تم سدرہ کے درخت کی شاخ ہو۔ چمن کا خاروخس مت بنو۔ اگر اُس کی ذات کے منکر بھی ہو تو اپنی ذات کے منکر مت بنو۔
٭
میرے پاس جو مینا ہے اُس میں دو عالم دیکھے جاسکتے ہیں ۔ کہاں ہے وہ آنکھ جو وہ کچھ دیکھ سکے جو میں دیکھ رہا ہوں۔
ایک اور دیوانہ آئے گاجو شہر میں نعرۂ حق بلند کرے گا۔ میرے جنوں سے سیکڑوں ہنگامے برپا ہورہے ہیں۔
اے نادان!راتوں کی اس بڑھتی ہوئی تاریکی سے افسردہ نہ ہو کہ میری پیشانی کا داغ ستارے کی مانند چمک رہا ہے۔
تم مجھے اپنا دوست تو بناتے ہو مگر مجھے ڈر ہے کہ تم میرے شوروہنگامے کی تاب نہ لاسکو گے۔
۱
اُٹھو کہ آدم کی جلوہ فرمائی کا وقت آگیا ہے ستارے اس مشتِ خاک کے سامنے سربسجودہیں۔
وہ راز جو سینۂ ہستی میں چھپا ہوا تھا اس آب وگِل کی شوخی سے اب اس کی باتیں عام ہونے لگی ہیں۔
۲
چاند ستارے کہ جو اس راہِ شوق میں ہم سفر ہیں وہ کرشمہ سنج ادا فہم اور صاحبِ نظر ہیں۔
پتہ نہیں انہیں ہماری مٹھی بھر خاک میں ایسا کیا نظر آیا ہے کہ افلاک کی جانب سے منہ موڑ کر ہماری طرف نظر کئے ہوئے ہیں۔
۳
لالے کے پھول میں سے صبا کی طرح گزرا جاسکتا ہے۔ ایک پھونک سے غنچے کی گرہ کھولی جاسکتی ہے۔
زندگی کیا ہے؟کل جہان کو اپنا اسیر کرلینا مگرتم یہ کیسے کروگے تم تو خود اسیرِ جہاں ہو۔
تمہارا ا مقدر ہے کہ چاند ستارے تمہیں سجدہ کریں مگر تم ابھی نہیں جانتے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔
اگرتم میرے میکدہ سے ایک پیالہ شراب لے لو تو اپنی مٹھی بھر خاک سے ایک نیا جہان پیدا کرسکتے ہو۔
اے اقبال تو نے اپنے سینے میں یہ چراغ کس طرح روشن کیا ہوا ہے؟جو کچھ تونے اپنی ذات کے ساتھ کیا ہمارے ساتھ نہیں کرسکتا؟
۴
اگر تم بحرِ محبت کا کنارہ پانا چاہتے ہو تو یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے ہزار شعلہ دے کر محض ایک شرر پانا چاہو۔
مجھے تو پرواز کی لذت سے آشنا کیا گیا ہے اورتم چمن کی فضا میں آشیانے کی خواہش کرتے ہو۔
اگر تم محبوب کی نگاہِ آشنا کی خواہش رکھتے ہو توذرا ان لوگوں کے دامن سے وابستہ ہوجا ؤجو اس کے راز سے واقف ہیں۔
جنوں سے واقف نہیں اور شہر میں ہنگامہ برپا کردیا؟اپنا پیالہ توڑ کر تم بزمِ شبانہ کی خواہش رکھتے ہو؟
تم عشوہ گری کرو اور دلیری سیکھو اگر تم ہم سے عاشقانہ غزل کی خواہش رکھتے ہو۔
۵
زمانہ اُس دل آرام کا ایک تیزرَو قاصد ہے۔ اور کیا قاصد ہے کہ اس کا تمام وجود ہی سراپا پیغام ہے!
یہ خیال نہ کرو کہ تمہیں دوست کا جلوہ میسر نہ آئے گا۔ہر چند کہ تمہارے سینے کے اندر آرزوابھی خام ہے۔
میں نے مانا کہ تم شاہین کی طرح بلند پرواز ہو مگر ہوشیار رہو کہ ہمارا صیاّد ایک پختہ کار شکاری ہے۔
جبرئیل ؑ اس مٹھی بھر خاک کی بلندی کو کہاں پاسکتے ہیں۔ان کے نام کی عظمت تو ان کے بلند مقام کی مرہونِ منّت ہے۔
تم جو ایک ایک سانس گن گن کر زندہ ہو تم کیا جانو کہ زندگی تو زمانہ کے طلسم کو توڑ دینے کا نام ہے۔
مغرب کے علم ودانش کے بارے میں اس قدر ہی کہہ سکتا ہوں کہ جب تک نگہ اصل حقیقت کو پانے میںناکام رہے تب تک اس کی آہ وفغاں خوب لگتی ہے۔
میں اب ہلال اور صلیب کے معرکے کے بارے میں فکر مند نہیں ہوں کہ زمانے کے دل میں ایک نیا اور اس سے کہیں بڑا فتنہ پنپ رہا ہے۔
۶
دوست کی سادہ لوحی کے بارے میں اب میں کیا کہوں کہ میرے سرہانے بیٹھ کر میرے درد کے درماں کی بات کررہا ہے۔
اگرچہ زبان دلیراور مدعا شیریں ہے مگر عشق کے بارے میں اب اور کیا کہوں سوائے اس کے کہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
کیا ہی خوب ہے وہ شخص جو وجودکی تہہ میں اتر گیا اور موتیوں جیسا سخن نکال لایا اور اسے آسان زبان میں کہہ بھی دیا۔
میں ان کے بولوں کی لذت کا مارا ہوا ہوں کہ جب انہوں نے مجھے پہچان لیا تو زیرِ لب غصہ سے کہا کہ ’’خانہ خراب‘‘!
غم نہ کرو کہ جہان خوداپنا راز نہیں کھول سکتا کہ جو بات پھول نہیں کہہ پاتا وہ مرغِ نالاں کی فریادکہہ دیتی ہے۔
وہ پیامِ شوق جو میں بے حجابی سے کہہ رہا ہوں وہ شبنم نے گلِ لالہ پر گرکرچپکے سے کہہ دیا۔
اگر میں نے بکھری بکھری مجنونانہ گفتگو کی ہے تو اس میں حیرت کیا ہے؟اس کے گیسوئے پریشاں کی بات جس نے بھی کی ہے اسی طرح کی ہے۔
۷
عقل ذوقِ نظر کی وجہ سے ہی نظارے میں مصروف ہے۔یہ عقل جو ڈھونڈتی ہے اور پالیتی ہے۔
تم پاک ذات کا جلوہ طلب کرو اور مہہ وخورشید سے آگے گذر جا ؤکہ اس دیر کا ہر جلوہ نگاہ سے آلودہ ہے۔
۸
میں ان زندہ دلوں کا غلام ہوں جو عاشق ِ صادق ہیں ان خانقاہوں کا نہیں جن کے دل عشق ومستی سے خالی ہیں۔
یہ زندہ دل لوگ رنگوں سے آشنا بھی ہیں اور بے رنگ بھی ہیں یہی ہیں جو مسجد،میخانہ اور صنم کدہ کے لئے معیار ہیں۔
ان کی نگاہ مہ وپروین سے بھی بلند ہے اور وہ کہکشاں کو بھی آشیانے کے لئے پسند نہیں کرتے۔
وہ محفل میں رہتے ہوئے بھی محفل سے جدا ہیں خلوت میں رہتے ہوئے بھی وہ ہر کسی کے ساتھ ہیں۔
ان عاشقانِ صادق کو کم تر نہ سمجھو کہ یہ بظاہر کم قیمت نظر آتے ہیں مگر یہی ہمارے قافلے کی اصل متاع ہیں۔
انہوں نے غلاموں کو آ زادی کا پیعام دے دیا ہے اوراب شیخ وبرہمن بے قافلہ ہوکر رہ گئے ہیں۔
پیالہ اٹھا کر کہتے ہیں کہ شراب حلال ہے ۔یہ حدیث گو کہ ضعیف ہے مگر اس کے راوی ثقہ ہیں۔
۹
اس چمن کے لالے ابھی تک رنگ سے آلودہ ہیں۔ ڈھال ہاتھ سے مت رکھو کہ جنگ ابھی جاری ہے۔
وہ فتنہ کہ جس کی آغوش میں سیکڑوںفتنے تھے، اسی فرنگ کے ہاں ایک اور فتنہ نے جنم لیا ہے جو ابھی پنگھوڑے میں ہے۔
تم کہ ابھی تک لبِ ساحل آسودہ کھڑے ہو اٹھ کھڑے اہوکہ تمہاراواسطہ اب گرداب اور مگرمچھوں سے پڑگیاہے۔
تیشے کو ہاتھ سے چھوڑ کر بیٹھ رہنا عقلمندی نہیںہے۔کتنے ہی لعل ہیں جو ابھی تک پتھرکے دل میں موجود ہیں۔
ذرا ٹھہرو کہ میں ایک نئے مقام سے پردہ سِرکاؤں ۔میں ان نغموں کے بارے میں اب کیا بیان کروں کہ جو ابھی سازمیںچھپے ہوئے ہیں۔
اس جہاں کا نقش تخلیق کرنے والے نے جب میرے جنون کو دیکھا تو کہا کہ تمہارے جنون کے لئے تو یہ ویرانہ بھی ابھی ناکافی ہے۔
۱۰
حق کی خدمت کے لیے دلائل اور اثر انگیزبیان پر بھی بھروسہ کیا جا سکتا ہے مگر کبھی شمشیر و سناں سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔
عاشق تو اپنے عشق کے کہنے پر چلتے ہیں لہٰذاکبھی خرقہ کے نیچے زرّہ بھی پہن لیتے ہیں۔
جب یہ جہاں پرانا ہوجائے تو اس کا نام ونشاں مٹادیتے ہیں اور پھر اسی آب وگلِ سے نیا جہان تخلیق کرلیتے ہیں۔
وہ ایک نگاہ کو پانے کے لئے اپنا کل سرمایہ لٹا دیتے ہیں یہ عجیب قسم کے لوگ ہیں کہ خوشی خوشی خسارے کا سودا کرلیتے ہیں۔
کچھ عجیب نہیں کہ یہ لوگ گوہِ گراں کے ساتھ بھی وہی کچھ کرجائیں جو موجِ ہوا گھاس کی پتی کے ساتھ کرتی ہے۔
عشق بھی بازارِ حیات میں ایک متاع کی طرح ہے۔کبھی یہ متاع نہایت سستی مل جاتی ہے اور کبھی بہت گراں۔
میں نے آہ وفغاں محض اس لئے بلند کی ہے تاکہ تم بیدار ہوجاؤ ورنہ عشق تو وہ کام ہے جو آہ وفغاں کے بغیر بھی ہوسکتا ہے۔
۱۱
