لڈوک اور میں ایک دوسرے کے ہم درد تھے۔ دونوں کے حالات ایک سے تھے۔ اس کو یونی ورسٹی سے نکالا گیا تھا۔ میں نے یونی ورسٹی سے استعفیٰ دیا تھا۔ جب میرے دشمنوں نے میرے خلاف کارروائیاں کیں تو لڈوک نے میری حمایت میں آواز اٹھائی، لیکن ہمارے خیالات اور نظریات ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ میں جیسس کرائسٹ اور عیسائیت سے جڑا ہوا تھا۔ میں سوشلسٹ فکر کا حامی ہونے کے باوجود خدا کا ماننے والا تھا۔ لادین نہیں تھا۔ وہ میرا مقابل اور حریف تھا۔ ہم پہلی بار ۱۹۴۷ء میں ملے تھے۔ فروری کے کو (coup)، تختہ الٹنے سے پہلے عیسائی فکر سے میرا ربط کمیونسٹوں کے لیے دل چسپ موضوع تھا۔ میں عیسائیت اور کمیونزم میں مشابہتیں اُجاگر کرتا تھا۔ ان دنوں کمیونسٹوں کے پیشِ نظر ایک ہی مقصد ہوا کرتا تھا، اپنے حلقۂ اثر کو بڑھانا۔ فروری کے بعد معاملات برعکس ہوگئے۔ بہرحال میں نے جب ریسرچ چھوڑی اور ازخود استعفیٰ دیا تو مجھے سفارشی خطوط کے ساتھ رخصت کیا گیا۔ مغربی بوہیمیا کے ایک ریاستی فارم میں میری تعیناتی ہوگئی۔ جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد اس علاقے کو جرمنوں سے واگزار کرالیا گیا تھا۔ وہاں کا ماحول مجھے راس آیا۔ کہرا، لامحدود سبزہ زار، گایوں کے ّگلے، بھیڑوں کے ّگلے۔ میں وہاں محنت سے کام کرنے لگا اور ممکنہ تیزی سے اس کو جدید بنانے کی کوشش شروع کردی۔
کئی سال تک ہم نہیں ملے۔ یوں بھی ہمارے درمیان ملنا جلنا کم ہی رہا۔ البتہ تخیل میں اس سے( لڈوک جاہن) سے اکثر ملتا رہتا۔ غائبانہ بات چیت بھی کرتا، کیوںکہ وہ میرا سب سے اہم حریف تھا۔ کل جب وہ گوشت پوست میں ملا تو میں اپنے آپ کو سنبھال نہ سکا۔ یہ اتفاق تھا کہ اس سے جب بھی ملنا ہوتا، میں ضرور کسی مشکل میں ہوتا اور وہ میری مدد کرتا۔ باہر ہم ایک دوسرے سے جڑے تھے، لیکن اندر سے ہم ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ میرے لیے ہمارے اندرون کا اختلاف بہت اہم تھا۔ اس سبب سے میں نے اس کو اپنا حریف سمجھا۔ لڈوک اندرونی اختلاف کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔
میری اس سے پہلی ملاقات ۱۹۴۷ء میں ہوئی۔ بڑی کش مکش، کھینچا تانی کا زمانہ تھا۔ کمیونسٹ اقلیت میں تھے۔ میں ان کے ساتھ تھا۔ عیسائی کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں ہی کی نظروں میں، میں منکرِ خدا تھا۔ آج بھی، جب کہ پندرہ برس بیت گئے، میرے مؤقف میں کوئی تغیر نہیں آیا۔ عیسائیوں کی زندگی پر جب میں غور کرتا ہوں تو وہ مجھے نام کے عیسائی لگتے ہیں، کیوںکہ وہ حضرت عیسیٰ مسیح کی تعلیمات کے مطابق زندگی نہیں گزارتے۔ مجھ میں بقول ان کے منکرِ خدا اور ان میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔
میرا باپ ایک مزدور تھا۔ اس کو ڈھنگ کی ملازمت یا کام نہیں ملا۔ لوگوں نے، اپنوں نے، گرجا والوں نے میرے باپ کو کچھ نہ دیا۔ اس کو چھوڑے رہے یہاں تک کہ وہ بیمار پڑا اور وفات پاگیا۔
