نور گرم جرسی کے ٹراؤزر شرٹ کے ساتھ باہر آئی آنکھوں کو مسلتی ہوئی مایا کو ڈھونڈ رہی تھی الصبح کا وقت تھا اور جیا بھی ابھی سو رہی تھی
لاؤنچ کا دروازہ کھلا دیکھ کی طرف آئی تو مایا تیز تیز قدم اٹھاتی باہر نکل رہی ابھی گارڈز بھی سو رہے اسی کا فائدہ اٹھاتی بھگانے کے انداز میں باہر چلی گی نور گہرا مسکرائی شاید وہ سمجھ رہی تھی اُسکی ماں ہائیڈ اینڈ سیک کھیل رہی ہے وہ بھی اُسکی رہنمائی میں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی گیٹ سے باہر چلی گئی لیکن وہاں سیکیورٹی کو اس بات کی خبر تک نہیں ہوئی کیوں کے بازل آفیشل طور پر ایک بہت بڑے ہوٹل میں ٹھرا ہوا تھا جبکہ وہاں چند لوگوں کے سواء کوئی اُسکی فیملی کے بارے میں نہیں جانتا تھا
"سر جس جگہ پر رات سے بازل شاہ ماجود تھا وہاں سے ایک لڑکی اور ایک دو ڈھائی سال کی بچی نکل کر پیدل ہی جارہی ہیں”
لڑکی کا تو ٹھیک تھا اتنا پاور فل انسان تھا اُسکی ایک ادھ رکھیل بھی ہوسکتی تھی لیکن بچی والے معاملے میں اُسکی عقل اٹکی
"کیا دونوں ساتھ ہیں”
دوسری طرف سے سوال کیاگیا
"نہیں دو منٹ پہلے لڑکی نکلی ہے اُسکے بعد بچی ”
وہ سڑک پر تیز تیز چلتی مایا کو دیکھ رہا تھا جبکہ اُسکے پیچھے نور جو مسکراتے چہرے کے ساتھ اپنے منہ پر اُنگلی رکھے چھوٹے چھوٹے قدم لیتی جارہی تھی
"اُٹھا لو دونوں کو ”
اگلی طرف سے حکم ملا تو اپنی اُنگلی کے اشارے سے پیچھے کھڑے لڑکے کو نور کی طرف جانے کا کہا
بڑی سفاکی سے وہ نور کو گود میں اٹھا کر اُسکی گردن کی رگ دبا چکا تھا جس کی وجہ اُس کی چیخ منہ سے نکلنے سے پہلے ہی دب گئی اور سر پیچے کی طرف جھول گیا
مایا جو سورج سے پہلے اُس گلی سے نکلنا چاہتی تھی تقریباً بھاگ رہی تھی کیوں کے اُسنے اکثر دیکھا تھا کے بازل صبح جلدی اٹھ جاتا ہے اور اتنا تو پتہ تھا کہ اُٹھتے ساتھ وہ ڈھونڈے گا
جب پیچھے سے کوئی بھاری چیز اُسے کے سر پر لگی تیز تیز اٹھتے قدم یکدم رُک گئے آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا ہُوا لیکن دماغ ابھی کام کر رہا تھا اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا پن اندازہ سے بلکل اپنے عقب میں مارا تو پیچھے کھڑا انسان اُس سے پہلے ایک زور دار چیخ کے ساتھ زمین پر گرا اور اپنا پیٹ پکڑ کر رہ گیا دوسری طرف اب مایا کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا
تھوڑی دیر میں ہی سڑک پر لڑکھ گی
°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
"تالش مجھے آپ سے بات کرنی ہے”
بیڈ پر بیٹھی اُنگلیاں چٹخار رہی تھی تالش تھوڑود میں رکھ چکی تھی
"دیب میری جان بتاؤ مجھے ٹنشن ہورہی ہے”
زیادہ ٹنشن اُسکی فضول حرکتوں سے ہورہی تھی جو تجسّس بڑا رہیں تھیں
"آپ ہمارے بچے کی قسم کھائیں میری بات مانے گے ”
اُسکا ہاتھ اپنے پیٹ کر رکھتی ہوئی بولی اب آنکھیں نم ہوچکیں تھیں
"دیب چھوٹے بچوں کی قسم کھانا گناہ کبیرہ ہے میں کیسے اُس بچے کی قسم کھا لوں جو ابھی دُنیا میں ہی نہیں آیا”
تحمل سے سمجھاتے ہوئے ہاتھ پیٹ سے ہٹا کر اُسکے شانوں کے گرد رکھا
"آپ مجھے چھوڑ دیں”
جتنی تیزی سے کہا تھا اتنی تیزی سے اُٹھ کر بیڈ سے نیچے اُتر گئی
تالش کو اپنے کانوں سے لو نکلتی محسوس ہوئی پہلے تو یقین نہیں آیا لیکن اُسکا پاس سے اُٹھ جانا اُسکے فعل کی نشاندھی تھی