اپنی خودی میں موج کی طرح مست رہو اور اس مستی سے طوفان اُٹھادو۔تمہیںکس نے کہا ہے کہ بیٹھے رہو اور کوشش ترک کردو۔
چیتے کے شکار کا قصد کرو اور چمن سے نکل کھڑے ہو۔پہاڑپراپنا سامان رکھو اور خیمہ زن ہوجاؤ۔
چاندسورج کی گردن میں دم گھونٹ دینے والی کمند ڈالو اور آسمان سے ستارے توڑ کر اپنے گریبان میں ڈال لو۔
میں نے مانا کہ یہ شرابِ خودی بے حد تلخ ہے لیکن اپنا درد تو دیکھو اور اس کے درماں کے لئے ہمار ا یہ زہر پی لو۔
۱۲
اس زمانے کا خضر حجاز کے صحراؤں سے نکلے گا اور ایک کارواں پھر اس دوردراز کی وادی سے برآمد ہوگا۔
میں غلاموں کے چہروں میں بادشاہوں کا سا کرّوفردیکھ رہا ہوں۔خاکِ ایاز سے محمود کے شعلے برآمد ہورہے ہیں۔
زندگی مدّتوں کعبہ وبت خانوں میں فریاد کرتی ہے تب جاکے بزمِ عشق سے ایک دانائے راز برآمد ہوتا ہے۔
اہلِ نیاز کے سینوں سے جو نالے بلند ہوتے ہیں وہ کائنات کے دل کے اندر نئے انداز ِ زندگی کی بنیاد رکھتے ہیں۔
چنگ میرے ہاتھ سے لے لے کہ اب معاملہ میرے ہاتھ سے نکل گیا ہے میرا نغمہ خون بن کر سازوں کی رگوں سے برآمد ہورہا ہے۔
۱۳
میں اور بادشاہوں سے توجہ طلب کروں؟ میں مسلمان ہوں میں مٹی سے خدا نہیں بناتا۔
میں اپنے سینے میں جو بے نیاز دل رکھتا ہوں وہ فقیروں کو بادشاہوں کے سے انداز عطاکرتا ہے۔
آسمان جو کچھ میرے گل ِلالہ پر برساتا ہے میں اسے سبزۂ خوابیدہ پر برساتا ہوں۔
میرا تخیل پروین کی مانند چاند سورج سے روشنی کی بھیک مانگنے نیچے نہیں اُترتا۔
اگر آفتاب بھی میری طرف آئے تو میں شوخی میں اسے راہ سے ہی واپس لوٹا دوں۔
فطرت نے مجھے جو آب وتاب بخشی ہے اس کی بدولت میںکالی گھٹا میں بجلی کی طرح چمکتا ہوں۔
میں حکمرانوں کی ادائیں پہچانتا ہوں یہاں گدھوں کو بلند مرتبے پر بٹھایاجاتا ہے اور یوسف ٓ کو کوئیں میں پھینک دیا جاتا ہے۔
۱۴
ہر دم درویشی کے نشے میں مگن رہو اور جب اس میں پختہ ہوجاؤ تب سلطنتِ جمشید کے مقابل ڈٹ جاؤ۔
انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آیا تمہیں ہمارا جہان راس آگیا ہے؟میں نے کہا نہیں۔انہوں نے کہاکہ اسے درہم برہم کردو۔
میں نے میکدوں میں کوئی موزوں حریف نہیں دیکھا۔رستم جیسے بازورکھنے والوں سے صحبت رکھو،شراب پلانے والوں جیسے نازک انداموں سے نہیں۔
اے لالۂ صحرائی!تم خٰود کو تنہا کیوں جلاتے ہو اپنے داغِ جگر سے آدم کے سینے کو دہکا دو۔
تم اس کے دل کا سوز ہوتم اس کے خون کی گرمی ہو۔تمہیں یقین نہیں آتا؟تو اس عالم کے پیکر کو چاک کرکے دیکھ لو۔
عقل تمہاراا چراغ ہے؟اسے راہگزر پر ہر ایک کے لئے رکھ دو۔عشق تمہاراجام ہے؟اس کا شغل کسی آشنا کے ساتھ رکھو۔
میرا دل جو خون ہوچکا ہے میں اس کے ٹکڑے آنکھوں سے گر اتا ہوں کہ تم میرے یہ لعل ِ بدخشاں اٹھالو اوراپنی انگوٹھی میں جڑلو۔
۱۵
ہوس ابھی تک جہانداری کا تماشا دکھانے میں لگی ہوئی ہے۔ابھی اور کتنے فتنے آسمان کے اس نیلے پردے میں چھپے ہیں۔
جب جب عقل جو بھی کچھ تراشتی ہے عشق اسے تب تب توڑ ڈالتا ہے کہ عشق مسلمان ہے اور عقل زناّری ہے۔
تم امیر ِ قافلہ ہو سخت اور مسلسل کوشش کرتے رہو کہ ہمارے قافلہ میں حیدری کرّاری سے ہی ملتی ہے۔
تم نے اپنی آنکھ بند کرلی ہے اور کہتے ہو کہ یہ جہان ایک خواب ہے۔آنکھ کھولوکہ یہ خواب جاگتی آنکھوں کا خواب ہے۔
خلوت میں انجمن آراستہ کرو کہ عشق کی فطرت وحدت شناس ہے مگر وہ کثرت کے نظارے بھی پسند کرتا ہے۔
کیا ہی خوش نصیب ہے وہ ہرن کہ جس کا زخم ایسا کاری تھا کہ وہ بس ایک ہی لمحہ کو تڑپا اور شکار بند کی زینت بن گیا۔
میں باغ اور وادی میں اپنے نغمے کے پھول برسارہاہوں۔کتنی قیمتی متاع ہے جو کسادبازاری کی وجہ سے اس قدر ارزاں ہوگئی ہے۔
۱۶
اگرچہ فرشتہ آسمانوں کے طلسم سے پرے ہے، اُس کی نگاہ اِسی مٹھی بھر خاک کے نظارے میں لگی ہوئی ہے۔
یہ خیال نہ کرو کہ عشق کا محض ایک ہی انداز ہوتا ہے کہ گل ولالہ کی قبا تو بغیر جنوں کے بھی چاک ہوتی ہے۔
خلوتِ دوست میں شوق کی بات صرف اس نالے کے طور پر بیان ہوسکتی ہے جو کہ نفسانی آلائشوں سے پاک ہو۔
تم تو ستارہ کی آنکھ سے پتلی بھی نکال سکتے ہو کہ تمہارے ہاتھ میں عقل ہے جو شاہین کی طرح تندوچالاک ہے۔
تم اپنا چہرہ کھول کر سامنے لا ؤکہ وہ ذات جس نے کہا تھا ’تم نہیں دیکھ سکوگے‘اب اس کفِ خاک کے جلوہ کی منتظر ہے۔
اس چمن میں نغمہ کس نے گایا اور یہ نوا کہاں سے آئی ہے؟کہ جس سے غنچہ شرمندگی سے سر جھکائے ہوئے ہے اور پھول شرم سے پانی پانی ہوگیا ہے۔
۱۷
وہ عرب کہاں ہے جو محفلِ شبانہ پھر سے بپا کرسکے؟ عجم کہاں ہے کہ عشق کی ندی کو پھر سے زندہ کردے؟
درویشوں کے خرقے کے اندر ان کے جام شراب سے خالی ہیں۔آہ!کوئی نہیں جانتا کہ وہ جوان اور تیز شراب کہاں ہے۔
اس چمن میں تو ہر کوئی اپنا نشیمن بناتا ہے ایسا شخص کہاں ہے کہ جو آشیانہ بناکر پھر اسے پھونک ڈالے۔
ہزاروں قافلے بیگانوں کی طرح دیکھ کر گزرگئے ایسا کوئی کہاں ہے جو محرمانہ نظرڈالے۔
موج کی طرح اٹھو اور سمندر سے مسلسل دست وگریباں رہو۔اے بے خبرتم کنارے کی تلاش میں ہو بھلا کنارہ کہاں ہے؟
آؤدیکھو کہ تمہارے انگوروں کی رگوں میں تازہ خون دوڑ گیا ہے۔اب نہ کہناکہ وہ بادۂ مغانہ کہاں ہے؟
ایک ہی جست میں زمانوں کو طے کر ڈالو۔تم دورونزدیک کے زمانوں سے گزرچکے اب وقت کہاں ہے؟
۱۸
صبا کی مانند اٹھو اور نئے انداز سے جینا سیکھو۔گل ولالہ کے دامن کو نئے انداز سے کھینچنا اور متوجہ کرنا سیکھو۔
غنچے کے ننھے سے دل میں اُترجانے کے نئے انداز سیکھو!
تم نے درویشی خرقہ پہن لیا مگر بغیر جذبہ کہ تڑپتے رہے ہو۔اور ایسا تڑپنا تمہیں کہیں نہ پہنچا سکا۔
شوق کے چمن میں نئے انداز سے تڑپنا سیکھو!
اے کافر اپنے دلِ آوارہ کو ایک بار پھر اسی ذات ِ حقیقی میں لگاؤ اور سب غیروں سے لاتعلق ہوکر خود اپنے آپ کو دیکھو۔
دیکھنا اور نہ دیکھنا اب نئے انداز سے سیکھو!
سانس کیا ہے؟پیام ہے تم سنو یا نہ سنو۔تمہاری خاک کے اندر ایک جلوۂ عام ہے مگر تم نے نہ دیکھا۔
دیکھنا بھی اور سننا بھی دوبارہ سیکھو!
ہم عقاب سی آنکھ اور شہباز سا دل نہیں رکھتے۔پالتو پرندہ کی طرح لذتِ پرواز نہیں رکھتے۔
اے پالتو پرندے اُٹھو اور پھر سے اُڑنا سیکھو!
جمشید ودارا کا تخت یوں سرِ راہ عطا نہیںہواکرتا۔یہ تو کوہِ گراں ہے محض تنکے کے عو ض عطا نہیں ہوا کرتا۔
اسے اپنے خونِ دل سے پھر حاصل کرنا سیکھو!
تم نے بہت نالہ وفریاد کی اور تمہاری تقدیر بھی وہی ہے جو کہ تھی۔وہی حلقہ ٔ زنجیر اب بھی ہے جو پہلے بھی تھا۔
نا امید نہ ہو پھر سے نالہ وفریاد سیکھو!
تم جل بُجھے؟داغِ جگر سے ایک شرر لے لو۔ایک ذرا خود کو اضطراب میں ڈالو اور پورا نیستاں لے لو۔
شعلہ کی طرح خاشاک کو اپنی لپیٹ میں لے لینا پھر سے سیکھو!
۱۹
اے سوئی ہوئی کلی، دیکھتی ہوئی نرگس کی طرح اُٹھو! ہمارا گھر غموں کی یلغار میں ڈھے گیا ہے، اُٹھو! باغ کے پرندوں کی فریاد سے، صبح کی اذان سے اُٹھو!آتش بیانوں کے ہنگامے کی گرمی سے اُٹھو!
گہری نیند، گہری نیند،گہری نیند سے اُٹھو!
گہری نیند سے اُٹھو!
