موراوا دریا، اس کا کنارہ، اس کا پل اور گدلا پانی۔ اس کے علاوہ مکان خستہ حال، مجسّمے، نقش و نگار اور وسیع و عریض میدان۔ ملن کنڈیرا کا قلم جزئیات نگاری کے ساتھ اس پورے علاقے کی لفظی تصویر کشی کرکے قاری کو اپنے ساتھ لیے پھرتا ہے۔تاریخ بھی جغرافیہ کے ساتھ مل جاتی ہے اور اوسٹراوا (Ostrava) کے بورڈنگ ہاؤس کا ذکر۔ کان کنی سے متعلقہ قصباتی شہر کی یاد کے بعد منظر کی یہ تبدیلی۔ دریا کے دوسرے کنارے پر ویئر ہاؤس، ورک شاپس، کارخانے اور ان کے صحن۔ جہاں تک یاد کا معاملہ ہے، اس کا رخ ہے لوسی (Lucie) اور اس کے تعلقات۔
میرا— احمقانہ مذاق کرنے کا خبط اور مارکٹا (Marketa) میں ذوقِ مزاح کی خطرناک حد تک کمی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ٹھس اور کند ذہن تھی۔ وہ انیس برس کی سالِ اوّل کی طالبِ علم تھی قدرے سنجیدہ مزاج والی۔ بے حد سیدھی۔ ساتھی طالبِ علم اسے چھیڑتے اور مذاق کرتے تھے محض اس لیے کہ وہ سنجیدہ تھی۔ ۱۹۴۸ء کا زمانہ تھا۔ ورکنگ کلاس کی فتح مندی کا زمانہ تھا اور اس زمانے میں سنجیدگی اور کبیدہ خاطری ناپسندیدہ اور ناقابلِ قبول تھی۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ زمانہ تاریخی رجائیت کا زمانہ تھا۔ میں لیگ اوف یونی ورسٹی اسٹوڈنٹس کا ایک اعلیٰ عہدے دار تھا۔ طلبہ کی جانچ پرکھ کے سلسلے بھی جاری تھے۔ دیگر قابلِ اعتراض نقائص میں ایک نقص یہ بھی تھا جس کو عورتوں کے لیے عزت کے جذبات کی کمی کہا جاتا تھا۔
مجھ پر انفرادیت میں مبتلا ہونے کا الزام لگایا گیا اور جب میں نے ثبوت مانگا تو انھوں نے میری مسکراہٹ کو موردِ الزام گردانا۔ بات آگے بڑھی تو انھوں نے میری مسکراہٹ کو ایک انٹلیکچوئل کی مسکراہٹ قرار دے کر مجھے معتوب کیا۔ انفرادیت اور انٹلیکچوئل سے یہ مفہوم اخذ کیا جاتا تھا کہ آدمی، پارٹی، کمیونزم، مارکسی آدرش کی تحقیر کررہا ہے (واحد متکلم کا استعمال کیا ہے، لیکن لفظیات لڈوک کے نہیں ہیں)۔ لڈوک ایک بیس سالہ طالبِ علم تھا۔ وہ یہ جانتا تھا کہ وہ ایک سے زائد چہرے رکھتا ہے اور اس کے چہروں میں اضافہ بھی جاری ہے، لیکن وہ منافق نہیں تھا۔ اس کا ایک چہرہ سچا اور دیگر چہرے جھوٹے نہیں تھے۔ اس کا ہر چہرہ سچا تھا۔
مارکٹا سال اوّل اور لڈوک سال دوم ختم کرنے والے تھے۔ لڈوک نے مارکٹا کو متأثر کرنے کے لیے اپنے آپ کو بڑا اور سنجیدہ ظاہر کرنے کا راستہ اختیار کر رکھا تھا۔ جیسے وہ سب سے الگ اور سب سے ہٹا ہوا ہے۔ وہ مخلص، جذباتی اور معاملات میں کمیٹڈ تھا۔ دوستوں میں ہمہ تن مصروف۔ مارکٹا کے ساتھ ذہین اور تنہائی میں مارکٹا کے بارے میں سوچتے ہوئے۔ اپنے آپ کے بارے میں بے یقین اور اعتماد سے تہی، لیکن ایک اسکول کے لڑکے کی مانند پُرجوش اور برانگیختہ۔
مارکٹا کا ُحسن جیسا کہ ُحسن کا دستور ہے، اس کے اطراف ایک حفاظتی ہالا بنائے رکھتا تھا۔ وہ معصوم بھی تھی۔ مارکسزم اور انقلاب کے مسائل کے برخلاف وہ نباتات میں دل چسپی لیتی تھی۔ وہ اس اصول کو سمجھنے سے قاصر تھی کہ نتیجہ ذریعے کو باجواز بنا دیتا ہے۔ کامریڈوں نے یہ فیصلہ کیا کہ موسمِ گرما کی چھٹیوں میں وہ دو ہفتوں پر مشتمل ایک تربیتی کورس کرے۔ ان ہی دو ہفتوں کو لڈوک مارکٹا کے ساتھ پراگ میں گزارنا چاہتا تھا۔ اب تک ان کے تعلقات ٹہلنے، باتیں کرنے اور گاہے گاہے بوسے لینے تک محدود رہے تھے۔ لڈوک ان ہی دو ہفتوں میں مارکٹا کے ساتھ اپنی محبت کو پختہ زمین پر استوار کرنا چاہتا تھا۔ اس سے اگلے چار ہفتوں کے لیے اس کو ’’طلبہ کی زراعت‘‘ کی تربیت کا مرحلہ تفویض کردیا گیا تھا اور باقی کے دو ہفتے اسے اپنی ماں کے ساتھ گزارنے تھے، موراوا میں۔
مارکٹا نے اپنے تربیتی مرکزسے لڈوک کو خط لکھا (تربیتی مرکز بوہیمیاکے ایک قلعے میں رکھا گیا تھا)۔ مارکٹا اس تربیت گاہ کے ماحول اور فضا سے بے حد خوش تھی۔ صحت افزا مقام کی تعریف اور ایسے محسوسات کہ انقلاب مغرب کی جانب پھیل رہا ہے اور جلد یورپ کو اپنی لپیٹ میں لیا چاہتا ہے۔ لڈوک کو دو ہفتوں کے ضائع جانے کی کوفت تھی اور ساتھ ہی یہ صدمہ کہ مارکٹا کو اس کا ذرّہ برابر بھی احساس نہیں ہوا تھا۔ لڈوک نے مارکٹا کے خط کے ردِّعمل کے طور پر اسے جلانے، چونکانے اور الجھن میں ڈالنے کی نیت سے پوسٹ کارڈ بھیج دیا۔ پوسٹ کارڈ کا مضمون مندرجہ ذیل تھا:
اوپٹی مزم (رجائیت) لوگوں کی افیون ہے۔ صحت افزا فضا حماقت آلود ہوتی ہے۔ زندہ باد ٹروٹسکی۔
لڈوک
مارکٹا نے لڈوک کے پوسٹ کارڈ کا جواب مختصر سے رسمی نوٹ کی شکل میں دیا اور تمام گرمی کی تعطیلات میں اس کے کسی بھی خط کا جواب نہیں بھیجا۔ قریب قریب ہر روز لڈوک نے خط بھیجا اور ہر خط میں اس کو رِجھانے، منانے اور راضی کرنے کے فقرے لکھے۔ اس کا مسئلہ محبت سے زیادہ ایک جوان لڑکے کا عورت کے بغیر رہنے کا تھا۔ اس نے اپنی اکیلی ماں کے ساتھ وقت گزارنے کا معاملہ بھی پسِ پشت ڈالا اور پہلی فرصت میں اس کے گھر پراگ جاپہنچا۔ وہ ملتی رہی اور ساتھ چہل قدمی کرتی رہی اور ایسی بنی رہی جیسے دونوں کے درمیان کوئی رنجش ہی نہیں ہوئی، لیکن ایک دن جب لڈوک نے اس کے گھر فون کیا تو جواب ملا، مارکٹا پراگ سے چلی گئی ہے۔
ستمبر آیا، یونی ورسٹی کھلی۔ لڈوک، لیگ اوف اسٹوڈنٹ میں اس جگہ پر بیٹھنے لگا جو اس کے لیے مختص تھی۔ ایک روز اسے فون پر ڈسٹرکٹ پارٹی ہیڈکوارٹر پہنچنے کے احکام ملے۔ وہاں سب سے پہلے لڈوک کا پارٹی یونی ورسٹی کمیٹی کے صدر سے سامنا ہوا۔ اس نے لڈوک کے سلام یعنی ’’اونر ٹو لیبر‘‘ (honour to labor) کا جواب دیے بغیر اسے اندر روانہ کردیا۔ وہاں پارٹی کمیٹی کے تین ارکان کی ایک جماعت نے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اس کے بیٹھتے ہی سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ آغاز اس سوال سے ہوا، ’’کیا تم مارکٹا کو جانتے ہو؟‘‘ لڈوک نے ہاں میں جواب دیا۔ اس کے بعد سوالات اور جوابات کا سلسلہ لڈوک کے پوسٹ کارڈ پر مرکوز ہوگیا۔ اس دوران لڈوک کو یہ معلوم ہوگیا کہ اس کارڈ کے علاوہ اس کے سارے خطوط کمیٹی تک پہنچ چکے تھے۔ مارکٹا جو جانی مانی سنجیدہ مزاج لڑکی تھی وہ انقلاب، انقلاب کی کامیابی کے بارے میں وہ ایک پکی اوپٹی مسٹ (optimist) تھی۔ لڈوک اور ٹروٹسکی کے رشتے کو بھی کریدا گیا۔ یہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی آیا وہ ٹروٹسکی کا حمایتی ہے؟ لڈوک کا مؤقف کہ وہ بھی سچا انقلابی ہے، انقلاب کی کامیابی کے بارے میں پُرامید اور رجائی ہے اور اس پوسٹ کارڈ کا مقصد صرف مارکٹا کو زچ کرنا تھا۔ سب کچھ ایک مذاق (joke) تھا، ناقابلِ قبول ثابت کردیا گیا اور اسے یہ بھی جتایا گیا کہ مارکس نے مذہب کو افیون کہا تھا نہ کہ اوپٹی مزم کو۔ بالآخر پوچھ گچھ کا اختتام ہوا۔ اس کو فوری طور پر اسٹوڈنٹ لیگ سے برخاست کردیا گیا اور اس کے آفس کی چابیاں واپس لے لی گئیں۔ لڈوک نے ان کے فیصلہ کن اور تحکمانہ رویے کے باعث یہ بھی نہ کہا کہ اس کے آفس میں اس کی کچھ ذاتی اشیا اور اس کی ماں کی بھجوائی ہوئی مٹھائی رکھی تھی۔ لڈوک اپنے طور پر لیگ آفس گیا۔ وہاں آفس کھلوا کر اپنی ذاتی اشیا اور مٹھائی سمیٹی، لیکن اس سے پہلے ہی وہ تین وہاں پہنچ گئے اور اس کی چیزوں پر اچھی طرح نگاہ ڈال کر اسے جانے دیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ اسے بلاحق و جواز لیگ آفس کھلوانے پر پولیس کے حوالے کیا جاسکتا تھا۔
لڈوک نے ایک کمیونسٹ طالبِ علم سے مشورہ کیا اور اس نے کہا کہ اسے زمانک (Zemanek) سے ملنا چاہیے جو نیچرل سائنس کا پارٹی صدر ہونے والا ہے اور جو لڈوک اور مارکٹا دونوں کو جانتا بھی ہے۔
