لڈوک کو لوسی نے جو مزاحمت دی وہ اس سبب سے دی کہ وہ اس راز کو افشا نہیں ہونے دینا چاہتی تھی۔ یہ نظریہ تھا لڈوک کا۔ لڈوک، کوسٹکا کے اس نظریے کو بھی وقعت دینے کے لیے تیار تھا کہ وہ ماضی کے تجربے سے خوف زدہ تھی اور اس کو کراہت کی نظر سے دیکھنے لگی تھی۔ وہ اس چھوٹے سے کمرے کو، اس میں پڑے ہوئے سنگل بیڈ کو اور کھڑکی کے شیشے سے کمرے میں آتی ہوئی گلی کے لیمپ کی روشنی کو بھی موردِ الزام ٹھہراتا تھا۔
بہرحال لڈوک کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ کوسٹکا کو لوسی کی شخصیت کا بہتر رُخ یا روپ حاصل ہوا۔
کوسٹکا کے فلیٹ سے وہ شام تاخیر سے اپنے ہوٹل پہنچ سکا۔ وہ صبح اس شہر سے جو اس کا اپنا شہر تھا، جانا چاہتا تھا۔ اس شہر میں اب اس کے لیے کچھ بھی باقی نہ بچا تھا۔ خیالات نے اس کو چین کی نیند سونے نہیں دیا۔ صبح آنکھ لگ گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ نو بجے کے بعد بستر سے اٹھا۔ پراگ جانے والی ٹرینیں اور بسیں شہر چھوڑ چکی تھیں۔ اس کو دو بجے دوپہر تک رکنا پڑگیا۔ اس کو پراگ کی بھوک سی لگ رہی تھی، وہاں کے کام کی، فلیٹ کے ڈیسک پر کتابوں کی۔ اسے یہ بھی خوف تھا کہ ہیلینا نہ مل جائے۔ اس دن شہر میں عوامی جشن منایا جارہا تھا، کیوںکہ وہ دن تھا، دی رائڈ اوف دی کنگس کے تہوار کا جس سے وہ بچ نکلنا چاہتا تھا۔
وہ زبردست ماندگی کی زد میں تھا۔ اسے جمائیاں آرہی تھیں۔ ناشتا کرکے باہر نکل کے وہ چل رہا تھا۔ اس کے پاس سے چند آدمی لادیمیر کے دوستوں کے لباس میں گزرے، کچھ شور مچاتے تماش بین اور پھر کوآپریٹیو کا ایک لڑکا لادیمیر کا گھوڑا لے کر گزر گیا۔ اس کے بعد کالاسیک (Kalaseek)، ڈسٹرکٹ کونسل کا کلچر کے امور کا مشیر گزرا۔ وہ سیاہ سوٹ میں ملبوس تھا۔ اس کے ساتھ کوئی دل کش عورت تھی۔ وہ پراگ ریڈیو رپورٹر تھی۔ سب سے پہلے کالاسیک نے مختصر رسمی تقریر کی۔ ایک ہی سے لفظ ’کمیونسٹ ایجوکیشن‘ ،عوامی آرٹ کی ترویج کی، کامیاب تقریب کی توقع، سب کا شکریہ ،جذبے سے سرشار منتظمین کا، جذبے سے سرشار طلبہ کا۔ پندرہ سال سے یہ تماشا چل رہا ہے۔ فوک آرٹ کے الفاظ معنویت سے خالی ہوچکے ہیں، خاص طور پر کالاسیک جیسے لوگوں کے لیے۔ ابھی رائڈ ہوئی بھی نہ تھی اور رپورٹر نے میرے منہ سے مائک لگا دیا اور اس پر تبصرہ کروانے لگی، کیوںکہ تقریب کچھ پہلی بار نہیں ہونے جارہی تھی۔ اسے یقین تھا کہ وہ سابقہ مشاہدوں کی اساس پر چند رسمی الفاظ بول دے گا۔ اس نے ویسا ہی کر بھی دیا۔ ایک کمرے میں اس کے بیٹے ولادیمیر کو لباس پہنایا جارہا تھا۔ کمرہ اندر سے بند تھا۔ اس نے کھلوانے کے لیے آواز لگائی۔ اندر سے لاسٹا نے جواب دیا کہ دروازہ نہیں کھولا جائے گا۔ وہ ان لوگوں کے پاس گیا جو گھوڑے کو سجا رہے تھے، اور ان سے باتیں کیں۔ اس نے جب گھوڑے پر سجے ہوئے بادشاہ سے کچھ کہا تو لاسٹا نے اس سے کہا کہ وہ شام تک ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالے گا۔