"پلیز تالش آپ مجھے چھوڑ دیں”
اب ہاتھ جوڑ چُکی تھی طلاق کا لفظ تو بول ہی نہیں ہو رہا تھا
تالش نے اپنی چند سیکنڈ میں سُرخ ہوتیں آنکھیں اُسکی طرف اٹھائیں تو دیب اتنے دور ہونے کی وجہ سے بھی دو قدم پیچھے ہٹ گئی
یاد تھا اُسے شادی کے چند روز بعد والا غُصہ اور اب وہی غُصہ یاد کرکے ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے
"عندلیب ابراہیم کمرے سے باہر چلی جاؤ”
اتنے غُصہ میں بھی وہ اُسکی حالت کی وجہ سے بیڈ پر بیٹھا تھا ورنہ بات تو مار کھانے والی ہی کی تھی لیکن اتنے غُصہ میں بھی اپنا نام اُسکے نام سے نہیں ہٹایا
دیب یوں کی توں وہیں کھڑی تھی اندر سے ڈر بھی رہی تھی لیکن صبح سے جو اتنی ہمت اکھٹی کی تھی اب سامنا بھی تو کرنا تھا
"تالش… وہ”
اِس سے پہلے وہ کُچھ بولتی تالش نے تکیہ اُٹھا کر زمین پر دے مارا اور سائڈ ٹیبل پر پڑا لیمپ بھی چند سیکنڈ میں زمین بوس ہوگیا
"دفع ہوجاؤ ۔۔۔۔۔ورنہ میں کچھ بُرا کردوں گا”
بیڈ سے اُٹھ کر اُسکی طرف آیا لیکن وہ سہمی ہوئی وہیں کھڑی رہی
"چھوڑ دیں ۔۔۔۔۔طا”
اِس سے پہلے وہ وہ کچھ اور کہتی تالش اُسکا بازو کو پکڑ کر باہر کی طرف کھینچا
"تماشا سمجھا ہوا ہے میری زندگی کو تم نے جب چاہا میری خوشیوں کی حصے دار بن گئی جب چاہا بیچ چوراہے پر اکیلا چھوڑ کر چلی گئی ۔۔۔۔۔۔خبر دار جو اپنا وجو لا کر میری اجازت کے بغیر کمرے میں آئی تو”
اتنا اونچی چلا رہا تھا کے مہر اپنے کمرے میں۔ سہم کر بیٹھی تھی اور دیب نظریں جھکائے اُسکے الفاظ کے سیسے کو اپنے اندر اُتار رہی تھی اُسکو باہر نکال کر دروازہ اتنی زور سے بند کیا کے باہر کھڑی دیب ڈر کر دو قدم پیچھے ہوئی کافی دیر سے کنٹرول کیے ہوۓ آنسو اب گالوں پر بہنے لگے تھے جبکہ اندر سے چیزوں کے ٹوٹنے کی آواز مسلسل آرہی تھی
°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
مغرب سے عیشاء اور اب تہجد کا وقت ہوچکا تھا لیکن تالش کمرے سے باہر نہیں آیا تھا کھانا کا کہنے بھی دامل گیا تھا لیکن اگلی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا تو دونوں نے زبردستی تھوڑا بہت دیب کو کھانا کھلایا تھا
مہر کے ہی کمرے اُسکے بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی لیکن نیند انکھوں سے کوسوں دور تھی کتنا انتظار تھا کے اُسے لینے آئے گا لیکن وہ نہیں آیا تھا
"پہلے تو بہت کہتے تھے مجھے اپنے بچے اور بیوی کو حصار میں لیے بغیر نیند نہیں آتی اور آج ایک دن میں ہی بھول گئے ہیں”
ساریں باتیں بھول کر خود ہی شکوہ کر رہی تھی صحیح بات تو یہ تھی کے اُسے خود اُسکے حصار میں سونے کی اتنی عادت ہو چکی تھی کے اب سب کچھ نہ مکمل لگ رہا تھا
"انہوں نے تو کھانا بھی نہیں کھایا”
آہستہ آہستہ تالش کا رویہ کے دُکھ کی جگہ اب فکر نے لے لی تھی
بہت احتیاط سے بیڈ سے اُٹھی ایک نظر صوفے پر لیٹے دامل کو دیکھا جو بلکل مست نیند میں تھا جبکہ مہر تو ساری کمبل میں دبکی ہوئی تھی
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی باہر کی طرف گئی سامنے تالش کا دروازہ ابھی بھی بند تھا لیکن لائٹ آن تھی
ڈاکٹر نے آجکل اُسے کمپلیٹ بیڈ ریسٹ کا بولا تھا جس کی پیروی اُسکے کے سواء گھر میں ماجود تینوں وجود کرتے تھے