زمانک کے نام کے ساتھ ہی لڈوک کو یاد آجاتا ہے کہ وہ تھا تو پراگ کا شہری، لیکن موراوا کے فوک گیتوں کا شائق تھا اور لازمی طور پر لڈوک کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہوگا۔ ساتھ ہی لڈوک کو یہ بھی یاد آیا کہ جب اس نے محض مارکٹا کی سادگی، معصومیت، مذاق کو مذاق نہ سمجھنے کی کم زوری سے تفریح لینے کے لیے ایک فرضی بونا قوم کا ذکر کیا جس کے میاں بیوی ایک دوسرے کے پہلو میں لیٹنے کے بجائے اوپر نیچے لیٹتے تھے اور چھوٹے قد کے باوجود جن کے مرد جنسی عمل میں عام مردوں سے زیادہ بہتر ہوتے تھے اور امیر ڈھلتی عمر کی عورتیں ان کو بڑے شوق سے ملازم رکھتی تھیں وغیرہ وغیرہ، تو سب ہنسے، لیکن مارکٹا اس موضوع پر سنجیدگی سے بات کرتی رہی۔ لڈوک کو یہ بھی یاد آیا کہ اس مرحلے پر زمانک بھی اس کے مذاق میں شریک ہوگیا تھا اور س نے اان فرضی بونوں کے بارے میں مزید گل افشانیاں بھی کی تھیں۔
زمانک نے نیچرل سائنس کے جرم و سزا کے اجلاس میں آغاز کی تقریر کی اور لڈوک کو پارٹی سے نکالنے کی سفارش کی۔ وہاں موجود لوگوں میں (سو کے قریب حاضرین تھے جن میں لڈوک کے اساتذہ بھی شامل تھے) کسی نے بھی لڈوک کی حمایت میں زبان نہیں کھولی۔ سب نے اس کے پارٹی سے اور ساتھ ہی یونی ورسٹی سے اخراج کے حق میں ہاتھ اٹھائے۔
اس سے قبل مارکٹا نے اس سے تفصیلی بات چیت کی۔ اس کا مؤقف یہ تھا کہ وہ اس کو معصوم نہیں سمجھتی، مجرم مانتی ہے، لیکن وہ اس سے ملنے کے حق میں ہے، کیوںکہ غلطی آدمی سے ہوتی ہے اور وہ زمانک وغیرہ کے منع کرنے کے باوجود اس سے ملے گی اور اس کا ساتھ نہیں چھوڑے گی۔ لڈوک جو مارکٹا سے جسمانی تعلق کا متمنی رہا، اس وقت جب وہ اپنا سب کچھ اسے دینے پر مائل دکھائی دے رہی تھی، اس سے دور ہوجاتا ہے۔ اس کی خواہش تھی کہ کم از کم وہ اس کے مؤقف کی سچائی دل سے مانے کہ اس نے پوسٹ کارڈ میں جو کچھ لکھ مارا تھا، وہ درحقیقت مذاق تھا۔ اگرچہ وہ اس سے اتفاق کرنے ضرور لگا تھا کہ دوسروں کی نظروں میں جو کچھ اس نے پوسٹ کارڈ میں لکھا تھا، وہ اس کے اندر سے آیا تھا۔
یونی ورسٹی سے نکالے جانے کے بعد لڈوک نے ٹرین پکڑی اور موراوا پہنچ گیا۔ دوسرے دن اس کا ایک اسکول کا ساتھی جارو سلاف (Jarosalav) اس سے ملنے آیا۔ دو دن بعد اس کی شادی تھی۔ اس نے لڈوک سے درخواست کی کہ شادی میں لڈوک اس کے بیسٹ مین (best man) کے طور پر شریک ہو۔ لڈوک انکار نہ کرسکا۔ شادی میں تمام روایتی رسومات ادا کی گئیں، البتہ اس نے اپنے دوست کے کہنے کے باوجود کلاری نٹ نہیں بجایا، کیوںکہ اسے یومِ مئی یاد آگیا۔ زمانک بھی یاد آیا او اس کو متلی سی ہونے لگی۔
یونی ورسٹی سے اخراج کا مطلب یہ تھا کہ لڈوک فوج سے استثنیٰ سے محروم ہوگیا۔ اس دوران لڈوک گرما میں پھلوں کو پروسس کرنے کے پلانٹ میں اور خزاں میں سڑکوں کی مرمت کے کام سے مختص ہوگیا۔ گوٹ والڈوف (Gott Waldov) کے علاقے میں ایک صبح (خزاں میں) وہ بذریعہ ٹرین دور دراز کے گزرے اجنبی ضلع اوسٹراوا پہنچا۔ وہاں نئے بھرتی ہوئے جوان اپنے مستقبل سے بے خبر کھڑے تھے۔ کچھ کہتے تھے کہ ان کو بلیک انسگنیا (Insignia) ملنے والا ہے۔ کچھ اس کا مفہوم نہیں سمجھتے تھے۔ لڈوک اچھی طرح سمجھتا تھا اور اس کے نتائج سے خائف تھا۔
ایک سارجنٹ ان سب کو ایک بیرک میں لے گیا۔ وہاں سے ایک کوریڈور میں، کوریڈور سے ایک بڑے کمرے میں جس کی دیواروں پر دونوں جانب پوسٹر ہی پوسٹر تھے۔ ایک بہت بڑا پوسٹرتھا جس پر لکھا تھا: ’’ہم سوشلزم کی تعمیر کررہے ہیں‘‘، ایک جانب ایک بوڑھا نائی بیٹھا تھا۔ اس نے ایک ایک کرکے برقی زلف تراش سے سب کو گنجا کیا۔ وہاں سے سب کو ایک کمرے میں لے جایا گیا۔ وہاں سب کے کپڑے اتروائے گئے اور جدا جدا کاغذی تھیلوں میں پیک کروائے گئے۔ ایک کھڑکی میں گروائے گئے۔ پھر سب کو نائٹ شرٹ اور فوجی بوٹ پہنوائے گئے۔ یونی فارم ملے۔ ان پر سیاہ انسگنیا لگے تھے جن کا تعلق جرم کی بٹالین سے تھا۔ اس کے بعد سب کو اسکواڈ میں بانٹا گیا اور کمرے مختص کیے گئے۔
دوسرے دن صبح سب کو کانوں (mines) میں لے جایا گیا۔ وہاں سب کو کام کے گروہوں میں تقسیم کرکے ہر ایک کو ایک ڈرل، ایک بیلچہ اور سیفٹی لیمپ دیا گیا اور پھر پنجرہ سب کو زمین کے نیچے لے گیا۔ جب سب اپنے دکھتے ہوئے جسموں کے ساتھ اوپر لائے گئے، سب کو ڈرل کروائی گئی، سیاسی معلومات دی گئیں، جبری نغمے گوائے گئے۔ اپنے اپنے کٹ صاف کروائے گئے۔ رفع حاجت کے لیے صرف ایک کمرہ تھا جس میں صرف بیس کھڈیاں تھیں۔ اسی طور سے سب کے روز و شب گزرنے لگے۔
(انفرادی) شخصیت سے (اجتماعی) عدم شخصیت میں داخل ہونے کے جس مرحلے سے سب کو گزارا جارہا تھا وہ ایسا ہی تھا جیسا سورج گہن میں ہوتا ہے اور یہ گہن پی نمبرا، (penumbra)، لڈوک اور باقی لڑکوں کے ذہنوں میں ہورہا ہوگا۔ ابھی اس کے ابتدائی ایام تھے۔ اس سبب سے مشکل پیش آرہی تھی۔ لڈوک اس کا بھی اعتراف کرتا تھا (اپنے دل میں) کہ وہ ایسا کرنے میں سب سے آخری آدمی ہوتا۔
ظاہر میں سب فوجی تھے، لیکن دراصل کان کنی کے مزدور۔ سیاہ پٹی سے لڈوک اور اس کے ساتھ والے ہمیشہ کے لیے داغ دار ہوگئے تھے۔ کامریڈوں نے اس کو دشمن قرار دے دیا تھا۔ رواجی طور پر ان کی مدتِ سزا یا جو بھی اس کو سمجھا جائے، دو برس کی تھی، لیکن کسی کے لیے یا سب کے لیے اس مدت میں اضافہ بھی ممکن تھا۔ باہر کی دنیا میں جانے کے لیے اجازت نامے (پاس، pass) آسانی سے دستیاب نہیں ہوتے۔ یوں دو ہفتوں میں ایک سنیچر کی چھٹی ملتی تھی۔ اس سنیچر کی چھٹی دوسرے لڑکے شراب خانوں میں (گروہوں میں) یا عورتوں کے ساتھ گزارتے۔ لڈوک کسی گینگ یا گروہ میں شامل نہیں ہوتا۔ اپنی تنہائی کے ساتھ رہتا، کچھ پڑھتا یا اپنے بنک (دیوار میں لگے بستر) میں لیٹا رہتا۔ اسے تو ہر حال میں لڑنا تھا۔ اپنے حق کے لیے۔ دشمن بنے بغیر۔
لڈوک نے کمپنی کے سیاسی کومیسار (Commissar) سے کئی، بلکہ لاتعداد ملاقاتیں کیں۔ اس کا مؤقف یہ تھا کہ اس کی وہاں موجوگی کسی غلط فہمی یا غلطی کا نتیجہ ہے۔ اس کو پارٹی سے انٹلکچوئلزم (Intellectualism) اور سینی سیزم (Cynicism) کی بنیاد پر نکالا گیا ہے، سوشلزم کے دشمن کے طور پر نہیں۔ پھر وہی پوسٹ کارڈ پر لکھی ہوئی اس کی ازراہِ مذاق تحریر کا معاملہ سامنے آتا۔ ہر مرتبہ اس کی تحریر زیادہ مشتبہ دکھائی دیتی اور مزید بڑی سزا کی مستحق قرار دی جاتی۔ بالآخر کومیسار نے لڈوک کو غیر معمولی ہم دردی سے سنا اور حکامِ بالا کے ذریعے تحقیق کروائی، لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے لڈوک سے کہا کہ لڈوک نے بیوقوف بنانے کی کوشش کی، کیوںکہ وہ ایک جانا مانا ٹروٹسکی کا حمایتی (Trotskyite) ہے۔
لڈوک کی وہ شخصیت جو اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں میں درج تھی، اس شخصیت سے قطعی مختلف اور متضاد تھی جو اس کے اپنے ذہن میں نقش تھی۔ لڈوک اپنی اصل شخصیت کو اجاگر کرنے اور منوانے کی مساعی سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہ تھا۔
کان کنی کی سخت مشقت اور فوج کی انداز کی ڈرل کا عادی بنانے کا مرحلہ دو ہفتے میں پورا ہوا اور لڈوک ایک ولولے کے تحت ہر کام میں بازی لے جانا چاہتا تھا۔ وہ سب کو پیچھے چھوڑنا چاہتا تھا۔ ان لوگوں کو رہن سہن اور خوراک کے اخراجات وضع کرکے، اجرت ادا کی جاتی تھی۔ کچھ نہ کچھ رقم پس انداز ہوجاتی۔
لڈوک اور دیگر سیاہ پٹی والے دشمن گردانے جاتے تھے، لیکن سوشلزم کے سارے مذاکروں، سیمیناروں اور پروپیگنڈا مِشنوں میں شرکت کرتے، نعرے وغیرہ بھی لگاتے۔
