نیند نے لڈوک کی جمعے کی مہم کے درمیان دیوار کھڑی کردی تھی۔ وہ اپنے آپ کو اور کچھ نہیں تو قدرے محفوظ خیال کرنے لگا تھا۔ لوسی، اوسٹراوا سے پراسرار اور ظالمانہ طور پر غائب ہوئی تھی۔ ادھر لڈوک فوجی ملازمت سے فارغ ہوگیا تھا۔ وہ اس کے تعاقب میں نہیں نکلا۔ اس کے لیے عملی طور پر ملازمت کی وجہ سے یہ کرنا ممکن نہیں تھا۔ بعد میں ایسا کرنے کی خواہش بتدریج کم ہوتی گئی۔ اس نے اپنے آپ کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ مانا کہ وہ بڑی حد تک منفرد تھی، مانا کہ وہ اس سے محبت کرتا تھا، لیکن محبوب کو اس کے حالات سے غیر متعلق کرکے سوچنا منطقی طور پر غلط تھا۔ وہ عورت کے اس وجود یا رُخ سے محبت کرتا تھا جو وہ اسے دے رہی تھی۔ وہ اس کی محبت کی کہانی کا ایک کردار تھی۔ وہ شیکسپیئر کے ڈرامے ’’ہیملٹ‘‘ (Hamlet) کی اوفیلیا (Ophelia) تھی۔ اس کا وجود ایک نظریہ، ایک خیال تھا۔ وہ اوسٹراوا سے ُجڑی تھی۔ اس کا ہونا ’’ایبسٹریکٹ اسٹیٹ‘‘ (خیالی شکل) میں تھا۔ اسی سبب سے لڈوک کو حجام کی دکان میں لوسی کو لوسی مان لینے میں تأمل ہوا۔ لوسی اس کے ذہن میں اپنا جسمانی وجود زائل کرچکی تھی۔ وہ ایک لیجنڈ، ایک پہیلی بن چکی تھی۔ وہ آٹھ بجے بیدار ہوا۔ قدرے تساہل سے بستر چھوڑا۔ سر، گردن اور منہ دھویا۔ اس دن اسے ہیلینا کا انتظار تھا۔ ہوٹل میں سنیچر کو ناشتا نہیں ملتا تھا۔ وہ باہر ناشتا کرنے کے لیے نکلا۔ وہ چاہتا تھا کہ ذرا قوت بخش ناشتا، انڈوں، بیکن اور الکوحل کا مل جائے۔ ایسا ناشتا اس کو کہیں نہیں ملا۔ کہیں پر رول وغیرہ لے کر کام چلانا پڑا، لیکن من پسند ناشتے کی تلاش میں اور بعد میں محض وقت گزاری کے خیال سے وہ گھومتا پھرا۔ شہر اور اس کے باسیوں کا خاصا مشاہدہ کرتے گھومتے پھرتے وہ ایک (آڈیٹوریم) ہال میں جاپہنچا۔ وہاں مقامی میونسپل آفس کے زیرِ اہتمام نوزائیدہ بچوں کے ماں باپ ایک رجسٹر پر اپنے دستخط ثبت کرتے تھے۔ ایسے عہد نامے پر کہ وہ اپنے بچوں کی ریاست کے قانون اور اصولوں کے پابند شہری کے طور پر پرورش کریں گے۔ اس سارے کام کا انچارج لڈوک کا ایک ہم سبق کوالک (Kovalik) تھا جو لڈوک کو پہچان لیتا ہے۔ لڈوک کو اسے شناخت کرنے میں اس لیے مشکل ہوتی ہے کہ اس کی پیشانی کے بال کم ہوچکے تھے۔ وہ اسے آفس چلنے کے لیے کہتا ہے اور یہ بھی پوچھتا ہے کہ اسکول کے ساتھیوں کے گروپ میں شامل کسی اور سے ملنے کا اتفاق ہوا؟ لڈوک نہیں میں جواب دیتا ہے۔ اس کے ساتھ میونسپل آفس چلنے سے معذرت کرتا ہے، کیوںکہ اسے کسی سے ملنا ہے جو بس میں آنا والا ہے۔
