جارو سلاف کی آنکھوں کے سامنے ایک سڑک ہے جو کھیتوں میں سے گھومتی ہوئی گزر رہی ہے۔ کاشت کاروں کی بیل گاڑیوں کے گزرنے سے مٹی اور گرد اُڑ رہی ہے۔ ان بیل گاڑیوں سے سڑک کے دونوں جانب گہری پٹریاں سی بنی ہوئی ہیں۔ وہ اتنی سبز ہورہی ہیں کہ وہ ان کو چھوئے بغیر چل نہیں پا رہا تھا۔ چھونا بے حد پُرلطف تھا۔ دور و نزدیک کوئی اجتماعی کھیت نہ تھا۔ اس کے چاروں اُور چھوٹے چھوٹے کھیت تھے۔ اس نے سوچا کہ یہ کھیت کیسے ہیں؟ کیا وہ اس علاقے میں کسی اور عہد یا عمر میں ہو گزرا تھا؟ وہ چلتا چلا گیا۔ ایک کنارے پر اس نے جنگلی گلاب کی جھاڑی دیکھی۔ اس میں چھوٹے چھوٹے گلاب کھلے تھے۔ اس پر ایک کیفیت طاری ہوگئی۔ وہ جھاڑی کے نیچے بیٹھ گیا اور پھر لیٹ گیا۔ اس نے سبز پوش زمین کا لمس محسوس کیا۔ پھر گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دی۔ کچھ دیر بعد دھول مٹی کے غبار کے اندر سے نوجوان فوجیوں کا ایک گروہ نمودار ہوا۔ انھوں نے یونی فارم قاعدے سے نہیں پہنا ہوا تھا۔ وہ شاید فوج سے بھاگے ہوئے، بھگوڑے تھے۔ وہ کھڑا ہوگیا اور ان کو قریب آتے ہوئے دیکھنے لگا۔ گھڑ سوار دستہ رک گیا۔ جس گھڑ سوار نے تلوار نکالی ہوئی تھی، اس نے سوالیہ نظر ڈالی۔ ’’ہاں— میں ہی ہوں۔‘‘
’’بادشاہ۔‘‘ اس سوار نے تعجب سے کہا، ’’میں نے تمھیں پہچان لیا ہے۔‘‘
اس نے خوشی میں سر جھکایا پہچانے جانے پر۔ وہ صدیوں سے اس طرح گھوڑے دوڑا رہے ہیں، پھر بھی اسے پہچان رہے ہیں۔
’’آپ کس حال میں ہو، بادشاہ؟‘‘ اس آدمی نے دریافت کیا۔
’’میں خوف زدہ ہوں، دوستو۔‘‘
’’کیا وہ آپ کے تعاقب میں ہیں؟‘‘
’’زیادہ برا ہے۔ کچھ شرارت سر اٹھائے ہوئے ہے۔ جن لوگوں نے میرے اطراف گھیرا ڈال رکھا ہے، انھیں میں جانتا نہیں ہوں۔ میں اپنے گھر میں داخل ہوتا ہوں تو کمرہ مختلف لگتا ہے۔ بیوی بھی مختلف ہے۔ ہر چیز بدلی ہوئی ہے۔ میں سوچتا ہوں مجھ سے غلطی ہوگئی ہے اور میں جلدی سے باہر آجاتا ہوں، لیکن نہیں، وہ حقیقت میں میرا اپنا مکان ہے، لیکن اس کے اندر کوئی اجنبی نہیں ہے۔ اس کے آثار ہر طرف موجود ہیں۔ کوئی شیطانیت چل رہی ہے میرے دوستو۔ میں از حد خوف زدہ ہوں۔‘‘
وہ ایک گھوڑے پر سوار کروایا جاتا ہے اور اس کے چہرے کو ایک سرخ نقاب سے ڈھانک دیا جاتا ہے، اس حد تک کہ اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا، ’’تمھارا گھوڑا تمھیں لے چلے گا۔‘‘ تلوار والے آدمی نے کہا۔
ایک گھنٹے کے بعد اس آدمی کی آواز سنائی دیتی ہے، ’’ہم پہنچ گئے میرے بادشاہ صاحب۔‘‘
’’پہنچ گئے، لیکن کہاں؟‘‘ وہ پوچھتا ہے۔
’’کیا آپ کو کسی زوردار دریا کی آوازیں نہیں سنائی دے رہی ہیں؟ ہم ڈینیوب (Danube) کے کنارے آگئے ہیں۔ یہاں آپ محفوظ ہیں بادشاہ سلامت۔‘‘
’’ہاں میں محسوس کررہا ہوں کہ میں محفوظ ہوں۔ اب مجھے یہ نقاب اتار دینا ہے۔‘‘