گرجا نے ورکنگ کلاس کو بے سہارا چھوڑا۔ سوشلزم نے اس کو سہارا دیا۔ ایسے میں مجھے کیا کرنا ہے؟ حقیقی مذہب کو سیکولر طاقتوں کے تعاون یا حمایت کی حاجت نہیں ہوتی۔ سیکولر قوتوں سے ٹکراؤ مذہبی اعتقادات کو استحکام بخشتا ہے۔ کیا مجھے سوشلزم کے خلاف جہاد کرنا چاہیے، کیوںکہ وہ خدا کے وجود کو نہیں تسلیم کرتا ہے؟ میں اس پر افسوس کرسکتا ہوں کہ سوشلزم خدا کا منکر ہے اور اس کو درست کرنے کی سعی کرسکتا ہوں۔
فروری میں تختہ الٹے جانے (coup) سے قبل میرا عیسائی ہونا کمیونسٹوں کی نظروں میں تھا۔ جب میں گوسپل (Gospel) کے حوالوں سے دنیا میں بڑھتے ہوئے برے حالات کی بات کرتا اور عیسائیت اور کمیونزم کے درمیان مماثلت کا ذکر کرتا، دونوں نجی ملکیت اور جنگوں کے خلاف ہیں تو وہ میرے مؤقف کو سراہتے۔ ان دنوں کمیونسٹوں کو حمایتیوں کی ضرورت تھی۔ کو (coup) کے بعد صورتِ حالات مختلف ہوگئی۔ یونی ورسٹی میں لیکچرر کے فرائض کی انجام دہی کے دوران میں نے کئی طالب علموں کو یونی ورسٹی سے خارج کیے جانے سے بچایا، جن کو ان کے والدین کے سیاسی مؤقف کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا تھا۔ میری ان کارروائیوں سے یونی ورسٹی کی انتظامیہ میرے خلاف ہوگئی اور میرے خلاف یہ رویہ اختیار کیا جانے لگا کہ کسی راسخ العقیدہ عیسائی سے کمیونسٹ طلبہ کو پڑھوانا نامناسب ہوگا۔ اس زمانے میں مجھے پتا چلا کہ ایک طالبِ علم جس کا نام لڈوک جاہن ہے میری حمایت میں آواز بلند کررہا ہے۔ اس نے پارٹی کے الزام تراشی کے اجلاس میں مؤقف اختیار کیا کہ ُکو سے قبل جس نے کمیونسٹوں کا ساتھ دیا، اس کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنا احسان فراموشی ہوگی۔
میں نے لڈوک جاہن سے مل کر اس کا شکریہ ادا کیا، لیکن اس کو دھوکا نہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا، میں یوں بھی کوئی بچہ نہیں اور نہ ہی وقت کے گزرنے کے ساتھ میرے اعتقادات میں تبدیلی آنے کے امکانات ہیں۔ پھر ہم دونوں میں خداے تعالیٰ کی موجودگی یا غیرموجودگی کے موضوع پر بحث ہوئی۔ اس کے علاوہ مذہب کے متعلق ڈیکارٹ کے مؤقف اور اسپینوزا بطور ایک مادّہ پرست اور دیگر موضوعات پر اختلافِ رائے واضح طور پر سامنے آیا۔ آخر میں اس نے یہ کہا کہ مذہب کسی فرد کا نجی معاملہ ہے۔ پھر یہ ہوا کہ اس کے تین چار ماہ کے اندر لڈوک جاہن کو یونی ورسٹی اور پارٹی سے نکال دیا گیا۔ اس سے میری ملاقات اس بحث مباحثے کی ملاقات کے بعد نہ ہوسکی۔ چھہ ماہ کے اندر میں نے یونی ورسٹی سے استعفیٰ دے دیا، یا حالات میرے لیے ناسازگار ہوتے چلے گئے اور مجھے یہ قدم اٹھانا پڑ ہی گیا۔
’’میرے پیچھے آؤ۔‘‘ جیسس نے اپنے مریدوں سے کہا اور بغیر تأمل انھوں نے اپنے جال چھوڑ دیے، اپنی کشتیاں، اپنے گھر اور خاندان اور اس کے پیچھے چل نکلے، لیکن ہم کہاں جائیں۔ کس کے پیچھے چلیں، اگر ہم اپنے جال چھوڑ بھی دیں؟
’’وہ کام نہیں جو آپ انتخاب کرو گے، بلکہ وہ جو آپ کے ارادے کے برخلاف، آپ کے ذہن کے اور آپ کی خواہش کے: یہی ہے وہ رستہ جس پر آپ کو چلنا ہے۔ جدھر میں آپ کو بلا رہا ہوں، وہاں آپ کو ہونا ہے، اس کے مرید کو، وہی قوت، وہی رستہ جس پر آپ کا آقا چلا۔‘‘ لکھا لوتھر (Luther) نے۔