دیکھو کہ سورج نے صبح کی پیشانی کو زینت بخش دی۔ صبح کے کان میں خونِ جگر کا آویزہ سجا دیا۔ صحراؤں اور پہاڑوں سے قافلوں نے رختِ سفر باندھے۔ اے دنیا کو دیکھنے والی آنکھ، دنیا کا نظارہ کرنے کے لیے اُٹھو!
گہری نیند، گہری نیند،گہری نیند سے اُٹھو!
گہری نیند سے اُٹھو!
تمام مشرق راستے کی دُھول جیسا ہوا ہے۔ ایک خاموش فریاد اور بے اثر آہ ہے۔ اِس مٹی کا ہر ذرّہ ایک بھٹکی ہوئی نگاہ ہے۔ ہندوستان اور سمرقند اور عراق اور ہمداں سے اُٹھو!
گہری نیند، گہری نیند،گہری نیند سے اُٹھو!
گہری نیند سے اُٹھو!
تمہارا دریا بھی کوئی دریا ہے جو صحرا کی طرح پرسکون ہے۔تمہارا دریا بھی کوئی دریا ہے جو نہ بڑھتا ہے، نہ اُترتا ہے۔جو طوفان اور خطرے سے خالی ہے، یہ کیسا دریا ہے؟ اس کے چاک سینے سے اُمنڈتی ہوئی موج کی طرح اُٹھو!
گہری نیند، گہری نیند،گہری نیند سے اُٹھو!
گہری نیند سے اُٹھو!
یہ نکتہ چھپے ہوئے رازوں کو کھولنے والا ہے: ملک مٹی کا جسم ہے اور دین روحِ رواں ہے۔ جسم اور روح کے تعلق ہی سے جسم زندہ ہے اور روح زندہ ہے۔ خرقے اور جانماز، تلوار اور نیزے کے ساتھ اُٹھو!
گہری نیند، گہری نیند،گہری نیند سے اُٹھو!
گہری نیند سے اُٹھو!
ناموسِ ازل کے تم امین ہو، تم امین ہو۔ دنیا کی حکومت کا بایاں بازو تم ہو، دایاں بازو تم ہو۔ اے بندۂ خاکی تم زمانی ہو، تم زمینی ہو۔ یقین کی شراب پیو اور گمان کے بتکدے سے اُٹھو!
گہری نیند، گہری نیند،گہری نیند سے اُٹھو!
گہری نیند سے اُٹھو!
فریاد ہے افرنگ سے اور اُس کی دلآویزی سے! فریاد ہے افرنگ کے شیرینی اور پرویزی سے! دنیا تمام ویرانہ ہے افرنگ کی چنگیزی سے! حرم کے معمار، ایک بار پھر دنیا کی تعمیر کے لیے اُٹھو!
گہری نیند، گہری نیند،گہری نیند سے اُٹھو!
گہری نیند سے اُٹھو!
۲۰
ہماری دنیا برباد ہو کر خاک ہو چکی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ گزرے ہوئے دن کبھی دوبارہ آئیں گے۔
وہ رات کہ جس میں گورِ غریباں میںٹھکانہ ہو اس میں چاند ستارے نہیں ہوتے۔تو اسکی سحر کیسے ہو؟
وہ دل کہ جو ایک مستقل اضطراب کا آرزومندہے کون جانے کہ وہ برق ہوجائے یا شعلہ؟
مت ڈرو کہ نگاہِ شوق، بلند تخیل اور اپنی خودی کا احساس کبھی خاکِ راہ نہیں ہوں گے۔
دنیا میں اس طرح زندگی گزار وکہ اگر ہماری موت مرگِ دوام بن جائے تو خدا خود اپنے کئے پر شرمندہ ہو۔
۲۱
ہمیں اپنے گزرے ہوئے کل اور آنے والے دنوں پر ایک بار پھر سے نظر ڈالنی چاہیے۔خبردارہوجا ؤاور اٹھو کہ ایک بار پھر غوروفکر کی ضرورت ہے۔
عشق زمانے کے اونٹ پر اپنا محمل باندھتا ہے۔عاشقی کیا ہے؟شام وسحر پر سواری کرنا!اگر تم عاشق ہو تو تمہیں بھی یہی کرنا چاہیے۔
ہمارے بزرگ نے ہمیں بتایا کہ دنیا ایک ہی روش پر قائم نہیں رہتی۔اس کی خوشی وناخوشی پر توجہ نہیں کرنی چاہیے۔
تم اگر ترکِ جہاں کرکے اس کو سر کرنا چاہتے ہو تو تمہیں پہلے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
میں نے اسے کہا کہ میرے دل کے اندر لات ومنات بسے ہوئے ہیں اس نے کہا کہ پہلے اس بتکدہ کو تہس نہس کرنا پڑے گا۔
۲۲
میرا تخیل آسمان کے نظارے میں محو رہا ہے۔ کبھی وہ چاند کے شانوں پر سوار رہا کبھی کہکشاں کی آغوش میں رہا۔
یہ مت سمجھو کہ صرف یہی زمین ہی ہمارا نشیمن ہے کہ ہر ستارہ ہمارا جہان ہے یا رہ چکا ہے۔
حقیر سی چیونٹی کی آنکھ پر بھی ہزار ایسے نکتے آشکار ہیں جو ابھی ہماری آنکھ سے اوجھل ہیں۔
زمین اپنی پشت پر الوند اور بیستوں جیسے بلند پہاڑ خوشی سے اٹھا کر رکھتی ہے مگری ہماری یہ ذرا سی خاک بھی اسے اپنے شانوں پر گراں گزرتی ہے۔
لالہ کے خون بھرے پیالے کے داغ دیکھ کر ہی میں اس نکتہ پر پہنچاہوں کہ یہ اکھڑی ہوئی سانس والا بھی کبھی عاشق کی طرح صاحبِ فغاں رہ چکا ہے۔
۲۳
نغموں نے مجھ پر قیامت ڈھا دی مگر کسی کو خبر نہ ہوئی۔ محفل کے سامنے آواز کے زیروبم اور مقام وراہ کے سوا کچھ نہیں۔
میری سرشت میں عشق کو فکر ِ بلند کے ساتھ ملا دیا گیا ہے میں ہمیشہ ناتمام ہی رہوں گا چاند کی طرح نہیں کہ کبھی کامل کبھی ناتمام۔
آہ وفغاں کو گوارا کرلوکہ عشق جب تک آہ وفغاں میں مشغول رہتا ہے اسے اپنے جنوں سے حقیقی آگاہی نہیں ہوپاتی۔
شعلہ ہوجا ؤاور اپنے سامنے آئے ہر خاشاک کو پھونک ڈالو کیونکہ اس کے بغیر خاکیوں کو زندگی میں داخلہ کی راہ نہیں مل سکتی۔
تم نر شاہین ہو پالتو پرندوں کی صحبت نہ رکھو۔اٹھو اور اپنے بال وپر پھیلا ؤتمہاری پرواز نیچی نہیں ہے۔
شبستان ِ وجود میں شاعر ایک جگنو کی طرح ہے کبھی اس کے پروں میںآب وتاب ہوتی ہے کبھی نہیں۔
اقبال نے اپنی غزل میں خودی کے احوال کھول کر بتادیے ہیں۔یہ نوآموز کافر ابھی بت خانے کے آئین سے واقف نہیں۔
۲۴
میرے میکدے کی شراب ’’جمشید‘‘کی یادگار نہیں ہے۔میں نے تو اپنا جگر عجم کے شیشہ میں نچوڑ دیا ہے۔
آدم اپنے وجود کی تلاش میں موج کی طرح تڑپتا ہے مگر ابھی کمر تک عدم ہی میں گرفتار ہے۔
آؤ کہ ہم ابراہیم خلیل اللہ ؑکی طرح اس طلسم کو توڑ دیں کہ ہم نے تمہارے سوا اس بت خانے میں ہر طرف صرف بت ہی دیکھے ہیں۔
اگر تم اس کائنات کی تہہ میں نہ جاسکے تو پھر نگاہ کو محض اسے دیکھنے کے لئے استعمال کرنا ظلم ہے۔
ہماری لغزشوں میں بھی ایک لذت ہے میں خوش ہوں کہ ہماری منزل دور ہے اور راستہ پیچیدہ ہے۔
وہ تغافل جس نے مجھے محبوب کو دیکھنے کا موقع عطا کیا وہ ہے تو تغافل مگر التفاتِ مسلسل سے بھی بہتر ہے۔
اگرچہ میں بت خانہ میں پروان چڑھا ہوں مگر میرے لبوں سے وہی باتیں ٹپکی ہیں جو حرم کے دل میں ہیں۔
۲۵
میں لالۂ صحرا ہوں مجھے خیاباں سے دور دشت وکہسار وبیاباں میں لے جاؤ۔
لومڑی سی مکاّری سیکھ کر میں خود اپنی اصل سے دور ہوچکا ہوں۔چارہ گرو!مجھے نیستاں کی آغوش میں پہنچادو۔
میرے سینے میں ایک حرف پوشیدہ تھا جسے میں نے گم کردیا۔اگرچہ میں بہت عمر رسیدہ ہوں مگر پھر بھی مجھے ایک حق آگاہ ملاّ کے پاس لے چلو۔
اگرچہ میں ایک سازِ خاموش ہوں مگر پھر بھی اپنے اندر ایک نوائے دگر بھی رکھتا ہوں۔مجھے کسی ایسے شخص کے پاس لے چلو جو میرے ساز پر سے پردہ اٹھادے۔
میری رات میں اس پرانے داغ کا آفتاب ہی میرے لئے کافی ہے لہٰذا یہ چراغ جو فانوس کے اندر ہے اسے میرے شبستان سے دور لے جاؤ۔
میں جس نے غلاموں کو بادشاہی کے رازوں سے آگاہ کیا،میں قصوروار ہوں مجھے سلطان کے آگے لے جاؤ۔
۲۶
میں نئی بات کرتا ہوں مگر کوئی اس کی تہہ کو نہیں پہنچ پاتا۔آہ!یہ جلوہ خون ہوگیا اور کوئی نگاہ بھی اسے پانے کو نہ پہنچی۔
پتھر بن جاؤ اور اس کارگہہِ شیشہ گری میں سے گزرجاؤ۔افسوس اس پتھر پر جو بت بن کر جامد ہوگیا اور صراحی تک نہ پہنچ سکا کہ اسے توڑ ہی سکتا۔
کہنہ روایات کو توڑ ڈالو اور پھر تعمیر کی طرف قدم بڑھا ؤجو بھی کوئی محض ’لا‘میں پھنس جاتا ہے وہ ’ااِلاّ‘تک نہیں پہنچ پاتا۔محض ’لا‘میں ہی نہ الجھ جا کہ پھرا ’اِلاّ‘تک نہ پہنچ پائے۔
کیا ہی خوش نصیب ہے وہ چھوٹی سی ندی کہ جو اپنے ذوق ِ خودی کی وجہ سے خاک کے اندر چلی گئی اور دریا تک نہ پہنچی۔
موسیٰ ؑکلیم اللہ سے سبق سیکھو نہ کہ فرنگ سے جنہوں نے بحر کا سینہ چیر ڈالا مگر طورِ سینا تک نہ پہنچ سکے۔
عشق نے ہمارے ہی دل سے تڑپنے کے یہ انداز سیکھے ہیں ہمارا ہی شرر ایک جست میں پروانے تک پہنچ گیا۔
۲۷
عاشق وہ نہیں جو ہر وقت آہ وفغاں میں مصروف رہے عاشق تو وہ ہے جو دوجہانوں کو اپنی ہتھیلی پر اٹھا کہ رکھے۔
عاشق وہ ہے جو اپنی دنیا خود تعمیر کرتا ہے وہ ایسے جہان پر قناعت نہیں کرتا جو محدود ہو۔
