان اسی طرف ہی تھا۔۔”
” جیک نے سرد آہ بھری۔
اوہ شیٹ! زیر لب جیک نے کہا۔۔۔” اس کا سارا دھیان اسی طرف تھا۔
” اتنی لاپروائی نہ کریں تو بہتر ہوگا آپ کیلئے ۔۔۔۔
آپ کے گھر والوں کو آپکی بہت ضرورت ہے۔۔۔ کچھ تو خیال کریں آپ۔ وہ فکر مندی سے بول رہیں تھیں۔۔”
” جیک بلکل سنجیدہ بیٹھا تھا۔۔۔ جیسے ڈاکٹر تہمینہ کی ساری باتیں اٌس کے سر سے گزر رہیں تھیں۔”
” دوسری طرف اٌسے آیت کی فکر بھی کھائے جارہی تھی۔ کیونکہ آیت جیک کو مشکوک انداز سے دیکھ رہی تھی۔۔۔ ”
” اٌن کے بیچ پہلے کچھ ہی سب بکھر چکا تھا۔۔۔ وہ مزید دوریاں بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔۔”
” جب جیک کیطرف سے کوئی خاص درِ عمل دکھائی نہ دیا تو ڈاکٹر تہمینہ نے ایک لمبی خاموشی توڑتے ہوئے کہا۔”
” اپنا نہیں تو کم از کم اپنی بہن اور اپنی ماما کیلئے ہی اپنا علاج جاری رکھیں آپ۔
متاسفانہ انداز میں وہ بولیں۔۔”
” ان کی اس بات نے جیک کو اندر تک ہلا کر رکھ دیا تھا ۔۔۔۔
ان کے لہجے میں اس قدر اثر تھا جیک کی آنکھیں نم ہونے لگ گئی تھیں۔۔۔
وہ نم آنکھوں سے چونک کر ڈاکٹر تہمینہ کو دیکھنے لگا۔۔”
” جی یہ بات تو ہے۔۔ ویسے بہت شکریہ آپکا۔۔۔ متاسفانہ انداز سے جیک نے انہیں جواب دیا۔۔۔”
” ان کی باتیں اگرچہ جیک کے لیئے بہت خاص تھیں۔ مگر آیت کی وجہ سے جیک نے ان کو ٹھیک سے ریسپانس نہیں دیا تھا۔۔۔”
” لیکن آپ فکر نہ کریں سب کچھ بہتر ہی ہوگا۔۔۔ جیک کی خالی خالی آنکھیں دیکھ کر وہ تسلی دینے والے انداز میں وہ بولیں تھیں۔۔”
” آپکی باقی کی میڈیکل رپورٹس کل آئیں گی۔۔
کل آپ آ کر، لے جائیے گا۔ محتاط انداز میں ڈاکٹر نے جیک کیطرف سے کہا۔۔۔”
Hope so everything will be fine.
” کیونکہ ان کی نظر میں جیک ایک غیر ذمہ دار شخص تھا۔۔۔ اسی لیے وہ کافی دیر سے جیک کو تلقین کر رہیں تھیں۔۔۔”
” وہ چاہتیں تھیں کہ ان کی باتیں جیک کیلئے کارآمد ثابت ہوں۔۔ کسی نہ کسی طرح سے وہ اپنے علاج کو جاری رکھ سکے۔۔”
” جی ! ٹھیک ہے ۔ میں اب چلتا ہُوں۔۔۔ جیک نے کھڑے ہوکر ملتجی انداز میں کہا۔۔ ”
” وہ آہستہ آہستہ قدم پیچھے لینے لگا۔۔
میری کزن میرا انتظار کے رہیں ہیں۔۔۔۔
جیک نے ٹیبل کیطرف اشارہ کیا۔ جہاں وہ بیٹھی تھیں۔۔۔”
” ٹھیک ہے آپ جاسکتے ہیں۔۔۔ میں بھی اب چلتی ہوں۔۔۔ ڈاکٹر نے سرد آہ بھری، اور پھر وہ بھی وہاں سے چلیں گئیں۔۔۔”
” آیت کہاں ہے؟ جیک نے آئی برو اٹھا کر حیرت سے پوچھا۔ کیونکہ جیک جب واپس آیا تو آیت غصے سے گاڑی میں جاکر بیٹھ چکی تھی۔۔۔۔”
” وہ گاڑی میں ہے۔ آئس کریم کا چمچ منہ میں لیتے ہوئے عائشہ نے تحمل سے جواب دیا۔۔۔”
” اسے اب کیا ہوا؟ جیک نے اکتاہٹ بھرے انداز میں کہا۔۔۔ کیونکہ جس کا اٌسے ڈر تھا۔ آخر وہی ہوا تھا۔۔۔”
” پتہ نہیں ۔۔ جاؤ اور پوچھو اسے،،، کہ کیا ہوا ہے اسے۔۔ حیات نے جھٹ سے مخصوص انداز میں کہا۔۔۔”