لڈوک کو یاد آتا ہے کہ جنگ کے آخری سال وہ پیج بنا تھا اور جارو سلاف کنگ تھا عجیب روایت کے مطابق ’دی رائڈ اوف دی کنگس‘ کا اختتام اس طرح ہونا تھا کہ گھر گھر سے ایک بید کی باسکٹ (ٹوکری) میں چندہ اکٹھا کیا گیا، کیوںکہ بادشاہ کے خزانے کو لوٹ لیا گیا ہے۔
شکریہ تمھارا لڈوک۔ تمھیں جانے ہوئے مجھے صرف آٹھ روز ہوئے ہیں، لیکن میں تم سے محبت کرنے لگی ہوں۔ اتنی جتنی میں نے اِس سے پہلے کبھی نہیں کی تھی۔ میں تم سے محبت کرتی ہوں اور تم پر اعتماد کرتی ہوں، کیوںکہ اگر میرا دماغ مجھے دھوکے میں مبتلا بھی کرے یا میرے جذبات یا میری روح، جسم تودھوکا نہیں دے سکتا۔ جسم روح سے زیادہ دیانت دار ہے اور میرا جسم جانتا ہے کہ کسی ایسے تجربے سے کبھی نہیں گزرا جیسے کل۔ ہوس، پیار، فلم، نشاط، درد، میرے جسم نے ایسی کسی چیز کا خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ ہمارے جسموں نے کل آپس میں وعدے کرلیے ہیں۔ اب ہمارے جسموںکو وعدے نبھانے ہیں۔
میں کتنی بیوقوف تھی۔ میں آخر تک یہ خیال کرتی رہی کہ میری شادی پوری طرح ختم نہیں ہوئی۔ میں سوچتی تھی، اس کو اب بھی بچایا جاسکتا ہے۔ کتنی بیوقوف ہوں میں۔ قریب قریب تمھیں قربان کرنے چلی تھی اس سڑی ہوئی شادی کی خاطر۔ وہ مجھ سے کہتا رہا کہ وہ براسلاوا (Braslava) سے آتے ہوئے میری خاطر یہاں رکے گا اور ہم دونوں باتیں کریں گے صرف ہم دونوں، لیکن وہ اپنی گود میں ایک بچی اٹھالایا، بائیس سالہ۔ مجھ سے تیرہ سال عمر میں چھوٹی۔ کتنا ذلت کا باعث ہے ہارنا محض کچھ زیادہ پہلے پیدا ہونے کی وجہ سے (رونے پیٹنے، چیخنے چلانے کا مقام تھا)۔ میں نے مسکرا کر اس سے ہاتھ ملایا اخلاق کے ساتھ۔ میں احسان مند ہوں تمھاری، تم نے مجھے طاقت دی۔
’’میں ابھی تمھیں اس آدمی سے ملاؤں گی جس کے ساتھ میں زندگی گزارنے والی ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم کسی خوش آئند صورتِ حالات پر پہنچ جائیں گے۔ وہ مطمئن سا لگا، لیکن قدرے ڈرا سا بھی۔ اس نے مجھے بات دہرانے کے لیے کہا اور اس مرتبہ میں نے اسے تمھارا پورا نام بتایا، لڈوک جاہن۔‘‘
ایک روایت کے مطابق جب ہنگری کا بادشاہ میتھیاس (Mathias) شکست کھاکر بوہیمیا سے فرار ہورہا تھا تو وہ اور اس کے سوار موراویا کے دیہی علاقے میں آکر چھپ گئے تھے۔ یہاں وہ اپنا روز کا کھانا بھیک مانگ کر کھاتے تھے۔
’’دی رائڈ اوف دی کنگس‘‘ اس طرح ایک تاریخی واقعے کی یادگار ٹھہرتا ہے، لیکن عین ممکن ہے اس کا تعلق بہت قدیم ماضی سے ہو۔ مثال کے طور پر یہ کہ اس کا نام رائڈ اوف دی کنگس کیوں پڑا؟ جب کہ کنگس کی جگہ کنگ ہونا چاہیے۔ یہ سوال ابھی تک لاجواب ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی دیگر معاملات راز کی صورت سامنے آتے ہیں۔
گیتوں کی لفظیات بھی ایک معما ہے جن کا رشتہ یونان سے ملتا ہوا نظر آتا ہے۔
لوسی کے حالات بھی معمے سے کم نہیں۔ لوسی کا قبرستان سے پھول اٹھانا لڈوک کے لیے تھا، لیکن پردۂ راز میں رہا۔ میلے ہی میں زمانک ملا اور اس نے ایک لڑکی مس بروز (Miss Broz) سے ملایا۔