’’لیکن ابھی نہیں بادشاہ حضور۔ ابھی نہیں۔ آپ کو ابھی اپنی آنکھوں کی ضرورت نہیں، کیوںکہ آپ کی آنکھیں آپ کو دھوکا دیں گی۔‘‘
’’لیکن اس کے باوجود میں ڈینیوب کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ یہ میرا دریا ہے اور میں اسے دیکھوں گا۔‘‘
’’آپ کو اپنی آنکھوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ میرے بادشاہ حضور۔ میں آپ کو سب کچھ بتاؤں گا۔ یہی مناسب ہے۔ ہمارے گرد میدان ہی میدان ہیں، چراگاہیں، کہیں کہیں ایک دو جھاڑیوں کے جھنڈ، کنواں اور اس کی چرخی۔ ہم پانی کے کنارے کھڑے ہیں، یہاں گھاس ریت میں گم ہورہی ہے۔ یہاں دریا کا ریتیلا ساحل ہے، لیکن اب میں آپ سے درخواست کروں گا گھوڑے سے اتر آئیے، بادشاہ حضور۔‘‘
وہ گھوڑے سے اتر گیا اور سب کے ساتھ ریت پر بیٹھ گیا۔ ان کی آوازوں سے پتا چلا کہ وہ آگ جلا رہے تھے، کیوںکہ سورج دور افق میں ڈوبنے والا ہے اور ٹھنڈک بڑھنے والی تھی۔
’’میں لاسٹا (Vlasta)٭۱ سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘ وہ اچانک بولا۔
’’اور آپ اس سے ضرور ملو گے۔‘‘
’’وہ کہاں ہے؟‘‘
’’یہاں سے دوری پر نہیں۔ آپ کا گھوڑا آپ کو اس تک لے جائے گا۔‘‘
یہ سن کر وہ جھٹ کھڑا ہوگیا اور ان سے جانے کی اجازت چاہی۔ وہ فوراً لاسٹا سے ملنا چاہتا تھا۔ اس آدمی نے اس کو شانوں سے پکڑ کر بٹھا دیا اور بولا کہ پہلے آرام کرنا اور پیٹ بھر کر کھانا چاہیے۔ فی الحال وہ اس کے بارے میں باتیں کریں گے۔
’’مہربانی کرکے جلد بتاؤ وہ ہے کہاں؟‘‘
’’یہاں سے ایک گھنٹے کی گھوڑے پر مسافت پر۔ لکڑی کی کوٹیج جس کی چھت لکڑی کی تختیوں سے بنی ہوئی ہے۔ اس کے گرد لکڑی کی باڑھ ہے۔‘‘
’’ہاں، ہاں۔‘‘ اس نے گردن ہلائی۔ اس کا دل خوشی سے بھر گیا۔ سب لکڑی کا۔ ویسا ہی جیسا ہونا چاہیے۔ ایک بھی کیل نہ َجڑی ہو۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ آواز نے کہا، ’’باڑھ درختوں کی ڈالیوں سے بنائی ہوئی اس میں ڈالیاں سی نکلی ہوئی بھی نظر آتی ہیں۔‘‘
’’لکڑی کی تمام اشیا بے جان چیزیں، چیزوں سے زیادہ زندہ ہستیاں ہوتی ہیں بلیوں اور کتوں کی مانند۔ مجھے لکڑی کی دنیا سے عشق ہے۔ صرف وہی میرا گھر ہے۔‘‘
’’باڑھ کے باہر پھول اُگتے ہیں، سورج مکھی، میری گولڈ، ڈہلیا۔ وہاں ایک بوڑھا سیب کا پیڑ بھی ہے۔ عین اس لمحے میں لاسٹا اپنی کوٹیج کی دہلیز پر کھڑی ہے۔‘‘
’’وہ کس لباس میں ہے؟‘‘
’’لینن کے اسکرٹ میں جس پر ایک داغ پڑ گیا ہے، کیوںکہ وہ اسی وقت گئو شالے سے آئی ہے۔‘‘ ایک لکڑی کی بالٹی اٹھائے ہوئے ہے۔ ننگے پیر ہے، لیکن وہ حسین ہے اور جوان۔‘‘
’’وہ غریب کی بیٹی ہے۔‘‘ وہ بولا۔
’’بہرحال وہ ملکہ ہے اور چوںکہ وہ ملکہ ہے اُس کو چھپا رہنا ہے۔ آپ کو بھی اس کے پاس جانا نہیں چاہیے، کہیں وہ ظاہر نہ ہوجائے۔ آپ اُس تک صرف نقاب میں جاؤ گے۔ آپ کا گھوڑا آپ کو رستے پر لے جائے گا۔‘‘
