ہیلینا جب اٹھارہ برس کی تھی، وہ ایک بورژوائی (Bourgeois) خانوادے سے وابستہ تھی۔ وہ لوگ ایک ایسے فلیٹ میں رہتے تھے جو خالص بورژوائی انداز کا تھا۔ اس کی زندگی اسکول کے کام سے عبارت تھی۔ اصل زندگی سے بالکل کٹی ہوئی زندگی گزارتی تھی۔ ۱۹۴۴ء کا سال اس کی زندگی کا انقلابی سال تھا۔ جب وہ پراگ پہنچی تو سب کچھ اسے ایک اعجاز لگا۔
ہیلینا نہ تو ان دنوں کو بھول سکے گی اور نہ ہی پے ول کو جو وہاں اسے ملا اور اس پر چھا گیا (پے ول نے اس کو دکھی کیا تب بھی وہ پے ول کی یاد کو اپنے حافظے سے مٹا نہ سکے گی۔ یہ الگ بات کہ پے ول سے وہ محبت نہیں کرتی ہے۔ پراگ میں اس کی زندگی یونی ورسٹی، یونی ورسٹی کی ڈورمیٹری (Dormitory) اور رقص و نغمہ کے ایک گروپ کے محوروں پر گردش کرتی تھی۔ اس گروپ میں وہ اور پے ول گاتے، بجاتے اور گاہے گاہے پرفارم کرتے تھے۔ یاسیت اور اداسی سے وہ دور بھاگتی تھی (جولیس) فیوکک اس کا آئیڈیل تھا۔ فیوکک جس کا قول تھا، ’’یاسیت میرے نام کو آلودہ نہ کرسکے گی۔‘‘ ان دنوں جب فیوکک کو شدید اذیت کا نشانہ بنایا جارہا تھا اور سولی کی پرچھائیاں اس سے دور نہ تھی، فیوکک نے یاسیت کو اپنے اوپر طاری ہونے نہیں دیا۔ ہیلینا نے فیوکک کے مندرجہ بالا قول کو اپنا موٹو (motto) بنایا ہوا تھا۔
پھر وہ دن آیا جب ہیلینا، پے ول کے قریب ہوگئی۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ اس دن آزادی کی سال گرہ منائی جارہی تھی، چوک میں اولڈ ٹاؤن اسکوائر پر۔ ہمارا موسیقی کا گروپ بھی وہاں موجود تھا۔ ہزارہا لوگوں کے ہجوم میں ایک چھوٹی سی جماعت تھی۔ اسٹیج پر اکابر سیاست داں بیٹھے تھے۔ چیک بھی اور غیر ملکی بھی۔ تقاریر ہورہی تھیں۔ تالیاں بج رہی تھیں۔ پھر تغلیاتی (Togliatti) بہ نفسِ نفیس اٹھا اور مائک پر چند کلمات اطالوی زبان میں ادا کیے۔ ہجوم میں جیسے جان سی پڑ گئی۔ نعروں، عوامی گیتوں اور تالیوں کا ایک طوفان بپا ہوگیا۔ پے ول میرے پاس کھڑا تھا۔ اس کے ہونٹ متحرک تھے۔ وہ کوئی گیت گارہا تھا اور ایسے اشارے دے رہا تھا کہ ہم اس کے ساتھ ہم آواز ہوں۔ وہ ایک اطالوی انقلابی گیت گارہا تھا جو ہماری ریپرٹری (Repertory) میں تحریر تھا اور ان دنوں مقبول بھی تھا:
ایوانتی پوپیولو، اے لا رسکوسا بینڈیرا روسا، بینڈیرا روسا
(Avanti populo, ala riscossa, bandiera rossa, bandiera rossa)