میرے یونی ورسٹی نہ چھوڑنے کے حق میں کچھ دلائل تھے۔ میری بیوی اور پانچ سالہ بچے کے حق میں، میرے مستقبل کے حق میں، کیوںکہ بالآخر مجھے پروفیسری ملنے والی تھی۔ میرے یونی ورسٹی چھوڑنے کے حق میں یہ دلائل تھے کہ میں ان کے ساتھ ہوجاتا۔ وہ بے شمار لوگ جو نکالے گئے یا مجبور ہوئے۔ اس کے علاوہ یونی ورسٹی چھوڑ کر میں جیسس کے راستے پر چل رہا تھا جس نے کہا کہ راہِ حق میں کل کی پروا نہ کرو۔ کل خود اپنی فکر کرلے گا اور یہ کہ مجھے آزادی کا احساس ہورہا تھا۔ بہرحال میں ریاست کے کھیتوں میں کام کرنے کے لیے سفارشی خطوط کے ساتھ رخصت ہوا۔
میں نئے ماحول میں کافی خوش تھا۔ مجھے نیا جنم ملا تھا۔ جنگ کے بعد جس علاقے کو جرمن قابضین سے چھڑایا گیا تھا وہ ابھی تک کم آباد تھا۔ اس کے اطراف پہاڑیاں تھیں۔ درخت بھی نہ ہونے کے برابر تھے۔ دیہات اور جھونپڑیوں پر مشتمل گاؤں ایک دوسرے سے دور دور تھے۔ کہرا میرے اور ان دیہاتوں کے درمیان رہتا تھا اور دنیا ایسی تھی جیسی تخلیق کے پانچویں دن ہوگی جب خداے تعالیٰ یہ فیصلہ نہیں کر پارہا تھا کہ اسے آدمی کے سپرد کرے یا نہ کرے۔
لوگ فطرت کے قریب زندگیاں بسر کررہے تھے۔ نہ ختم ہونے والے گھاس کے میدان، گایوں کے ّگلے اور بھیڑوں کے ّگلے۔
میں اپنے آپ کو مفید کاموں میں مصروف کرنے میں مطمئن محسوس کررہا تھا۔ ڈائریکٹر میری سوچوں اور کام سے خوش تھا۔
گھاس اکٹھا کرنے کے نئے طریقے کا آغاز کیا۔ کھیتوں میں کھاد ڈلوانے کی ترویج کی۔ گرین ہاؤس بنوائے۔ دوائیہ جڑی بوٹیوں کی کاشت شروع کی۔ میری خوش بختی کہ وہاں کے ڈائریکٹر میرے ہم خیال نکلے۔ انھوں نے فرسودہ طریقۂ کار پر جدید ذرائع کو ترجیح دی۔ وقت ۱۹۵۱ء ستمبر سے اکتوبر، نومبر کی طرف رواں ہوا۔ میں نے ایک انوکھے موسمِ خزاں کو گزرتا دیکھا۔ نومبر کا وسط تھا۔ سردی قدم جما رہی تھی کہ اس نواح میں ایک لڑکی کی موجودگی دریافت ہوئی۔ لڑکوں نے گھاس کے ایک ڈھیر سے ایک لڑکی کو باہر نکل کر بھاگتے دیکھا۔ اس واقعے پر ابھی تبصرے جاری تھے کہ ایک عورت نے بتایا کہ اسے ایک لڑکی نظر آئی۔ وہ لڑکی خستہ حال تھی۔ بات کرنے پر اس نے بتایا کہ وہ راستہ بھٹک گئی ہے اور پیدل چل رہی ہے۔ لڑکی نے کھانے کے لیے کچھ مانگا۔ عورت نے دیا۔ پھر وہ چلی گئی۔ کچھ دنوں کے اندر ایک چرواہے نے اطلاع دی کہ اس نے کسی جگہ اپنے لیے روٹی، مکھن اور دودھ سے بھرا جگ رکھا تھا۔ جب وہاں لوٹا تو سب کچھ غائب تھا۔ ایک مرتبہ اس لڑکی کو دیکھ کر کسی نے اس کی جانب روڑا پھینکا تو چھوٹے لڑکے اس سے لڑ پڑے۔ پھر یہ ہوا کہ وہ چھوٹے لڑکوں کی محبت بھری توجہ کا مرکز بن گئی۔ بچوں نے اس کو گھومتی پھرتی پری (wandering fairy) کا نام دیا۔