جن نان کمیٹڈ افسروں (NCO’s) کے رحم و کرم پر سب کو چھوڑا گیا تھا ان میں ایک کارپورل سلوواک (Slovak) تھا۔ وہ دوسرے افسروں کے مقابلے میں نرم طبع تھا، اگرچہ دیکھنے میں قدرے کالا اور پستہ قد تھا۔ ایسے افسر ہتھیار بند ہوتے۔ ایک دن ان کے مابین نشانہ بازی کا مقابلہ ہوا جس میں سلوواک اوّل آیا۔ اس دن لڈوک کو اس سے بات کرنے کا موقع ملا اور اس نے پوچھا کہ اس کی کامیاب نشانہ بازی کے عقب میں کیا راز ہے؟ اس نے کہا کہ وہ بیل کی آنکھ کو ایک شاہ پرست (Imperialist) فرض کرلیتا ہے اور غیض میں آجاتا ہے۔ اس سبب سے ٹھیک نشانے پر گولی مارنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اس نے باتوں میں یہ بھی کہا، ’’تم لوگ میری نشانہ بازی کے مداح کیوں ہو؟‘‘ اگر جنگ ہوئی تو وہ سب کو چن چن کر مارے گا۔ اس کی تو بدلی ہوگئی، لیکن اس کی باتوں نے لڈوک پر واضح کردیا کہ وہ رشتے جو اس کو پارٹی اور کامریڈوں سے جوڑتے تھے، پوری طرح شکستہ ہوچکے تھے۔ اس نے وہ رستہ ہی ترک کردیا تھا جو کبھی اس کی زندگی تھا۔ کالی پٹی والوں کے لیے ضروری نہیں کہ وہ دو برس پورے کریں۔ دوسری کمپنی کا چالیس سالہ ایمبروز (Ambroz) چوتھے سال میں تھا۔
لڈوک کے ساتھیوں میں وہ لوگ جو بیویوں یا محبوباؤں کو چھوڑ کر آئے تھے، ان کی حالت بھی بہتر نہیں تھی۔ ان کو چھٹیاں بہت مشکل سے ملتیں۔ کبھی عورتیں باہر انتظار کرکے نامراد لوٹ جاتیں تو کبھی فوجی جو باہر گھات لگائے بیٹھے ہوتے، ان سے لطف اندوز ہوتے۔ لڈوک کو ایسے کچے دھاگے جیسے رابطے بھی میسر نہیں تھے۔ مارکٹا سے خط کتابت بھی بند تھی۔ ماں سے کبھی کبھار مراسلت ہوجاتی۔ کیا اس کو کم زور دھاگے والا رابطہ کہا جاسکتا تھا؟
لڈوک کے خیال میں والدین سے جو رابطہ ہوتا ہے، اس کا حال کی زندگی سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا، ماضی سے ہوتا ہے۔ اس کی نوعیت ہی جدا ہوتی ہے۔ والدین کے خطوط ایک ایسے ساحل سے ارسال کیے ہوئے پیغامات کی مانند ہوتے ہیں جس کو ہم چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔
لڈوک کے چاروں اور گہنائے ہوئے ماحول سے جو آدمی سب سے پہلے روشنی میں آیا وہ ہونزا (Honza) تھا۔ اس کو سیاہ پٹی اس سبب سے ملی تھی کہ اس نے ایک پولیس والے کو مارا پیٹا تھا۔ وہ دن رات برونو میں مروّجہ گالیاں بکتا رہتا تھا۔ اس کی اور پولیس والے کی لڑائی دو پرانے ہم مدرسہ دوستوں کا خالص شخصی اور ذاتی معاملہ تھا، لیکن عدالت نے اس معاملے کو اس کی نظر سے نہیں دیکھا اور اس کو چھہ ماہ جیل میں گزرنے کے بعد یہاں پہنچا دیا گیا۔ وہ پیشے سے بہت اچھا میکانک تھا، لیکن اب وہ سب کچھ بھول گیا تھا اور اپنے اندر سے آزاد بندہ تھا۔
اپنے اندر سے ہر طرح آزاد لوگوں میں، بیس بنکوں کے کوارٹروں میں سب سے زیادہ سنکی شخص بیڈرچ (Bedrich) تھا۔ اس نے مذہبی بنیاد پر ہتھیار اٹھانے سے انکار کیا تھا۔ اس نے ٹرومن (Truman) اور اسٹالن (Stalin)کو خطوط بھیجے تھے، اس فہمائش کے ساتھ کہ وہ فوجوں کو سوشلسٹ بھائی چارے کے نام پر غیر مسلح کردیں۔ اس کو بے شمار کارروائیوں کے بعد بالآخر سیاہ پٹی کے ساتھ کان کنی میں بھیج دیا گیا تھا۔ وہ خوش تھا۔
دیگر لوگ خوف اور مایوسی کا شکار تھے۔ وارگا (Varga)، پٹران (Petran)، اسٹانا (Stana)، پے ول پکنئی (Pavel Pakny) وغیرہ۔
کان کنی میں جبری مشقت کی سزا بھگتنے والے (اور خاص طور پر سیاہ پٹی والے) لڈوک اور ان کے ساتھیوں کی زندگی کے ایک رخ کو دو ایک مہموں اور واقعوں کے ذکر اور تصویر کشی کی مدد سے ڈرامائی انداز میں پیش کردیا گیا ہے۔
اس رخ کا تعلق عورتوں اور جنسی عمل کی وارفتہ اور دیوانہ وار طلب سے ہے۔ لڈوک ان معاملات میں جھجک اور شرم کے باوجود گرم جوشی سے ملوث پایا جاتا ہے۔ جہاں تک عورتوں کی دستیابی کا تعلق ہے تو یہ بتایا گیا ہے کہ انتخاب حسن کی اساس پر نہیں، بلکہ دستیابی کی بنیاد پر ہوا کرتا تھا۔ لڈوک بالآخر ڈیپریشن میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
چھٹیاں، اجازت نامے، مذہبی جذبات، جنسی جذبات، رومان، محبت، وفاداریاں، چاہنے والی عورتوں کی آمد، چاہے جانے والی عورتوں کی یاد، ڈپریشن، اسی دوران اسٹانا کا شادی کے لیے ایک ہفتے کی چھٹی حاصل کرنا قابلِ ذکر واقعے کے طور پر سامنے آتا ہے۔
ایک چھٹی کے دن لڈوک ٹراموں میں اور پھر پیدل اسٹاروک (Starvack) اور اس کے نواح میں گھومتا پھرا۔ وہاں اس کو ایک بلڈنگ ملی جس پر سینما کا بورڈ آویزاں تھا، لیکن سینما کا نام نہیں تھا۔ لڈوک تجسّس میں مبتلا ہوا۔ اس نے ایک چھوٹی بچی سے سینما کا نام دریافت کیا۔ وہ بھی سینما کا نام نہیں بتا سکی۔ وہ اندر کی طرف گیا جہاں فلموں کی تصاویر ایک دیوار کے ساتھ لگے ہوئے شوکیس میں تھیں۔ اس دن جو فلم دکھائی جارہی تھی، اس سے لڈوک کو نفرت تھی۔ اس کا نام تھا ’’کورٹ اوف آنر‘‘ (Court of Honor)۔ اس فلم سے مارکٹا والے معاملے کی یاد تازہ ہوجاتی۔ اسی دوران لڈوک کو لوسی دکھائی دیتی ہے اور وہ اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے لڈوک اس کو پہلی نظر میں چاہنے لگا تھا۔ وہ کھنچا چلا جارہا تھا۔ لوسی باکس آفس سے ٹکٹ خریدتی ہے۔ نزدیکی کلاک ٹاور سے لگے ہوئے پارک کی ایک بنچ پر بیٹھتی ہے۔ اس کا بھورے رنگ کا اوور کوٹ پھٹا پرانا ہوتا ہے۔ سینما ہال میں چند لوگ ہوتے ہیں۔ اس سبب سے جو آدمی جہاں چاہے نشست کے نمبر کا خیال کیے ِبنا بیٹھ رہا ہوتا ہے۔ لڈوک، لوسی کے برابر والی نشست پر بیٹھ جاتا ہے۔ دو گھنٹے کی فلم ختم ہوتی ہے۔ لوسی اٹھ کر کھڑی ہوتی ہے اور اپنا ایک بازو اوور کوٹ میں ڈالتی ہے۔ لڈوک دوسری جانب اس کو اوور کوٹ پہناتا ہے۔ دونوں باہر نکلتے ہیں۔ لڈوک اس سے بات شروع کرتا ہے۔ پوچھنے پر وہ اپنے بارے میں سوالات کے جوابات دیتی ہے۔ وہ ایک فیکٹری میں کام کرتی ہے اور قریب کی ڈور میٹری میں رہائش پذیر ہے۔ وہاں اُسے گیارہ بجے سے پہلے پہنچنا ہوتا ہے۔ لڈوک اس کو ڈورمیٹری کے دروازے پر چھوڑتا ہے۔ اس کو نہ تو پیار کرتا ہے اور نہ ہی چھوتا ہے۔ یہ طے پاتا ہے کہ لڈوک چاہے تو اپنی چھٹی کے بارے میں پوسٹ کارڈ بھیج کر اس سے ملنے آسکتا ہے۔ کچھ دور جاکر جب لڈوک اس کی جانب پلٹ کر دیکھتا ہے تو لوسی پہلی بار اس کی آنکھوں سے آنکھیں ملاتی ہے اور اناڑی پن سے ہاتھ ہلاتی ہے۔ دونوں دیر تک ہاتھ ہلاتے کھڑے رہتے ہیں۔
اس شام لڈوک کا اندرون بدل گیا۔ اس کے اندر کوئی زندہ وجود آن بسا۔ گھڑیال جو دیوار پر مہینوں سے خاموش لٹک رہا تھا، ٹک ٹک کرنے لگا۔ وقت جو سست روی سے بے نام بہہ رہا تھا، انسانی صورت اختیار کرگیا۔ وہ پاسوں پر جینے لگا۔ ہر دن اس کو لوسی کے زینے پر بلند سے بلند تر کرتا جاتا تھا۔
لڈوک نے زندگی میں کسی عورت کو اپنے خیالات کا مرکز نہیں بنایا تھا، اور نہ ہی کسی عورت کا اتنا احسان مند ہوا تھا جتنا لوسی کا۔ احسان مندی اس کی کہ لوسی نے اس کو جنسی جذبات کی انتہائی تنگ اور محدود دنیا سے چھٹکارا دلا دیا تھا جس میں سب قید تھے۔ کہا جاسکتا تھا کہ اسٹانا نے بھی اپنی محبوبہ سے شادی کرکے اس سے باہر کی راہ اختیار کرلی تھی، لیکن جیسے ہی وہ اوسٹراوا کی ٹرین پر واپسی کے سفر کے لیے سوار ہوا، اس راہ پر سے اس کا اختیار ختم ہوگیا تھا۔ لڈوک کا معاملہ مختلف تھا۔ لوسی اس کے لیے ہمہ انتظار تھی خواہ وہ ہفتوں نہ مل سکیں، لڈوک کو اعتماد تھا۔ لڈوک پر جنسی مہمات کے بعد جو ڈپریشن مسلط ہوا تھا، وہ بھی غائب ہوگیا۔ جس درد میں وہ مبتلا تھا کہ اس کا مؤقف ناقابلِ فہم قرار دیا جاچکا تھا، لوسی کے رویے نے اس درد میں بھی کمی کردی تھی۔ لوسی کی دنیا میں کوسموپولی ٹانیزم ، بین الاقوامیت، نگرانی، طبقاتی کش مکش اور وہ سب جو پرولتاری آمریت کے زمرے میں آتا ہے، موجود نہیں تھا۔ ایسی زندگی جو سیاسیات کے پورے دائرے سے اور اس کے داؤ پیچ سے یکسر باہر تھی۔