اہلِ فرنگ کے داناؤں کو دلِ بیدار تو نہیں ملا مگر بس اتنا کہ دیکھنے والی آنکھ مل گئی ہے۔
وہاں عشق ناپید ہے اور عقل اسے سانپ کی طرح ڈس رہی ہے حالانکہ اس کے سونے کے پیالے میں شراب ہر وقت لعلِ رواں کی صورت موجود رہتی ہے۔
میری شراب کی تلچھٹ ہی کو غنیمت جان کر پی لے کہ اب میکدہ میں ایسا پیرِ مرد کوئی نہیں رہا جو جواں اور تند شراب رکھتا ہو۔
۲۸
اس چمن میں پرندوں کا دل لمحہ لمحہ تبدیل ہوتا ہے پھول کی شاخ پر وہ اور طرح چہچہاتے ہیں اور آشیانے میں اور طرح۔
ذرا اپنی طرف دیکھو!دنیا کی شکایت کیا کرتے ہو اگر تمہاری نگاہ بدل جائے تو دنیا بھی بدل جائے گی۔
اگر تمہاری آنکھ خوب غور سے دیکھ سکے تو تم دیکھو کہ میخانہ کا انداز اور ساقی کا طریقہ ہر لحظہ بدل رہا ہے۔
امیرِ قافلہ کو میری دعا پہچادیں اور پھر کہیں کہ اگرچہ راستہ تو وہی ہے مگر کارواں اب کہ اور ہے۔
۲۹
ہم خدا سے گم ہو گئے ہیں اور وہ ہماری جستجو میں ہیں۔ ہماری طرح وہ بھی عشق میں مبتلا اور آرزو میں گرفتار ہیں۔
کبھی لالے کی پنکھڑیوں پر اپنا پیغام لکھ کر بھیجتے ہیں کبھی پرندوں کے سینوں میں اتر کر ان کا گیت کے ساتھ ہم تک پہنچتے ہیں۔
وہ نرگس کی آنکھ میں بیٹھے ہیں تاکہ ہمارے حسن کا نظارہ کریں اور جبھی تو نرگس کی آنکھ ہم سے گفتگو کرتی ہے۔
ہمارے فراق میں اُنہوں نے صبح جو آہ بھری تھی وہ اندر باہر، اوپر نیچے ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔
انسان کے دیدار کے لیے ہی یہ سارا ہنگامہ پیدا کیا گیا ہے اور رنگ و بو کا تماشا تومحض سجاوٹ ہے۔
ذرّے ذرّے میں سمایا ہوا مگر پھر بھی ہم سے ناواقف، چاند کی طرح واضح ، ہر محل اور محلے میں موجود!ہماری مٹی میں جو زندگی کا موتی گم ہوا ہے وہ ہم ہیں یا وہ ہے؟
۳۰
مالک نے مزدُور کے لہو سے لعل بنایا ہے۔ جاگیردار وںکے ظلم سے کسانوں کی کھیتیاں برباد ہو گئی ہیں۔ انقلاب! انقلاب! اے انقلاب!
مولوی صاحب نے تسبیح کے دھاگے سے مسلمانوں کو اپنے قبضے میں باندھ رکھا ہے اور سادہ دل ہندوؤں پر برہمن نے زُنّار کا پھندا لگایا ہے۔ انقلاب! انقلاب! اے انقلاب!
حکمراں وہ کھلاڑی ہیں جو مکر میں پُورے ہیں۔عوام کے بدن سے روح نکال کر انہیں دوبارہ سُلا دیتے ہیں۔ انقلاب! انقلاب! اے انقلاب!
واعظ میاں مسجد میں بیٹھے ہیں اور ان کا لڑکا مدرسہ میں۔ اُنہیں بڑھاپے میں بچپنا سُوجھا ہے اور یہ بیچارہ بچپن میں بوڑھا ہوا جا رہا ہے۔ انقلاب! انقلاب! اے انقلاب!
اے مسلمانو! علم و ہنر کے پیدا کیے ہوئے فتنوں سے پناہ مانگو۔ شیطان ہر قدم پر ملتا ہے اور خدا کی تلاش مشکل ہو گئی ہے۔ انقلاب! انقلاب! اے انقلاب!
جھوٹ کی ہمت دیکھو کہ سچ کو شکار کرنے گھات میں بیٹھا ہے۔ چمگادڑ نے اندھے پن میں سورج پر شبخون مارا ہے! انقلاب! انقلاب! اے انقلاب!
گرجے میں مریم کے بیٹے کو صلیب پر لٹکادیا گیا ہے۔ مصطفیٰ کو اپنی کتاب کے ساتھ کعبے سے ہجرت کرنا پڑی ہے۔ انقلاب! انقلاب! اے انقلاب!
میں نے نئے زمانے کے جام میں وہ زہر دیکھا ہے کہ جس سے سانپ لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں۔ انقلاب! انقلاب! اے انقلاب!
کبھی کبھی وہ کمزوروں کو بھی شیر کی طاقت دے دیتے ہیں۔ دیکھو، شائد بلبلے کے فانوس سے شعلہ بھی نکل آئے۔ انقلاب! انقلاب! اے انقلاب!
۳۱
اگرچہ میں جانتا ہوں کہ ایک روز وہ بے نقاب نکلے گا اور میں اس کا دیدار کرسکوں گا مگر یہ گمان نہ کرو کہ اس سے میری جان اس پیچ وتاب اور اضطراب سے نکل جائے گی۔
بس ایک ضرب چاہیے کہ سوئی ہوئی جان خاک میں سے اٹھ کر کھڑی ہوجائے، کہ نالہ مضراب کے تار کو چھیڑے بغیر بھلا کب بلند ہوتا ہے۔
اپنی انگور کی بیل کو نیم شب کے آنسوؤں سے سیراب کرو تاکہ اس کے اندر سے آفتاب کی شعاع برآمد ہو۔
تم ایک حقیر ذرّہ ہومجھے ڈر ہے کہ کہیں ناپید ہی نہ ہوجاؤ اپنی ہستی کو پختہ کرو تاکہ اس میں سے آفتاب برآمد ہوسکے۔
خاک سے صرفِ نظر کرو اور اپنے آپ کو محض پیکرِ خاکی نہ سمجھو اگر تم اپنا سینہ چاک کرو تو اس میں سے مہتاب برآمد ہوگا۔
اگر انہوں نے تم پر اپنے حرم کا دروازہ بند کرلیا ہے تو کیا ہو ا،تم ان کے آستانے پر اپنا سر پٹکو تاکہ وہ قیمتی لعل برآمدہوسکے۔
۳۲
زمانے کے سردوگرم سے خندہ پیشانی کے ساتھ گذرجاؤ۔گلشن ہو یا قفس ہو یا جال یا آشیانہ،سب سے گزرجاؤ۔
مانا کہ تم یہاں اجنبی ہو اور راہ نہیں پہچانتے مگر پھر بھی دوست کے کوچے سے ایسے گذروکہ جیسے تم اسے جانتے ہو۔
اپنی ہر سانس کے ساتھ دنیا کو نئی تبدیلی سے روشناس کردو۔اس قدیم کارواں سرائے سے وقت کی طرح گذرجاؤ۔
اگر جبرئیل وحور بھی تمہیں قابو میں کرنا چاہیں تو تم ان کے دل پر اپنے عشوہ وغمزے گرا ؤاور دلبروں کی طرح گذر جاؤ۔
۳۳
زندگی اپنے سیپ میں موتی تخلیق کرنے کا نام ہے۔شعلہ کے دل میں اُتر جانا اور پھر بھی نہ پگھلنا ہی زندگی ہے۔
عشق یہ ہے کہ اس گنبدِ بے در میں سے باہر نکل جائیں اور فلک کے طاق سے چاند کی صراحی کو اتار لائیں۔
سلطنت دل ودیں کی نقدی لٹا کر حاصل ہوتی ہے ۔یہ ایک ہی داؤ میں دنیا فتح کرلیتے ہیں مگر جاں لٹا دیتے ہیں۔
حکمت اور فلسفہ ہمت والوں کو ہی زیبا ہے کہ یہ اپنے تخیل کی تلوار کو دوجہانوں کے خلاف آزمانے کا نام ہے۔
زندہ دلوں کا مذہب محض ٹوٹا بکھرا خواب نہیں ہے بلکہ اسی خاک سے ایک نیا جہان پیدا کرنا ہے۔
۳۴
میں نے اس بغیر دروازے کے گنبد سے باہر نکلنے کا راستہ پایا ہے کیونکہ آہِ سحر گاہی خیال سے بھی آگے چلی جاتی ہے۔
اے شاہیں تونے چمن ہی میں آشیانہ بنالیا ہے مجھے ڈر ہے کہ اسکی آب وہوا تیرے پروں کی پرواز کو کم نہ کردے۔
تم معمولی غبار ہوگئے ہو؟اس جگہ اطمینان وسکون سے زندگی نہ گزارو اور راہ میں نہ بیٹھ جا ؤبلکہ صبح کی ہوا کے ساتھ مدغم ہوجاؤ۔
جوئے کہکشاں سے بھی گذر جا ؤاور نیلگوں آسماں سے بھی گذر جاؤ۔منزل دل کی موت ہے چاہے وہ منزل چاند ہی کیوں نہ ہو۔
اگر اس بے نیاز برق ِ تجلّی سے اس کا سینہ خالی ہوگیا ہے تو میری نظر میں کوہِ طور کی حیثیت گھاس کی پتّی کے برابر بھی نہیں ہے۔
ہم سے نہ پوچھو کہ کس طرح آدابِ محفل کا خیال رکھتے ہوئے جل جاتے ہیں، ہم جو محبوب کی ایک سرِسری نگاہ کے مارے ہوئے ہیں۔
میرے بعد لوگ میرے شعر کو پڑھیں گے اس کی حقیقت کو سمجھیں گے اور کہیں گے کہ محض ایک خودآگاہ شخص نے پورے جہاں کو بدل ڈالا۔
۳۵
میں گناہ گار ہوں مگر غیور ہوں بغیر محنت کے اجرت پسند نہیں کروں گا۔میں اس بات پر غمزدہ ہوں کہ میرے گناہ کو شیطان کی تقدیر سے وابستہ کردیا گیا ہے۔
عشق ومستی کے فیض سے میں نے اپنے تخیل کو اُس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ میں مہرِ عالمتاب کی آنکھ کو سرمہ سے گرفتار کرلیتا ہوں۔
میں صبحِ ازل سے ہی موج اور گرداب پیدا کرنے والا ہوں اگر سمندر پرسکون ہوجائے تو میں طوفان سے مدد لے کر اسے پھر سے طلاطم خیز کردیتا ہوں۔
میں اس دنیا کو پہلے بھی سینکڑوں بار آنش زیرِ پا کر چکا ہوں۔میرے نغمے سکون وسلامتی کو ختم کردیتے ہیں۔
میں نے گردن میں زناّر ڈال کر بتوں کے آگے اس لئے رقص کیا تاکہ اس شہر کا شیخ مجھ پر فتویٰ لگا کر اللہ والا بن جائے۔
کبھی یہ مجھ سے بھاگتے ہیں اور کبھی مجھ سے آملتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ میں صحرا میں شکاری ہوں یا شکار ہوں۔
سوز سے خالی دل کو حق آگاہ مر دکی صحبت سے بھی کچھ نصیب نہیں ہوتا۔تم تپتے ہوئے تانبے جیسا دل لاؤ تاکہ میری اکسیر تم پر اثر ڈالے۔