” جانے دو میں نہیں پوچھوں گا۔ جیک نے غصے سے کرسی باہر کھنچی اور بیٹھ گیا۔۔ حیات اور عائشہ قدرے چونک کر جیک کو دیکھنے لگی۔۔۔ ”
” کیونکہ وہ دونوں اسی گمان میں تھیں۔کہ جیک فورا اٌسے منانے کیلئے جائے گا۔۔ مگر ایسا بلکل نہیں ہوا تھا۔۔۔ جیسا انہوں نے سوچا تھا۔۔ ”
” جیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔ حیات نے تعجب سے کہا۔”
” کیا جیک؟ پوچھ کر آؤ میں یہاں بیٹھا ہوں۔۔۔ جیک نے آئس کریم گلاس اپنے قریب کیا۔۔۔ عائشہ سوالیہ نظروں سے جیک کو مصنوعی خفگی سے دیکھ رہی تھی۔۔”
” کیا ہوا کیوں چلی تم؟ حیات نے آیت کے پاس جاکر اس سے پوچھا۔۔۔”
” میں گاڑی میں ہی ہوں تم لوگ آئس کریم کھا کر آجاؤ۔۔ اس نے اپنی آنکھوں کی نمی کو چھپایا۔۔۔ اور منہ دوسری طرف پھیر لیا۔”
” ارے۔ آجاؤ یار۔ ایک تو تم چھوٹی سے چھوٹی بات کو دل پے لے لیتی ہوں۔۔ حیات اسے منا رہی تھی۔٬
” حیات نے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر کہا۔ کیونکہ و ہ سمجھ چکی تھی آیت جیک کی توجہ نہ ملنے سے ناراض ہوگئ ہے۔۔”
” مگر آیت بھی بہت ضدی تھی۔ وہ حیات کے اصرار کرنے پہ بھی اٌس کے ساتھ نہیں گئی تھی۔۔۔”
” کیونکہ جیسا آیت نے گمان کیا تھا ویسا تو کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ وہ یہ چاہا رہی تھی کہ جیک اسے منائے اور پھر وہ اپنی بات کا آغاز کرے۔۔۔ جو وہ کرنے آئی تھی۔”
” اُسے یہ سوچ، سوچ کر رونا آرہا تھا۔۔۔ کہ جیک اب پہلے والا نہیں رہا۔۔ اٌسے اس بات کا شبہ تھا کہ جیک کی محبت پہلے جیسی نہیں رہی۔ بلکہ اب اسے یقین ہوچکا تھا۔۔۔”
” کیا ہوا اسے۔ حیات کو اپنی طرف اکیلا آتے دیکھ کر عائشہ نے جھٹ سے پوچھا۔۔”
” پتہ نہیں بتایا نہیں اُس نے کچھ بھی۔ نحیف انداز میں حیات نے کہا اور وہ واپس بیٹھ گئ۔۔۔۔”
” لو آیت کو تو جیک سے اکیلے میں بات کرنی تھی۔ اب یہ نخرے کر رہی ہے۔ ”
” دوبارہ پتا نہیں یہ موقع ملے کہ نہیں۔ عائشہ نے حیات کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔”
” چلیں؟ جیک نے دونوں کیطرف دیکھ کر کہا۔۔۔”
” ہاں چلو۔ وہ دونوں ایک ساتھ بولیں۔۔ اور اس بات پہ کھلکھلا کر ہنستے ہوئے جیک کے ہمراہ گاڑی کیطرف بڑھیں ۔۔”
” کیا ہوا کیوں ناراض ہوکر آگئی ہو تم۔ عائشہ نے سوالیہ انداز سے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے پوچھا۔۔۔”
” جیک تاسف سے آیت کو دیکھ رہا تھا۔۔
میں نے بھی اسے کچھ نہیں کہا۔۔۔
جیک نے آیت کی ناراضگی کا اندازہ لگا لیا تھا۔۔ اور فوراً ان دونوں کے سامنے بات کو بدلہ دیا۔۔۔ ”
” کچھِ لوگ نہ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہے دیتے ہیں۔۔۔۔
آیت ! جیک کی بات سے متاثر ہوئے بغیر متاسفانہ انداز میں بولی۔۔۔”
” اگر مجھے پتا ہوتا نہ، کہ یہاں بھی انکی کوئی جاننے والی مل جائے گی۔۔
تو میں کبھی نہیں آتی یہاں۔۔۔ غصے سے اس نے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا۔ اور باہر کے مناظر دیکھنے لگ گئی۔۔۔”