لڈوک جب باہر نکلتا ہے تو پندرہ منٹ مزید انتظار کرنے کے لیے باقی ہوتے ہیں۔ بس اسٹیشن جاتے ہوئے وہ ایک نظر حجام کی دکان کی کھڑکی میں ڈالتا ہے۔ ابھی لوسی کے وہاں پہنچنے کا وقت نہیں ہوا تھا۔ ہیلینا کے خیال کے ساتھ ہی اس کا گہرے میک اپ والا چہرہ، سرخ رنگے ہوئے بال والا دکھائی پڑتا ہے۔ وہ ہیلینا کی نظروں سے بچ کر پیچھے پیچھے چلنے لگتا ہے۔ وہ اتنی بری نہیں لگی جتنی لڈوک نے اپنے ذہن میں بنائی ہوئی تھی۔ وہ ہوٹل پہنچی اور کلرک کو اپنا نام بتایا،زمانک، ہیلینا زمانک۔ رجسٹریشن کرانے کے بعد اس نے کلرک سے پوچھا، آیا کامریڈ جاہن (Jahn) ہوٹل میں قیام کرتے ہیں؟ اس نے نہیں میں جواب دیا۔ لڈوک نے آگے بڑھ کر اس کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا۔ جو کچھ لڈوک اور ہیلینا کے درمیان پیش آیا وہ ایک واضح اور سوچے سمجھے پلان کا حصہ تھا۔ اس میں ہیلینا کی کشش کا یا اس کے لیے لڈوک کی دلی چاہت کا کوئی دخل نہ تھا۔ سارا مسئلہ یا معاملہ اس پر تکیہ کرتا تھا کہ ہیلینا کے نام کے ساتھ زمانک لگا تھا اور اس کے شوہر زمانک سے لڈوک نفرت کرتا تھا۔ ہیلینا زمانک کو مقامی ریڈیو کی جانب سے لڈوک کا انٹرویو کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں اس کے تحقیقی کام پر یہ انٹرویو ہونے جارہا تھا۔ لڈوک کو صحافت اور صحافیوں سے بیر تھا۔ صحافت اس کی نظروں میں، سطحی اور نعرے بازی جیسی چیز تھی۔ وہ اس انٹرویو سے بچ بھی نہیںسکتا تھا۔ ہیلینا کا رویہ بھی بیزار کرنے والا تھا۔ اس نے ظاہر کردیا تھا کہ انٹرویو اس نے پہلے ہی تیار کرلیا ہے اور صرف تھوڑی سی معلومات اس سے لے گی۔ لڈوک نے بھی سوچ لیا تھا کہ وہ ہیلینا کے سوالات کا جواب پیچ دار دے گا۔ اس کے علاوہ وہ انٹرویو کو موقع بے موقع اس کی اپنی (ہیلینا کی) ذات کی طرف موڑتا رہے گا۔ انٹرویو کے دوران اس کے اس یقین میں اضافہ ہوتا گیا کہ ہیلینا زمانک حقیقت میں اس کے دشمن پے ول زمانک کی بیوی ہے۔ لڈوک کو ہیلینا سے اور اس کے سراپا سے نفرت ہونے لگی۔ مندرجہ ذیل فقرے دیکھیے۔
لڈوک اس کے لیے نفرت کے ماسوا سوچ نہیں سکتا تھا۔ اُسے ہیلینا کے سرخ بالوں سے نفرت، نیلی آنکھوں سے نفرت، چھوٹی پلکوں سے نفرت، گول چہرے سے نفرت، جذبات کی برانگیختگی سے معمور نتھنوں سے نفرت، اگلے دو دانتوں کے درمیانی خلا سے نفرت، تازگی سے معمور بھرے بھرے گداز جسم سے نفرت تھی۔ لڈوک جو کچھ ہیلینا سے اس کے سراپا کے بارے میں کہہ رہا تھا وہ اس کے برعکس تھا۔ بہ ظاہر ہیلینا، لڈوک کا انٹرویو کررہی تھی، لیکن حقیقت میں لڈوک، ہیلینا سے معلومات حاصل کررہا تھا یا اس کو اِس گمان میں مبتلا کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ وہ اس میں دل چسپی لینے لگا ہے۔ باتوں باتوں میں اس نے یہ پتا چلا لیا تھا کہ ہیلینا اپنے شوہر سے پہلے کسی لڑکے سے محبت کرتی رہی تھی۔ بہرحال انٹرویو ختم ہوگیا۔ اس کے ساتھ سارا معاملہ ہی ختم ہوچکا ہوتا اگر ہیلینا چند روز بعد خود اسے فون کرکے ملنے کی خواہش کا اظہار نہ کرتی۔ اس کا لہجہ اپنائیت سے معمور تھا۔ لڈوک نے اپنی اس سوچ سے پیچھا چھڑایا کہ شاید اپنا مرتب کیا ہوا اسے ایک بار پڑھا لینا چاہتی ہوگی اور اس سے بے تکلفی کے لہجے میں بات کی۔ دونوں کسی کیفے میں ملے۔ لڈوک نے اس ملاقات کو پیشہ ورانہ ہونے نہیں دیا۔ انٹرویو کا ذکر بھی چھیڑا نہ جاسکا۔ اس کے برخلاف لڈوک نے ہیلینا کو علاقے کی سیر کرنے کی دعوت دے دی۔ اس نے نرمی سے اعتراض کیا کہ وہ ایک شادی شدہ خاتون ہے۔ لڈوک کے بار بار اصرار کرنے پر، ہنسنے ہنسانے پر بالآخر وہ مان گئی۔
ایسے حالات تھے جب ہیلینا بس سے اتر کر ہوٹل پہنچی اور لڈوک اس کے پیچھے چلا۔ کلرک سے رسمی معاملات کے خاتمے کے ساتھ ہی لڈوک نے ہیلینا سے اس کا ہلکا اوور نائٹ کیس لیا اور دونوں اوپر کی منزل میں ہیلینا کے کمرے میں پہنچے اور وہاں ہیلینا منہ دھونے لگی اور لڈوک کو لوبی میں انتظار کرنے کے لیے کہا۔ جب وہ نیچے آئی تو اس کے برساتی کوٹ کے بٹن کھلے تھے۔ وہ اسکرٹ پر گلابی سوئیٹر پہنے تھی اور خاصی دل کش لگ رہی تھی۔ لڈوک نے اُسے بتایا کہ ہم ’’ہاوس اوف دی پیوپلز‘‘ میں لنچ کریں گے۔ وہاں کھانا اچھے سے خاصا بہتر ہوتا ہے۔ ہیلینا اس علاقے میں اجنبی تھی۔ اس سبب سے اس نے اپنے آپ کو لڈوک پر چھوڑ دیا۔ ایک بار پھر پلیگ کی یادگار سے گزر ہوا۔ مجسّمے میں کسی سینٹ نے بادل اٹھایا ہوا تھا، بادل پر ایک فرشتہ تھا، فرشتے نے ایک اور بادل، اس دوسرے بادل پر دوسرا فرشتہ تھا۔ آسمان پہلے سے زیادہ نیلا تھا۔ ہیلینا نے برساتی اُتاری اور اس کو اپنے ایک بازو پر ڈال لیا اور کہا کہ گرمی بہت ہے۔ لڈوک محسوس کررہا تھا کہ جو کچھ وہ کررہا ہے وہ کمینگی ہے، لیکن اس کمینگی کو قبول کرکے اس نے اپنے لیے خوشی اور ایک نوع کی راحت مہیا کرلی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ جو عورت اس کے ساتھ تھی وہ اس سہ پہر کی مہم میں لڈوک سے اعلیٰ و ارفع نیت سے شریک نہیں تھی۔
جس وقت وہ دونوں ’’ہاؤس اوف پیوپلز‘‘ میں پہنچے، وقت صرف صبح گیارہ بج کر پینتالیس منٹ ہوا تھا۔ بیرے نے کہا، ’’بارہ بجے سے قبل کھانا نہیں دیا جاتا۔‘‘ جب ویٹر نے یہ کہا تو لڈوک نے ووڈکا کا آرڈر دیا۔ ووڈکا بھی نہیں تھی۔ ویٹر سے دو رئز (Ryes) منگوائے۔
بارہ بجنے کے بعد ریستوران میں لوگ آئے اور تمام کرسیاں، میزیں کھانے والوں سے بھر گئیں۔ کھانا معمولی تھا۔ سروس اچھی نہیں تھی، لیکن ہیلینا بات بات پر مارولس (marvelous) کہتی رہی جو شاید اس کا تکیہ کلام تھا۔ باتوں باتوں میں اس کے منہ سے یہ فقرہ بھی ادا ہوا، ’’اوہ، یہ سب کتنا مارولس ہے۔ یہ عجیب نیا شہر ہے اور یہاں ہونا، تمھاری رفاقت میں۔‘‘ لڈوک اسے لے کر چلتا رہا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ ’کوسٹکا‘ کی رہائش گاہ کے سامنے تھے۔