۳۶
دنیا اندھی ہے اور دل کے آئینے سے غافل پڑی ہے مگر وہ آنکھ کہ جسے بینائی ملی ہے اس کی نگاہ دل پر ہی رہتی ہے۔
رات تاریک ہے اور رستہ پیچیدہ ہے اور راہی بے یقینی کا شکار ہے۔قافلہ کے رہبر پر مشکلیں ہی مشکلیں آپڑی ہیں۔
دلبروں کی بات اتنے سارے محمل باندھنے والوں میں جاپڑی ہے اور اس میںاتنے اشارے پوشیدہ ہیں کہ بدمعاملہ رقیب بھی مست ہے عاشق بھی مست ہے اور قاصد بھی مست ہے۔
یہ مومنوں کا سا یقین رکھتا ہے اور کافروں کا سا گمان،میں کیا کروں اے مسلمانو کہ میرا واسطہ دل سے پڑگیا ہے۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خود طوفان ہی ناخدائی کا کام کرجاتا ہے کہ موجوں کی طغیانی سے میری کشتی خود ساحل پر آپڑی ہے۔
میں نہیں جانتا کہ دریا کی موجوں کو یہ دیکھنے والی آنکھ آخر کس نے عطا کی ہے کہ یہ موتی تو اپنے سینے میں رکھتی ہیں اور پتھر ساحل پر پھینک دیتی ہیں۔
میرا سوزِ دروں میری سرزمینِِ ِ وطن کا حصہ نہ بن سکا افسوس کہ میں نے بہت علاج کرنے کی کوشش کی مگر اس خاک ِ صحرا پر سب کچھ بے اثر رہا۔
اگر تم اپنے دل کے اندر کوئی نیا جہان رکھتے ہو تو اسے باہر لاؤکہ فرنگ اپنے زخموں سے نڈھال ہوکر اب گرنے ہی والا ہے۔
۳۷
تم اس جہان میں کوئی ایسا دوست نہ پاؤ گے کہ جو دلنوازی کے انداز جانتا ہو لہٰذا اپنے آپ میں گم ہوجاؤ اور اپنے عشق کی آبرو کی حفاظت کرو۔
مجھے اس دنیا کی تخلیق کرنے والے سے اس بات کا دکھ ہے کہ اپنے ذوق ِ خودنمائی کے باوجود اس نے ہم سے اپنی خدائی کے طریقے پوشیدہ رکھے۔
یہ نازک معنی ایاز کے علاوہ یہاں کون جان سکتا ہے کہ غزنوی کی مہرومحبت غلامی کا درد اور بھی بڑھادیتی ہے۔
میں اس علم وفراست کو گھاس کی پتی کے برابر بھی نہیں سمجھتا کہ جو مردِ غازی کو تیغ وسپر سے بیگانہ کردے۔
توجس دام پر بھی یہ سامان خریدلے سود مند ہی ہے چاہے بازوئے حیدری کو رازی کے علم وفلسفہ کے بدلے ہی کیوں نہ لینا پڑے۔
اگر تم خون کا ایک قطرہ اور مٹھی بھر پر رکھتے ہو تو آ ؤمیں تمہیں شاہبازی کے انداز سکھادوں۔
اگر تم اسے محض ایک پھونک کی کارفرمائی سمجھتے ہو تو بے حد نادانی کرتے ہو کہ نے نوازی کے لئے تو سینے کے اندر تلوار جیسا دم رکھنا پڑتا ہے۔
۳۸
جو علم تم سیکھتے ہو وہ نگاہ کا مشتاق نہیں ہے یہ راہ کا درماندہ راہی ہے آوارہ پھرنے والوں میں سے نہیں ہے۔
آدم کہ جس کا دل دوجہانوں کے نقش ابھارتا ہے یہ آہوں کی لذت سے ہی وجود رکھتا ہے اور آہ کے بغیر اس کا کوئی وجود نہیں۔
ہر چند کہ اس کا عشق بھی اسے ہر دم سفر پر آمادہ رکھتا ہے مگر چاند کے سینے میں وہ داغ نہیں جو جگر پھونک ڈالے۔
میں تو محبوب کے چہرے سے ذرا بھی نظر نہیں ہٹانا مگر اس مستِ غافل کو ایک نگاہ کی بھی توفیق نہیں۔
اقبال نے قبا بھی پہنی اور دنیا کے کاموں میں بھی مصروف رہا سمجھ لے درویشی کا مطلب محض درویشی ٹوپی پہننا اور گدڑی میں رہنا ہی نہیں ہے۔
۳۹
سحر کے سورج کی طرح نگاہ کو روشن کیا جاسکتا ہے اس خاکِ سیاہ کو محبوب کی جلوہ گاہ بنایا جاسکتا ہے۔
اپنی نگاہ کو کانٹے کی نوک جیسا تیز بنالو پھر اس سے ہیرے کی طرح آئینے کے اندر راہ بنائی جاسکتی ہے۔
اس گلشن میں چمن کے پرندوں کے لئے آہ وفغاں کرنا بھی بہت مشکل ہے یہاں غنچہ کے چٹکنے کے سے انداز میںہی آہ کی جاسکتی ہے۔
اگر تم میں دیکھنے کی تاب ہے تو تمہاری نگاہ بہت کچھ پاسکتی ہے۔اس کے لئے نہ یہ عالم حجاب میں رہے گا اور نہ وہ عالم نقاب میں۔
’’تم درختوں کے نیچے کھڑے بچوں کی طرح آشیاں کو دیکھ رہے ہو۔‘‘پرواز پر آمادہ ہو تو مہروماہ کوبھی شکار کرسکتے ہو۔
۴۰
تم نے غیروں کی صحبت میں پے درپے جام لنڈھائے اور مستقل دوسروں کی روشنی سے اپنا پیمانہ چمکاتے رہے۔
اب مشرق کے ساقی کے ہاتھ سے بھی دوارغوانی جام لے لو تاکہ تمہاری خاک سے پے درپے نالۂ مستانہ بلند ہوں۔
وہ دل جو تمنا کی تب وتاب سے آشنا ہوجائے وہ اپنے ہی شعلہ پر پروانے کی طرح پے درپے گرتا ہے۔
صبح کے اشکوں سے اپنی ز ندگی کو برگ وساز عطاکرو تمہاری کھیتی ویران ہوجائے گی اگرتم اس میں پے درپے دانہ نہ ڈالو گے۔
جام کو گردش میں لا ؤاور افرنگ کے ہنگامے کی بات بالکل نہ کرو۔یہاں ہزاروں کارواں پے درپے گذرگئے۔
۴۱
عشق نے اپنے اندر جستجو کی اور آدم کو حاصل کیا۔لہٰذا اس کا جلوہ پردۂ آب وخاک سے آشکار ہوا۔
یہ کفِ خاک جو دل رکھتی ہے اس کے بدلے سورج چاند ستارے سب ہاتھ سے دئیے جاسکتے ہیں۔
۴۲
آؤ دیکھو کہ مشرق والوں نے ایک نیا نقش بنایا ہے اب اس بت کے گرد طواف نہ کرو کہ جو توڑاجاچکا ہے۔
یہ بھی کیا جلوہ ہے کہ جس کو ایک نظر دیکھنے کے لئے کتنے ہی دل راہ کی خاک سے شرارہ کی مانند نکل رہے ہیں۔
شہروں میں ہلچل مچا ڈالنے والے ان تورانیوں کی منزل نہ جانے کہاں ہے جنہوں نے اپنی سانس کی تیزی سے اپنے ہی سینے کو زخمی کرڈالا ہے۔
تم بھی اپنے اندر ذوق ِ خودی پیدا کرلوکہ صاحبانِ طریقت ساری دنیا سے الگ ہوکرصرف خود سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔
مردہ دلوں کی نظر سے دیکھیں تو کائنات ایک قیدخانہ ہے بس دو جام پئے اور جہان چھوڑ گئے۔
میں ان سواروں کی بیدارہمت کا غلام ہوں جو ستاروں کو اپنے نیزوں میں پروکراپنے ساتھ باندھ لیتے ہیں۔
فرشتوں کو اب سجدوں کی فکر کہاں رہی ہے کہ فرشتے تو خاکیوں کا نظارہ کرنے میں محو ہیں۔
۴۳
مجھے عشق پر ناز ہے کہ اسے اپنے مٹ جانے کا غم نہیں ہے کیونکہ اس کا کفر حاضروموجود کا زنّار باندھنے سے آزاد ہے۔
اگر عشق حکم دے تو اپنی اس عزیز جان سے بھی دست بردار ہوجاکیونکہ عشق ہی ہمارامحبوب ہے اور مقصود بھی ہے جان تو ہمارا مقصودہی نہیں۔
سومنات توڑ دینے سے کافری اور بھی پختہ تر ہوجاتی ہے۔بتخانے میں رونق محمود کے ہنگاموں سے ہی ہوتی ہے۔
مسجد ہو،میخانہ ہو،دیروکلیسا ہو یا کنشت،یہ سب دل کو خوش کرنے کے واسطے سینکڑوں فسوں تخلیق کرتے ہیں مگر دل پھر بھی خوش نہیں ہوتا۔
میں نے پہاڑ کی ندی سے نغمہ پردازی سیکھی ہے میں گلستان میں بھی گیا تھا مگر ایک بھی نالہ دردآلود نہ تھا۔
اگر میرے پاس آنا چاہتے ہو تو پھر ٹھنڈی سانس اور گرم وپرجوش دل لے کر آنا ہوگا کیونکہ حرکت تو تمہارے اندر ہے نغمۂ داؤد میں نہیں۔
میرے عیب نہ ڈھونڈوبلکہ اپنے جام کو میرے معیار سے پرکھو میری تلخ شراب کی لذت جان کو غم میں گھلائے بغیر نہیں مل سکتی۔
۴۴
میرے دلِ بے تاب پر ساقی نے مئے ناب ڈال دی ہے وہ کیسا ساز ہے اور اس نے پارے پر اکسیر ڈال کر اس کے اضطراب کو کم کردیا ہے۔
میں نہیں جانتا کہ میرے سینے میں نور ہے یا نار ہے ہاں بس اس قدر جانتا ہوں کہ اس کی بیاض میں مہتاب کی روشنی ملی ہوئی ہے۔
فطرت ِ خاموش خود میرے دل پر حاوی ہوتی ہے ایسا لگتا ہے کہ ساز اپنے ذوقِ نوا سے خود مضراب سے ٹکراجاتا ہے۔
غم نہ کرو اے نادان کہ آسمان نے خشک بیابان میں بھی ایسے چشمے رکھے ہیں کہ جو سیلاب کو بھی بہا لے جائیں۔
جب تم نے میری شیریں باتیں سنی ہیں تو میری ڈنک جیسی تلخ باتوں کا رنج نہ کرو کیونکہ آدم کو خواب سے بیدار کرنے کے لئے ڈنک بھی بہت ضروری ہے۔
۴۵
ایک روز خاکی انسان نوری فرشتوں سے زیادہ روشن تر ہوجائیں گے اور زمین کو ہماری تقدیر کا ستارہ آسمان بنادے گا۔
ہمارا تخیل کہ جس نے کئی طوفانوں میں پرورش پائی ہے ایک دن اس نیلگوں آسمان کے گرداب سے باہر نکل جائے گا۔
ذرا آدم کے معنی پر تو نظر کرو!مجھ سے کیا پوچھتے ہو ابھی یہ فطرت کے اندر کانٹے کی طرح کھٹکتا رہتا ہے ایک دن یہی مقبول وموزوں ہوجائے گا۔