اس شخص کی باتیں اتنی اچھی تھیں کہ وہ ایک نشاط انگیز کیفیت کی لپیٹ میں آگیا۔ وہ سبزے پر لیٹا اس کی آواز سنتا رہا اور جب وہ آواز تھم گئی تو پانی کی سرگوشیاں اور جلتی لکڑیوں کی چٹخن۔ سب کچھ اتنا حسین تھا کہ اس نے آنکھیں کھولنے کی ہمت نہیں کی، لیکن اس کے اختیار میں کچھ نہ رہا تھا۔ وہ جان گیا تھا کہ وقت آگیا ہے اور اسے آنکھیں کھولنی پڑیں گی۔
اس ضلعے میں عوامی کلچر اس کی مساعی سے فروغ پا رہا تھا۔ جمعہ تھا۔ اتوار کو ’’بادشاہوں کی سواری‘‘ (Ride of the Kings) کا تہوار ہونے جارہا تھا۔ اس سلسلے میں ایک میٹنگ ہورہی تھی جس میں اس کو شریک ہونا تھا۔ گھر میں وہ اپنے متوفی والد کے کمرے میں تھا۔ اس کمرے کے ہر چیز اسے بور کررہی تھی۔ ماسوا لکڑی کے ایک ہارمونیم کے۔ بیوی لاسٹا الگ چڑچڑے پن پر تلی ہوئی تھی۔ اس نے لوٹتے ہوئے لانڈری کا کام نہیں نمٹایا تھا اور اب بیٹے لادیمیر (Vladimir) کو اسکول کا ہوم ورک کرانے میں بہانے کررہا تھا۔ لاسٹا کو اس کا میٹنگ میں جانا بھی کھٹک رہا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ میٹنگ میں مسز مینزلنک ضرور ہوگی اور مسز مینزلنک اچھی شہرت کی مالک نہیں تھی۔ وہ اپنی بیوی کے بارے میں اس خیال کا آدمی تھا کہ اس کو قدرے موٹی ہونا چاہیے تھا۔ موٹی عورتیں خوش مزاج ہوتی ہیں۔ اس کی بیوی لاسٹا بے حد دبلی پتلی تھی۔
میٹنگ میں اور مسائل کے علاوہ یہ مسئلہ بھی زیرِ غور آیا کہ ڈسٹرکٹ کونسل اس مرتبہ کے بجٹ میں کٹوتی کرنے جارہی تھی۔ عوامی تقریبات کے لیے رکھی ہوئی سبسیڈیز کو ختم کیا جارہا تھا۔ دوسرا معاملہ ’رائڈ اوف دی کنگس‘ کے دوران ان مقامات پر ٹریفک بند کرنے سے متعلق تھا اور پولیس سے طے کیا جارہا تھا۔ پولیس نے انکار کیا تھا۔ ’’رائڈ اوف دی کنگس‘‘ کا انعقاد ممکن نظر نہیں آرہا تھا۔ گھوڑوں کا کاروں کے درمیان چلنا اور نہ بدکنا— سوچا بھی نہ جاسکتا تھا۔ آٹھ بجے کے قریب میٹنگ سے فارغ ہوا۔ باہر چوک کے قریب اچانک لڈوک دکھائی دیا۔ ’’وہ وہاں کیا کررہا تھا؟‘‘ وہ مخالف جانب تھا۔ اس سے آنکھیں چار ہوئیں، لیکن اس نے چہرہ موڑ لیا اور ایسا بن گیا جیسے اس کو دیکھا نہ ہو، آٹھ سال، اسکول میں ایک بنچ پر ساتھ بیٹھنے والے پرانے دوست ایک دوسرے کو نہ پہچانیں؟
یہ کس طرح ممکن ہے۔ اس کو سمجھ میں نہ آیا۔ اس کو یہ بھی سمجھ میں نہ آسکا تھا کہ پراگ میں تھیٹریکل ڈراموں میں ان کے عوامی کلچر کی نقل دکھا کر مضحکہ اڑایا گیا۔