پے ول کو دماغوں تک پہنچنے سے تشفی نہیں ملتی تھی، وہ جذبات کو برانگیختہ کرنے میں یقین رکھتا تھا۔ کیا یہ شان دار نہیں تھا، ہیلینا نے سوچا کہ اطالوی مزدور تحریک کے لیڈروں کو، پراگ کے ایک چوک میں، اطالوی انقلابی گیت سے، سلام کیا جائے۔ تغلیاتی کی خدمت میں اس سے اچھا کچھ اور پیش نہیں کیا جاسکتا۔ اس شور میں ہیلینا نے پے ول کی آواز سے آواز ملائی، دوسرے بھی ہم آواز ہوئے۔ مزید اور لوگ، اور لوگ، لیکن ہم سب پچاس تھے اور باقی قریباً پچاس ہزار۔ گیت کا پہلا قطعہ شور و غوغا میں دبا رہا، لیکن پھر لوگوں نے محسوس کیا کہ ہو کیا رہا ہے اور ایک کرامت سی ظہور میں آئی اور ہجوم میں سے دیگر لوگ ہم آواز ہوگئے، ہوتے چلے گئے اور پھر ہیلینا نے دوری کے باوجود یہ دیکھا کہ اطالوی لیڈر اشک آلود آنکھوں کے ساتھ کھڑا ہوا اور ہاتھ ہلا کر گیت کا جواب دینے لگا۔
ہیلینا پے ول کے لیے جذباتی ہوئی۔ اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ پے ول کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔ پے ول نے بھی ہیلینا کا ہاتھ پکڑلیا۔ جلسہ ختم ہوا۔ مجمع چھٹنے لگا، لیکن ان کے ہاتھ ایک دوسرے سے چمٹے رہے۔ دونوں پراگ کی بہار کا لطف اٹھاتے گھنٹوں اِدھر اُدھر گھومتے پھرے۔ پھر یہ بھی ہوا کہ دونوں شادی کے بندھن میں ُجڑ گئے۔ اس کے سات برس بعد جب زینا (Zdena) پانچ سال کی تھی، ہیلینا کبھی نہ بھول پائے گی، پے ول نے کہا کہ اس نے محبت کی شادی نہیں کی تھی۔ ہم نے پارٹی ڈسپلن کے مطابق شادی کی۔
پے ول نے ہیلینا کو ایک لاکٹ تحفے میں دیا تھا۔ اس لاکٹ پر کریملین (Kremlin) کی تصویر بنی تھی (ہیلینا اس کو کبھی اپنے سے جدا نہیں کرتی تھی)۔ اس تحفے کے دینے کے بعد پے ول نے ہیلینا سے شادی کرلی۔ اس شادی میں ان کا گروپ شریک ہوا تھا۔ ہیلینا نے شادی کے موقعے پر پے ول سے کہا تھا کہ اگر ہم نے ایک دوسرے سے بے وفائی کی تو ایسا ہوگا جیسے شادی میں شریک ہر فرد سے بے وفائی کررہے ہیں۔ اولڈ ٹاؤن اسکوائر کے مظاہرین میں سے ایک ایک مرد و زن سے غداری کررہے ہیں بہ شمول تغلیاتی۔ ہیلینا یہ خیال کرکے ہنسے بغیر نہیں رہ سکی، ان دونوں نے کس کس سے غداری کی۔
ہیلینا لباس کے انتخاب میں خوش ذوق ہے۔ اس کا بدن قدرے فربہی کی جانب مائل ہے۔ چہرے پر جھریاں بھی پڑ گئی ہیں، لیکن کچھ نہ کچھ کشش باقی ہے جو انیس برس کا نوجوان جندرا (Jindra) اس پر فدا ہے۔ ہیلینا اس کو اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں میں لگائے رکھتی ہے۔ وہ ڈرائیور بھی اچھا ہے۔
ریڈیو اسٹیشن میں ہیلینا کی سخت گیری مشہور ہے۔ لوگ اسے حکم چلاؤ، پاگل اور پارٹی کا بلڈ ہاؤنڈ پکارتے ہیں۔ وہ ہے بھی پارٹی کی وفادارا ور اپنا سارا فرصت کا وقت بھی پارٹی کو دے دیتی ہے۔ پے ول نے دوسری عورتوں سے تعلق پیدا کیے۔ ہیلینا نے اس کو نظر انداز کردیا، لیکن زینا پے ول کی دیوانی ہے۔