یہ معمولی اور سطحی سا مضمون ایک دن ایسا موزوں ہوجائے گا کہ اس کی تاثیر سے خود یزداں کا دل پُرخٰوں ہوجائے گا۔
۴۶
شریعت کی رسم وراہ کے بارے میں میں بجز اس کے اور کچھ دریافت نہیں کرپایا کہ صرف عشق کا منکر ہی کافر وزندیق ہوتا ہے۔
مسافرانِ حرم کو خدا یہ توفیق دے کہ وہ اس آدمِ خاکی کی سرشت کو پاجائیں۔
میں راستہ نہیں پوچھتا میں تو ایک رفیق کی تلاش میں ہوں کیونکہ کہتے ہیں کہ پہلے رفیق اور بعد میں طریق۔
فرنگ کے حکیم اپنے کند ذوق کی تلافی یوں کرتے ہیں کہ بادہ کو یاقوت کے جام میں ڈال کر اس کی چمک بڑھالیتے ہیں۔
ایسی دانش کہ جس کی تصدیق دل نہ کرے اس سے ہزار گنا بہتر یہ ہے کہ انسان نظر ہی نہ رکھتا ہو۔
اگرچہ عقل کے پیچ وتاب سلجھانے میں کچھ الگ ہی لذت ہے مگر سادہ دلوں کا یقین دقیق نکتوں سے کہیں بہتر ہے۔میں نے علم الکلام اور فلسفہ کو اپنے لوحِ دل سے مٹا ڈالا اوراپنادل تحقیق کے نشتر کے لئے کھول دیا ۔
میں بادشاہ کے آستانے سے دور ہی رہتا ہوں میں کافر نہیں ہوں کہ ایک بے توفیق خدا کی پرستش کروں۔
۴۷
ہر ایک سے کنارہ کش ہوکر کسی آشنا کی صحبت طلب کرو۔خدا سے خودی طلب کرو اور خودی سے خدا۔
محض ایک کرشمہ کی خلش سے سب کاکام تمام نہیں ہوسکتا،عقل ودل ونگاہ کو الگ الگ جلوہ کی طلب ہے۔
عشق یہ ہے کہ کائنات کا سارا کا سارا جام ایک ہی سانس میں خالی کردیا جائے۔پورے جہان کا نظارہ کروانے والا جامِ جہاں نما نہیں بلکہ جہان کو فتح کرنے والا جام طلب کرو۔
مسافر ننگے پاؤں ہیں اور رستہ تمام خارزار ہے اپنی منزل پر پہنچنا ہے تو صبرورضا کی سواری طلب کرو۔
فقر جب اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے تو دلیل ِ بادشاہی بن جاتا ہے۔کیقباد کا تخت فقیروں کے بورئیے میں تلاش کرو۔
سامنے دیکھو ،کہ زندگی ایک اور ہی عالم کی طرف لے جارہی ہے لہٰذا جو کچھ تھا اور جو گذر گیا اس سے درگزر کرکے اس عالم کی انتہا طلب کرو۔
اگر زمانے کی چوٹ سے تمہارے نالے اور فریاد بانسری کی طرح نکلتے ہیں تو میرا جام اپنے ہاتھ سے رکھ دو اور اپنے زخم کی خاص دوا طلب کرو۔
۴۸
تم دنیا کا مطالعہ کرتے ہو مگر خود اپنے آپ کو نہیں دیکھتے۔اے نادان تم کب تک غفلت اختیارکئے رہو گے؟
تم نورِ ازل ہو اس شب کو روشن کردو۔تم دستِ کلیمؑ ہو آستین سے باہر آؤ۔
اس دنیا کے چکّر سے باہر قدم رکھو ۔تم اس سے قدیم ہو اورتم اس سے کہیں زیادہ قیمتی ہو۔
اے زندۂ جاوید آدم!تم موت سے ڈرتے ہو؟موت تو تمہارا شکار ہے اورتم اس کی گھات میں ہو۔
جان عطاکرکے پھر اسے واپس نہ لینا چاہئیے۔آدم اگر مرتا ہے تو بے یقینی سے مرتا ہے
صورت گری اگر سیکھنی ہے تو مجھ سے سیکھو۔شاید کہ تم خود اپنی تخلیق پھر سے کرسکو۔
۴۹
میں ان راتوں کے حادثات سے بالکل نہیں ڈرتا جو ستاروں کی گردش سے سحر میں تبدیل ہوہی جاتی ہیں۔
اس نے اپنا مقام نہیں پہچانا اور وہ جو کہ اپنے ہی جال میں گرفتار رہا وہ عشق کہ جو اپنا اظہار محض ’’یارب‘‘کے نعروں سے ہی کرنا چاہتا ہے۔
وہ آہ کہ جو جگر کو پھونک دینے کے لئے دل سے اٹھتی ہے اسے سینے میں ہی گھونٹ دو لبوں تک نہ لاؤ۔
میکدہ میں فطرت کے ساقی اب باقی نہیں رہے جو ایسی شراب پلاتے ہیں جو کسی مذہب میں نہیں سماسکتی۔پس تم ایسے فطرت کے ساقی کی خواہش کرو۔
وہ دل جو حقیقی دوست سے کٹ چکا ہے اسے کہیں آسودگی نہیں مل سکتی نہ مسجد میں قرأت کرنے سے نہ مکتب کی عقل ودانش میں۔
۵۰
تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو کہ نیلا آسمان ستاروں کی صورت میں ہزاروں آنکھیں کھولے ہوئے تمہاری راہ تک رہا ہے۔
میں کیا کہوں کہ تم کیا تھے اور تم نے کیا کیا اور تم کیا ہونے جارہے ہو کہ میرا جگر تو محمو کو ایاّزی کرتے دیکھ کر خون ہوگیا ہے۔
کیاتم وہ نہیں جس نے کہکشاں پر اپنا مصلیّٰ بچھایا تھا صوفی اور شاعر کی شراب نے تمہیں خود اپنا آپ بھلا دیا ہے ۔
فرنگ نے اگرچہ تمہارے افکار کی گرہ تو کھولی ہے مگر اس کی شراب نے تمہارے نشے میں اور اضافہ کردیا ہے۔
تم نامۂ اعمال اور روزِ حشر میزان کی باتیں تو کرتے ہو مگر میں حیران ہوں کہ تم یہ قیامت نہیں دیکھتے جو اس وقت برپا ہے۔
کیا خوش نصیب ہے وہ شخص جو اپنے سینے کے اندر موجود حرم کو پہچان لیتا ہے۔وہ ایک لمحے کو تڑپا اور پھر گفت وشنید کے مقام سے گذر گیا۔
مجھے مکتب اور میخانہ کسی پر اس وجہ سے اعتبار نہیں رہا کہ میں ایسے در پر سجدہ نہیں کرتا جو پیشانیاں گھسنے سے پرانی اور فرسودہ ہوچکا ہو۔
۵۱
دیارِ شوق کہ جس کی خاک ہماری درد آشنا ہے اور وہاں کے ذرہ ذرہ میں جانِ پاک کو دیکھا جاسکتا ہے۔
وہاں مئے کو ساقی کے ہاتھ سے نہیں پیا جاتا بلکہ ان کی نگاہ ہی انگور کی صراحی کو توڑ ڈالتی ہے۔
اپنے جوشِ جنوں کو ضبط کرو کہ وہ مقامِ نیاز ہے وہاں ہوش میں رہو اور اپنی قبا چاک نہ کرو۔
۵۲
پرانی شراب اور جوان محبوب کی تو کوئی اہمیت ہی نہیں ہے کہ صاحبِ نظر لوگوں کے سامنے تو حور اور جنت بھی کوئی چیز نہیں ہیں۔
ہر چیز جسے تم محکم اور پائندہ سمجھتے ہو گذر جانے والی ہے۔یہ پہاڑ،صحرا اور خشکی اور سمندر اور اس کا کنارہ یہ سب بھی کوئی بڑی چیز نہیں ہیں۔
مغرب والوں کی دانش مشرق والوں کا فلسفہ سب کے سب بتخانے اور بتوں کے طواف یہ سب کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔
اپنی خودی کی فکر کرو اور اس بیاباں سے ڈرتے ہوئے نہ گزرو کہ صرف تم ہی رہ جانے والی ہستی ہو اور اس کے سامنے دونوں جہان تو کوئی چیز ہی نہیں ہیں۔
یہ راستہ جو میں نے اپنی نوکِ پلک سے کھود کر نکالا ہے اس میں منزل وقافلہ اور اُڑتی ہوئی خاک کچھ بھی نہیں ہیں۔
۵۳
یہ قلندر جو دُنیا کی تسخیر میں لگے رہتے ہیں، بادشاہوں سے خراج وصول کرتے ہیں اگرچہ خرقہ پوش ہیں۔
جلوت میں ہوں تو سورج اور چاند پر کمند یں پھینکتے ہیں اور خلوت میں زمان ومکاں ان کی آغوش میں سمائے ہوتے ہیں۔
بزمِ دوستاں میں ان کا سراپا ریشم و کمخاب سا ملائم ہوتا ہے اور جب یہ میدانِ عمل میں ہوتے ہیں تو اپنی خودی سے آگاہ اور تن سے بے نیاز ہوتے ہیں۔
یہ اس دوغلے اور دورنگے آسمان کو نیا نظام عطا کرتے ہیں اور پرانے ستاروں کا جنازہ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں۔
زمانہ مستقبل کے چہرے سے نقاب کھینچ چکا ہے مگر یہ معاشرہ ابھی تک ماضی کی شراب سے بدمست ہے۔
میرے لبوں نے وہ بات کہہ دی ہے جو کہنے کی نہیں تھی میں حیران ہوں کہ فقیہہ ِ شہر ابھی تک خاموش کیسے ہیں۔
۵۴
میں دونوں ہاتھ سے چلائی جانے والی تلوار ہوں اور آسمان نے مجھے نیام سے نکال لیا۔ پھر سان پر تیز کرکے زمانے کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔
میں تخیل کا وہ جہاں ہوں کہ جسے فطرت ِ ازل نے گل وبلبل کی دنیا ختم کر کے پیدا کیا ہے۔
یہ نئی شراب جو میں تمہارے پیمانے میں انڈیل رہا ہوں، یہ ایسی خالص شراب ہے کہ اس نے میرے جام وسبو پگھلا کر رکھ دیے ہیں۔
میں اپنی سانس کو اپنے سینے ہی میں پگھلا کر محفو ظ رکھتا ہوں۔ میں حرم کا پرندہ ہوں اور اپنی آواز کی گرمی اور سوز سے پہچانا جاسکتا ہوں۔
پرانے مرشدوں کی سوجھ بوجھ کی کشتی اب ٹوٹ چکی ہے۔کیسا خوش نصیب ہے وہ شخص جو نئے زمانے کے دریا میں مجھے کشتی بناتا ہے۔
۵۵
میں شرار کی طرح ذرّہ کو تڑپنا سکھاتا ہوں اور اڑنے کے لیے پر عطاکرتا ہوں۔
میری نوا کا سوز تو دیکھو!میں ہیرے کے ٹکڑے کو شبنم کا قطرہ بنادیتا ہوں اور ٹپکنا سکھاتاہوں۔
