لڈوک قریباً پندرہ سال بعد پراگ سے اس علاقے موراوا (Morava) میں پہنچتا ہے جہاں اس کا بچپن، لڑکپن اور نوجوانی گزری تھی۔ جس مقصد سے وہ پراگ سے وہاں آیا تھا وہ پراگ میں رہ کر بھی حاصل ہوسکتا تھا، لیکن اس علاقے نے اسے اپنی جانب بلالیا تھا۔
اس نے ہوٹل میں ایک کمرہ بک کرا رکھا تھا، لیکن اس میں اس کا رہنا مشکل تھا۔ وہ کمرہ، کمرے کی ہر چیز حتیٰ کہ بستر بھی انتہائی خستہ اور ناقابلِ استعمال تھے۔ لڈوک نے اس علاقے کے، ان لوگوں کے چہرے یاد کیے جو اس کے شناسا تھے اور بالآخر سب کو مسترد کردیا۔ البتہ ایک چہرہ ایسے آدمی کا آیا جو اس علاقے میں نووارد رہا تھا اور لڈوک نے اس کو ملازمت دلائی تھی۔ وہی اس لائق لگا جس سے لڈوک مدد کی توقع رکھ سکتا تھا۔ وہ چہرہ تھا ڈاکٹر کوسٹکا (Dr. Kotska) کا۔ حسبِ توقع ڈاکٹر کوسٹکا نے اس کو ہر طرح سے اخلاق اور مروت سے نوازا۔ اتفاقی طور پر وہ پوری رات کے لیے باہر جارہا تھا۔ اس نے اپنے فلیٹ اور بلڈنگ سے واقف کرایا اور چابیاں بھی اس کے حوالے کردیں۔ اس کو شیو کروانا تھا۔ ڈاکٹر کوسٹکا، لڈوک کو ایک چھوٹی سی باربر شوپ میں لے گیا۔ اس باربر شوپ میں تین ریوولونگ کرسیاں تھیں۔ دو میں گاہک تھے۔ ایک خالی تھی۔ ڈاکٹر کوسٹکا نے لڈوک کو بٹھا دیا اور ایک لڑکی (جو گاہک کا شیو بنا رہی تھی) سے کچھ کہا۔ لڑکی نے دکان کے عقب میں جاکر آواز دی اور فوراً ہی ایک اور لڑکی سفید لباس میں نمودار ہوگئی۔ لڈوک سے ڈاکٹر کوسٹکا نے ہاتھ ملایا اور رخصت ہوگیا۔ سفید پوش لڑکی نے خالی کرسی کی جانب اشارہ کیا اور لڈوک اس پر اپنا سر پیچھے ٹکا کر بیٹھ گیا۔
شیو کے دوران اچانک لڈوک کے ذہن میں یہ خیال ابھرا، اس ہستی کو دیکھے جس نے اس کے سر کو اپنے ہاتھوں میں قابو کیا ہوا ہے، جب کہ اس کے ہاتھوں میں تازہ تیز کیا ہوا اُسترا بھی ہے۔ لڈوک نے آئینے میں اس لڑکی کو دیکھا اور محسوس کیا کہ وہ ’’اسے جانتا ہے‘‘۔ پھر شناسائی کا احساس آپ ہی آپ کم سے کم ہوتا چلا گیا، لیکن ایک بار پھر لڈوک اور اس عورت کی آنکھیں ملیں۔ ایک بار پھر لڈوک کو لگا کہ وہ اس عورت کو جانتا ہے۔ یہ بھی اس کو لگا کہ چہرہ کچھ بدل گیا تھا۔ لڈوک نے پندرہ برسوں کے درمیانی وقفے پر سوچا۔ اس عورت کی آنکھیں ویسی ہی تھیں جیسی پہلے تھیں، جن کو وہ جانتا ہے۔
لڈوک نے جب پیسے دیے، عورت نے تیزی سے لیے اور لڈوک کو یہ موقع نہیں دیا کہ اس عورت کو اس کے نام سے مخاطب کرے۔ جب وہ باربر شوپ سے باہر نکلا اور ہوٹل کی جانب روانہ ہوا تو اسے اپنے ایک دوست جارو سلاف کی جھلک دکھائی دی۔ لڈوک نے اس سے آنکھیں نہیں ملائیں اور ڈاکٹر کوسٹکا کو فون کیا۔ وہ ہسپتال میں موجود تھا۔ ’’وہ لڑکی جس سے تم نے میری شیو بنوائی، کیا اس کا نام لوسی سبیٹکا (Lucie Sebetka)ہے؟‘‘
’’وہ ان دنوں کسی اور نام سے جانی جاتی ہے۔ تمھاری اس سے جان پہچان کہاں ہوئی؟‘‘ ڈاکٹر کوسٹکا نے پوچھا۔
’’زمانے گزرچکے۔‘‘ لڈوک نے جواب دیا۔
امریکہ کی خانہ جنگی سول وار کے آخری سپاہی مینیسوٹن البرٹ ہنری وولسن
::: امریکہ کی خانہ جنگی {سول وار} کے آخری سپاہی : مینیسوٹن البرٹ ہنری وولسن۔ { کچھ تاریخی یادیں} :::...