لڈوک نظر آیا۔ جارو سلاف نے اس پر توجہ نہیں دی۔ البتہ تجسّس ضرور ہوا کہ وہ اس میلے میں کیا کررہا ہے اور کیوں موجود ہے؟ جارو سلاف نے سوچا، لڈوک نے اسے مسلسل نظر انداز کیا ہے۔ اس مرتبہ وہ لڈوک کو نظر انداز کرے گا۔
ایک بوڑھے سے بات چیت کی۔ رائڈ پہلے جیسی نہیں رہی۔ کوٹیکی (Koutecky) دکھائی دیا۔ وہ پہلے سے زیادہ بوڑھا ہوگیا تھا۔ بید پکڑے ہوئے تھا۔ وہ بھی لڈوک سے بچنا چاہ رہا ہوگا۔ اس سبب سے رائڈ سے بے نیاز اور الگ تھا۔ کوٹیکی سے معلوم ہوا کہ لادیمیر اس کے نواسے میلوس (Milos) کے ساتھ اس کی موٹر بائیک پر کہیں گیا ہوا ہے۔ ’کہاں گیا ہوا ہے؟‘ کے سوال کا جواب اس نے ٹال دیا۔ جاروسلاف الجھن میں پڑگیا۔
ہیلینا کے شوہر زمانک سے غیر متوقع ملاقات۔ اس کا کھڑے ہوکر دیکھنے کا انداز، پیشانی پر پڑے ہوئے گھنگرالے بال، خوش مزاجی، خوش بختی ہمیشہ کی طرح اور اس وقت ایک جوان لڑکی کی رفاقت جس کی خوب صورتی کل کے تجربے سے اجاگر ہونے والی ہیلینا کی بدصورتی کو افزوں کررہی تھی۔ لڈوک نے مس بروز سے ’’رائڈ اوف دی کنگس‘‘ کے بارے میں پوچھا۔ اس نے جواب دیا کہ اسے پسند نہیں آیا۔ ’کیوں؟‘ کے جواب میں اس نے کندھا جھٹک دیا اور زمانک نے کہا، ’’چھوڑو لڈوک، وقت بدل گیا ہے۔‘‘
گفتگو کے دوران مس بروز، پے ول زمانک کی تعریفیں کرتی رہی۔ پے ول زمانک طالبات میں مقبول استاد تھا اور مس بروز اس کی طالبہ رہ چکی تھی۔ پے ول زمانک ہوا کے ساتھ چلنے والا اور شہرت کا دل دادہ تھا۔ مارکسزم کا استاد تھا، لیکن مارکسزم کی مقبولیت میں کمی ہوتی دیکھ کر وہ خود کو فلسفے کا استاد بتانے لگا تھا۔ (جب انسانیت سے محبت کی بات کی جاتی ہے تو درحقیقت ذہن میں پوری انسانیت نہیں ہوتی، بلکہ ایک دو افراد ہوتے ہیں۔ یہی حال نفرت کا ہے۔ جمیع انسانیت سے نفرت ممکن نہیں۔ ایک دو فرد ہی نفرت کا مرکز بن جاتے ہیں۔)
لڈوک کی لفظیات، ’’کس طرح اس کی وضاحت کروں کہ میں اس کو (پے ول زمانک سے مراد ہے) جتنا بھی برا میں نے بھگتا تھا اس کی تجسیم خیال کرتا ہوں؟ میں کس طرح یہ واضح کروں کہ مجھے اس سے نفرت کرنا از حد ضروری ہے؟‘‘
اس وقت تک رائڈ تنگ گلیوں میں مکان، مکان کے سامنے رکتے گزر رہی تھی۔ جارو سلاف نے گھوڑے پر سوار بادشاہ کی کمر کی جنبش سے شناخت کرنے کی کوشش کی۔ وہ اپنے بیٹے لادیمیر کی حرکات و سکنات سے بخوبی واقف تھا۔ اس کو مخاطب کرنا فضول تھا، کیوںکہ اس کو جواب دینے سے منع کردیا گیا تھا۔ چہرہ نوع نوع کے ربنوں سے بالکل ناقابلِ شناخت بنا دیا گیا تھا۔ (جارو سلاف کی سوچ)۔
اس حصے میں پے ول زمانک اور لڈوک کے درمیان اختلافِ آرا پر مشتمل ایک بات چیت ہے جس کا آغاز مس بروز کے اس اظہار سے ہوا کہ اسے ’’ہچ ہائی کنگ (Hitchhiking) سے دل چسپی ہے۔ یہ بات جن موضوعات کو چھوتی گزر گئی وہ مندرجہ ذیل تھے۔