’’یہ تم مجھے کہاں لیے جارہے ہو؟‘‘ ہیلینا نے معترضانہ لہجے میں پوچھا، لیکن لڈوک کے پیچھے چلتی رہی۔
’’یہ ایک صحیح موراوین ٹَیورن (Genuine Moravian Tavern) سرائے ہے۔‘‘ لڈوک نے جواب دیا۔ ’’کبھی دیکھا ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ ہیلینا بولی۔
لڈوک نے فلیٹ کے دروازے کا تالا کھولا اور وہ دونوں اندر چلے گئے۔ فلیٹ کی دہلیز عبور کرتے ہی ہیلینا نے جان لیا کہ وہ مسافر خانے میں نہیں پہنچے ہیں۔ فلرٹ کا مرحلہ ختم ہوا اور وہ مرحلہ شروع ہونے کو ہے جو کھیل نہیں، بلکہ اصل زندگی سے ُجڑا ہے۔ کمرے میں آدھی دور جاکر ہیلینا رک گئی اور لڈوک کی جانب مڑی، لیکن آدھی، لڈوک نے اس کی آنکھوں کو پڑھ لیا تھا جن میں تحریر تھا کہ وہ منتظر تھی کہ لڈوک اس کی طرف بڑھے، پیار کرے اور بانہوں میں لے۔ اس لمحے وہ لڈوک کے خوابوں کی ہیلینا تھی، بالکل بے اختیار اور اس کے رحم و کرم پر۔
لڈوک اس تک گیا، ہیلینا نے اپنا چہرہ لڈوک کی طرف بڑھایا، لیکن لڈوک پیار کرنے کے بجائے مسکرا دیا اور اپنی انگلیاں اس کے کاندھے پر ٹکائیں۔ وہ سمجھ گئی اور برساتی اتار دی۔ لڈوک نے اس کو ہال میں لے جاکر ٹانگ دیا۔ اس وقت لڈوک کی خواہش اور ہیلینا کی سپردگی طے شدہ امر بن چکی تھی۔ لڈوک نے ہر طرح کی جلد بازی سے گریز کیا اور اس سے ہلکی پھلکی گفتگو کا آغاز کیا۔ بیٹھنے کو کہا۔ کوسٹکا کے نعمت خانے سے ووڈکا کی بوتل نکالی۔ کوفی ٹیبل پر دو چھوٹے گلاس جمائے اور شراب انڈیلی۔
’’میں نشے میں آجاؤں گی۔‘‘ وہ بولی۔
’’دونوں ہی نشے میں آجائیں گے۔‘‘ لڈوک نے جواب دیا (اگرچہ وہ یہ جانتا تھا کہ وہ نشے میں نہیں آتا)۔
لڈوک اور ہیلینا ووڈکا کے گھونٹ لینے لگتے ہیں۔ ہیلینا کے گال سرخ ہونے لگتے ہیں، شراب کے اثر کے علاوہ جذبات کے بھڑکنے سے۔ لڈوک اس کے اسکرٹ کو اسٹاکنگ تک اٹھاکر تھامے رکھتا ہے۔ ہیلینا اسکرٹ نیچے کرنے لگتی ہے تو اس کا ہاتھ روک دیتا ہے اور دونوں باتیں کرتے چلے جاتے ہیں۔ جسمانی ملاپ کا ماحول برقرار رہتا ہے۔ (یہ سلسلہ صفحہ ۱۶۰؍ سے صفحہ ۱۶۸/ ۱۶۹؍ کے مندرجہ ذیل فقروں تک جاپہنچتا ہے۔ ۸/۹ صفحات)۔
’’میں کھڑا ہوا اور اپنا کارڈ میز پر زمانک کے سامنے رکھا۔ زمانک نے میری طرف نگاہ نہیں کی۔ وہ مجھے دیکھ نہیں رہا تھا، لیکن اب اس کی بیوی کو دیکھ رہا تھا جو میرے بالکل سامنے بیٹھی تھی، نشے میں، اس کا چہرہ دمک گیاتھا اور اس کا اسکرٹ کمر تک اٹھا ہوا تھا۔ میں نے ہیلینا کے چہرے پر نظر ڈالی، اس کی آنکھوں میں جھانکا جو میرے چھونے سے نیم وا ہوگئی تھیں۔‘‘