پچھلے کچھ ہفتے ایسے گزرے جن میں اس کے بیٹے لادیمیر نے اسے خاصا دق کیا۔ اس نے عوامی کلچر کے احیا کے سلسلے میں جو کچھ کیا، اس کی قدردانی کے طور پر ڈسٹرکٹ کونسل نے اس کے بیٹے کو موجودہ سال کے لیے ’’رائڈ اوف دی کنگس‘‘ کی رسم میں بادشاہ کے طور پر منتخب کیا۔ یہ اس کے لیے اور اس کے بیٹے دونوں کے لیے ایک بڑا اعزاز ہے۔ لادیمیر اس اعزاز کی ناقدری کا مرتکب ہو رہا ہے اور بہانے بہانے سے اس میں حصہ نہ لینے کے رستے نکال رہا ہے۔ اس اتوار کو موٹر سائیکلوں کی ریس کے لیے برونو (Brno)٭ جانے والا ہے۔ وہ گھوڑوں سے ڈرتا ہے۔ اس نے اعتراف کرلیا ہے کہ درحقیقت وہ اس رسم میں بادشاہ کا کردار ادا کرنے کو قطعی تیار نہیں ہے۔ اس کے لیے بے حد صدمے کی بات یہ ہے کہ اس کا بیٹا کسی بھی ایسے کام میں شامل نہیں ہونا چاہتا جس کام کا تعلق اس کے باپ سے ہو۔ اس نے گانے اور رقص کے ایک بچہ گروپ میں شرکت نہیں کی جس کو باپ نے تشکیل دیا تھا۔
یہ درست ہے کہ وہ ابھی صرف پندرہ برس کا ہے اور اس سے محبت بھی کرتا ہے۔ وہ حساس بہت ہے۔ چند روز قبل دونوں نے کھلے دل سے بات کی ہے۔ شاید یہ سمجھ گیا ہو۔
اسے اچھی طرح یاد ہے۔ وہ گھومنے والی کرسی پر بیٹھا تھا اور لادیمیر اس کے سامنے صوفے پر۔ ایک ہاتھ کی کہنی ہارمونیم کے ڈھکن پر تھی۔ اس کے متوفی والد کا ہارمونیم جو اسے بہت عزیز تھا۔ وہ بچپن سے ہارمونیم پر گیت سنتا تھا۔ عوامی گیت جو اس کے والد ہر روز گاتے اور گیت ایسے لگتے کہ جیسے دور کہیں بہار گنگنا رہی ہو۔ اگر لادیمیر اس انداز سے سوچے، اگر وہ ان باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرے۔
سترھویں اور اٹھارھویں صدیوں کے دوران چیک قوم اپنا وجود برقرار نہ رکھ پائی تھی۔ انیس ویں صدی میں وہ سچ پوچھیں تو دوبارہ پیدا ہوئی۔ یورپ کی قدیم اقوام کے درمیان ایک بچے کی مانند۔ یہ حقیقت ہے کہ اس کا ایک عظیم ماضی ہے، لیکن وہ ماضی سے کٹی ہوئی رہی، کیوںکہ درمیان میں دو صدیوں پر مشتمل ایک خلیج حائل رہی۔ جب چیک زبان دیہات کے علاقہ جات میں چلی گئی اور اَن پڑھ لوگوں کی بلاشرکتِ غیر، ملکیت بنی رہی، لیکن ان کے اندر بھی اس نے اپنا کلچر تخلیق کرنا جاری رکھا۔ ایک منکسر المزاج کلچر جو یورپ کی آنکھوں سے پوری طرح چھپا ہوا تھا گیتوں، پریوں کی کہانیوں، قدیم رسوم و رواج، ضرب الامثال اور کہاوتوں پر مشتمل کلچر۔ دو صدیوں کی خلیج پر ایک پیدل چلنے والوں کے لیے بنے ہوئے پل کی صورت میں۔ اسی سبب سے انیس ویں صدی کے اوّلین شاعروں نے قدیم کہانیوں اور عوامی گیتوں کو جمع کرنے اور ان کو اپنی شاعری میں داخل کرنے کی کوشش کی اور اس پیدل چلنے والوں کے لیے بنے ہوئے تنگ پل سے اپنے کو جوڑ لیا۔