انسانوں کو فری تھنکرز (Free Thinkers)، مہم جو (Adventurers) اور ہیومینیٹس (Humanists) گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جب لڈوک نے مس بروز سے ازراہِ مذاق کہا کہ اسے کیوں نہ ’’ڈوگمے ٹسٹس اوف دی روڈ‘‘ (Dogmatists of the Road) کہا جائے تو وہ سخت لہجے میں بولی کہ وہ نہ ڈوگمے ٹسٹ ہے، نہ رویزنسٹ (Revisoinist)، نہ سیکٹیرین (Sectarian) اور نہ ہی ڈیویاژنسٹ (Deviationist) ہے، کیوںکہ یہ سب ایسے لفظ ہیں جو ہمارے خواب تھے اور ہم ان کے لیے اجنبی تھے۔
کیا کنگ ایسا ہوتا ہے؟ اچانک وہ اسے ایک رنگا ہوا لاروا لگا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس میں کیا ہے؟ وہ نہیں جان پایا کہ وہ اس کا بیٹا ہے یا نہیں۔ (جارو سلاف کی سوچ)۔
مس بروز کو دیکھ کر لڈوک حسد اور افسوس میں مبتلا تھا۔ لوسی سے ملنے کے بعد اس نے کسی عورت کو مسٹریس نہیں بنایا۔ ساتھ ہی اس کو کل کا واقعہ یاد آرہا تھا کہ کس طرح اس نے اپنے رقیب اور دشمن کو جنسی ملاپ سے مات دی تھی۔
لڈوک یہ تسلیم کرتا تھا کہ پے ول زمانک کی فکری ماہیتِ قلبی کے بعد صورتِ حال یہ تھی کہ دونوں قریب قریب ہم خیال ہوگئے تھے۔ نئی نسل کے بارے میں بھی دونوں کے خیال ایک سے تھے کہ مس بروز اور اس کی ہم عصر نسل درست راہوں پر گامزن تھی۔
تھکن، تھکن۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ مادّی اشیا پر مشتمل اس دنیا سے تھک گیا تھا۔ وہ ان کو سمجھ نہیں پاتا تھا۔ وہ مجھ سے چالاکیاں کرتی تھی۔ ایک اور دنیا اس کی تھی۔ ایسی دنیا جس میں اسے گھر کا سا احساس ہوتا ہے، جہاں وہ گھر میں رہتا ہے۔ سڑک، گلاب کی جھاڑی، صحرا۔
بالآخر وہ اپنے آپ کو سنبھال لیتا ہے۔ وہ ایسا کرنے پر مجبور ہے۔ اسے مادّی اشیا پر مشتمل اس دنیا سے اپنی لڑائی کو کسی مناسب انجام تک پہنچانا ہے۔ اسے تمام جھوٹ اور سارے فریبیوں کی تہ تک جانا ہے۔
کوئی ہے جس سے وہ معلوم کرسکتا ہے؟ گھڑ سواروں سے اور اپنے آپ کا مضحکہ اڑانا؟ اس نے اپنے خیال کو پیچھے صبح تک پہنچایا۔ بادشاہ کی لباس پوشی تک اور اچانک وہ جان گیا کہ اسے کہاں جانا چاہیے۔
سب بادشاہ کے ساتھ چلے جارہے تھے۔ اچان زمانک نے ایک جانب اشارہ کیا اور بولا، ’’اُدھر دیکھو، ہیلینا۔‘‘ (اس نے یہ نہیں کہا کہ ہیلینا میری بیوی۔ اس کا مطلب وہ جانتا تھا کہ لڈوک اور ہیلینا ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔) ہیلینا کے ساتھ جندرا ہوتا ہے۔ جندرا کا کام ساؤنڈ ریکارڈنگ تھا۔ وہ ایک نوعمر نوجوان تھا۔
پے ول زمانک جو سارا وقت شوشے چھوڑتا رہتا ہے، ہیلینا سے تعلق کرکے جندرا کے بارے میں اس کی نوعمری کو اہمیت دیتے ہوئے کہتا ہے، ’’ہیلینا لڑکوں کی شوقین نہیں۔‘‘ پے ول زمانک، اس کی نوخیز محبوبہ جو اس کی طالبہ ہے مس بروز، لڈوک اور ہیلینا اکٹھے ہوتے ہیں اور بچھڑتے ہیں (رائڈ اوف دی کنگس کے جلوس، جشن اور تہوار کے موقعے پر)۔ لڈوک، ہیلینا کو ایک طرف لے جاکر (پے ول زمانک اور مس بروز کے رخصت ہوتے ہی) یہ کہہ دیتا ہے کہ وہ ہیلینا سے محبت نہیں کرتا اور اس سے پھر کبھی ملنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ وہ لڑکھڑا سی جاتی ہے (وہ لازماً جندرا کے ساتھ پراگ جائے گی)۔