آٹھ یا نو صفحات تک پھیلی ہوئی بات چیت، ہیلینا کی پے ول زمانک کی بارہ تیرہ برس پر مشتمل ازدواجی زندگی، اس سے قبل کی رفاقت جب ہیلینا طالبِ علم تھی۔ اس سے پہلے کی زندگی جب ہیلینا کسی لڑکے میں مبتلا تھی۔ ان موضوعات کے علاوہ پے ول زمانک کی لڈوک کے خلاف ڈرامائی اور جذباتی تقریر جس کو شہید ہیرو فیوکک کی کتاب ’’نوٹس فرام دی گیلوز‘‘ کے مقبول عام اقتباسات سے پرتاثیر بنایا گیا تھا۔ بالآخر صفحہ ۱۶۹ کا ایک پیراگراف مندرجہ ذیل فقرے سے شروع ہوتاہے:
’’اپنے کپڑے اتارو، ہیلینا۔‘‘ لڈوک نے آہستہ سے کہا۔
’’لڈوک، لڈوک، لڈوک۔‘‘ وہ کوکی۔ لڈوک اسے کوچ (couch) کی طرف لے گیا۔ ’’آؤ۔‘‘ اس نے کہا، ’’میرے پاس آؤ، میرے پاس آؤ۔‘‘
صفحہ ۱۶۸؍ کے آخری پیراگراف سے صفحہ ۱۷۸؍ کے آخری پیراگراف تک یعنی قریباً دس صفحات لڈوک اور ہیلینا کی جسمانی قربت کے لیے مختص کیے ہوئے ملتے ہیں، لیکن ان میں مندرجہ ذیل فقرے بھی آتے ہیں:
جسمانی محبت شاذ شاذ ہی روحانی محبت میں مدغم ہوتی ہے۔ جب جسم ملتے ہیں تو روح کیا کررہی ہوتی ہے؟ دو اجنبی جسموں کا ملاپ زیادہ کمیاب نہیں۔ کبھی کبھی روحوں میں ملاپ بھی واقع ہوجاتا ہے۔ جو چیز ہزار گنا کمیاب ہے وہ جسم کا اپنی ہی روح سے ارتباط اور مشترکہ جذباتی لطف اندوزی۔
جب لڈوک کا جسم ہیلینا سے جسمانی محبت کررہا تھا اس سمے اس کی روح کیا کررہی تھی؟
لڈوک کی روح نے ایک نسائی جسم کو محسوس کرلیا تھا۔ جسم سے لاتعلق تھی۔ وہ جانتی تھی کہ جسم اس کے لیے صرف ایک جسم تھا جو اس طرح سے محبت کے تجربے سے گزرا تھا کسی تیسری پارٹی کے ساتھ جو کہ اب موجود نہیں تھی۔ اسی سبب سے اس نے کوشش کی تھی کہ جسم کو تیسری پارٹی کی آنکھوں سے دیکھے، جو غیر موجود تھی اور اسی وجہ سے اس نے پوری کوشش کی کہ تیسری پارٹی کا وسیلہ بن جائے۔ برہنہ جسم، خمیدہ گھٹنا، پیٹ اور سینے کی نیم گولائیاں اسی وقت بامعنی اور بامفہوم بن سکتی تھیں جب لڈوک کی آنکھیں تیسری پارٹی کی آنکھوں میں بدل جائیں۔
اور ہوا بھی ایسا ہی۔ لڈوک کی روح نہ صرف غیر موجود تیسری پارٹی کا وسیلہ (Mediuum) بنی، بلکہ اس نے لڈوک کے جسم کو حکم دیا کہ اس کے جسم کا وسیلہ بن جائے اور نظارہ کرے، اور پھر کسی مرحلے پر لڈوک کے جسم کو حکم دے کہ اپنے اصلی روپ میں آئے، جنسی عمل میں حصہ لے اور تباہی پھیلا دے، بے دردی سے۔
لڈوک کھڑا ہوا، لڑکھڑاتے قدموں سے کمرہ پار کیا۔ غسل خانے کا دروازہ کھول کر اندر گیا۔ ٹھنڈے پانی کا نل کھولا۔ اس نے سر اٹھایا اور اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا۔ اس کا چہرہ مسکراہٹ سے معمور تھا۔ جس لمحے چہرے کی مسکراہٹ واضح ہوئی تو وہ ہنسی میں بدلی اور اس کے منہ سے قہقہہ نکل گیا۔