لڈوک کو تاریخ کے پہیے کے قریب کھڑے ہونے کا احساس تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ہم نے تاریخ کو اپنا جادو جگانے کا موقع دیا۔ ہم— نوجوانوں کا طبقہ خاص طور پر اس وہم میں مبتلا ہوا اور ہے کہ ہم تاریخ کی پیٹھ پر سواری کر رہے ہیں اور اس کے پہیوں کو حرکت دے رہے ہیں۔ لڈوک نے چھہ ماہ میں سائبیریا کو بھگتا تھا اور اب اس کی نظروں کے آگے روز کی زندگی کا عرصۂ دراز سے گم شدہ گل زار تھا، اور اس گل زار میں ایک غریب، ترس کھانے کے لائق لڑکی تھی، لیکن ایسی لڑکی جو چاہے جانے کے لائق تھی— لوسی۔ لوسی کی عمر اُنیس سال تھی۔ اس کا تعلق مغربی بوہیمیا سے تھا۔ وہ گھر کے بارے میں بات کرنے سے گریز کرتی تھی۔ اس کی ماں اور اس کا سوتیلا باپ اسے مارتے پیٹتے تھے۔ ایک مرتبہ ان لوگوں نے پیسے چرانے کا الزام لگایا، تب اس نے گھر چھوڑ دیا۔ اسکول پاس کرتے ہی وہ ملازمت کرنے لگی۔ وہ سنجیدہ مزاج کی تھی۔ لڑکیاں ڈانس پارٹیوں میں جاتیں اور لڑکوں کو ڈورمیٹری میں لاتی تھیں۔ لوسی کو یہ ناپسند تھا۔ وہ اکیلے سینما دیکھا کرتی۔
موسمِ گرما کے ایک دن لڈوک، لوسی کی شفٹ ختم ہونے سے کچھ پیشتر پہنچا تھا اور باغ کی دیوار پر بیٹھ کر ایک کتاب پڑھنے لگا۔ اس کے بیگ میں تین شاعری کی کتابیں ہوا کرتیں جو اس نے اپنے پراگ کیایک دوست سے مانگ لی تھیں۔وہ ان کو اکثر پڑھتا رہتا تھا۔ یہ فرانٹی سک ہالاس کے شعری مجموعے تھے۔ اسی گرما میں لڈوک نے لوسی کو ہالاس کی ایک نظم سنائی، اگرچہ شعر کسی کو سنانے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔
اس نظم کے آخری تین مصرعے کچھ یوں تھے (چیک زبان میں):
مفہوم سے تہی الفاظ، میں تمھیں نہیں پیش کررہا، خاموشی نذر کرتا ہوں
حسن سے زیادہ، کسی بھی چیز سے زیادہ
ایک نوع کا جشنِ شناسائی
اچانک لوسی رونے لگی۔ وہ لڈوک کی گردن سے کسی بچی کی طرح لپٹ گئی تھی۔ اس کا سر لڈوک کے سینے پر پھیلے ہوئے سبز یونی فارم کے کپڑے میں دھنس گیا تھا۔ وہ روتی چلی گئی، روتی چلی گئی۔
پچھلے چند برسوں میں ہر طرح کی عورتوں نے لڈوک کے رویے کے خلاف برہمی کا اظہار کیاتھا۔ ان کا خیال میں لڈوک میں بے جا غرور اور تمکنت تھی۔ وہ ان کے جذبات کا خیال نہ رکھتا۔ لڈوک ایسا نہیں ہے جیسا کہ وہ سمجھتی تھیں۔ مغرور تو قطعی نہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس کا جیسا بھی سلوک عورتوں، خواہ مردوں کے ساتھ ہوتا ہے، اس کا رشتہ آپ ہی آپ اس کے ماضی سے جاملتا ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ایک منظر آموجود ہوتا ہے۔ ایک ہال جس میں بیٹھے ہوئے لوگ اس کے خلاف ہاتھ اٹھا رہے ہیں کہ وہ مجرم ہے۔ اس کو پارٹی سے خارج کیا جائے، اس کو تعلیم سے محروم کیا جائے۔ اس کو شہر بدر کیا جائے۔کیا لڈوک ان ہاتھ اٹھانے والوں سے کسی طرح کھلے دل سے میل جول رکھ سکتا ہے؟ کبھی کبھی لڈوک اس طرح بھی سوچتا کہ شاید اس کا رویہ ظالمانہ ہوتا ہے کہ وہ ہر ملنے والے کو ایک ہی کسوٹی پر جانچتا ہے۔ بہت ممکن ہے کوئی خلوصِ دل سے مل رہا ہو اور وہ اس کے ساتھ سکون و اطمینان کی زندگی گزارے اور اس ہال میں کبھی بھی قدم نہ رکھے جس میں ہاتھ اٹھتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس سے یہ حق قدرے جلد چھین لیا گیا تھا۔ وہ کسی معاملے میں ہاتھ اٹھانے یا نہ اٹھانے کے حق کا حامل ہوتا تو کیا وہ ہاتھ نہ اٹھاتا،یا پھر وہ اکیلا ہی ہاتھ نہ اٹھانے والا ہوتا۔ لڈوک جانتا تھا کہ اس ہال میں، اس دن اور اس وقت بیٹھے ہوئے کئی آدمیوں نے محض اس لیے ہاتھ اٹھائے کہ کہیں وہ اکیلے ہاتھ نہ اٹھانے والے شمارنہ ہوجائیں۔ لڈوک نے دل ہی دل میں یہ اعتراف کیا کہ وہ اس کی ضمانت نہیں دے سکتا کہ وہ خود کیا کرتا۔
لڈوک نے لوسی کے بارے میں سوچا اور اپنے آپ سے سوال کیا کہ وہ کس طرح اس لائق ہوا کہ لوسی سے محبت کرے؟ لوسی کو وہ کھلے بازوؤں اور بھروسا کرنے والے دل کے ساتھ قبول کرتا ہے۔ اسے تحفہ سمجھتا ہے۔ آسمانی تحفہ، ایسے آسمان کا تحفہ جو سخی اور بخشنے والا ہے۔ لڈوک کے لیے وقت کا یہ مرحلہ خوشی کا تھا۔ شاید زندگی میں سب سے زیادہ خوشی کا وقت۔ وہ روز بہ روز ایک نوع کے اندرونی امن و سکون میں اضافے کو محسوس کرنے لگا تھا۔ وہ لوسی سے شادی کرنے کی بھی خواہش کرنے لگا تھا۔ اگر ان کا رشتہ بے جوڑ اور نامناسب ہے تو اس نامناسبت میں وہ اور زیادہ دل کش ہورہا ہے۔ لڈوک کے ان چند خوشی کے مہینوں کے دوران اسے جو کمانڈنگ آفیسر میسر آیا، وہ بھی ایک اچھا انسان ثابت ہوا۔ اس موسمِ گرما میں وہ مہینے میں تین مرتبہ لوسی سے ملنے میں کامیاب ہوا۔ لڈوک، لوسی کو خط بھی لکھنے لگا تھا۔ لوسی نے اس کے کسی خط کا جواب نہیں دیا۔ لڈوک نے لوسی کے خط نہ لکھنے کو اس کی بدخطی اور کم علمی پر محمول کیا۔ لوسی نے لڈوک کو خط نہیں لکھے، لیکن اس کے بدلے میں پھول پیش کرنے شروع کردیے۔ جب وہ لوسی کے دیے ہوئے پھول لے کر اس کے ساتھ گلی گلی گھومتا تو قدرے بے آرام ہونے لگتا۔ اس نے لوسی کو یہ جتایا کہ دستور کے مطابق مرد عورتوں کو پھول دیتے ہیں۔ عورتیں مردوں کو پھول نہیں دیتیں، تو لوسی کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے۔ لڈوک نے یہ دیکھ کر لوسی کے پھولوں کی تعریف شروع کردی۔ پھر یہ ہوا کہ ہر ملاقات کے سمے پھول اس کے منتظر ہوتے۔ لڈوک نے اپنے دل میں اس کی یہ توجیہہ سوچی کہ لوسی چوںکہ بولتی بہت کم تھی اس لیے اس نے پھولوں کی مدد سے اس کمی کو پورا کرنا شروع کردیا تھا۔ لوسی کے پھول دینے کو لڈوک نے سمجھا یا نہ سمجھا، لیکن اس نے یہ فیصلہ آسانی سے کرلیا کہ اسے بھی لوسی کو ضرور کچھ دینا چاہیے۔ لوسی کے پاس تین ہی لباس تھے۔ وہ ان کو ایک سلسلے سے بدل بدل کر پہنتی تھی۔ وہ تینوں تار تار ہونے کے قریب تھے۔ اس کے اوور کوٹ کا حال بھی خستہ تھا۔ جگہ جگہ پھوسڑے نکل آئے تھے۔ یہ سب دیکھ کر، سوچ کر لڈوک نے لوسی کو ڈپارٹمینٹل اسٹور چلنے کی تجویز دی۔ لوسی کے رویے سے یہ ظاہر ہورہا تھا کہ لڈوک محض تفریحِ طبع کے لیے کہہ رہا ہے۔ وہاں سیل مین نے پہلے دو تین معمولی لباس لوسی کو پہنوائے، لیکن جب اس کی نگاہ اس کے یونی فارم پر بنے ہوئے انسگنیا پر پڑی تو قدرے اعلیٰ معیار کے لباس پیش کیے۔ لوسی کا جسم ان لباسوں سے بالکل ہی نئے روپ میں ڈھل گیا۔ جب لوسی نائٹ گاؤن زیب تن کر کے سامنے آئی تو لڈوک اسے شناخت نہ کرسکا۔
لباس لوسی پر سج رہے تھے یا لوسی لباسوں میں سج رہی تھی، یہ سوچنے کی بات تھی۔ لڈوک جس لوسی پر فریفتہ ہوا تھا وہ بچیوں جیسی تھی۔ اس کے بوسے بھی خشک اور بے جسم تھے۔ جس لوسی کو وہ نئے نئے لباسوں میں دیکھ رہا تھا وہ ایک متناسب بدن اور دل کش پنڈلیوں والی جوان عورت تھی۔
لوسی ڈور میٹری میں تین اور لڑکیوں کے ساتھ رہتی تھی۔ اتفاق سے ان تینوں لڑکیوں کو ایک ماہ کے لیے جبریہ زراعتی بریگیڈ میں بھیج دیا گیا۔ لڈوک نے لوسی سے کہا کہ وہ لوسی کے روم میں وقت گزارنا چاہتا ہے۔ لوسی نے پہلے انکار کیا، لیکن اصرار کرنے پر مان گئی۔
لڈوک کے ایک ساتھی اسٹانا کی کہانی الم ناک، بلکہ عبرت ناک ثابت ہوئی۔ مارچ میں ہونے والی، اسٹانا کی شادی کچھ ماہ بعد ہی ناکام ہوگئی۔ پہلے اسٹانا کو افواہیں ملیں کہ اس کی بیوی غیر مردوں سے جنسی تعلقات استوار کررہی ہے، پھر اسٹانا کی ماں، اسٹانا سے ملنے آئی اور ایک دن اس کے ساتھ گزارا۔ اس دوران اسٹانا نے بیوی کو خطوط لکھے۔ بیوی نے ان خطوط کے جواب میں اس کو یقین دلایا کہ افواہیں بے بنیاد ہیں۔ اسٹانا نے دو دن کی چھٹی مانگی۔ چھٹی نہیں ملی۔ بعد میں اس نے چوبیس گھنٹوں کی رخصت طلب کی۔ کمانڈر کو اس پر ترس آگیا اور اس طرح اسٹانا چوبیس گھنٹے کی رخصت پر پراگ گیا۔ اس کے بعد وہ نہیں لوٹا۔ اس کی کہانی لڈوک تک پہنچی۔