” بس ایسی باتیں کروا لو اس سے۔
جیک نے درد بھرے انداز سے کہا۔۔ اور اس نے غصے سےگاڑی کی رفتار بڑھا دی۔۔”
” جیک پیلز! اب تم مت شروع ہوجانا۔ عائشہ نے اکتاہٹ بھرے انداز میں جیک کو سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔”
” ان کو کہو گاڑی کی اسپیڈ تھوڑی کم کریں۔۔ تلخ آواز میں دانت پیستے ہوئے آیت بولی۔۔”
” حیات آئس کریم تو کھا لی ہے۔
اب یہ بھی بتا دو کے کہاں جانا ہے۔۔۔ ”
” جیک نے آیت کی بات سن لی تھی۔۔ اس نے آیت کو چڑانے کیلئے گاڑی کی اسپیڈ اور بڑھائی ۔۔۔ اور جان بوجھ کر آیت کی بات کو نظر انداز کیا۔۔۔”
” کہیں نہیں جانا کسی نے بھی۔ گاڑی کی اسپیڈ کم کرو۔ اور اب سیدھا گھر چلو۔ عائشہ نے آیت کو گھورتے ہوئے غصے سے کہا۔۔۔”
” عائشہ کو آیت پہ شاید غصہ آرہا تھا۔ اسکا دل کر رہا تھا کہ وہ اپنی ساری بھڑاس ابھی نکالے اور آیت کو صحیح کی باتیں سنائے۔۔۔”
” نہیں آیت کیا یار۔ اگر پھر ٹائم نہ ملا تو؟
اگر وقت تمہیں ملت دے رہا ہے تو پھر تم ایسا کیوں کر رہی ہو؟
حیات مایوسی سے آیت کیطرف دیکھتے ہوئے بولی”
” آج بھی مشکل سے سب کی نظروں سے بچ کر آئیں ہیں روز روز تو ایسا موقع نہیں ملتا نہ۔ حیات اتلجائی انداز میں بول رہی تھی۔۔۔ کہ آیت کسی نہ کسی طرح سے پگھل جائے۔۔”
” مگر آیت کو، تو کسی کی پرواہ ہی نہیں تھی وہ تو خود جیک کو کسی کیساتھ دیکھ کر ٹوٹ چکی تھی۔ وہ کیا بات کرتی کسی سے۔۔۔”
” وہ نجانے کن اندیشوں میں کھوئی ہوئی تھی۔۔۔ اس کے دل میں لگی آگ بجھانے کی بجائے اور بڑھنے لگی تھی۔۔۔”
—————————— ————————–
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"دوسرے دن ”
” حیات ہال میں صفائی کر رہی تھی۔ جیک باہر سے آیا تھا۔ حیات کو دیکھ کر وہ وہیں رک گیا۔۔”
” کل حد سے زیادہ گرمی تھی ۔۔
فضول میں تم لوگوں کوکچھ کام تو تھا نہیں، منہ اٹھا کر چلی گئی تھیں تینوں۔ ”
” جیک نے جیب سے رومال نکال کر پیشانی پہ آئی پسینے کی بوندیں صاف کی۔۔۔۔”
” اس گرمی کی وجہ سے ابھی تک میرے سر میں شدید درد ہے۔۔۔۔ جو کم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔۔۔ اس نے درد سے آنکھیں بند کیں اور صوفے پہ لیٹ گیا۔۔۔۔”
” منہ اٹھا کر نہیں گئے تھے۔ کسی کام سے ہی گئے تھے۔۔۔۔۔۔ حیات، جیک کے چہرے پہ نظریں گاڑتے ہوئے بولی۔۔۔”
” آئس کریم کھانے کو تم کام کہہ رہی ہو۔۔؟
شکستہ لہجے سے جیک نے اس کیطرف دیکھ پوچھا۔۔”
” میں آئس کریم کی بات نہیں کر رہی۔۔ حیات نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔”
” وہ سوچنے لگا۔۔۔ حیات کے جملے پر غور کرنے لگا۔۔ اور وہ ہڑبڑا کر بیٹھ گیا۔۔۔”
” مطلب؟ میں کچھ سمجھا نہیں۔ جیک نے سر ہلایا۔۔”
” حیات نے کن آنکھوں سے آس پاس دیکھا اور وہ جیک کے پاس بیٹھ گئ۔۔۔۔”
” مطلب یہ کے میں نے اور عائشہ نے آیت کو تم سے بات کرنے کیلئے بہت ہی مشکل سے کنوینس کیا تھا….