اس کا آغاز اس طرح ہوا، بچوں نے ایک مرتبہ الاؤ سلگایا اور اس میں آلو بھونے۔ جاتے سمے کچھ آلو گرم راکھ میں داب کر چھوڑ دیے۔ اس پر ٭ َفر، کی ایک ٹہنی کھڑی کردی جس پر ایک کاغذ پھنسا دیا اور پتھر سے دبا دیا۔ اس کاغذ پر بڑے بڑے حروف میں یہ لکھا تھا ’’گھومنے والی پری، یہ تمھارے لیے ہے۔‘‘ یہ سب کرنے کے بعد بچے اِدھر اُدھر چھپ کر بیٹھ گئے۔ لڑکی نہیں آئی۔ بچے گھروں کو چلے گئے، لیکن تڑکے اٹھ کر دیکھا تو آلو، ٹہنی اور پرچہ سب کچھ غائب تھے۔ اس تجربے کے بعد وہ اس پری کے لیے دودھ کے جگ، روٹی ،آلو اور پیغام چھوڑنے لگے۔ انھوں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ اپنے تحفے کسی جگہ ایک سے زائد مرتبہ نہیں رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح تو فقیروں کو خیرات دی جاتی ہے۔ وہ اس لڑکی سے کھیل، کھیل رہے تھے۔ چھپے ہوئے خزانے کا کھیل۔ وہ ان جگہوں کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتاتے تھے اور نہ ہی لڑکی کو سرپرائز دیتے اور نہ اس کے لیے چھپ کر بیٹھتے۔ وہ اس لڑکی کو پوشیدہ رہنے کا پورا موقع دیتے رہتے۔
اس ’’فیری ٹیل‘‘ کا جلد ہی اتمام ہوگیا۔ ایک دن اس فارم کا ڈائریکٹر مقامی کونسل کے چیئرمین کے ساتھ دیہات کے اندر کے علاقے میں دور تک گیا۔ وہاں جرمنوں کے چھوڑے ہوئے مکان نما جھونپڑے خالی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کو ان کام کرنے والوں کی شبانہ قیام گاہوں کے طور پر درست کرلیا جائے تاکہ جو اندر دور تک کام پر جائیں، وہ ان میں رات ٹھہر سکیں۔ اچانک بارش شروع ہوگئی اور اس نے طوفانی انداز اختیار کرلیا۔ پاس ہی ان کو ایک جھونپڑی نظر آئی۔ انھوں نے اس جھونپڑی میں پناہ لی۔ وہاں ڈائریکٹر کے ہاتھ میں ایک سوٹ کیس لگا۔ مجھے ملنے والی اطلاعات کے مطابق انھوں نے سوٹ کیس کھولا تو اس میں لڑکیوں کے چار ملبوس تھے۔ نئے اور دل کش۔ اس میں دیگر چھوٹے کپڑوں کے ساتھ اور نیلے ربن سے بندھا ہوا خطوط کا ایک پلندہ ملا۔ ان خطوط میں کیا تحریر تھا ،مجھے نہیں معلوم ہوسکا۔ ڈائریکٹر اور چیئرمین نے خطوط پڑھے یا نہیں، یہ بھی مجھے معلوم نہ ہوسکا۔ مجھے صرف اتنا معلوم ہوا کہ خطوط کے ذریعے سوٹ کیس کی ملکیت معلوم ہوسکی۔ وہ سوٹ کیس ’’لوسی سبٹکا‘‘ کی ملکیت تھا۔
ڈائریکٹر اس جھونپڑی کے باہر چھپا رہا اور چیئرمین دیہات سے ایک بڑی مونچھوں والا سپاہی لے آیا۔ شام سمے لڑکی آئی۔ جھونپڑی کے اندر گئی۔ اس کا دروازہ بند کیا۔ اس کے لیے کوئی راہِ فرار نہیں رہی اور وہ پکڑی گئی۔ مجھے اس واقعے میں بہت کچھ ناجائز اور ناپاک لگا۔
لوسی اس رات جھونپڑی میں نہیں سوئی۔ پولیس آفس میں اس کی رات لوہے کی چارپائی پر گزری۔ دوسرے دن اس کو کونسل کے سامنے پیش کیا گیا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ اس نے اوسٹراوا میں کام کرنا کیوں چھوڑا، تو لوسی نے زیادہ تر چپ سادھے رکھی۔ وہاں سے لوسی چب (Cheb) جارہی تھی، لیکن پھر وہ راستے میں ٹرین سے اتر گئی۔ جب اسے خیال آیا کہ اس کا باپ اسے مارے گا۔ کونسل کے چیئرمین نے کہا، اسے اوسٹراوا بھیجا جائے گا، کیوںکہ وہاں سے ڈسچارج کے کاغذات کے بغیر نکلی تھی۔ لوسی نے کہا، وہ ٹرین سے اتر جائے گی۔