کہانی کچھ یوں ہے۔ اس کی انیس برس کی بیوی نے اعتراف کرلیا۔ دونوں میں مار کٹائی ہوئی۔ اسٹانا نے اس لڑائی کے دوران اپنی بیوی پر بوتل یا کوئی اور چیز دے ماری۔ وہ بے سدھ ہوکر لمبی لیٹ گئی۔ اسٹانا نے یہ خیال کیا کہ وہ مرگئی۔ اسٹانا فرار ہوگیا اور پہاڑی علاقے میں کہیں روپوش ہوگیا۔ دو ماہ بعد پکڑا گیا۔ اس پر مقدمہ چلا اور اسے جیل کی سزا ملی۔ بیوی نے اس سے طلاق حاصل کرلی اور پراگ کے ایک مشہور ڈراما ایکٹر سے بیاہ رچالیا۔ اسٹانا کی جب جیل کی مدت پوری ہوئی تو اسے کسی کان میں کام پر لگا دیا گیا۔ وہ کسی حادثے کا شکار ہوا جس سے اس کی ایک ٹانگ متأثر ہوگئی۔ جب اس ٹانگ کو جراحی سے الگ کیا گیا تو اس کی موت واقع ہوگئی۔
لڈوک کی زندگی میں تکلیف کے دن آگئے۔ اس کے قدرے نرم دل کمانڈنگ افسر سی او کو غائب دماغ ہونے کی بنا پر تبدیل کردیا گیا۔ اس کی جگہ ایک کم عمر سی او متعین کردیا گیا۔ وہ دیکھنے میں بیس برس کا لڑکا لگتا تھا۔ اس کا برتاؤ بہت سخت تھا۔ اس کی نظر میں وہ سب مجرم لوگ تھے اور مجرموں جیسے سلوک کے حق دار۔ اس کی افسری کے دوران سب سے پہلا الجھاوا مصور سینک (Cenek) کے ساتھ پیدا ہوا۔ اس میں لڈوک بھی الجھا۔ وہ جگہ جگہ دیواروں پر چسپاں کرنے کے لیے پوسٹر اور میورال تیار کرنے میں لگا تھا۔ اس نے کاغذ پر ایک بڑا پانچ فٹ اونچا، پچّیس فٹ لمبا میورال تیار کیا۔ اس میورال میں سینک نے ایک سوویت سپاہی کو کسی ہیرو کی شان سے کھڑا ہوا دکھایا تھا جس کے اطراف آٹھ یا نو عریاں عورتیں کھڑی تھیں۔ لڈوک اور دیگر ساتھی اس میورال کو دیکھنے میں لگے تھے کہ ایک سیاسی کومیسار وہاں پہنچ گیا۔ اس نے میورال پر توجہ نہیں دی (وہ سینک اور اس کی مصوری کی خصوصیات سے سابقہ سی او کے دور سے واقف تھا) اور اپنا لیکچر شروع کردیا۔ سب کرسیوں پر آگئے۔ اس نے ایک پمفلٹ پڑھنا شروع کردیا جس میں سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلسٹ نظام کے تحت کام کرنے والی افواج کے مابین فرق کو واضح کیا گیا تھا۔ اس دوران نیا کمانڈنگ افسر (سی او) ہال میں آگیا (اس کو سب بچہ افسر کہنے لگے تھے)۔ جیسے ہی بچہ افسر کی نظر دور لگے ہوئے میورال پر پڑی، اس نے چیخنے کے انداز میں سینک سے پوچھا، ’’اس کا کیا مطلب ہے؟‘‘ سینک اپنی جگہ سے اٹھا اور بچہ افسر کے سامنے کھڑا ہوکر بولا، ’’یہاں ہم سرخ فوج کی اہمیت کو تلمیحی پیرائے میں اجاگر ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ ہماری قوم جس کش مکش میں حالیہ زمانے میں مبتلا ہے، یہ سرخ فوج کا نمائندہ ایک سارجنٹ ہے۔ اس کی بیوی ہے۔ یہ محنت کش طبقے کی نمائندہ ہے۔ یہ فروری کا استعارہ ہے۔ یہ آزادی، فتح، اخوت کے نشاں ہیں۔ یہ بورژوا کی نمائندہ ہے جو پیٹھ دکھا کر موقع اور تاریخ سے فرار ہورہا ہے۔‘‘
جب سینک نے اپنی وضاحت ختم کی تو بچہ سی او نے اعلان کیا کہ مذکورہ میورال سرخ فوج کے لیے ہتک آمیز ہے اور اسے فوری طور پر اتار دیا جائے۔ سینک سے مخاطب ہوکر کہا کہ وہ اس کے نتائج بھگتے گا۔ ’’کس وجہ سے؟‘‘ لڈوک منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔ ’’کوئی اعتراض؟‘‘ سی او نے لڈوک سے سوال کیا۔ ’’مجھے میورال پسند ہے۔‘‘ لڈوک نے جواب دیا۔ ’’مجھے اس پر حیرت نہیں ہوئی۔ یہ استمنا بالید کرنے والوں کے لیے شان دار ہے۔‘‘ سی او بولا۔
’’مائسل بک (Myslbek) نے آزادی کی دیوی کا مجسمہ برہنہ بنایا ہے۔ ایلس (Ales) نے جزیرا (Jizera) ندی کو تین برہنہ عورتوں کی صورت مصور کیا ہے۔ تاریخ میں، ہر عہد میں آرٹسٹوں نے برہنہ عورتوں کو استعاراتی طور پر ّمشکل کیا ہے۔‘‘ لڈوک نے بچہ سی او کو یاد دلایا۔
میورال دیوار سے الگ کردیا گیا۔ سی او نے سینک اور لڈوک کو اس وقت کوئی سزا نہیں دی۔ کسی مناسب موقعے کے لیے مؤخر کردی۔
ایک دن ایک ڈھیلے ڈھالے کارپورل (Corporal) کی نگرانی میں کام کرتے ہوئے لڈوک اور اس کے ساتھی کام سے ہاتھ روک کر آپس میں گپیں ہانک رہے تھے۔ سی او سب کو قدرے فاصلے سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے لڈوک کا بازو پکڑا اور اس پر جیوجٹسو (Jujitsu) کا ایک داؤ مار کر پٹخ دیا۔ سب کو سنا کر یہ کہا کہ اسے یہ سزا اپنے ہاتھوں سے صرف اور صرف کام چوری پر دی۔ اس کے بعد ہر کوئی یہ توقع رکھے، اس کے ساتھ بھی یہ ہوسکتا ہے۔ سزا تھی دو روز کی بندش۔
لڈوک نے اس بچہ سی او کے لیے شدید نفرت ابھرتی ہوئی محسوس کی، اس سبب سے بھی کہ اس کے خلاف کسی اور طرح کے ردِعمل کی وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ سوچنا بھی تو لڈوک کی مجبوری تھی۔ وہ سوچتا گیا اور سوچتے سوچتے اس کی سوچ کے زاویے بدلتے چلے گئے۔ جلد ہی اس کی سوچ اس بچہ سی او کی عمر پر مرکوز ہوگئی۔ جوانی جو ہنوز نیم پختہ ہے، دیوانی ہے، ایسا کچھ کر دکھانے پر مائل جو گھٹیا فلموں کے ہیرو کرتے ہیں۔ اس سوچ کے ساتھ ہی اس کے ذہن میں کئی نام ابھر آئے۔ ایک سے ایج گروپ کی جوان نسل کے افراد کے۔ ان سب نے جدا جدا نقاب پہن رکھے ہیں۔ لازمی نہیں کہ ہر فرد کے پاس ایک ہی نقاب ہو۔ ایک سے زائد نقاب بھی ہوسکتے ہیں۔ ان میں پہلا نام جو لڈوک نے سوچا وہ مارکٹا کا تھا۔ اس کے بعد جو نام ابھر کر آیا وہ زمانک کا تھا۔ پھر اس کا اپنا نام سامنے آیا۔ تاریخ کی کتابوں سے بھی چند جواں سال افراد کے نام نکل آئے۔ جواں سال نیرو (Nero)، جوان عمر نپولین (Napoleon)۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ سب کے سب بچے تھے جن کو بڑا ہونا تھا اور وہ اس کے منتظر رہے ساری عمر۔
ایسا ہی ایک جواں عمر، لڈوک کی جماعت میں نیا نیا شامل ہوا۔ اس کا نام ا٭یلک سیج (Alexej) تھا۔ حالات نے اسے اس طرف بھیج دیا ورنہ اس کے یہاں آنے کا کوئی جواز نہ ہوتا۔ وہ ایک اعلیٰ مرتبے کے کمیونسٹ اوفیشل کا بیٹا ہے جس کو ان ہی دنوں گرفتار کیا گیا ہے۔ بچہ سی او کی مانند وہ بھی دیکھنے میں اپنی عمر سے چھوٹا لگتا ہے۔ صورت شکل میں سی او سے بہت دبتا ہوا۔ دبلا پتلا، مرجھایا ہوا سا، دبیز شیشوں کا چشمہ پہننے والا نوجوان ہے۔ چہرہ کیل مہاسوں سے بھرا ہوا۔ وہ پارٹی کارکن تھا۔ نکالا نہ گیا تھا۔ لڈوک جانتا تھا کہ وہ پارٹی کا وفادار ہے۔ اس نے اپنی حالت پر اپنی ایک مختصر اکلوتی نظم بھی لکھ رکھی ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ایلک سیج کس اذیت سے گزر رہا ہے، جب کہ خود اس کو لوسی نے اس طرح کی اذیت سے باہر نکال دیا ہے۔
پورا مہینہ بچہ سی او نے لڈوک کو سنیچر کا پاس نہیں دیا۔ جب پاس ملا تو وہ لوسی کی ڈور میٹری کی جانب دوڑ گیا۔ لوسی کی کمرے کی ساتھی لڑکیوں کی واپسی اگلے دن متوقع تھی۔ لڈوک کو چند گھنٹوں کا وقت میسر آیا تھا۔ لوسی بہت محبت، ناز، انداز اور پیار سے ملی۔ اس نے کمرے کا دروازہ کھولا، لیکن خود کواڑ کے پیچھے چھپ گئی۔ اس نے سیاہ گون اور ہائی ہیلز پہن رکھے تھے۔ اسی لباس میں سے جو لڈوک نے اسے ڈپارٹمینٹل اسٹور سے دلایا تھا۔ لوسی نے کمرے کو پھولوں اور سبز پتوں والی ٹہنیوں سے سجا رکھا تھا۔ بستر کی چادر کو اسپرے کیا ہوا تھا۔ کمرہ حجلۂ عروسی بن گیا تھا۔ دونوں میں بوس و کنار کا لامتناہی سلسلہ جاری تھا۔ لوسی کے انداز میں ایک ناقابلِ فہم خصوصیت نمایاں تھی۔ وہ اپنے آپ کو سپرد کر بھی رہی تھی اور اس سے بچ بھی رہی تھی۔ جب بھی لڈوک اس کے اسکرٹ پر ہاتھ ڈالنے کو ہوتا لوسی مزاحمت کرتی اور وہ بھی جم کر۔ اس طرح دونوں کو دستیاب وقت گزر گیا، البتہ لوسی نے آئندہ کے لیے وعدہ کرلیا۔
