آخر انھیں باتوں میں سانجھ ہو گئی اور چاندنی نکل آئی۔
سکھیوں نے سیج کی تیاری بہ دستور کی اور یہ دونوں بھی بن ٹھن کر پلنگ پر آئے اور آپس میں یہ کہنے لگے کہ “دوستی میں بچھڑنا ہی خرابی ہے”۔
اتنے میں کام کندلا نے کہا کہ “وصل کی رات کا عرصہ تھوڑا ہے۔ ایسا علاج کیجیے کہ گھٹنے نہ پاوے!”
تب مادھو نے بین اٹھا کر ایسا راگ بجایا کہ چاند کی رتھ کے ہرن کھڑے ہو رہے۔ رات بڑھ گئی۔ سویرا نہ ہو پایا۔ چکوا چکوی بھی تالابوں پر جدائی سے گھبرا گئے۔
تب کام کندلا نے کہا: “سدا رہے آدھی رات اور چاند سورج میں مل جائے۔ اس واسطے کہ صبح کو ہمارا پیتم جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یا اللہ! چھ مہینے کی رات کردے”۔
جب دیکھا اس نے کہ رات بڑھ گئی اور صبح نہیں ہوتی تب بین ہاتھ سے رکھ دی۔ ہرن چل نکلے اور چاند چھپا، صبح ہوئی، سورج نکلا۔ تب اس بیراگی نے کام کندلا سے کہا کہ “ہمیں رخصت دو تو ہم رستہ پکڑیں”۔
وہ بولی کہ میں تو مرتے دم تلک اپنے منہ سے نہ کہوں گی ؎
ہو چکی وصل کی شب اشک ہمارا نکلا
رات آخر ہوئی بس صبح کا تارا نکلا
وہ زبان گویا نہ ہو جو تجھے جانے کو کہے اور وہ آنکھ نابینا ہو جو دوست کا جانا دیکھے”۔
جب یہ دیکھا کہ کسی طرح جانے نہیں دیتی تب تو دھوتی اور پوتھی اٹھا، بین کاندھے پر رکھ چلنے کا ارادہ کیا۔ کام کندلا نے ہاتھ اس کا پکڑ لیا اور کہنے لگی: “کیا تو مسافر دوست ہوا تھا کہ میرے دل کو لوٹ کر لے چلا۔ پہلے مجھے جوہر کر تو پیچھے کہیں جا!”
یہ کہتے آنسوؤں کی ایسی جھڑی لگی کہ تمام تن بدن اس کا بھیگ گیا۔ وہ دو دن کی دوستی جدائی کے وقت اس کے جی کا جنجال ہو گئی۔
پھر گھبرا کر بولی کہ “تم نے نیہ کی ناؤ کا گن ہاتھ میں لے کر اس کو جدائی کے سمندر میں چھوڑ دیا۔ بدون گن کھینچے کشتی کنارے نہیں لگتی اور بغیر ملاح کے نہیں چلتی۔ تو ہی اس کشتی کا کھینے والا ہے۔ جو تو جائے گا تو میں ڈوب جاؤں گی۔ کیونکہ اس دریا میں بہت سی دکھ کی لہریں اٹھتی ہیں۔ اگر مجھے ڈوبنے سے بچایا چاہتا ہے تو اکیلا نہ چھوڑ اور میرے پاس سے نہ جا! یہ ممکن نہیں کہ تجھ بن یہاں رہوں۔ میں بھی پیچھے تیرے کنٹھا جھولی لے، بھبھوت مل، مندرا پہن، جوگن ہو، تپشی کے بھیس بن بن پھروں گی، تیرے ہی گن گاؤں گی اور گورکھ گورکھ گہراؤں گی۔ غرض روئے زمین کے سارے تیرتھ پھروں گی۔ قرار جی کو جب ہووے گا جب تجھ سے ملوں گی۔ کھنڈ کھنڈ تیرت کروں اور کاشی میں بھی کروٹ لوں۔ من میں یہی ارادہ کرکے کہ جب جیوں تجھ کو ڈھونڈھوں اور ملوں۔ بہتر یہ ہے کہ تو مجھے برہ کے پھندے میں نہ پھنسا۔ مجھے بھی اپنے ساتھ لے جا۔ اے دوست مسافر! کوئی بھی محبت کی راہ میں دغا دیتا ہے۔ مجھے مت چھوڑ! ساتھ لے چل!”
کام کندلا کی یہ باتیں سن مادھو آنکھوں میں آنسو بھر لایا اور بولا: “میرا ہاتھ چھوڑ دے!”
وہ کسی طرح نہ چھوڑتی تھی۔ ندان سکھیوں نے چھڑا دیا۔ وہ من مار کے رہ گئی اور بچھڑنے سے یار کے اس کی یہ حالت ہوئی گویا کہ جی گیا اور تن رہ گیا، جیسے سانپ جاوے اور کچلی رہ جاوے۔
آخر غش ہوکر زمین پر گر پڑی۔