آخرکار یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسے ’’گرین ہاؤس‘‘ میں لگا دیا جائے۔ کونسل کا چیئرمین اسے مجھ سے ملانے لایا۔ چیئرمین نے لوسی کو رسمی نصیحت کی اور آفس میں چرواہے کا جگ دینے چلا گیا۔ میں لوسی کو گرین ہاؤس لے گیا۔ وہاں کام کرنے والی دو لڑکیوں سے اس کا تعارف کروایا اور کام کی نوعیت بتائی۔
میں لڈوک کی پرچھائیں کے مقابل باتیں کرتا ہوں۔ ’’تم کہا کرتے تھے کہ سوشلزم کا پودا پھوٹا ہے یورپی ریشنلزم (Ratonalism) اور اسکیپٹی سیزم (Skepticism) کی مٹی سے جو بہ یک وقت غیر مذہبی بھی ہے اور مخالف مذہب بھی۔ اس کا تصور اس سے ہٹ کر کیا بھی نہیں جاسکتا، لیکن کیا تم سنجیدگی سے یہ مانتے ہو کہ سوشلسٹ سوسائٹی کی تشکیل مادّے کی فوقیت (supermacy of matter) میں اعتقاد کے بغیر ممکن نہیں؟ کیا تم سچ مچ یہ سوچتے ہو کہ جو لوگ خدا کو مانتے ہیں، فیکٹریوں کو قومیانے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟
میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جیسس کی تعلیمات سے جو فکریات نکلتی ہیں، زیادہ فطری طریقے سے سماجی مساوات اور سوشلزم کی طرف جاتی ہیں، اور جب میں پہلے مرحلے کے جذباتی کمیونسٹوں کو دیکھتا ہوں تو ایسا ہی محسوس کرتا ہوں۔ مثال کے طور پر کونسل کے چیئرمین کو لیجیے جس نے لوسی کو میرے تحت کام پر لگایا۔ ایسے لوگ والٹیرین (Voltarien)، اسکیپٹکس (Skeptics) کے مقابلے میں خاصے مذہبی نظر آتے ہیں۔ ۱۹۴۸ء سے لے کر ۱۹۵۶ء کے انقلابی عہد میں اسپکٹی سیزم اور ریشنلزم بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔ اس عہد کا آدمی ایسے احساسات کا حامل دیکھنے میں آتا ہے جو ہر طرح سے مذہبی لگتے ہیں۔ وہ اپنی انا کو مٹایا ہوا، انفرادیت اور نجی زندگی کو اعلیٰ مقاصد پر قربان کیا ہوا دکھائی دے گا۔ اجتماعی فلاح کی سوچ شخصیت اور انفرادیت کو اجتماعیت کی بلندیوں پر پہنچا دیتی ہے۔ سپر پرسنل (superpersonal) بنا دیتی ہے۔ سچ، مارکسزم کی بنیادی فکریات صاف صاف لادینی ہیں، لیکن ان کو جو اہمیت دی جاتی ہے وہ کتب ہاے مقدسGospal)) مذہبی اور انجیلی (Biblical) احکامات کے مماثل ہے۔ وہ اس حد کو پہنچ چکے ہیں کہ ان سے روگردانی نہیں کی جاسکتی اور اسی سبب سے ہماری اصطلاح میں اٹل ہیں۔
جس وقت تک لوگ پریوں کی کہانیوں میں پناہ ڈھونڈتے ہیں وہ معزز، ہم درد اور شاعرانہ رہتے ہیں۔ روزمرہ کی زندگی میں آتے ہی وہ محتاط، اعتماد سے خالی اور شکی بن جاتے ہیں۔
لوسی ایسی ہی صورتِ حال سے دوچار تھی۔ قریباً ایک ماہ میں اس کی فائل اوسٹراوا سے آگئی۔
اس کے مطابق اس نے اپنی عملی زندگی چھب (Cheb) میں کسی ہیئر ڈریسر کی ماتحتی میں شروع کی۔ کسی اخلاقی غیر ذمے داری کے الزام کی وجہ سے اس کو ایک برس ریفارمیٹری میں رکھا گیا۔ وہاں سے وہ اوسٹراوا گئی۔ وہاں ایک اچھی ورکر کا نام کمایا۔ ڈورمیٹری میں اس کا رویہ مثالی رہا۔ وہاں سے اس کے فرار سے قبل وہ قبرستان سے پھول چرانے جیسے عجیب جرم میں پکڑی گئی تھی۔