جب میں اپنے ظہور کے مقام سے شیریں نغمے الاپتا ہوں تو نیم شب کو ہی صبح کے سے انداز عطاکردیتاہوں۔
میں نے یوسفِ گم گشتہ کے چہرے سے نقاب الٹ دی ہے تاکہ بے مایہ لوگوں میں بھی اس کی خریداری کا شوق پیدا کرسکوں۔
عشق ِ صبر آزما نے خودفراموش انسانوں کی خاک کو چشمِ تر بخشی اور میں نے انہیں نظارے کی لذت عطاکی۔
۵۶
خودی لوگوں سے میل ملاپ میں گرفتار ہے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ابھی نارسا ہے۔اے دردآشنا!تم آشنائی سے سے بے نیاز ہوجاؤ۔
سلطانوں کی چوکھٹ پر کب تک پیشانی رگڑو گے اپنے خدا سے کبریائی اور بے نیازی کی ادا سیکھو۔
محبت اپنی جوانمری سے ایک روز اس مقام پر پہنچ جاتی ہے کہ دنیا کا یہ دل لبھانے والا انداز اس کی نظروں میں گرجاتا ہے۔
میں نے اس کے حرم کے آگے اس طرح اپنا نغمۂ درد گایا کہ محرمِ راز لوگ بھی جدائی کی لذّت سے آشنا ہوگئے۔
میں اپنے آپ پر نازاں ہوں کہ خریدار کو رچشم ہے اور متاعِ عشق رواج نہ پاسکی اس لئے ابھی تک نئی کی نئی ہے۔
آؤ کہ لالہ کو پاؤں تلے مسل کر اس پر رقص کریں اور کھلے عام مے نوشی کریں کہ عاشق کوپارسائی کا خون معاف کردیا گیا ہے۔
مسلمانوں سے دور بھاگ جا اور مسلمانی انداز اختیار کر کیونکہ مسلمان اب کافروں کے چلن کو اپنائے ہوئے ہیں۔
۵۷
عجم کے جوانو!میں تمہارے خیابان میں اپنی اور تمہاری جان کو چراغِ لالہ کی طرح جلارہا ہوں۔
میری فکر نے زندگی کے ضمیر کے اندر غوطہ لگایا ہے تب جاکر تمہاری پنہاں سوچ کو پاگیا ہوں۔
میں نے سورج اور چاند کو دیکھا پھر میری نگاہ پروین سے بھی اوپر چلی گئی تب جاکر میں نے تمہارے کافرستان میں حرم کی بنیاد رکھی۔
تمہارے بیابان میں ایک شعلہ آوارہ پھرتا تھا میں نے اس کو اس خیال سے لپیٹ لیا کہ اس کی کاٹ اور بھی تیز ہوجائے۔
لعل کا وہ ٹکڑا جو میں نے تمہارے بدخشاں سے حاصل کیا تھا اسے میری فکرِ رنگین نے مشرق کے تہی دستوں کی نظر کردیا ہے۔
ایک ایسا مرد آنے والا ہے جو غلاموں کی زنجیر توڑڈالے گا میں نے تمہارے زندان کے روزن سے اسے دیکھا ہے۔
اے پیکرِ آب وگِل میرے گرد جمع ہوجاؤمیں نے اپنے سینے میں تمہارے بزرگوں کی آگ کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔
۵۸
میری سانس کو باد ِبہاراں کی سی صفت عطاہوئی ہے اور گھاس کے تنکوں کو میرے اشکوں نے چنبیلی کی سی مہک عطاکردی ہے۔
صحرا نشین لالہ کی نمود میرے خون سے ہوئی ہے اس طور پر کہ جیسے ایک بڑا پیالہ یاقوت جسے سرخ رنگ کی شراب سے بھردیا گیا ہو۔
میں اس قدر بلند پرواز ہوں کہ آسمان ِ بریں میں ہزار نوری فرشتے میری گھات میں بیٹھے ہیں۔
آدمِ خاکی کا فروغ نئے نئے کاموں سے ہے جبکہ چاندستارے وہی کام کرتے ہیں جو ہمیشہ سے کرتے رہے ہیں۔
اس زمانے میں دستِ کلیمؑ آستینوں میں چھپا ہوا ہے اس لئے میں نے اپنا چراغ جلایا ہے۔
خدا کے آگے سجدہ کرو اور خسروانِ وقت سے دوستی نہ رکھو کہ برے وقت میں ہمارے اسلاف یہی کرتے رہے ہیں۔
۵۹
اس شخص کو چھوڑو جس نے حقیقت کو نہیں دیکھا اور محض اس کے بارے میں سنا ہے اور اس کوبڑی طوالت سے بیان کرتا ہے جبکہ وہ دید کی لذت سے بے بہرہ ہے۔
میںنے شاعر اور فقہاء اور فلسفیوں کی بڑی باتیں سنی ہیں اگرچہ یہ بلند قامت درخت کی طرح ہیں مگر ایسا جس پر پھل نہیں ہوتا۔
وہ تجلی جس پر دیر کے پیروں کو اس قدر ناز ہے وہ ہزار راتیں تو پیدا کرسکتی ہے مگر ایک سحر نہیں دے سکتی۔
مجھے خدا سے گلہ ہے مگر میں اسے زبان سے نہیں کہہ سکتا کہ میری متاع تو اس نے مجھ سے لے لی مگر میرا یوسف ؑمیری آغوش میں نہ دیا۔
مجھے وہ ساقی نہ حرم میں ملا نہ بتخانے میں کہ جو عشق کا شعلہ عطا کرے محض چنگاری نہ دے۔
۶۰
شاید اس صحرا سے کوئی کارواں گزررہا ہے کہ بڑی مدت کے بعد میںساربان کے نغمے سن رہا ہوں۔
اگر ایک یوسفؑ فرعون کی قید سے باہر آجائے تو اس پر کارواں کی متاع لٹائی جاسکتی ہے۔
۶۱
ناداں، تمہیں فرنگ سے غمگساری کی امید ہے؟ شاہین کا دل اُس پرندے کے لیے نہیں دُکھتا جو اُس کے پنجے میں ہو؟
اگر تمہیں اپنے باپ کی میراث میں لعل مل جائے تو تمہیں پشیمان ہونا چاہئے نہ کہ فخر کرو کہ پتھر سے خود لعل نکالنے کی خوشی اور فخر ہی الگ ہے۔
دنیا کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں مجھ سے کیا پوچھتے ہو میں تو فقط اتنا جانتا ہوں کہ میں ہوں یہ نہیں جانتا کہ یہ طلسم کیا چیز ہے؟
اس میخانے میں ہر مینا محتسب کے خوف سے لرز رہی ہے مگر اک عاشق کی مینا ہی ہے جو پتھر پر لرزہ طاری کردیتی ہے۔
تم خودی کو پردہ سمجھتے ہو؟بے شک سمجھ لو مگر میں تمہیں کہتا ہوں کہ اس پردے کو چاک مت کرنا کہ نگاہ کی حد بے حد مختصر ہے۔
وہ شاخِ کہن کہ جس کے زیرِ سایہ تم نے پر پرزے نکالے اگر اب اس کے پتے گر چکے ہیں تو اس کے نیچے سے اپنا آشیانہ اٹھالینا شرمندگی کی بات ہے۔
ایسی غزل کہو کہ فطرت خود اس سے مطابقت اختیار کرلے ایسی غزل کا بھلا کیا فائدہ کہ جوخود فطرت سے ہم آہنگ ہو۔
۶۲
مشرق سے صرف ِ نظر کرو اور افرنگ کے افسوں سے مسحور نہ ہو کیونکہ یہ تمام پرانے اور نئے علوم جَو کے دانے برابر بھی نہیں ہیں۔
اسکندر اور دارا اور کیقباد گھاس کی ایک پتی کی مانند،جو ہوا کی راہ میں آپڑی ہو،گزرگئے۔
زندگی انجمن بھی سجاتی ہے اور خود اپنی نگہدار بھی ہے۔پس اے قافلہ میں چلنے والے سب کے ساتھ چلتے ہوئے بھی ان سے بے نیاز رہو۔
تم چمکتے سورج سے بھی زیادہ روشن ہو تو اس طرح زندگی گزارو کہ ہر زرہ تک تم اپنا پرتو پہنچاسکے۔
وہ نگینہ جو تم نے شیطان کے آگے ہار دیا ہے اسے تو جبریل ِ امینؑ کے پاس بھی گروی نہ رکھا جاسکتا تھا۔
ہمارے جام کے کم پڑجانے سے میکدہ رسوا ہوگیا ہے تو حکیمانہ انداز میں صراحی اٹھاؤ،پیو اور آگے چلے جاؤ۔
۶۳
یہ رنگ وبو کا جہاں ہمارے سامنے ہے اور تم کہتے ہو کہ یہ راز ہے۔ذرا خود اس کے تار کو چھیڑ کر دیکھو کہ تم مضراب ہو اور یہ ساز ہے۔
جلووں سے بدمست نگاہ اس جلوہ کی پاکیزگی کی وجہ سے پھسل پھسل جاتی ہے۔تم کہتے ہو کہ یہ حجاب ہے،یہ نقاب ہے ،یہ مجاز ہے۔
اٹھو اور اس نیلگوں پردے کی طناب کھینچ لو کہ پاکباز نگاہ کے لئے یہ شعلہ کی طرح عریاں ہے۔
میرا یہ خاکدان فردوس سے بڑھ کر خوبصورت ہے کیونکہ ذوق وشوق کا مقام بھی یہی ہے اور سوزوسازکاحرم بھی یہی ہے۔
کسی لمحہ میں خود کو گم کردیتا ہوں کسی لمحے اس کو گم کردیتا ہوں اور کسی وقت میں دونوں کو پالیتا ہوں،نہ جانے اس میں کیا راز ہے۔
۶۴
اے لالۂ صحرائی مجھے تم سے ایک بات کہنی ہے۔اُس کے فراق کے داغ نے میرے دل کو ایک چمن بناڈالا ہے۔
یہ جگر پھونک ڈالنے والی آہ صحرا کی تنہائی میں ہی ہوتی تو بہتر تھا مگر کیا کروں کہ میرا واسطہ محفل سے پڑگیا ہے۔
۶۵
جب میں نے ایک آشنا کی نگاہ سے لالہ کے اندر دیکھا تو اسے سراپا ذوق وشوق اور سراپا آہ وفریاد پایا۔
اس عالم کے ہر بلند وپست سے زندگی کی گرمی پیدا ہوتی ہے۔کیا دامنِ کوہ،کیا ٹیلا،کیا صحرا میں نے ہر جگہ اسی ہرن کو وحشت سے بھاگ دوڑ کرتے دیکھا ہے۔
نہ زندگی ہمارے ساتھ ہے اور نہ ہی زندگی ہم سے ہے بلکہ زندگی ہر جگہ ہے اور نہیں معلوم کہاں سے پیدا ہوئی ہے۔
۶۶
یہ بھی ایک عظیم جہان ہے اور وہ بھی عظیم جہان ہے،یہ بھی بیکراں ہے اور وہ بھی بیکراں ہے۔
یہ دونوں ہی خیال ہیں اور دونوں ہی گمان ہیں۔دونوں میرے شعلہ سے نکلے دھوئیں کی موج ہیں۔
یہ بھی ایک دولمحے کے لئے ہے وہ بھی ایک دولمحے کو ہے۔میں ہی جاوداں ہوں میں ہی جاوداں ہوں!