بچہ افسر کو اس سے تشفی مل رہی تھی کہ وہ لڈوک کی کمپنی کو چین اور سکون کا ایک لمحہ نہیں دے رہا تھا۔ اس نے ان کے اتواروں کو اذیت ناک بنا دیا تھا۔ اس کے مزاج کو سمجھ کر نان کمیشنڈ افسر بھی ان سب کو رگیدنے میں لگے رہتے تھے۔ ایک دن وہ ان سب کو ایک وسیع میدان میں لے گئے اور ریلے ریس (Relay Race) کرانے کا فیصلہ کیا۔ پورے اسکواڈ کو دس، دس افراد کے گروہوں میں تقسیم کرکے ریس شروع کرادی۔ دوسری جانب ان لوگوں نے اپنی جانب سے یہ فیصلہ کیا کہ اس ریس کو ناکام کرایا جائے۔ اس کے لیے کچھ لوگوں نے تھک کر نڈھال ہوکر گر گرپڑنے کا ناٹک کیا۔ کسی نے ٹانگ میں موچ آنے سے جھوٹ موٹ لنگڑانے کا ڈراما رچایا۔ صرف ایلک سیج حقیقت میں تھک کر گرا۔ جب سی او نے ریلے ریس میں ناکامی پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کے تھکنے کو موضوعِ گفتگو بنایا تو ایلک سیج نے تھکنے سے انکار کیا۔ سی او نے فیصلہ سنایا کہ ایلیک سیج نے ایک نوع کی بغاوت کا مظاہرہ کیا ہے، اسے دو ہفتے کی سزا ہوگی۔ باقی لوگ جو تھکنے کا عذر کررہے ہیں، ان کو معاف کیا جاتا ہے۔ ان کو دو ماہ تک کسی قسم کی چھٹی نہیں ملے گی۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ چھٹیوں میں لوگ اپنی صحت بگاڑ کر کم زور ہوتے جارہے ہیں۔ کان میں بھی ان کا کام معیار سے گرا ہوا پایا گیا ہے۔ یہ اقدام ان کی اپنی گرتی ہوئی صحت کو سنبھالنے کی خاطر کیا جارہا ہے۔
ایلک سیج نے نگرانوں کے سپرد ہونے سے قبل لڈوک سے بات کی اور اس کو اشارتاً سوشلزم کے خلاف ری ایکشنری جذبات کا حامل قرار دیا۔ اس نے جو کچھ اس کے ساتھ سلوک ہوا اور ہورہا ہے، اس کو مناسب قرار دیا، کیوںکہ اس کے باپ پر سوشلزم کے خلاف جاسوسی کا الزام ہے۔
جب لڈوک نے ہونزاسے نئی لگی ہوئی پابندی پر بات کی (اس کے ذہن میں لوسی تھی) تو اس نے کہا، ’’پریشان مت ہو، ہم پہلے سے بھی زیادہ باہر کی دنیا میں جاسکیں گے۔‘‘ ہونزا نے فوری طور پر ایک کمیٹی تشکیل دی۔ اس کمیٹی نے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اندر اپنی تجاویز مرتب کرلیں۔ تار سے بنے ہوئے حصار کے ایک کونے میں ایک جگہ منتخب کی گئی جہاں سے ایک کوٹیج صرف پندرہ فیٹ کے فاصلے پر تھا۔ کوٹیج ایک کان کن کا تھا۔ ایک نان کمیشنڈ افسر کو پیسے دے کر ساتھ ملا لیا گیا۔ منتخب مقام پر ضرورت کے مطابق تار کاٹ دیا گیا۔ اس کوٹیج کے مالک کان کن کو راضی کرلیا گیا کہ مقررہ وقت کے دوران کوٹیج کو مقفل نہ کرے۔ باہر جانے کے سلسلے میں یہ طے ہوا کہ ہر روز باہر جانے والوں کی تعداد منظم طور پر مقرر کی جائے۔ باہر جانے والے رینگتے ہوئے کٹے ہوئے تاروں کے نیچے سے گزریں۔ کوٹیج میں جائیں اور وہاں سے گلیوں گلیوں ہوتے ہوئے باہر کی دنیا میں۔
اس سے پہلے کہ باہر جانے والوں میں لڈوک کا نمبر آتا، بچہ سی او نے پتا چلا لیا۔ اس کے دوسرے ہی دن جب لڈوک اور سب لوگ کان کے اندر کام کررہے تھے، ہونزا اور اس کی کمیٹی کے تین ساتھیوں کا کورٹ مارشل ہوا اور ان کو جیل بھیج دیا گیا۔ سب کی چھٹیاں مزید دو ماہ کے لیے بند کر دی گئیں۔ اس کے علاوہ بچہ سی او نے دو واچ ٹاور تعمیر کروائے۔ لائٹ ہاؤس بنوایا اور جرمن شیفرڈ کتوں کے ساتھ ایک سرچ پارٹی بھی تعینات کردی۔
یقین سے تو نہیں کہا جاسکتا، لیکن ایلک سیج پر سب کا گمان پہنچا کہ اس نے بچہ سی او کو ہونزا کی اسکیم کی رپورٹ دی۔ چناںچہ لوگوں نے اسے طرح طرح سے زچ کیا۔ جب وہ دو ماہ کی سزا پوری کرکے واپس آیا تو اس کے بنک کے سامنے کی لکڑی کی دیوار پر کسی نے موٹر آئل سے لکھ دیا، ’’چوہے سے خبردار۔‘‘
ہونزا اور اس کے ساتھیوں کو باقاعدہ نگراں فوجیوں کے دستے کے ساتھ روانہ کردیا گیا۔ اس کے کئی دن بعد لڈوک اور ایلک سیج کے مابین بات چیت ہوئی۔ اس نے آنسوؤں بھری آنکھوں کے ساتھ اس الزام کی تردید کی کہ اس نے ہونزا اور اس کی اسکیم کی خفیہ رپورٹنگ کی۔ اس کے برعکس اس نے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے بچہ سی او کے خلاف لکھ بھیجا ہے۔ اس کے خیال میں سیاہ نشان والوں کو ری ایجوکیشن کے مقاصد کے تحت یہاں رکھا گیا ہے۔ بچہ سی او اور اس کے ساتھی اس مقصد کے برخلاف کام کررہے ہیں۔ یہ لوگ سوشلزم کے دشمن ہیں یا دشمنوں کے ایجنٹ ہیں۔ اس کے کچھ عرصے بعد سینک نے لڈوک کو ٹوکا۔ وہ اس چوہے سے کیا بات کررہا تھا؟ لڈوک نے جب اس کو یہ کہا کہ ایلک سیج بیوقوف تو ہوسکتا ہے، لیکن چوہا نہیں ہوسکتا، سنیک نے لڈوک سے جواب میں کہا کہ وہ بیوقوف ہو یا نہ ہو، لیکن چوہا ضرور ہے۔
لڈوک نے جو خطوط لوسی کو لکھے، اس کا نتیجہ سامنے آگیا۔ لوسی اس سے ملنے کانٹے دار تاروں کی باڑھ تک پہنچ گئی۔ دونوں میں بات چیت ہوئی۔ اس نے اپنے سابقہ رویے کی معذرت کی۔ پھول پیش کیا۔ باڑھ کے سوراخ میں دونوں کے لب بھی آپس میں ملے۔
لڈوک صبح کی شفٹ میں تھا۔ لوسی اس سے ہر رات تاروں کی باڑھ کے پاس ملتی۔ اس کے لیے پھول لاتی۔ لڈوک اس کو ہر روز خط لکھتا اور اس کی محبت میں سرشار رہتا۔ اس نے لوسی کے بارے میں اور اپنی محبت کے بارے میں اپنے کیمپ کے دوستوں کو ہم راز بنالیا۔ وہ لوسی کے ساتھ گزاری ہوئی راتوں کا ذکر کرتا جو اس نے گزاری نہیں تھیں۔ وہ لوسی کے برہنہ بدن کے بارے میں بھی باتیں کرتا جو اس نے کبھی دیکھا بھی نہیں تھا۔ وہ ایک دیہاتی لڑکی ہے۔ جب وہ اس کے لیے کپڑے اتار رہی تھی تو وہ پہلا واقعہ تھا، اس کی زندگی کا۔ وہ تابع داری، سپردگی کے اس مظاہرے کے وقت شرما بھی رہی تھی۔ جب لڈوک اس کی جانب بڑھا تو اس نے اپنے بدن پر اپنا ہاتھ ڈھانک دیا۔
’’وہ ہمیشہ سیاہ اونچی ایڑی کے بوٹ کیوں پہنے رہتی ہے؟‘‘ سوال کرنے والے سوال کرتے۔ لڈوک ان کو بتاتا کہ وہ کالی اونچی ایڑی کی سینڈل اسے لڈوک نے خریدوائی تھی۔ صورتِ حال یوں ہوگئی تھی کہ جب وہ لوسی کو دیکھتا ہوتا تو لڈوک کے دس کے قریب دیگر ساتھی بھی اپنے تخیل میں اسے دیکھتے۔ اونچی ایڑیوں کی سیاہ سینڈل پہنے اپنے چھوٹے سے کمرے میں چلتے پھرتے۔
لڈوک پہلی بار— زندگی میں پہلی بار کسی عورت کی مانگ محسوس کررہا تھا۔ بھرپور طلب جس میں اس کا جسم اور روح، اس کا سارا وجود، اس کی ہوس، اس کے محسوسات، نشاط و الم، توانائی، بے حیائی اور مکمل دائمی قبضے کی خواہش شامل تھی۔ ان دنوں وہ جنت میں تھا ایسی جنت جو کتوں کی ایک جماعت اور تاروں کی باڑھ کی نگہبانی میں تھی۔ لڈوک نے ان دنوں فیصلہ کیا کہ وہ لوسی سے تنہائی میں مل کر رہے گا۔ دوسری جانب لوسی نے اس کو یقین دلا دیا تھا کہ اس مرتبہ ’نہیں‘ نہیں کہے گی۔ اس نے فیصلہ کرلیا کہ اسے ہونزا کا طریقۂ کار اپنانا اور اسی راستے کو اختیار کرنا ہے جو اس نے ایجاد کیا تھا۔ وہ راستہ اس وقت بچہ افسر کے علم میں نہیں آیا تھا۔ لڈوک کو صرف اس کان کن سے ’تجدیدِ اجازت‘ کی ضرورت تھی جس کی کوٹیج میں پہلی پناہ لینی ہوتی۔ آگے اسے یہ کرنا تھا کہ کسی ایسی جگہ کی سبیل کرنی تھی جہاں وہ اور لوسی چھپ کر رہ سکتے۔ لڈوک کو جو کچھ کرنا تھا، رات میں کرنا تھا۔ دن میں پکڑ لیے جانا یقینی تھا۔ رات میں مسئلہ تھا سرچ لائٹ اور کتوں سے بچے رہنے کا۔ لوسی کو جب باڑھ کے تاروں کے پاس لڈوک نے یہ سب بتایا تو وہ جوش میں نہیں آئی اور لڈوک کو کسی قسم کا خطرہ لینے سے منع کیا، لیکن لڈوک نہیں مانا اور لوسی نہیں کہنا، نہیں چاہتی تھی۔
بالآخر وہ دن آگیا۔ لڈوک کے کچھ کر گزرنے کا دن، لیکن اس دن کا آغاز نامناسب طور سے ہوا۔ جب وہ سب شفٹ گزار کے آئے تو بچہ سی او نے ’فال ان‘ (fall in) کروایا۔ ان دنوں وہ سب کو جنگ کے خدشے سے آگاہ کرتا رہتا تھا۔ وہ یہ ضرور کہتا کہ ری ایکشنری لوگوں کے لیے سخت دن آرہے ہیں (اشارہ اِن لوگوں کی جانب ہوتا)۔ اس وقت اس کا رویہ قدرے بدلا ہوا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ کمیونزم کے وہ دشمن جنھوں نے نقاب پہن رکھے ہیں، ان سے سختی سے پیش آنا ہوگا، کھلے دشمنوں سے زیادہ۔ اور یہاں ایک ایسا ہی ناپاک گند کھانے والا کتا موجود ہے۔ یہ کہہ کر بچہ سی او نے ایلک سیج کو آگے آنے کا حکم دیا اور اپنی جیب سے ایک کاغذ کا پرزہ نکال کر اس کے منہ کی طرف کیا، ’’اس سے پہلے اس خط کو دیکھا؟‘‘ بچہ سی او نے ایلک سیج سے پوچھا۔