ہیلینا کو لڈوک کے رویے اور فیصلے سے شدید اعصابی جھٹکا لگا تھا۔ جندرا نے اس کا اندازہ لگا لیا تھا۔ سب کو پتا تھا کہ جندرا، ہیلینا کو چاہنے لگا تھا، لیکن اس میں جھجک تھی۔ اس موقعے پر وہ اپنے آپ کو روک نہ سکا۔ اس نے زندگی میں پہلی بار اس کا ہاتھ تھاما اور اس کی انگلیوں کو مسلنے لگا۔ ہیلینا اس سے تیز تیز بولنے لگی۔ وہ کام کے بارے میں بولتی چلی گئی اور کچھ دیر بعد بولی کہ وہ ڈسٹرکٹ کونسل جارہی ہے اور وہاں اُن کے لیے مختص کیے ہوئے کمرے میں بیٹھ کر کمنٹری لکھے گی۔
جب وہ کمرے میں پہنچی تو اسے سر کے درد نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس نے اپنے سامان میں سر کے درد کی گولی تلاش کی۔ اسے کچھ نہ ملا۔ وہ گولیاں وغیرہ نہیں رکھتی تھی۔ پھر اُسے خیال آیا کہ جندرا ان معاملوں میں بڑا سگھڑ ہے۔ جندرا کا اوور کوٹ ٹنگا تھا۔ اس کی جیب میں پوری ایک گولیوں سے بھری ہوئی شیشی مل گئی۔ وہ دافع درد گولیاں تھیں۔ اس نے دو گولیاں پانی سے حلق میں اتار لیں۔ پھر اس کو خیال آیا کہ پوری شیشی کی گولیاں حلق میں انڈیل لے۔
دل ہی دل میں اس نے لڈوک سے کہا، آخر تم کیوں نہیں دیکھ سکے کہ تم میری تقدیر ہو، میری زندگی، میرے سب کچھ۔ ممکن ہے تم یہاں مجھے سفید چادر کے نیچے لیٹا ہوا پاؤ، تب تم سمجھ پاؤ کہ تم نے بے انتہا قیمتی شے کو ختم کردیا جو تمھیں زندگی میں ملی تھی، یا پھر ایسا ہو تم آجاؤ، او میرے خدا! اس وقت تک میں زندہ ہوں اور تم مجھے بچالو۔ میرے قریب آجاؤ، میں تمھارے ہاتھ چھوؤں، بال چھوؤں اور میں تمھیں معاف کردوں، تمھاری ہر بات معاف کردوں۔
لڈوک کو دو گھنٹے اور انتظار کرنا تھا بس کے لیے۔ وہ خیالات کے ہجوم میں گھرا ہوا تھا۔ اس کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ جو کچھ گزرا، اس کو اپنی زندگی سے مٹا دے۔ ایک پوسٹ کارڈ پر تحریر کیا ہوا ’جوک‘ دیگر بے شمار لطائف یا مضحک واقعات کے سلسلے سے آجڑا۔ جوک کو جوک رہنا تھا، لیکن اس کی زندگی میں تو جوک، جوک نہیں رہے تھے۔ زندگی کی سچائیوں میں بدل گئے تھے۔ تاریخ بن گئے تھے۔
ہیلینا نے چار گولیاں لیں اور پھر شیشی کی ساری گولیاں حلق میں انڈیل لیں۔ اس دوران جندرا کمرے میں داخل ہوا۔ ہیلینا نے ایک کاغذ پر لڈوک کے نام اپنی تحریر لکھی، ’’ڈیئرسٹ، میں نے تم سے محبت کی، جسم اور روح سے اور اب میرے جسم اور روح کے لیے کچھ نہیں رہا۔ خدا حافظ۔ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔ ہیلینا۔‘‘ جندرا نے اس کے کہنے پر وہاں ایک کیبینٹ (cabinet) سے ڈسٹرکٹ کونسل کا ایک لفافہ نکال کر دیا۔ ہیلینا نے پرچہ اس میں ڈالا، بند کیا اور اس پر لڈوک جاہن پورا نام لکھا۔ جندرا کو پیار سے کہا کہ لفافہ ان صاحب کو پہنچائے۔ جندرا نے اس کا ہاتھ سہلایا پھر اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ ہیلینا نے اپنے ہونٹ کھول دیے وہ اسے جسم بھی دے دیتی، کیوںکہ وہ دنیا میں اس کے آخری بوسے اور آخری ہم آغوشی ہوتی۔ سب کچھ ختم ہورہا تھا۔ جندرا لفافہ لے کر باہر چلا گیا۔