اس نے بلکل دھیمی آواز میں جیک کو بتایا۔۔ ”
” جیک۔۔۔۔ حیات کی بات کو غور سے سننے لگا۔۔”
” وہ تو مان ہی نہیں رہی تھی۔ اگر وہ مشکل سے مان ہی گئ تھی۔ تو تم نے اسکا سارا موڈ خراب کر دیا تھا ۔۔۔ ”
” ارے یار! جیک کو حیرت کا جھٹکا لگا۔
اس نے غصے سے اپنا ہاتھ ٹیبل پہ مارا۔۔ یہ جیک کے غصے کا اظہار تھا۔۔”
” آرام سے! وہ کانچ کا ٹیبل ہے۔ آگر ابھی تمہیں کوئی چوٹ لگ جاتی تو؟
حیات محتاط انداز میں بولی۔۔”
” تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟ جیک نے آس پاس نظر دوڑا کر دانتوں تلے زبان دے کر غصے میں اس سے پوچھا۔۔۔۔”
” جیک کو اپنی غلطی پہ پھتاوا ہونے لگا۔۔۔
کم از کم تم مجھ سے ایک دفع بات تو کرتی ،،، مجھے بتاتی تو صحیح ۔۔ اب جیک کے لہجے میں اضطراب تھا۔۔”
” خیر چھڑو! مجھے اب فرق نہیں پڑا۔ اس نے سیڑھیوں سے نیچے اترتے آیت کو دیکھ کر کہا۔۔۔ وہ دوباہ لیٹ گیا۔۔”
” حیات نے اُسے مشکوک نگاہ سے دیکھا۔۔۔”
” ہممم فکر پڑھے گا بھی نہیں اب آپکو۔۔۔۔
آیت سیڑھیوں سے نیچے ہال میں پہنچتے ہی سخت لہجے میں بولی۔۔۔”
” اس کا چہرہ شکنوں سے بھر گیا تھا۔۔۔ ”
” جیک کے یہ الفاظ اس کے دل گہرائی تک چبھنے تھے۔۔۔ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔۔۔”
” حیات میںِ کمرے میں جا رہا ہوں۔
کوئی پوچھے میرا تو کہہ دینا کہ میں گھر پہ نہیں ہوں۔۔۔۔۔
اس نے آیت کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔”
” آیت کو جیک کا یہ رویہ بہت برا لگا۔۔”
” کون تھی وہ۔ آیت جیک کے پیچھے اٌس کے کمرے میں آئی اور اس نے غصے سے دروازہ بند کیا۔۔۔ جیک نے سوالیہ نظروں سے آیت کو دیکھا۔۔۔”
” یہ کونسا طریقہ ہے؟ جیک نے دھیما لہجہ اختیار کیا۔۔ ہاتھ باندھ کر وہ ایک قدم اس کیطرف بڑھا۔۔۔”
” میں نے پوچھا کون تھی وہ۔۔۔۔۔ آیت نے زور دے کر ٹوٹے ہوئے لہجے میں اپنا سوال دھرایا۔۔۔”
” اور اگر میں نہ بتاؤں تو؟ جیک کا لہجہ بے حد بجھا بجھا سا تھا۔۔ اس نے نفی میں سر ہلا کر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔۔۔۔۔ ”
” تو پھر بھی میں پوچھ کر ہی رہو گی۔۔۔۔ آیت نے اثبات میں سر ہلایا۔”
” آیت اپنا حق جتاتے ہوئے تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے اس کے بلکل مدمقابل کھڑی ہوئی۔”
” تو پھر پوچھ لو، جس سے پوچھنا ہے تمہیں۔ جیک غصے میں کمرے سے باہر جانے لگا ۔۔۔ چونکہ وہ آیت سے لڑنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔ وہ آیت کا دل اور نہیں توڑنا چاہتا تھا۔۔۔”