اس نے لادیمیر کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اس کا باپ عوامی کلچر، ادب اور موسیقی کے لیے جو کچھ خدمات انجام دے رہا ہے، وہ محض کوئی نشہ آور عادت یا لت نہیں ہے۔ اس نے جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ہمیں یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ ہم چیک لوگ کوئی شناخت ہی نہیں رکھتے اور نہ قوم ہیں، صرف اور صرف چیک بولی والے جرمن ہیں۔ ہمارے لیے یہ ثابت کرنا ضروری ہوگیا ہے کہ ہم پہلے بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ ہمیں اپنے ورثے کی جانب ہجرت کرنی ہے۔ وہ ایک غیر پیشہ ور جاز گروپ میں ’بیس‘ (Bass) بجاتا تھا کہ ایک دن موراوین (Moravian) ایسوسی ایشن کے اراکین ملنے آئے اور سمجھایا کہ وطن پرستی کے تقاضے کے بموجب ہمیں ان کے نئے سمبالوم انسمبل (Cimbalom Ensemble) کی معاونت کرنی چاہیے۔ ان حالات میں کون انکار کرسکتا تھا۔ چناںچہ وہ ان میں شامل ہو کہ وائلن (violin) بجانے لگا۔ ہم نے قدیم گیتوں کو موت کی نیند سے جگایا۔ انیس ویں صدی کے وطن پرستوں کے ان گیتوں کو کتابوں میں مرتب کردیا تھا۔ تہذیبی ترقی نے عوامی موسیقی کے عقب میں دھکیل دیا تھا۔ ضرورت پڑگئی تھی کہ عوامی گیتوں (لوک سنگیت) کو کتابوں سے نکال کر زندہ کیا جائے۔ پہلے شہروں میں پھر دیہاتوں میں۔ ہمارے علاقے میں قدیم عوامی (لوک) رسومات کی بھی تجدید کی گئی۔ اس کی ایک مثال ’دی رائڈ اوف دی کنگس‘ ہے۔ بہ ظاہر ہم ایک ہاری ہوئی جنگ لڑرہے ہیں، کیوںکہ تہذیب قدیم رسوم اور لوک ورثے کو جس تیزی سے مٹا رہی ہے اس کے مقابل میں قدیم رسومات اور لوک ورثوں کی تجدید کے اقدامات بے حد سست رو ہیں۔ جنگ نے قدرے تیزی پیدا کی۔ قبضے کے آخری سال ہم نے ’دی رائڈ اوف دی کنگس‘ کو زندہ کیا۔ ہمارے شہر میں ایک فوجی کیمپ قائم تھا۔ ’’وہیر میچ افسر‘‘ گلیوں میں دندناتے پھرتے تھے۔ ایسے میں ’’دی رائڈ اوف دی کنگس‘ نے چیک لوگوں کی آنکھوں میں قوم پرستی کی چمک پیدا کی۔ ان دنوں اس کی عمر پندرہ سال کے لگ بھگ تھی۔ اسے اس رسم میں بطور ’بادشاہ‘ شامل کیا گیا تھا۔ اس کو یہ اعزاز اس کے والد کی وجہ سے دیا گیا۔ گاؤں میں اسکول ماسٹر تھا۔ وہ ایک بڑے وطن پرست کے طور پر مشہور تھا۔ اعزاز دراصل اس کے والد اور اس کو مشترکہ طور پر دیا گیا تھا۔ وہ لادیمیر کو اپنا مؤقف سمجھانے میں بالآخر کامیاب ہوگیا۔ لادیمیر نے ’بادشاہ‘ کا کردار ادا کرنے کے لیے ہامی بھرلی۔
اس حصے میں ملن کنڈیرا نے یورپی مصنفوں کے قیاسات کی نفی کرتے ہوئے اپنے مؤقف کی وضاحت کی ہے۔ پراگ کے ماہرانِ موسیقی کا نظریہ ہے کہ یورپی لوک موسیقی ’باروخ‘ (Baroque) سے ُجڑی ہے۔ یہ نظریہ بوہیمیا کی حدود میں لاگو کیا جاسکتا ہوگا، لیکن جنوبی موراویا کے لوک گیتوں پر لاگو نہیں ہوسکتا۔ اس ضمن میں باقاعدہ اسکیل پیش کرکے موضوع کو خالص تکنیکی پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کو حذف کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ (ع۔ج)
امریکہ کی خانہ جنگی سول وار کے آخری سپاہی مینیسوٹن البرٹ ہنری وولسن
::: امریکہ کی خانہ جنگی {سول وار} کے آخری سپاہی : مینیسوٹن البرٹ ہنری وولسن۔ { کچھ تاریخی یادیں} :::...