لڈوک نے باغ کے ہوٹل میں کھانا کھایا۔ اس کو یہ بھی ہوش نہ تھا کہ وہ کیا کھا رہا تھا۔ عوامی گیت کی گونج فضا میں موجود تھی، اداس اور افسردہ، ’’سنو لوگو، سنو لوگو۔‘‘
لڈوک نے سوچا انتقام لینے کا درست طریقہ صرف اور صرف یہ تھا کہ جب پے ول زمانک، فیوکک کی کتاب کے اقتباسات پڑھ کر اپنی خطابت کے جوہر دکھا رہا تھا، اسی وقت لڈوک اٹھتا اور ناک پر گھونسا لگاتا۔ اس نے یہ بھی سوچا کہ جو کچھ واقع ہوجاتا ہے، ہوجاتا ہے۔ لوٹایا نہیں جاسکتا۔
لڈوک نے محسوس کیا کہ سب کچھ فراموش ہوجاتا ہے۔ اس نے اپنے چاروں اور دیکھا اور سوچا یہ سب فراموش ہوجائے گا۔ باغ، میز اور سرائے۔
موراویا کا یادگار دن ’دی رائڈ اوف دی کنگس‘ اپنے اصل پیغام سے تہی ہوکر محض ایک رسم میں بدل چکا تھا۔ لڈوک کی سوچوں کا اختصار یوں بھی ہوسکتا ہے۔
باغ کے ہوٹل میں جندرا پہنچ جاتا ہے اور ہیلینا کا دیا ہوا لفافہ لڈوک کو دینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ لڈوک لفافے کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ ہیلینا اس کی زندگی میں واپس آنا چاہتی ہے۔ وہ لفافہ کھولنے میں دیر کرتا ہے۔ جندرا کو اپنے ساتھ بٹھاتا اور شراب پیتا ہے۔ جب وہ لفافہ کھولتا ہے اور ہیلینا کا پرچہ پڑھتا ہے تو انتہائی سرعت سے کھانے کا بل ادا کرکے باہر نکلتا ہے۔ تیز قدموں سے چلتا اور کچھ دیر بعد دوڑنے لگتا ہے۔ جندرا اس کے پیچھے ہوتا ہے۔ ڈسٹرکٹ کونسل کے آفس میں وہ دونوں دیوانہ وار ہیلینا کو تلاش کرتے ہیں۔ بالآخر وہ باہر آفس کے صحن میں ایک بیت الخلا میں دریافت ہوتی ہے۔ آخر میں یہ انکشاف ہوتا ہے کہ جندرا دافع درد گولیوں کی شیشی میں جلاب کی گولیاں رکھتا تھا اور ہیلینا نے خودکشی کے خیال سے جو گولیاں کھائی تھیں وہ جلاب کی گولیاں تھیں۔
جندرا کو یقین ہوجاتا ہے کہ ہیلینا نے جو کچھ کیا، اس کی ذمے داری لڈوک پر آتی ہے وہ لڈوک کو گھونسے مارتا ہے۔ لڈوک اس سے مقابلہ نہیں کرتا اور باہر چلا جاتا ہے۔
وہ (جارو سلاف) لاسٹا سے مل کر تصدیق کرلیتا ہے کہ اس دن کا ’کنگ‘ اس کا بیٹا لادیمیر نہیں تھا۔ لادیمیر کے انکار کرنے پر کسی اور کو کنگ بنا دیا گیا تھا۔ لادیمیر کوٹیکی کے نواسے کی موٹر بائیک پر کہیں چلا گیا تھا۔ لادیمیر نئے زمانے کا لڑکا تھا۔ اُسے ’’رائڈ اوف دی کنگس‘‘ سے دل چسپی نہیں تھی۔ وہ ریس دیکھنے گیا تھا۔ وہ چہرے مہرے میں بھی اپنے دادا پر گیا تھا۔ اس کا دادا موراویا کے علاقے میں ٹریکٹر کا مالک پہلا آدمی تھا۔ ان لوگوں نے اس سے اس کا سب کچھ چھین لیا۔ اس کے بعد اس کے زمانے جتنی فصل تیار نہ ہوسکی۔
لاسٹا اس کی جانب پیٹھ کیے اور ہاتھ میں لکڑی کا چمچہ تھامے نوڈلس کو نمکا رہی تھی۔ وہ مسلسل بولے جارہی تھی۔ اس نے کچن میں توڑ پھوڑ کردی۔ چینی کے برتن، رکابیاں فرش پر چکنا چور کردیں۔ ڈائننگ ٹیبل پلٹا دیا اور برابر کے کمرے میں وائلن لے کر بیٹھ گیا اور لاسٹا کی سسکیاں سنتا رہا۔ پھر وہ باہر نکل گیا اور دریاے موراویا کے کنارے لیٹ گیا۔ چار بجے موسیقی کی محفل ہونے والی تھی۔ دریا کے کنارے غیر متوقع طور پر لڈوک پہنچ گیا۔ دونوں میں باتیں ہوئیں۔ لڈوک نے پوچھا کیا جارو سلاف اس کو موسیقی کے پرفارمنس میں حصہ لینے دے گا؟