’’میں نے دیکھا ہے۔‘‘ ایلک سیج نے جواب دیا۔
’’تم ایک گند کھانے والے کتے ہو، ایک مخبر ہو اور جاسوس ہو، لیکن جب کوئی کتا کیں کیں کرتا ہے تو اس کی آواز کہیں نہیں جاتی۔‘‘ یہ کہہ کر بچہ سی او خط کو پھاڑ کر پرزے پرزے کردیتا ہے۔
’’تمھارے لیے میرے پاس ایک خط ہے، اس خط کے علاوہ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایلک سیج کو کھلا لفافہ دیتا ہے۔ ’’اس کو بلند آواز میں پڑھو۔‘‘ وہ حکم دیتا ہے۔ ایلک سیج لفافے سے ایک کاغذ نکالتا ہے، پڑھتا ہے اور منہ سے ایک لفظ نہیں نکالتا۔ ’’اس کو بلند آواز میں پڑھو۔‘‘ بچہ سی او اپنا حکم دہراتا ہے۔ ایلک سیج چپ رہتا ہے۔ ’’تم پڑھو گے یا نہیں؟‘‘ بچہ سی او نے پوچھا اور جب ایلک سیج نے کچھ نہ کہا تو وہ چلایا، ’’زمین پر گرو۔‘‘ (Hit the dirt) اور ایلک سیج زمین پر لیٹ گیا۔ بچہ سی او اس پر چڑھا۔ کچھ دیر بعد اس پر سے اُترا اور آگے کی صف کے کپڑوں وغیرہ پر نظر ڈالتے ہوئے آہستہ آہستہ گزرا۔ صف کے آخری سرے پر جاکر پلٹا۔ ایلک سیج کے قریب جاکر بولا، ’’اب پڑھو۔‘‘ ایلک سیج نے اپنی مٹی بھری ٹھوڑی اٹھائی، اپنا دایاں ہاتھ پھیلایا اور پیٹ کے بل لیٹے لیٹے بلند آواز میں پڑھا، ’’تمھیں اطلاع دی جاتی ہے کہ ۱۵؍ ستمبر ۱۹۵۱ء کو تمھیں کمیونسٹ پارٹی چیکو سلواکیا سے خارج کیا گیا ہے۔ دستخط منجانب ریجنل کمیٹی۔‘‘ بچہ سی او نے سب کو ڈرل کے لیے کارپورل کے حوالے کیا اور خود وہاں سے روانہ ہوگیا۔
کوئی ساڑھے چھہ بجے لڈوک کی ڈرل وغیرہ سے جان چھوٹی۔ اندھیرا ہوچلا تھا۔ جب وہ تاروں کی باڑھ تک پہنچا، لوسی وہاں کھڑی تھی۔ اس نے سب کچھ ٹھیک ٹھاک کا اشارہ دیا اور چلی گئی۔ لڈوک میس (Mess) میں پہنچا۔ گانے ہوئے پھر صفائی، اور پھر روشنیاں بجھ گئیں۔ لڈوک اس وقت تک بستر میں لیٹا رہا جب تک کارپورل نہ سوگیا۔ پھر وہ اٹھا، بوٹ چڑھائے اور جس حال میں تھا اسی حال میں باہر نکل گیا۔ شب خوابی کا قمیص اور سفید پاجامہ پہنے ہوئے۔ ہال سے ہوکر وہ صحن میں آیا۔ اسے سردی لگ رہی تھی۔ تاروں کی باڑھ کے جس کھلے حصے کی جانب لڈوک کو جانا تھا وہ مرکزِ علاج (infirmary) کے عقب میں تھا۔ اگر کوئی اسے روکتا تو وہ یہ بہانہ بنا سکتا تھا کہ اس کی طبیعت اچانک بگڑ گئی ہے اور وہ میڈیکل افسر کو جگانے جارہا ہے۔ وہ جھکا جھکا مرکزِ علاج کے سائے تک پہنچ گیا۔ سرچ لائٹ ایک سمت پر رکی ہوئی تھی۔ شاید وہاں کا سپاہی سست پڑ گیا تھا۔ وہ اندھیرے میں تھا۔ اس کے لیے اب ایک ہی خطرہ باقی رہ گیا تھا اور وہ تھا کتے والا پہرے دار۔ لڈوک کو اندازہ لگانا دشوار ہوگیا تھا کہ کتے والا پہرے دار کس سمت میں تھا، کیوںکہ کتا چپ تھا۔ وہ دس منٹ وہاں کھڑا رہا تھا کہ کتے کی غراہٹ سنائی دی۔ آواز عقب سے آئی، کیمپ کے دوسرے حصے سے۔ اس آواز نے لڈوک کی ہمت بڑھا دی۔ اس نے دوڑ لگادی۔ اس کو پانچ گز کا فاصلہ طے کرنا تھا۔ لڈوک پیٹ کے بل لیٹ گیا اور باڑھ کے تاروں کے نیچے سے باہر رینگ گیا۔ اس جگہ باڑھ کے تار زمین سے قدرے اوپر تھے، کیوںکہ وہاں ہونزا نے اپنی کاری گری دکھائی ہوئی تھی۔ زمین سے اٹھ کر لڈوک پھرتی سے کان کن کے کوٹیج تک پہنچ گیا۔ سب کچھ پلان کے مطابق ہوتا جارہا تھا۔ کوٹیج کا دروازہ کھلا تھا۔ کھڑکی کے پردے کے عقب میں روشنی تھی۔ لڈوک نے کھڑکی کے پٹ کھٹکھٹائے۔ ایک دیو قامت آدمی نے دروازہ کھولا اور لڈوک سے اندر آنے کو کہا۔ اس کی آواز بھی اونچی تھی۔ اندر کمرے میں ایک میز کے گرد پانچ اور آدمی بیٹھے تھے۔ میز پر ایک کھلی ہوئی بوتل رکھی تھی۔ انھوں نے لڈوک کو رات کے کپڑوں میں دیکھا، ہنسے اور سردی کا خیال کرکے ایک گلاس بھر کر ہاتھ میں دے دیا، یہ کہتے ہوئے، ’’ایک گھونٹ میں پی لو۔‘‘ بہت کم آمیزش والا ایتھائل الکوحل (ethyl alcohol) تھا۔ لڈوک نے پورا گلاس ایک سانس میں چڑھا لیا اور کھانسنے لگا۔ وہ سب ہنس پڑے اور لڈوک کے لیے ایک کرسی گھسیٹ دی۔ روداد سنی۔ اس کو ’’پاجامہ پوش بھگوڑے‘‘ کا خطاب دیا، ہنسی مذاق کرتے رہے۔ وہ تیس سالہ عمروں والے کان کنوں کا ایک گروپ تھا۔ وہ مل بیٹھ کر پی رہے تھے، لیکن کوئی بھی شراب سے بدمست نہیں ہوا تھا۔ لڈوک کو ایک اور گلاس پیش کیا۔ اُس کوٹیج کا مالک اس دوران اندر گیا، لڈوک کے لیے کپڑے لایا۔ کپڑے لڈوک کے لیے متناسب تو نہ تھے، لیکن پھر بھی کام چلاؤ ضرور تھے۔ اس نے ایک مہربانی یہ بھی کہ لڈوک کو اجازت دی کہ رات میں کسی وقت بھی اس کو جگا کر کپڑے تبدیل کرسکتا ہے۔
لڈوک باہر گلی میں نکلا اور دس منٹ کے اندر اس مکان پر پہنچ گیا جہاں لوسی کو ہونا تھا۔ لوسی نے چابی گھما کر اندر سے بند دروازہ کھولا۔ لڈوک نے اس وقت تک کی روداد لوسی کو سنائی۔ لوسی کے پوچھنے پر آیا اس نے شراب پی ہوئی ہے، لڈوک نے ہامی بھری۔ لوسی نے کہا، اس کا جسم خوف سے لرز رہا تھا، ’’کہیں لڈوک کو کچھ نہ ہوگیا ہو۔‘‘ لڈوک نے دیکھا لوسی یہ بتاتے ہوئے سر سے پاؤں تک لرز رہی تھی۔ لڈوک نے لوسی سے اپنے ڈھیلے ڈھالے لباس کے لیے معذرت کی۔ اس نے یقین دلایا، ’’کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘ لڈوک نے اس کے باوجود اوپر کا لباس اتار دیا۔ اسے اندر کا لباس قمیص اور پاجامہ مزید واہیات لگا اور اس نے اس کو بھی اتار دیا اور بالکل برہنہ ہوگیا۔ اس نے التجا کے انداز میں لوسی سے کہا کہ وہ بھی کپڑے اتارے تاکہ دونوں کے درمیان کچھ حائل نہ رہے۔ اس نے لوسی کے بدن پر ہاتھ پھیرا اور کپڑے اتارنے کے لیے بار بار کہا، لیکن اس نے لڈوک کے کہنے پر عمل نہیں کیا۔ لوسی نے اس سے کہا، ’’وہ کچھ توقف کرے۔ وہ کپڑے نہیں اتار سکتی، فوری طور پر نہیں، اتنی جلدی نہیں۔‘‘
لڈوک نے لوسی کا ہاتھ تھاما اور دونوں بستر پر بیٹھ گئے۔ لڈوک نے پھر اپنا سر لوسی کی گود میں رکھا اور کچھ دیر بے حس و حرکت پڑا رہا۔ کمرے میں چھت میں لگی ہوئی روشنی تو وہ بجھا چکا تھا، البتہ باہر گلی کے بلب کی زرد روشنی اس کے ننگے بدن کو اجاگر کررہی تھی۔ وہ یہ سوچ رہا تھا کہ سب کچھ اس کے برخلاف ہورہا ہے جس کے اس نے خواب دیکھے تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک ننگی لڑکی شراب پیش کرتی ہوتی، ایک کپڑوں میں ملبوس مرد کو۔ ایک ننگا مرد، ایک مکمل لباس پہنی ہوئی لڑکی کی گود میں لیٹا ہوا تھا۔ لڈوک نے خود کو کسی کرائسٹ کے روپ میں دیکھا، برہنہ بدن کسی مریم کے بازوؤں میں صلیب سے اتارے جاتے ہوئے۔ فرق یہ تھا کہ لڈوک مغموم اور اداس نہیں تھا، بلکہ ایک نوع سے دہشت زدہ تھا، کیوںکہ وہ لوسی کے پاس تسلی، دلاسے اور ہم دردی کے لیے نہیں آیا تھا۔ قطعی مختلف مقصد کے لیے آیا تھا۔ ایک بار پھر اس نے لوسی کی جانب بڑھنے کی کوشش کی، اس کو پیار کرکے (اس کے چہرے اور کپڑوں کو) اور غیر محسوس طریقے سے بند قبا میں سے کچھ کھولنے کی— وہ زیادہ آگے نہ بڑھ سکا۔ لوسی نے ایک بار پھر اپنے آپ کو چھڑا لیا۔ لڈوک کا جذبہ، والہانہ تڑپ اور خود اعتمادی غائب ہوچکی تھی۔ بوس و کنار، لپٹنا، لپٹانا اور پیار بھرے لفظوں کا ذخیرہ، سب کچھ ختم ہوچکا تھا۔ وہ بستر پر بے حس و حرکت لیٹا ہوا تھا برہنہ، اور لوسی اس پر جھکی ہوئی اپنی کھردری انگلیوں سے اس کا چہرہ سہلا رہی تھی۔ آہستہ آہستہ لڈوک شدید کڑواہٹ اور غصے سے مغلوب ہوتا جارہا تھا۔ ذہن ہی ذہن میں وہ لوسی کو یہ جتانا چاہتا تھا کہ اس نے کیا خطرات مول لیے، لیکن حقیقت میں اس کا دکھ بہت گہرا تھا۔ اس دکھ کا رشتہ اس کی جوانی سے جڑا تھا۔ جوانی کے ساتھ ہی بے معنی اور عبث رشتوں کے پیدا ہونے اور قطع ہونے کا سلسلہ لگا اور نتیجہ ہر مرتبہ شکستِ آرزو، خلش، حسرت، یاس، تشنہ کامی اور سوختہ جانی۔ مارکٹا سے ناکام محبت، ٹریکٹر والی لڑکی سے گھناؤنا تعلق۔ پھر لوسی سے یہ دیوانہ وار وابستگی۔ وہ جانتا تھا کہ لوسی اس سے محبت کرتی ہے، لیکن اس آگاہی سے اس کا غصہ فزوں ہوتا جاتا تھا، کیوںکہ محبت کے باوجود اس کا یہ بچنا، الگ ہونا، ناقابلِ فہم تھا۔ غصہ دلانے والا تھا۔ آدھا گھنٹا اسی طرح گزر گیا۔ لڈوک نے ایک مرتبہ پھر حملہ کیا۔ لوسی کی جانب کروٹ لی اور پوری طاقت سے اس کے اسکرٹ کو اوپر کیا، چولی کو کھینچا اور پستانوں کو بھینچ کر پکڑ لیا۔ لوسی نے قریب قریب اتنی ہی زور آزمائی کی اور فوری طور پر اس کی گرفت سے آزاد ہوئی۔ بستر کے نیچے کودی اور الماری کے سامنے جاکھڑی ہوئی۔