ہیلینا کی اپنی زندگی معمول (routine) بن گئی ہے۔ کچھ بھی نیا نہیں۔ فیچرس، انٹرویوز، جو کچھ ہوا اُس پر پروگرام کرنا، ماڈل بارن (Model Barns)، ماڈل دودھ والیاں (Model Milkmaids) یہ سب اور گھر میں حالات ناقابلِ بیان حد تک مایوسی سے عبارت۔ البتہ پارٹی سے اسے کوئی صدمہ پہنچا اور نہ ہی وہ پارٹی سے کبھی برگشتہ ہوئی۔ ۱۹۵۶ء میں جب اسٹالن کے جرائم کا چرچا تھااور لوگ کہنے لگے تھے کہ ہمارے پرچے جھوٹ کے پلندے نکلے۔ قومیائے ہوئے اسٹور بے کار، کلچر زوال پذیر، کھیتوں کو ہرگز اجتماعی نہ بنانا چاہیے تھا، سوویت یونین میں آزادی نہیں۔ سب سے بری تو یہ بات تھی کہ کمیونسٹ بھی نہیں تھی ماسوا اپنی واہ وا سننے کی عادت کے۔ وہ سگریٹ نوشی یا شراب نوشی کا بھی عادی نہیں تھا۔
پے ول موقع پرست بھی تھا۔ جب پارٹی نے بگڑتے ہوئے معاملات پر سخت رویہ اختیار کیا تو پے ول نے بھی اپنا مؤقف بدل دیا۔ اس کو اپنی لیکچرر کی ملازمت بچانی تھی۔ وہ یونی ورسٹی میں مارکسزم پڑھاتا تھا۔ ان دنوں مارکسزم کی قدر گھٹ رہی تھی۔ اس سبب سے وہ اپنا تعارف فلسفے کے لیکچرر کے طور پر کراتا۔
ہیلینا پے ول کے برخلاف سخت رویہ رکھنے والی اصول پرست عورت تھی۔ ایک معاملہ ایسا پیش آیا کہ ایک شادی شدہ مرد اور ریڈیو سے وابستہ ایک لڑکی کے درمیان تعلق پیدا ہوگیا۔ اس مرد کی بیوی نے پارٹی سے رجوع کیا۔ یہ مسئلہ بعد میں رفع دفع ہوگیا۔ اس مرد اور لڑکی کے وعدے پر کہ وہ ایک دوسرے سے نہیں ملیں گے۔ دونوں نے وعدہ خلافی کی۔ اس مرتبہ ہیلینا نے سخت مؤقف اختیار کیا، لیکن کثرتِ رائے سے دونوں کو ایک اور موقع دیا گیا۔ مرد کو پارٹی سے نکالا نہیں گیا۔ لڑکی کو ریڈیو سے الگ کردیا گیا۔ اس واقعے کے نتیجے میں لوگوں نے ہیلینا کو درندہ اور شیطان مشہور کردیا۔ ان لوگوں نے ہیلینا کو غلط سمجھا۔ انھوں نے یہ مشہور کیا کہ ہیلینا اپنی تلخ ازدواجی زندگی کی وجہ سے اتنی سخت ہوگئی ہے۔ وہ سب سے نفرت کرنے لگی ہے۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ دوسروں سے، دوسروں کی ازدواجی زندگی سے محبت کے جذبات کے تحت سخت رویے کی حامل ہوگئی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ شادی شدہ جوڑوں اور خاندانوں میں بے راہ روی کو راہ نہ دی جائے۔
اس کا رویہ منفی سوچوں پر استوارنہیں تھا، بلکہ مثبت تھا۔ وہ شخصیت میں بھی استحکام کی خواہش مند تھی۔ وہ ایک رہنا چاہتی تھی۔ حتیٰ کہ نجی زندگی (private life) اور خارجی زندگی (public life) کی تفریق کو بورژوائی فکر کا شاخسانہ خیال کرتی تھی۔ محبت کے بنا دو آدمیوں، مرد و زن کا ملاپ اسے جنسی حیوانیت نظر آتا تھا اور اس کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔ پے ول کا محبت سے انکار اور محض پارٹی ڈسپلن کے تحت شادی کرنے کا اعتراف (خواہ بحثا بحثی کے نتیجے میں) ہیلینا کے لیے ناقابلِ برداشت ثابت ہوا۔ اس کے باوجود وہ رشتہ جو استوار تھا، اس کو درمیان سے قطع کرنا بھی نہیں چاہتی تھی، لیکن بہ قول اس کے ’’تم نے اس روز میری سانسیں کھینچ لیں لڈوک ڈیئر، ڈیئر لڈوک جب ہم ملے۔‘‘