” آیت سے جیک کی یہ بےرخی برداشت نہیں ہو رہی تھی۔۔۔ جیک کا نظر انداز کرنا اٌسے اند ہی اند سے ختم کر رہا تھا۔۔۔ اس کیلئے اب اور درد سہنے سکت نہ رہی تھی۔”
” کہاں جا رھے ہیں آپ؟۔ آیت دوڑتی جیک کے پیچھے گئی اور غصے سے جیک کا بازو پکڑ کر اس نے پوچھا۔۔۔۔۔”
” اور جیک وہیں رک گیا۔۔۔ آیت نے دروازہ بند کیا۔۔۔”
” جیک آپکو نہیں لگتا کہ آپ اب سجل کے ملنے پہ، دن بہ دن مجھے نظر انداز کرنے لگے ہو۔ وہ جیک کی جانب بڑھتی ہوئی ناگواری میں بولی۔۔۔”
” آیت نے بولنا شروع کیا۔ تو وہ چاہتی تھی کہ جیک بھی کچھ کہے ۔ مگر وہ اک دم خاموش کھڑا تھا۔۔ وہ منتظر تھی کہ جیک کچھ تو بولے ۔۔۔ ”
” آپ کچھ بول کیوں نہیں رہے؟ چند لمحوں کی خاموشی توڑتے ہوئے آیت پھر بولی۔۔”
” نہیں مجھے ایسا کچھ بھی نہیں لگتا۔ جیسا تم سوچ رہی ہو۔۔۔ جیک نے نفی میں سر ہلایا۔”
” آپ میرے صبر کا امتحان مت لیں۔۔۔۔ بڑے رعب سے آیت درشت آواز میں بولی ۔۔ جیک نے حیرت سے آیت کیطرف دیکھا۔۔۔۔۔”
” اور تم بھی میرے صبر کا امتحان مت لو۔۔۔ جیک منہ بسورے غصے سے بولا۔۔۔”
” جیک میں آپکو بتا رہی ہوں۔۔۔ مجھے اگر کچھ بھی ہوا نہ تو اُسکے ذمےدار صرف آپ ہونگے۔ صرف آپ ۔ بے اختیار آیت کے منہ سے نکلا اور اس نے جیک کو انگلی بھی دکھائی۔۔۔”
” میں کیوں زمے دار ہونگا؟ جیک نے سر اٹھا کر لاپروائی سے کہا۔۔۔۔”
” کیونکہ آپکی وجہ سے میں دن بہ دن ذہنی مریض بنتی جا رہی ہوں۔۔۔۔
میرے سر میں شدید درد رہنے لگا ہے۔۔
وہ سر کو پکڑے بیڈ پہ بیٹھ گئ۔۔۔”
” ہر وقت لڑتی ہو یار تم۔ جیک نے جھنجھلا کر کہا۔”
” میں تنگ آگیا ہوں۔۔۔۔ یہ روز روز کی لڑائ سے۔۔۔۔ جیک نے چلا کر کہا۔۔۔۔۔”
” آیت نے چونک کر جیک کیطرف دیکھا۔
اوہ! تو آپ تنگ آگئے ہیں مجھ سے؟ آیت نے سپاٹ لہجے سے کہا اور سوالیہ نظروں سے وہ جیک کو دیکھنے لگی۔۔”
” ہاں ٹھیک سنا ہے تم نے۔ میں تنگ آگیا ہوں تم سے۔۔۔۔ اور یہ تمہاری روز روز کی لڑائی سے۔۔”
” وہ پیشانی پہ بل ڈالے جیک کو دیکھے جا رہی تھی۔۔۔ اس کی آنکھوں میں مایوسی صاف دکھائی دے رہی تھی۔۔۔”
” پہلے بھی ہماری لڑائی ہوتی تھی۔ پہلے تو آپ نے ایسا کبھی نہیں کیا تھا۔۔۔
آیت نے معنی خیز نظروں سے جیک کو دیکھ کر پوچھا۔۔۔ ”
” لیکن وہ سنجیدہ تھا۔۔ وہ آیت کی ہر بات کو اپنے دل پہ لکھتے جارہا تھا۔۔۔”
” آیت کو لگ رہا تھا کہ جیک ہر بات کو نظر انداز کر رہا ہے۔ مگر آیت کی کہی بات جیک کیلئے کتنی اہم تھی۔