لڈوک بہت کچھ بھول جانا چاہتا تھا۔ اس دن کو بھی۔ اگرچہ اس کے ہونٹوں پر ابھری ہوئی سوجن اس لڑکے کے گھونسے کی یادگار موجود تھی، اور اس دن کو یاد دلائے جارہی تھی۔ وہ دیہاتوں کے علاقے میں اندر تک چلا گیا۔ بس ملنے میں کئی گھنٹوں کا وقفہ تھا۔
موراویا دریا کے کنارے اس نے اس شخص کو لیٹا ہوا پایا جو برسوں پہلے اس کے بہت قریب تھا۔ دونوں ایک ہی گروہ میں عوامی موسیقی کے مظاہرے کرتے تھے۔ وہ اپنے وائلن کے کیس کو سرھانے رکھے لیٹا آسمان کو گھور رہا تھا۔
لڈوک کو اس کا گھر یاد آیا۔ ماں یاد آئی جس کو اغوا کرلیا گیا تھا۔ اس کی جوانی۔ اس کو یہ خیال بھی آیا کہ وہی تھا جس نے جارو سلاف کو چھوڑا تھا۔ اسے یاد آیا کہ پے ول زمانک نے ’’رائڈ اوف دی کنگس‘‘ کا مذاق اڑایا تھا۔ اس نے سوچا کہیں اسی کے زیرِ اثرتو وہ عوامی موسیقی سے بددل نہیں ہوا تھا؟ اب جب کہ سب نے اسے چھوڑ دیا تو اس صورتِ حال کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ اپنی اس دنیا میں لوٹ رہا ہے جس کو وہ بھول گیا تھا۔ موسیقی کا مظاہرہ اسی اوپن ایئر ریسٹورنٹ میں ہونا تھا جہاں ہیلینا کا پرچہ لڈوک کو ملا تھا۔ وہ جارو سلاف کے ساتھ وہاں پہنچا۔ جارو سلاف نے وہاں موجود موسیقاروں سے لڈوک کو ملایا۔ لڈوک برسوں بعد کلاری نٹ بجانے جارہا تھا، لیکن چوںکہ آغاز اس کے پسندیدہ پرانے گیت سے ہوا تھا، اس لیے وہ آرام سے بجانے لگا۔ کچھ دیر بجانے کے بعد لڈوک نے کلاری نٹ اسکول ٹیچر کو واپس کردیا۔ ٹیچر نے کچھ دیر بجایا اور پھر لڈوک کو یہ کہہ کر کلاری نٹ بجانے پر مجبور کردیا کہ لڈوک جتنا اچھا بجا رہا تھا وہ اتنا اچھا نہیں بجا پارہا ہے۔ پھر یہ ہوا کہ موسیقی اپنی حدوں سے باہر نکل گئی اور ہر فن کار اپنے کمال فن کو چھونے لگا۔ جارو سلاف بے خود ہوگیا۔ اس نے لڈوک سے کہا کہ ہم یہاں سے نکل چلتے ہیں باہر میدانوں کی طرف، وہاں گلاب کے کسی جھنڈ میں اپنے دلوں اور روحوں کی طلب کے مطابق گائیں اور بجائیں گے۔ جب انھوں نے اپنے اس ارادے کا اظہار کیا تو انتظامی معاملات نے ان کے قدم روک لیے۔ ڈسٹرکٹ کونسل اور اوپن ایئر ریسٹورنٹ کے ساتھ یہ معاہدہ طے پایا تھا کہ یہ لوگ نو بجے رات تک پرفارم کریں گے۔
اسی دوران ماحول کا رنگ اور مزاج بدلتا چلا گیا۔ ریسٹورنٹ میں ایک جانب لوگ شراب سے بدمست ہوجانے، گڑبڑ مچانے لگے تو دوسری جانب نوجوان لڑکے لڑکیاں گروہ در گروہ وہاں آگئیں۔ ان لڑکوں اور لڑکیوں کو موسیقی سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ وہ پینے پلانے اور ہلڑ مچانے میں زیادہ لطف لے رہے تھے۔