میں نے ڈائریکٹر سے کہا کہ میں اس کی دیکھ بھال کروں گا۔ میں نے لوسی سے ہر روز بات کرنا شروع کیا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں ان دنوں دوائیہ پودوں کی کاشت پر توجہ دے رہا ہوں۔ ان جڑی بوٹیوں پر جو عرصۂ دراز سے عوام کے استعمال میں ہیں اور امراض کے علاج میں مجرب ثابت ہوئی تھیں۔ برینٹ جس کو ہیضے اور طاعون میں شفا بخش پایا گیا۔ سیکی فریج یا پتھر توڑ بوٹی جو ِ ّپتے کی پتھریوں کو گلانے میں شہرت رکھتی ہے۔ لوسی کو جڑی بوٹیوں سے دل چسپی تھی، لیکن وہ ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی تھی۔ وہ ایک خاموش سامع تھی۔
سردی کے موسم نے شدت پکڑی تو میں نے اس کو تنخواہ کے علاوہ رقم دلوا دی تاکہ وہ جاڑے سے مقابلے کے لیے برساتی اور دیگر ضروری کپڑے خرید سکے۔ میں نے جب لوسی سے خدا اور جیسس کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ خدا کے بارے میں وہ قطعیت سے کچھ کہنے کی حالت میں نہ تھی اور جیسس کے بارے میں وہ جو محسوس کرتی تھی وہ صرف کرسمس تک محدود تھا۔ وہ جیسس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی جانب راغب تھی۔
لوسی قبرستان سے پھول چراتی تھی۔ اس کو علاقے میں کہیں پھول نہیں ملتے تھے۔ وہ قبرستان سے پھول لے جاکر ڈورمیٹری میں اپنے گل دان میں سجاتی تھی۔ یوں بھی وہ قبرستان سے، روضوں سے، مقبروں سے، قبر پر لگی ہوئی تختیوں اور ان کی تحریروں سے دل چسپی رکھتی تھی۔ پکڑی اس طرح گئی کہ وہ کسی ایسی قبر پر جھکی جو دو تین دن قبل بنی تھی۔ ایک بڑی عمر کا جوڑا اسی قبر پر پہنچا۔ ایک اجنبی لڑکی کو اس قبر پر جھکا دیکھ کر انھیں تجسّس ہوا۔ وہ دُور کھڑے لوسی کو دیکھتے رہے۔ انھوں نے قبرستان کے مجاور سے رابطہ کیا۔ اس طرح وہ گرفت میں آئی۔ ان میاں بیوی کو یہ گمان گزرا تھا کہ لوسی کا متوفی سے کوئی خفیہ محبت کی قسم کا رشتہ ہوگا۔
میں نے جب لوسی سے پوچھا کہ آیا اس نے صرف پھولوں کی چوری کے الزام میں گرفتار ہونے، بے عزت ہونے کی وجہ سے اوسٹراوا چھوڑا یا کسی اور وجہ سے، تو اس نے کہا کہ ایک آدمی جو فوجی تھا، اسے ایک نیم تاریک کمرے میں لے گیا تھا۔ اس کمرے میں ایک بستر تھا۔ وہاں اس نے لوسی پر ہاتھ ڈالا، اس کے کپڑے پھاڑے۔ لوسی نے اس سے لڑائی کی اور اس کے بعد اس علاقے ہی کو چھوڑ دیا۔ وہ فوجی دوسروں کی مانند بے ہودہ نکلا۔
لوسی سے جب میں نے اس سے ماقبل ہونے والے بے ہودہ تجربے کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ بیس برس سے کم عمر لڑکوں کے ایک گینگ کی واحد سولہ سالہ لڑکی رہی تھی۔ خالی فلیٹوں میں اور باہر وہ شراب اور جنس کے کھیل کھیلتے تھے۔ لڑکے پکڑے گئے اور مختلف سزاؤں کے حق دار بنے۔ لوسی کو (گھر میں چھب میں) زبردست مار پڑی۔ ایک سال ریفارمیٹری میں رکھا گیا۔ سترہ برس کی عمر میں رہائی ملی اور وہ کالے شہر چلی گئی۔
میرے خیال میں لڈوک چوںکہ خدا اور مذہب کو نہیں مانتا تھا، خدا کی رحمت اور گناہوں سے بخشش کا بھی قائل نہ تھا۔ میںنے لڈوک سے دل ہی دل میں کہا، ایسی دنیا میں جینا جس میںکسی کو معافی نہ ملتی ہو اور ہر نوع کی بخشش ناممکن ہو، دوزخ میں جینا ہے لڈوک— اور مجھے تم پر ترس آتا ہے۔