کچن میں کھانا گرم کرکے ٹرے میں رکھ کر دھڑکتے دل کے ساتھ دروازہ نوک کیا جو اُمید کے برخلاف چند سیکنڈ میں کھول دیا گیا اُسکے ہاتھ میں ٹرے دیکھ کر پیچھے ہُوا تو نظریں اُسکے بھرے ہوئے وجود پر گئی تھوڑی دیر پہلے والے غُصہ کی جگہ شرمندگی نے لے لی
غُصہ عقل کا دشمن ہوتا ہے آج یہی ثابت ہوا تھا وہ کیسے بھول گیا تھا کے وہ اُسکے ہاتھ سے سات ماہ سے کھانا کھا رہی ہے
اب دونوں بیڈ پر آمنے سامنے بیٹھے تھے لیکن دونوں کا غُصہ اپنی جگہ قائم
تالش نے پہلا لقمہ بنا کر اُسکے آگے کیا جسے پورے حق نے دیب نے کھایا اِس طرح ہی ایک لقمہ اُسے اور خود کھا رہا تھا لیکن دونوں ایک دوسرے سے بات نہیں کر رہے تھے اور نہ ہی ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے
دیب نے ایک نظر پورے کمرے کو دیکھا یہاں چیزیں تو کم تھیں لیکن زمین اور کچھ نہیں ٹوٹا ہوا ماجود نہیں تھا شاید خود ہی صاف کر چُکا تھا
کھانا ختم ہونے کے بعد خود ہی ٹرے واپس رکھ کر آیا تو دیب ویسے ہی بیٹھی تھی
"آپ مجھے سے ناراض رہیں مگر آپکی شہزادی کو نیند نہیں آرہی آپ کے بغیر ۔۔۔نہ مجھے سونے دے رہی ہے”
چہرے پر انتہا کی معصومیت سجا کر ڈرتے ہوئے تالش سے بولی جو دوسری طرف آکر اُسکی مخلف سمت کروٹ لے کر لیٹ چکا تھا
وہ بغیر کُچھ بولے ہولے سے اُسکی طرف موڑا اور اُسکے اپنے حصار میں لاکر آنکھیں موند گیا
واضح تھا کہ غُصہ ہو با ہو قائم ہے
"تالش ”
اُسکے سینے میں منہ دیے نم آنکھوں سے بولی پتہ نہیں کیوں اُسے لگ رہا تھا کے ایک زبردستی کا حصار ہے جو اس کے کہنے پر قائم کیا گیا
"عندلیب چُپ کرکے سوجاؤ ”
سخت اور گھمبیر آواز اُسکے کانوں میں پڑی تو کان سوں سوں کرنے لگ گے
"آجائے گی مجھے اور میرے بچے کو نیند آسان مت کریں ”
اُسکی توقع کے عین مخلف دیب اُسکا نہ ہونے کے برابر حصار توڑ کر دوسری طرف کروٹ لے گئی اور ساتھ ساتھ سوں سوں بھی کر رہی تھی
"پتہ نہیں محبوب اتنے نخریلے کیوں ہوتے ہیں ماننے کے بجائے خود روٹھ جاتے ہیں ”
تالش نے اُسکی پست دیکھتے ہوئے سوچا پھر خود ہی اُسکو دوبارہ اپنی باہوں میں بھرا لیکن بولا کُچھ نہیں تھا
دیب کے بہتے آنسو خود با خود رک گے کیوں کے اب حصار جنونیت والا تھا تحفظ والا جس میں ناراضگی بلکل نہیں تھی
•°•°•°•°••°•°•°•^••°°
"سر وہ لڑکی بہت لڑاکا قسم کی ہے جب سے ہوش میں آئی ہی کسی کو اپنے پاس آنے نہیں دے رہی”
دوسری طرف سے آواز سن کر رگیں تنی
"نہ مرد مت بنو ایک لڑکی نہیں سنبھالی جارہی تم لوگوں سے”
چیختا ہُوا اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا
"سر وہ طبعیت یافتہ معلوم ہوتی ہے دو سیکنڈ میں رسی کھول دی ہی اُسنے”
دوسری طرف سے پھر ڈری ہوئی آواز آئی تو اس طرف ذہن میں جمکا ہُوا
"دِکھتی کیسی ہے”
تجسس سے پوچھا
"کندھوں تک بال ہیں رنگ سفید ہے ،آنکھیں سیاہ ہیں۔۔۔قمیض شلوار پہنی ہوئی ہے”
دور بیٹھی مایا کو دیکھتے ہوئے کہا
"اوہ ہو یا وہ نہیں ہے”
اپنا اندازہ غلط ثابت ہوا تو بازل سے تھوڑا سا شک دور ہوا اُسکی مقبری کروانے کی حوالے سے
"بچی کا بتاؤ”
سوچوں کو جھٹکتے ہوئے بولا
"بچی ابھی بیہوش ہے”
"ٹھیک ہے اِن دونوں کو شام کی فلائٹ سے کسی طرح پاکستان بھیج دو اور بازل پر نظر رکھنا اُسکا ٹھرپنا ظاہر کرے کے ہمارا ہاتھ اُسکی شہہ رگ پر پڑا ہے یہ ٹائم ضائع ہوا ”
کہتا ہوا فون بند کر چکا تھا
°•°•°•°•°•°•°•°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...