جارو سلاف جو گھر میں توڑ پھوڑ مچا کر نکلا تھا، اس محفل میں بدلتے مزاج کو برداشت نہیں کرسکا یا جو کچھ ہوا، اس کو ہونا ہی تھا، وہ حملۂ قلب کی زد میں آگیا۔ اس نے لڈوک کو بتایا کہ اس کے سینے میں الٹی جانب شدید درد ہورہا ہے۔ لڈوک نے دیکھا کہ اس دیو جیسے آدمی کی حالت غیر ہورہی تھی۔ اس کا رنگ زرد ہورہا تھا۔ جس وقت لڈوک دیگر موسیقاروں سے متعارف ہورہا تھا۔ اس وقت ایک ایسے فن کار سے بھی ہاتھ ملایا تھا جو پیشے سے ڈاکٹر تھا۔ لڈوک نے اس ڈاکٹر کو جاروسلاف کی حالت بتائی۔ اس نے جاروسلاف کی بائیں کلائی پکڑی۔ اس کی پلکوں کو اٹھا کر آنکھوں کا معائنہ کیا اور آخر میں اس کی عرق آلود پیشانی کو چھوا۔
’’کیا تمھارا دل؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’بازو اور دل دونوں۔‘‘ جارو سلاف نے کہا۔ وہ سبز ہورہا تھا۔
’’میں ہسپتال فون کررہا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا (جو گروپ میں سیکنڈ فیڈل تھا)، ’’کیا ہوا ہے؟‘‘ لڈوک نے آہستگی سے سوال کیا۔
’’نبض نہیں مل رہی ہے۔ پسینہ برف کی طرح سرد۔ کورونیری (coronary)۔‘‘
’’او میرے خدا!‘‘ لڈوک بولا۔
’’پریشان مت ہو، وہ قابو پالے گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بلڈنگ کی جانب تیز قدموں سے چلا گیا۔ ان لوگوں میں راستہ بناتا ہوا جن کو اس صورتِ حالات کا احساس بھی نہیں تھا کہ موسیقی اس وقت بالکل رک گئی تھی۔ وہ اپنے پینے پلانے، مستی کرنے اور مغلظات بکنے میں لگے تھے۔ درختوں کے جھنڈ کے نیچے ایک گوشے میں دو ایک نشے میں دھت آدمی آپس میں گتھم گتھا بھی ہورہے تھے۔ جارو سلاف نے لڈوک سے کہا، اگر ہم باہر جاتے تو یہ نہ ہوتا اور یہ کہ وہ بہت خوش ہے کہ لڈوک نے واپس آنے کی بات بھی کی۔ لڈوک نے اسے چپ کرایا، ’’اس وقت تمھیں جس کی ضرورت ہے وہ چین اور سکوت۔‘‘ لڈوک نے اپنے دل میں اس کے بارے میں سوچا کہ اگر وہ سیکنڈ فڈل کے مطابق بچ بھی گیا تو ویسا نہیں ہوسکے گا جیسا وہ رہا ہے۔
لڈوک نے سوچا کہ اس کی اپنے گھر واپسی اپنے دشمن سے بدلہ چکانے پر منتج ہونے کے بجائے اپنے دوست کی زندگی کے خاتمے پر اختتام پذیر ہورہی ہے۔ وہ ظاہر میں زندہ رہے گا بھی تو کیا وہ صحیح معنوں میں زندہ رہے گا؟
لڈوک جارو سلاف کو سنبھالے ہوئے کھڑا تھا۔ دس منٹ کے قریب گزرے ہوں گے کہ سیکنڈ فیڈل دکھائی دیا۔ اس نے اشارہ دیا اور ہم جارو سلاف کو اپنے بازوؤں میں لے کر شراب کے نشے میں بدمست لڑکے لڑکیوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے باہر گلی میں نکلے جہاں سفید روشن ایمبولینس اپنی ہیڈ لائٹس چمکائے ہماری منتظر تھی۔
m
لیجیے قارئینِ کرام، آپ نے ملن کنڈیرا کے اس ’’طلسمِ ہفت ابواب‘‘ کی طلسم کشائی اور تسخیر کا کارنامہ بڑی حد تک انجام دے دیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ آپ آرام آرام سے، سوچتے سمجھتے، چھوٹی بڑی الجھنیں دور کرتے، پہلیاں بوجھتے، معمے حل کرتے، نت نئی کامیابیوں سے ہم کنار ہوتے ہوئے، خراماں خراماں، شاداں و فرحاں آگے بڑھتے جائیں— کوئی عجب نہیں منزلِ مراد خود آپ کے قدم چومنے چلی آئے— پہلے سامنا ہے چند تضادات کا، لیکن ہر الجھن سلجھی سلجھائی ہے، گھبرائیے نہیں۔