میں لوسی کا نفسیاتی علاج کرنے چلا تھا۔ میں نے اس کو خدا کی رحمت اور گناہوں سے بخشش کے عمل سے آگاہ کیا۔ روزبہ روز اس کو یقین دلاتا گیا کہ سب کچھ برا ہی برا نہیں۔ جہاں برا ہے وہاں اچھا بھی ہے۔ میں نے یہ سب کچھ اپنا فرض سمجھ کر کیا۔ پھر موسم بدلا۔ بہار آئی۔ سیب کے پیڑوں میں سیب رقص کرنے لگے۔ لوسی مسکرانے لگی۔ پہلے لوسی کے پاس ماضی تھا اور نہ ہی مستقبل، صرف اور صرف حال تھا۔ وہ حال کی ٹوٹی پھوٹی سوراخ دار کشتی میں زندگی گزار رہی تھی۔
ایک دن میں سیب کے پیڑ کے تنے سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کیے کھڑا تھا اور میرے تخیل میں ایک جلوس سا گزر رہا تھا جو شاید بچوں پر مشتمل تھا۔ بچوں کے ہاتھوں میں، نہ دکھائی دینے والے ہاتھوں میں قندیلیں تھیں۔ اچانک میں نے اپنے گالوں پر ہاتھ کا لمس محسوس کیا اور ایک آواز یہ کہتی سنائی دی، ’’تم بہت مہربان ہو مسٹر کوسٹکا۔‘‘
میں نے اپنی آنکھیں نہیں کھولیں۔ میں نے ہاتھ کو نہیں ہٹایا۔
پھر وہ آواز زیادہ ہلکی ہوئی، ’’میں آپ سے محبت کرنے لگی ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔ مجھے نکل چلنا چاہیے تھا۔ میں اپنی ڈیوٹی کرچکا تھا، لیکن کم زور پڑگیا۔ اس وقت وہاں کوئی نہیں تھا۔ میں نے لوسی کو اپنے بازوؤں میں لپیٹ لیا۔ ہم دونوں فطرت کی آغوش میں گم ہوگئے۔
کوسٹکا کا ایک بیٹا اور بیوی پراگ میں تھی۔ وہ لمبے وقفوں کے بعد ان کے پاس جاتا تھا۔ کوسٹکا نے یہ مان لیا تھا کہ جو کچھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا، لیکن وہ لوسی کے دل کو دُکھانا نہیں چاہتا۔ وہ یہ جانتا تھا لوسی اس سے محبت کرنے لگی اور بہار رُت میں اس کا پیڑ اپنے سارے پھول اس پر نچھاور کررہا تھا۔ اندر ہی اندر وہ یہ بھی محسوس کرنے لگا تھا کہ وہ لوسی کو شروع ہی سے جسمانی طور پر چاہنے لگا تھا۔ وہ سوچتا تھا کہ لوسی سے اس کی باتیں جن کا محور خداے تعالیٰ کی ذاتِ واحد اور جیسس کی تعلیمات رہی تھیں، اس نئی تبدیلی سے کسی اور ہی روپ میں سامنے آگئی تھیں۔ وہ پادری کے بھیس میں کسی عورت کو ورغلانے والا آدمی بن چکا تھا۔
پھر یہ ہوا کہ حالات، باہر کے حالات نے پلٹا کھایا۔ خدائی کام مشکل ہی سے سمجھ میں آتے ہیں۔ بہ ظاہر سخت، بہ باطن نرم، بے دردی کی صورت میں ہم دردی۔ ڈائریکٹر کے خلاف حکامِ اعلیٰ کسی سبب سے متحرک ہوئے۔ اس کے خلاف شکایات میں ایک شکایت یہ بھی تھی کہ اس نے مجھ جیسے آدمی کو اپنے ساتھ لگا رکھا ہے جس کو یونی ورسٹی سے نکالا گیا تھا اور جو مذہبی عالم جیسا ہے۔ ڈائریکٹر نے میرے خلاف دونوں الزامات کا دفاع کیا، لیکن میں نے خود آگے بڑھ کر فارم سے استعفیٰ دیا کہ فارم کے کاموں میں ناکامی سے دوچار ہورہا ہوں۔ ڈائریکٹر نے اس پر خفگی ظاہر کی، لیکن میرے استعفیٰ کو قبول کرلیا، کیوںکہ اس کے حق میں یہی بہتر تھا۔ میرے اور لوسی کے حق میں بھی بہ ظاہر یہی بہتر تھا۔ مجھے تعمیرات کے کام میں لگا دیا گیا۔
۱۹۵۶ء کے خزاں میں ایک دن پراگ براٹس لاوا (Prague Express Bratislava) کی ڈائنگ کار میں لڈوک سے ملاقات ہوئی۔ پانچ برسوں کی مدت بعد یہ ہماری پہلی ملاقات تھی۔