’’تم مجھ سے لڑ، کیوں رہی ہو؟‘‘ لڈوک چیخا۔
جواب میں وہ بڑبڑ کرنے لگی جیسے اس سے ملتجی ہو۔ معافی کی طالب ہو، لیکن کوئی واضح جواز نہ بتا سکی۔ قبول کرنے کے لائق منطقی جواز۔
’’تم مجھ سے لڑ، کیوں رہی ہو؟ کیا تم نہیں جانتی کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں؟ تم ضرور پاگل ہوگئی ہو۔‘‘ لڈوک بولا۔
’’تب مجھے نکال باہر کرو۔‘‘ لوسی الماری کی جانب مزید کھسکتی ہوئی بولی۔
’’میں ایسا ہی کروں گا۔ میں ایسا ہی کروں گا۔ تم مجھے بیوقوف بنا رہی تھیں۔‘‘ لڈوک اسے الٹی میٹم دینے کے انداز میں کہہ رہا تھا، ’’یا تم اپنا آپ میرے سپرد کرو یا پھر میں تم سے کبھی نہیں ملوں گا۔‘‘
وہ ایک بار پھر اس کی طرف گیا اور اپنے بازو اس کے گرد حمائل کیے۔ اس مرتبہ اس نے لڈوک کو نہیں روکا، لیکن اس کا بدن بے جان سا ہوگیا، جیسے اس کے بدن سے زندگی ہی رخصت ہوگئی ہو۔
’’آخر تمھارے کنوار پن میں ایسی کیا خاص بات ہے؟ تم اسے کس کے لیے بچا رکھنا چاہتی ہو؟— کوئی جواب نہیں۔ کچھ تو بولو۔‘‘ لڈوک بولا۔
’’تم مجھ سے محبت نہیں کرتے ہو۔‘‘ لوسی نے کہا۔
’’میں تم سے محبت نہیں کرتا۔‘‘
’’نہیں، تم نہیں کرتے۔ میں سمجھی تھی تم کرتے ہو، لیکن تم نہیں کرتے۔‘‘
پھر وہ رونے لگی۔ لڈوک گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ اس نے لوسی کے پیر چومے۔ التجا کی، لیکن وہ روتی رہی اور کہتی رہی کہ لڈوک اس سے محبت نہیں کرتا۔
اچانک لڈوک پر جنون پرور غصہ مسلط ہوگیا۔ اس نے محسوس کیا کوئی ماوراے فطرت طاقت اس کی راہ میں حائل ہے اور مستقل طور پر اس کے ہاتھوں سے ہر اس شے کو چھین رہی ہے جس کے لیے وہ جی رہا ہے، ہر شے جس کی اس نے خواہش کی، ہر شے جس پر اس کا حق تھا اور جو اس کی تھی۔ اسی طاقت نے اس سے پارٹی چھینی، اس کے کامریڈوں کو اس سے دور کیا، یونی ورسٹی کی ڈگری سے محروم رکھا۔ ہمیشہ ناقابلِ فہم طور پر اور بغیر کسی سبب کے۔ لڈوک کو یوں لگا کہ وہی بدی کی قوت لوسی کے روپ میں اس کے برخلاف ایستادہ ہے۔ لڈوک نے لوسی کو ایک تھپڑ رسید کیا، کیوںکہ لوسی اب لوسی نہیں تھی، بدی کی اس قوت کی آلۂ کار تھی۔ لڈوک نے تھپڑ لگا کر لوسی سے کہا کہ وہ اس سے نفرت کرتا ہے۔ اس کو دوبارہ دیکھنا بھی نہیں چاہتا۔ کبھی نہیں، جب تک وہ زندہ ہے۔ یہ کہہ کر اس نے لوسی کا بھورا کوٹ اس کی طرف پھینکا اور چیخا، ’’نکل جاؤ۔‘‘
لوسی نے کوٹ پہنا اور باہر نکل گئی۔
لڈوک کے دل میں خلا سا پیدا ہوگیا۔ وہ چاہتا تھا کہ لوسی کو واپس بلا لائے، کیوںکہ وہ لوسی کو اس وقت بھی یاد کررہا تھا جب اسے باہر نکال رہا تھا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ پوری طرح ملبوس، ضدی اور کہنا نہ ماننے والی لوسی ہزار گنا بہتر ہے، لوسی کے بغیر رہنے سے، کیوںکہ لوسی کے بغیر رہنا پوری طرح تنہا ہوجانا ہے۔
یہ سب جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی لڈوک اسے واپس نہ لاسکا۔ لڈوک اسی طرح برہنہ خاصی دیر تک بستر پر لیٹا رہا۔ واپسی کا سفر اس کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ وہ ان خوش مزاج کان کنوں کے جنسیت سے مملو رکیک استہزائیہ فقروں سے کس طرح عہدہ برآ ہوگا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ بہرحال وہ اٹھا۔ کان کنوں میں سے کسی نے نیند میں جمائیاں لیتے ہوئے اس کے مزے لوٹنے والی مہم کے بارے میں کچھ پوچھا۔ اس نے جواب میں کچھ بک دیا اور ایک بار پھر قمیص اور پاجامہ پہن کر کیمپ لوٹ گیا۔ وہاں اس کی مڈ بھیڑ کتے کے ساتھ گشت لگانے والے سنتری سے ہوئی۔ کتا بھی غرایا۔ لڈوک کی آنکھوں پر روشنی بھی پڑی، ’’تم وہاں کیا کررہے ہو؟‘‘ سنتری نے پوچھا، ’’الٹی کررہا ہوں کامریڈ سارجنٹ۔‘‘ لڈوک نے جواب دیا۔
وہ بستر پر دراز ہوگیا، لیکن سو نہ سکا۔ تاآںکہ این سی او کی آواز گونجی، ’’سب لوگ اٹھ کھڑے ہوں‘‘ اور اس منحوس رات کا خاتمہ ہوگیا۔ لڈوک اٹھا ٹھنڈے پانی کے چھپاکے بدن پر مارے۔ لوٹ کر اس نے دیکھا کہ ایلک سیج اس وقت تک سویا پڑا تھا اور کارپورل اس کے لیے پانی لینے گیا ہوا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ ایلک سیج پر کارپورل نے دو تین گیلن پانی انڈیل دیا، لیکن ایلک سیج نہیں جاگا۔ اس نے خودکشی کرلی تھی۔ پارٹی سے نکالا جانا اس سے برداشت نہ ہوسکا۔ کیمپ کی زندگی کے معمولات معمول کے مطابق چلتے رہے۔
لڈوک ریگ زار میں آگیا تھا۔ ریگ زار کے اندر ریگ زار۔ اس نے لوسی کو پکارنا چاہا۔ اچانک اس نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ اس نے آخر کیوں لوسی کے جسم کی طلب اتنی شدت سے کی؟ وہ جسم والی نہیں تھی۔ نہ ختم ہونے والے کہرے کے خطۂ ارضی میں وہ ایک شفاف غیر مادّی منارہ تھی۔ حرارتِ جاں بخش کا شفاف منارہ اور اس نے اُسے جانے دیا، دور کردیا۔
اگلے روز ڈرل کے دوران لڈوک نے باڑھ پر نظریں جمائے رکھیں، مبادا لوسی دکھائی دے۔ وہ تو نہیں آئی البتہ لڈوک کی نظروں میں ایک بڑھیا آئی جو اپنی ناک بہاتی ہوئی پوتی کو ہمارا تماشا دکھا رہی تھی۔ اس شام لڈوک نے لوسی کو ایک طویل خط لکھا۔ اس کو یقین دلایا کہ وہ اس سے اور کچھ نہیں مانگے گا ماسوا رفاقت اور اُنس۔ موسم اچانک خوش گوار ہوگیا تھا۔ ایک شان دار اکتوبر، خزاں کی مستانہ واپسی۔ لڈوک کے دل کا موسم اس کے برعکس تھا۔ اس کے خطوط کے جواب نہیں ملے تھے۔ دو ہفتے بعد اس کا اپنا ایک خط اسے واپس مل گیا۔ اس پر لکھا تھا، ’’گھر چھوڑ دیا۔ پتا نہیں چھوڑا۔‘‘ لڈوک پر بجلی گر گئی۔ اس رات کے واقعے کے بعد لڈوک نے اپنے ذہن میں اس رات کی ایک ایک حرکت، ایک ایک بات سو سو مرتبہ یاد کی۔ کبھی اس کو اور کبھی خود کو موردِ الزام ٹھہرایا، لیکن لفافے پر لکھی ہوئی تحریر نے فیصلہ ہی کردیا۔
لڈوک اس مرتبہ دن میں نکل بھاگا۔ لوسی کے بارے میں اسے کچھ معلوم نہ ہوسکا۔ نہ تو ڈورمیٹری سے، نہ ہی اس کی جوب کی جگہ سے۔ کیمپ سے اس کے غائب ہونے کا معاملہ بھی خفیہ نہ رہ سکا۔ اس کا کورٹ مارشل ہوا اور دس ماہ کی سزا ملی۔ اس کی ماں فوت ہوگئی۔ وہ اس کے جنازے میں بھی شریک نہ ہوسکا، جیل میں ہونے کی وجہ سے۔ دس ماہ کی جیل بھگتنے کے بعد لڈوک نے سیاہ نشان والوں کے کیمپ میں اپنی فوجی خدمت کا آخری برس گزارا۔ اس کے بعد وہ تین برسوں کے لیے کان کنی میں لگ گیا بطور ایک سویلین کے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو ایک مرتبہ پھر فوج کی زندگی بسر کرنی پڑتی۔
لڈوک کی زندگی میں کچھ بھی ایسا نہ تھا جس پر وہ ناز یا فخر کرسکتا۔ ماسوا ان دکھوں کے جو اس نے جھیلے۔ زندگی میں کسی بھی اہم معاملے میں وہ فعال نہیں رہا۔ اس نے زندگی نہیں گزاری، بلکہ زندگی کو جیسے تیسے بھگتایا۔ جہاں تک لوسی کا تعلق ہے۔ پندرہ برس بعد اس کی خبر ملی۔ اسے ڈسچارج ملنے کے بعد اس نے لوسی کے بارے میں سنا کہ وہ مغربی بوہیمیا میں کسی مقام پر ہے۔ لڈوک اس سے ملنے نہیں گیا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...