پہلی مرتبہ جب ریڈیو کی جانب سے لڈوک کا انٹرویو لینے ہیلینا اس کے آفس پہنچی تو بیٹھتے ہی اس نے پیشہ ورانہ رویہ اختیار کیا اور لڈوک کو بتایا کہ اسے معلومات کی مد میں کیا درکار ہوگا، لیکن جیسے ہی لڈوک نے بولنا شروع کیا تو اس کی حالت میں اچانک تغیر آگیا۔ اس کی زبان گنگ ہوگئی اور اس کو ہوش نہیں رہا کہ اسے کیا کہنا ہے۔
لڈوک نے اس کی حالت کو بھانپ لیا اور خود اس کے بارے میں عام سے سوالات کرنے لگا، جیسے شادی ہوئی یا نہیں ہوئی؟ کتنے بچے ہیں؟ چھٹیاں کیسے گزارتی ہو؟ کتنی خوب صورت لوگ رہی ہو۔ لوگ اپنے بارے میں بولتے ہیں، ہیلینا کے لیے یہ بالکل نیا تجربہ تھا۔ بہرحال گھر پہنچ کر وہ انٹرویو کے کاغذ لے کر بیٹھی، لیکن اس کا دل نہ لگا۔ پھر اس نے لڈوک سے وقت مانگا جیسے تیار شدہ مسودہ اسے پڑھوانا چاہتی ہو۔ پھر وہ ایک کیفے میں ملے۔ ہیلینا اپنے تیار کیے ہوئے چار صفحات پر مشتمل انٹرویو سے بالکل مطمئن نہیں تھی، لیکن لڈوک نے اسے پڑھ کر سراہا۔ اس کے رویے سے یہ صاف ظاہر ہورہا تھا کہ لڈوک، ہیلینا کو ایک رپورٹر کی حیثیت سے دیکھنے کے بجائے ایک عورت کی صورت میں دیکھ رہا تھا۔ ہیلینا کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ لڈوک کے رویے سے خوش ہو یا ناخوش، لیکن اس کی خوش اخلاقی نے اس کو سنبھالے رکھا۔ جب اس نے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ کانوں میں کام کرچکا ہے تو ہیلینا اس سے مزید متأثر ہوئی۔ لڈوک کے بارے میں یہ معلوم کرکے کہ اس کا تعلق موراوا سے ہے اور اس نے سمبالوم اورکسٹرا (Cimbalom Orchestra) میں پرفارم کیا ہے، ہیلینا نے اپنی جواں عمری کو پرچھائیوں سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا۔ اس کا دل اور اس کی روح اس پر (لڈوک پر) نچھاور ہوگئی۔
جب لڈوک نے اس کو جنگل میں ساتھ گھومنے کی دعوت دی تو اس نے یہ کہہ کر معذرت کی کہ وہ شادی شدہ تھی، لیکن اس جواب سے لڈوک کے چہرے پر پھیلنے والی اداسی سے وہ متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی اور پھر پروگرام کو عملی شکل دے دی گئی۔ بارہ برس کی لڑکی کی ماں ایک چھوٹی عمر کی جوان لڑکی بنی لڈوک کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھومتی پھری۔ ایک بار لڈوک نے اسے ہلکا سا بوسہ دیا۔ وہ اس سے کچھ دیر کے لیے الگ ہوئی، لیکن دوبارہ ہاتھ پکڑلیا۔ دونوں نے ایک سرائے میں کھانا کھایا۔ جب ہیلینا نے بتایا کہ وہ تین دن موراوا میں گزارے گی، کیوںکہ اسے ’’رائڈ اوف دی کنگس‘‘ کی رپورٹنگ کرنی ہے تو لڈوک نے کہا کہ وہ علاقہ اس کا ہوم ٹاؤن ہے اور بتایا کہ وہ بس اسٹیشن پر ملے گا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...