لڈوک کو جب یہ پتا چلا کہ کوسٹکا نے فارم سے ازخود استعفیٰ دیا تو اس نے کوسٹکا کے اقدام کو ناپسند کیا اور دونوں میں اختلافِ رائے اور بحث شروع ہوگئی، لیکن کوسٹکا ہی دلائل دیتا رہا اور لڈوک کے نفرت کے رویے کو غلط قرار دیتا رہا۔ اس نے لڈوک کے اس مؤقف سے بھی انحراف کیا کہ اس کے معاملے میں ’ناانصافی ہوئی‘۔ لڈوک کا تضحیک کا رویہ تھا اور نامناسب تھا۔ جرم اور گناہ کا مسئلہ بھی زیرِ بحث آیا۔ لڈوک نے تسلیم نہیں کیا کہ اس سے کوئی گناہ سرزد ہوا تھا۔ ایک بات اور کوسٹکا نے زیادہ تر دل ہی دل میں باتیں کیں۔ کتاب کے چھٹے باب کے اٹھارھویں حصے کا اتمام مندرجہ ذیل فقرے پر ہوا، ’’لیکن نفرت کے ثمرات کیا ہیں، اگر مزید نفرت نہیں، نفرت کا ایک تسلسل؟ تم دوزخ میں جی رہے ہو۔ لڈوک، میں دہراتا ہوں، دوزخ میں، اور میں تم پر ترس کھاتا ہوں۔‘‘ اس سے تقابل کے لیے ملاحظہ ہو صفحہ ۱۹۸؍ آخری سطر۔
اختلافِ رائے کے باوجود لڈوک نے کوسٹکا کو تعمیرات کے کام سے ہٹا کر اسکول میں کام دلانے کی کوشش کی۔ اس میں ناکام ہونے کے بعد اسے چوہوں پر وائرس، ویرل اور جراثیم کی تحقیقات کے کام میں لگوانے میں کامیاب ہوا۔ یہ اس کا کوسٹکا پر بڑا احسان تھا۔ وہ تھا ہی ایک فیض رساں آدمی۔ کوسٹکا کے فارم ہاؤس سے رخصت ہونے کے کئی برس بعد لوسی نے شادی کرلی۔ پھر وہ اپنے میاں کے ساتھ اسی شہر میں آگئی جہاں کوسٹکا ہسپتال میں کام کررہا تھا۔ لوسی اس سے ملتی رہی۔ ان ملاقاتوں میں وہ کوسٹکا سے یہ کہتی رہی کہ اس کی شادی شدہ زندگی مثالی گزر رہی تھی، جب کہ اس کا شوہر قصائی فطرت تھا اور لوسی کو مارنے پیٹنے کے علاوہ اس سے وفا بھی نہیں کررہا تھا۔ چھوٹے شہروں میں ایسی باتیں چھپی نہیں رہتی تھیں۔ کوسٹکا اس کو اپنی ایک کامیابی کے بطور دیکھنے لگا تھا۔ کوسٹکا کو اس کی بیوی قطعی ناپسند تھی، بلکہ ناقابلِ برداشت تھی۔ کوسٹکا اس کو طلاق بھی دینا نہیں چاہتا تھا۔ یہ اس کی فطرت کے منافی تھا۔
کوسٹکا، لوسی کے ساتھ اپنے سلوک کو سوچ کے زاویے بدل بدل کر دیکھتا ہے۔ ایک بات وہ اعتراف کی صورت میں تسلیم کرنے لگا تھا کہ وہ لوسی کا نجات دہندہ اتنا نہیں تھا جتنا اس کو ورغلانے والا ہوگیا تھا۔ وہ یہ بھی سوچتا تھا کہ لوسی کی خوشی اس کے (کوسٹکا کے) اختیار میں تھی، لیکن اس نے راہِ فرار اختیار کی۔ کوسٹکا خود سے سوال کرتا کہ جس کو وہ خدائی حکم یا رحمت سمجھا وہ درحقیقت ایک انسانی فرض نبھانے میں اس کی کوتاہی یا گریز بھی تو ہوسکتا ہے؟
اس حصے کے خاتمے پر وہ خدا تعالیٰ سے التجا کرتا ہے، ’’میرے خدایا مجھے بتائیے کیا یہ سچ ہے؟ کیا میں حقیقت میں اتنا گیا گزرا اور لائقِ تضحیک ہوں؟ کہہ دیجیے یہ سچ نہیں ہے۔ مجھے یقین دلا دیجیے۔ مجھ سے بولیے خداوند، بلند آواز میں۔ آوازوں کے اس ہجوم میں لگتا ہے آپ کی آواز سن نہیں پارہا۔‘‘
صفر کی توہین پر ایک دو باتیں
اگر دو بالکل مختلف الخیال افراد یہ قسم کھا کر کسی چائے خانے میں گفتگو کرنے بیٹھیں کہ ہم اختلافی...