اس خیال سے آیت بلکل بے خبر تھی۔۔۔”
” آپ وہی ہیں نہ۔ اگر غلطی میری ہوتی تھی، پھر میں جان بوجھ کر انجان بنتی تھی، آپ سے روٹھ جاتی تھی۔
کہ نہیں غلطی آپکی ہے۔ اور پھر آپ مجھے ماننے کیلئے راتوں تک جاگتے تھے۔ صرف اس لیئے کہ میں مان جاؤں۔۔۔”
” اب آپکو کیا ہوا ہے۔۔۔؟؟؟؟ نم لہجے سے بمشکل اٹکتے ہوئے اس نے پوچھا۔۔۔ وہ التجائی نظروں سے جیک کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ ”
” لیکن اب میں تنہا راتوں کو جاگتی رہتی ہوں۔ میں تنہائی میں بیٹھی سسک سسک،کر کب سو جاتی مجھے خود نہیں معلوم۔۔ لیکن آپکو تو کوئی فکر ہی نہیں پڑتا۔۔”
” آیت نے اپنے نرم گالوں سے بہتے آنسوؤں کو صاف کیا ۔
وہ اپنے جواب کیلئے منتظر تھی۔”
” کچھ بھی نہیں ہوا ۔ ایک لمبی خاموشی توڑتے ہوئے جیک نے کہا۔۔”
” تمہیں تو فضول میں ٹینشن لینے کی عادت ہوگئی ہے اب۔۔۔۔ جیک نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا۔۔۔”
” آپ بہت بدلہ گئے ہو۔ میں بس اتنا جانتی ہوں۔۔۔ آیت نے روتے ہوئے متاسفانہ انداز میں کہا۔۔”
” اگر تمہارے شکوے ختم ہوگئے ہوں۔
تو میں جارہا ہوں۔۔۔ جیک نے دروازے کا ناب گھمایا”
” میں یہاں بات کر رہی ہوں۔ اور آپ کہہ رہے ہو کے میں جا رہا ہوں۔۔۔۔۔
اس کا مطلب یہ ہے آپکی نظر میں میری بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟؟؟
” آیت کا چہرہ رنگ بدلنے لگا۔ وہ بے یقینی سے جیک کو دیکھ رہی تھی۔۔”
” جو دل چاہے سمجھ لو۔ وہ متاثر ہوئے بغیر بولا۔”
"مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔۔۔۔۔ جیک نے مڑ کر غیر محتاط انداز میں کہا۔۔”
” اس کے اشک مسلسل بہہ رہے تھے۔ آنکھیں اس کی سرخ ہو رہیں تھیں وہ اس وقت کس قدر تکلیف میں مبتلا تھی شاید جیک اٌس تکلیف سے واقف نہیں تھا۔۔۔”
” جو بات کرنی ہے۔ بعد میں کر لینا۔۔۔ فلحال تو میں کسی کام سے باہر جا رہا ہوں۔۔۔ وہ دروازہ کھو کر باہر چلا گیا۔”
” مجھے نہیں کرنی بعد میں بات، سن لیا آپ نے؟؟؟؟؟؟؟؟؟
آیت اس کے پیچھے تک گئ۔۔۔
” آیت چیخ چیخ کر جیک کو پکار رہی تھی۔۔۔ آیت کی چیخیں جیک کے دل کو چیر رہیں تھیں۔۔۔ مگر وہ قسمت کے ہاتھوں مجبور تھا۔۔۔”
” آنکھوں میں آئی نمی کو اس نے صاف کیا اور تیزی سے قدم بڑھاتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔۔”
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...