’’کپڑے مت پہنو۔‘‘ ہیلینا نے منّت کی اور اپنا ایک بازو لڈوک کی طرف بڑھاتے ہوئے اپنے الفاظ دہرائے، ’’میرے پاس آؤ۔‘‘
اس نے لڈوک سے کہا کہ اس کی زندگی میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ہیلینا نے یہ بھی کہا کہ وہ نہیں چاہتی، کوئی بھی مرد، کوئی اجنبی ان کے بیچ آئے۔ اجنبی— کیوںکہ اس کا شوہر بھی ایک مدت سے اس کے لیے اجنبی ہے۔ ’’میں تین سال سے اس کے ساتھ نہیں رہ رہی ہوں۔ ہمارے طلاق نہ لینے کا ایک ہی سبب ہے اور وہ ہے چھوٹی سی زینا (Zdena)۔ وہ اپنی زندگی گزارتا ہے، میں اپنی۔ ہم سچ مچ ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں۔ وہ میرے ماضی سے زیادہ کچھ نہیں۔ قدیم ماضی۔‘‘
’’کیا یہ سچ ہے؟‘‘ لڈوک نے پوچھا۔
’’اس سے زیادہ سچ کچھ اور نہیں ہوسکتا۔‘‘ وہ بولی۔
’’تم جھوٹ بول رہی ہو۔ میں یقین نہیں کرسکتا۔‘‘ لڈوک بولا۔
’’میں جھوٹ نہیں بول رہی، ہم ایک فلیٹ میں رہتے ہیں، لیکن میاں بیوی کی طرح نہیں۔ کئی برس گزر گئے جب ہم ساتھ رہتے تھے۔ اس کے چہرے پر ایسی ’’مسٹیریس‘‘ (mysterious) کی بے چارگی اُبھر آئی جو ’’ڈسٹریس‘‘ (Distress) میں ہو۔
میں چاہ رہا تھا کہ وہ چلی جائے۔ اس کا قدرے زیادہ ہی مادّی بدن غیر مادّی ہوجائے، پگھل جائے۔ کسی لہر میں بدل جائے اور دور بہہ نکلے یا بھاپ بنے اور کھڑکی سے باہر اُڑ جائے، لیکن وہ موجود تھا، ایسا بدن جسے لڈوک نے کسی سے بھی نہیں چرایا تھا۔ اس کے ذریعے لڈوک نے کسی سے انتقام نہیں لیا تھا۔ کسی کو زک پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوا تھا۔ ایک بدن جس کو اس کے ساتھی نے ترک کردیا تھا، چھوڑا ہوا بدن، جس کو لڈوک سمجھ رہا تھاکہ وہ استعمال کررہا تھا، لیکن حقیقت میں وہ بدن لڈوک کو استعمال کر رہا تھا اور اس وقت اپنی فتح سے سرشار ہورہا تھا۔
اس نے لباس زیب تن کرنے میں بہت تاخیر کی اور سات بجنے سے چند منٹ پہلے رخصت ہوئی۔
لڈوک نے کمرے کی حالت درست کی اور کوسٹکا کا انتظار کرنے لگا۔ اسے مرد کی آواز سننے کی شدید خواہش تھی یا پھر یہ توقع تھی کہ وہ لوسی کے بارے میں بتائے گا۔
لوسی جو ہیلینا کے برعکس تھی، اپنی نزاکت میں غیر مادّی، وجود سے تہی ۔ ہر نوع کی کش مکش اور تناؤ سے الگ تھلگ، لیکن اس کے باوجود لڈوک کی زندگی کو متأثر کیے ہوئے۔ لڈوک نے لوسی کے اثر کو ان اثرات کے مماثل خیال کیا جن کو ستارہ شناس لوگ ستاروں کے اثرات سے تعبیر کرتے ہیں۔ لوسی لڈوک کی نظروں میں کوئی گریزاں دیوی، تلاشِ رائگاں کی دیوی، کرے کی دیوی تھی جس نے اس کے سر کو اپنے ہاتھوں میں تھاما ہوا تھا۔
امریکہ کی خانہ جنگی سول وار کے آخری سپاہی مینیسوٹن البرٹ ہنری وولسن
::: امریکہ کی خانہ جنگی {سول وار} کے آخری سپاہی : مینیسوٹن البرٹ ہنری وولسن۔ { کچھ تاریخی یادیں} :::...