یہ بھی کھوٹا ہے وہ بھی کھوٹا ہے میری پاک جان ہی سکہّ رائج الوقت ہے۔
یہ بھی ایک گزر جانے والا مقام ہے وہ بھی ایک مقام ہے اور یہ بھی کچھ وقت کے لئے ہے اور وہ بھی عارضی ہے۔
یہاں میرا کیا کام ہے،وہاں میرا کیا کام ہے؟آہ وفغاں،آہ وفغاں!
یہ بھی میرے لئے رہزن ہے وہ بھی رہزن ہے۔یہاں بھی نقصان ہے وہاں بھی نقصان ہے!
۶۷
بہار کی آمد ہے اور میری نگاہ آتشِ لالہ میں لوٹ رہی ہے۔اس پارہ پارہ دل میں سے ہزاروں فریادیں نکل رہی ہیں۔
شرابِ سرخ کا ایک گھونٹ تم اس چمن کی خاک پرگرا دو کہ خزاں کے خوف سے نرگس ولالہ کم کم اُگتے ہیں۔
تم جہانِ رنگ وبو کو تو جانتے ہو مگر دل کیا ہے کیا یہ بھی جانتے ہو؟یہ تو وہ چاند ہے جو حلقۂ آفاق سے اپنا ہالہ بناتا ہے۔
۶۸
وہ مصوّر جس نے روزوشب کا یہ پیکر تخلیق کیا ہے۔ ان کے نقش سے وہ خود اپنا نظارہ کرتا ہے۔
اے صوفی!تم اپنے تاریک حجرہ سے باہر قدم رکھو اور دیکھو کہ فطرت نے اپنی ساری متاع تجارت کے واسطے لاکر رکھ دی ہے۔
صبح اور ستارہ اور شفق اور چاند اور سورج ان سب کا بے پردہ جلوہ محض ایک نگاہ سے خریداجاسکتا ہے۔
۶۹
اس پرانی دنیا کو ایک بار پھر سے جوان ہونا چاہیئے،گھاس کے پتے کو صفت میں کوہِ گراں ہونا چاہیے۔
یہ مٹھی بھر خاک جس نے تمام حقیقت کو دیکھ لینے والی نگاہ پیدا کرلی ہے اس کے سینے میں جگر کے ٹکڑوں سے آلودہ نالہ بھی ہونا چاہیے۔
یہ کہنہ چاند سورج کسی منزل پر نہیں پہنچاتے اس جہاں کی تعمیر کے لئے نئے ستارے ہونے چاہئیں۔
جو بھی تصویر میری نظروں کے سامنے آتی ہے خوبصورت ہے مگر مجھے اس سے زیادہ خوبصورت چاہیے۔
خدا نے کہا کہ یہ چیزیں ایسی ہیں اور ان کے علاوہ کچھ نہ بولو۔آدم نے کہا کہ ہاں یہ ایسی ہیں مگر انہیں ویسا ہونا چاہئے۔
۷۰
اس باغ کا لالہ داغِ تمنا نہیں رکھتا تھا اور اس کی شوخ وبے باک نرگس نظارے والی آنکھ نہیں رکھتی تھی۔
خاکی انسان کے اندر نفس کی موج تو تھی مگر ظاہر نہ ہوتی تھی۔زندگی ایک کارواں تو تھی مگر مال ومتاع اور جنسِ خریداری نہیں رکھتی تھی۔
زمانہ مے کشوں کے شوروغل سے ناآشنا تھا۔اس کی صراحی میں شراب تو تھی مگر اسے پینے والے نہ تھے۔
کوہِ سینا کی برق شوق کی بے زبانی کا شکوہ کرتی تھی۔وادیٔ ایمن میں کوئی تقاضا کرنے والا نہ تھا۔
عشق نے ہماری فریادسے ہنگامے تخلیق کئے۔ورنہ خاموشوں کی اس محفل میں کوئی شوروغوغا نہ تھا۔
۷۱
اس پرانے دَیرمیں یہ کس نے ہنگامہ برپا کیا ہے کہ یہاں کے سارے زنّاری نَے کی طرح سراپا نالہ وفریاد ہیں۔
فقیر کے حجرے ہوں یا بادشاہوں کے کاشانے سب جگہ ایسے غم ہیں کہ جوانی میں کمر کو دہرا کردیتے ہیں۔
درماں کہاں ہے؟کہ درماں سے درد اور بھی بڑھ جاتا ہے عقل ودانش تمام حیلے اور فریب اور شعبدے بازیاں ہیں۔
سیلاب کے زور کے بغیر آدم کی کشتی آگے نہ بڑھے گی کیونکہ ہر دل ناخدا سے ہزاروں جھگڑے رکھتا ہے۔
مجھ سے سفر ِ زندگی کی حکایت نہ پوچھومیںنے درد کو سازگار بنالیا ہے اور غزل گنگناتے ہوئے آگے بڑھ گیا ہوں۔
میں نے اپنی سانس کو نسیمِ سحر سے ملالیا ہے لہٰذا میں پھولوں پر پاؤں رکھے بغیر چمن کی سیر کرلیتا ہوں۔
اس کوچہ ومحل سے جداہوکر لیکن ان ہی میں بکھر کرمیں نے چاند کی آنکھ سے اس دنیا کا نظاّرہ کرلیا ہے۔
۷۲
اے لالہ!ایک کہستان،باغ اور سبزہ زاروں کے چراغ!میری طرف نظر کر کہ میں تجھے زندگی کا سراغ دیتا ہوں۔
ہم شوخ رنگ اور بوئے پریشاں نہیں ہیں ہم وہ ہیں جو دل ودماغ میں اتر جاتا ہے۔
مستی شراب سے ہے پیالے سے نہیں ہرچند کہ بادہ پیمانے کے بغیر نہیں پیا جاسکتا۔
داغوں کو اپنے سینے میں جلائے رکھو کیونکہ وجود کی شب کے اندر اس چراغ کے بغیر اپنا آپ بھی پہچانا نہیں جاسکتا۔
اے شعلہ کی لہر!اپنے سینے کو صبا کے لئے کھول دے شبنم کی خواہش نہ کر کہ وہ تجھے اس جلن سے آزاد کردے گی۔
۷۳
میں آزاد بندہ ہوں اور عشق میرا امام ہے۔عشق میرا امام ہے اور عقل میری غلام ہے۔
اس محفل کا ہنگامہ میرے جام کی گردش سے ہے۔یہی میرا شام کا ستارہ ہے اور یہی میرا ماہِ تمام ہے۔
زندگی ذوقِ تمنا کے بغیر عدم کے اندر آسودہ تھی میرے حلقۂ دام میں آکر اس نے مستانہ وار نالہ وفریاد بلند کردی۔
اے عالمِ رنگ وبو!ہماری یہ صحبت آخر کب تک ہے؟تیری موت ہمیشگی کی ہے اور میرا عشق ہمیشگی کا ہے۔
میرے ضمیر کے باہر بھی وہ اور اندر بھی وہ۔یہ اس کا مقام ہے اب تُو میرے مقام کا اندازہ کر!
۷۴
کم سخن غنچہ کہ اپنے دل کے اندر راز چھپائے بیٹھا تھا،گل وریحان کے ہجوم میں اسے کسی دمساز کے نہ ہونے کا غم تھا۔
اس نے چمن کے پرندوں اور بادِ بہار سے دوستی کرنے کی خواہش کی اور یوں ان کی صحبت پر تکیہ کیا کہ جو پرواز پر جانے والے تھے۔
۷۵
میں خود اپنے آپ کو سجدہ کرتا ہوں کیونکہ دَیروحرم تو رہے نہیں۔یہ عرب میں نہیں اور وہ عجم میں نہیںرہا!
لالہ اور گُل کی پتیوں میں رنگ وآب نہیں رہا اور پرندوں کے نالوں میں وہ زیروبم بھی نہیں رہا۔
اس کارگاہِ دنیا میں مجھے اب کوئی نیا نقش نظر نہیں آتا۔شاید عدم کے اندر ہی اب کوئی نیا نقش نہیں رہا۔
آسمان کے سیاّرے کسی تبدیلی کے ذوق سے بے بہرہ نظر آتے ہیں۔شاید روزوشب کو اپنی لگی بندھی راہ سے ہٹانے کی توفیق نہیں رہی۔
منزل سے پہلے ہی سکون سے آرام کرنے لگے ہیں اور طلب سے پاؤں روک لئے ہیں۔شاید خاکی انسانوں کے سینوں میں دم ہی باقی نہیں رہا۔
یا تو ممکنات کی بیاض میں ایک بھی سادہ صفحہ نہیں بچا یا قضا کے قلم کو اب مزید لکھنے کی تاب نہیں رہی۔